Surah Ash-Shu'araa
{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً: بیشک اس میں ضرور نشانی ہے۔} یعنی حق سے تکبر کرنے اور غریب مسلمانوں کو حقیر جاننے کی وجہ سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا جو انجام ہوا اس میں بعد والوں کے لئے عبرت کی نشانی ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۶ / ۲۹۳)
{وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ: اور ان میں اکثر مسلمان نہ تھے۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں سے مسلمان ہونے والے مرد و عورت کی تعداد 80تھی اوراس آیت میں حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ ہمیشہ تھوڑے لوگ ہی ایمان اور ہدایت قبول کرتے ہیں ۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۶ / ۲۹۳)
{كَذَّبَتْ عَادُ: عاد نے جھٹلایا۔} یہاں سے رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا نام عاد ہے، یہ ایک قبیلہ ہے اور دراصل یہ ایک شخص کا نام ہے جس کی اولاد سے یہ قبیلہ ہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ص۸۲۶)
نوٹ: یہ واقعہ سورۂ اَعراف،آیت نمبر65 تا 72،سورۂ ہود50تا60 میں بھی گزر چکا ہے۔
{اِذْ قَالَ لَهُمْ: جب ان سے فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ’’عاد‘‘ نے انہیں ا س وقت جھٹلایا جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’تم جس کفر و شرک میں مبتلا ہو،کیا اس پر تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرتے نہیں ۔بیشک میں اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک ایسا رسول ہوں جس کی امانت داری تم میں مشہور ہے اور میںاللہ تعالٰی کی وحی کا امین ہوں تو تم مجھے جھٹلانے میں اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میں تمہیں جو حکم دوں اس میں میری اطاعت کرو۔(مدارک،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۲۴-۱۲۶، ص۸۲۶، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۴-۱۲۶، ۶ / ۲۹۴، ملتقطاً)
{وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ: اور میں تم سے اِس پر کچھ اجرت نہیں مانگتا۔} حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا: ’’میں رسالت کی ادائیگی پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا،میرا اجر و ثواب تو اسی کے ذمہِ کرم پر ہے جو سارے جہان کا رب عَزَّوَجَلَّ ہے کیونکہ اسی نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے۔(روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۶ / ۲۹۴)
{اَتَبْنُوْنَ: کیا تم بناتے ہو۔} اس قوم کا معمول یہ تھا کہ انہوں نے سرِراہ بلند عمارتیں بنالی تھیں ، وہاں بیٹھ کر راہ چلنے والوں کو پریشان کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کے اسی عمل کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’کیا تم راہگیروں کا مذاق اڑانے کے لئے ہر بلندجگہ پر ایک نشان بناتے ہو تاکہ اس پر چڑھ کر گزرنے والوں سے مذاق مسخری کرو۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۳ / ۳۹۲، ملخصاً)
دوسروں کو تنگ کرنے کے سلسلے میں لوگوں کی رَوِش:
حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی اس روش کے نظارے ہمارے آج کے معاشرے میں بھی بکثرت دیکھے جا رہے ہیں ، جیسے چوراہوں یا گلیوں میں کھڑے ہو کر وہاں سے گزرنے والوں کو تنگ کرنا،کسی معذور شخص کو آتا دیکھ کر اس کا مذاق اڑانا،راستے سے گزرنے والی خواتین پرآوازیں کسنا،راہ چلتی عورتوں سے ٹکرانا، کوئی راستہ معلوم کرے تو اسے غلط راستہ بتا دینا،راستے میں کوڑا کرکٹ پھینک دینا، گلیوں میں گندا پانی چھوڑ دینا،گلیوں میں کھدائی کر کے کئی دنوں تک بلا وجہ چھوڑے رکھنا،راستوں میں غیر قانونی تعمیرات کرنا، گلی محلوں میں کرکٹ یا کوئی اور کھیل کھیلنا اور غلط جگہ گاڑی پارک کر دینا وغیرہ۔اللہ تعالٰی مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔ راستوں میں بیٹھنے سے متعلق حدیث پاک میں ہے،حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ لوگوں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں راستے میں بیٹھنے سے چارہ نہیں ، ہم وہاں آپس میں بات چیت کرتے ہیں ۔ فرمایا: جب تم نہیں مانتے اور بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کرو۔لوگوں نے عرض کی، راستے کا حق کیا ہے؟ ارشادفرمایا: ’’(1)نظر نیچی رکھنا۔ (2) اَذِیَّت کو دور کرنا۔(3)سلام کا جواب دینا (4)اچھی بات کا حکم کرنا اور (5)بری باتوں سے منع کرنا۔(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب افنیۃ الدور والجلوس فیہا۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۳۲، الحدیث: ۲۴۶۵)
ایک اور روایت میں راستے کے یہ دو حق بھی بیان کئے گئے ہیں : (1)فریاد کرنے والے کی فریاد سننا۔ (2)بھولے ہوئے کو ہدایت کرنا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الجلوس فی الطرقات، ۴ / ۳۳۷، الحدیث: ۴۸۱۷)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ’’راستوں کے بیٹھنے میں بھلائی نہیں ہے، مگر اس کے لیے جو راستہ بتائے، سلام کا جواب دے، نظر نیچی رکھے اور بوجھ لادنے پر مدد کرے۔(شرح سنہ، کتاب الاستئذان، باب کراہیۃ الجلوس علی الطرق، ۶ / ۳۶۵، الحدیث: ۳۲۳۲)
{وَ تَتَّخِذُوْنَ: اور بناتے ہو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں قومِ عاد کے دو اورمعمولات کے بارے میں حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام ذکر ہوا، چنانچہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: ’’تم اس امید پر مضبوط محل بناتے ہو کہ تم ہمیشہ رہوگے اور کبھی مرو گے نہیں اور جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی کے ساتھ تلوار سے قتل کرکے اوردُرّے مار کرانتہائی بے رحمی سے گرفت کرتے ہو، تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور ان کاموں کو چھوڑ دو اور میں تمہیں اللہ تعالٰی کی وحدانِیَّت پر ایمان لانے اور عدل و انصاف وغیرہ کی دعوت دے رہا ہوں اس میں میری اطاعت کرو۔(خازن، الشعراء،تحت الآیۃ:۱۲۹-۱۳۱،۳ / ۳۹۲، روح البیان،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۲۹-۱۳۱،۶ / ۲۹۵-۲۹۶،ملتقطاً)
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کرامرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مکانات کی سادگی:
اس آیت میں قومِ عاد کے مضبوط محلات بنانے کا ذکر ہوا، فی زمانہ بھی لوگوں کی عمومی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ انتہائی خوبصورت،مضبوط اور بڑا گھر بنائیں ۔جائز ذرائع اور حلال مال سے اس خواہش کو پورا کرنا اگرچہ جائز ہے لیکن اگر ضرورت کے مطابق مناسب ساگھر بنایا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔دو جہاں کے سردار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے پیارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مکانات کی سادگی ملاحظہ ہو، چنانچہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسجد ِنَبَوی کے متصل ہی اَزواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے لئے مکانات بنوائے تھے۔ ان مکانات کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ صرف دس دس گز لمبے اور چھ چھ،سات سات گز چوڑے تھے، کچی اینٹوں کی دیواریں ، کھجور کی پتیوں کی چھت اوروہ بھی اتنی نیچی کہ آدمی کھڑا ہو کر چھت کو چھو لیتا، دروازوں میں لکڑی کے تختوں کی بجائے کمبل یا ٹاٹ کے پردے پڑے رہتے تھے۔( شرح الزرقانی، ذکر بناء المسجد النبوی وعمل المنبر، ۲ / ۱۸۵، ملخصاً)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے لئے بھی مکانات کی شان و شوکت پسند نہ فرماتے اور اگر کوئی شاندار مکان تعمیر کرتا یا اپنے مکان کی تزئین و آرائش میں مصروف ہوتا تو ا س کی تربیت فرماتے، چنانچہ ایک بار آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک راستے سے گزرے، راستے میں ایک اونچا سا گنبد (نما مکان) دیکھا تو فرمایا: ’’یہ کس کا ہے؟ لوگوں نے ایک انصاری کا نام بتایا، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ شان وشوکت ناگوار ہوئی، مگر اس کا اظہار نہیں فرمایا، کچھ دیر کے بعد انصاری بزرگ آئے، اور سلام کیا، لیکن آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رخِ انور پھیر لیا، باربار یہ واقعہ پیش آیا تو انہوں نے دوسرے صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضگی کاذکر کیا، جب سبب معلوم ہو ا تو انہوں نے اس قبے کو گرا کر زمین کے برابر کردیا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی البناء، ۴ / ۴۶۰، الحدیث: ۵۲۳۷)
حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے پاس سے اس وقت گزرے جب میں اور میری والدہ دیوار کی لپائی کر رہے تھے۔ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اے عبداللہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، یہ کیا کر رہے ہو؟میں نے عرض کی ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ، میں دیوار کو درست کر رہا ہوں ۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’موت ا س سے زیادہ قریب ہے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی البناء، ۴ / ۴۵۹، الحدیث: ۵۲۳۵)
{وَ اتَّقُوْا: اور ڈرو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا: ’’اس سے ڈرو جس نے تمہاری ان نعمتوں سے مدد کی جنہیں تم جانتے ہو،جیسے اس نے جانوروں اور بیٹوں کے ساتھ تمہاری مدد کی،باغوں اور چشموں سے تمہاری مدد کی،اگر تم نے میری نافرمانی کر کے ان نعمتوں کی ناشکری کی تو بیشک مجھے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کاڈر ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۲-۱۳۵، ۳ / ۳۹۲)
{قَالُوْا: بولے۔} قومِ عادنے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحتوں کا جواب یہ دیا کہ’’ آپ ہمیں نصیحت کریں یا آپ نصیحت کرنے والوں میں سے نہ ہوں ، ہمارے لئے دونوں چیزیں برابر ہیں ، ہم کسی طرح آپ کی بات نہ مانیں گے اور نہ آپ کی دعوت قبول کریں گے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۶، ۳ / ۳۹۲، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۶، ص۸۲۷، ملتقطاً)
نصیحت قبول کرنا مسلمان کا اور نہ ماننا کافر کا کام ہے :
اس آیت سے معلوم ہو اکہ نصیحت قبول کرنا مسلمان کا کام ہے اور نہ ماننا کافر کا۔ اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے کہ
’’اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ یَذَّكَّرُوْنَ‘‘(التوبۃ:۱۲۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ انہیں ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمایا جاتا ہے پھر (بھی) نہ وہ توبہ کرتے ہیں اورنہ ہی نصیحت مانتے ہیں ۔
اورارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْاؕ-وَ مَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا‘‘ (بنی اسرائیل:۴۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بیان فرمایا تاکہ وہ سمجھیں اور یہ سمجھانا ان کے دور ہونے کو ہی بڑھا رہا ہے۔
اورارشاد فرماتا ہے:
’’ اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰىؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘(رعد:۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ آدمی جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمہاریطرف تمہارے رب کے پاس سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے تو کیا وہ اس جیسا ہے جو اندھا ہے؟ صرف عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں ۔
نیزکامل ایمان والوں کے بارے میں ارشادفرمایا کہ جب ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں کے ساتھ انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر غفلت کے ساتھ بہرے اندھے ہوکر نہیں گرتے کہ نہ سوچیں نہ سمجھیں بلکہ ہوش وحواس قائم رکھتے ہوئے سنتے ہیں اورچشمِ بصیرت کے ساتھ دیکھتے ہیں اور اس نصیحت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ،نفع اُٹھاتے ہیں اور ان آیتوں پر فرمانبردارانہ گرتے ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ
’’وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا‘‘(الفرقان:۷۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے ربکی آیتوں کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اندھے ہوکر نہیں گرتے۔
فی زمانہ نصیحت قبول کرنے کے حوالے سے مسلمانوں کی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ اگر کسی کو سمجھایاجائے تو وہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا اور اگر سمجھانے والا مرتبے میں اپنے سے کم ہو تو جسے سمجھایا جائے وہ اپنی بات پراڑ جا تا ہے اور دوسرے کی بات ماننا اپنے لئے توہین سمجھتا ہے اور نصیحت کئے جانے کو اپنی عزت کا مسئلہ بنالیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے خاندان والے بڑے خاندان والوں کو نہیں سمجھا سکتے، عام آدمی کسی چودھری کو نہیں سمجھاسکتا،غریب شخص کسی مالدار آدمی کو نہیں سمجھا سکتا، عوام کسی دنیوی منصب والے کو نہیں سمجھا سکتے، مسجدوں میں کوئی نوجوان عالم یا دینی مبلغ کسی پرانے بوڑھے کو نہیں سمجھا سکتا بلکہ جسے سمجھایا جائے وہی گلے پڑ جاتا ہے۔اللہ تعالٰی مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائے، انہیں چاہئے کہ ان آیاتِ کریمہ پر غور کر کے اپنی حالت سدھارنے کی کوشش کریں ۔ چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ‘‘(بقرہ:۲۰۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے ضد مزید گناہ پر ابھارتی ہے توایسے کو جہنم کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا ٹھکاناہے۔
اورارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُؕ-‘‘( کہف:۵۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جسے اس کے رب کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جائے تو وہ ان سے منہ پھیرلے اور ان اعمال کو بھول جائے جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں ۔
اورمسلمانوں کو منافقین اور مشرکین کے حال سے دُور رہنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
’’وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ هُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ‘‘(انفال:۲۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے کہا :ہم نے سن لیا حالانکہ وہ نہیں سنتے۔
اللہ تعالٰی عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{ اِنْ هٰذَا: یہ تو نہیں ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ قوم نے کہا: جن چیزوں کا آپ نے خوف دلایا یہ پہلے لوگوں کی باتیں ہیں ، وہ بھی ایسی ہی باتیں کہا کرتے تھے۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہم ان باتوں کا اعتبار نہیں کرتے اورانہیں جھوٹ جانتے ہیں ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ قوم نے کہا:ہماری یہ موت و حیات اور ہماراعمارتیں بنانا پہلوں کے طریقہ پر ہے یعنی جس طرح وہ زندہ تھے اسی طرح ہم زندہ ہیں ،جس طرح وہ مر گئے اسی طرح ہم بھی مر جائیں گے اور جس طرح وہ عمارتیں بنایا کرتے تھے اسی طرح ہم بھی عمارتیں بنا رہے ہیں تو یہ مرنا جینا اور عمارتیں بنانا کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایسا تو شروع سے ہوتا آ رہا ہے۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ص۳۱۴، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ۸ / ۵۲۳، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:۱۳۷، ص۸۲۷، ملتقطاً)
{فَكَذَّبُوْهُ: تو انہوں نے اسے جھٹلایا۔} قومِ عاد نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحتوں کو نہ مانا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور اس جھٹلانے پر قائم رہے تو اللہ تعالٰی نے ا س کی وجہ سے انہیں دنیا میں ہوا کے عذاب سے ہلاک کر دیا۔ بے شک قومِ عاد کی ہلاکت و بربادی میں ضرور عبرت کی نشانی ہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں کا انجام بڑا درد ناک ہے اور قومِ عاد کے بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے جو بچا لئے گئے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۹، ۶ / ۲۹۶، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۹، ص۳۱۴، ملتقطاً)
{كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ: قومِ ثمود نے جھٹلایا۔} یہاں سے نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورا ن کی قومِ ثمود کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ ثمود نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس وقت جھٹلاکر انہیں ا ور ان سے پہلے رسولوں کو جھٹلایا جب انہوں قومِ ثمود سے فرمایا: کیا تم شرک کرنے پر اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرتے نہیں ۔(روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۱-۱۴۲، ۶ / ۲۹۷)
نوٹ: یہ واقعہ سورہ ِاَعراف،آیت نمبر73تا79اور سورہ ِہود،آیت نمبر61تا68میں گزر چکا ہے۔
{اَمِیْنٌ: امانتدار۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قومِ ثمود سے فرمایا: مجھے اللہ تعالٰی نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں اس کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پر اس کے عذاب سے ڈراؤں اور جس رسالت کے ساتھ اس نے مجھے تمہاری طرف بھیجا میں اس پر امین ہوں ، تو اےمیری قوم!تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میری اطاعت کر کے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم پر عمل کرو۔( تفسیرطبری، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۳-۱۴۴، ۹ / ۴۶۴)
خیانت اور نبوت جمع نہیں ہوسکتیں :
{فٰرِهِیْنَ: بڑی مہارت دکھاتے ہوئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا: تم بڑی مہارت دکھاتے ہوئے، اپنی صَنعت پر غرور کرتے اوراِتراتے ہوئے پہاڑوں میں سے گھر تراشتے ہو اور ان گھروں کو بنانے سے تمہارا مقصد رہائش اختیار کرنا نہیں بلکہ صرف اپنی مہارت پر غرور کرنا ہے تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میری اطاعت کرتے ہوئے وہ اعمال کرو جن کا تمہیں دنیا اور آخرت میں فائدہ ہو اور حد سے بڑھنے والوں کے کہنے پر نہ چلو۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ مُسْرِفِیۡنَ سے مراد مشرکین ہیں ۔بعض مفسرین نے کہا کہ مُسْرِفِیۡنَ سے مراد وہ نو شخص ہیں جنہوں نے اونٹنی کو قتل کیا تھا۔( ابن کثیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۹-۱۵۱، ۶ / ۱۴۰، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۹-۱۵۱، ۳ / ۳۹۳، ملتقطاً)
{فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ: تو انہیں عذاب نے پکڑلیا۔} یعنی جس عذاب کی انہیں خبر دی گئی تھی اس نے انہیں پکڑ لیا اوروہ لوگ ہلاک ہو گئے۔ قومِ ثمود پر آنے والے عذاب میں ضرور عبرت کی نشانی ہے کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی صداقت پر نشانی ظاہر ہو جانے کے بعد بھی کفر پر قائم رہنا عذاب نازل ہونے کا سبب ہے اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی انتہائی تبلیغ کے باوجود بہت تھوڑے لوگ ان پر ایمان لائے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۶ / ۳۰۰) تو اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ پر سارے عرب والے ایمان نہ لائیں تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غم نہ فرمائیں ، اس کی وجہ یہ نہیں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تبلیغ میں کوتاہی ہے بلکہ یہ خود بد نصیب ہیں ۔
{كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍ: لوط کی قوم نے جھٹلایا۔} یہاں سے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے اس وقت آپ کو جھٹلا کر تما م رسولوں کو جھٹلایا جب آپ نے ان سے فرمایا: ’’اے میری قوم:کیا تم شرک اور دیگر گناہوں پر اللہ تعالٰی کے عذاب سے نہیں ڈرتے،بیشک میں تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے تمہارے لیے ا س کی وحی اور رسالت پر امانتدار رسول ہوں تو تم اللہ تعالٰی کے رسول کو جھٹلا کر اپنے اوپر اللہ تعالٰی کا عذاب نازل ہونے سے ڈرو اور جس سیدھے راستے پر چلنے کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں اس میں میری اطاعت کرو۔ اور میں اس تبلیغ اور تعلیم پر تم سے کچھ اجرت اور دُنْیَوی مَنافع کا مطالبہ نہیں کرتا، میرا اجرو ثواب توصرف ربُّ العٰلمین کے ذمہ ِکرم پرہے۔(روح البیان،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۶۰-۱۶۴،۶ / ۳۰۱،تفسیر طبری،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۶۰-۱۶۴،۹ / ۴۶۹،ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan