Surah at-Takwir
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ: جب سورج کو لپیٹ دیاجائے گا۔} اس سورت کی ابتدائی 14آیات میں 12چیزوں کو ذکر کیا گیا ہے۔
(1)…جب سورج کے نور کوزائل کر دیا جائے گا ۔
(2)… جب ستارے جھڑکر بارش کی طرح آسمان سے زمین پر گر پڑیں گے اور کوئی ستارہ اپنی جگہ پر باقی نہ رہے گا۔
(3)… جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور غبار کی طرح ہوا میں اڑتے پھریں گے۔
(4)… جب وہ اونٹنیاں جن کے حمل کو دس مہینے گذر چکے ہوں گے اور ان کا دودھ نکالنے کا وقت قریب آگیا ہو گا، آزاد پھریں گی کہ ان کو نہ کوئی چرانے والا ہو گا اورنہ ان کا کوئی نگراں ہو گا ، اس دن کی دہشت اور ہَولْناکی کا یہ عالَم ہو گا اور لوگ اپنے حال میں ایسے مبتلا ہوں گے کہ ان اونٹنیوں کی پرواہ کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔
(5)… جب قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے کے بعد وحشی جانور جمع کیے جائیں گے تاکہ وہ ایک دوسرے سے بدلہ لیں ، پھر خاک کردیئے جائیں ۔
(6)… جب سمندر سلگائے جائیں گے،پھر وہ خاک ہو جائیں گے ۔
(7)… جب جانوں کے جوڑ بنیں گے۔ مفسرین نے اس کے مختلف معنی بیان کئے ہیں (1) نیک لوگ نیکوں کے ساتھ اور برے لوگ بروں کے ساتھ کر دئیے جائیں گے۔ ــــ(2)جانیں اپنے جسموں کے ساتھ یا اپنے عملوں کے ساتھ ملادی جائیں گی۔(3) ایمانداروں کی جانیں حوروں کے ساتھ اور کافروں کی جانیں شَیاطِین کے ساتھ ملادی جائیں گی۔(4) روحیں اپنے جسموں کی طرف لوٹا دی جائیں گی۔
(8)… جب اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جو زندہ دفن کی گئی ہو کہ کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا؟۔اہلِ عرب کا دستور تھا کہ زمانۂ جاہلیّت میں وہ لڑکیوں کو زمین میں زندہ دفن کردیتے تھے اور یہ سوال قاتل کی سرزنش کے لئے ہوگا تاکہ و ہ لڑکی جواب دے کہ میں بے گناہ ماری گئی تھی۔
(9)… جب نامۂ اعمال حساب کے لئے کھولے جائیں گے۔
(10)…جب آسمان اپنی جگہ سے ایسے کھینچ لیا جائے گا جیسے ذبح کی ہوئی بکری کے جسم سے کھال کھینچ لی جاتی ہے۔
(11)… جب جہنم کو اللّٰہ تعالیٰ کے دشمنوں کے لئے بھڑکایا جائے گا۔
(12)… اور جب جنت کو اللّٰہ تعالیٰ کے پیاروں کے قریب لایا جائے گا۔اس کے بعد فرمایا کہ جب یہ 12چیزیں واقع ہوں گی تو اس وقت ہر جان کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کون سی نیکی یا بدی اپنے ساتھ لے کر حاضر ہوئی ہے۔( خازن ، التکویر ، تحت الآیۃ : ۱-۱۴ ، ۴ / ۳۵۵- ۳۵۶، مدارک، تحت الآیۃ: ۱-۱۴، ص۱۳۲۴-۱۳۲۵، جلالین مع صاوی، التکویر، تحت الآیۃ: ۱-۱۴، ۶ / ۲۳۱۹-۲۳۲۱، ملتقطاً)
{وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىٕلَتْ: اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائیگا۔} حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے نام لے کر فرمایا’’ایک صاحب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، میں نے زمانۂ جاہلیّت میں اپنی آٹھ بیٹیوں کو زندہ زمین میں دفن کر دیا تھا (اب میرے لئے کیا حکم ہے) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم ہر بیٹی کی طرف سے ایک غلام آزاد کر دو۔اس شخص نے دوبارہ عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، (میرے پاس غلام نہیں ہیں البتہ) میں اونٹوں کا مالک ہوں ۔ارشاد فرمایا:’’اگر تم چاہو تو ہر بیٹی کے بدلے ایک اونٹ ہدیہ کر دو۔( معجم الکبیر، باب القاف، من اسمہ: قیس، قیس بن عاصم المنقری، ۱۸ / ۳۳۷، الحدیث: ۸۶۳)
بیٹیو ں سے متعلق دین ِاسلام کا عظیم کارنامہ:
یہ دین ِاسلام کا ہی عظیم کارنامہ ہے جس نے بیٹیوں کو اپنے لئے بدنامی کا باعث سمجھ کرزمین میں زندہ دفن کر دینے والے لوگوں کو اس انسانیّت کُش ظلم کا احساس دلا یا اوران لوگوں کی نظروں میں بیٹی کی عزت اور وقار قائم کیا اور بیٹیوں کے فضائل بیان کر کے معاشرے میں برسوں سے جاری اس دردناک عمل کا خاتمہ کر دیا ، اس سے معلوم ہو اکہ اسلا م عورتوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ انہیں ہر طرح کے ظلم سے بچاتا ہے، چاہے وہ ظلم ان کی ناحق زندگی ختم کر کے کیا جائے یا ان کی عزت و ناموس اور ان کے جسم کے ساتھ کھیل کر یا ان کے جسم کی نمائش کروا کر کیا جائے۔اس سے ان لوگوں کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا چاہئے جوعورت کے بارے دین ِاسلام کے اَحکامات کو اس کے اوپر ظلم قرار دیتے ہیں ، چادر و چار دیواری کو عورت کے حق میں ناانصافی کہتے ہیں اورروشن خیالی اور نام نہادتہذیب و تَمَدُّن کے نام پر عورت کوشرم و حیا سے عاری کرنے میں اسلام کی شان سمجھتے ہیں ۔
{وَ اِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ: اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی۔} اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن جہنم کی بھڑک میں مزید اضافہ کیا جائے گا تاکہ وہ کفار کو ہمیشہ کے لئے جلاتی رہے ورنہ جہنم تو جب سے پیدا کی گئی ہے تب سے ہی بھڑک رہی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جہنم کی آگ ایک ہزار سال بھڑکائی گئی یہاں تک کہ وہ سرخ ہو گئی،پھر ایک ہزار سال بھڑکائی گئی یہاں تک کہ وہ سفید ہو گئی،پھر ایک ہزار سال بھڑکائی گئی یہاں تک کہ وہ سیاہ ہو گئی،اب وہ ا نتہائی سیاہ ہے۔( ترمذی، کتاب صفۃ جہنم، ۸-باب منہ، ۴ / ۲۶۶، الحدیث: ۲۶۰۰)
{عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّاۤ اَحْضَرَتْ: ہر جان کو معلوم ہوجائے گا جو حاضر لائی۔} جب لوگوں کو اپنے کئے ہوئے اچھے برے اعمال معلوم ہوں گے تو اس وقت ان کا جو حال ہو گا اس کے بارے میں ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا ﳝ- وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍۚۛ-تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَ بَیْنَهٗۤ اَمَدًۢا بَعِیْدًاؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ‘‘(ال عمران:۳۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: (یاد کرو)جس دن ہر شخص اپنے تمام اچھے اور برے اعمال اپنے سامنے موجود پائے گا توتمنا کرے گاکہ کاش اس کے درمیان اور اس کے اعمال کے درمیان کوئیدور دراز کی مسافت (حائل) ہوجائے اور اللّٰہ تمہیں اپنےعذاب سے ڈراتا ہے اور اللّٰہ بندوں پر بڑامہربان ہے۔
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان آیات میں زیادہ سے زیادہ غور کرے تاکہ ا س کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اوراسے گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی سوچ نصیب ہو۔
{فَلَاۤ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ: تو ان ستاروں کی قسم جو اُلٹے چلیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی6آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! تمہارا یہ گمان کہ قرآن جادو یا شعر یا اگلے لوگوں کی کہانیاں ہے،ہر گزدرست نہیں ، مجھے ان ستاروں کی قسم! جو الٹے چلیں اور سیدھے چلیں اوراپنے چھپنے کی جگہوں پرچھپ جائیں ،اور رات کی قسم! جب وہ جانے لگے اور اس کی تاریکی ہلکی پڑجائے ،اور صبح کی قسم! جب وہ ظاہر ہو جائے اوراس کی روشنی خوب پھیل جائے، بیشک یہ قرآن اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے عزت والے رسول حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کا پہنچایا ہواکلام ہے جو کہ قوت والا ہے ، عرش کے مالک کے حضور عزت و مرتبے والا ہے اور آسمانوں میں فرشتے اس کی اطاعت کرتے ہیں اور وہ اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک اللّٰہ تعالیٰ کی وحی پہنچانے پرامانت دار ہے۔( روح البیان، التکویر، تحت الآیۃ: ۱۵، ۱۰ / ۳۴۹، خازن، التکویر، تحت الآیۃ: ۱۵-۲۱، ۴ / ۳۵۶-۳۵۷، ملتقطاً)
{اَلْجَوَارِ الْكُنَّسِ: جوسیدھے چلیں ، چھپ جائیں ۔} حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ ان (آیات میں جن کا ذکر ہے ان) سے مراد وہ پانچ سیارے ہیں جنہیں ’’ خمسۂ مُتَحَیِّرہ‘‘ کہا جاتا ہے،وہ یہ ہیں (1)زُحَل۔ (2)مُشْتَرِی۔(3)مِرِّیخ۔(4) زُہْرَہ۔(5) عُطَارِدْ۔اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان سے تمام ستارے مراد ہیں۔(قرطبی،التکویر،تحت الآیۃ:۱۶،۱۰ / ۱۶۶،الجزء التاسع عشر، مدارک، التکویر، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۳۲۵،ملتقطاً)
{اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ: بیشک یہ ضرور عزت والے رسول کا کلام ہے۔} جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’رسول کریم‘‘ سے مراد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ہیں البتہ بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہاں رسولِ کریم سے مرادحضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہیں جیسا کہ علامہ ابوالحسن علی بن محمد ماوردی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں مذکور ’’رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ‘‘ کے بارے میں دو قول ہیں ،ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہیں ۔( النکت والعیون، التکویر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۶ / ۲۱۸)
اورعلامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ‘‘ سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام مراد ہیں اور بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہیں ۔( البحر المحیط، التکویر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۸ / ۴۲۵)
اور علامہ قاضی عیاض رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شفاء شریف میں فرماتے ہیں ’’حضرت علی بن عیسیٰ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں ’’رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ‘‘ سے مراد نبیٔ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہیں ۔ اس قول کے مطابق اس کے بعد والی آیات میں مذکور اوصاف نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ہیں اور ان کے علاوہ مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں ’’رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ‘‘ سے مراد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ہیں ۔ اس صورت میں اگلی آیات میں مذکور اوصاف حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ہوں گے۔( شفاء شریف، القسم الاول، الفصل الخامس، ص۳۹، الجزء الاول)
{ذِیْ قُوَّةٍ: جو قوت والا ہے۔} حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی قوت کا یہ عالَم ہے کہ انہوں نے حضرتِ لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیاں جڑ سے اکھاڑ کر اپنے پروں پر رکھ لیں اور انہیں آسمان کی بلندی تک اٹھا کر پلٹ دیا۔ایک مرتبہ ابلیس کو بیتُ المقدس کی سرزمین پرایک وادی میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کلام کرتے ہوئے دیکھا تو اسے ایک پھونک مار کر ہند کے دور دراز پہاڑوں میں پھینک دیا۔ایک چیخ مار کر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے دلوں کو پھاڑ دیا اور وہ اس چیخ سے ہلاک ہو گئے۔ان کی طاقت کا یہ حال تھا کہ پلک جھپکنے میں آسمان سے زمین پر تشریف لاتے اور پھر زمین سے آسمان پر پہنچ جاتے۔( خازن، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۳۵۷)
حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی طاقت:
اب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی طاقت اور قوت کی کچھ جھلک ملاحظہ ہو۔چنانچہ قرآنِ پاک کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ‘‘(حشر:۲۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تم اسے جھکا ہوا، اللّٰہ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًا ‘‘(دہر:۲۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے حبیب!) بیشک ہم نے تم پر تھوڑا تھوڑا کرکے قرآن اتارا۔
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہ تعالیٰ سے اپنا دیدار کروانے کی دعا کی تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا:
’’لَنْ تَرٰىنِیْ وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْۚ-فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا‘‘(اعراف:۱۴۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا ،البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ، یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نو ر چمکایا تواسے پاش پاش کردیا اور موسیٰ بیہوش ہوکر گر گئے۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰىؕ(۷) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰىۙ(۸) فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ(۹) فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ(۱۰) مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى(۱۱) اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى(۱۲) وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ(۱۳) عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى(۱۴)عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰىؕ(۱۵) اِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰىۙ(۱۶) مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى‘‘(نجم:۷۔۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس حال میں کہ وہ آسمان کے سب سے بلند کنارہ پر تھے۔پھر وہ جلوہ قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔تو دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔پھر اس نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو اس نے وحی فرمائی۔دل نے اسے جھوٹ نہ کہا جو (آنکھ نے) دیکھا۔تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑ تے ہو۔اور انہوں نے تو وہ جلوہ دوبار دیکھا۔سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔اس کے پاس جنت الماویٰ ہے۔جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا۔ آنکھ نہ کسی طرف پھری اور نہ حد سے بڑھی۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے زیادہ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو طاقت اور قوت عطا فرمائی ہے ۔
{عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَكِیْنٍ: عرش کے مالک کے حضور عزت والا ہے۔} حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو عزت مقام اور مرتبہ حاصل ہے وہ کسی اور فرشتے کے پاس نہیں ۔
بارگاہِ رب قدیر عَزَّوَجَلَّ میں مقامِ حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ:
اب یہاں اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی عزت،مقام اور مرتبے کے بے شمار پہلوؤں میں سے 5 پہلو ملاحظہ ہوں ۔
(1)…اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جہاں بھی اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے خطاب کیا توحضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے نام سے نہیں بلکہ اَوصاف اور اَلقاب سے یاد کیا۔
(2)…اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر مدینہ منورہ کے یہودیوں اور مکہ مکرمہ کے مشرکین کی اس جاہلانہ گفتگو کا رد کرنے کے لئے اسے نقل کیا جو وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے بارے میں کرتے تھے لیکن ان گستاخوں کی اس بے اَدبانہ ندا کا کہ نام لے کر حضور کو پکارتے اسے نقل کرنے کے طور پر بھی ذکر نہ کیا ، ہاں جہاں انہوں نے وصف ِکریم سے ندا کی تھی اگرچہ ان کے گمان میں مذاق اڑانے کے طور پر تھی اسے قرآنِ کریم میں نقل کیا گیا۔
(3)…اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے شہر کی قسم ،ان کی باتوں کی قسم، ان کے زمانے کی قسم اور ان کی جان کی قسم بیان فرمائی۔یہ وہ مقام ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ۔
وہ خدانے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا ترے شہر و کلام و بقا کی قسم
(4)…دیگر اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کفار نے جو جاہلانہ اور بیہودہ گفتگو کی ا س کا جواب ان انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہی اپنے حِلم اور فضل کے لائق دیا لیکن جب اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی شان میں کفار نے زبان درازی کی تو اس کا جواب خود رب تعالیٰ نے دیا۔
(5)…نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو یہ پسند تھا کہ خانہ کعبہ قبلہ ہو جائے اور ایک دن ا س امید پر آسمان کی طرف بار بار دیکھا کہ قبلہ کی تبدیلی کاحکم آ جائے تو اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪-فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘(بقرہ:۱۴۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: ہم تمہارے چہرے کا آسمان کی طرف بارباراٹھنا دیکھ رہے ہیں تو ضرور ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیردیں گے جس میں تمہاری خوشی ہے تو ابھی اپناچہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر دو۔
الغرض اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو جو مقام اور مرتبہ حاصل ہے اسے مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ۔
یَا صَاحِبَ الْجَمَالْ وَ یَا سَیِّدَ الْبَشَرْ
مِنْ وَّجْہِکَ الْمُنِیرْ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ
لَا یُمْکِنُ الثَّنَاءُکَمَا کَانَ حَقُّہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اوراعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
تیرے تو وَصف ’’عیبِ تناہی‘‘ سے ہیں بَری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
کہہ لے گی سب کچھ اُن کے ثناخواں کی خامشی
چپ ہورہا ہے کہہ کے میں کیا کیا کہوں تجھے
لیکن رضاؔ نے ختمِ سخن اس پہ کردیا
خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے
{مُطَاعٍ ثَمَّ: وہاں اس کا حکم مانا جاتا ہے۔} آسمان میں فرشتے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت کرتے ہیں ، جیسے معراج کی رات ان کے کہنے پر فرشتوں نے آسمان کے دروازے کھول دئیے اور جنت کے خازن نے جنت کے دروازے کھول دئیے۔( خازن، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۳۵۷)
یہ تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت کا حال ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی اطاعت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ‘‘(النساء:۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللّٰہ کا حکم مانا۔
جبکہ حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کے لئے کہیں نہیں فرمایا کہ ان کی اطاعت اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔
{اَمِیْنٍ: امانت دار ہے۔} حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام اللّٰہ تعالیٰ کی وحی اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک پہنچانے میں امانت دار ہیں اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس وحی کو مخلوق تک پہنچانے میں امانت دار ہیں ،اللّٰہ تعالیٰ کے اَسرار اور رُموز میں امانت دار ہیں اور آپ ایسے امانت دار ہیں کہ آپ کی جان کے دشمن بھی آپ کو امین کہتے اور اپنی امانتیں بے خوف و خطر آپ کے پاس رکھوا دیتے تھے۔
{وَ مَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُوْنٍ: اور تمہارے صاحب ہرگز مجنون نہیں ۔} یہ بھی اس سے پہلی آیات میں مذکور قسم کا جواب ہے کہ کفارِ مکہ جو میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو مجنون کہتے ہیں ایساہر گز نہیں ہے۔( خازن، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۳۵۷) اس سے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضورِاَ قدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا مقام و مرتبہ معلوم ہو اکہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی شان میں گستاخی کفار نے کی اور ان کی گستاخی کا جواب خود رب تعالیٰ نے دیا۔
{وَ لَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ: اور یقینا بیشک انہوں نے اسے روشن کنارے پر دیکھا۔} یعنی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پر حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا۔( خازن، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۳۵۷)
{وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ: اور یہ نبی غیب بتانے پر ہرگز بخیل نہیں ۔} ابو محمدحسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’یعنی میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو غیب کا علم آتا ہے، وہ تمہیں بتانے میں بخل نہیں فرماتے بلکہ تم کو بھی اس کا علم دیتے ہیں ۔( بغوی، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۴۲۲)
ابو سعید عبداللّٰہ بن عمر بیضاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو غیب کی باتیں بتائی جاتی ہیں انہیں بتانے میں وہ بخل نہیں کرتے۔( بیضاوی، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۵ / ۴۵۹)
اس سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو اللّٰہ تعالیٰ نے غیب کا علم عطا فرمایا ہے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اس میں سے بہت کچھ اپنے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو بتا یا ہے۔حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے علم ِغیب کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی جلد نمبر29 سے ان3 رسائل کا مطالعہ فرمائیں (1) اِنْبَاؤُ الْمُصْطَفٰی بِحَالِ سِرٍّ وَّاَخْفٰی۔ (حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ کا علم دئیے جانے کا ثبوت) (2) اِزَاحَۃُ الْعَیبْ بِسَیْفِ الْغَیبْ۔ (علمِ غیب کے مسئلے سے متعلق دلائل اور بدمذہبوں کا رد) (3)خَالِصُ الْاِعْتِقَادْ۔ (علم غیب سے متعلق 120دلائل پر مشتمل ایک عظیم کتاب)
{وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ: اور وہ (قرآن) ہرگز مردود شیطان کا پڑھا ہوا نہیں۔} کفارِ مکہ یہ کہتے تھے کہ کوئی جن یا شیطان حضورِاَ قدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو یہ کلام سنا جاتا ہے، ان کا رد کرتے ہوئے اس آیت اورا س کے بعد والی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ قرآن، مردود شیطان کا پڑھا ہوا نہیں ہے ، پھر تم قرآن کو چھوڑ کرکدھر جاتے ہو اور کیوں قرآن سے اِعراض کرتے ہو حالانکہ اس میں شفاء اور ہدایت ہے۔( خازن، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ۴ / ۳۵۷)
کفار کے اس اعتراض کا جواب ایک اور مقام پر بھی دیاگیا ہے،چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:’’وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّیٰطِیْنُ(۲۱۰) وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهُمْ وَ مَا یَسْتَطِیْعُوْنَؕ(۲۱۱) اِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ ‘‘(شعراء:۲۱۰۔۲۱۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اوراس قرآن کو لے کر شیطان نہ اترے۔اورنہ ہی وہ اس قابل تھے اور نہ وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں ۔وہ تو سننے کی جگہ سے دور کردیئے گئے ہیں ۔
{اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ: وہ تو سارے جہانوں کے لیے نصیحت ہی ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن عظیم تمام جنّوں اور انسانوں کے لئے نصیحت ہے اور اس سے وہی نصیحت حاصل کر سکتا ہے جسے حق کی پیروی کرنا، اس پر قائم رہنا اور ا س سے نفع حاصل کرنامنظور ہو۔( روح البیان، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۱۰ / ۳۵۴، خازن، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۴ / ۳۵۷، ملتقطاً)
{وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ: اور تم کچھ نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ اللّٰہ چاہے۔} یعنی تم اللّٰہ تعالیٰ کے چاہے بغیر کچھ چاہ بھی نہیں سکتے ، تمہارا ارادہ اور چاہنا اللّٰہ تعالیٰ کے ارادے کے تابع ہے۔
آیت ’’وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ‘‘ سے معلوم ہونے و الے مسائل:
اس آیت سے 4مسئلے معلوم ہوئے ۔
(1)… انسان اپنے اختیاری کام میں مختار ہے ۔
(2)… انسان کا اختیار مستقل نہیں بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت کے تابع ہے۔
(3)… دنیا کا ہر کام اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت اورارادے سے ہے مگر اس کی پسندیدگی سے نہیں۔
(4)… اللّٰہ تعالیٰ بندے کے ہر کام کا ارادہ فرماتا ہے مگر اسے برے کام کی رغبت یا مشورہ نہیں دیتا بلکہ اس سے منع فرماتا ہے ، برے کاموں کی رغبت ابلیس لعین دیتا ہے۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan