READ

Surah Ash-Shu'araa

اَلشُّـعَرَاء
227 Ayaat    مکیۃ


26:201
لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَۙ(۲۰۱)
وہ اس پر ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ دیکھیں دردناک عذاب،

{لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ: وہ اس پر ایمان نہ لائیں  گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ قرآن پر ایمان نہ لائیں  گے یہاں  تک کہ ان پر اچانک عذاب آ جائے گا اور انہیں  ا س کی خبر بھی نہ ہوگی اور جب وہ عذاب کو دیکھیں  گے تو حسرت زدہ ہو کر کہیں  گے ’’کیا ہمیں  کچھ مہلت ملے گی اگرچہ پلک جھپکنے کے برابر ہی سہی تاکہ ہم ا یمان لے آ ئیں  ؟ان سے کہا جائے گا:اب تم سے عذاب مؤخر ہو گا اور نہ تمہیں  کوئی مہلت ملے گی۔(جمل، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰۱-۲۰۳، ۵ / ۴۱۰)

{اَفَبِعَذَابِنَا: تو کیا ہمارے عذاب کو۔} جب نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کو اس عذاب کی خبر دی تو وہ مذاق اڑانے کے طور پر کہنے لگے کہ یہ عذاب کب آئے گا؟ اس پر اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے ارشاد فرمایا کہ کیا وہ ہمارے عذاب کو جلدی مانگتے ہیں ؟ مراد یہ ہے کہ عذاب دیکھ کرکفار کا حال تو یہ ہو گا کہ وہ مہلت مانگتے پھریں  گے اس کے باوجود وہ دنیا میں  عذاب نازل ہونے کی جلدی مچا رہے ہیں ، ان کے دونوں  طریقوں  میں  کتنا فرق ہے۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۳ / ۳۹۶، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۸ / ۵۳۴، ملتقطًا)

26:202
فَیَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَۙ(۲۰۲)
تو وہ اچانک ان پر آجائے گا اور انہیں خبر نہ ہوگی،

26:203
فَیَقُوْلُوْا هَلْ نَحْنُ مُنْظَرُوْنَؕ(۲۰۳)
تو کہیں گے کیا ہمیں کچھ مہلت ملے گی (ف۱۶۹)

26:204
اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ(۲۰۴)
تو کیا ہمارے عذاب کی جلدی کرتے ہیں،

26:205
اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَۙ(۲۰۵)
بھلا دیکھو تو اگر کچھ برس ہم انہیں برتنے دیں (ف۱۷۰)

{اَفَرَءَیْتَ: بھلا دیکھو تو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا معنی یہ ہے کہ کفار کا عذاب نازل ہونے کی جلدی مچانے کا ایک سبب ان کا یہ عقیدہ ہے کہ انہیں  کوئی عذاب نہیں  ہو گا اور وہ ایک طویل عرصے تک امن و سلامتی کے ساتھ دنیا سے فائدہ اٹھاتے رہیں  گے۔ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ ان کے عقیدے کے مطابق اگر انہیں  لمبے عرصے تک دنیا سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جائے، ا س کے بعد ان پر وہ عذاب آ جائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا تو اس وقت ان کی لمبی عمر اور عیش و عشرت انہیں  کیا فائدہ دے گی۔دنیا کی زندگانی اور اس کا عیش خواہ طویل بھی ہو لیکن نہ وہ عذاب کو دور کرسکے گا اورنہ اس کی شدت کم کرسکے گا۔(مدارک،الشعراء،تحت الآیۃ:۲۰۵-۲۰۷،ص۸۳۲-۸۳۳، خازن،الشعراء،تحت الآیۃ: ۲۰۵-۲۰۷، ۳ / ۳۹۶، ملتقطاً)

 دنیا کا عیش و عشرت اللہ تعالٰی کا عذاب دور نہیں  کر سکتا:

            ان آیات میں  اگرچہ کفار کے بارے میں  بیان ہو اکہ دنیا کی طویل زندگی اور عیش و عشرت کی بہتات ان سے اللہ تعالٰی کا عذاب دور کر سکے گی اور نہ ان سے عذاب کی شدت میں  کوئی کمی کر سکے گی، لیکن ان آیات سے ان مسلمانوں  کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہئے جو دنیا اور اس کی آسائشوں  کے حصول میں تو مگن ہیں  لیکن اللہ تعالٰی کی عبادت، اس کی یاد اور اس کے ذکر سے غافل ہیں ۔انہیں  ڈر جانا چاہئے کہ دنیا کی محبت اور اللہ تعالٰی کی اطاعت اور عبادت سے غفلت کہیں  ان کی بھی آخرت تباہ نہ کر دے۔ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

’’اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲) كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ(۳) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَؕ(۴) كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِؕ(۵) لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَۙ(۶) ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِیْۙنِ(۷)ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠‘‘( التکاثر:۱۔۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں  غافل کردیا۔ یہاں  تک کہ تم نے قبروں  کا منہ دیکھا۔ہاں  ہاں  اب جلد جان جاؤ گے۔پھر یقینا تم جلد جان جاؤ گے۔ یقینا اگر تم یقینی علم کے ساتھ جانتے (تو مال سے محبت نہ رکھتے)۔ بیشک تم ضرور جہنم کو دیکھو گے۔ پھر بیشک تم ضرور اسے یقین کی آنکھ سے دیکھو گے۔ پھر بیشک ضرور اس دن تم سے نعمتوں  کے متعلق پوچھا جائے گا۔

            اور حضرت ابوموسیٰ اشعری  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنی دنیا سے محبت کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو آدمی اپنی آخرت سے محبت کرتا ہے وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے لہٰذا فنا ہونے والی پر باقی رہنے والی کو ترجیح دو۔( مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۷ / ۱۶۵، الحدیث: ۱۹۷۱۷)

حضرت یحیٰ بن معاذ  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’لوگوں  میں  سب سے زیادہ غافل شخص وہ ہے جو اپنی فانی زندگی پر مغرور رہا،اپنی من پسند چیزوں  کی لذت میں  کھویا رہااور اپنی عادتوں  کے مطابق زندگی بسر کرتا رہا، حالانکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے:

’’اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَۙ(۲۰۵) ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَۙ(۲۰۶) مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: بھلا دیکھو توکہ اگر ہم کچھ سال انہیں فائدہ اٹھانے دیں ۔ پھر ان پر وہ (عذاب) آجائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ تو کیا وہ سامان ان کے کام آئےگا جس سے انہیں  فائدہ اٹھانے (کا موقع) دیا گیا تھا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰۷، ص۸۳۳)

             اللہ تعالٰی مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے اور دنیا کی بجائے اپنی آخرت سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

 

26:206
ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَۙ(۲۰۶)
پھر آئے ان پر جس کا وہ وعدہ دیے جاتے ہیں (ف۱۷۱)

26:207
مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَؕ(۲۰۷)
تو کیا کام آئے گا ان کے وہ جو برتتے تھے (ف۱۷۲)

26:208
وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ اِلَّا لَهَا مُنْذِرُوْنَﲨ (۲۰۸)
اور ہم نے کوئی بستی ہلاک نہ کی جسے ڈر سنانے والے نہ ہوں،

{وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ: اور ہم نے کوئی بستی ہلاک نہ کی۔} ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم پہلے ظالم لوگوں  کے پاس ڈر سنانے والے بھیج کر ان پر حجت قائم کردیتے ہیں ، اس کے بعد بھی جو لوگ راہِ راست پر نہیں  آتے اور حق کو قبول نہیں  کرتے ان پر عذاب نازل کردیتے ہیں  تاکہ ان کی ہلاکت دوسروں  کے لئے عبرت اور نصیحت کا سامان ہو اور وہ ان جیسی نافرمانی کرنے سے بچ جائیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰۸-۲۰۹، ص۸۳۲)

26:209
ذِكْرٰى ﱡ وَ مَا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(۲۰۹)
نصیحت کے لیے، اور ہم ظلم نہیں کرتے (ف۱۷۳)

26:210
وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّیٰطِیْنُ(۲۱۰)
او راس قرآن کو لے کر شیطان نہ اترے (ف۱۷۴)

{وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِهٖ: او راس قرآن کو لے کر نہ اترے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں  ان کفار کا رد کیا گیا ہے جو یہ کہتے تھے کہ جس طرح شَیاطین کاہنوں  کے پاس آسمانی خبریں  لاتے ہیں  اسی طرح وہ (مَعَاذَاللہ)رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس قرآن لاتے ہیں ۔ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’اس قرآن کو لے کر شیطان نہ اترے اورنہ ہی وہ اس قابل تھے کہ قرآن لے کر آئیں  اور نہ وہ ایسا کرسکتے ہیں  کیونکہ یہ اُن کی طاقت سے باہر ہے۔وہ تو فرشتوں  کاکلام سننے کی جگہ آسمان سے شعلے مار کردور کردئیے گئے ہیں  یعنی انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف جو وحی ہوتی ہے، اسے اللہ تعالٰی نے محفوظ کردیا ہے۔ جب تک کہ فرشتہ اس کو بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  پہنچا نہ دے اس سے پہلے شیاطین اس کو نہیں  سن سکتے۔(ابوسعود، الشعراء، تحت الآیۃ:۲۱۰-۲۱۲،۴ / ۱۸۱،جلالین مع جمل، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۰-۲۱۲، ۵ / ۴۱۲، ملتقطًا)

26:211
وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهُمْ وَ مَا یَسْتَطِیْعُوْنَؕ(۲۱۱)
اور وہ اس قابل نہیں (ف۱۷۵) اور نہ وہ ایسا کرسکتے ہیں (ف۱۷۶)

26:212
اِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَؕ(۲۱۲)
وہ تو سننے کی جگہ سے دور کردیے گئے ہیں (ف۱۷۷)

26:213
فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَۚ(۲۱۳)
تو اللہ کے سوا دوسرا خدا نہ پوج کہ تجھ پر عذاب ہوگا،

{فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ: تو اللہ کے سواکسی دوسرے معبود کی عبادت نہ کرنا۔} اس آیت میں  بظاہر خطاب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن اس سے مراد آپ کی امت ہے، چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے (اے لوگو!) جب کافروں  کا حال تم نے جان لیا تو تم اللہ تعالٰی کے سواکسی دوسرے معبود کی عبادت نہ کرنا، اگر تم نے ایساکیا تو تم عذاب پانے والوں  میں  سے ہوجاؤگے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۳، ۳ / ۳۹۷، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۳، ص۳۱۶، ملتقطاً)
26:214
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ(۲۱۴)
اور اے محبوب! اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ (ف۱۷۸)

{وَ اَنْذِرْ: اور اے محبوب! ڈراؤ۔} ا س سے پہلی آیات میں  نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلیاں  دی گئیں ، پھر آپ کی نبوت پر دلائل قائم کئے گئے، پھر منکرین کے سوالات ذکر کر کے ان کے جوابات دئیے گئے،اب یہاں  سے چند وہ اُمور بیان کئے جا رہے ہیں  جن کا تعلق اسلام کی تبلیغ اور رسالت کے ساتھ ہے۔(تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۴، ۸ / ۵۳۶)

قریبی رشتہ داروں  کو اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرانے کا حکم:

ابتداء میں  دین ِاسلام کی دعوت پوشیدہ طور پر جاری تھی، پھراس آیت میں اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قریبی رشتہ داروں  کو اسلام کی تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریبی رشتہ دار بنی ہاشم اور بنی مُطَّلِب ہیں ۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُنہیں  اعلانیہ اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرایا اور خدا کا خوف دلایا۔(جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۴، ص۳۱۶)

حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’جب یہ آیت ِکریمہ نازل ہو ئی تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوہِ صفا پر چڑھے اور آپ نے آواز دی ’’اے بنی فہر،اے بنی عدی، قریش کی شاخو!یہاں  تک کہ تمام لوگ جمع ہو گئے اور جو خود نہ جا سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا تاکہ آکر بتائے کہ بات کیا ہے۔ابو لہب بھی آیا اور سارے قریش آئے۔ (جب سب جمع ہو گئے تو) آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اگر میں  آپ لوگوں  سے کہوں  کہ وادی کے اس طرف ایک لشکر ِجَرّار ہے جو آپ پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا آپ مجھے سچا جانو گے؟سب نے کہا :ہاں ! کیونکہ ہم نے آپ سے ہمیشہ سچ بولنا ہی سنا ہے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں  آپ لوگوں  کو قیامت کے سخت عذاب سے ڈراتا ہوں  جو سب کے سامنے ہے۔یہ سن کر ابو لہب بکواس کرتے ہوئے کہنے لگا’’ کیا ہمیں  اسی لئے جمع کیا ہے۔اس وقت یہ سورت نازل ہوئی:

’’ تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیْ لَهَبٍ وَّ تَبَّؕ(۱) مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ابو لہب کے دونوں  ہاتھ تباہ ہوجائیں  اور وہ تباہ ہوہی گیا۔ اس کا مال اور اس کی کمائی اس کے کچھ کام نہ آئی۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الشعراء، باب وانذر عشیرتک الاقربین۔۔۔الخ، ۳ / ۲۹۴، الحدیث: ۴۷۷۰)

{وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ: اور اپنی رحمت کا بازو بچھاؤ۔} اس آیت ا ور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کو ڈر سنائیں  ا س کے بعدجو لوگ صدق و اِخلاص کے ساتھ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائیں  خواہ وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے رشتہ داری رکھتے ہوں  یا نہ رکھتے ہوں ، ان پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لطف و کرم فرمائیں  اور جو لوگ آپ کا حکم نہ مانیں  تو آپ ان سے اور ان کے اعمال سے بیزاری کا اظہار کر دیں۔(خازن،الشعراء،تحت الآیۃ:۲۱۵-۲۱۶،۳ / ۳۹۷-۳۹۸، مدارک،الشعراء،تحت الآیۃ: ۲۱۵-۲۱۶، ص۸۳۴، ملتقطاً)

26:215
وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَۚ(۲۱۵)
اور اپنی رحمت کا بازو بچھاؤ (ف۱۷۹) اپنے پیرو مسلمانوں کے لیے (ف۱۸۰)

26:216
فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَۚ(۲۱۶)
تو اگر وہ تمہارا حکم نہ مانیں تو فرمادو میں تمہارے کاموں سے بے علاقہ ہوں،

26:217
وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِۙ(۲۱۷)
اور اس پر بھروسہ کرو جو عزت والا مہر والا ہے (ف۱۸۱)

{وَ تَوَكَّلْ: اور بھروسہ کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنے تمام کام اللہ تعالٰی کے سپرد فرما دیں  جو کہ اپنے دشمنوں  کو مغلوب کرنے اور اپنے محبوب بندوں  کی مدد کرنے پر قادر ہے،ان مشرکین میں  سے یا ان کے علاوہ دیگر لوگوں  میں  سے جوکوئی بھی آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا تو آپ کی طرف سے اللہ تعالٰی اسے کافی ہوگا۔(ابوسعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۷، ۴ / ۱۸۱، ملخصاً)

 توکل کامعنی :

توکل کامعنی یہ ہے کہ آدمی اپنا کام اس کے سپرد کر دے جو اس کے کام کا مالک اور اسے نفع و نقصان پہنچانے پر قادر ہے اور وہ صرف اللہ تعالٰی ہے جو کہ تمہارے دشمنوں  پر اپنی قوت سے غالب ہے اور اپنی رحمت سے ان کے خلاف تمہاری مدد فرماتا ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۷، ۳ / ۳۹۸)

26:218
الَّذِیْ یَرٰىكَ حِیْنَ تَقُوْمُۙ(۲۱۸)
جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم کھڑے ہوتے ہو (ف۱۸۲)

{اَلَّذِیْ یَرٰىكَ: جو تمہیں  دیکھتا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ا س پر بھروسہ کریں  جو آپ کو اس وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ آدھی رات کے وقت تہجد کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ۔بعض مفسرین کے نزدیک یہاں  قیام سے دعا کے لئے کھڑا ہونا مراد ہے اور بعض کے نزدیک مراد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ہر اس مقام پر آپ کو دیکھتا ہے جہاں  آپ ہوں ۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۸، ۶ / ۳۱۲، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۸، ۳ / ۳۹۸، ملتقطاً)

{وَ تَقَلُّبَكَ: اور تمہارے دورہ فرمانے کو۔} یعنی اللہ تعالٰی آپ کو ا س وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ اپنے تہجد پڑھنے والے اصحاب کے حالات ملاحظہ فرمانے کے لئے رات کے وقت گھومتے ہیں ۔ مفسرین نے ا س آیت کے اور معنی بھی بیان کئے ہیں ۔

(1)… اس کا معنی یہ ہے: ’’اللہ تعالٰی آپ کو ا س وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ امام بن کر نماز پڑھاتے ہیں  اور قیام، رکوع، سجود اورقعدہ کی حالت میں  ہوتے ہیں ۔

(2)…اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نمازوں میں  آپ کی آنکھ کی گردش کو دیکھتا ہے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے آگے اور پیچھے سے یکساں  ملاحظہ فرماتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی حدیث میں  ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:خدا کی قسم! مجھ پر تمہارا خشوع اوررکوع مخفی نہیں ، میں  تمہیں  اپنے پس ِپُشت دیکھتا ہوں۔(بخاری، کتاب الصلاۃ، باب عظۃ الامام الناس فی اتمام الصلاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۶۱، الحدیث: ۴۱۸)

(3)… بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں  ساجدین سے مومنین مراد ہیں  اور معنی یہ ہیں  کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے زمانے سے لے کر حضرت عبداللہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت آمنہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا تک مومنین کی پشتوں  اور رحموں  میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دورے کو ملاحظہ فرماتاہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام آباء واَجداد سب کے سب مومن ہیں۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۹، ص۸۳۴، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۹، ۳ / ۳۹۸، جمل، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۹،۵ / ۴۱۳، ملتقطاً)

{اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ: بیشک وہی سننے والا ہے۔} یعنی بے شک اللہ تعالٰی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گفتگو سننے  والا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمل اور نیت کو جاننے والاہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۰، ص۸۳۴)
26:219
وَ تَقَلُّبَكَ فِی السّٰجِدِیْنَ(۲۱۹)
اور نمازیوں میں تمہارے دورے کو (ف۱۸۳)

26:220
اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۲۲۰)
بیشک وہی سنتا جانتا ہے (ف۱۸۴)

26:221
هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُؕ(۲۲۱)
کیا میں تمہیں بتادوں کہ کس پر اترتے ہیں شیطان،

{هَلْ اُنَبِّئُكُمْ: کیا میں  تمہیں  بتادوں ۔} بعض مشرکین یہ کہتے تھے کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر (مَعَاذَاللہ) شیطان اُترتے ہیں ۔ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں اللہ تعالٰی نے اُن مشرکوں  کے جواب میں  ارشاد فرمایا کہ اے مشرکین!کیا میں  تمہیں  بتادوں  کہ شیطان کس پراترتے ہیں ؟ یہ فرمانے کے بعد بتایا کہ شیطان بڑے بہتان باندھنے والے، گناہگار جیسے مُسَیْلِمَہ وغیرہ کاہنوں  پراترتے ہیں  اور شیطان فرشتوں  سے سنی ہوئی باتیں  ان کاہنوں  کے سامنے ذکر کرتے ہیں  اور ان میں  اکثر جھوٹے ہیں  کیونکہ وہ فرشتوں  سے سنی ہوئی باتوں  میں  اپنی طرف سے بہت سی جھوٹی باتیں  ملادیتے ہیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۱-۲۲۳، ص۸۳۴-۸۳۵، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۱-۲۲۳، ص۳۱۶،ابو سعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۱-۲۲۳، ۴ / ۱۸۲، ملتقطاً)

26:222
تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۲۲۲)
اترتے ہیں بڑے بہتان والے گناہگار پر (ف۱۸۵)

26:223
یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَؕ(۲۲۳)
شیطان اپنی سنی ہوئی (ف۱۸۶) ان پر ڈالتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہیں (ف۱۸۷)

26:224
وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَؕ(۲۲۴)
اور شاعروں کی پیرو ی گمراہ کرتے ہیں (ف۱۸۸)

{وَ الشُّعَرَآءُ: اور شاعر۔} شانِ نزول: یہ آیت کفار کے ان شاعروں  کے بارے میں  نازل ہوئی جورسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف شعر بناتے اور یہ کہتے تھے کہ جیسا محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کہتے ہیں  ایسا ہم بھی کہہ لیتے ہیں  اور اُن کی قوم کے گمراہ لوگ اُن سے ان اَشعار کو نقل کرتے تھے۔ اس آیت میں  ان لوگوں  کی مذمت فرمائی گئی ہے کہ شاعروں  کی اُن کے اشعار میں  پیرو ی توگمراہ لوگ کرتے ہیں  کہ اُن اشعار کو پڑھتے ہیں ، رواج دیتے ہیں  حالانکہ وہ اشعار جھوٹے اورباطل ہوتے ہیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۴، ۳ / ۳۹۸-۳۹۹، ملخصاً)

غلط شاعری کرنے والوں  اور سننے، پڑھنے والوں  کو نصیحت:

اس سے معلوم ہو اکہ شاعروں  کا جھوٹے اور باطل اَشعار لکھنا،انہیں  پڑھنا،دوسروں  کو سنانا اور انہیں  معاشرے میں  رائج کرنا گمراہ لوگوں  کا کام ہے، اس سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو ایسے اشعار لکھتے ہیں  جن میں اللہ تعالٰی اورنبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین،دین ِاسلام اور قرآن کا مذاق اڑانے اور اللہ تعالٰی کی بارگاہ کے مقرب بندوں  کی شان میں  گستاخی کے کلمات ہوتے ہیں ، یونہی بے حیائی، عُریانی اور فحاشی کی ترغیب پر مشتمل نیز عورت اور مرد کے نفسانی جذبات کو بھڑکانے والے الفاظ کے ساتھ شاعری کرتے ہیں  اور ان کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی نصیحت حاصل کریں  جو ان کی بیہودہ شاعری سنتے، پڑھتے اوردوسروں  کو سناتے ہیں ۔

حضرت عبداللہ بن عمر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم میں  سے کسی شخص کا پیٹ  پیپ سے بھر جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں  سے بھرا ہوا ہو۔( بخاری، کتاب الادب، باب ما یکرہ ان یکون الغالب علی الانسان الشعر۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۶۱۵۴)

حضرت بریدہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اسلام میں  فحش اور بے حیائی پر مشتمل اشعار کہے تو ا س کی زبان ناکارہ ہے۔(شعب الایمان ، الرابع و الثلاثون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، فصل فی حفظ اللسان عن الشعر الکاذب ، ۴ / ۲۷۶ ، الحدیث: ۵۰۸۸)اور ایک روایت میں  ہے کہ اس کا خون رائیگاں  گیا۔( کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۲۳۰، الحدیث: ۷۹۷۲، الجزء الثالث)

            اللہ تعالٰی ایسے لوگوں  کو ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔

{ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَ: شاعر ہر وادی میں  بھٹکتے پھرتے ہیں ۔} یعنی عرب کے شاعر کلام اور فن کی ہر قسم میں  شعر کہتے ہیں ،کبھی وہ اشعار کی صورت میں  کسی کی تعریف کرتے ہیں  اور کبھی کسی کی مذمت و برائی بیان کرتے ہیں ۔ان کے اشعار میں  اکثر بے حیائی کی باتیں ، گالی گلوچ،لعن طعن،بہتان اور الزام تراشی، فخر و تکبر کا اظہار،حسد،خود پسندی، فضیلت کا اظہار، تذلیل،توہین،برے اخلاق اور ایک دوسرے کے نسبوں  میں  طعن کرنا وغیرہ مذموم چیزیں  ہوتی ہیں ۔(روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۵، ۶ / ۳۱۶، ملخصاً)

{وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ: اور وہ ایسی بات کہتے ہیں ۔} یہاں  شاعروں  کے قول اور عمل میں  تضاد بیا ن کیا گیا کہ وہ اپنے اشعار میں  سخاوت کی تعریف بیان کرتے اور اس کی ترغیب دیتے ہیں  لیکن خود سخاوت کرنے سے اِعراض کرتے ہیں  اور بخل کی مذمت بیان کرتے ہیں  جبکہ خود انتہائی کنجوسی سے کام لیتے ہیں ۔اگر کسی کے آباء و اَجداد میں  سے کسی نے کوئی چھوٹی سی غلطی کی ہو تو اس کی وجہ سے لوگوں  کی برائی بیان کرتے ہیں  اور پھر خود بے حیائی کے کام کرنے لگ جاتے ہیں۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۶، ۳ / ۳۹۹، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۶، ۸ / ۵۳۸، ملتقطاً)

26:225
اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَۙ(۲۲۵)
کیا تم نے نہ دیکھا کہ وہ ہر نالے میں سرگرداں پھرتے ہیں (ف۱۸۹)

26:226
وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَۙ(۲۲۶)
اور وہ کہتے ہیں جو نہیں کرتے (ف۱۹۰)

26:227
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْاؕ-وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۠(۲۲۷)
مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے (ف۱۹۱) اور بکثرت اللہ کی یاد کی (ف۱۹۲) اور بدلہ لیا (ف۱۹۳) بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوا (ف۱۹۴) اور اب جاننا چاہتے ہیں ظالم (ف۱۹۵) کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے (ف۱۹۶)

{اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: مگر وہ جو ایمان لائے۔} اس آیت میں  مسلمان شاعروں  کا اِستثناء فرمایا گیا کیونکہ ان کے کلام میں  کافر شاعروں  کی طرح مذموم باتیں  نہیں  ہوتیں  بلکہ وہ اشعار کی صورت میں  اللہ تعالٰی کی حمد لکھتے ہیں ،حضور پُر نور  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت لکھتے ہیں ، دین ِاسلام کی تعریف لکھتے ہیں ،وعظ و نصیحت لکھتے ہیں  اور اس پر اجرو ثواب پاتے ہیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۳۹۹، ملخصاً)

دربارِ رسالت کے شاعر حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان :

            حضرت عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  فرماتی ہیں ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد ِنَبوی شریف میں  حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے منبر رکھواتے تھے۔حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس پر کھڑے ہو کر (اشعار کی صورت میں ) رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعریف و توصیف بیان کرتے اورکفار کی بدگوئیوں  کا جواب دیتے تھے اورحضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (ان کے حق میں )فرماتے تھے کہ جب تک حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کفار کی بدگوئیوں  کا جواب دے رہے ہوتے ہیں  اللہ تعالٰی حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے ان کی مدد فرماتا ہے۔( ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی انشاد الشعر، ۴ / ۳۸۵، الحدیث: ۲۸۵۵)

            ایک اور روایت میں  ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرماتے: ’’تم اللہ تعالٰی کے رسول کی طرف سے (کفار کی بد گوئیوں  کا) جواب دو۔ (پھر دعا فرماتے) اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے مدد فرما۔( بخاری، کتاب الادب، باب ہجاء المشرکین، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۶۱۵۲)

 اشعار فی نفسہٖ بُرے نہیں :

            یاد رہے کہ اشعار فی نفسہ برے نہیں  کیونکہ وہ ایک کلام ہے، اگر اشعار اچھے ہیں  تووہ اچھا کلا م ہے اور برے اشعار ہیں  تو وہ برا کلام ہے، جیساکہ حضرت عروہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’شعر ایک کلام ہے،اچھے اشعار اچھے کلام کی طرح ہیں  اور برے اشعار برے کلام کی طرح ہیں ۔( سنن الکبری للبیہقی،کتاب الحج،باب لایضیق علی واحد منہما ان یتکلّم بما لا یأثم فیہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۱۱۰، الحدیث: ۹۱۸۱)

            اورحضرت عائشہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  فرماتی ہیں ’’ بعض اشعار اچھے ہوتے ہیں  اور بعض برے ہوتے ہیں ، اچھے اشعار کو لے لو اور برے اشعار کو چھوڑ دو۔( ادب المفرد، باب الشعر حسن کحسن الکلام ومنہ قبیح، ص۲۳۵، الحدیث: ۸۹۰)

            حضرت اُبی بن کعب  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’بعض شعر حکمت ہوتے ہیں ۔‘‘( بخاری، کتاب الادب، باب ما یجوز من الشعر والرجز۔۔۔ الخ،۲ / ۱۳۹، الحدیث: ۶۱۴۵)

             رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مجلس مبارک میں  بھی شعر پڑھے جاتے تھے جیساکہ ترمذی شریف میں  حضرت جابر بن سمرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے۔( ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی انشاد الشعر، ۴ / ۳۸۶، الحدیث: ۲۸۵۹)

            اورامام شعبی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا شعر کہتے تھے اورحضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ان دونوں  سے زیادہ شعر فرمانے والے تھے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۴۰۰)

{وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا: اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا۔} یعنی صالحین کیلئے شاعری اللہ تعالٰی کو کثرت سے یاد کرنے اور تلاوتِ قرآن کرنے سے غفلت کا سبب نہ بن سکی بلکہ ان لوگوں  نے جب شعر کہے بھی تو ان میں  اللہ تعالٰی کی حمد و ثناء اور اس کی توحید بیان کی۔ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت، صحابۂ کرام اور امت کے نیک لوگوں  کی تعریف بیان کی اور اپنے اشعار میں  حکمت، وعظ و نصیحت اور زہد و اَدب پر مشتمل باتیں  ذکر کیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ص۸۳۵-۸۳۶)

             ایسی شاعری کی اردو میں  بہترین مثال اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا لکھا ہواکلام بنام ’’حدائقِ بخشش‘‘ ہے، جس میں  آپ  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اچھی شاعری کے تمام پہلو انتہائی احسن انداز میں  بیان کئے ہیں۔ اس کلام کا مطالعہ کرنا بھی دل میں  اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عشق، صحابہ ٔ کرام رَضِیَ  اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی عظمت پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے، لہٰذا اس کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے۔

{وَ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا: اورمظلوم ہونے کے بعد بدلہ لیا۔} یعنی اگر ان کے اشعار میں  کسی کی برائی بیان بھی ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کفارنے مسلمانوں  کی اور اُن کے پیشواؤں  کی جھوٹی برائی بیان کر کے ان پر ظلم کیا تو ان حضرات نے شعروں  کے ذریعے ا س ظلم کا بدلہ لیا اور کافروں  کو اشعار کی صورت میں  ان کی بدگوئیوں  کے جواب دیئے، لہٰذا وہ مذموم نہیں  ہیں ۔( روح البیان ، الشعراء ، تحت الآیۃ : ۲۲۷ ، ۶ / ۳۱۶، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۴۰۰، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ص۳۱۷) بلکہ وہ اس پر اجرو ثواب کے مستحق ہیں  کیونکہ یہ ان حضرات کا زبان سے جہاد ہے۔

زبانی جہاد سے متعلق دو اَحادیث:

            آیت کی مناسبت سے یہاں  زبانی جہاد سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت انس بن مالک  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم اپنے مالوں ،اپنے ہاتھوں  اور اپنی زبانوں  کے ساتھ مشرکوں  سے جہاد کرو۔( سنن نسائی، کتاب الجہاد، باب وجوب الجہاد، ص۵۰۳، الحدیث: ۳۰۹۳)

(2)…حضرت کعب بن مالک  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی،اور اس ذات کی قسم!جس کے قبضہِ قدرت میں  میری جان ہے،تم اسی شعر سے ان کفار کو تیروں  کے مارنے کی طرح مارتے ہو۔( مسند امام احمد، من مسند القبائل، حدیث کعب بن مالک رضی اللّٰہ عنہ، ۱۰ / ۳۳۵، الحدیث: ۲۷۲۴۴)

{وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا: اورعنقریب ظالم جان لیں  گے۔} یعنی جن مشرکین نے حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جھوٹی برائیاں  بیان کی ہیں  حالانکہ ان کی شان تو یہ ہے کہ وہ پاک ہیں  اور پاک کرنے والے ہیں  تو یہ مشرکین عنقریب مرنے کے بعد جان لیں  گے کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں  گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’وہ جہنم کی طرف پلٹا کھائیں  گے اورجہنم بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۴۰۰)

 

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلشُّـعَرَاء
اَلشُّـعَرَاء
  00:00



Download

اَلشُّـعَرَاء
اَلشُّـعَرَاء
  00:00



Download