READ

Surah ad-Dhariyat

اَلذّٰرِيـٰت
60 Ayaat    مکیۃ


51:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

51:1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ(۱)
قسم ان کی جو بکھیر کر اڑانے والیاں (ف۲)

{وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا: خاک وغیرہ کو بکھیر کر اڑادینے والی ہواؤں  کی قسم۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں  خاک وغیرہ کو بکھیر کر اُڑادینے والی ہواؤں  کی قسم ارشاد فرمائی، دوسری آیت میں  بارش کے پانی کا بوجھ اٹھانے والی بدلیوں  اور گھٹاؤں  کی قسم ارشاد فرمائی،تیسری آیت میں پانی پر آسانی کے ساتھ چلنے والی کشتیوں  کی قسم ارشاد فرمائی اور چوتھی آیت میں  فرشتوں  کی ان جماعتوں  کی قسم ارشاد فرمائی جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بارش اور رزق وغیرہ تقسیم کرتی ہیں  اور جنہیں  اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام چلانے پر مامور کیا ہے اور عالَم کے نظام میں  تَصَرُّف کرنے کا اختیار عطا فرمایا ہے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہ تمام صفتیں  ہوائوں کی ہیں  کہ وہ خاک بھی اُڑاتی ہیں ، بادلوں  کو بھی اُٹھائے پھرتی ہیں  ،پھر اُنہیں  لے کرسہولت کے ساتھ چلتی ہیں  ،پھر اللہ تعالیٰ کے شہروں  میں  اُس کے حکم سے بارش کو تقسیم کرتی ہیں ۔

            یاد رہے کہ ان چیزوں  کی قسم ارشاد فرمانے کا اصلی مقصود اس چیز کی عظمت بیان کرنا ہے جس کے ساتھ قسم ارشاد فرمائی گئی کیونکہ یہ چیزیں  اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال پر دلا لت کرنے والی ہیں  اور ان چیزوں  کو بیان فرما کر اربابِ دانش کو موقع دیا جارہا ہے کہ وہ ان میں  غور کرکے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور آخرت میں  اعمال کی جزا ملنے پر اِستدلال کریں  کہ جو قادرِ برحق ایسے عجیب و غریب اُمور پر قدرت رکھتا ہے تو وہ اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں  کو فنا کرنے کے بعد دوبارہ ہستی عطا فرمانے پر بھی بے شک قادر ہے۔( خازن، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱-۴، ۴ / ۱۸۰، جمل، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱-۴، ۷ / ۲۷۶-۲۷۷، ملتقطاً)
51:2
فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًاۙ(۲)
پھر بوجھ اٹھانے والیاں (ف۳)

51:3
فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًاۙ(۳)
پھر نرم چلنے والیاں (ف۴)

51:4
فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًاۙ(۴)
پھر حکم سے بانٹنے والیاں (ف۵)

51:5
اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌۙ(۵)
بیشک جس بات کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے (ف۶) ضروری سچ ہے،

{اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ: بیشک جس کی تمہیں  وعید سنائی جا رہی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہواؤں  ،بدلیوں ،کشتیوں  اور فرشتوں  کی قسم یاد کرکے فرمایا کہ اے لوگو!بے شک مرنے کے بعد زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء ملنے کی جس بات کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے عذاب کی جو وعید سنائی جا رہی ہے وہ ضرور سچ ہے اور اس میں  جھوٹ کا امکان بھی نہیں  ہے اور بیشک قیامت کے دن انصاف ضرور ہونا ہے اور حساب کے بعد نیک اور برے اعمال کا بدلہ ضرور ملنا ہے۔( روح البیان، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۹ / ۱۴۹، جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۵-۶، ص۴۳۲، ملتقطاً)
51:6
وَّ اِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌؕ(۶)
اور بیشک انصاف ضرور ہونا (ف۷)

51:7
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْحُبُكِۙ(۷)
آرائش والے آسمان کی قسم (ف۸)

{وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْحُبُكِ: راستوں  والے آسمان کی قسم۔} اس آیت کے آخری لفظ ’’ذَاتِ الْحُبُکِ‘‘ کا ایک معنی ہے زینت والا اور دوسرا معنی ہے راستوں  والا۔ان دونوں  معنی کے اعتبار سے اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حسن و جمال والے آسمان کی قسم جسے ہم نے ستاروں  سے مُزَیَّن فرمایا ہے (یا) سیاروں  کی گردش کے راستوں  والے آسمان کی قسم! اے اہلِ مکہ ! تم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں  اور قرآنِ پاک کے بارے میں  مختلف باتوں  کے قائل ہو، کبھی رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جادو گر کہتے ہو، کبھی شاعر ،کبھی کاہِن اورکبھی مجنون کہتے ہو (مَعَاذَ اللہ تَعَالٰی) اسی طرح قرآنِ کریم کو کبھی جادو بتاتے ہو ،کبھی شعر ،کبھی کہانَت اور کبھی اگلوں  کی داستانیں  کہتے ہو۔( خازن ، الذّاریات ، تحت الآیۃ : ۷-۸ ، ۴ / ۱۸۰-۱۸۱ ، روح البیان ، الذّاریات ، تحت الآیۃ : ۷-۸ ، ۹ / ۱۴۹-۱۵۰، جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۴۳۲، ملتقطاً)
51:8
اِنَّكُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍۙ(۸)
تم مختلف بات میں ہو (ف۹)

51:9
یُّؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ اُفِكَؕ(۹)
اس قرآن سے وہی اوندھا کیا جاتا ہے جس کی قسمت ہی میں اوندھایا جانا ہو (ف۱۰)

{یُؤْفَكُ عَنْهُ: اس قرآن سے وہی اوندھا کیا جاتا ہے۔} تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے کے کفار جب کسی کو دیکھتے کہ وہ ایمان لانے کا ارادہ کررہا ہے توا س کے پاس جا کر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  کہتے کہ تم اُن کے پاس کیوں  جاتے ہو؟ وہ تو شاعر ہیں ، جادو گر ہیں  اورجھوٹے ہیں  (مَعَاذَاللہ) اور اسی طرح قرآنِ پاک کے بارے میں  کہتے کہ وہ شعر ہے،جادو ہے،اورجھوٹ ہے (مَعَاذَاللہ) تو اس آیت میں  اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ، (آپ ان کی حرکتوں  سے غمزدہ نہ ہوں ، آپ پر اور) اس قرآن پر ایمان لانے سے اسی کا منہ پھیر دیا جاتا ہے جس کی قسمت میں  ہی ہدایت سے منہ پھیر دیا جانا ہو،جو اَزل سے ہی محروم ہے وہی ا س سعادت سے محروم رہتا ہے اور وہی بہکانے والوں  کے بہکاوے میں  آتا ہے۔( خازن، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۱۸۱، جلالین مع صاوی، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۹، ۵ / ۲۰۱۷، ملتقطاً)
51:10
قُتِلَ الْخَرّٰصُوْنَۙ(۱۰)
مارے جایں دل سے تراشنے والے

{قُتِلَ الْخَرّٰصُوْنَ: جھوٹے اندازے لگانے والے مارے جائیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جھوٹے اندازے لگانے والے مارے جائیں  جو جہالت کے نشے میں  آخرت کوبھولے ہوئے ہیں  اور وہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حصولِ علم کے ارادے سے نہیں  بلکہ مذاق اڑانے اور جھٹلانے کے طور پر پوچھتے ہیں  کہ انصاف کا دن کب آئے گا؟کفار نے جس انداز میں  سوال کیا تھا اسی کے مطابق انہیں  جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ انصاف کا دن وہ ہو گا جس دن انہیں  آگ پر تپایا جائے گا اور انہیں  عذاب دیا جائے گا اوران سے فرمایا جائے گاکہ اب اپنا عذاب چکھو ،یہ وہی عذاب ہے جس کے آنے کی تم جلدی مچاتے تھے اور دنیا میں  مذاق اُڑاتے ہوئے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کرتے تھے کہ وہ عذاب جلدی لے آئو جس کا آپ ہمیں  وعدہ دیتے ہو۔(مدارک،الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۴، ص۱۱۶۷، جمل، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۴، ۷ / ۲۷۸-۲۷۹، ملتقطاً)

            ان آیات سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام اور مرتبہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جب کفار نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں  گستاخی کی تو اللہ تعالیٰ نے خود بڑے پُر جلال انداز میں  کفار کو ان کی گستاخی کا جواب دیا۔ سُبْحَانَ اللہ ۔
51:11
الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ غَمْرَةٍ سَاهُوْنَۙ(۱۱)
جو نشے میں بھولے ہوئے ہیں (ف۱۱)

51:12
یَسْــٴَـلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِؕ(۱۲)
پوچھتے ہیں (ف۱۲) انصاف کا دن کب ہوگا (ف۱۳)

51:13
یَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ یُفْتَنُوْنَ(۱۳)
اس دن ہوگا جس دن وہ آگ پر تپائے جائیں گے (ف۱۴)

51:14
ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْؕ-هٰذَا الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ(۱۴)
اور فرمایا جائے گا چکھو اپنا تپنا، یہ ہے وہ جس کی تمہیں جلدی تھی (ف۱۵)

51:15
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ(۱۵)
بیشک پرہیزگار باغوں اور چشموں میں ہیں (ف۱۶)

{اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ: بیشک پرہیزگار۔} کفار کا انجام بیان فرمانے کے بعد اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے پرہیزگار لوگوں  کا انجام بیان فرمایا ہے۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک پرہیز گار لوگ ان باغوں  میں  ہوں  گے جن میں  لطیف چشمے جاری ہیں  اور اللہ تعالیٰ انہیں  جو کچھ عطا فرمائے گا اسے راضی خوشی قبول کرتے ہوں  گے ۔ بیشک وہ جنت میں  داخل ہونے سے پہلے دنیا میں  نیک کام کرتے تھے اسی لئے انہیں  یہ عظیم کامیابی نصیب ہوئی۔( ابو سعود، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۵ / ۶۲۸، خازن، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۴ / ۱۸۱، ملتقطاً)

نیک اعمال آخرت کی عظیم کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں  کئے ہوئے نیک اعمال آخرت کی عظیم کامیابی یعنی جنت اور اس کی نعمتیں  ملنے کا ذریعہ ہیں  لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے گناہوں  سے توبہ کرتا رہے اور نیک اعمال کی کثرت کرے تاکہ دنیا و آخرت کی سرفرازی نصیب ہو۔نیک اعمال کرنے والوں  کے بارے میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘(یونس:۲۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بھلائی کرنے والوں  کے لیے بھلائی  ہے اور اس سے بھی زیادہ ہے اور ان کے منہ پر نہ سیاہی چھائی ہوگی اور نہ ذلت۔یہی جنت والے ہیں ، وہ اس میں  ہمیشہ رہیں  گے۔

            اورحضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں  خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اے لوگو! مرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  (اپنے گناہوں  سے) توبہ کر لو اور مصروف ہو جانے سے پہلے نیک اعمال کرنے میں  جلدی کر لو اور ذکر کی کثرت سے اپنے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے درمیان تعلق پیدا کر لو، اسی طرح ظاہری اور پوشیدہ طور پر صدقہ دیا کرو تو تمہیں  رزق بھی دیا جائے گا،تمہاری مدد بھی کی جائے گی اور تمہارے نقصان کی تَلافی بھی کی جائے گی۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصّلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فرض الجمعۃ، ۲ / ۵، الحدیث: ۱۰۸۱)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  گناہوں  سے بچنے اور نیک اعمال کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

 

51:16
اٰخِذِیْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِیْنَؕ(۱۶)
اپنے رب کی عطائیں لیتے ہوئے، بیشک وہ اس سے پہلے (ف۱۷) نیکو کار تھے،

51:17
كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ(۱۷)
وہ رات میں کم سویا کرتے (ف۱۸)

{كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ: وہ رات میں  کم سویا کرتے تھے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ پرہیز گار لوگوں  کانیک اعمال کرنے میں  حال یہ تھا کہ وہ رات تہجُّد اور شب بیداری میں  گزارتے اور رات میں  بہت تھوڑی دیر سوتے تھے اور اتنا سو جانے کو بھی اپنا قصور سمجھتے تھے اور رات تہجُّد اور شب بیداری میں گزار نے کے باوجود بھی وہ خود کو گناہگار سمجھتے تھے اور رات کا پچھلا حصہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے میں  گزارتے تھے۔(مدارک،الذّاریات،تحت الآیۃ:۱۷-۱۸،ص۱۱۶۷، جلالین مع جمل،الذّاریات،تحت الآیۃ:۱۷-۱۸،۷ / ۲۷۹،ملتقطاً)

رات کا آخری حصہ مغفرت طلب کرنے اور دعا مانگنے کے لئے انتہائی مَوزوں  ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ رات کا آخری حصہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے اور دعا کے لئے بہت مَوزوں  ہے۔ یہاں  اس سے متعلق ایک حدیث پاک بھی ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ہمارا رب تعالیٰ ہر رات اس وقت دنیا کے آسمان کی طرف نزولِ اِجلال فرماتا ہے جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے’’ کوئی ایساہے جو مجھ سے دعا کرے تاکہ میں  اس کی دعا قبول کروں ،کوئی ایساہے جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں  اسے عطا کروں ، کوئی ایساہے جو مجھ سے معافی چاہے تاکہ میں  اسے بخش دوں ۔( بخاری، کتاب التّھجّد، باب الدّعاء والصّلاۃ من آخر اللّیل، ۱ / ۳۸۸، الحدیث: ۱۱۴۵)
51:18
وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸)
اور پچھلی رات استغفار کرتے (ف۱۹)

51:19
وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ(۱۹)
اور ان کے مالوں میں حق تھا منگتا اور بے نصیب کا (ف۲۰)

{وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ: اور ان کے مالوں  میں  حق تھا۔} اس آیت میں  پرہیز گار وں  کے بارے میں  بیان کیا گیا کہ ان کے مالوں  میں  مانگنے والے اور محروم کا حق تھا۔ مانگنے والے سے مراد وہ ہے جو اپنی حاجت کے لئے لوگوں سے سوال کرے اور محروم سے مراد وہ ہے جو حاجت مند ہو اور حیاء کی وجہ سے سوال بھی نہ کرے۔( مدارک، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۱۱۶۷)

پرہیزگاروں  کی 4صفات:

            اس آیت سے پرہیز گاروں  کی 4 صفات معلوم ہوئیں :

(1)…ان کے مال میں  غریبوں  کا حصہ ہوتا ہے۔

(2)…وہ ہر قسم کے فقیر کو دیتے ہیں  چاہے اسے پہچانتے ہوں  یا نہیں ۔

(3)… ان کا دینا سائل کے مانگنے پر مَوقوف نہیں  ،وہ مانگنے والوں  کو بھی دیتے ہیں  اور تلاش کرکے ان مَساکین کو بھی دیتے ہیں جو حیاء اور شرم کی وجہ سے مانگ نہ سکیں ۔

(4)… وہ فقیروں  کو دے کر ان پر اپنا احسان نہیں  جتاتے بلکہ اپنی کمائی میں  ان کا حق سمجھتے ہیں  اور ان کا احسان مانتے ہیں  کہ انہوں  نے ہمارا مال قبول کرلیا۔اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کے مسلمانوں  کو بھی یہ اوصاف اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
51:20
وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَۙ(۲۰)
اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین والوں کو (ف۲۱)

{وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ: اور زمین میں  نشانیاں  ہیں ۔} یعنی زمین میں  پہاڑ،دریا،درخت،پھل اور نباتات وغیرہ ان لوگوں  کے لئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت اور اس کی قدرت و حکمت پر دلالت کرنے والی نشانیاں  ہیں  جو اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں۔(جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۴۳۳، ملخصاً)

 زمین میں  اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پردلالت کرنے والی نشانیاں :

             زمین میں  اپنی وحدانیَّت اور قدرت پردلالت کرنے والی نشانیوں  کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَ هُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْهٰرًاؕ-وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۳)وَ فِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ- وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِی الْاُكُلِؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ‘‘(رعد:۳،۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں  پہاڑاور نہریں  بنائیں  اور زمین میں  ہر قسم کے پھل دو دو طرح کے بنائے، وہ رات سے دن کو چھپا لیتا ہے، بیشک اس میں  غور وفکر کرنے والوں  کیلئے نشانیاں  ہیں ۔ اور زمین کے مختلف حصے ہیں جو ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں  اور انگوروں  کے باغ ہیں اور کھیتی اور کھجور کے درخت ہیں  ایک جڑ سے اگے ہوئے اور الگ الگ اگے ہوئے، سب کو ایک ہی پانی دیا جا تا ہے اور پھلوں  میں  ہم ایک کو دوسرے سے بہتر بناتے ہیں ، بیشک اس میں  عقل مندوں  کے لیے نشانیاں  ہیں ۔

             اور ارشاد فرمایا: ’’وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْؕ-اِنَّ الَّذِیْۤ اَحْیَاهَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰىؕ-اِنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘(حم السجدہ:۳۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اس کی نشانیوں  میں  سے ہے کہ تو زمین کو بے قدر پڑی ہوئی دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں  تو لہلہانے لگتی ہے اور بڑھ جاتی ہے۔ بیشک  جس نے اس کو زندہ کیا وہ ضرور مردوں  کو زندہ کرنے والا ہے۔ بیشک وہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے۔

 

51:21
وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ(۲۱)
اور خود تم میں (ف۲۲) تو کیا تمہیں سوجھتا نہیں،

{وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ: اور خود تمہاری ذاتوں  میں ۔} یعنی تمہاری پیدائش کے مراحل میں  ،تمہارے اَعضا کی بناوٹ اور ترتیب میں ،تمہارے جسم کے اندرونی نظام میں ،پیدائش کے بعد مرحلہ وارتمہارے حالات کے بدلنے میں ، تمہاری شکلوں  ، صورتوں  اور زبانوں  کے اختلاف میں ،تمہاری ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں  کے مختلف ہونے میں  اور تمہارے ظاہر و باطن میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ایسے بے شمار عجائبات موجود ہیں  جن میں  غور کر کے تم اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں  جان سکتے ہو اورجب وہ ان عجیب و غریب چیزوں  پر قدرت رکھتاہے تو اے کافرو!تمہیں  مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا اس کے لئے کیا مشکل ہے۔

{وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ: اور آسمان میں  تمہارا رزق ہے۔} ارشاد فرمایا کہ آسمان میں  تمہارا رزق ہے کہ اسی طرف سے بارش نازل کرکے زمین کو پیداوار سے مالا مال کیا جاتا ہے اور آخرت کا وہ ثواب و عذاب بھی آسمان میں  لکھا ہوا ہے جس کا تم سے دنیا میں وعدہ کیا جاتا ہے۔( جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۴۳۳، ملخصاً)
51:22
وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ(۲۲)
اور آسمان میں تمہارا رزق ہے (ف۲۳) اور جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے (ف۲۴)

51:23
فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَاۤ اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ۠(۲۳)
تو آسمان اور زمین کے رب کی قسم بیشک یہ قرآن حق ہے ویسی ہی زبان میں جو تم بولتے ہو،

{فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ: تو آسمان اور زمین کے رب کی قسم!} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ آسمان اور زمین کے رب کی قسم! بیشک یہ قرآن حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے فرشتے نے اسے اسی زبان میں  بیان کیا ہے جو تم بولتے ہو۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے لوگو! آسمان اور زمین کے رب کی قسم! میں  نے تم سے جو بات کہی کہ تمہارا رزق آسمان میں  ہے یہ ویسے ہی حق ہے جیسے تمہارے نزدیک وہ بات حق ہے جو تم (قسم کھا کر) کہتے ہو۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ آسمان اور زمین کے رب کی قسم! بیشک تم سے جو آخرت کے ثواب اور عذاب کا وعدہ کیا جا رہا ہے یہ ویسے ہی حق ہے جیسے تمہارے نزدیک وہ بات حق ہے جو تم (قسم کھا کر) کہتے ہو۔( تفسیرکبیر،الذّاریات،تحت الآیۃ:۲۳،۱۰ / ۱۷۲، تفسیر طبری، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۲۳،۱۱ / ۴۶۱-۴۶۲، ملتقطاً)
51:24
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ(۲۴)
اے محبوب! کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی (ف۲۵)

{هَلْ اَتٰىكَ: اے محبوب!کیا تمہارے پاس آئی۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے تاکہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات سن کر سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک قلب کو تسلی حاصل ہو۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ اس لئے بیان فرمایاکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آپ کی اولاد میں  سے ہی تشریف لائے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی بعض چیزوں  میں  ان کے طریقے کو اختیار فرمایا اور اس واقعے کو بیان کرنے سے مقصود حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قوم کو (اللہ تعالیٰ کے عذاب سے) ڈرانا بھی ہے۔( تفسیرکبیر، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۲۴، ۱۰ / ۱۷۳، ملخصاً)

            اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ کے پاس ان فرشتوں  کی خبر آئی جو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں معزز مہمان بن کر حاضر ہوئے تھے۔ ان فرشتوں  کی تعداد دس یا بارہ تھی اور ان میں  حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام بھی شامل تھے۔( جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۴۳۳)

          نوٹ:یاد رہے کہ یہ واقعہ پارہ نمبر 14کے رکوع نمبر3اور 4میں  بھی گزر چکا ہے۔
51:25
اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌۚ-قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَۚ(۲۵)
جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کہا، سلام ناشناسا لوگ ہیں (ف۲۶)

{اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ: جب وہ اس کے پاس آئے۔} جب فرشتے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آئے تو انہوں  نے کہا: سلام۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی جواب میں  سلام فرمایا اور کہا کہ یہ اجنبی لوگ ہیں ۔( جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۴۳۳، ملخصاً)یہ آپ نے دل میں  فرمایا کہ میں  ان سے واقف نہیں  ، مُنکَر بمعنی اجنبی ہے، اسی لئے قبر کے فرشتوں  کو مُنکَر ونکیر کہا جاتا ہے کہ وہ اجنبی ہوتے ہیں ۔

آیت ’’اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے

(1)… سلام بڑی پرانی سنت ہے کہ دوسرے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین میں  بھی تھی بلکہ حدیث ِمبارک سے ثابت ہے کہ سلام کا طریقہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے سامنے پیش کیا گیا۔

(2)… آنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے خواہ سارے لوگ سلام کریں  یا ان میں  سے ایک ظاہر یہ ہے کہ یہاں  سب نے سلام کیا۔

51:26
فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍۙ(۲۶)
پھر اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا (ف۲۷)

{فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ: پھر ابراہیم اپنے گھر گئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دوآیات کا خلاصہ یہ ہے کہ سلام کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے گھر تشریف لے گئے اور ایک موٹا تازہ اور نفیس بچھڑا بھون کرلے آئے،پھر اسے ان مہمانوں  کے پاس رکھ دیا تاکہ اسے کھائیں  اور یہ میزبان کے آداب میں  سے ہے کہ مہمان کے سامنے کھانا پیش کرے۔جب اُن فرشتوں  نے نہ کھایا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:کیا تم کھاتے نہیں ؟ فرشتوں  نے کوئی جواب نہ دیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے دل میں  ان سے خوف محسوس کیا۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اس وقت آپ کے دل میں  بات آئی کہ یہ فرشتے ہیں  اور عذاب کے لئے بھیجے گئے ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خوف دیکھ کر فرشتوں  نے عرض کی: آپ ڈریں  نہیں ، ہم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں  اوراس کے بعد ان فرشتوں  نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک علم والے لڑکے کی خوشخبری سنائی۔( خازن، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۸، ۴ / ۱۸۳، مدارک، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۸، ص۱۱۶۹، ملتقطاً)
51:27
فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ٘(۲۷)
پھر اسے ان کے پاس رکھا (ف۲۸) کہا کیا تم کھاتے نہیں،

51:28
فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةًؕ-قَالُوْا لَا تَخَفْؕ-وَ بَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ(۲۸)
تو اپنے جی میں ان سے ڈرنے لگا (ف۲۹) وہ بولے ڈریے نہیں (ف۳۰) اور اسے ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی،

51:29
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِیْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَ قَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ(۲۹)
اس پر اس کی بی بی (ف۳۱) چلاتی آئی پھر اپنا ماتھا ٹھونکا اور بولی کیا بڑھیا بانجھ (ف۳۲)

{فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِیْ صَرَّةٍ: تو ابراہیم کی بیوی چلاتی ہوئی آئی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب فرشتوں  نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علم والے لڑکے کی خوشخبری سنائی تو یہ بات آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ حضرت سارہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے بھی سن لی ، اس پر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا چِلّاتی ہوئی آئیں  اور حیرت سے اپنے چہرے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا:کیا وہ عورت بچہ جنے گی جو (90 یا 99 برس کی) بوڑھی ہے اور ا س کے ہاں  کبھی بچہ پیدا نہیں  ہوا ۔اس بات سے ان کا مطلب یہ تھا کہ ایسی حالت میں  بچہ ہونا انتہائی تعجب کی بات ہے۔ فرشتوں نے کہا: جو بات ہم نے کہی آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ نے یونہی فرمایا ہے، بیشک وہی اپنے اَفعال میں  حکمت والا ہے اور ا س سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔( جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ص۴۳۳، مدارک، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ص۱۱۶۹، ملتقطاً)
51:30
قَالُوْا كَذٰلِكِۙ-قَالَ رَبُّكِؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ(۳۰)
انہوں نے کہا تمہارے رب نے یونہی فرمادیا، اور وہی حکیم دانا ہے،

51:31
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ(۳۱)
ابراہیم نے فرمایا تو اے فرشتو! تم کس کام سے آئے (ف۳۳)

{قَالَ: ابراہیم نے فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جان گئے کہ آنے والے مہمان فرشتے ہیں  تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا ن سے فرمایا: اے فرشتو! کیا تم صرف بیٹے کی بشارت دینے آئے ہو یا اس کے علاوہ تمہارا اور بھی کوئی کام ہے؟ فرشتوں  نے جواب دیا کہ ہم حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں  تاکہ(ان کی بستیوں  کو الٹ پلٹ کرنے کے بعد) ان پر گارے کے بنائے ہوئے پتھر چھوڑیں  جن پر آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے حد سے بڑھنے والوں  کے لیے نشان لگائے ہوئے ہیں ۔ مفسرین فرماتے ہیں  کہ ان پتھروں  پر ایسے نشان تھے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ دنیا کے پتھروں  میں  سے نہیں  ہیں  اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ ہر ایک پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جو اس پتھرسے ہلاک کیاجانے والا تھا۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۴، ۴ / ۱۸۳، مدارک، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۴، ص۱۱۷۰، ملتقطاً)
51:32
قَالُوْۤا اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَۙ(۳۲)
بولے ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں (ف۳۴)

51:33
لِنُرْسِلَ عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ طِیْنٍۙ(۳۳)
کہ ان پر گارے کے بنائے ہوئے پتھر چھوڑیں،

51:34
مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِیْنَ(۳۴)
جو تمہارے رب کے پاس حد سے بڑھنے والوں کے لیے نشان کیے رکھے ہیں (ف۳۵)

51:35
فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِیْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَۚ(۳۵)
تو ہم نے اس شہر میں جو ایمان والے تھے نکال لیے،

{ فَاَخْرَجْنَا: تو ہم نے نکال لیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اس شہر پر عذاب آیا جس میں  حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ آباد تھے تو پہلے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والے حضرات کو اللہ تعالیٰ نے نکال لیا اور اس شہر میں  ایک ہی گھر کے لوگ مسلمان تھے۔ایک قول یہ ہے کہ وہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور آپ کی دونوں  صاحب زادیاں  تھیں  اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے اہلِ بیت میں  سے جن لوگوں  نے نجات پائی ان کی تعداد 13 تھی۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ۴ / ۱۸۴، ابو سعود، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ۵ / ۶۳۱، ملتقطاً)
51:36
فَمَا وَجَدْنَا فِیْهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَۚ(۳۶)
تو ہم نے وہاں ایک ہی گھر مسلمان پایا (ف۳۶)

51:37
وَ تَرَكْنَا فِیْهَاۤ اٰیَةً لِّلَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِیْمَؕ(۳۷)
اور ہم نے اس میں (ف۳۷) نشانی باقی رکھی ان کے لیے جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں (ف۳۸)

{ وَ تَرَكْنَا فِیْهَاۤ اٰیَةً: اور ہم نے اس میں  نشانی باقی رکھی۔} یعنی ہم نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے اس شہر میں  کافروں  کو ہلاک کرنے کے بعد ان کی تباہی اور بربادی کی نشانی ان لوگوں کے لیے باقی رکھی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں  تاکہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں  اور ان لوگوں  جیسے افعال کرنے سے باز رہیں  اور وہ نشانی ان کے اُجڑے ہوئے شہر تھے ،یا وہ پتھر تھے جن سے وہ ہلاک کئے گئے ،یا وہ کالا بدبو دار پانی تھا جو اس سرزمین سے نکلا تھا۔( ابو سعود، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۶۳۱، جلالین، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۴۳۳، ملتقطاً)

لواطَت کرنے اور ا س کی ترغیب دینے والوں  کے لئے نشانِ عبرت:

            حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم جس جرم کی بنا پر تباہ و بربادکر دی گئی اور دنیا میں انہیں  عبرت کا نشان بنا دیا گیا وہ مَردوں  کا آپس میں  اور لڑکوں  کے ساتھ بد فعلی کرنا تھا،ان کے دردنا ک انجام کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو فی زمانہ مَردوں  کے ساتھ ہم جنس پرستی کرنے اوراس کی ترغیب دینے کے لئے باقاعدہ تقریبات منعقد کرنے اور اسے قانونی جواز مُہَیّا کرنے میں  مصروف ہیں ۔
51:38
وَ فِیْ مُوْسٰۤى اِذْ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(۳۸)
اور موسیٰ میں (ف۳۹) جب ہم نے اسے روشن سند لے کر فرعون کے پاس بھیجا (ف۴۰)

{وَ فِیْ مُوْسٰى: اور موسیٰ میں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں  بھی (عبرت کی) نشانی رکھی ہے اور ان کا واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان روشن معجزات کے ساتھ فرعون کی طرف بھیجا جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون اور اس کی قوم کے سامنے پیش فرمائے تو فرعون نے اپنی جماعت کے ساتھ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے سے اِعراض کیا اور ان کی شان میں  یہ کہنے لگا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو جادوگر یا دیوانے ہیں  (جو مجھ جیسے جابر بادشاہ کا مقابلہ کرنے آئے ہیں )۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۴ / ۱۸۴، ملخصاً)

51:39
فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَ قَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ(۳۹)
تو اپنے لشکر سمیت پھر گیا (ف۴۱) اورت بولا جادوگر ہے یا دیوانہ،

51:40
فَاَخَذْنٰهُ وَ جُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ وَ هُوَ مُلِیْمٌؕ(۴۰)
تو ہم نے اسے اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں ڈال دیا اس حال میں کہ وہ اپنے آپ کو ملامت کررہا تھا (ف۴۲)

{ فَاَخَذْنٰهُ وَ جُنُوْدَهٗ: اور ہم نے فرعون اور اس کے لشکر کو پکڑا۔} ارشاد فرمایا کہ جب فرعون اور ا س کی قوم نے سرکشی کی تو ہم نے فرعون اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں  ڈال دیا اور اس وقت اس کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو ملامت کررہا تھا کہ ا س نے رب ہونے کا دعویٰ کیوں  کیا اور وہ کیوں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان نہ لایا اور کیوں  ان پراعتراضات کئے۔( ابو سعود، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۰، ۵ / ۶۳۱، جلالین، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۴۳۴، ملتقطاً)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلذّٰرِيـٰت
اَلذّٰرِيـٰت
  00:00



Download

اَلذّٰرِيـٰت
اَلذّٰرِيـٰت
  00:00



Download