READ

Surah Ash-Shu'araa

اَلشُّـعَرَاء
227 Ayaat    مکیۃ


26:121
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۲۱)
بیشک اس میں ضرور نشانی ہے، اور ان میں اکثر مسلمان نہ تھے،

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً: بیشک اس میں  ضرور نشانی ہے۔} یعنی حق سے تکبر کرنے اور غریب مسلمانوں  کو حقیر جاننے کی وجہ سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا جو انجام ہوا اس میں  بعد والوں  کے لئے عبرت کی نشانی ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۶ / ۲۹۳)

{وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ: اور ان میں  اکثر مسلمان نہ تھے۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں  سے مسلمان ہونے والے مرد و عورت کی تعداد 80تھی اوراس آیت میں  حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ ہمیشہ تھوڑے لوگ ہی ایمان اور ہدایت قبول کرتے ہیں ۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۶ / ۲۹۳)

26:122
وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠(۱۲۲)
اور بیشک تمہارا رب ہی عزت والا مہربان ہے،

26:123
كَذَّبَتْ عَادُ اﰳلْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۲۳)
عاد نے رسولوں کو جھٹلایا (ف۱۱۸)

{كَذَّبَتْ عَادُ: عاد نے جھٹلایا۔} یہاں  سے رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا نام عاد ہے، یہ ایک قبیلہ ہے اور دراصل یہ ایک شخص کا نام ہے جس کی اولاد سے یہ قبیلہ ہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ص۸۲۶)

          نوٹ: یہ واقعہ سورۂ اَعراف،آیت نمبر65 تا 72،سورۂ ہود50تا60 میں  بھی گزر چکا ہے۔

26:124
اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ هُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۲۴)
جبکہ ان سے ان کے ہم قوم ہود نے فرمایا کیا تم ڈرتے نہیں،

{اِذْ قَالَ لَهُمْ: جب ان سے فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ’’عاد‘‘ نے انہیں  ا س وقت جھٹلایا جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’تم جس کفر و شرک میں  مبتلا ہو،کیا اس پر تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرتے نہیں ۔بیشک میں اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک ایسا رسول ہوں جس کی امانت داری تم میں  مشہور ہے اور میںاللہ تعالٰی کی وحی کا امین ہوں تو تم مجھے جھٹلانے میں اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میں  تمہیں  جو حکم دوں  اس میں  میری اطاعت کرو۔(مدارک،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۲۴-۱۲۶، ص۸۲۶، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۴-۱۲۶، ۶ / ۲۹۴، ملتقطاً)

26:125
اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۲۵)
بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں،

26:126
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۲۶)
تو اللہ سے ڈرو (ف۱۱۹) اور میرا حکم مانو،

26:127
وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۲۷)
اور میں تم سے اس پر کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب،

{وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ: اور میں  تم سے اِس پر کچھ اجرت نہیں  مانگتا۔} حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا: ’’میں  رسالت کی ادائیگی پر تم سے کچھ اجرت نہیں  مانگتا،میرا اجر و ثواب تو اسی کے ذمہِ کرم پر ہے جو سارے جہان کا رب عَزَّوَجَلَّ ہے کیونکہ اسی نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے۔(روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۶ / ۲۹۴)

{اَتَبْنُوْنَ: کیا تم بناتے ہو۔} اس قوم کا معمول یہ تھا کہ انہوں  نے سرِراہ بلند عمارتیں  بنالی تھیں ، وہاں  بیٹھ کر راہ چلنے والوں  کو پریشان کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کے اسی عمل کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’کیا تم راہگیروں  کا مذاق اڑانے کے لئے ہر بلندجگہ پر ایک نشان بناتے ہو تاکہ اس پر چڑھ کر گزرنے والوں  سے مذاق مسخری کرو۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۳ / ۳۹۲، ملخصاً)

دوسروں  کو تنگ کرنے کے سلسلے میں  لوگوں  کی رَوِش:

             حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی اس روش کے نظارے ہمارے آج کے معاشرے میں  بھی بکثرت دیکھے جا رہے ہیں ، جیسے چوراہوں  یا گلیوں میں  کھڑے ہو کر وہاں سے گزرنے والوں  کو تنگ کرنا،کسی معذور شخص کو آتا دیکھ کر اس کا مذاق اڑانا،راستے سے گزرنے والی خواتین پرآوازیں  کسنا،راہ چلتی عورتوں  سے ٹکرانا، کوئی راستہ معلوم کرے تو اسے غلط راستہ بتا دینا،راستے میں  کوڑا کرکٹ پھینک دینا، گلیوں  میں  گندا پانی چھوڑ دینا،گلیوں  میں  کھدائی کر کے کئی دنوں  تک بلا وجہ چھوڑے رکھنا،راستوں  میں  غیر قانونی تعمیرات کرنا، گلی محلوں  میں  کرکٹ یا کوئی اور کھیل کھیلنا اور غلط جگہ گاڑی پارک کر دینا وغیرہ۔اللہ تعالٰی مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے۔ راستوں  میں  بیٹھنے سے متعلق حدیث پاک میں  ہے،حضرت ابوسعید خدری  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: راستوں  میں  بیٹھنے سے بچو۔ لوگوں  نے عرض کی، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں  راستے میں  بیٹھنے سے چارہ نہیں ، ہم وہاں  آپس میں  بات چیت کرتے ہیں ۔ فرمایا: جب تم نہیں  مانتے اور بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کرو۔لوگوں  نے عرض کی، راستے کا حق کیا ہے؟ ارشادفرمایا: ’’(1)نظر نیچی رکھنا۔ (2) اَذِیَّت کو دور کرنا۔(3)سلام کا جواب دینا (4)اچھی بات کا حکم کرنا اور (5)بری باتوں  سے منع کرنا۔(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب افنیۃ الدور والجلوس فیہا۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۳۲، الحدیث: ۲۴۶۵)

            ایک اور روایت میں  راستے کے یہ دو حق بھی بیان کئے گئے ہیں : (1)فریاد کرنے والے کی فریاد سننا۔ (2)بھولے ہوئے کو ہدایت کرنا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الجلوس فی الطرقات، ۴ / ۳۳۷، الحدیث: ۴۸۱۷)

            حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ’’راستوں  کے بیٹھنے میں  بھلائی نہیں  ہے، مگر اس کے لیے جو راستہ بتائے، سلام کا جواب دے، نظر نیچی رکھے اور بوجھ لادنے پر مدد کرے۔(شرح سنہ، کتاب الاستئذان، باب کراہیۃ الجلوس علی الطرق، ۶ / ۳۶۵، الحدیث: ۳۲۳۲)

 

26:128
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً تَعْبَثُوْنَۙ (۱۲۸)
کیا ہر بلندی پر ایک نشان بناتے ہو راہ گیروں سے ہنسنے کو (ف۱۲۰)

26:129
وَ تَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَۚ(۱۲۹)
اور مضبوط محل چنتے ہو اس امید پر کہ تم ہمیشہ رہوگے (ف۱۲۱)

{وَ تَتَّخِذُوْنَ: اور بناتے ہو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں  قومِ عاد کے دو اورمعمولات کے بارے میں  حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام ذکر ہوا، چنانچہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: ’’تم اس امید پر مضبوط محل بناتے ہو کہ تم ہمیشہ رہوگے اور کبھی مرو گے نہیں اور جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی کے ساتھ تلوار سے قتل کرکے اوردُرّے مار کرانتہائی بے رحمی سے گرفت کرتے ہو، تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور ان کاموں کو چھوڑ دو اور میں  تمہیں اللہ تعالٰی کی وحدانِیَّت پر ایمان لانے اور عدل و انصاف وغیرہ کی دعوت دے رہا ہوں  اس میں  میری اطاعت کرو۔(خازن، الشعراء،تحت الآیۃ:۱۲۹-۱۳۱،۳ / ۳۹۲، روح البیان،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۲۹-۱۳۱،۶ / ۲۹۵-۲۹۶،ملتقطاً)

نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ  کرامرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مکانات کی سادگی:

اس آیت میں  قومِ عاد کے مضبوط محلات بنانے کا ذکر ہوا، فی زمانہ بھی لوگوں  کی عمومی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ انتہائی خوبصورت،مضبوط اور بڑا گھر بنائیں ۔جائز ذرائع اور حلال مال سے اس خواہش کو پورا کرنا اگرچہ جائز ہے لیکن اگر ضرورت کے مطابق مناسب ساگھر بنایا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔دو جہاں  کے سردار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے پیارے صحابۂ  کرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مکانات کی سادگی ملاحظہ ہو، چنانچہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسجد ِنَبَوی کے متصل ہی اَزواجِ مطہرات  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے لئے مکانات بنوائے تھے۔ ان مکانات کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ صرف دس دس گز لمبے اور چھ چھ،سات سات گز چوڑے تھے، کچی اینٹوں  کی دیواریں ، کھجور کی پتیوں  کی چھت اوروہ بھی اتنی نیچی کہ آدمی کھڑا ہو کر چھت کو چھو لیتا، دروازوں  میں  لکڑی کے تختوں  کی بجائے کمبل یا ٹاٹ کے پردے پڑے رہتے تھے۔( شرح الزرقانی، ذکر بناء المسجد النبوی وعمل المنبر، ۲ / ۱۸۵، ملخصاً)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے لئے بھی مکانات کی شان و شوکت پسند نہ فرماتے اور اگر کوئی شاندار مکان تعمیر کرتا یا اپنے مکان کی تزئین و آرائش میں  مصروف ہوتا تو ا س کی تربیت فرماتے، چنانچہ ایک بار آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک راستے سے گزرے، راستے میں  ایک اونچا سا گنبد (نما مکان) دیکھا تو فرمایا: ’’یہ کس کا ہے؟ لوگوں  نے ایک انصاری کا نام بتایا، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ شان وشوکت ناگوار ہوئی، مگر اس کا اظہار نہیں  فرمایا، کچھ دیر کے بعد انصاری بزرگ آئے، اور سلام کیا، لیکن آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رخِ انور پھیر لیا، باربار یہ واقعہ پیش آیا تو انہوں  نے دوسرے صحابہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضگی کاذکر کیا، جب سبب معلوم ہو ا تو انہوں  نے اس قبے کو گرا کر زمین کے برابر کردیا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی البناء، ۴ / ۴۶۰، الحدیث: ۵۲۳۷)

حضرت عبداللہ بن عمرو  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے پاس سے اس وقت گزرے جب میں  اور میری والدہ دیوار کی لپائی کر رہے تھے۔ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اے عبداللہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، یہ کیا کر رہے ہو؟میں  نے عرض کی ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ، میں  دیوار کو درست کر رہا ہوں ۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’موت ا س سے زیادہ قریب ہے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی البناء، ۴ / ۴۵۹، الحدیث: ۵۲۳۵)

26:130
وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَۚ(۱۳۰)
اور جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی سے گرفت کرتے ہو (ف۱۲۲)

26:131
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۳۱)
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،

26:132
وَ اتَّقُوا الَّذِیْۤ اَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَۚ(۱۳۲)
اور اس سے ڈرو جس نے تمہاری مدد کی ان چیزوں سے کہ تمہیں معلوم ہیں (ف۱۲۳)

{وَ اتَّقُوْا: اور ڈرو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا: ’’اس سے ڈرو جس نے تمہاری ان نعمتوں  سے مدد کی جنہیں  تم جانتے ہو،جیسے اس نے جانوروں  اور بیٹوں  کے ساتھ تمہاری مدد کی،باغوں  اور چشموں  سے تمہاری مدد کی،اگر تم نے میری نافرمانی کر کے ان نعمتوں  کی ناشکری کی تو بیشک مجھے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کاڈر ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۲-۱۳۵، ۳ / ۳۹۲)

26:133
اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِیْنَۚۙ(۱۳۳)
تمہاری مدد کی چوپایوں اور بیٹوں،

26:134
وَ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۚ(۱۳۴)
اور باغوں اور چشموں سے،

26:135
اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍؕ(۱۳۵)
بیشک مجھے تم پر ڈر ہے ایک بڑے دن کے عذاب کا (ف۱۲۴)

26:136
قَالُوْا سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَوَ عَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَۙ(۱۳۶)
بولے ہمیں برابر ہے چاہے تم نصیحت کرو یا ناصحوں میں نہ ہو (ف۱۲۵)

{قَالُوْا: بولے۔} قومِ عادنے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحتوں  کا جواب یہ دیا کہ’’ آپ ہمیں  نصیحت کریں  یا آپ نصیحت کرنے والوں  میں  سے نہ ہوں ، ہمارے لئے دونوں  چیزیں  برابر ہیں ، ہم کسی طرح آپ کی بات نہ مانیں  گے اور نہ آپ کی دعوت قبول کریں  گے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۶، ۳ / ۳۹۲، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۶، ص۸۲۷، ملتقطاً)

نصیحت قبول کرنا مسلمان کا اور نہ ماننا کافر کا کام ہے :

             اس آیت سے معلوم ہو اکہ نصیحت قبول کرنا مسلمان کا کام ہے اور نہ ماننا کافر کا۔ اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے کہ

’’اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ یَذَّكَّرُوْنَ‘‘(التوبۃ:۱۲۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا وہ یہ نہیں  دیکھتے کہ انہیں  ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمایا جاتا ہے پھر (بھی) نہ وہ توبہ کرتے ہیں  اورنہ ہی نصیحت مانتے ہیں ۔

            اورارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْاؕ-وَ مَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا‘‘ (بنی اسرائیل:۴۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے اس قرآن میں  طرح طرح سے بیان فرمایا تاکہ وہ سمجھیں  اور یہ سمجھانا ان کے دور ہونے کو ہی بڑھا رہا ہے۔

            اورارشاد فرماتا ہے:

’’ اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰىؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘(رعد:۱۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ آدمی جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمہاریطرف تمہارے رب کے پاس سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے تو کیا وہ اس جیسا ہے جو اندھا ہے؟ صرف عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں ۔

            نیزکامل ایمان والوں  کے بارے میں  ارشادفرمایا کہ جب ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں  کے ساتھ انہیں  نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر غفلت کے ساتھ بہرے اندھے ہوکر نہیں  گرتے کہ نہ سوچیں  نہ سمجھیں  بلکہ ہوش وحواس قائم رکھتے ہوئے سنتے ہیں  اورچشمِ بصیرت کے ساتھ دیکھتے ہیں  اور اس نصیحت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ،نفع اُٹھاتے ہیں  اور ان آیتوں  پر فرمانبردارانہ گرتے ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ

’’وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا‘‘(الفرقان:۷۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب انہیں  ان کے ربکی آیتوں  کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اندھے ہوکر نہیں  گرتے۔

            فی زمانہ نصیحت قبول کرنے کے حوالے سے مسلمانوں  کی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ اگر کسی کو سمجھایاجائے تو وہ ماننے کو تیار نہیں  ہوتا اور اگر سمجھانے والا مرتبے میں  اپنے سے کم ہو تو جسے سمجھایا جائے وہ اپنی بات پراڑ جا تا ہے اور دوسرے کی بات ماننا اپنے لئے توہین سمجھتا ہے اور نصیحت کئے جانے کو اپنی عزت کا مسئلہ بنالیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے خاندان والے بڑے خاندان والوں  کو نہیں  سمجھا سکتے، عام آدمی کسی چودھری کو نہیں  سمجھاسکتا،غریب شخص کسی مالدار آدمی کو نہیں  سمجھا سکتا، عوام کسی دنیوی منصب والے کو نہیں  سمجھا سکتے، مسجدوں  میں  کوئی نوجوان عالم یا دینی مبلغ کسی پرانے بوڑھے کو نہیں  سمجھا سکتا بلکہ جسے سمجھایا جائے وہی گلے پڑ جاتا ہے۔اللہ تعالٰی مسلمانوں  کے حال پر رحم فرمائے، انہیں  چاہئے کہ ان آیاتِ کریمہ پر غور کر کے اپنی حالت سدھارنے کی کوشش کریں ۔ چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ‘‘(بقرہ:۲۰۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے ضد مزید گناہ پر ابھارتی ہے توایسے کو جہنم کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا ٹھکاناہے۔

            اورارشاد فرماتا ہے:

’’وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُؕ-‘‘( کہف:۵۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جسے اس کے رب کی آیتوں  کے ذریعے نصیحت کی جائے تو وہ ان سے منہ پھیرلے اور ان اعمال کو بھول جائے جو اس کے ہاتھوں  نے آگے بھیجے ہیں ۔

            اورمسلمانوں  کو منافقین اور مشرکین کے حال سے دُور رہنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ

’’وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ هُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ‘‘(انفال:۲۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان لوگوں  کی طرح نہ ہونا جنہوں  نے کہا :ہم نے سن لیا حالانکہ وہ نہیں  سنتے۔

            اللہ تعالٰی عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

 

26:137
اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَۙ(۱۳۷)
یہ تو نہیں مگر وہی اگلوں کی ریت (ف۱۲۶)

{ اِنْ هٰذَا: یہ تو نہیں ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ قوم نے کہا: جن چیزوں  کا آپ نے خوف دلایا یہ پہلے لوگوں  کی باتیں  ہیں ، وہ بھی ایسی ہی باتیں  کہا کرتے تھے۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہم ان باتوں  کا اعتبار نہیں  کرتے اورانہیں  جھوٹ جانتے ہیں ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ قوم نے کہا:ہماری یہ موت و حیات اور ہماراعمارتیں  بنانا پہلوں  کے طریقہ پر ہے یعنی جس طرح وہ زندہ تھے اسی طرح ہم زندہ ہیں ،جس طرح وہ مر گئے اسی طرح ہم بھی مر جائیں  گے اور جس طرح وہ عمارتیں  بنایا کرتے تھے اسی طرح ہم بھی عمارتیں  بنا رہے ہیں  تو یہ مرنا جینا اور عمارتیں  بنانا کوئی نئی بات نہیں  بلکہ ایسا تو شروع سے ہوتا آ رہا ہے۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ص۳۱۴، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ۸ / ۵۲۳، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:۱۳۷، ص۸۲۷، ملتقطاً)

{وَ مَا نَحْنُ: اور ہمیں  نہیں ۔} قوم نے مزید یہ کہا کہ ہمارے اعمال اور ہماری عادات پر دنیا میں  ہمیں  عذاب نہیں  دیا جائے گا اور نہ مرنے کے بعد ہمیں  اٹھنا ہے اور نہ آخرت میں  حساب دینا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۸، ۶ / ۲۹۶، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۸، ص۸۲۷، ملتقطاً)
26:138
وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَۚ(۱۳۸)
اور ہمیں عذاب ہونا نہیں (ف۱۲۷)

26:139
فَكَذَّبُوْهُ فَاَهْلَكْنٰهُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۳۹)
تو انہوں نے اسے جھٹلایا (ف۱۲۸) تو ہم نے انہیں بلاک کیا (ف۱۲۹) بیشک اس میں ضرور نشانی ہے، اور ان میں بہت مسلمان نہ تھے،

{فَكَذَّبُوْهُ: تو انہوں  نے اسے جھٹلایا۔} قومِ عاد نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحتوں  کو نہ مانا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور اس جھٹلانے پر قائم رہے تو اللہ تعالٰی نے ا س کی وجہ سے انہیں  دنیا میں  ہوا کے عذاب سے ہلاک کر دیا۔ بے شک قومِ عاد کی ہلاکت و بربادی میں  ضرور عبرت کی نشانی ہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں  کا انجام بڑا درد ناک ہے اور قومِ عاد کے بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے جو بچا لئے گئے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۹، ۶ / ۲۹۶، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۹، ص۳۱۴، ملتقطاً)

{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو شخص نصیحت قبول نہ کرے اور جابر و متکبر لوگوں  جیسے اعمال کرے تو بیشک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی اس پر غالب اور اسے سزا دینے والا ہے اور جو ایمان لے آئے اسے عذاب سے نجات دے کر ا س پر مہربانی فرمانے والا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۰، ۶ / ۲۹۶-۲۹۷)
26:140
وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠(۱۴۰)
اور بیشک تمہارا رب ہی عزت والا مہربان ہے،

26:141
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۴۱)
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا،

{كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ: قومِ ثمود نے جھٹلایا۔} یہاں  سے نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورا ن کی قومِ ثمود کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ ثمود نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس وقت جھٹلاکر انہیں  ا ور ان سے پہلے رسولوں  کو جھٹلایا جب انہوں  قومِ ثمود سے فرمایا: کیا تم شرک کرنے پر اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرتے نہیں ۔(روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۱-۱۴۲، ۶ / ۲۹۷)

          نوٹ: یہ واقعہ سورہ ِاَعراف،آیت نمبر73تا79اور سورہ ِہود،آیت نمبر61تا68میں  گزر چکا ہے۔

26:142
اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۴۲)
جبکہ ان سے ان کے ہم قوم صا لح نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں،

26:143
اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۴۳)
بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانتدار رسول ہوں،

{اَمِیْنٌ: امانتدار۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قومِ ثمود سے فرمایا: مجھے اللہ تعالٰی نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ میں  تمہیں اس کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پر اس کے عذاب سے ڈراؤں  اور جس رسالت کے ساتھ اس نے مجھے تمہاری طرف بھیجا میں  اس پر امین ہوں ، تو اےمیری قوم!تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میری اطاعت کر کے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم پر عمل کرو۔( تفسیرطبری، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۳-۱۴۴، ۹ / ۴۶۴)

خیانت اور نبوت جمع نہیں  ہوسکتیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ حضرات ِانبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اَسرارِ اِلٰہیہ اور لوگوں  کی عزت، مال آبرو وغیرہ سب کے امین ہوتے ہیں ۔ خیانت اور نبوت جمع نہیں  ہوسکتیں ۔ ہمارے حضو رپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اہل ِمکہ بچپن شریف سے محمد امین پکارتے تھے اوراعلانِ نبوت سے پہلے اور بعد میں  بھی آپ کے پاس امانتیں  رکھتے رہے اور اپنے فیصلے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کرواتے تھے۔
26:144
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۴۴)
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،

26:145
وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۴۵)
اور میں تم سے کچھ اس پر اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے،

{وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ: اور میں  تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں  مانگتا۔} حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: میں  تمہیں  نصیحت کرنے اور اللہ تعالٰی کی طرف بلانے پر تم سے کسی اجرت کا مطالبہ نہیں  کرتا،میرا اجر و ثواب تو اسی کے ذمہ ِکرم پر ہے جو سارے جہان کا رب عَزَّوَجَلَّ ہے اور جس نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۶ / ۲۹۷)
26:146
اَتُتْرَكُوْنَ فِیْ مَا هٰهُنَاۤ اٰمِنِیْنَۙ(۱۴۶)
کیا تم یہاں کی (ف۱۳۰) نعمتوں میں چین سے چھوڑ دیے جاؤ گے (ف۱۳۱)

{اَتُتْرَكُوْنَ: کیا تم چھوڑ دئیے جاؤ گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید نصیحت کرتے ہوئے اپنی قوم سے فرمایا: ’’کیا تمہارا گمان یہ ہے کہ تم دنیاکی نعمتوں  جیسے باغوں  اور چشموں  میں ، کھیتوں  اور کھجوروں  میں  جن کا شگوفہ نرم ونازک ہوتاہے، امن و امان کی حالت میں  چھوڑ دئیے جاؤ گے کہ یہ نعمتیں  تم سے کبھی زائل نہ ہوں  گی،تم پر کبھی عذاب نہ آئے گا اور تمہیں  کبھی موت نہ آئے گی۔ (تمہارا یہ گمان غلط ہے اور ایسا کبھی نہیں  ہو گا۔) (روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۶-۱۴۸، ۶ / ۲۹۷-۲۹۸، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۶-۱۴۸، ص۸۲۷، ملتقطاً)
26:147
فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ(۱۴۷)
باغوں اور چشموں،

26:148
وَّ زُرُوْعٍ وَّ نَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِیْمٌۚ(۱۴۸)
اور کھیتوں اور کھجوروں میں جن کا شگوفہ نرم نازک،

26:149
وَ تَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِهِیْنَۚ(۱۴۹)
اور پہاڑوں میں سے گھر تراشتے ہو استادی سے (ف۱۳۲)

{فٰرِهِیْنَ: بڑی مہارت دکھاتے ہوئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا: تم بڑی مہارت دکھاتے ہوئے، اپنی صَنعت پر غرور کرتے اوراِتراتے ہوئے پہاڑوں  میں  سے گھر تراشتے ہو اور ان گھروں  کو بنانے سے تمہارا مقصد رہائش اختیار کرنا نہیں  بلکہ صرف اپنی مہارت پر غرور کرنا ہے تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میری اطاعت کرتے ہوئے وہ اعمال کرو جن کا تمہیں  دنیا اور آخرت میں  فائدہ ہو اور حد سے بڑھنے والوں  کے کہنے پر نہ چلو۔حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ مُسْرِفِیۡنَ سے مراد مشرکین ہیں ۔بعض مفسرین نے کہا کہ مُسْرِفِیۡنَ سے مراد وہ نو شخص ہیں  جنہوں  نے اونٹنی کو قتل کیا تھا۔( ابن کثیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۹-۱۵۱، ۶ / ۱۴۰، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۹-۱۵۱، ۳ / ۳۹۳، ملتقطاً)

26:150
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۵۰)
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،

26:151
وَ لَا تُطِیْعُوْۤا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۵۱)
اور حد سے بڑھنے والوں کے کہنے پر نہ چلو (ف۱۳۳)

26:152
الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا یُصْلِحُوْنَ(۱۵۲)
وہ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں (ف۱۳۴) اور بناؤ نہیں کرتے (ف۱۳۵)

{یُفْسِدُوْنَ: فساد پھیلاتے ہیں ۔} یعنی حد سے بڑھنے والے وہ ہیں  جو کفر، ظلم اور گناہوں  کے ساتھ زمین میں  فساد پھیلاتے ہیں  اورایمان لا کر، عدل قائم کرکے اور اللہ تعالٰی کے فرمانبردار ہو کر اصلاح نہیں  کرتے۔ اس کامعنی یہ ہے کہ بعض فساد پھیلانے والے ایسے بھی ہوتے ہیں  کہ کچھ فساد بھی کرتے ہیں  اوران میں  کچھ نیکی بھی ہوتی ہے،لیکن یہ ایسے نہیں  بلکہ ان کا فساد مضبوط ہے جس میں  کسی طرح نیکی کا شائبہ تک نہیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۳ / ۳۹۳،  مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۲،ص۸۲۷، ملتقطاً)
26:153
قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَۚ(۱۵۳)
بولے تم پر تو جادو ہوا ہے (ف۱۳۶)

{قَالُوْۤا: قوم نے کہا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ ثمود نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحتوں  کے جواب میں  کہا ’’تم ان میں  سے ہو جن پر بار بار بکثرت جادو ہوا ہے جس کی وجہ سے عقل و حواس قائم نہیں  رہے۔ (مَعَاذَ اللہ) تم تو ہم جیسے ہی ایک آدمی ہو کہ جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں  اسی طرح تم بھی کھاتے پیتے ہو، اگرتم رسالت کے دعوے میں  سچے ہو تو اپنی سچائی کی کوئی نشانی لے کرآؤ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۳-۱۵۴، ۳ / ۳۹۳، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۳-۱۵۴،ص۸۲۸، ملتقطاً)
26:154
مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۚۖ-فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۵۴)
تم تو ہمیں جیسے آدمی ہو، تو کوئی نشانی لاؤ (ف۱۳۷) اگر سچے ہو (ف۱۳۸)

26:155
قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍۚ(۱۵۵)
فرمایا یہ ناقہ ہے ایک دن اس کے پینے کی باری (ف۱۳۹) اور ایک معین دن تمہاری باری،

{قَالَ: فرمایا۔} حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم کے مطالبے پر فرمایا: ’’یہ ایک اونٹنی ہے، ایک دن اس کے پینے کی باری ہے، تواس میں  اس کے ساتھ مزاحمت نہ کر و اور ایک مُعیّن دن تمہارے پینے کی باری ہے، تووہ اس میں  تمہارے ساتھ مزاحمت نہ کرے گی۔یہ اونٹنی قوم کے معجزہ طلب کرنے پر ان کی خواہش کے مطابق حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے پتھر سے نکلی تھی۔ اس کا سینہ ساٹھ گز کا تھا، جب اس کے پینے کا دن ہوتا تو وہ وہاں  کا تمام پانی پی جاتی اور جب لوگوں  کے پینے کا دن ہوتا تو اس دن نہ پیتی۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ص۸۲۸، ملخصاً)
26:156
وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۱۵۶)
اور اسے برائی کے ساتھ نہ چھوؤ (ف۱۴۰) کہ تمہیں بڑے دن کا عذاب آلے گا (ف۱۴۱)

{وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ: اور تم اس اونٹنی کو برائی کے ساتھ نہ چھونا۔} حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس اونٹنی کے بارے میں  مزید فرمایا کہ تم اس اونٹنی کو برائی کے ساتھ نہ چھونا،نہ اس کو مارنا اور نہ اس کے پاؤں  کی رگیں  کاٹنا ورنہ تمہیں  بڑے دن کا عذاب پکڑ لے گا۔ اس دن کوعذاب نازل ہونے کی وجہ سے بڑا فرمایا گیا تاکہ معلوم ہو کہ وہ عذاب اس قدر عظیم اور سخت تھا کہ جس دن میں  وہ واقع ہوا اس کو اس کی وجہ سے بڑا فرمایا گیا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ص۸۲۸)
26:157
فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِیْنَۙ(۱۵۷)
اس پر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں (ف۱۴۲) پھر صبح کو پچھتاتے رہ گئے (ف۱۴۳)

{فَعَقَرُوْهَا: تو انہوں  نے اس کے پاؤں  کی رگیں  کاٹ دیں ۔} ارشاد فرمایا کہ انہوں  نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے سمجھانے کے باوجوداس اونٹنی کے پاؤں  کی رگیں  کاٹ دیں  تو صبح کو پچھتاتے رہ گئے۔ پاؤں  کی رگیں کاٹنے والے شخص کا نام قدار تھا اور چونکہ لوگ اس کے اس فعل سے راضی تھے اس لئے پاؤں  کی رگیں  کاٹنے کی نسبت ا ن سب کی طرف کی گئی اور ان کا پچھتانا پاؤں  کی رگیں  کاٹ دینے پر عذاب نازل ہونے کے خوف سے تھا، نہ کہ وہ مَعصِیَت پر توبہ کرتے ہوئے نادم ہوئے تھے یا وہ عذاب کا مُعایَنہ کر کے نادم ہوئے تھے اور ایسے وقت کی ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ص۸۲۸)
26:158
فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۵۸)
تو انہیں عذاب نے آلیا (ف۱۴۴) بیشک اس میں ضرور نشانی ہے، اور ان میں بہت مسلمان نہ تھے،

{فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ:  تو انہیں  عذاب نے پکڑلیا۔} یعنی جس عذاب کی انہیں  خبر دی گئی تھی اس نے انہیں  پکڑ لیا اوروہ لوگ ہلاک ہو گئے۔ قومِ ثمود پر آنے والے عذاب میں  ضرور عبرت کی نشانی ہے کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی صداقت پر نشانی ظاہر ہو جانے کے بعد بھی کفر پر قائم رہنا عذاب نازل ہونے کا سبب ہے اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی انتہائی تبلیغ کے باوجود بہت تھوڑے لوگ ان پر ایمان لائے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۶ / ۳۰۰)    تو اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ پر سارے عرب والے ایمان نہ لائیں  تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غم نہ فرمائیں ، اس کی وجہ یہ نہیں  کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تبلیغ میں  کوتاہی ہے بلکہ یہ خود بد نصیب ہیں ۔

26:159
وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠(۱۵۹)
اور بیشک تمہارا رب ہی عزت والا مہربان ہے،

{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی کافروں  پر عذاب نازل کرنے میں  غلبے والا اور ایمان لانے والوں  کو نجات دے کر ان پر مہربانی فرمانے والا ہے جیسا کہ قومِ ثمود نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تو اللہ تعالٰی نے ان پر ایساعذاب نازل فرمایا جس نے انہیں  جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دیا، اس لئے سابقہ قوموں  کے عذابات کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے آپ کے حکم کی مخالفت کرنے والوں  کو بھی اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرنا چاہئے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۶ / ۳۰۰)
26:160
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ-ﹰالْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۶۰)
لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا،

{كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍ: لوط کی قوم نے جھٹلایا۔} یہاں  سے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے اس وقت آپ کو جھٹلا کر تما م رسولوں  کو جھٹلایا جب آپ نے ان سے فرمایا: ’’اے میری قوم:کیا تم شرک اور دیگر گناہوں  پر اللہ تعالٰی کے عذاب سے نہیں  ڈرتے،بیشک میں  تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے تمہارے لیے ا س کی وحی اور رسالت پر امانتدار رسول ہوں  تو تم اللہ تعالٰی کے رسول کو جھٹلا کر اپنے اوپر اللہ تعالٰی کا عذاب نازل ہونے سے ڈرو اور جس سیدھے راستے پر چلنے کی میں  تمہیں  دعوت دے رہا ہوں  اس میں  میری اطاعت کرو۔ اور میں  اس تبلیغ اور تعلیم پر تم سے کچھ اجرت اور دُنْیَوی مَنافع کا مطالبہ نہیں  کرتا، میرا اجرو ثواب توصرف ربُّ العٰلمین کے ذمہ ِکرم پرہے۔(روح البیان،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۶۰-۱۶۴،۶ / ۳۰۱،تفسیر طبری،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۶۰-۱۶۴،۹ / ۴۶۹،ملتقطاً)

            نوٹ: یہ واقعہ سورۂ اَعراف، آیت نمبر80تا84۔سورۂ ہود،آیت نمبر74تا83۔سورۂ حجر،آیت نمبر58تا77 میں  گزر چکا ہے۔
  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلشُّـعَرَاء
اَلشُّـعَرَاء
  00:00



Download

اَلشُّـعَرَاء
اَلشُّـعَرَاء
  00:00



Download