READ

Surah ad-Dhariyat

اَلذّٰرِيـٰت
60 Ayaat    مکیۃ


51:41
وَ فِیْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَۚ(۴۱)
اور عاد میں (ف۴۳) جب ہم نے ان پر خشک آندھی بھیجی (ف۴۴)

{وَ فِیْ عَادٍ: اور عاد میں ۔} اس آیت اورا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ عاد کو ہلاک کرنے میں  بھی قابلِ عبرت نشانیاں  ہیں  ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان پر خشک آندھی بھیجی جس میں  کچھ بھی خیرو برکت نہ تھی اوریہ ہلاک کرنے والی ہوا تھی اور یہ ہوا آدمی ،جانور یا دیگر اَموال میں  سے جس چیز کوبھی چھو جاتی تھی تو ا سے ہلاک کرکے ایسا کردیتی تھی کہ گویا وہ مدتوں  کی ہلاک شدہ اور گلی ہوئی ہے۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۴ / ۱۸۴، ملخصاً)

          نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد پر صرف ا س حلقہ یعنی انگوٹھی کے حلقہ کے برابر ہوا بھیجی، پھر آپ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: ’’ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَۚ(۴۱) مَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیْمِؕ(۴۲)‘‘۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الذاریات، ۵ / ۱۸۱، الحدیث: ۳۲۸۴)
51:42
مَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیْمِؕ(۴۲)
جس چیز پر گزرتی اسے گلی ہوئی چیز کی طرح چھوڑتی (ف۴۵)

51:43
وَ فِیْ ثَمُوْدَ اِذْ قِیْلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِیْنٍ(۴۳)
اور ثمود میں (ف۴۶) جب ان سے فرمایا گیا ایک وقت تک برت لو (ف۴۷)

{وَ فِیْ ثَمُوْدَ: اور ثمود میں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ ثمود کو ہلاک کرنے میں  بھی عبرت کی نشانیاں ہیں ۔ جب انہوں  نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے سرکشی کی اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور ان کی اونٹنی کی رگیں کاٹ دیں  توان سے فرمایا گیا کہ تین دن تک دنیا میں  اپنی زندگی سے فائدہ اٹھالو، یہی زمانہ تمہاری مہلت کا ہے اورجب تین دن گزر گئے تو ان کی آنکھوں  کے سامنے انہیں  کڑک نے آلیا اوروہ ہَولناک آواز کے عذاب سے ہلاک کردیئے گئے اور عذاب نازل ہونے کے وقت نہ وہ کھڑے ہوکر بھاگ سکے اور نہ ہی وہ اس سے بدلہ لے سکتے تھے جس نے انہیں  ہلاک کیا۔( جلالین مع جمل، الذاریات، تحت الآیۃ: ۴۳-۴۵، ۷ / ۲۸۷، ملخصاً)

{ وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ: اور ان سے پہلے قومِ نوح کو ہلاک فرمایا۔} یعنی ہلاک کی جانے والی ان قوموں  سے پہلے ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو ہلاک کیا اور انہیں  ہلاک کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوُز کر کے کفر اور گناہوں  پر قائم رہے۔( روح البیان، الذاریات، تحت الآیۃ: ۴۶، ۹ / ۱۶۹)

51:44
فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ وَ هُمْ یَنْظُرُوْنَ(۴۴)
تو انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی (ف۴۸) تو ان کی آنکھوں کے سامنے انہیں کڑک نے آلیا (ف۴۹)

51:45
فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّ مَا كَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَۙ(۴۵)
تو وہ نہ کھڑے ہوسکے (ف۵۰) اور نہ وہ بدلہ لے سکتے تھے،

51:46
وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ۠(۴۶)
اور ان سے پہلے قوم نوح کو ہلاک فرمایا، بیشک وہ فاسق لوگ تھے،

51:47
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ(۴۷)
اور آسمان کو ہم نے ہاتھوں سے بنایا (ف۵۱) اور بیشک ہم وسعت دینے والے ہیں (ف۵۲)

{ وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ: اور آسمان کو ہم نے (اپنی) قدرت سے بنایا۔} یہاں  سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت اور قدرت کے دلائل ذکر کئے جا رہے ہیں  اور اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنے دست ِقدرت سے بنایا اور بے شک ہم اسے اتنی وسعت دینے والے ہیں  کہ زمین اپنی فضا کے ساتھ اس کے اندر اس طرح آجائے جیسے کہ ایک وسیع و عریض میدان میں  گیند پڑی ہو ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنے دست ِقدرت سے بنایا اور بیشک ہم اپنی مخلوق پر رزق وسیع کرنے والے ہیں ۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۱۸۴)

{ وَ الْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا: اور زمین کو ہم نے فرش بنایا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش بنایا کہ زمین اس قدر وسیع ہے کہ گول ہونے کے باوجود فرش کی طرح بچھی ہوئی معلوم ہوتی ہے، نیز نہ تو لوہے کی طرح سخت ہے کہ اس پر چلنا پھرنا دشوار ہو جائے اور نہ پانی کی طرح پتلی کہ مخلوق اس میں  ڈوب جائے۔یہ رب تعالیٰ کی قدرت کی بڑی دلیل ہے۔
51:48
وَ الْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ(۴۸)
اور زمین کو ہم نے فرش کیا تو ہم کیا ہی اچھے بچھالے والے،

51:49
وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(۴۹)
اور ہم نے ہر چیز کے دو جوڑ بنائے (ف۵۳) کہ تم دھیان کرو (ف۵۴)

{ وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ: اور ہم نے ہر چیز کی دو قسمیں  بنائیں ۔} ارشاد فرمایا کہ اور ہم نے ہر چیز کی دو قسمیں  بنائیں  جیسے آسمان اور زمین ،سورج اور چاند ، رات اور دن،خشکی اور تری ، گرمی اور سردی ، جن اور انسان، روشنی اورتاریکی ، ایمان اورکفر ،سعادت اوربدبختی ، حق اور باطل اور نر و مادہ وغیرہ اوریہ قسمیں  اس لئے بنائیں  تاکہ تم ان میں  غور کرکے یہ بات سمجھ سکو کہ ان تمام قسموں  کو پیدا کرنے والی ذات واحد ہے، نہ اس کی نظیر ہے ،نہ اس کاشریک ہے،نہ اس کا کوئی مد ِ مقابل ہے اورنہ اس کا کوئی مثل ہے ،لہٰذا صرف وہی عبادت کا مستحق ہے۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۹، ۴ / ۱۸۴-۱۸۵، مدارک، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۱۷۱، ملتقطاً)

            فی زمانہ سائنس کی تحقیق سے یہ پتہ لگ چکا ہے کہ درخت اور پتھروں  میں  بھی نر اور مادہ دو قسمیں  ہیں ،جب نر درخت سے ہوا لگ کر مادہ درخت سے چھوتی ہے تو پھل زیادہ آتا ہے اگرچہ نر درخت دور ہو، ان چیزوں  کی بھی نسل ہے مگر نسل کا طریقہ جدا گانہ ہے۔
51:50
فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِؕ-اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ(۵۰)
تو اللہ کی طرف بھاگو (ف۵۵) بیشک میں اس کی طرف سے تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں،

{ فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ: اور اللہ کی طرف بھاگو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں  کہ جب عبادت کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے تو اے لوگو! تم کفر سے ایمان کی طرف، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اطاعت کی طرف ،اپنے گناہوں  سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  توبہ کی طرف دوڑتے ہوئے آؤ اور اس کے علاوہ سب کو چھوڑ کر صرف اسی کی عبادت کرو تاکہ تم اس کے عذاب سے نجات پا جاؤا ور اس کی طرف سے ثواب حاصل کر کے کامیاب ہو جاؤ،بیشک میں  تمہیں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفر اور نافرمانی پر اس کے عذاب سے کھلم کھلاڈر سنانے والا ہوں ۔(خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ۴ / ۱۸۵، قرطبی، الذاریات، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ۹ / ۴۱، الجزء السابع عشر، ابو سعود، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ۵ / ۶۳۲-۶۳۳، ملتقطاً)

51:51
وَ لَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَؕ-اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ(۵۱)
اور اللہ کے ساتھ اور معبود نہ ٹھہراؤ، بیشک میں اس کی طرف سے تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں،

51:52
كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌۚ(۵۲)
یونہی (ف۵۶) جب ان سے اگلوں کے پاس کوئی رسول تشریف لایا تو یہی بولے کہ جادوگر ہے یا دیوانہ،

{ كَذٰلِكَ: یونہی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جیسے آپ کی قوم کے کفار نے آپ کو جھٹلایا اور آپ کی شان میں  گستاخی کرتے ہوئے آپ کو جادو گر اور مجنون کہا ایسے ہی جب کفارِ مکہ سے پہلے لوگوں  کے پاس میری طرف سے کوئی رسول تشریف لایا اور اس نے اپنی قوم کو مجھ پر ایمان لانے اور میری اطاعت کرنے کی دعوت دی تو ان کے بارے میں  بھی کفار نے یہی کہاکہ یہ جادوگر یا دیوانہ ہے۔ سابقہ کفار نے اپنے بعد والوں  کو یہ وصیت تو نہیں  کی کہ تم انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرتے رہنا اور ان کی شان میں  اس طرح کی باتیں  بنانا لیکن چونکہ سرکشی اورنافرمانی کی عِلّت دونوں  میں  ہے اس لئے یہ گمراہی میں  ایک دوسرے کے موافق رہے اورا سی چیز نے انہیں  ا س طرح کی باتیں  کرنے پر ابھارا لہٰذا آپ اپنی قوم کے جھٹلانے اور اس طرح کی باتیں  کرنے سے غمزدہ نہ ہوں ۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۲-۵۳، ۴ / ۱۸۵، روح البیان، الذاریات، تحت الآیۃ: ۵۲-۵۳، ۹ / ۱۷۴، ملتقطاً)
51:53
اَتَوَاصَوْا بِهٖۚ-بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَۚ(۵۳)
کیا آپس میں ایک دوسرے کو یہ بات کہہ مرے ہیں بلکہ وہ سرکش لوگ ہیں (ف۵۷)

51:54
فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَاۤ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ(۵۴) ﱭ
تو اے محبوب! تم ان سے منہ پھیر لو تو تم پر کچھ الزام نہیں (ف۵۸)

{ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ: تو اے محبوب!تم ان سے منہ پھیرلو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار سے منہ پھیر لیں  کیونکہ آپ رسالت کی تبلیغ فرماچکے اور اسلام کی دعوت اورہدایت دینے میں  انتہائی محنت کرچکے اور آپ نے اپنی کوشش میں  معمولی سی بات بھی نہ چھوڑی توان کے ایمان نہ لانے سے آپ پر کوئی ملامت نہیں ۔

نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کے دو فوائد:

             آیت نمبر55 سے معلوم ہوا کہ نیک کاموں  کی ترغیب دیتے اور برے کاموں  سے منع کرتے رہنا چاہئے، اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جسے سمجھایا جائے اس کے بارے میں  امید ہوتی ہے کہ وہ برے کام چھوڑ کر نیک کام کرنے لگے گا اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کی ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے۔ سمجھانے اور نصیحت کرنے کے ان فوائد کو قرآنِ پاک میں  ایک اور مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ

’’ وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَاۙﰳ اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًاؕ-قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ‘‘(اعراف:۱۶۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ان میں  سے ایک گروہ نے کہا: تم ان لوگوں  کو کیوں  نصیحت کرتے ہو جنہیں  اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا انہیں  سخت عذاب دینے والاہے؟انہوں  نے کہا: تمہارے رب کے حضورعذر پیش کرنے کے لئے اور شایدیہ ڈریں ۔

51:55
وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵)
اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے،

51:56
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)
اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی لیے بنائے کہ میری بندگی کریں (ف۵۹)

{ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ: اور میں  نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔} ارشاد فرمایا کہ میں  نے جنوں  اور انسانوں  کو صرف دنیا طلب کرنے اور ا س طلب میں  مُنہَمِک ہونے کے لئے پیدا نہیں  کیا بلکہ انہیں  اس لئے بنایا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں اور انہیں  میری معرفت حاصل ہو ۔( صاوی، الذاریات، تحت الآیۃ: ۵۶، ۵ / ۲۰۲۶، خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۶، ۴ / ۱۸۵)

جنوں  اور انسانوں  کی پیدائش کا اصل مقصد:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسانوں  اور جنوں  کو بیکار پیدا نہیں  کیا گیا بلکہ ان کی پیدائش کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘(مومنون:۱۱۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں  بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں  جاؤ گے؟

            اور ارشاد فرمایا:

’’ تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ٘- وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُۙ(ﰳ۱) الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ‘‘( ملک:۱،۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضے میں  ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں  کون اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہی عزت والا، بخشش والا ہے۔

            اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اے انسان!تو میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا میں  تیرا سینہ غنا سے بھر دوں  گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند کر دوں  گا اور اگر تو ایسانہیں  کرے گا تو میں  تیرے دونوں  ہاتھ مصروفیات سے بھر دوں  گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہیں  کروں  گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۳۰-باب،  ۴ / ۲۱۱، الحدیث: ۲۴۷۴)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھنے اور ا س مقصد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

 

51:57
مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ(۵۷)
میں ان سے کچھ رزق نہیں مانگتا (ف۶۰) اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا دیں (ف۶۱)

{ مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ: میں  ان سے کچھ رزق نہیں  مانگتا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں  کے ساتھ عادت ِکریمہ ایسی نہیں  ہے جیسی بندوں  کی اپنے غلاموں  اور نوکروں  کے ساتھ ہے کیونکہ بندے اپنے پاس غلام اور نوکر اس لئے رکھتے ہیں  تاکہ وہ معاشی معاملات میں  ان کی مدد کریں  جبکہ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ رزق یا کسی بھی معاملے میں  بندوں  کا      محتاج نہیں  بلکہ ہر ایک کو رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے اور سب کی روزی کا کفیل بھی وہی ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ بندوں  سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اس کی مخلوق کے لئے کھانا دیں ۔بیشک اللہ تعالیٰ ہی بڑارزق دینے والا ہے، وہی ہر کسی کو رزق دیتا ہے، وہ قوت والا ہے اسی لئے مخلوق تک رزق پہنچانے میں  اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں  اور رِزق پیدا کرنے پرقدرت رکھنے والا ہے ،سب کو وہی دیتا اور سب کو وہی پالتا ہے۔( جلالین مع صاوی ، الذاریات ، تحت الآیۃ : ۵۷ - ۵۸ ، ۵ / ۲۰۲۶-۲۰۲۷ ، خازن ، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۸، ۴ / ۱۸۵-۱۸۶، روح البیان، الذاریات، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۸، ۹ / ۱۸۰-۱۸۱، ملتقطاً)
51:58
اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ(۵۸)
بیشک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا قوت والا قدرت والا ہے (ف۶۲)

51:59
فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِهِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِ(۵۹)
تو بیشک ان ظالموں کے لیے (ف۶۳) عذاب کی ایک باری ہے (ف۶۴) جیسے ان کے ساتھ والوں کے لیے ایک باری تھی (ف۶۵) تو مجھ سے جلدی نہ کریں (ف۶۶)

{ فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا: تو بیشک ان ظالموں  کے لیے۔} ارشاد فرمایا کہ بے شک ان ظالموں  کے لیے جنہوں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلا کر اپنی جانوں  پر ظلم کیا ایسے ہی عذاب کا ایک حصہ ہے جیسے سابقہ امتوں  کے کفار کا عذاب اورہلاکت میں  حصہ تھا جو کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے میں  اِن کے ساتھی تھے،لہٰذا اگر میں  نے ان سے قیامت تک کے لئے عذاب مُؤخَّر کر دیا ہے تو انہیں  چاہئے کہ مجھ سے عذاب نازل کرنے کی جلدی نہ کریں ۔( جلالین، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۴۳۴-۴۳۵، خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۹، ۴ / ۱۸۶، ملتقطاً)
51:60
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ یَّوْمِهِمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ۠(۶۰)
تو کافروں کی خرابی ہے ان کے اس دن سے جس کا وعدہ دیے جاتے ہیں (ف۶۷)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلذّٰرِيـٰت
اَلذّٰرِيـٰت
  00:00



Download

اَلذّٰرِيـٰت
اَلذّٰرِيـٰت
  00:00



Download