READ

Surah Ibrahim

اِبرٰهِيْم
52 Ayaat    مکیۃ


14:41
رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۠(۴۱)
اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو (ف۹۵) اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا،

14:42
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ -اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ(۴۲)
اور ہرگز اللہ کو بےخبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے (ف۹۶) انہیں ڈھیل نہیں دے رہا ہے مگر ایسے دن کے لیے جس میں (ف۹۷)

{وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا: اور ہرگز اللّٰہ کو بے خبر نہ سمجھنا ۔}اس آیت میں  ہر مظلوم کے لئے تسلی اور ہر ظالم کے لئے وعید ہے ،نیز اس آیت میں  ایک مشہور مقولے کی تائید بھی ہے کہ خدا کے ہاں  دیر ہے اندھیر نہیں ۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ اے سننے والے !تم یہ نہ سمجھنا کہ اللّٰہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں  کو سزا نہیں  دے گا اور نہ ہی ظالموں  سے عذاب مؤخر ہونے کی وجہ سے غمزدہ ہونا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں  بغیر عذاب کے صرف ایک ایسے دن کیلئے ڈھیل دے رہا ہے جس میں  دہشت کے مارے آنکھیں  کھلی کی کھلی رہ جائیں  گی۔ (جلالین مع صاوی، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۱۰۲۹-۱۰۳۰)

 ظالم کے لئے وعید:

            یاد رہے کہ ظالموں  کا اُخروی عذاب تو اپنی جگہ ،دنیا میں  بھی اللّٰہ تعالیٰ ظالموں  کی گرفت فرماتا ہے ،چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اللّٰہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اور جب اس کی پکڑ فرما لیتا ہے تو پھر اسے مہلت نہیں  دیتا۔پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے یہ آیت تلاوت فرمائی

وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ(ہود:۱۰۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں  کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں  بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے ۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القری وہی ظالمۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۷، الحدیث: ۴۶۸۶)

14:43
مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْۚ -وَ اَفْـٕدَتُهُمْ هَوَآءٌؕ(۴۳)
آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی بے تحاشا دوڑے نکلیں گے (ف۹۸) اپنے سر اٹھائے ہوئے کہ ان کی پلک ان کی طرف لوٹتی نہیں (ف۹۹) اور ان کے دلوں میں کچھ سکت نہ ہوگی (ف۱۰۰)

{مُهْطِعِیْنَ:لوگ بے تحاشا دوڑتے ہوئے جارہے ہوں  گے۔} یعنی قیامت کے دن کی دہشت اور ہولناکی سے لوگوں  کا حال یہ ہو گا کہ وہ اپنے سروں  کو اٹھائے عَرصۂ محشر کی طرف بلانے والے یعنی حضرت اسرافیلعَلَیْہِ السَّلَام کی طرف بے تحاشا دوڑتے جا رہے ہوں  گے اور  ان کی پلک تک نہ جھپک رہی ہو گی کہ اپنے آپ کو ہی دیکھ سکیں  اور ان کے دل حیرت کی شدت اوردہشت کے مارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے خالی ہوں  گے۔حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن دل سینوں  سے نکل کر گلوں  میں  آپھنسیں  گے ،نہ باہر نکل سکیں  گے نہ اپنی جگہ واپس جاسکیں  گے اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اُس دن کی دہشت اور ہولناکی کی شدت کا یہ عالَم ہوگا کہ سراوپر اٹھے ہوں  گے، آنکھیں  کھلی کی کھلی رہ جائیں  گی اور دل اپنی جگہ پر قرار نہ پاسکیں  گے۔ (مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۵۷۳، جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۲۱۰، خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۹۰، ملتقطاً)

قیامت کی ہولناکیاں :

            اس آیت میں  قیامت کی چند ہولناکیاں  بیان ہوئیں  ،اس کی مزید ہولناکیاں  سنئے ،چنانچہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’وہ دن جس میں  کوئی شک نہیں  ،وہ دن جس میں  دلوں  کے رازوں  کا امتحان ہوگا، جس دن کوئی (کافر) نفس کسی نفس کے کام نہیں  آئے گا، وہ دن جب آنکھیں  کھلی کی کھلی رہ جائیں  گی، جس دن کوئی ساتھی کسی ساتھی کے کام نہیں  آئے گا ،جس دن کوئی کسی دوسرے نفس کے لیے کسی چیز کا مالک نہیں  ہوگا، جس دن (کفار کو) جہنم کی طرف بلایا جائے گا، جس دن ان کو چہروں  کے بل اوندھا گرایا جائے گا، جس دن ان کو اوندھے منہ جہنم میں  ڈالا جائے گا، جس دن باپ اولاد کے کام نہ آسکے گا، جس دن آدمی اپنے بھائی، ماں  اور باپ سے بھاگتا پھرے گا، جس دن لوگ بات نہیں  کرسکیں  گے اور نہ ان کو اجازت ہوگی کہ عذر پیش کریں ، جس دن اللّٰہ تعالیٰ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، جس دن لوگ ظاہر ہوں  گے، جس دن وہ جہنم میں  عذاب دیئے جائیں  گے جس دن مال اور اولاد نفع نہیں  دے گی، جس دن ظالموں  کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہیں  پہنچائے گی ،ان کے لیے لعنت اور برا گھر ہوگا، جس دن عذر نا منظور ہوں  گے اور دلوں  کی آزمائش ہوگی، پوشیدہ باتیں  ظاہر ہوں  گی اور پردے اٹھ جائیں  گے ،جس دن آنکھیں  جھکی ہوئی ہوں  گی اور آوازیں  بند ہوں  گی، اس دن توجہ کم ہوگی اور پوشیدہ باتیں  ظاہر ہوں  گی، گناہ بھی سامنے آجائیں  گے جس دن لوگوں  کو ان کے گواہوں  سمیت چلایا جائے گا، بچے جوان ہوجائیں  گے اور بڑے نشے میں  ہوں  گے، پس اس دن ترازو رکھے جائیں  گے اور اعمال نامے کھولے جائیں  گے،جہنم ظاہر کی جائے گی اور گرم پانی کو جوش دیا جائے گا،آگ مسلسل جلے گی اور کفار ناامید ہوں  گے،آگ بھڑکائی جائے گی اور رنگ بدل جائیں  گے، زبان گونگی ہوگی اور انسانی اعضا گفتگو کریں  گے۔تو اے انسان! تجھے اپنے کریم رب عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں  کس نے دھوکے میں  ڈالا کہ تو نے دروازے بند کردیئے اورپردے لٹکادیئے اور لوگوں  سے چھپ کر فسق و فجور میں  مبتلا ہوگیا، پس جب تیرے اعضا تیرے خلاف گواہی دیں  گے تو تو کیا کرے گا۔ اے غافلوں  کی جماعت ! ہمارے لئے مکمل خرابی ہے، اللّٰہ تعالیٰ ہمارے پاس تمام رسولوں  کے سردار (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو بھیجے اور آپ پر روشن کتاب نازل فرمائے اور ہمیں  قیامت کے ان اوصاف کی خبر دے، پھر ہماری غفلت سے بھی ہمیں  آگاہ کرے اور ارشاد فرمائے: ’’اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ(۱) مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ(۲) لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ‘‘(انبیاء۱-۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: لوگوں  کا حساب قریب آگیااور وہ غفلت میں  منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔جب ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے کھیلتے ہوئے ہی سنتے ہیں ۔ ان کے دل کھیل میں  پڑے ہوئے ہیں ۔

            پھر وہ ہمیں  بتائے کہ قیامت قریب ہے،جیسا کہ ارشاد فرماتا ہے

’’اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ‘‘ (قمر:۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔

            اور ارشاد فرماتا ہے

’’اِنَّهُمْ یَرَوْنَهٗ بَعِیْدًاۙ(۶) وَّ نَرٰىهُ قَرِیْبًا‘‘(معارج:۶ ،۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ اسے دور سمجھ رہے ہیں ۔اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں

            اور ارشاد فرماتا ہے

’’وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا‘‘ (احزاب:۶۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم کیا جانو شاید قیامت قریب ہی ہو۔

            پھر ہماری سب سے اچھی حالت تو یہ ہے کہ ہم اس قرآن پاک کے سبق پر عمل کریں ، لیکن ہم اس کے معانی میں  غور نہیں  کرتے اور روزِ قیامت کے بے شمار اَوصاف اور ناموں  کو نہیں  دیکھتے اور اس کے مَصائب سے نجات کے لیے کوشش نہیں  کرتے ۔ہم اس غفلت سے اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں  اللّٰہ تعالیٰ اپنی وسیع رحمت سے اس کا تَدارُک فرمائے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ یوم القیامۃ ودواہیہ واسامیہ، ۵ / ۲۷۶)

          نوٹ:قیامت کے دن کے مزید حالات جاننے کے لئے احیاء العلوم جلد4سے ’’موت اور اس کے بعد کے حالات‘‘ کا بیان اوربہار شریعت حصہ اول سے ’’معاد وحشر کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

 

14:44
وَ اَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْهِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَاۤ اَخِّرْنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ- نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَ نَتَّبِـعِ الرُّسُلَؕ- اَوَ لَمْ تَكُوْنُوْۤا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍۙ(۴۴)
اور لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ (ف۱۰۱) جب ان پر عذاب آئے گا تو ظالم (ف۱۰۲) کہیں گے اے ہمارے رب! تھوڑی دیر ہمیں (ف۱۰۳) مہلت دے کہ ہم تیرا بلانا مانیں (ف۱۰۴) اور رسولوں کی غلامی کریں (ف۱۰۵) تو کیا تم پہلے (ف۱۰۶) قسم نہ کھاچکے تھے کہ ہمیں دنیا سے کہیں ہٹ کر جانا نہیں (ف۱۰۷)

{وَ اَنْذِرِ النَّاسَ:اور لوگوں  کو ڈراؤ۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ لوگوں  کو قیامت کے دن سے ڈرائیں ،اس دن جب ان پر عذاب آئے گا تو شرک اور گناہ کر کے اپنی جانوں  پر ظلم کرنے والے کہیں  گے’’اے ہمارے رب !عَزَّوَجَلَّ، تھوڑی دیر کیلئے ہمیں  دنیا میں  واپس بھیج دے اور ہمیں  مہلت دیدے تا کہ  ہم سے جو قصور ہوچکے ان کی تلافی کرتے ہوئے تیری توحید کی دعوت کو قبول کر لیں  اور تیرے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی غلامی کر لیں  ۔ اس پر انہیں  ڈانٹ ڈپٹ کی جائے گی اور فرمایا جائے گا  کیا تم پہلے دنیا میں  اس بات کی قسمیں  نہ کھاچکے تھے کہ مرنے کے بعد بھی تم اسی حالت میں  رہو گے اور آخرت کے گھر کی طرف منتقل نہ ہو گے ؟ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۹۰، مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۵۷۳، ملتقطاً)

14:45
وَّ سَكَنْتُمْ فِیْ مَسٰكِنِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ تَبَیَّنَ لَكُمْ كَیْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَ ضَرَبْنَا لَكُمُ الْاَمْثَالَ(۴۵)
اور تم ان کے گھروں میں بسے جنہوں نے اپنا برا کیا تھا (ف۱۰۸) اور تم پر خوب کھل گیا ہم نے ان کے ساتھ کیسا کیا (ف۱۰۹) اور ہم نے تمہیں مثالیں دے کر بتادیا (ف۱۱۰)

{وَ سَكَنْتُمْ:اور تم رہے۔} یعنی تم ان لوگوں  کے گھروں  میں  رہے جنہوں  نے کفر اور گناہوں  کا اِرتِکاب کرکے  اپنی جانوں  پر ظلم کیا تھا جیسے کہ قومِ نوح ،عاد اور ثمود وغیرہ کہ تم انہی کی بستیوں  میں  دورانِ سفر ٹھہرتے تھے یا ان کے قرب و جوارسے گزرتے تھے اور تمہارے لئے بالکل واضح ہوگیا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور تم نے اپنی آنکھوں  سے اُن کے گھروں  میں  عذاب کے آثار اور نشان دیکھے اور تمہیں  اُن کی ہلاکت و بربادی کی خبریں  ملیں  یہ سب کچھ دیکھ کر اور جان کر تم نے عبرت کیوں  نہ حاصل کی اور تم کفر سے کیوں  باز نہ آئے ۔ ہم نے تمہیں  مثالیں  دے کر بتا دیاتاکہ تم تدبیر کرو اور سمجھو ، عذاب اور ہلاکت سے اپنے آپ کو بچاؤ ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۹۱، مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۵۷۴، ملتقطاً)

سابقہ قوموں  کے انجام سے نصیحت حاصل کرنے کی ترغیب:

            ان آیات میں  مسلمانوں  کے لئے بھی بڑی عبرت ونصیحت ہے اور انہیں  بھی چاہئے کہ سابقہ عذاب یافتہ قوموں  کے اعمال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اعمال کا جائزہ لیں  اور ان کے دنیوی انجام سے عبرت پکڑتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کرنے سے باز آ جائیں ،اگر دنیا میں  انہوں  نے نصیحت حاصل نہ کی اور اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نافرمانی سے باز نہ آئے تو مرنے کے بعد کوئی نصیحت انہیں  فائدہ نہ دے گی۔ حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں  :اے مسلمانو! (غور کرو کہ) اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور مقرب اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کہا ں  تشریف لے گئے؟ سابقہ بادشاہ اور جابر و سرکش لوگ کہاں  چلے گئے؟ (جب یہ دنیا میں  نہ رہے توتم بھی اس دنیا میں  نہ رہو گے) تو تمہیں  کیاہو گیا ہے کہ تم ان کی طرف نظر نہیں  کرتے اور عبرت حاصل نہیں  کرتے،اگر تم عقل رکھتے ہو تو نیک اعمال میں  خوب کوشش کر لواور اس دن سے ڈروجس میں  تم اللّٰہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر جان کو اس کی کمائی بھرپوردی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں  ہوگا۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۴۳۶)

شرعی قیاس حق ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیاسِ شرعی حق ہے کیونکہ آیت کا مَنشا یہ ہے کہ وہ لوگ کفر کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور کفر تو تم بھی کررہے ہو، لہٰذا تم بھی ہلاک ہونے کے لائق ہو، علت کے اِشتراک سے حکم مشترک ہوتا ہے اور اسی کو فقہ میں  قیاس کہتے ہیں ۔

14:46
وَ قَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَ عِنْدَ اللّٰهِ مَكْرُهُمْؕ- وَ اِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ(۴۶)
اور بیشک وہ (ف۱۱۱) اپنا سا داؤں (فریب) چلے (ف۱۱۲) اور ان کا داؤں اللہ کے قابو میں ہے، اور ان کا داؤں کچھ ایسانہ تھا جس سے یہ پہاڑ ٹل جائیں (ف۱۱۳)

{وَ قَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ:اور بیشک انہوں  نے اپنی سازش کی۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اہلِ مکہ نے اسلام کو مٹانے اور کفر کی تائید کرنے کے لئے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ  سازش کرتے ہوئے یہ ارادہ کیاتھا کہ سرکارِ دو عالَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو شہید کر دیاجائے یا قید کر لیا جائے یا مکہ مُکرّمہ سے نکال دیا جائے ۔اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ  ان کی سازش اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے علم میں تھی اور ان کی سازش کوئی ایسی نہیں  تھی کہ اس سے پہاڑ ٹل جائیں یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی  آیات اور شریعتِ مصطفی کے اَحکام جو اپنی قوت و ثَبات میں  مضبوط پہاڑوں  کی مانند ہیں  ،محال ہے کہ کافروں  کے مکر اور اُن کی حیلہ انگیزیوں  سے وہ اپنی جگہ سے ٹل سکیں ۔(مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۵۷۴، جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۲۱۰، ملتقطاً)

          نوٹ:کفارِ مکہ کی اس سازش کی تفصیل سورہ اَنفال کی آیت نمبر 30کی تفسیر میں  گزر چکی ہے۔

{فَلَا تَحْسَبَنَّ:تو تم ہر گز خیال نہ کرنا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے سننے والے!تم ہر گز ایسا خیال نہ کرنا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کئے ہوئے وعدے کے خلاف کرے گا، یہ تو ممکن ہی نہیں  وہ ضرور وعدہ پورا کرے گا اور اپنے رسول کی مدد فرمائے گا، اُن کے دین کو غالب کرے گا اوراُن کے دشمنوں  کو ہلاک کرے گا۔ (صاوی، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۱۰۳۱، خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۹۱، ملتقطاً)

14:47
فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗؕ- اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍؕ(۴۷)
تو ہر گز خیال نہ کرنا کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلاف کرے گا (ف۱۱۴) بیشک اللہ غالب ہے بدلہ لینے والا،

14:48
یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ(۴۸)
جس دن (ف۱۱۵) بدل دی جائے گی زمین اس زمین کے سوا اور آسمان (ف۱۱۶) اور لوگ سب نکل کھڑے ہوں گے (ف۱۱۷) ایک اللہکے سامنے جو سب پر غالب ہے

{یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ:جس دن زمین بدل دی جائے گی۔} اس دن سے قیامت کا دن مراد ہے اور زمین و آسمان کی تبدیلی کے بارے میں  مفسرین کے دو قول ہیں ۔ ایک یہ کہ اُن کے اوصاف بدل دیئے جائیں  گے مثلاً زمین ایک سطح ہو جائے گی ،نہ اُس پر پہاڑ باقی رہیں  گے نہ بلند ٹیلے نہ گہرے غار، نہ درخت نہ عمارت نہ کسی بستی اور اقلیم کا نشان اور آسمان پر کوئی ستارہ نہ رہے گا اور سورج وچاند کی روشنیاں  معدوم ہو جائیں  گی ۔یہ تبدیلی اوصاف کی ہے ذات کی نہیں ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آسمان و زمین کی ذات ہی بدل دی جائے گی، اس زمین کی جگہ ایک دوسری چاندی کی زمین ہوگی ،سفید و صاف ہو گی جس پر نہ کبھی خون بہایا گیا ہو گا نہ گناہ کیا گیا ہو گا اور آسمان سونے کا ہوگا ۔یہ دو قول اگر چہ بظاہر ایک دوسرے کے مخالف معلوم ہوتے ہیں  مگر ان میں  سے ہر ایک اپنی جگہ صحیح ہے وہ اس طرح کہ پہلی مرتبہ زمین و آسمان کی صفات تبدیل ہوں گی اور دوسری مرتبہ حساب کے بعد دوسری تبدیلی ہوگی۔ اس میں  زمین و آسمان کی ذاتیں  ہی بدل جائیں  گی۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۹۲)

14:49
وَ تَرَى الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَىٕذٍ مُّقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِۚ(۴۹)
اور اس دن تم مجرموں (ف۱۱۸) کو دیکھو گے کہ بیڑیوں میں ایک دوسرے سے جڑے ہوں گے (ف۱۱۹)

{وَ تَرَى الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَىٕذٍ:اور اس دن تم مجرموں  کو دیکھو گے ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ قیامت کے دن کافروں  کو بیڑیوں  میں  اپنے شیطانوں  کے ساتھ بندھا ہو ادیکھیں  گے۔ (جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۲۱۰)

قیامت کے دن مومن و کافر کی پہچان:

            اس سے معلوم ہوا کہ محشر میں  کفار اور مومن ظاہری علامات سے ہی پہچان لئے جائیں  گے کہ کافروں  کے منہ کالے ، ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے اور پاؤں  بیڑیوں  میں  بندھے ہوئے ہوں  گے جبکہ مومنوں  کا حال اس کے برعکس ہوگا۔

14:50
سَرَابِیْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّ تَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ النَّارُۙ(۵۰)
ان کے کرُتے رال ہوں گے (ف۱۲۰) اور ان کے چہرے آ گ ڈھانپ لے گی

{سَرَابِیْلُهُمْ:ان کے کرتے ۔} یعنی قیامت کے دن کافروں  کے کرتے سیاہ رنگ اور بدبودار تارکول کے ہوں  گے جن سے آگ کے شعلے اور زیادہ تیز ہوجائیں ۔ (مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۵۷۵، خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۹۳، ملتقطاً)

             تفسیر بیضاوی میں  ہے کہ ان کے بدنوں  پر رال لیپ دی جائے گی تووہ کرتے کی طرح ہوجائے گی، اس کی سوزش اور اس کے رنگ کی وحشت و بدبو سے تکلیف پائیں  گے ۔ (بیضاوی، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۳۵۸)

{وَ تَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ النَّارُ:اور ان کے چہروں  کو آ گ ڈھانپ لے گی۔} یعنی کافروں  کے جسموں  پر لپٹے ہوئے تارکول سے آگ کے شعلے اتنے بلند ہوں  گے کہ آگ ان کے چہروں  کو ڈھانپ لے گی۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۴ / ۴۳۷)

{لِیَجْزِیَ اللّٰهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ:تاکہ اللّٰہ ہر جان کو اس کی کمائی کا بدلہ دے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ کافروں  کو یہ سزا اس لئے دے گا تاکہ وہ ہر مجرم شخص کو ا س کے کئے ہوئے کفر اور گناہوں  کا ایسا بدلہ دے جو اس کے جرم کے مطابق ہو۔ بیشک اللّٰہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۴۳۷)

14:51
لِیَجْزِیَ اللّٰهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْؕ- اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(۵۱)
اس لیے کہ اللہ ہر جان کو اس کی کمائی کا بدلہ دے، بیشک اللہ کو حساب کرتے کچھ دیر نہیں لگتی،

14:52
هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِهٖ وَ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ لِیَذَّكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠(۵۲)
یہ (ف۱۲۱) لوگوں کو حکم پہنچانا ہے اور اس لیے کہ وہ اس سے ڈرائے جائیں اور اس لیے کہ وہ جان لیں کہ وہ ایک ہی معبود ہے (ف۱۲۲) اور اس لیے کہ عقل والے نصیحت مانیں،

{هٰذَا:یہ۔} اس آیت میں  قرآن پاک کے نزول کی کئی حکمتیں  بیان کی گئی ہیں ۔(1) اس قرآن شریف میں  لوگوں  کے لئے تبلیغ اور نصیحت ہے۔ (2) قرآن میں  موجود عبرت انگیز واقعات اور زَجرو توبیخ کے ذریعے لوگوں  کو ڈرایا جائے۔ (3) لوگ  اس کی آیات سے اللّٰہ تعالیٰ کی توحید کی دلیلیں  پائیں  ۔ (4) عقل والے اور سمجھدار لوگ اس قرآن کے ذریعے نصیحت حاصل کریں۔(خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۹۳، ملخصاً)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اِبرٰهِيْم
اِبرٰهِيْم
  00:00



Download

اِبرٰهِيْم
اِبرٰهِيْم
  00:00



Download