READ

Surah Ash-Shu'araa

اَلشُّـعَرَاء
227 Ayaat    مکیۃ


26:161
اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۶۱)
جب کہ ان سے ان کے ہم قوم لوط نے فرمایا کیا تم نہیں ڈرتے،

26:162
اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۶۲)
بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانتدار رسول ہوں،

26:163
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۶۳)
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،

26:164
وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۶۴)
اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جان کا رب ہے،

26:165
اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَۙ (۱۶۵)
کیا مخلوق میں مردوں سے بدفعلی کرتے ہو (ف۱۴۵)

{اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ: کیاتم مردوں  سے بدفعلی کرتے ہو۔} اس آیت کاایک معنی یہ بھی ہو سکتاہے کہ کیا مخلوق میں  ایسے قبیح اور ذلیل فعل کے لئے تمہیں  رہ گئے ہو،دنیا جہاں  کے اور لوگ بھی تو ہیں ، انہیں  دیکھ کر تمہیں  شرمانا چاہئے۔ اور یہ معنی بھی ہوسکتاہے کہ کثیر عورتیں  موجودہوتے ہوئے اس قبیح فعل کا مُرتکِب ہونا انتہا درجہ کی خباثت ہے۔مروی ہے کہ اس قوم کو یہ خبیث عمل شیطان نے سکھایا تھا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۶۵، ص۸۲۸، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۶۵، ۶ / ۳۰۱، ملتقطاً)
26:166
وَ تَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ(۱۶۶)
اور چھوڑتے ہو وہ جو تمہارے لیے تمہارے رب نے جوروئیں بنائیں، بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو (ف۱۴۶)

{وَ تَذَرُوْنَ: اور چھوڑتے ہو۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا کہ تمہارے لیے تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے جو بیویاں  بنائی ہیں ، کیا تم ان حلال طیب عورتوں  کو چھوڑ کر مردوں  سے بد فعلی جیسی حرام اورخبیث چیزمیں  مبتلا ہوتے ہوبلکہ تم لوگ اس خبیث عمل کی وجہ سے حد سے بڑھنے والے ہو۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۶۶، ص۸۲۹، ملتقطاً)

عورتوں  کے ساتھ بد فعلی کرنے کی وعیدیں :

            آیت میں  مردوں  کے ساتھ بدفعلی کے حرام ہونے کا بیان ہے، یہاں  اس کی مناسبت سے عورت کے ساتھ بھی بدفعلی یعنی پچھلے مقام میں  جماع کرنے کا حکم بیان کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یاد رہے کہ بیوی سے جماع کرنا بھی صرف اسی جگہ حلال ہے جہاں  کی شریعت نے اجازت دی ہے اور ا س سے بد فعلی کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح مردوں  سے بد فعلی کرنا حرام ہے، یہاں  بیویوں  کے ساتھ بد فعلی کرنے کی وعید پر مشتمل4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت خزیمہ بن ثابت  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالٰی حق بیان کرنے سے حیا نہیں  فرماتا، تم میں  سے کسی کے لئے حلال نہیں  کہ وہ عورتوں  کے پچھلے مقام میں  وطی کرے۔( معجم الکبیر،باب من اسمہ: خزیمۃ، خزیمۃ بن ثابت الانصاری ذو الشہادتین، ہرمی بن عبد اللّٰہ الخطمی عن خزیمۃ بن ثابت،۴ / ۸۸، الحدیث: ۳۷۳۶)

(2)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو اپنی بیوی کے پچھلے مقام میں  وطی کرے وہ ملعون ہے۔( ابو داؤد، کتاب النکاح، باب فی جامع النکاح، ۲ / ۳۶۲، الحدیث: ۲۱۶۲)

(3)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالٰی (قیامت کے دن) اس شخص کی طرف رحمت کی نظر نہیں  فرمائے گا جو اپنی بیوی کے پچھلے مقام میں  جماع کرے۔( ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب النہی عن اتیان النساء فی ادبارہنّ، ۲ / ۴۴۹، الحدیث: ۱۹۲۳)

(4)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:  ’’اللہ تعالٰی (قیامت کے دن) اس شخص کی طرف رحمت کی نظر نہیں  فرمائے گا جو کسی مرد یا عورت کے پچھلے مقام میں  وطی کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی کراہیۃ اتیان النساء فی ادبارہنّ، ۲ / ۳۸۸، الحدیث: ۱۱۶۸)

{قَالُوْا: انہوں  نے کہا۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحت کے جواب میں  ان لوگوں  نے کہا اے لوط!اگر تم نصیحت کرنے اور اس فعل کو برا کہنے سے بازنہ آئے تو ضرور ا س شہر سے نکال دئیے جاؤ گے اور تمہیں  یہاں  رہنے نہ دیا جائے گا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۶۷، ص۸۲۹)

 

26:167
قَالُوْا لَىٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ یٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ(۱۶۷)
بولے اے لوط! اگر تم باز نہ آئے (ف۱۴۷) تو ضرور نکال دیے جاؤ گے (ف۱۴۸)

26:168
قَالَ اِنِّیْ لِعَمَلِكُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَؕ(۱۶۸)
فرمایا میں تمہارے کام سے بیزار ہوں (ف۱۴۹)

{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’میں  تمہارے کام سے بیزار اور اس سے شدید نفرت کرنے والوں  میں  سے ہوں  اور مجھے اس سے شدید دشمنی ہے۔ پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  دعا کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے اور میرے گھر والوں  کو ان کے اعمال پر آنے والے عذاب سے محفوظ رکھ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۶۸-۱۶۹، ۳ / ۳۹۴، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۶۸-۱۶۹، ص۸۲۹، ملتقطاً)
26:169
رَبِّ نَجِّنِیْ وَ اَهْلِیْ مِمَّا یَعْمَلُوْنَ(۱۶۹)
اے میرے رب! مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کے کام سے بچا (ف۱۵۰)

26:170
فَنَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اَجْمَعِیْنَۙ(۱۷۰)
تو ہم نے اسے اور اس کے سب گھر والوں کو نجات بخشی (ف۱۵۱)

{فَنَجَّیْنٰهُ: تو ہم نے اسے نجات بخشی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ان کی بیٹیوں  اور ان تمام لوگوں  کو جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے تھے عذاب سے نجات بخشی لیکن ایک بڑھیا جو پیچھے رہ جانے والوں  میں  سے تھی اسے نجات نہ بخشی۔ یہ بڑھیا حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی تھی،یہ چونکہ اپنی قوم کے فعل پر راضی تھی اور جو گناہ پر راضی ہو وہ بھی گناہ کرنے والے کے حکم میں  ہوتا ہے اسی لئے وہ بڑھیا عذاب میں  گرفتارہوئی اور اس نے نجات نہ پائی۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷۰-۱۷۱، ص۸۲۹)
26:171
اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَۚ(۱۷۱)
مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی (ف۱۵۲)

26:172
ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیْنَۚ(۱۷۲)
پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کردیا،

{ثُمَّ دَمَّرْنَا: پھر ہم نے ہلاک کردیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں  کو نجات دینے کے بعد دوسروں  کو اللہ تعالٰی نے ان کی بستیاں  الٹ کر ہلاک کر دیا اور ان پر پتھروں  کی یا گندھک اور آگ کی خاص بارش برسائی تو جن لوگوں  کو اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرایا گیا اور وہ ایمان نہ لائے، ان پر کی جانے والی یہ بارش کتنی بری تھی۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷۲-۱۷۳، ۶ / ۳۰۲، ملتقطاً)
26:173
وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًاۚ-فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ(۱۷۳)
اور ہم نے ان پر ایک برساؤ برسایا (ف۱۵۳) تو کیا ہی برا برساؤ تھا ڈرائے گئیوں کا،

26:174
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۷۴)
بیشک اس میں ضرور نشانی ہے، اور ان میں بہت مسلمان نہ تھے،

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً: بیشک اس میں  ضرور نشانی ہے۔} یعنی جو کچھ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے ساتھ کیا گیا، ا س میں  ان کے بعد والوں  کے لئے ضرور عبرت کی نشانی ہے تاکہ وہ اس قوم کے جیسا گندا ترین کام نہ کریں  اور ان پر بھی ویساعذاب نازل نہ ہو جیسا حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر نازل ہوا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں  سے بھی بہت تھوڑے لوگ ہی آپ پر ایمان لائے تھے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷۴، ۶ / ۳۰۲) اس لئے اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کم لوگوں  کے ایمان لانے پر غمزدہ نہ ہوں ۔

26:175
وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠(۱۷۵)
اور بیشک تمہارا رب ہی عزت والا مہربان ہے،

{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک آپ کارب ہی دشمنوں  پر قہر فرمانے میں  غالب ہے اور وہی تنبیہ اور نصیحت سے پہلے عذاب نازل نہ فرما کر مہربانی فرمانے والا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۶ / ۳۰۲)

لواطت اور ہم جنس پرستی کے نقصانات:

            یہ ہم پر اللہ تعالٰی کی بہت بڑی رحمت اور مہربانی ہے کہ اس نے ہمارے لئے ہر وہ چیز جائز اور حلال رکھی ہے جو ہمارے لئے دنیااور آخرت کے اعتبار سے فائدہ مند،نفع بخش، ہماری بقا و سلامتی اور اُخروی نجات کے لئے ضروری ہے اور ہر ا س چیز کو ہمارے لئے حرام اور ممنوع کر دیا ہے جو ہماری دنیا یا آخرت کے لئے نقصان کا باعث ہے۔یاد رہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کی فطری خواہش یعنی شہوت کی تسکین کا ذریعہ عورت کو بنایا ہے اوراس میں  بھی ہر انسان کو کھلی چھٹی نہیں  دی کہ وہ جب چاہے اور جس عورت سے چاہے اپنی فطری خواہش پوری کر لے بلکہ اللہ تعالٰی نے انسانوں  کو اپنی شہوت کی تسکین کے لئے’’ نکاح‘‘ کا ایک مقدس نظام دیا ہے تاکہ انسانوں  کو اپنے جذبات کی تکمیل کے لئے جائز اور مناسب راہ مل سکے، اخلاقی طور پر بے راہ روی کا شکار نہ ہوں ،نسلِ انسانی کی بقا کاسامان مہیا ہو اور لوگ ایک خاندانی نظام کے تحت معاشرے میں  امن وسکون کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں ۔لیکن فی زمانہ عالمی سطح پر تہذیب وتَمَدُّن کے دعوے دار کئی غیر مسلم ممالک نے اللہ تعالٰی کے اس نظام سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے معاشروں  میں  لواطت کو قانوناً جائز قرار دے رکھا ہے بلکہ کئی مسلم ممالک میں  بھی یہ وبا پھیلتی چلی جا رہی ہے اور جن ملکوں  میں  اسے قانوناً اگرچہ جائز قرار نہیں  دیا گیا وہاں  بھی تقریباً ہر گاؤں  اورشہر میں  بہت سے لوگ اس غیر فطری عادت اور حرام کاری میں  مبتلا نظر آتے ہیں ۔اس حرام کاری کو قانوناً جائز قرار دینے والے ملکوں  میں  اخلاقی اور خاندانی نظام کی تباہی کا حال یہ ہو ا ہے کہ وہاں  پر لوگوں  میں  حیا اور شرم نام کی چیز باقی نہیں  رہی اور لوگ سرِ عام ا س حرام کاری میں  مصروف ہوجاتے ہیں  اور ان میں  خاندانی نظامِ حیات تقریبا ً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ مَردوں  کی مردوں  اور عورتوں  کی عورتوں  سے باہم لذت آشنائی کے باعث ان ملکوں  میں  نسلِ انسانی تیزی سے کم ہو رہی ہے اورآبادی کی شرح خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ شہوت پرست لوگ بچے جننے اور ان کی تربیت کرنے پر راضی نہیں ۔یہ لواطت اور ہم جنس پرستی کا عمومی نقصان ہے بطورِ خاص لواطت اور ہم جنس پرستی کا عادی انسان آتشک،سوزاک،سیلان، خارش اور خطرناک پھوڑے پھنسیوں  جیسے اَمراض کا شکار ہو جاتا ہے اور ایڈز کا سب سے بڑا سبب بھی یہی حرام کاری ہے۔ایڈز وہ انتہائی خطرناک مرض ہے کہ جس کی ہَولناکی کی وجہ سے اس وقت ساری دنیا کے لوگ لرزہ براندام ہیں ،یہ وہ عالمگیر مرض ہے جس سے پوری دنیا کا کوئی خطہ، کوئی ملک محفوظ نہیں  ہے۔ کروڑوں  افراد اس مُہلِک مرض میں  مبتلا ہیں  اور آئے دن اس کے مریضوں  کی تعداد میں  اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اب تک لاکھوں  افراد ا س مرض کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں  اور جو زندہ ہیں  وہ انتہائی کَرب کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ میڈیکل سائنس اور طب کے دیگر شعبوں  میں  تمام ترترقی کے باوجود ابھی تک اس مرض کاکوئی موثر علاج دریافت نہیں  کیا جا سکا۔ اللہ تعالٰی سب مسلمانوں  کو اس حرام کاری سے محفوظ رکھے، اٰمین۔

 

26:176
كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــٴَـیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۷۶)
بن والوں نے رسولوں کو جھٹلایا (ف۱۵۴)

{كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــٴَـیْكَةِ: اَیکہ (جنگل) والوں  نے جھٹلایا۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔اس آیت میں  جس جنگل کا ذکر ہوا یہ مَدیَن شہر کے قریب تھا اوراس میں  بہت سے درخت اور جھاڑیاں  تھیں ۔ اللہ تعالٰی نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اہلِ مدین کی طرح اُن جنگل والوں  کی طرف بھی مبعوث فرمایا تھااور یہ لوگ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم سے تعلق نہ رکھتے تھے۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ص۳۱۵، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ص۸۲۹، ملتقطاً)
26:177
اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۷۷)
جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں،

{اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ: جب ان سے شعیب نے فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جنگل والوں  نے ا س وقت حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلا کر تمام رسولوں  کو جھٹلایا جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’کیا تم کفر و شرک پر اللہ تعالٰی کے عذاب سے نہیں  ڈرتے!بے شک میں  تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی وحی اور رسالت پر امانت دار رسول ہوں  تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میں  تمہیں  جو حکم دے رہا ہوں  اس میں  میری اطاعت کرو۔

{وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ: اور میں  اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں  مانگتا۔} ان تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت کا یہی عنوان رہا کیونکہ وہ سب حضرات اللہ تعالٰی کے خوف اور اس کی اطاعت اور عبادت میں  اخلاص کا حکم دیتے اور رسالت کی تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں  لیتے تھے، لہٰذا سب نے یہی فرمایا۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸۰، ۳ / ۳۹۴)

26:178
اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۷۸)
بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانتدار رسول ہوں،

26:179
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۷۹)
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،

26:180
وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۸۰)
اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے (ف۱۵۵)

26:181
اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَۚ(۱۸۱)
ناپ پورا کرو اور گھٹانے والوں میں نہ ہو (ف۱۵۶)

{اَوْفُوا الْكَیْلَ: (اے لوگو!) ناپ پورا کرو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی3  آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ناپ تول میں  کمی کرنا،لوگوں  کو ان کی چیزیں  کم کر کے دینا،رہزنی اور لوٹ مار کرکے اور کھیتیاں  تباہ کرکے زمین میں  فساد پھیلانا ان لوگوں  کی عادت تھی اس لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں   ان کاموں  سے منع فرمایا اور ناپ تول پورا کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعدساری مخلوق کو پیدا کرنے والے رب تعالٰی کے عذاب سے ڈرایا۔

            اس سے معلوم ہوا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام صرف عبادات ہی سکھانے نہیں  آتے بلکہ اعلیٰ اَخلاق، سیاسیات، معاملات کی درستگی کی تعلیم بھی دیتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی ہمیں بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

26:182
وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِۚ(۱۸۲)
اور سیدھی ترازو سے تولو،

26:183
وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَۚ(۱۸۳)
اور لوگوں کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو (ف۱۵۷)

26:184
وَ اتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِیْنَؕ(۱۸۴)
اور اس سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا اور اگلی مخلوق کو،

26:185
قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَۙ(۱۸۵)
بولے تم پر جادو ہوا ہے،

{قَالُوْا: قوم نے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں  نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحت سن کر کہا:اے شعیب!تم تو ان لوگوں  میں  سے ہو جن پر جادو ہوا ہے اورتم کوئی فرشتے نہیں  بلکہ ہمارے جیسے ایک آدمی ہی ہواور تم نے جونبوت کا دعویٰ کیا بے شک ہم تمہیں  اس میں  جھوٹا سمجھتے ہیں ۔ اگر تم نبوت کے دعوے میں  سچے ہو تو اللہ تعالٰی سے دعا کرو کہ وہ عذاب کی صورت میں  ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے۔( مدارک، الشعراء،تحت الآیۃ:۱۸۵-۱۸۷،ص۸۳۰، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸۵-۱۸۷، ۶ / ۳۰۴، ملتقطاً)

{وَ مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا: تم تو ہمارے جیسے ایک آدمی ہی ہو۔} صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’نبوت کا انکار کرنے والے اَنبیاء( عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام )کی نسبت میں  بِالعموم یہی کہا کرتے تھے۔ جیسا کہ آج کل کے بعض فاسد العقیدہ کہتے ہیں ۔( خزائن العرفان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸۶، ص۶۹۵)

26:186
وَ مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَ اِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَۚ(۱۸۶)
تم تو نہیں مگر ہم جیسے آدمی (ف۱۵۸) اور بیشک ہم تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں،

26:187
فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَؕ(۱۸۷)
تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو اگر تم سچے ہو (ف۱۵۹)

26:188
قَالَ رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۱۸۸)
فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے کوتک (کرتوت) ہیں (ف۱۶۰)

{قَالَ: فرمایا۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان لوگوں  کا جواب سن کر ان سے فرمایا :میرا رب عَزَّوَجَلَّ  تمہارے اعمال کو اور جس عذاب کے تم مستحق ہو اسے خوب جانتا ہے، وہ اگر چاہے گا تو آسمان کا کوئی ٹکڑ اتم پر گرا دے گایاتم پر کوئی اور عذاب نازل کرنا اس کی مَشِیَّت میں  ہو گا تو میرا رب عَزَّوَجَلَّ وہ عذاب تم پر نازل فرمادے گا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ص۸۳۰)

{فَكَذَّبُوْهُ: تو انہوں  نے اسے جھٹلایا۔} ارشاد فرمایا کہ جنگل والوں  نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تو انہیں  شامیانے کے دن کے عذاب نے پکڑلیا، بیشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا جو کہ اس طرح ہوا کہ انہیں  شدید گرمی پہنچی، ہوا بند ہوئی اور سات دن گرمی کے عذاب میں  گرفتار رہے۔ تہ خانوں  میں  جاتے وہاں  اور زیادہ گرمی پاتے۔ اس کے بعد ایک بادل آیا سب اس کے نیچے آکے جمع ہوگئے تو اس سے آگ برسی اور سب جل گئے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸۹، ص۸۳۰)
26:189
فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِؕ-اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۱۸۹)
تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں شامیانے والے دن کے عذاب نے آلیا، بیشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا (ف۱۶۱)

26:190
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۹۰)
بیشک اس میں ضرور نشانی ہے، اور ان میں بہت مسلمان نہ تھے،

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً:  بیشک اس میں  ضرور نشانی ہے۔} یعنی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور جنگل والوں  کا جو یہ واقعہ بیان کیاگیا اس میں  عقلمندوں  کے لئے ضرور عبرت کی نشانی ہے اور ان جنگل والوں  کے اکثر لوگ مسلمان نہ تھے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۰، ۶ / ۳۰۴-۳۰۵)

{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارار ب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی غالب اور ہر ممکن چیز پر قادر ہے اور اس کی ایک دلیل انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دشمنوں  کے خلاف ان کی مدد فرمانا ہے اور بے شک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی لوگوں  کو مہلت دے کر مہربانی فرمانے والاہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۱، ۶ / ۳۰۵)
26:191
وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠(۱۹۱)
اور بیشک تمہارار ب ہی عزت والا مہربان ہے،

26:192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۹۲)
اور بیشک یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے،

{وَ اِنَّهٗ: اور بیشک یہ قرآن۔} انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان کرنے کے بعد یہاں  سے اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی چیز کاذکر فرمایاہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ یہ قرآن سب جہانوں  کے رب تعالٰی کا اتارا ہوا ہے کسی شاعر، جادو گر یا کاہن کا کلام نہیں  جیسا کہ اے کفار تم گمان کرتے ہو۔( تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۲، ۸ / ۵۳۰،  صاوی، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۲، ۴ / ۱۴۷۴، ملتقطاً)
26:193
نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُۙ(۱۹۳)
اسے روح الا مین لے کر اترا (ف۱۶۲)

{نَزَلَ بِهِ: اسے لے کر نازل ہوئے۔} قرآن پاک کو روح الا مین یعنی حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام لے کر نازل ہوئے۔

 حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو روح اور امین کہنے کی وجوہات:

             حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو روح کہنے کی ایک وجہ مفسرین نے یہ بیان کی ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام روح سے پیدا کئے گئے ہیں  اس لئے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو روح کہا گیا۔دوسری وجہ یہ بیان کی ہے کہ جس طرح روح بدن کی زندگی کا سبب ہوتی ہے اسی طرح حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام مکلف لوگوں  کے دلوں  کی زندگی کا سبب ہیں  کیونکہ علم اور معرفت کے نور سے دل زندہ ہوتے ہیں  جبکہ بے علمی اور جہالت سے مردہ ہو تے ہیں  اورحضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے وحی نازل ہوتی ہے جس سے اللہ تعالٰی کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس معرفت کے ذریعے بے علمی اور جہالت کی وجہ سے مردہ ہو جانے والے د ل زندہ ہوجاتے ہیں ، ا س لئے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو روح فرمایا گیا اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو امین ا س لئے کہتے ہیں  کہ اللہ تعالٰی نے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک اپنی وحی پہنچانے کی امانت ان کے سپرد فرمائی ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۳، ۳ / ۳۹۵، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۳، ۸ / ۵۳۰، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ:۱۹۳، ۶ / ۳۰۶، ملتقطاً)

 قرآنِ مجید کے بارے میں  ایک عقیدہ:

            یاد رہے کہ قرآن پاک اللہ تعالٰی کا کلام ہے اور اس کی صفت ہے جو ا س کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اللہ تعالٰی نے اس کلام کو عربی الفاظ کے لبادے میں  حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل فرمایا اور انہیں  ان الفاظ پر امین بنایا تاکہ وہ اس کے حقائق میں  تَصَرُّف نہ کریں ،اس کے بعد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے ان الفاظ کوحضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب ِاَطہر پر نازل کیا۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۳، ۶ / ۳۰۶)
26:194
عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَۙ (۱۹۴)
تمہارے دل پر (ف۱۶۳) کہ تم ڈر سناؤ،

{عَلٰى قَلْبِكَ: تمہارے دل پر۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ کے سامنے ا س قرآن کی تلاوت کی، یہاں  تک کہ آپ نے اسے اپنے دل میں  یاد کر لیا کیونکہ دل ہی کسی چیز کو یاد رکھنے اور اسے محفوظ رکھنے کا مقام ہے،وحی اور اِلہام کا مَعدِن ہے اور انسان کے جسم میں  دل کے علاوہ اور کوئی چیز خطاب اور فیض کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں  رکھتی۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۴، ۶ / ۳۰۶) نیز اس لئے کہ آپ اسے محفوظ رکھیں  اور سمجھیں  اور نہ بھولیں ۔ دل کی تخصیص اس لئے ہے کہ درحقیقت وہی مخاطب ہے اور تمیز،عقل اور اختیار کا مقام بھی وہی ہے، تمام اَعضاء اس کے آگے مسخر اور اطاعت گزارہیں ۔ حدیث شریف میں  ہے کہ دل کے درست ہونے سے تمام بدن درست ہوجاتا اور اس کے خراب ہونے سے سب جسم خراب ہو جاتا ہے، نیز فَرحت و سُرُور اوررنج و غم کا مقام دل ہی ہے، جب دل کو خوشی ہوتی ہے تو تمام اعضاء پر اس کا اثر پڑتا ہے، پس دل ایک رئیس کی طرح ہے اور وہی عقل کا مقام ہے تو وہ امیر ِمُطلَق ہوا اور مکلف ہوناجو کہ عقل و فہم کے ساتھ مشروط ہے، اسی کی طرف لوٹا۔

{لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ: تاکہ تم ڈر سنانے والوں  میں  سے ہوجاؤ۔} یہاں  قرآن پاک کو نازل کرنے کی حکمت اور مَصلحت بیان کی جار ہی ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ پر قرآن پاک اس لئے نازل ہوا تاکہ آپ اس کے ذریعے اپنی امت کو ان کاموں  سے ڈرائیں  جنہیں  کرنے یا نہ کرنے سے وہ عذاب میں  مبتلا ہو سکتے ہیں ۔
26:195
بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍؕ(۱۹۵)
روشن عربی زبان میں،

{بِلِسَانٍ: زبان میں ۔} یعنی قرآنِ پاک کو عربی زبان میں  نازل کیا جس کے معنی ظاہر اور الفاظ کی اپنے معنی پر دلالت واضح ہے تاکہ عرب کے رہنے والوں  اور کفارِ قریش کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے اور وہ یہ نہ کہہ سکیں  کہ ہم اس کلام کو سن کر کیا کریں  گے جسے ہم سمجھ ہی نہیں  سکتے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۶ / ۳۰۶)

عربی زبان کی فضیلت:

            اس آیت سے عربی زبان کی دیگر زبانوں  پر فضیلت بھی ثابت ہوئی کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآنِ پاک کو عربی زبان میں  نازل فرمایا ہے کسی اور زبان میں  نہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تین وجہوں  سے عربوں  سے محبت رکھو،کیونکہ میں  عربی ہوں ، قرآن عربی ہے اور اہلِ جنت کی زبان بھی عربی ہے۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۴ / ۱۶۴، الحدیث: ۵۵۸۳)

            حضرت فقیہ ابو لیث سمرقندی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جان لو کہ عربی زبان تمام زبانوں  سے افضل ہےتو جس نے عربی زبان خود سیکھی یا کسی اور کو سکھائی اسے اجر ملے گا کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک کو عربی زبان میں  نازل فرمایا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۶ / ۳۰۷)

{وَ اِنَّهٗ: اور بیشک اس کا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ قرآن پاک کا ذکر تمام آسمانی کتابوں  میں  موجود ہے اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ سابقہ کتابوں  میں  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت اور صفت مذکور ہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۶، ص۸۳۱، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۶، ۳ / ۳۹۵، ملتقطاً)

26:196
وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ(۱۹۶)
اور بیشک اس کا چرچا اگلی کتابوں میں ہے (ف۱۶۴)

26:197
اَوَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ اٰیَةً اَنْ یَّعْلَمَهٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۱۹۷)
اور کیا یہ ان کے لیے نشانی نہ تھی (ف۱۶۵) کہ اس نبی کو جانتے ہیں بنی اسرائیل کے عالم (ف۱۶۶)

{اَوَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ اٰیَةً: اور کیا یہ بات ان کے لیے نشانی نہ تھی۔} یہاں  کفارِ مکہ پر ایک اور حجت بیان کی گئی کہ کیا یہ بات کفارِ مکہ کے لیے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت و رسالت کی صداقت پر نشانی نہ تھی کہ اس نبی کو بنی اسرائیل کے علماء اپنی کتابوں  سے جانتے ہیں  اور لوگوں  کو ان کی خبریں  دیتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اہلِ مکہ نے مدینہ کے یہودیوں کے پاس اپنے با اعتماد بندوں  کو یہ دریافت کرنے بھیجا کہ کیا نبی آخر الزَّمان، سیّد ِکائنات، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  اُن کی کتابوں  میں  کوئی خبر ہے ؟اس کا جواب یہودی علماء نے یہ دیا کہ یہی ان کا زمانہ ہے اور اُن کی نعت و صفت توریت میں  موجود ہے۔‘‘یاد رہے کہ یہودی علماء میں  سے حضرت عبداللہ بن سلام، ابنِ یامین، ثعلبہ، اسد اور اُسید،یہ حضرات جنہوں  نے توریت میں  حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف پڑھے تھے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے تھے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۷، ۳ / ۳۹۵، ملخصاً)

26:198
وَ لَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰى بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَۙ(۱۹۸)
اور اگر ہم اسے کسی غیر عربی شخص پر اتارتے،

{وَ لَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰى بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَ: اور اگر ہم اسے کسی غیر عربی شخص پر اتارتے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کے معنی یہ ہیں  کہ ہم نے یہ قرآن کریم ایک فصیح، بلیغ اورعربی نبی پر اُتارا جس کی فصاحت سب اہلِ عرب مانتے ہیں  اور وہ جانتے ہیں  کہ قرآن کریم عاجز کر دینے والا کلام ہے اور اس کی مثل ایک سورت بنانے سے بھی پوری دنیا عاجز ہے۔ علاوہ بریں  اہلِ کتاب کے علماء کا اتفاق ہے کہ قرآن پاک کے نزول سے پہلے اس کے نازل ہونے کی بشارت اور اس نبی کی صفت اُن کی کتابوں  میں  انہیں  مل چکی ہے، اس سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ نبی اللہ تعالٰی کے بھیجے ہوئے ہیں  اور یہ کتاب اس کی نازل فرمائی ہوئی ہے اور کفارجو طرح طرح کی بے ہودہ باتیں  اس کتاب کے متعلق کہتے ہیں  سب باطل ہیں  اور خود کفار بھی حیران ہیں  کہ اس کے خلاف کیا بات کہیں ، اس لئے کبھی اس کو پہلوں  کی داستانیں  کہتے ہیں ، کبھی شعر، کبھی جادو اور کبھی یہ کہ مَعَاذَاللہ اس کو خود رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بنالیا ہے اور اللہ تعالٰی کی طرف اس کی غلط نسبت کردی ہے۔ اس طرح کے بے ہودہ اعتراض عناد رکھنے والا ہر حال میں  کرسکتا ہے حتّٰی کہ اگر بالفرض یہ قرآن کسی غیر عربی شخص پر نازل کیا جاتا جو عربی کی مہارت نہ رکھتا اور اس کے باوجود وہ ایسا عاجز کر دینے والا قرآن پڑھ کر سنا تا جب بھی لوگ اسی طرح کفر کرتے جس طرح انہوں  نے اب کفر و انکار کیا کیونکہ اُن کے کفر و انکار کا باعث عناد ہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۸-۱۹۹، ص۸۳۲)

حق بات قبول کرنے میں  ایک رکاوٹ:

            اس سے معلوم ہو اکہ عناد حق بات کو قبول کرنے کی راہ میں  بہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ جس شخص کے دل میں  کسی کے بارے میں  عناد بھرا ہوا ہو وہ اس کے اعتراضات کے جتنے بھی تسلی بخش جوابات دے لے اور حق بات پر جتنے بھی ایک سے ایک دلائل پیش کر دے عناد رکھنے والے کے حق میں  سب بے سود ہوتے ہیں  اور عناد رکھنے والاان سے کوئی فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ ہی ان کی وجہ سے حق بات کو قبول کرتا ہے۔ یہی چیز ہمارے معاشرے میں  بھی پائی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ جس شخص کے بارے میں  دشمنی دل میں  بیٹھ جائے تو ا س پر طرح طرح کے بیہودہ اعتراضات شروع کر دئیے جاتے ہیں  اور وہ اپنی صداقت و صفائی پر جتنے چاہے دلائل پیش کرے اسے ماننے پر تیار نہیں  ہوتے۔ اللہ تعالٰی ایسے لوگوں  کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطافرمائے،اٰمین۔

{ كَذٰلِكَ: یونہی۔} یعنی ہم نے اسی طرح ان کافروں  کے دلوں  میں  اس قرآن کے جھٹلانے کو داخل کردیا ہے جن کا کفر اختیار کرنا اور اس پر مُصِر رہنا ہمارے علم میں  ہے، تو اُن کے لئے ہدایت کا کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے کسی حال میں  وہ کفر سے پلٹنے والے نہیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ص۸۳۲)

 

26:199
فَقَرَاَهٗ عَلَیْهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِیْنَؕ(۱۹۹)
کہ وہ انہیں پڑھ کر سناتا جب بھی اس پر ایمان نہ لاتے (ف۱۶۷)

26:200
كَذٰلِكَ سَلَكْنٰهُ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَؕ(۲۰۰)
ہم نے یونہی جھٹلانا پیرا دیا ہے مجرموں کے دلوں میں (ف۱۶۸)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلشُّـعَرَاء
اَلشُّـعَرَاء
  00:00



Download

اَلشُّـعَرَاء
اَلشُّـعَرَاء
  00:00



Download