Surah Az-Zalzala
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا: جب زمین تھرتھرا دی جائے گی جیسے اس کا تھرتھرانا طے ہے۔} ارشاد فرمایا کہ جب زمین اپنے زلزلے کے ساتھ تھرتھرا دی جائے گی اور زمین پر کوئی درخت ،کوئی عمارت اور کوئی پہاڑ باقی نہ رہے گا حتّٰی کہ زلزلے کی شدت سے ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔زمین کا یہ تَھرتھرانا اس وقت ہو گا جب قیامت نزدیک ہو گی یا قیامت کے دن زمین تھر تھرائے گی۔ (خازن، الزّلزلۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۰۰)
قیامت کا زلزلہ کتنا ہَولْناک ہے اس کے بارے میں ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْۚ-اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ(۱)یَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِیْدٌ‘‘(حج:۱،۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو ،بیشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔جس دن تم اسے دیکھو گے (تو یہ حالت ہوگی کہ)ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حمل والی اپنا حمل ڈال دے گی اور تو لوگوں کو دیکھے گا جیسے نشے میں ہیں حالانکہ وہ نشہ میںنہیں ہوں گے لیکن ہے یہ کہ اللّٰہ کا عذاب بڑا شدید ہے۔
{وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَا: اور زمین اپنے بوجھ باہر پھینک دے گی۔} یعنی جب زمین اپنے اندر موجود خزانے اور مردے سب نکال کر باہر پھینک دے گی۔ یاد رہے انسان اور جِنّات بوجھ والے وجود ہیں جب تک زمین کے اوپر موجود ہیں تو وہ زمین پر بوجھ ہیں اور جب زمین کے اندر ہوں تو زمین کے لئے بوجھ ہیں اسی وجہ سے انسانوں اور جِنّات کو ثَقَلَین کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مردہ ہوں یا زندہ زمین ان کا بوجھ اٹھاتی ہے۔( مدارک، الزّلزلۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۳۶۸، خازن، الزّلزلۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۴۰۰-۴۰۱، ملتقطاً)
زمین کے اس عمل کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ وَ اِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْۙ(۳)وَاَلْقَتْ مَا فِیْهَا وَ تَخَلَّتْۙ(۴)وَ اَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَ حُقَّتْؕ(۵) یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِیْهِ ‘‘(انشقاق:۳-۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب زمین کو دراز کر دیا جائے گا۔اور جو کچھ اس میں ہے زمین اسے (باہر)ڈال دے گی اور خالی ہوجائے گی۔اور وہ اپنے رب کا حکم سنے گی اور اسے یہی لائق ہے۔اے انسان!بیشک تو اپنے رب کی طرف دوڑنے والا ہے پھر اس سے ملنے والا ہے۔
اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’زمین سونے چاندی کے ستونوں جیسے اپنے جگر پارے اگل دے گی،قاتل دیکھ کر کہے گا کہ اسی(مال ) کی وجہ سے تو میں نے قتل کیا تھا،رشتہ دار ی توڑنے والا کہے گا:اسی وجہ سے تو میں نے رشتہ داری توڑی تھی،چور دیکھ کر کہے گا کہ اسی مال کی وجہ سے میرا ہاتھ کاٹا گیا تھا پھر سب اس مال کو چھوڑ دیں گے اور کوئی اس میں سے کچھ نہیں لے گا۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الترغیب فی الصدقۃ قبل ان لا یوجد من یقبلہا، ص۵۰۵، الحدیث: ۶۲(۱۰۱۳))
{وَ قَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَهَا: اور آدمی کہے گا:اسے کیا ہوا؟ } یعنی اس زلزلے کے وقت جو لوگ موجود ہوں گے وہ حیرت سے کہیں گے:زمین کو کیا ہو ا کہ ایسی مُضطَرِب ہوئی اور اتنا شدید زلزلہ آیا کہ جو کچھ اس کے اندر تھا اس نے سب باہر پھینک دیا۔( روح البیان، الزّلزلۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۴۹۲)
{یَوْمَىٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا: اس دن وہ اپنی خبریں بتائے گی۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جب یہ اُمور واقع ہوں گے تو اس دن زمین اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے مخلوق کو اپنی خبریں بتائے گی اور جو نیکی بدی اس پر کی گئی وہ سب بیان کرے گی اور اس سے مقصود یہ ہو گا کہ زمین نافرمانوں سے شکوہ کرسکے اور فرمانبرداروں کا شکریہ ادا کر سکے ،چنانچہ وہ یہ کہے گی کہ’’فلاں شخص نے مجھ پر نماز پڑھی، فلاں نے زکوٰۃ دی ، فلاں نے روزے رکھے اور فلاں نے حج کیا جبکہ فلاں نے کفر کیا ، فلاں نے زنا کیا ، فلاں نے چوری کی ، فلاں نے ظلم کیا حتّٰی کہ کافر (یہ سن کر)تمنا کرے گا کہ اسے جہنم میں پھینک دیا جائے ۔( خازن، الزّلزلۃ، تحت الآیۃ: ۴-۵، ۴ / ۴۰۱، تفسیر کبیر، الزّلزلۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۱۱ / ۲۵۵، ملتقطاً)
ہمارے اعمال کے گواہ :
اس سے معلوم ہوا کہ زمین ہمارے اعمال پر گواہ ہے اور قیامت کے دن یہ ہمارے سامنے ہمارے اعمال بیان کر دے گی۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ آیت’’ یَوْمَىٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا‘‘ تلاوت فرمائی ،پھر ارشاد فرمایا’’تم جانتے ہو کہ اس(زمین) کی خبریں کیا ہیں ؟صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی :اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ زیادہ جانتے ہیں ۔ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر مرد و عورت پرا س کے ان اعمال کی گواہی دے گی جو انہوں نے اس کی پیٹھ پر کئے،وہ کہے گی :اِس نے فلاں دن یہ عمل کیا اوراُ س نے فلان دن یہ عمل کیا،یہی اس کی خبریں ہیں ۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ و الرقائق و الورع، ۷-باب منہ، ۴ / ۱۹۴، الحدیث: ۲۴۳۷)
لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ گناہ کرتے وقت زمین سے محتاط رہے۔ حضرت ربیعہ جرشی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’زمین سے محتاط رہو کہ یہ تمہاری اصل ہے اور جو کوئی اس پر اچھا یا برا عمل کرے گایہ اس کی خبر دے گی ۔( معجم الکبیر، باب الرائ، ربیعۃ بن الغاز الجرشی... الخ، ۵ / ۶۵، الحدیث: ۴۵۹۶)
اسی طرح ہمارے اَعضاء جن سے ہم گناہ کرتے ہیں ،یہ بھی ہمارے اَعمال پر گواہ ہیں اور قیامت کے دن یہ وہ سب اعمال بیان کر دیں گے جو ان سے کئے گئے ہوں گے، چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا ‘‘(بنی اسرائیل:۳۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سبکے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(نور:۲۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔
لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ جب اپنے کان،آنکھ،دل،زبان،ہاتھ اور پاؤں سے کوئی گنا ہ کرنے لگے تو وہ یہ بات پیشِ نظر رکھے کہ قیامت کے دن یہی اَعضاء اِس کے اُس گناہ کی گواہی دیں گے۔
{یَوْمَىٕذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا: اس دن لوگ مختلف حالتوں میں لوٹیں گے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگ حساب کی جگہ پر پیش ہونے کے بعد وہاں سے کئی راہیں ہو کر لوٹیں گے، کوئی دائیں طرف سے ہو کر جنت کی طرف جائے گا اور کوئی بائیں جانب سے ہو کر دوزخ کی طرف جائے گا تاکہ انہیں ان کے اعمال کی جزاء دکھائی جائے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جس دن وہ اُمور واقع ہوں گے جن کا ذکر کیا گیا تو ا س دن لوگ اپنی قبروں سے حساب کی جگہ کی طرف مختلف حالتوں میں لوٹیں گے کہ کسی کا چہرہ سفید ہو گا اور کسی کا چہرہ سیاہ ہو گا،کوئی سوار ہو گا اور کوئی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا پیدل ہو گا،کوئی امن کی حالت میں ہو گا اور کوئی خوفزدہ ہو گا تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں ۔( خازن، الزّلزلۃ، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۴۰۱، روح البیان، الزّلزلۃ، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۴۹۳، ملتقطاً)
{وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ: اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔} حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ ہر مومن اور کافر کو قیامت کے دن اس کے نیک اوربرے اعمال دکھائے جائیں گے، مومن کو اس کی نیکیاں اور برائیاں دکھا کر اللّٰہ تعالیٰ برائیاں بخش دے گا اور نیکیوں پر ثواب عطا فرمائے گا اورکافر کی نیکیاں رد کردی جائیں گی کیونکہ وہ کفر کی وجہ سے ضائع ہوچکیں اور برائیوں پر اس کو عذاب کیا جائے گا۔
حضرت محمد بن کعب قرظی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرما تے ہیں کہ کافر نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی تووہ اس کی جزا دنیا ہی میں دیکھ لے گا یہاں تک کہ جب دنیا سے نکلے گا تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہوگی اور مومن اپنی برائیوں کی سزا دنیا میں پائے گا تو آخرت میں اس کے ساتھ کوئی برائی نہ ہوگی۔بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے پہلی آیت مومنین کے بارے میں ہے اور یہ آیت کفار کے بارے میں ہے۔( خازن، الزّلزلۃ، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۴۰۱، مدارک، الزّلزلۃ، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۳۶۸، ملتقطاً)
نیکی تھوڑی سی بھی کارآمد اور گناہ چھوٹا سا بھی وبال ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیکی تھوڑی سی بھی کارآمد ہے اور گناہ چھوٹا سا بھی وبال ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بندہ کبھی اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی کی بات کہتا ہے اور اُس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتا(یعنی بعض باتیں انسان کے نزدیک نہایت معمولی ہوتی ہیں ) اللّٰہ تعالیٰ اُس (بات) کی وجہ سے اس کے بہت سے درجے بلند کرتا ہے اور کبھی اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضگی کی بات کرتا ہے اور اُس کاخیال بھی نہیں کرتااِس(بات) کی وجہ سے جہنم میں گرتا ہے۔( بخاری، کتاب الرّقاق، باب حفظ اللسان، ۴ / ۲۴۱، الحدیث: ۶۴۷۸)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan