READ

Surah at-Tariq

اَلطَّارِق
17 Ayaat    مکیۃ


86:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

86:1
وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِۙ(۱)
آسمان کی قسم اور رات کے آنے والے کی، ف۲)

{وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ: آسمان کی اور رات کو آنے والے کی قسم۔} شانِ نزول :ایک رات سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں  ابو طالب کچھ ہدیہ لائے ،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس کو تَناوُل فرما رہے تھے کہ اسی دوران ایک ستارا ٹوٹا اور پوری فضا آگ سے بھر گئی۔ ابو طالب گھبرا کر کہنے لگے کہ یہ کیا ہے؟نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کہ یہ ستارہ ہے جس سے شَیاطین مارے جاتے ہیں  اور یہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں  سے ہے۔ ابو طالب کو اس سے تعجب ہوا تو اللّٰہ تعالیٰ نے (اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی تصدیق میں ) یہ آیات نازل فرمائیں۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 3آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان کی اور رات میں  خوب چمکنے والے ستارے کی قسم ذکر کر کے ارشاد فرمایا کہ ہر جان پر اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک نگہبان مقررہے جو اس کے اعمال کی نگہبانی کرتا ہے او راس کی نیکی بدی سب لکھ لیتا ہے۔ حضر ت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ یہاں  نگہبان سے مراد فرشتے ہیں ۔( خازن، الطّارق، تحت الآیۃ: ۱-۴، ۴ / ۳۶۸)

            ان فرشتوں  کے بارے میں  اللّٰہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً‘‘(انعام:۶۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے۔

 آیت ’’اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَیْهَا حَافِظٌ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… اگرچہ رب تعالیٰ اس بات پرقادر ہے کہ خود سب کی ہر طرح حفاظت فرمائے ، مگر قانون یہ ہے کہ یہ کام اس کے مقرر کردہ فرشتے کریں ۔

(2)… رب تعالیٰ کے بعض نام اس کے بندوں  کو دے سکتے ہیں ، جیسے اللّٰہ تعالیٰ کا ایک نام حافظ ہے اور یہاں  آیت میں  فرشتوں کو حافظ بتایا گیا، لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہمارے حافظ وناصرہیں۔

86:2
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الطَّارِقُۙ(۲)
اور کچھ تم نے جا نا وه رات کو آنے والا کیا ہے،

86:3
النَّجْمُ الثَّاقِبُۙ(۳)
خوب چمکتا تارا،

86:4
اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَیْهَا حَافِظٌؕ(۴)
کوئی جان نہیں جس پر نگہبان نہ ہو (ف۳)

86:5
فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَؕ(۵)
تو چاہئے کہ آدمی غور کرے کہ کس چیز سے بنا یا گیا (ف۴)

{فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ: انسان کو غور کرنا چاہئے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا۔} اس سے پہلی آیات میں  اللّٰہ تعالیٰ نے قسم ذکر فرما کر یہ بات ارشاد فرمائی کہ ہر جان پر ایک نگہبان مقرر ہے جو ا س کے اعمال کی نگہبانی کرتا ہے اور اس کے اعمال لکھ لیتا ہے اور اس آیت میں  انسان کو اپنی تخلیق کی ابتداء میں  غور کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے تاکہ وہ یہ بات جان لے کہ جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا ہے وہ اُس انسان کی موت کے بعد جزا دینے کے لئے اسے دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے لہٰذا انسان کو چاہئے کہ وہ ا س دن کے لئے عمل کرے جس دن اسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اسے جزا دی جائے گی۔( مدارک، الطّارق، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۳۳۸)

86:6
خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍۙ(۶)
جَست کرتے (اوچھلتے ہوئے) پانی سے، ف۵)

{خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ: اچھل کر نکلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا۔} یہاں  سے وہ چیز بیان کی گئی ہے جس سے اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو اچھل کر نکلنے والے پانی یعنی مرد اور عورت کے نطفوں  سے پیدا کیاجو کہ عورت کے رحم میں  مل کر ایک ہوجاتے ہیں  اور یہ نطفہ مَردوں  کی پیٹھ اور عورتوں  کے سینوں  کے درمیان سے نکلتا ہے۔حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ یہ پانی عورت کے سینے کے اس مقام سے نکلتا ہے جہاں  ہار پہنا جاتا ہے اوراِنہیں  سے منقول ہے کہ عورت کی دونوں  چھاتیوں  کے درمیان سے نکلتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ منی انسان کے تمام اَعضاء سے برآمد ہوتی ہے اور اس کا زیادہ حصہ دماغ سے مرد کی پشت میں  آتا ہے اورعورت کے بدن کے اگلے حصے کی بہت سی ان رگوں میں  سے آتا ہے جوسینے کے مقام پر ہیں  ،اسی لئے یہاں  ان دونوں  مقامات کا ذکر خصوصیت سے فرمایا گیا۔( مدارک، الطّارق، تحت الآیۃ: ۶-۷، ص۱۳۳۸، خازن، الطّارق، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۴ / ۳۶۸، ملتقطاً)

{اِنَّهٗ عَلٰى رَجْعِهٖ لَقَادِرٌ: بیشک اللّٰہ اس کے واپس کرنے پر ضرورقادر ہے۔} یعنی انسان کا اپنی تخلیق میں  غور کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ جس رب تعالیٰ نے انسان کو نطفہ سے پہلی بار پیدا کر دیا تو وہ انسان کی موت کے بعد اسے دوبارہ زندگی کی طرف لوٹا دینے پرخاص طور پر قادر ہے۔( صاوی، الطّارق، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۲۳۴۶، مدارک، الطّارق، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۳۳۸، ملتقطاً)

86:7
یَّخْرُ جُ مِنْۢ بَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَآىٕبِؕ(۷)
جو نکلتا ہے پیٹھ اور سینوں کے بیچ سے (ف۶)

86:8
اِنَّهٗ عَلٰى رَجْعِهٖ لَقَادِرٌؕ(۸)
بے شک اللہ اس کے واپس کرینے پر(ف۷) قادر ہے

86:9
یَوْمَ تُبْلَى السَّرَآىٕرُۙ(۹)
جس دن چھپی باتوں کی جانچ ہوگی (ف۸)

{یَوْمَ تُبْلَى السَّرَآىٕرُ: جس دن چھپی باتوں  کو جانچا جائے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جس دن چھپی باتوں  کو ظاہر کر دیا جائے گا تو اس دن مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کاا نکار کرنے والے آدمی کے پاس نہ کوئی ایسی قوت ہوگی جس سے وہ عذاب کو روک سکے اور نہ اس کا کوئی ایسا مددگار ہوگا جو اُسے عذاب سے بچا سکے۔ چھپی باتوں  سے مراد عقائد ،نیتیں  اور وہ اعمال ہیں  جن کو آدمی چھپاتا ہے اور قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ ان سب کو ظاہر کردے گا۔(مدارک، الطّارق، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ص۱۳۳۸-۱۳۳۹، خازن، الطّارق، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ۴ / ۳۶۹، ملتقطاً)

قیامت کے دن پوشیدہ اعمال ظاہر کر دئیے جائیں  گے :

معلوم ہو اکہ بندے کے عقائد، نیتیں  اور اعمال اگرچہ دنیا میں  کسی پر ظاہر نہ ہو سکیں  لیکن قیامت کے دن اس کا کیا دھرا سب سامنے آجائے گا۔ چنانچہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’هُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّاۤ اَسْلَفَتْ وَ رُدُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ‘‘(یونس:۳۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہاں  ہر آدمی اپنے سابقہ اعمال کو جانچلے گا اور انہیں  اللّٰہ کی طرف لوٹایا جائے گا جو ان کا سچا مولیٰ ہے۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَىٕذٍۭ بِمَا قَدَّمَ وَ اَخَّرَؕ(۱۳) بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌ‘‘(قیامہ:۱۳، ۱۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس دن آدمی کو اس کا سب اگلا پچھلا بتادیا جائے گا۔بلکہ آدمی خود ہی اپنے حال پر پوری نگاہ رکھنے والا ہوگا۔

لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے ظاہری اعمال درست کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے باطنی اور پوشیدہ اعمال کو بھی درست کرے تاکہ قیامت کے دن لوگوں  کے سامنے رسوا ہونے سے بچ سکے ۔

86:10
فَمَا لَهٗ مِنْ قُوَّةٍ وَّ لَا نَاصِرٍؕ(۱۰)
تو آدمی کے پاس نہ کچھ زور ہوگا نہ کوئی مددگار (ف۹)

86:11
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِۙ(۱۱)
آسمان کی قسم! جس سے مینھ اترتا ہے (ف۱۰)

{وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ: اس آسمان کی قسم جولوٹ لوٹ کر برستا ہے۔} توحید اور حشر و نشر کے دلائل بیان فرمانے کے بعد یہاں  سے زمین و آسمان کی قسم ارشاد فرما کر قرآنِ پاک کی حقیقت کو بیان کیا گیاہے،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی 3آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آسمان کی قسم جس سے بار بار بارش اترتی ہے اوراس زمین کی قسم جسے سبزہ نکالنے کیلئے پھاڑا جاتا ہے ،بیشک قرآن ضرور فیصلہ کردینے والا کلام ہے کہ یہ حق اورباطل میں  فرق و اِمتیاز کردیتا ہے اور قرآن کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں  ہے جو نکمی اور بے کار ہو۔( تفسیرکبیر،الطّارق، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۴، ۱۱ / ۱۲۲-۱۲۳، خازن، الطّارق، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۴، ۴ / ۳۶۹، ملتقطاً)

            ان آیات میں  ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ آسمان جس سے بار بار بارش نازل ہوتی ہے،یہ زمینی پیداوار، نباتات اور درختوں  کے لئے باپ کی طرح ہے اورپھاڑی جانے والی زمین نباتات کے لئے ماں  کی طرح ہے اور یہ دونوں  اللّٰہ تعالیٰ کی عجیب نعمتیں  ہیں  اور ان میں  اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے بے شمار آثار نمودار ہیں  جن میں  غور کرنے سے آدمی کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے بہت سے دلائل ملتے ہیں ۔( روح البیان، الطّارق، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۴۰۰، ملخصاً)

قرآن فیصلہ ُکن کلام ہے:

            قرآنِ مجیدکی اس شان اور اس کے علاوہ دیگر شانوں  کے بارے میں  حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں ،میں  نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب ایک فتنہ برپا ہوگا۔ میں  نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہو گا؟آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب، جس میں  تمہارے اگلوں  اور پچھلوں  کی خبریں  ہیں اور تمہارے آپس کے فیصلے ہیں  ،قرآن فیصلہ کُن ہے اور یہ کوئی مذاق نہیں  ہے ۔ جو ظالم اسے چھوڑ دے گا اللّٰہ تعالیٰ اسے تباہ کردے گا اور جو اس کے غیر میں  ہدایت ڈھونڈے گا اللّٰہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دے گا، وہ اللّٰہ تعالیٰ کی مضبوط رسی اور وہ حکمت والا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے ، قرآن وہ ہے جس کی برکت سے خواہشات بگڑتی نہیں  اور جس کے ساتھ دوسری زبانیں  مل کر اسے مُشتَبہ و مشکوک نہیں  بناسکتیں  ، جس سے علماء سیر نہیں  ہوتے ،جو زیادہ دہرانے سے پرانا نہیں  پڑتا ،جس کے عجائبات ختم نہیں  ہوتے ، قرآن ہی وہ ہے کہ جب اسے جِنّات نے سنا تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو اچھائی کی رہبر ی کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے ،جو قرآن کا قائل ہو وہ سچا ہے، جس نے اس پر عمل کیا وہ ثواب پائے گا اور جو اس کے مطابق فیصلہ کرے گا وہ مُنصِف ہوگا اور جو اس کی طرف بلائے گا وہ سیدھی راہ کی طرف بلائے گا۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل القرآن، ۴ / ۴۱۴، الحدیث: ۲۹۱۵)

86:12
وَ الْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِۙ(۱۲)
اور زمین کی جو اس سے کھلتی ہے (ف۱۱)

86:13
اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌۙ(۱۳)
بیشک قرآن ضرور فیصلہ کی بات ہے (ف۱۲)

86:14
وَّ مَا هُوَ بِالْهَزْلِؕ(۱۴)
اور کوئی ہنسی کی بات نہیں (ف۱۳)

86:15
اِنَّهُمْ یَكِیْدُوْنَ كَیْدًاۙ(۱۵)
بیشک کافر اپنا سا داؤ چلتے ہیں (ف۱۴)

{اِنَّهُمْ یَكِیْدُوْنَ كَیْدًا: بیشک کافر اپنی چالیں  چل رہے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ اللّٰہ تعالیٰ کے دین کو مٹانے،حق کے نور کو بجھانے اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو تکلیف پہنچانے کے لئے طرح طرح کی چالیں  چل رہے ہیں  اور میں  اپنی خفیہ تدبیر فرماتا ہوں  جس کی انہیں  خبر نہیں  تواے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ کافروں  کی ہلاکت کی دعا نہ فرمائیں  بلکہ انہیں  ڈھیل دیں  اور انہیں  چند روز کے لئے کچھ تھوڑی سی مہلت دیں  کیونکہ وہ عنقریب ہلاک کر دئیے جائیں  گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور غزوۂ بدر میں  انہیں  اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب نے اپنی گرفت میں  لے لیا۔( خازن، الطّارق، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۷، ۴ / ۳۶۹، مدارک، الطّارق، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۷، ص۱۳۳۹، ملتقطاً)

86:16
وَّ اَكِیْدُ كَیْدًاۚۖ(۱۶)
اور میں اپنی خفیہ تدبیر فرماتا ہوں (ف۱۵)

86:17
فَمَهِّلِ الْكٰفِرِیْنَ اَمْهِلْهُمْ رُوَیْدًا۠(۱۷)
تو تم کافروں کو ڈھیل دو (ف۱۶) انہیں کچھ تھوڑی مہلت دو (ف۱۷)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلطَّارِق
اَلطَّارِق
  00:00



Download

اَلطَّارِق
اَلطَّارِق
  00:00



Download