Surah ad-Dukhan
{اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ: بیشک زقوم کادرخت۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک جہنم کا کانٹے دار اور انتہائی کڑوازقوم نام کادرخت بڑے گناہگار یعنی کافر کی خوراک ہے اور جہنمی زقوم کی کیفیت یہ ہے کہ گلے ہوئے تانبے کی طرح کفار کے پیٹوں میں ایسے جوش مارتاہوگا جیسے کھولتا ہواپانی جوش مارتا ہے۔( ابو سعود، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۳-۴۶، ۵ / ۵۶۰، جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۳-۴۶، ص۴۱۲، ملتقطاً)
جہنمی درخت زقوم کا وصف:
زقوم نامی درخت کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُ جُ فِیْۤ اَصْلِ الْجَحِیْمِۙ(۶۴) طَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّیٰطِیْنِ(۶۵) فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا فَمَالِــٴُـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ‘‘(صافات:۶۴-۶۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے۔اس کا شگوفہ ایسے ہے جیسے شیطانوں کے سرہوں ۔پھر بیشک وہ اس میں سے کھائیں گے پھر اس سے پیٹ بھریں گے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ثُمَّ اِنَّكُمْ اَیُّهَا الضَّآلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَۙ(۵۱) لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍۙ(۵۲) فَمَالِــٴُـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَۚ(۵۳) فَشٰرِبُوْنَ عَلَیْهِ مِنَ الْحَمِیْمِۚ(۵۴) فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْهِیْمِؕ(۵۵) هٰذَا نُزُلُهُمْ یَوْمَ الدِّیْنِ‘‘(واقعہ:۵۱-۵۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر اے گمراہو، جھٹلانے والو! بیشک تم۔ضرور زقوم (نام)کے درخت میں سے کھاؤ گے۔پھر تم اس سے پیٹ بھرو گے۔پھر اس پر کھولتا ہوا پانی پیو گے۔تو ایسے پیو گے جیسے سخت پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔انصاف کے دن یہ ان کی مہمانی ہے۔
اورحضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا میں ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کی زندگانی خراب ہوجائے تو اس شخص کا کیا حال ہو گا جس کا کھانا ہی یہ ہو گا۔‘‘ (ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النّار، ۴ / ۲۶۳، الحدیث: ۲۵۹۴)
اللہ تعالیٰ ہمارا ایمان سلامت رکھے اور ہمیں جہنم کے اس بدترین عذاب سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
{خُذُوْهُ: اسے پکڑو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ(حساب و کتاب کے بعد) جہنم کے فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ اس گناہگار کو پکڑو ،پھر سختی کے ساتھ اسے بھڑکتی آگ کے درمیان کی طرف گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ، پھر اس کے سر کے اوپر کھولتا ہوا پانی ڈالو تاکہ اس کی شدت سے اسے عذاب پہنچے۔ (جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ص۴۱۲، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ص۱۱۱۴، ملتقطاً)
{ذُقْ: چکھ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اس جہنمی کے سر پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا تو اس وقت ا س کی تذلیل اور توہین کرتے ہوئے اس سے کہا جائے گا: اس ذلت اور اِہانت والے عذاب کوچکھ، تواپنے گمان میں اپنی قوم کے نزدیک بڑا عزت والا کرم والا ہے، تو یہ تیری تعظیم ہو رہی ہے ۔ مفسرین فرماتے ہیں :ابو جہل نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا:مکہ کے ان دو پہاڑوں کے درمیان مجھ سے زیادہ عزت والا اور کرم والا کوئی نہیں تو خدا کی قسم! آپ اور آپ کا رب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔اس کے لئے وعید کے طور پر یہ آیت نازل ہوئی اور اسے عذاب کے وقت یہ طعنہ دیا جائے گا۔
{اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ: بیشک ڈرنے والے۔} اس سے پہلی آیات میں کفار کے لئے وعید کا بیان ہوا اور یہاں سے پرہیز گاروں کے ساتھ کئے گئے وعدہ کا بیان ہورہا ہے۔ اس آیت اور اس کے بعد والی چھ آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک کفر اور گناہ کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ایسی جگہ میں ہوں گے جہاں انہیں آفات سے امن نصیب ہوگا اور انہیں اس امن والی جگہ کے چھوٹ جانے کا کوئی خوف نہ ہوگابلکہ یقین ہوگا کہ وہ وہیں رہیں گے،وہ اس جگہ ہوں گے جہاں باغ اور بہنے والے چشمے ہوں گے ،وہاں وہ باریک اور موٹے ریشم کے لباس پہنیں گے اور وہ اپنی مجلسوں میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ا س طرح ہوں گے کہ کسی کی پشت کسی کی طرف نہ ہو گی۔جنتی اسی طرح ہمیشہ دل پسند نعمتوں میں رہیں گے اور نہایت سیاہ اور روشن بڑی آنکھوں والی خوبصورت عورتوں سے ہم ان کی شادی کریں گے۔وہ جنت میں اس طرح بے خوف ہو کر اپنے جنتی خادموں کو میوے حاضر کرنے کا حکم دیں گے کہ انہیں کسی قسم کا اندیشہ ہی نہ ہوگا، نہ میوے کم ہونے کا ،نہ ختم ہوجانے کا ،نہ نقصان پہنچانے کا ،نہ اور کوئی اندیشہ ہو گا۔وہ دنیا میں واقع ہونے والی پہلی موت کے سوا جنت میں پھر موت کا ذائقہ نہ چکھیں گے اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے رب کے فضل سے انہیں آگ کے عذاب سے بچالیا اوراس سے نجات عطا فرمائی ، یہی بڑی کامیابی ہے۔( روح البیان، الدخان،تحت الآیۃ: ۵۱-۵۷، ۸ / ۴۲۸-۴۳۱، جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۵۱-۵۷، ص۴۱۲، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۵۱-۵۷، ص۱۱۱۴-۱۱۱۵، ملتقطاً)
{فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ: تو ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں آسان کردیا۔ } اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان عربی میں نازل فرما کر اس لئے آسان کردیاتا کہ آپ کی قوم کے لوگ اسے سمجھیں اور اس سے نصیحت حاصل کریں اور ا س کے احکامات پر عمل کریں۔اگر وہ ایسا نہ کریں تو آپ ان کی ہلاکت اور ان پر آنے والے عذاب کاانتظار کریں ، بے شک وہ بھی آپ کی وفات کا انتظار کر رہے ہیں ۔( روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۵۸-۵۹، ۸ / ۴۳۳، خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۵۸-۵۹، ۴ / ۱۱۷، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan