Surah at-Tin
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ: انجیر کی قسم اور زیتون کی۔ } اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے انجیر اور زیتون کی قسم ارشاد فرمائی کیونکہ ان چیزوں میں ایسے فوائد اور منافع موجود ہیں جو ان کے خالق، رب تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرتے ہیں ،جیسے انجیر انتہائی عمدہ میوہ ہے جس میں فُضلہ نہیں اور یہ بہت جلد ہضم ہونے والا،زیادہ نفع والا،،قبض دور کر دینے والا،مثانے میں موجود ریت اور پتھری نکال دینے والا ،جگر اور تلی میں پھنسی گندے مواد کی گانٹھ کوکھول دینے والا، بدن کو فربہ کرنے والا اوربلغم کو چھانٹنے والا ہے جبکہ زیتون ایک مبارک درخت ہے، اس کا تیل روشنی کے کام لایا جاتا ہے ، سالن کی طرح کھایا بھی جاتا ہے اوریہ وصف دنیا کے کسی تیل میں نہیں ،اس کا درخت خشک پہاڑوں میں پیدا ہوتا ہے جن میں چکنائی کا نام و نشا ن نہیں ، بغیر خدمت کے پرورش پاتا ہے اور ہزاروں برس باقی رہتا ہے۔( خازن، والتین، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۹۰، روح البیان، التین، تحت الآیۃ: ۱، ۱۰ / ۴۶۶-۴۶۷، ملتقطاً)
انجیر اور زیتون کے بارے میں اَحادیث:
انجیر کے بارے میں حضرت ابو ذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’انجیر کھاؤ،اگر میں کہوں کہ یہ وہ پھل ہے جو کہ جنت سے نازل ہو اہے تو کہہ سکتا ہوں کیونکہ جنت کے پھل میں گٹھلی نہیں ہوتی تو اسے کھاؤ کیونکہ یہ بواسیر کو ختم کرتا اور گنٹھیا کے درد میں فائدہ پہنچاتا ہے۔( مسند فردوس، باب الکاف، ۳ / ۲۴۳، الحدیث: ۴۷۱۶)
اورزیتون کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ وَ شَجَرَةً تَخْرُ جُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَآءَ تَنْۢبُتُ بِالدُّهْنِ وَ صِبْغٍ لِّلْاٰكِلِیْنَ‘‘(مؤمنون:۲۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (ہم نے) درخت (پیدا کیا )جوطور سینا پہاڑ سے نکلتا ہے، تیل اور کھانے والوں کے لیے سالن لے کر اگتا ہے۔
اورحضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’برکت والے درخت زیتون کی مسواک بہت اچھی ہے کیونکہ یہ منہ کو خوشبودار کرتی اور اس کی بدبو زائل کرتی ہے،یہ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مسواک ہے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۲۰۱، الحدیث: ۶۷۸)
{وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ: اورطورِ سینا کی۔ } طور وہ پہاڑ ہے جس پر اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے ساتھ کلام کرنے سے مشرف فرمایا اور سینااس جگہ کا نام ہے جہاں یہ پہاڑ واقع ہے اور ا س جگہ کو سینا ا س کے خوش مَنظر ہونے یا مبارک ہونے کی وجہ سے کہتے ہیں ۔بعض مفسرین کے نزدیک طورِ سیناسے مراد خوش منظر یا مبارک پہاڑ ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک ہر اس پہاڑ کو طورِ سینا کہتے ہیں جہاں کثرت سے پھل دار درخت ہوں ۔( تفسیر کبیر، التین، تحت الآیۃ: ۲، ۱۱ / ۲۱۱-۲۱۲)
اس سے معلوم ہوا کہ جس جگہ اور مقام کو اللّٰہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کے ساتھ نسبت حاصل ہو جائے وہ جگہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عظمت والی ہو جاتی ہے۔
{وَهٰذَاالْبَلَدِالْاَمِیْنِ: اور اس امن والے شہر کی۔ } یعنی اور اس امن والے شہر مکہ مکرمہ کی قسم! امام عبد اللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’انجیر، زیتون،طورِ سینا اور مکہ مکرمہ کی قسم ذکر فرمانے سے ان بابرکت مقامات کی عظمت و شرافت ظاہر ہوئی اور انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے ان مقامات پر رہنے کی وجہ سے ظاہر ہونے والی خیر وبرکت واضح ہوئی،چنانچہ جس جگہ انجیر اور زیتون اُگتا ہے وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہجرت گاہ ہے اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت اور پرورش بھی اسی جگہ ہوئی۔طور وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ندا دی گئی اور مکہ مکرمہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ولادت ہوئی،اسی شہر میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنی نبوت و رسالت کا اعلان فرمایا اورا سی شہر میں خانہ کعبہ ہے (جس کی طرف منہ کر کے پوری دنیا کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں )۔( مدارک، التین، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۳۶۰)
{ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ: بیشک یقینا ہم نے آدمی کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا۔ } اللّٰہ تعالیٰ نے انجیر،زیتون،طور سینا اور شہر مکہ کی قسم ذکر کر کے ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے آدمی کو سب سے اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ،اس کے اَعضاء میں مناسبت رکھی،اسے جانوروں کی طرح جھکا ہوا نہیں بلکہ سیدھی قامت والا بنایا، ،اسے جانوروں کی طرح منہ سے پکڑ کر نہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر کھانے والا بنایا اوراسے علم، فہم، عقل، تمیز اور باتیں کرنے کی صلاحیت سے مُزَیّن کیا۔( خازن، والتین، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۹۱، مدارک، التین، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۳۶۰، ملتقطاً)
اللّٰہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کا ذریعہ:
اگر انسان اللّٰہ تعالیٰ کی دیگر مخلوقات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تخلیق میں غور کرے تو اس پر روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے گا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اسے حسن ِصوری اور حسن ِمعنوی کی کیسی کیسی عظیم نعمتیں عطا کی ہیں اور ا س چیز میں جتنا زیادہ غور کیا جائے اتنا ہی زیادہ اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت کی معرفت حاصل ہوتی جائے گی اور اس عظیم نعمت کو بہت اچھی طرح سمجھ جائے گا۔
{ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ: پھر اسے ہر نیچی سے نیچی حالت کی طرف پھیردیا۔ } اس کا ایک معنی یہ ہے کہ انسان کو سب سے اچھی صورت پر پیدا کرنے کے بعد اسے بڑھاپے کی طرف پھیر دیا اور اس وقت بدن کمزور، اَعضاء ناکارہ، عقل ناقص ،پُشت خم اور بال سفید ہوجاتے ہیں ، جلد میں جھریاں پڑ جاتی ہیں اور وہ اپنی ضروریات انجام دینے میں مجبور ہوجاتا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جب اس نے اچھی شکل و صورت کی شکر گزاری نہ کی ،اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی پر جما رہا اور ایما ن نہ لایا تو اس کا انجام یہ ہو ا کہ ہم نے جہنم کے سب سے نچلے دَرکات کو اس کا ٹھکانا کردیا۔( خازن، والتین، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۹۱، مدارک، التین، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۳۶۰-۱۳۶۱، ملتقطاً)
آیت ’’ ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے تین باتیں معلوم ہوئیں
(1)…اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت پر کمر بستہ ہونے کے لئے بڑھاپے کو منتخب کرنا عقلمندی نہیں کیونکہ بڑھاپے میں عبادت کے لئے اَعضاء میں وہ طاقت باقی نہیں رہتی جو جوانی میں ہوتی ہے۔
(2)…اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں انسانی شکل و صورت کی جو نعمت عطا کی ہے اس کا شکر کرتے ہوئے ہمیں اس کی نافرمانی کرنے سے بچنا چاہئے۔
(3)…پیدائش کے بعد طاقت اور قوت دینا اور اس کے بعد کمزوری کی طرف لوٹا دینا ا س بات کی دلیل ہے کہ جو ذات اس چیز پر قادر ہے وہ ہماری موت کے بعد ہمیں دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِؕ-اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ‘‘(یس:۶۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جسے ہم لمبی عمر دیتے ہیں تو خلقت وبناوٹ میں ہم اسے الٹا پھیردیتے ہیں ،تو کیا وہ سمجھتے نہیں ؟
اور ارشاد فرمایا:’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْؕ-وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْۚ-وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْــٴًـا‘‘(حج:۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے لوگو!اگر تمہیں قیامت کے دناُٹھنے کے بارے میں کچھ شک ہو تو(اس بات پر غور کرلو کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر پانی کی ایک بوند سے پھرجمے ہوئے خون سے پھر گوشت کی بوٹی سے جس کی شکل بن چکی ہوتی ہے اور ادھوری بھی ہوتی ہے تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی
قدرت کو ظاہر فرمائیں اور ہم ماؤں کے پیٹ میں جسے چاہتے ہیں اسے ایک مقرر مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تمہیں بچے کی صورت میں نکالتے ہیں پھر (عمر دیتے ہیں )تا کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں کوئی پہلے ہی مرجاتا ہے اور کوئی سب سے نکمی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے تاکہ (بالآخر)جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔
{اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: مگر وہ لوگ جو ایمان لائے۔ } یعنی جو لوگ ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے تو ان کیلئے بے انتہا ثواب ہے اگرچہ بڑھاپے کی کمزوری کے باعث وہ جوانی کی طرح کثیر عبادات بجا نہ لا سکے اور ان کے عمل کم ہو جائیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ کے کرم سے انہیں وہی اجر ملے گا جو جوانی اور قوت کے زمانہ میں عمل کرنے سے ملتا تھا اور ان کے اتنے ہی عمل لکھے جائیں گے جتنے جوانی میں لکھے جاتے تھے اور جہنم کے سب سے نچلے دَرکات ان کا ٹھکانہ نہ ہو گا۔( خازن، والتین، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۳۹۱، مدارک، التین، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۳۶۱، ملتقطاً)
اسی طرح کا معاملہ ایک حدیث پاک میں بھی بیان کیاگیا ہے ،چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مسلمان بندہ جب بیمار ہو جائے یا سفر میں ہو تو ا س کے لئے ان اعمال کا ثواب لکھا جائے گاجو وہ تندرست اور مقیم ہونے کی حالت میں کیا کرتا تھا(لیکن بیماری یا سفر کی وجہ سے نہ کر پایا)۔( مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۷ / ۱۷۷، الحدیث: ۱۹۷۷۴)
آیت’’ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں
(1)… ایمان، اعمال پر مقدم ہے اورایمان کے بغیرکوئی نیکی درست نہیں ۔
(2)… لمبی عمر ملنا اور اعمال کا نیک ہونا بہت بڑی نعمت ہے۔حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’ایک اَعرابی نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میں عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ارشاد فرمایا: ’’وہ شخص سب سے بہتر ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہوں ۔ اس نے عرض کی:لوگوں میں سب سے برا کون ہے؟ ا رشاد فرمایا:’’وہ شخص سب سے برا ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برے ہوں ۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۲۲-باب منہ، ۴ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۳۷)
{فَمَا یُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ: تو اب کونسی چیز تجھے انصاف کے جھٹلانے پر آمادہ کرتی ہے۔ } یعنی اے کافر انسان! کیا تو نے اپنی صورت میں ،اپنی تخلیق کی ابتداء میں ،اپنی جوانی اور بڑھاپے میں غور نہیں کیا تاکہ تو یہ کہہ دیتا کہ جو ذات ان چیزوں پر قادر ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ مجھے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے اور مجھ سے میرے اعمال کا حساب لے اور اس قطعی دلیل اور روشن حجت کے بعد اب کونسی چیز تجھے انصاف کے دن کو جھٹلانے پر آمادہ کرتی ہے اور تو اللّٰہ تعالیٰ کی یہ قدرتیں دیکھنے کے باوجود کیوں مرنے کے بعد اٹھائے جانے ،قیامت کے دن حساب ہونے اور اعمال کی جزا ملنے کا انکار کرتا ہے۔( خازن، والتین ، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۳۹۱، ملخصاً)
{اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِیْنَ: کیا اللّٰہ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ؟ } حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو سورۂ’’وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ‘‘ پڑھتے ہوئے ’’اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِیْنَ ‘‘ پڑھے تو اسے چاہئے کہ وہ یہ کہے ’’بَلٰی وَاَنَا عَلٰی ذَالِکَ مِنَ الشَّاہِدِیْن‘‘ یعنی کیوں نہیں ، یقینا ہے اور میں ا س بات پر گواہوں میں سے ہوں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ والتین، ۵ / ۲۳۰، الحدیث: ۳۳۵۸)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan