Surah at-Tahrim
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ : اے نبی!} شانِ نزول:حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُمُّ المؤمنین حضرت زینب بنت ِحجش رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے یہاں شہد نوش فرماتے اور اُن کے یہاں کچھ زیادہ دیر تشریف فرما رہتے تھے۔میں نے اور حضرت حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے باہم مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے ہاں حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف فرما ہوں تووہ ان سے عرض کرے:کیا آپ نے مغافیر تَناوُل فرمایا ہے، مجھے آپ (کے دہنِ مبارک) سے مغافیر کی بُو آرہی ہے۔ (جب ایسا کیا گیا اور حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کا مَنشاء معلوم تھا تو) ارشاد فرمایا: ’’ نہیں ،البتہ میں نے زینب بنت ِجحش رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے یہاں شہد نوش فرمایا تھا تو ہرگز میں دوبارہ ایسا نہیں کروں گا اور میں نے اس پر قَسم کھائی ،تم اس بات کی کسی اور کو خبر مت دینا۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ التحریم، باب یا ایّہا النبی لم تحرّم ما احلّ اللّٰہ لک۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۵۹، الحدیث:۴۹۱۲)اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔
آیت کے آخر میں ارشاد فرمایاکہ اللّٰہ تعالیٰ بخشنے والا ، مہربان ہے، اس نے آپ کی ان دونوں مبارک بیویوں کا یہ قصور معاف فرمادیا او ر آپ کے لئے اس قَسم کا کفار ہ بیان فرما دیا ہے جس سے آپ کی ساری امت پر آسانی ہو گی۔
آیت ’’یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… قسم کھا لینے سے چیز قسم کھانے والے پر حرام ہو جاتی ہے اور جب وہ چیز استعمال کرے گا کفارہ لازم ہوگا۔
(2)… حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاشہد کو اپنے آپ پر حرام فرما لینا محض ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو راضی کرنے کے لئے تھا ،نہ کہ بے علمی کی وجہ سے کیونکہ اپنے منہ کی بُوغیب نہیں وہ تو محسوس ہوتی ہے، لہٰذا بدمذہب اس آیت سے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بے علمی پر دلیل نہیں پکڑ سکتے۔
{قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِكُمْ: بیشک اللّٰہ نے تمہارے لیے تمہاری قسموں کا کھولنا مقرر فرمادیاہے۔} اس آیت میں قسم کو کھولنے سے مرادیہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کے لئے قسم کا کفارہ مقرر کر دیا ہے لہٰذا آپ حضرت ماریہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو خدمت سے سرفراز فرمائیے، یاشہد نوش فرمائیے۔بعض مفسرین کے نزدیک قسم کھولنے سے مراد یہ ہے کہ قسم کے بعد اِنْ شَآئَ اللّٰہ کہا جائے تاکہ اس کے بر خلاف کرنے سے قسم شکنی نہ ہو۔
حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفارہ دیا یا نہیں دیا ،اس کے بارے میں مقاتل سے مروی ہے کہ سر کا رِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ماریہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو اپنے اوپر حرام کرنے کے کفارہ میں ایک غلام آزاد کیا، اورحضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفارہ نہیں دیا کیونکہ آپ مغفور ہیں جبکہ کفارہ کا حکم اُمت کی تعلیم کیلئے ہے۔( مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۲۵۶-۱۲۵۷)
آیت ’’قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِكُمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… حلال کو اپنے اوپر حرام کر لینا بھی قَسم کی ایک قِسم ہے ،البتہ اس کے برعکس یعنی حرام کو اپنے اوپر حلال کر لینا قسم نہیں مثلاً یوں کہا کہ اگر میں یہ کروں تو مجھ پر میری بیوی حرام، یہ قسم ہے اوریوں کہا کہ اگر فلاں کام کروں تو سور کھاؤں، یہ قسم نہیں ۔
(2)… قسم کا کفارہ صرف اس دِین میں ہے ، پچھلی شریعتوں میں یہ نہ تھا اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کفارہ کا حکم نہ دیا بلکہ قسم پوری کرنے کا حیلہ بتایا کہ اپنی بیوی کو جھاڑو مار دیں ۔
{وَ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ: اور اللّٰہ تمہارا مددگارہے۔} یعنی اے میرے حبیب اور ان کے گھر والو!اللّٰہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہے، اسی لئے وہ تمہارے گھر کے انتظامات خود فرماتا ہے اور تمہارے گھر کے آداب سکھاتا ہے،وہ تمہاری مصلحتوں کا علم رکھنے والا اور اپنے اَفعال و اَحکام میں حکمت والا ہے تو وہ تمہاری طاقت کے مطابق ہی تمہیں کسی کا م کا حکم دے گا اور کسی سے منع فرمائے گا۔( نور العرفان، التحریم، تحت الآیۃ:۲، ص۸۹۴، روح البیان، التحریم، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۵۰، ملتقطاً)
{وَ اِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِیْثًا: اور جب نبی نے اپنی ایک بیوی کو راز کی ایک بات بتائی۔} اس آیت میں جو واقعہ بیان کیا گیا ،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی زوجہ حضرت حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کودو چیزوں پر مشتمل راز کی ایک بات بتائی اوراس کے ساتھ یہ بھی فرما دیاکہ یہ بات کسی کے سامنے ظاہر نہ کرنا، پھر جب حضرت حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو اس بات کی خبر دیدی اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے عمل کو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی زبان سے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ظاہر کردیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے سامنے ان میں سے ایک چیز کا ذکر فرمایا کہ تم نے یہ بات ظاہر کردی اور دوسری چیزکا ذکر نہ فرمایا، یہ شانِ کریمی تھی کہ گرفت فرمانے میں ایک بات سے چشم پوشی فرمائی۔ پھر جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کواس کی خبر دی تو انہوں نے عرض کی: آپ کو کس نے بتایا؟ارشاد فرمایا: مجھے علم والے اورخبرداراللّٰہ تعالیٰ نے بتایا ہے جس سے کچھ بھی چھپا نہیں ۔( خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۲۸۴-۲۸۵، مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۲۵۷، ملتقطاً)
{اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا: اگر تم دونوں اللّٰہ کی بارگاہ میں توبہ کرو کیونکہ تمہارے دل ضرور کچھ ہٹ گئے ہیں ۔} اس آیت میں حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو مُخاطَب کر کے فرمایا گیا کہ اے میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دونوں بیویو! اللّٰہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا تم پر واجب ہے کیونکہ تمہارے دل ضرور حق سے کچھ ہٹ گئے ہیں کہ تمہیں حضرت ماریہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے اپنے اوپر حرام کر لینے کی بات پسند آئی جو کہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بھاری ہے اور اگر نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں تم ایک دوسرے کی مدد کرو اور باہم مل کر ایسا طریقہ اختیار کرو جو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ناگوار ہو تو سن لو! بیشک اللّٰہ تعالیٰ ان کا مددگار ہے ،حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام، نیک ایمان والے اور ان کی مدد کے بعد فرشتے بھی مددگار ہیں ۔( خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۲۸۵، مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۲۵۷، ملتقطاً)
یہاں اس آیت سے متعلق تین باتیں بھی ملاحظہ ہوں ،
(1)…اگرچہ حضرت جبریل بھی فرشتوں میں داخل ہیں مگر چونکہ وہ تمام فرشتوں کے سردار ہیں اس لئے خصوصیَّت سے ان کا علیحدہ ذکر ہوا۔
(2)… نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسلمانوں کے ایسے مدد گار ہیں ، جیسے بادشاہ رعایا کا مددگار اور مومن حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ایسے مددگار جیسے خُدّام اور سپاہی بادشاہ کے، لہٰذا اس آیت کی بناء پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسلمانوں کے حاجت مند ہیں ۔
(3)…اس آیت میں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اور نیک مسلمانوں کو مولیٰ یعنی مدد گار فرمایا گیا اور فرشتوں کو ظہیر، یعنی معاون قرار دیا گیا، اس سے معلوم ہواکہ اللّٰہ تعالیٰ کے بندے مدد گار ہیں ،یاد رہے کہ جہاں غیرُ اللّٰہ کی مدد کی نفی ہے وہاں حقیقی مدد مراد ہے، لہٰذا آیات میں تعارُض نہیں ۔
{اِنْ طَلَّقَكُنَّ: اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں ۔} ارشاد فرمایا کہ اے میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیویو! اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں تو ان کا رب عَزَّوَجَلَّ اس بات پر قادر ہے کہ انہیں تم سے بہتر بیویاں عطا کر دے جن کا وصف یہ ہو گا کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والیاں ،اخلاص کے ساتھ اس کی وحدانیَّت پر ایمان رکھنے والیاں ، اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبردار اور اُن کی رضا جُو ہوں گی،کثرت سے توبہ کرنے والیاں ،کثرت سے عبادت کرنے والیاں ،روزہ دار، بیاہیاں اور کنواریاں ہوں گی۔( تفسیر کبیر، التحریم، تحت الآیۃ: ۵، ۱۰ / ۵۷۱، خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۲۸۶، مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۲۵۷-۱۲۵۸، ملتقطاً)
یہ فرما کر در اصل ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو ڈرایا گیاہے کہ اگر اُنہوں نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو آزُرْدَہ کیا اور حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں طلاق دی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللّٰہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے دوسری بہتر بیویاں عطا فرما دے گا۔ اس ڈرانے سے ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ مُتأثّر ہوئیں اور اُنہوں نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت کے شرف کو ہر نعمت سے زیادہ سمجھا اور حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دِلجوئی اور رضا طلبی مُقَدّم جانی ،لہٰذا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں طلاق نہ دی۔( خزائن العرفان، التحریم، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۰۳۷، ملخصاً)
اچھی بیوی کے اوصاف:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بیوی وہ اچھی ہے جو اللّٰہ تعالیٰ اوراس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبردار ، اورشوہر کی اطاعت گزار ہونیزعبادت گزار اور گناہوں سے بچنے والی ہو اگرچہ وہ غریب ہو،لہٰذا نکاح کے لئے صرف عورت کا حسن اور اس کی مالداری نہ دیکھی جائے بلکہ اس کی دینداری دیکھی جائے اور اسے ہی ترجیح دی جائے۔ حدیثِ پاک میں بھی اس کا حکم دیاگیا ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے (یعنی نکاح میں ان کا لحاظ ہوتا ہے) (1) مال،(2) حسب نسب،(3) جمال، (4) دین، اور تم دین والی کو ترجیح دو۔( بخاری، کتاب النکاح، باب الاکفاء فی الدین، ۳ / ۴۲۹، الحدیث: ۵۰۹۰)
اور حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدار ِرسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کہ جو کسی عورت سے اُس کی عزت کی بنا پر نکاح کرے، اللّٰہ تعالیٰ اس کی ذلت میں اضافہ کرے گا اور جو کسی عورت سے اُس کے مال کے سبب نکاح کرے گا، اللّٰہ تعالیٰ اُس کی محتاجی ہی بڑھائے گا اورجو اُس کے حسب کی وجہ سے نکاح کرے گا تو اُس کے کمینہ پن میں زیادتی فرمائے گا اور جو اس لیے نکاح کرے کہ اِدھر اُدھر نگاہ نہ اُٹھے اور پاکدامنی حاصل ہو یا صلہ رحمی کرے تو اللّٰہ تعالیٰ اس مرد کے لیے اُس عورت میں اور عورت کے لیے مرد میں برکت دے گا ۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: ابراہیم، ۲ / ۱۸، الحدیث: ۲۳۴۲)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں نیک اور دیندار عورت سے نکاح کرنے اور دوسری عورتوں کے مقابلے میں دیندار عورت کو ترجیح دینے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ۔} یعنی اے ایمان والو!اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری اختیار کرکے، عبادتیں بجالا کر، گناہوں سے باز رہ کر،اپنے گھر والوں کو نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت کرکے اور انہیں علم و ادب سکھا کراپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔
یہاں آدمی سے کافر اور پتھر سے بت وغیرہ مراد ہیں اور معنی یہ ہے کہ جہنم کی آگ بہت ہی شدیدحرارت والی ہے اور جس طرح دنیا کی آگ لکڑی وغیرہ سے جلتی ہے جہنم کی آگ اس طرح نہیں جلتی بلکہ ان چیزوں سے جلتی ہے جن کا ذکر کیا گیا ہے۔
مزید فرمایا کہ جہنم پر ایسے فرشتے مقرر ہیں کہ جو جہنمیوں پر سختی کرنے والے اور انتہائی طاقتورہیں اور ان کی طبیعتوں میں رحم نہیں ،وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔( خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۸۷، مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۲۵۸، ملتقطاً)
ہر مسلمان پر اپنے اہلِ خانہ کی اسلامی تعلیم وتربیت لازم ہے:
اس آیت سے معلوم ہواکہ جہاں مسلمان پر اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے وہیں اہلِ خانہ کی اسلامی تعلیم و تربیت کرنابھی اس پر لازم ہے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور گھر میں جو افراد اس کے ماتحت ہیں ان سب کو اسلامی احکامات کی تعلیم دے یادلوائے یونہی اسلامی تعلیمات کے سائے میں ان کی تربیت کرے تاکہ یہ بھی جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں ۔ترغیب کے لئے یہاں اہلِ خانہ کی اسلامی تربیت کرنے اور ان سے احکامِ شرعیہ پر عمل کروانے سے متعلق3اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)… حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے ہرشخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا،چنانچہ حاکم نگہبان ہے،اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہلِ خانہ پر نگہبان ہے،اس سے اس کے اہلِ خانہ کے بارے سوال کیا جائے گا۔عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان ہے ،اس سے ا س کے بارے میں پوچھا جائے گا،خادم اپنے مالک کے مال میں نگہبان ہے ،اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا،آدمی اپنے والد کے مال میں نگہبان ہے ،اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا،الغرض تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔( بخاری، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القری والمدن، ۱ / ۳۰۹، الحدیث: ۸۹۳)
(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں مار کر نماز پڑھاؤ اور ان کے بستر الگ کر دو۔( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ؟، ۱ / ۲۰۸، الحدیث: ۴۹۵)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات میں اُٹھ کر نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی (نماز کے لئے) جگائے، اگر وہ نہ اُٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔اللّٰہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کے وقت اٹھے،پھرنماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے ،اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔( ابو داؤد، کتاب التطوّع، باب قیام اللیل، ۲ / ۴۸، الحدیث: ۱۳۰۸)
پانی کے چھینٹے مارنے کی اجازت اُس صورت میں ہے جب جگانے کے لئے بھی ایسا کرنے میں خوش طبعی کی صورت ہو یا دوسرے نے ایسا کرنے کا کہا ہو۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنے اہلِ خانہ کی صحیح اسلامی تعلیم وتربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
جہنم کے خوف سے روح پرواز کر گئی :
یہاں اسی آیت سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت منصور بن عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے حج کیااور (سفر کے دوران) کوفہ کے ایک سرائے میں ٹھہرا،پھر میں ایک اندھیری رات میں باہر نکلا تو آدھی رات کے وقت کسی کی درد بھری آواز سنی اور وہ یوں کہہ رہا تھاـ:اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تیری عزت و جلال کی قسم!میں نے جان بوجھ کر تیری نافرمانی اور مخالفت نہیں کی اور مجھ سے جب بھی تیری نافرمانی ہوئی میں اس سے ناواقف نہیں تھا لیکن خطا کرنے پر میری بد بختی نے میری مدد کی اور تیری سَتّاری (کی امید) نے مجھے گناہ پر ابھارا اور بے شک میں نے اپنی نادانی کی بنا پر تیری نافرمانی اور مخالفت کی تو اب تیرے عذاب سے مجھے کون بچائے گا،اگر تو نے مجھ سے اپنی (رحمت وعنایت کی) رسی کاٹ لی تو میں کس کی رسی کو تھاموں گا۔جب وہ اپنی اس اِلتجاء سے فارغ ہوا تو میں نے قرآنِ مجید کی یہ آیت تلاوت کی:
’’قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللّٰہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
پھر میں نے ایک شدید حرکت سنی اور اس کے بعد کوئی آواز نہ سنائی دی ۔ میں وہاں سے چلا گیا اور دوسرے دن اپنی رہائش گاہ میں لوٹا تو دیکھا کہ ایک جنازہ رکھاہوا ہے۔میں نے وہاں موجود ایک بوڑھی خاتون سے میت کے بارے میں پوچھا اور وہ مجھے نہیں جانتی تھیـ اس نے کہا:رات کے وقت یہاں سے ایک مرد گزرا ،اس وقت میرا بیٹا نماز پڑھ رہا تھا ،اس آدمی نے قرآنِ مجید کی ایک آیت پڑھی جسے سن کر میرے بیٹے کاانتقال ہو گیا ہے۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ التحریم، حکایۃ اخری فی خشیۃ اللّٰہ تعالی، ۳ / ۳۱۸، الحدیث: ۳۸۸۲)
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اے کافرو!۔} یعنی کافر جب جہنم میں داخل ہوتے وقت اس کی آگ کی شدّت اور اس کا عذاب دیکھیں گے تو ا س وقت ان سے کہا جائے گا: اے کافرو!آج بہانے نہ بناؤ، کیونکہ اب تمہارے لئے عذر کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی اور نہ ہی آج کوئی عذر قبول کیا جائے گا اور تمہیں ان اعمال کا ہی بدلہ ملے گا جو تم دنیا میں کرتے تھے۔( خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۲۸۷، مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۲۵۸، ملتقطاً)
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا: اے ایمان والو! اللّٰہ کی طرف ایسی توبہ کرو جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنا نہ ہو۔} یعنی اے ایمان والو!اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسی سچی توبہ کرو جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اَعمال میں ظاہر ہو اور اس کی زندگی طاعتوں اور عبادتوں سے معمور ہوجائے اور وہ گناہوں سے بچتا رہے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اوردوسرے اَصحاب نے فرمایا:’’ تو بہ ِنصوح یہ ہے کہ توبہ کے بعد آدمی پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے جیسا کہ نکلا ہوا دودھ پھر تھن میں واپس نہیں ہوتا۔( خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۲۸۷، مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۲۵۸، ملتقطاً)
{عَسٰى رَبُّكُمْ: قریب ہے کہ تمہارا رب۔} ارشاد فرمایا : قریب ہے کہ تمہارا رب توبہ قبول فرمانے کے بعد تمہاری برائیاں تم سے مٹا دے اورقیامت کے اس دن تمہیں ان باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں رواں ہیں جس دن اللّٰہ تعالیٰ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے ساتھ کے ایمان والوں کورُسوا نہ کرے گا، پل صراط پر ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑتا ہوگا اور جب ایمان والے دیکھیں گے کہ منافقوں کا نور بجھ گیاتو وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب!جنت میں داخل ہونے تک ہمارے لئے اس نور کو باقی رکھ اور جب کافروں کو جہنم میں گرتا ہوا دیکھیں گے تو عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔( مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۲۵۹، روح البیان، التحریم، تحت الآیۃ: ۸، ۱۰ / ۶۵-۶۶، ملتقطاً)
سچی توبہ کی ترغیب:
فی زمانہ حالات ایسے پُرفِتَن ہیں کہ گناہ کا اِرتکاب کرنا بے حد آسان جبکہ گناہ سے بچنا بے حد دشوار اور نیکی کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ گناہوں سے بچنے اور نیک کام کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور جو گناہ اس سے سرزَد ہو چکے ہیں ان سے سچی توبہ کرے کیونکہ سچی توبہ ایسی چیز ہے جو انسان کے نامہِ اعمال سے اس کے گناہ مٹادیتی ہے ،چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَعْفُوْا عَنِ السَّیِّاٰتِ وَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ‘‘(شوری:۲۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور جانتاہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے وہ شخص جس کا کوئی گناہ نہ ہو۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ،۴ / ۴۹۱، الحدیث: ۴۲۵۰)
اورحضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو اس کے گناہ بُھلا دیتا ہے،اس کے اَعضا کو بھی بھلا دیتا ہے اور ا س کے زمین پر نشانات بھی مٹا ڈالتاہے یہاں تک کہ جب وہ قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ سے ملے گا تواس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔( الترغیب والترہیب،کتاب التوبۃ والزہد،الترغیب فی التوبۃ والمبادرۃ بہا واتباع السیّئۃ الحسنۃ،۴ / ۴۸،الحدیث: ۱۷)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں سابقہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے اور آئندہ گناہوں سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
آیت ’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے پانچ باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… توبہ گناہوں کی معافی اور جنت کامُستحق ہونے کا ذریعہ ہے۔
(2)… مُتَّقی مومن قیامت کے دن حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہوں گے۔
(3)…قیامت کا دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اوران کے ساتھ والوں کی عزت کا ، جبکہ کافروں کی رُسوائی کا دن ہو گا۔
(4)… مومن اگرچہ گنہگار ہو لیکن اِنْ شَآ ءَ اللّٰہ آخرت کی رسوائی سے محفوظ رہے گا، اگر اسے سزا بھی دی جائے گی تو اس طرح کہ اس کی رسوائی نہ ہو۔
(5)…ابتداء میں پل صراط پر منافقوں کو نور ملے گا لیکن جب درمیان میں پہنچیں گے تو وہ نور بجھ جائے گا۔
{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ: اے نبی!کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حکمت کے تقاضوں کے مطابق اورموقع محل کی مناسبت سے کافروں پر تلوار سے جبکہ منافقوں پر سخت کلامی اور مضبوط دلائل کے ساتھ جہاد فرمائیں اور ان دونوں گروہوں پر سختی کریں ،ان کاٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی بری لوٹنے کی جگہ ہے ۔( مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۲۵۹، جلالین، التحریم، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۲۴۸، ملتقطاً)
{ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوْطٍ: اللّٰہ نے کافروں کیلئے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کو مثال بنادیا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی کومثال بنادیا کہ یہ دونوں عورتیں ہمارے قرب کے لائق دو بندوں کے نکاح میں تھیں ، پھر انہوں نے کفر اختیار کر کے دین کے معاملے میں ان سے خیانت کی تو وہ دومُقَرَّب بندے اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے انہیں کچھ کام نہ آئے اور ان عورتوں سے موت کے وقت فرمادیا گیایا قیامت کے دن فرما یاجائے گا کہ تم دونوں عورتیں اپنی قوموں کے کفار کے ساتھ جہنم میں جاؤ کیونکہ تمہارے اور ان انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان تمہارے کفر کی وجہ سے کوئی تعلق باقی نہ رہا (تو جس طرح کفر کے ہوتے ہوئے ان عورتوں کوانبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے رشتہ داری کام نہ آئی اسی طرح اے کفارِ مکہ!کفر کے ہوتے ہوئے تمہیں بھی میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے رشتہ داری کوئی کام نہ آئے گی)۔( مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۲۵۹، خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۲۸۸، ملتقطاً)
حضرت نوح اور حضرت لوط عَلَیْہِ مَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیویوں کا حال:
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی کانام واہلہ تھا،یہ اپنی قوم سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں کہتی تھی کہ وہ مجنون ہیں اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی کا نام و اعلہ تھا،یہ اپنا نفاق چھپاتی تھی۔( خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۲۸۸)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایمان کے بغیر بزرگوں کی صحبت قیامت میں فائدہ نہیں دے گی نیز یہ کہ کفار کے لئے نبی کا رشتہ یا نبی کا نسب کام نہیں آتا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت میں ہر شخص اس کے ساتھ ہو گا جس سے دنیا میں محبت کرتا تھا۔
{وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ: اور اللّٰہ نے مسلمانو ں کیلئے فرعون کی بیوی کو مثال بنادیا۔} اس سے پہلی آیت میں کافروں کے لئے مثال بیان فرمائی گئی اور اس آیت میں مسلمانوں کے لئے مثال بیان فرمائی جا رہی ہے کہ انہیں دوسرے کا گناہ نقصان نہیں دے گا۔اس کا پسِ مَنْظَر اور خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جادو گروں کو مغلوب کیا تو فرعون کی بیوی آسیہ آپ پر ایمان لے آئیں ،فرعون کو خبر ہوئی تو اس نے انہیں سخت سزادی اور چارمیخوں سے آپ کے ہاتھ پاؤں بندھوا دئیے، سینے پر بھاری چکی رکھ دی اور اسی حال میں انہیں سخت دھوپ میں ڈال دیا ۔جب فرعون کی سختیاں بڑھ گئیں تو حضرت آسیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی: اے میرے رب!میرے لیے اپنے پاس جنت میں گھر بنا دے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کا جنتی مکان ان پر ظاہر فرمایا اور اس کی خوشی میں ان پر فرعون کی سختیوں کی شدّت آسان ہوگئی۔پھر عرض کی:مجھے فرعون ، اس کے کفر و شرک اور ظلم سے نجات دے اور مجھے فرعون کے دین والے ظالم لوگوں سے نجات عطا فرما،چنانچہ ان کی یہ دعا قبول ہوئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کی روح قبض فرمالی۔ (تو جس طرح فرعون کے کفر نے حضرت آسیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو کوئی نقصان نہ پہنچایا اور اس کی وجہ سے آپ کو کوئی عذاب نہیں ہوااسی طرح مسلمانوں کو ان کے رشتہ داروں کا کفر نقصان نہیں پہنچائے گا اور ان کے کفر کی وجہ سے مسلمانوں کو عذاب نہ ہو گا۔)( خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۲۸۸، جلالین، التحریم، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۴۶۶، ملتقطاً)
آیت ’’ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے 3 باتیں معلوم ہوئیں
(1)… جنت میں وہ گھر زیادہ درجے والا ہے جس میں بندے کو اللّٰہ تعالیٰ کا قرب زیادہ ہو۔
(2)… اللّٰہ کی محبت میں اس سے ملاقات کے شوق میں موت کی تمنا اور دعاکرنا جائز ہے۔
(3)…اللّٰہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرنا،اس کی بارگاہ میں التجائیں کرنا،مشکلات اور مَصائب میں اس سے خلاصی کا سوال کرنا نیک بندوں کی سیرت ہے۔
{وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا: اور عمران کی بیٹی مریم کو (مثال بنا دیا) جس نے اپنے پارسائی کے مقام کی حفاظت کی۔} اس سے پہلی آیت میں مسلمانوں کے لئے اس خاتون کی مثال بیان کی گئی جن کا شوہر تھا اور اس آیت میں اس خاتون کی مثال بیان کی جا رہی ہے جن کا شوہر نہیں تھا،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عمران رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیٹی حضرت مریم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو مثال بنادیاجنہوں نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی اور کسی مرد نے آپ کو نہیں چھوااور اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے اس میں اپنی طرف کی روح پھونکی اور اس نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی باتوں اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی۔ یہاں رب عَزَّوَجَلَّ کی باتوں سے وہ شرعی اَحکام مراد ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمائے اورکتابوں سے وہ کتابیں مراد ہیں جو انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی تھیں ۔( روح البیان، التحریم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۷۰، خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۲۸۸، مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۲۵۹، ملتقطاً)
حضرت مریم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے فضائل:
حضرت مریم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپ کے سواکسی عورت کانام قرآنِ مجید میں نہیں آیا، نیز آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو یہ فضیلت بھی حاصل ہو گی کہ جنت میں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواج میں سے ہوں گی ۔نیزحضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آپ کو کامل خواتین میں شمار فرمایا ہے ، جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مَردوں میں کامل بہت ہیں اورعورتوں میں سے کامل حضرت آسیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا اور حضرت مریم بنتِ عمران رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا ہیں اور حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی فضیلت عورتوں پرایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے۔( بخاری ، کتاب احادیث الانبیاء ، باب قول اللّٰہ تعالی : و ضرب اللّٰہ مثلاً للذین امنوا امرأۃ فرعون ۔۔۔ الخ ، ۲ / ۴۴۵، الحدیث: ۳۴۱۱)
آیت ’’ فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا‘‘ سے حاصل ہونے و الی معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… پھونک حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے ماری اور اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ہم نے پھونکا،اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کا کام درحقیقت اللّٰہ تعالیٰ کا کام ہے ۔
(2)… فیض دینے کے لئے دَم کرنا فرشتوں کی سنت ہے مشائخ کے دَم درُود کی اصل یہ آیت ِکریمہ ہے نیز کثیر اَحادیثِ صحیحہ سے بھی دَم کرنا ثابت ہے۔
(3)… حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو روحُ اللّٰہ اس لئے کہتے ہیں کہ آپ کی پیدائش رُوْحُ الْاَمِیْن کی پھونک سے ہے۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan