READ

Surah Faatir

اَلْفَاطِر
45 Ayaat    مکیۃ


35:41
اِنَّ اللّٰهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا ﳛ وَ لَىٕنْ زَالَتَاۤ اِنْ اَمْسَكَهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِهٖؕ-اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا(۴۱)
بیشک اللہ روکے ہوئے ہے آسمانوں اور زمین کو کہ جنبش نہ کریں (ف۱۰۲) اور اگر وہ ہٹ جائیں تو انہیں کون روکے اللہ کے سوا، بیشک وہ علم بخشنے والا ہے،

{اِنَّ اللّٰهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا: بیشک اللہ آسمانوں  اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ حرکت نہ کریں ۔} بیشک اللہ تعالیٰ آسمانوں  اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ وہ اپنی جگہ سے حرکت نہ کریں  ورنہ آسمان و زمین کے درمیان شرک جیسی مَعْصِیَت ہو تو آسمان و زمین کیسے قائم رہیں  اور قسم ہے کہ اگر وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں  تو اللہ تعالیٰ کے سواکوئی اور انہیں  روک نہیں  سکتا۔ بیشک اللہ تعالیٰ حِلم والا ہے اسی لئے وہ کفار کو جلد سزا نہیں  دیتا اور جو اس کی بارگاہ میں  توبہ کر لے تواسے بخشنے والا ہے۔(خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۵۳۷-۵۳۸، روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۷ / ۳۵۸، ملتقطاً)

35:42
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَىٕنْ جَآءَهُمْ نَذِیْرٌ لَّیَكُوْنُنَّ اَهْدٰى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِۚ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِ لَّا نُفُوْرَاۙﰳ(۴۲)
اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنی قسموں میں حد کی کوشش سے کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈر سنانے والا آیا تو وہ ضرور کسی نہ کسی گروہ سے زیادہ راہ پر ہوں گے (ف۱۰۳) پھر جب ان کے پاس ڈر سنانے والا تشریف لایا (ف۱۰۴) تو اس نے انہیں نہ بڑھا مگر نفرت کرنا (ف۱۰۵)

{وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ: اور انہوں  نے اپنی قسموں  میں  حد بھر کی کوشش کر کے اللہ کی قسم کھائی۔} نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثَت سے پہلے قریش نے یہودیوں  اور عیسائیوں  کے اپنے رسولو ں  کو نہ ماننے اور ان کو جھٹلانے کے بارے میں  کہا تھا کہ’’اللہ تعالیٰ اُن پر لعنت کرے کہ اُن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول آئے اور اُنہوں نے انہیں  جھٹلایا اور نہ مانا، خدا کی قسم! اگر ہمارے پاس کوئی رسول آئے تو ہم اُن سے زیادہ راہِ راست پر ہوں  گے اور اس رسول کو ماننے میں  ان کے بہتر گروہ پر سبقت لے جائیں  گے۔لیکن جب ان کے پاس حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رونق افروزی اور جلوہ آرائی ہوئی تو حق و ہدایت سے ان کی نفرت اور دوری میں  ہی اضافہ ہوا۔(خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۵۳۸، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۹۸۲، ملتقطاً)

35:43
اسْتِكْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَكْرَ السَّیِّئِؕ-وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖؕ-فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَۚ-فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا ﳛ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِیْلًا(۴۳)
اپنی جان کو زمین میں اونچا کھینچنا اور برا داؤں (ف۱۰۶) اور برا داؤں (فریب) اپنے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے (ف۱۰۷) تو کا ہے کے انتظار میں ہیں مگر اسی کے جو اگلوں کا دستور ہوا (ف۱۰۸) تو تم ہرگز اللہ کے دستور کو بدلتا نہ پاؤ گے اور ہرگز اللہ کے قانون کو ٹلتا نہ پاؤ گے،

{اِسْتِكْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَكْرَ السَّیِّئِ: زمین میں  بڑائی چاہنے اور برا مکروفریب کرنے کی وجہ سے (وہ ایمان نہ لائے)۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ زمین میں  بڑائی چاہنے اوربرا مکروفریب کرنے کی وجہ سے حق و ہدایت سے کفارِ قریش کی نفرت میں  ہی اضافہ ہوا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جب کفار کے پاس تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے تو حق و ہدایت سے ان کی نفرت،ایمان لانے سے تکبر اور برامکرو فریب کرنے میں  ہی اضافہ ہوا۔ برے مکر وفریب کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد شرک اورکفر ہے ۔دوسرا قول یہ ہے کہ ا س سے مراد رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ مکرو فریب کرنا ہے۔( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۵۳۸)

تکبر کیسی بیماری ہے؟

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ تکبر وغرور ایسی بری بیماری ہے کہ اس کی وجہ سے انسان نبی کی پیروی سے محروم رہتا ہے جبکہ بارگاہِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں  عاجزی اور اِنکسار ی ایمان کا ذریعہ ہے ۔ کفارِ مکہ کے کفر کی وجہ یہی ہوئی کہ انہوں  نے اپنے کو نبی سے بڑھ کر جانا اور بولے کہ ہم ان سے زیادہ مالد ار ہیں اور اکثر کفار نے نبیوں  کو اپنے جیسے بشر کہا۔

{وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ: اور برا مکروفریب اپنے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔} یعنی برا فریب مَکار پر ہی پڑتا ہے، چنانچہ فریب کاری کرنے والے بدر میں  مارے گئے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۹۸۲)

جو کسی کیلئے گڑھا کھودے تو خود ہی ا س میں  گرتا ہے:

             حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت کعب اَحبار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے کہا ’’ تورات میں  یہ آیت ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کے لئے گڑھا کھودتا ہے وہ خودا س میں  گر جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: ’’قرآن میں  بھی ایسی آیت ہے۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا:کہاں  ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ آیت پڑھ لو:

’’وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور برا مکروفریب اپنے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔( تفسیر قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۷ / ۲۶۱، الجزء الرابع عشر)

            فی زمانہ ہمارے معاشرے میں  ایک دوسرے کے خلاف سازشیں  کرنے اور سازشی لوگوں  کی مدد کرنے کا مرض بہت عام ہے، کار و باری اور تاجر حضرات ایک دوسرے کے خلاف،نوکری پیشہ حضرات اپنے ساتھیوں  کے خلاف، چھوٹے منصب والے بڑے منصب والوں  کے خلاف اورہم منصب اپنے منصب والوں  کے ساتھ ،اسی طرح گھریلو اور خاندانی نظامِ زندگی میں  ساس بہو ایک دوسرے کے خلاف، بیوی اور شوہر کے خلاف، ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کے خلاف، یونہی ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے خلاف سازشیں  کرتے نظر آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت نصیب کرے۔کسی کے خلاف سازش کرنے اور سازش کرنے والوں  کی مدد کرنے کا انجام بہت برا ہے ۔

            حضرت قیس بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سازش کرنے والے اور دھوکہ دینے والے جہنم میں  ہیں ۔( مسند الفردوس، باب المیم، ۴ / ۲۱۷، الحدیث: ۶۶۵۸)

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی کے خادم کو اس کے خلاف کیا تو وہ ہم میں  سے نہیں  اور جس نے کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکایا تو وہ ہم میں  سے نہیں۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۳۵۶، الحدیث: ۹۱۶۸)

            امام زہری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم کسی کے خلاف سازش نہ کرو اور نہ ہی کسی سازش کرنے والے کی مدد کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور برا مکروفریب اپنے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔( تفسیر قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۷ / ۲۶۱، الجزء الرابع عشر)

{ فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ: تو وہ پہلے لوگوں کے دستورہی کا انتظار کررہے ہیں ۔} یہاں  بیان فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کفار آپ کو جھٹلا کر اس بات کا انتظار کر رہے ہیں  کہ جس طرح ان سے پہلے رسولوں  کو جھٹلانے والوں  پر عذاب نازل ہوا اسی طرح ان پر بھی عذاب نازل ہو۔ ا س کے بعد فرمایا کہ رسولوں  کو جھٹلانے والے کے بارے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا دستور تبدیل نہیں  ہوتا اور نہ ہی وہ اپنے وقت سے ٹلتا ہے بلکہ وہ لازمی طور پر پورا ہوتا ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۹۸۲، ملخصاً)

35:44
اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ كَانُوْۤا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةًؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعْجِزَهٗ مِنْ شَیْءٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّهٗ كَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًا(۴۴)
اور کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتے ان سے اگلوں کا کیسا انجام ہوا (ف۱۰۹) اور وہ ان سے زور میں سخت تھے (ف۱۱۰) اور اللہ وہ نہیں جس کے قابو سے نکل سکے کوئی شئے آسمانوں اور نہ زمین میں، بیشک وہ علم و قدرت والا ہے،

{اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ: اور کیا انہوں  نے زمین میں  سفر نہ کیا۔} یعنی کیا کفار ِمکہ نے شام ،عراق اور یمن کے سفروں  میں  انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والو ں  کی ہلاکت وبربادی اور ان کے عذاب اور تباہی کے نشانات نہیں  دیکھے تاکہ اُن سے عبرت حاصل کرتے حالانکہ وہ تباہ شدہ قومیں  ان اہلِ مکہ سے طاقت وقوت میں  زیادہ تھیں ، اس کے باوجود ان سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ وہ عذاب سے بھاگ کر کہیں  پناہ لے سکیں ،اور اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں  کہ آسمانوں  اور زمین میں کوئی شے اسے عاجز کرسکے۔ بیشک وہ تمام موجودات کاعلم رکھنے والا اور تمام مُمکنات پر قدرت رکھنے والا ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۹۸۲، روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۴، ۷ / ۳۶۲، ملتقطاً)

35:45
وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِیْرًا۠(۴۵)
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے کیے پر پکڑتا (ف۱۱۱) تو زمین کی پیٹھ پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا لیکن ایک مقرر میعاد (ف۱۱۲) تک انہیں ڈھیل دیتا ہے پھر جب ان کا وعدہ آئے گا تو بیشک اللہ کے سب بندے اس کی نگاہ میں ہیں (ف۱۱۳)

{وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا: اور اگر اللہ لوگوں  کو ان کے اعمال کے سبب پکڑتا۔} یعنی اگر اللہ تعالیٰ لوگوں  کو ان کے گناہوں  کی وجہ سے پکڑتا تو زمین کی پیٹھ پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا لیکن وہ مقرر ہ مدت یعنی قیامت کے دن تک انہیں  ڈھیل دیتا ہے پھر جب ان کے عذاب کی مقررہ مدت آئے گی تو یاد رکھو کہ بیشک اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں  کو دیکھ رہا ہے،وہ انہیں  اُن کے اعمال کی جزا دے گا اور جو لوگ عذاب کے مستحق ہیں  انہیں  عذاب فرمائے گا اور جو لائقِ کرم ہیں  ان پر رحم و کرم کرے گا۔(خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۵۳۸، جلالین، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۳۶۸، ملتقطاً)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْفَاطِر
اَلْفَاطِر
  00:00



Download

اَلْفَاطِر
اَلْفَاطِر
  00:00



Download