Surah ad-Dhariyat
{وَ فِیْ عَادٍ: اور عاد میں ۔} اس آیت اورا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ عاد کو ہلاک کرنے میں بھی قابلِ عبرت نشانیاں ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان پر خشک آندھی بھیجی جس میں کچھ بھی خیرو برکت نہ تھی اوریہ ہلاک کرنے والی ہوا تھی اور یہ ہوا آدمی ،جانور یا دیگر اَموال میں سے جس چیز کوبھی چھو جاتی تھی تو ا سے ہلاک کرکے ایسا کردیتی تھی کہ گویا وہ مدتوں کی ہلاک شدہ اور گلی ہوئی ہے۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۴ / ۱۸۴، ملخصاً)
{وَ فِیْ ثَمُوْدَ: اور ثمود میں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ ثمود کو ہلاک کرنے میں بھی عبرت کی نشانیاں ہیں ۔ جب انہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے سرکشی کی اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور ان کی اونٹنی کی رگیں کاٹ دیں توان سے فرمایا گیا کہ تین دن تک دنیا میں اپنی زندگی سے فائدہ اٹھالو، یہی زمانہ تمہاری مہلت کا ہے اورجب تین دن گزر گئے تو ان کی آنکھوں کے سامنے انہیں کڑک نے آلیا اوروہ ہَولناک آواز کے عذاب سے ہلاک کردیئے گئے اور عذاب نازل ہونے کے وقت نہ وہ کھڑے ہوکر بھاگ سکے اور نہ ہی وہ اس سے بدلہ لے سکتے تھے جس نے انہیں ہلاک کیا۔( جلالین مع جمل، الذاریات، تحت الآیۃ: ۴۳-۴۵، ۷ / ۲۸۷، ملخصاً)
{ وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ: اور ان سے پہلے قومِ نوح کو ہلاک فرمایا۔} یعنی ہلاک کی جانے والی ان قوموں سے پہلے ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو ہلاک کیا اور انہیں ہلاک کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوُز کر کے کفر اور گناہوں پر قائم رہے۔( روح البیان، الذاریات، تحت الآیۃ: ۴۶، ۹ / ۱۶۹)
{ وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ: اور آسمان کو ہم نے (اپنی) قدرت سے بنایا۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت اور قدرت کے دلائل ذکر کئے جا رہے ہیں اور اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنے دست ِقدرت سے بنایا اور بے شک ہم اسے اتنی وسعت دینے والے ہیں کہ زمین اپنی فضا کے ساتھ اس کے اندر اس طرح آجائے جیسے کہ ایک وسیع و عریض میدان میں گیند پڑی ہو ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنے دست ِقدرت سے بنایا اور بیشک ہم اپنی مخلوق پر رزق وسیع کرنے والے ہیں ۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۱۸۴)
{ وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ: اور ہم نے ہر چیز کی دو قسمیں بنائیں ۔} ارشاد فرمایا کہ اور ہم نے ہر چیز کی دو قسمیں بنائیں جیسے آسمان اور زمین ،سورج اور چاند ، رات اور دن،خشکی اور تری ، گرمی اور سردی ، جن اور انسان، روشنی اورتاریکی ، ایمان اورکفر ،سعادت اوربدبختی ، حق اور باطل اور نر و مادہ وغیرہ اوریہ قسمیں اس لئے بنائیں تاکہ تم ان میں غور کرکے یہ بات سمجھ سکو کہ ان تمام قسموں کو پیدا کرنے والی ذات واحد ہے، نہ اس کی نظیر ہے ،نہ اس کاشریک ہے،نہ اس کا کوئی مد ِ مقابل ہے اورنہ اس کا کوئی مثل ہے ،لہٰذا صرف وہی عبادت کا مستحق ہے۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۹، ۴ / ۱۸۴-۱۸۵، مدارک، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۱۷۱، ملتقطاً)
{ فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ: اور اللہ کی طرف بھاگو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ جب عبادت کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے تو اے لوگو! تم کفر سے ایمان کی طرف، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اطاعت کی طرف ،اپنے گناہوں سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کی طرف دوڑتے ہوئے آؤ اور اس کے علاوہ سب کو چھوڑ کر صرف اسی کی عبادت کرو تاکہ تم اس کے عذاب سے نجات پا جاؤا ور اس کی طرف سے ثواب حاصل کر کے کامیاب ہو جاؤ،بیشک میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفر اور نافرمانی پر اس کے عذاب سے کھلم کھلاڈر سنانے والا ہوں ۔(خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ۴ / ۱۸۵، قرطبی، الذاریات، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ۹ / ۴۱، الجزء السابع عشر، ابو سعود، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ۵ / ۶۳۲-۶۳۳، ملتقطاً)
{ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ: تو اے محبوب!تم ان سے منہ پھیرلو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار سے منہ پھیر لیں کیونکہ آپ رسالت کی تبلیغ فرماچکے اور اسلام کی دعوت اورہدایت دینے میں انتہائی محنت کرچکے اور آپ نے اپنی کوشش میں معمولی سی بات بھی نہ چھوڑی توان کے ایمان نہ لانے سے آپ پر کوئی ملامت نہیں ۔
نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کے دو فوائد:
آیت نمبر55 سے معلوم ہوا کہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے اور برے کاموں سے منع کرتے رہنا چاہئے، اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جسے سمجھایا جائے اس کے بارے میں امید ہوتی ہے کہ وہ برے کام چھوڑ کر نیک کام کرنے لگے گا اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کی ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے۔ سمجھانے اور نصیحت کرنے کے ان فوائد کو قرآنِ پاک میں ایک اور مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ
’’ وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَاۙﰳ اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًاؕ-قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ‘‘(اعراف:۱۶۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا: تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا انہیں سخت عذاب دینے والاہے؟انہوں نے کہا: تمہارے رب کے حضورعذر پیش کرنے کے لئے اور شایدیہ ڈریں ۔
{ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ: اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔} ارشاد فرمایا کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف دنیا طلب کرنے اور ا س طلب میں مُنہَمِک ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ انہیں اس لئے بنایا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں اور انہیں میری معرفت حاصل ہو ۔( صاوی، الذاریات، تحت الآیۃ: ۵۶، ۵ / ۲۰۲۶، خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۶، ۴ / ۱۸۵)
جنوں اور انسانوں کی پیدائش کا اصل مقصد:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسانوں اور جنوں کو بیکار پیدا نہیں کیا گیا بلکہ ان کی پیدائش کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘(مومنون:۱۱۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟
اور ارشاد فرمایا:
’’ تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ٘- وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُۙ(ﰳ۱) الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ‘‘( ملک:۱،۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضے میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہی عزت والا، بخشش والا ہے۔
اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اے انسان!تو میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند کر دوں گا اور اگر تو ایسانہیں کرے گا تو میں تیرے دونوں ہاتھ مصروفیات سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہیں کروں گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۳۰-باب، ۴ / ۲۱۱، الحدیث: ۲۴۷۴)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھنے اور ا س مقصد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan