Surah Ash-Shu'araa
{وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ: اور وہ جس سے مجھے امید ہے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آخر میں اللہ تعالٰی کا یہ وصف بیان فرمایا کہ میں اس رب تعالٰی کی عبادت کرتا ہوں جس سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن وہ میری خطائیں بخش دے گا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اللہ تعالٰی کی ان صفات کو بیان کرنا اپنی قوم پر حجت قائم کرنے کے لئے ہے کہ معبود صرف وہی ہوسکتا ہے جس کی یہ صفات ہوں ۔ یاد رہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہیں ،اُن سے گناہ صادِر نہیں ہوتے۔ اُن کا استغفار کرنا در اصل اپنے رب تعالٰی کی بارگاہ میں عاجزی و اِنکساری کا اظہار ہے اور اس میں امت کو یہ تعلیم دینا مقصود ہے کہ وہ مغفرت طلب کرتے رہا کریں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۳۸۹، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۸۲۳، ملتقطاً)
{رَبِّ: اے میرے رب!} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے بعد دعا مانگی:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے حکم عطا کر اور مجھے ان سے ملادے جو تیرے خاص قرب کے لائق بندے ہیں ۔ آیت میں مذکور’’ حکم‘‘ کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد علم ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ اس سےمراد حکمت ہے۔ قرب کے لائق خاص بندوں سے مراد اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا قبول ہوئی، چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ‘‘(البقرۃ:۱۳۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک وہ آخرت میں ہمارا خاص قرب پانے والوں میں سے ہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۸۲۳)
دعا مانگنے کا ایک ادب:
یہاں سے دعا مانگنے کا ایک ادب بھی معلوم ہو اکہ دعا مانگنے سے پہلے اللہ تعالٰی کی تعریف و توصیف بیان کی جائے، اس کے بعد دعا مانگی جائے۔
{وَ اجْعَلْ: اور رکھ دے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دوسری دعایہ مانگی کہ اے میرے رب! میرے بعد آنے والی امتوں میں میری اچھی شہرت رکھ دے، چنانچہ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ عطا فرمایا کہ ہر دین والے اُن سے محبت رکھتے ہیں اور اُن کی ثناکرتے ہیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۸۲۳)
{وَ اجْعَلْنِیْ: اور مجھے کردے۔} دنیا کی سعادتیں طلب کرنے کے بعد آخرت کی سعادتیں طلب کرتے ہوئے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا مانگی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ ، مجھے ان لوگوں میں سے کر دے جنہیں تو اپنے فضل وکرم سے چین کے باغوں اورنعمت کی جنت کا وارث بنائے گا۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۰، الحدیث: ۲۷۹۰)
جنت کی دعا مانگنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے:
اس سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالٰی سے قیامت کے دن جنت ملنے کی دعا کرنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ حدیث پاک میں بھی جنت الفردوس کی دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب تم اللہ تعالٰی سے مانگو تو اس سے جنت الفردوس کا سوال کرنا کیونکہ یہ جنت کا درمیانی حصہ اور اعلیٰ درجہ ہے، اس کے اوپر اللہ تعالٰی کا عرش ہے اور جنت کی نہریں اسی سے نکلتی ہیں۔(تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۸ / ۵۱۶، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۳۸۹، ملتقطاً)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالٰی سے قیامت کے دن جنت الفردوس عطا ہونے کی دعا مانگا کرے۔ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اَکابر بزرگانِ دین کی طلب ِ جنت کی دعائیں درحقیقت اللہ تعالٰی کے دیدار اور ملاقات کے لئے تھیں ۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مانگی ہوئی دعاؤں کی فضیلت:
حضرت سمرہ بن جند ب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب بندہ فرض نماز کے لئے وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے، پھر مسجد جانے کے ارادے سے اپنے گھر کے دروازے سے نکلے اور کہے: ’’بِسْمِ اللّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِۙ‘‘ تو اللہ تعالٰی اسے درست راستے کی ہدایت دے گا۔اور یہ کہے: ’’ وَ الَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِ‘‘ تو اللہ تعالٰی اسے جنتی کھانا کھلائے گا اور جنتی مشروبات پلائے گا۔اور یہ کہے: ’’وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ‘‘ تو اللہ تعالٰی اسے شفا عطا فرمائے گا اور ا س کے مرض کو اس کے گناہوں کے لئے کفارہ بنا دے گا۔ اور یہ کہے: ’’وَ الَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِۙ‘‘ تو اللہ تعالٰی اسے سعادت مندوں والی زندگی کے ساتھ زندہ رکھے گا اور شہیدوں والی موت عطا فرمائے گا۔ اور یہ کہے: ’’ وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓــٴَـتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِؕ‘‘ تو اللہ تعالٰی اس کی ساری خطائیں معاف کر دے گا اگرچہ وہ سمند رکی جھاگ سے بھی زیادہ ہوں۔اور یہ کہے: ’’رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَۙ‘‘ تو اللہ تعالٰی اسے علم و حکمت عطا فرمائے گا اور جو صالح بندے گزر چکے اور جو باقی ہیں اسے اللہ تعالٰی ان کے ساتھ ملادے گا۔اور یہ کہے: ’’وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ‘‘ تو ایک سفید کاغذ میں لکھ دیا جا تا ہے کہ فلاں بن فلاں صادقین میں سے ہے،پھر ا س کے بعد اللہ تعالٰی اسے صدق کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔اور یہ کہے: ’’وَ اجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیْمِ‘‘ تو اللہ تعالٰی اس کے لئے جنت میں مکانات اور محلات بنا دے گا۔) در منثور، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۶ / ۳۰۶(
{وَ اغْفِرْ لِاَبِیْ: اور میرے باپ کو بخش دے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک دعا یہ مانگی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ ، میر ے باپ کو توبہ وایمان کی توفیق عطا کر کے بخش دے بیشک وہ گمراہوں میں سے ہے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دعا اس لئے فرمائی کہ آپ کے باپ نے جدا ہوتے وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ایمان لانے کا وعدہ کیا تھا۔ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ظاہر ہوگیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے اور اس کا وعدہ جھوٹا تھا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے بیزار ہو گئے، جیسا کہ سور ئہ براء ت میں ہے:
’’وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ‘‘(التوبۃ:۱۱۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس سے کرلیا تھا پھر جب ابراہیم کے لئے یہ بالکل واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۳۱۲-۳۱۳، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۸۲۳، ملتقطاً)
نوٹ:یاد رہے کہ یہاں آیت میں باپ سے مراد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا آزَر ہے حقیقی والد مراد نہیں ہیں ۔ اس کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کیلئے سورۂ اَنعام آیت نمبر74کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
{وَ لَا تُخْزِنِیْ: اور مجھے رسوا نہ کرنا۔} اس آیت اوراس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک دعا یہ مانگی کہ اے میرے رب ! عَزَّوَجَلَّ ، مجھے قیامت کے اس دن رسوا نہ کرنا جس دن سب لوگوں کو اٹھایا جائے گا اوراس دن نہ مال کام آئے گا اورنہ بیٹے البتہ ا س دن جو اللہ تعالٰی کے حضور کفر، شرک اور نفاق سے سلامت دل کے ساتھ حاضر ہوگا تو اسے راہِ خدا میں خرچ کیا ہو امال بھی نفع دے گا اور اس کی نیک اولاد بھی اسے نفع دے گی۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۷-۸۹، ص۸۲۳، ملخصاً)
آخر ت میں مسلمانوں کو ان کے مال اور اولاد سے نفع حاصل ہو گا:
یاد رہے کہ کافر و مشرک جو مال نیک کاموں میں خرچ کرے گا آخرت میں وہ جہنم کے عذاب سے نجات دلانے اور اللہ تعالٰی کی بارگاہ سے ثواب حاصل کرنے میں اس کے کوئی کام نہ آئے گا البتہ مسلمان جو مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرے گا اور جو نیک اولاد چھوڑ کر مرے گا وہ مال اور اولاد اس کے کام آئے گی اور اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے مسلمان کو اس کے صدقات و خیرات کا ثواب عطا فرمائے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کے تین اعمال کے علاوہ باقی عمل مُنقطع ہوجاتے ہیں ۔ (1)صدقہ ٔجاریہ۔(2) وہ علم جس سے لوگ نفع اٹھائیں ۔ (3) نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔( مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، ص۸۸۶، الحدیث: ۱۴(۱۶۳۱))
نوٹ:یاد رہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی دعا میں قیامت کے دن کی رسوائی سے جو پناہ مانگی یہ دعا بھی لوگوں کی تعلیم کے لئے ہے تاکہ وہ اس کی فکر کریں اور قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں ا س کے لئے دعا بھی مانگیں ۔
{وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ: اور جنت قریب لائی جائے گی۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی دعا مانگنے کے بعداس دن کے کچھ اوصاف بیان فرمائے جن کاذکر اس آیت اور اس کے بعد والی 12آیات میں ہے،ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(1)… قیامت کے دن جنت سعادت مندوں کے مقام سے قریب کر دی جائے گی، وہ جنت کی طرف دیکھیں گے اور اس میں موجود طرح طرح کی عظیم الشّان نعمتوں کا مشاہدہ کریں گے اور اس لئے خوش ہوں گے کہ انہیں اس میں جمع کیا جائے گا، جبکہ حق راستے سے گمراہ ہوجانے والے بدبختوں پر جہنم ظاہر کر دی جائے گی، وہ اس میں موجود طرح طرح کے ہَولناک اَحوال کو دیکھیں گے اور انہیں اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ اب انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور وہ کسی صورت اس سے چھٹکارا نہ پا سکیں گے۔ اللہ تعالٰی ایسا اس لئے فرمائے گا کہ ایمان والوں کو جلد خوشی نصیب ہو اور کافروں کوعظیم غم ملے۔
(2)…کافروں کو ان کے کفر و شرک پر ڈانٹتے ہوئے سختی سے کہا جائے گا کہ تمہارے وہ معبود کہا ں ہیں جن کی دنیا میں تم اللہ تعالٰی کے علاوہ عبادت کیا کرتے تھے اور ان کے بارے میں یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ تمہاری شفاعت کریں گے؟ کیا وہ اللہ تعالٰی کے عذاب سے بچا کر تمہاری مدد کریں گے یا وہ اپنے دوزخ میں ڈالے جانے کابدلہ لے سکتے ہیں ؟ سن لو! وہ ہر گز ایسا نہیں کر سکتے۔
(3)…بت اور ان کے پجاری اور ابلیس کے سارے لشکر سب اوندھے کرکے جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے۔ یاد رہے کہ بت جہنم میں عذاب پانے کے لئے نہیں بلکہ اپنے پجاریوں کو عذاب دینے کے لئے ڈالے جائیں گے اور ابلیس کے لشکروں سے مراد اس کی پیروی کرنے والے ہیں چاہے وہ جن ہوں یا انسان اوربعض مفسرین نے کہا ہے کہ ابلیس کے لشکروں سے اس کی ذُرِّیَّت مراد ہے۔
(4)…جب ان گمراہوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو وہ جہنم میں اپنے جھوٹے معبودوں سے جھگڑتے ہوئے کہیں گے ’’خدا کی قسم، بیشک ہم اس وقت کھلی گمراہی میں تھے جب ہم تمہیں عبادت کا مستحق ہونے میں تمام جہانوں کے پروردگار کے برابر قرار دیتے تھے حالانکہ تم اس کی ایک ادنیٰ، کمتر ین اور انتہائی عاجزمخلوق تھے اور ہمیں مجرموں نے ہی گمراہ کیا اور اب یہ حال ہے کہ ہمارے لئے کوئی سفارشی نہیں جیسے کہ مومنین کے لئے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیائ، فرشتے اور مومنین شفاعت کرنے والے ہیں ، اور نہ ہی ایمان والوں کی طرح ہمارا کوئی غم خوار دوست ہے جو اس مشکل ترین وقت میں ہمارے کام آئے، پس اگرکسی طرح ہمیں ایک مرتبہ دنیا کی طرف لوٹ کر جانا نصیب ہو جائے تو ہم ضرور مسلمان ہو جائیں گے۔( تفسیرکبیر،الشعراء،تحت الآیۃ: ۹۰-۱۰۲، ۸ / ۵۱۸-۵۱۹، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۹۰-۱۰۲، ۳ / ۳۹۰-۳۹۱،ابو سعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۹۰-۱۰۲، ۴ / ۱۶۹-۱۷۱، ملتقطاً)
{اَلْمُجْرِمُوْنَ: مجرموں ۔} مجرموں سے مراد وہ ہیں جنہوں نے بت پرستی کی دعوت دی یا وہ پہلے لوگ مراد ہیں جن کی ان گمراہوں نے پیروی کی یا ان سے ابلیس اور اس کی ذریت مراد ہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۸۲۴)
{وَ لَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ: اور نہ ہی کوئی غم خوار دوست ہے۔} کفار یہ بات اس وقت کہیں گے جب دیکھیں گے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاء رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ، فرشتے اور صالحین ایمان داروں کی شفاعت کررہے ہیں اور ان کی دوستیاں کام آرہی ہیں۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۹۰)
قیامت کے دن پرہیزگارمسلمانوں کی دوستی مسلمان کے کام آئے گی:
معلوم ہوا کہ قیامت کے دن نیک،صالح اور پرہیز گار مسلمانوں کی دوستی مسلمانوں کے کام آئے گی اور وہ قیامت کے انتہائی سخت ہولناک دن میں مسلمانوں کی غم خواری اور شفاعت کریں گے۔اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے :
’’اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ‘‘(الزخرف:۶۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: پرہیز گاروں کے علاوہ اس دنگہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایاکہ جنتی کہے گا: میرے فلاں دوست کا کیا حال ہے؟ اور وہ دوست گناہوں کی وجہ سے جہنم میں ہوگا۔اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ اس کے دوست کو نکالو اور جنت میں داخل کردو تو جو لوگ جہنم میں باقی رہ جائیں گے وہ یہ کہیں گے کہ ہمارا کوئی سفارشی نہیں ہے اور نہ کوئی غم خوار دوست۔( تفسیر بغوی، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۳۴)
حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’ایماندار دوست بڑھاؤ کیونکہ وہ روزِ قیامت شفاعت کریں گے۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۹۱)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نیک اور پرہیز گار مسلمانوں کو اپنا دوست بنائے اور فاسق و فاجر لوگوں کی دوستی سے بچے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ کس سے دوستی کرتا ہے۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۴۵-باب، ۴ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۳۸۵)
{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً: بیشک اس میں ضرور نشانی ہے۔} یعنی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنی قوم کے ساتھ جو واقعہ بیان کیا گیا اس میں ان سب کے لئے عبرت کی نشانی ہے جو اللہ تعالٰی کے علاوہ اوروں کی عبادت کرتے ہیں تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ قیامت کے دن ان کے یہی جھوٹے معبود ان سے بیزاری ظاہر کر دیں گے اور کسی کو کوئی نفع بھی نہیں پہنچا سکیں گے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۶ / ۲۹۱)
{وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ: اور ان میں اکثرایمان والے نہ تھے۔} یعنی جس طرح کفارِ قریش میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لائے اسی طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں سے بھی اکثر لوگ ایمان نہیں لائے تھے(لہٰذا اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ قریش کے ایمان نہ لانے پر غم نہ فرمائیں )( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۶ / ۲۹۱)
{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی عزت اور غلبے والا ہے اور وہی توبہ کرنے والوں کو بخش کر اور کافروں کو مہلت دے کر مہربانی فرمانے والا ہے اور اللہ تعالٰی نے اپنی وسیع رحمت کی وجہ سے ہی کفارِ قریش کو مہلت دی تاکہ وہ ایمان لے آئیں یا ان کی اولاد میں سے کوئی ایمان لے آئے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۶ / ۲۹۱)
{كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ ﹰالْمُرْسَلِیْنَ: نوح کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔} سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد یہاں سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں فرمایاگیا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین ایک ہے اور ہر ایک نبی لوگوں کو تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں ا س لئے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانا تمام پیغمبروں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانا ہے۔( تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۸ / ۵۲۰، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۳۹۱، ملتقطاً)
نوٹ:یہ واقعہ سورۂ اَعراف آیت نمبر59تا64،سورۂ یونس آیت نمبر71تا73،سورہ ٔہود آیت نمبر25تا 49، سورۃُ الانبیاء آیت نمبر76تا 77اورسورہ ٔمؤمنون آیت نمبر23تا30میں بیان ہو چکا ہے۔
{اِذْ قَالَ لَهُمْ: جب ان سے فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی قوم نے اس وقت جھٹلایا جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا :کیا تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرتے نہیں تاکہ کفر اور گناہوں کو ترک کر دو۔ بیشک میں اللہ تعالٰی کی طرف سے تمہارے لئے ایک ایسا رسول ہوں جس کی امانت داری تم میں مشہور ہے اور جو دُنْیَوی کاموں پر امین ہے وہ وحی اور رسالت پر بھی امین ہو گا لہٰذاتم اللہ تعالٰی سے ڈرو اور جو میں تمہیں توحید و ایمان اور اللہ تعالٰی کی طاعت کے بارے میں حکم دیتا ہوں اس میں میری اطاعت کرو۔( خازن،الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۸، ۳ / ۳۹۱، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۸، ص۸۲۵، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۸، ۶ / ۲۹۱-۲۹۲، ملتقطاً)
{رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ: امانتداررسول۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امانت داری آپ کی قوم کو اسی طرح تسلیم تھی جیسا کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت داری پر عرب کو اتفاق تھا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ص۸۲۵)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ امانت داری:
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ گرامی میں دیگر اَوصاف کے ساتھ ساتھ امانت و دیانت داری کا وصف بھی انتہائی اعلیٰ پیمانے پر موجود تھا اور آپ کی امانت داری کے اپنے پرائے سبھی قائل تھے اورآپ صادق و امین کے لقب سے مشہور تھے، یہاں حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت داری سے متعلق تین واقعات کا خلاصہ درج ذیل ہے جن سے آپ کی امانت و دیانت داری کی شان واضح ہوتی ہے۔
(1)…پچیس سال کی عمر شریف میں سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت و صداقت کا چرچا دور دور تک پہنچ چکا تھا۔آپ کے اسی وصف کی وجہ سے حضرت خدیجہ نے اپنا تجارتی سامان لے جانے کے لئے آپ کو منتخب کیا اور آپ کی بارگاہ میں یہ عرض پیش کی کہ آپ میرا تجارت کا مال لے کر ملک ِشام جائیں ،جو معاوضہ میں دوسروں کو دیتی ہوں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت و دیانت داری کی بنا پر میں آپ کو اس کا دوگنا دوں گی۔
(2)…نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت و دیانت کی بدولت اللہ تعالٰی نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کو مخلوق میں انتہائی مقبول بنا دیا اور عقلِ سلیم اور بے مثل دانائی کا عظیم جوہر عطا فرما دیا، چنانچہ جب تعمیر ِکعبہ کے وقت حجرِ اَسوَد کو نَصب کرنے کے معاملے میں عرب کے بڑے بڑے سرداروں کے درمیان جھگڑا کھڑا ہو گیا اور قتل و غارت گری تک نوبت پہنچ گئی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے جھگڑے کا ایسا لاجواب فیصلہ فرما دیا کہ بڑے بڑے دانشوروں اور سرداروں نے اس فیصلہ کی عظمت کے آگے سر جھکا دیا اور سبھی کفار پکار اُٹھے کہ وَاللہ یہ امین ہیں اور ہم ان کے فیصلے پر راضی ہیں ۔
(3)…کفارِ مکہ اگرچہ رحمت ِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بدترین دشمن تھے مگر اس کے باوجود حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت و دیانت پر کفار کو اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے قیمتی مال و سامان کو حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس امانت رکھتے تھے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت داری کی یہ شان تھی کہ آپ نے اس وقت بھی ان کفار کی امانتیں واپس پہنچانے کا انتظام فرمایا جب وہ جان کے دشمن بن کر آپ کے مقدس مکا ن کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔
{وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ: اور میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔} اس سے پہلی آیات میں بیان ہوا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی امانت داری کا وصف بیان کر کے لوگوں کو اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرایا اور اپنی اطاعت کرنے کی ترغیب دلائی اور یہاں سے یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے لالچ وطمع سے خالی ہونے کو بیان کر کے اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرایا اور اطاعت کی طرف راغب کیا،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: میں رسالت کی ادائیگی پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا اجر و ثواب تو اسی کے ذمہ ِکرم پر ہے جو سارے جہان کا رب عَزَّوَجَلَّ ہے تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرواور میری اطاعت کرو۔
{قَالُوْا: بولے۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے جواب دیا کہ کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں حالانکہ تمہاری پیروی ہماری قوم کے صرف گھٹیا لوگوں نے کی ہے۔یہ بات انہوں نے غرور کی وجہ سے کہی تھی کیونکہ انہیں غریبوں کے پاس بیٹھنا گوارا نہ تھا اوراس میں وہ اپنی کَسرِشان سمجھتے تھے، اس لئے ایمان جیسی نعمت سے محروم رہے۔ کمینے اور گھٹیا لوگوں سے ان کی مراد غریب اور پیشہ ور لوگ تھے اور انہیں رذیل اور کمین کہنا یہ کفار کا مُتکبِّرانہ فعل تھا ورنہ درحقیقت صَنعت اور ردی پیشہ ایسی چیز نہیں کہ جس سے آدمی دین میں ذلیل ہو جائے۔مالداری اصل میں دینی مالداری ہے اور نسب در اصل تقویٰ کا نسب ہے۔ یہاں ایک مسئلہ یاد رہے کہ مومن کو گھٹیا کہنا جائز نہیں خواہ وہ کتنا ہی محتاج و نادار ہو یا وہ کسی بھی نسب کا ہو۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۸۲۵)
عزت و ذلت کا معیار دین اور پرہیزگاری ہے:
اس سے معلوم ہو اکہ عزت و ذلت کا معیار مال و دولت کی کثرت نہیں بلکہ دین اور پرہیزگاری ہے چنانچہ جس کے پاس دولت کے انبار ہوں لیکن دین اور پرہیزگاری نہ ہو تو وہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں عزت والا نہیں اوراس کی بارگاہ میں ان کے مال و دولت کی حیثیت مچھر کے پر برابر بھی نہیں اگرچہ دُنْیَوی طور پر وہ کتنا ہی عزت دار شمار کیا جاتا ہو، اسی طرح جو شخص غریب اور نادار ہے لیکن دین اور پرہیزگاری کی دولت سے مالا مال ہے، وہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں عزت والا ہے اگرچہ دنیوی طور پر ا سے کوئی عزت داروں میں شمارنہ کرتا ہو اور لوگ اسے کمتر،حقیر اور ذلیل سمجھتے ہوں ۔ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘(حجرات:۱۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہےبیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔
اور حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ ایک ہے اور تمہارے والد ایک ہیں ،سن لو!کسی عربی کو عجمی پر،کسی عجمی کو عربی پر،کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں البتہ جو پرہیزگار ہے وہ دوسروں سے افضل ہے، بیشک اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے۔( شعب الایمان،الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی حفظ اللسان عن الفخر بالآبائ، ۴ / ۲۸۹، الحدیث: ۵۱۳۷)
اور غریب، پرہیزگار مسلمانوں کی قدرو قیمت سے متعلق حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بہت سے پَراگندہ بالوں والے ایسے ہوتے ہیں جنہیں (حقیر سمجھ کر) لوگ دروازوں سے دھکے دیتے ہیں (لیکن اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں ان کا یہ مقام ہوتا ہے کہ ) اگر وہ کسی کام کے لئے قسم اٹھا لیں تو اللہ تعالٰی ان کی قسم کو ضرور پورا کر دے۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الضعفاء والخاملین، ص۱۴۱۲، الحدیث: ۱۳۸(۲۶۲۲))
افسوس ہمارے معاشرے میں بھی عزت کے قابل اسے ہی سمجھا جاتا ہے جس کے پاس دولت کی کثرت ہو، گاڑیاں ، بنگلے، عہدے اور منصب ہوں اگرچہ اس کے پاس یہ سب چیزیں سود، جوئے، رشوت اور دیگر حرام ذرائع سے حاصل کی ہوئی آمدنی سے آئی ہوں اور جو شخص محنت مزدوری کر کے اور طرح طرح کی مشقتیں برداشت کر کے گزارے کے لائق حلال روزی کماتا ہواسے لوگ کمتر اور حقیر سمجھتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی انہیں عقل ِسلیم اور ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔
{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: جن لوگوں نے میری پیروی کی ہے مجھے ان کے کاموں کا علم نہیں اور نہ ہی مجھے اس سے کوئی غرض اور مطلب ہے کہ وہ کیا پیشے کرتے ہیں ؟میری ذمہ داری انہیں اللہ تعالٰی کی طرف دعوت دینا ہے (اور وہ میں نے پوری کر دی ہے) اگر تم ان کے گھٹیا پیشوں کوجانتے ہو تو اچھی طرح سمجھ لوکہ ان کا حساب تو میرے رب عَزَّوَجَلَّ ہی کے ذمہ پر ہے، وہی انہیں جزا دے گا،تو نہ تم انہیں عیب لگاؤ اور نہ پیشوں کے باعث ان سے عار کرو۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے ایمان لانے والوں کے پیشے پر اعتراض کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ایمان پر بھی اعتراض کیا اور یہ کہا تھا کہ جو لوگ آپ پر ایمان لائے ہیں وہ دل سے ایمان نہیں لائے بلکہ صرف ظاہری طور پر ایمان لائے ہیں ۔اس کے جوا ب میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ارشاد فرمایا: ’’میری ذمہ داری ظاہر پر اعتبار کرنا ہے باطن کی تفتیش مجھ پر لازم نہیں ، اگر تمہیں ان کے دل کا حال معلوم ہے تو جو کچھ ان کے دلوں میں ہے ا س کا ان سے حساب لینا میرے رب عَزَّوَجَلَّ ہی کے ذمہ پرہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۲-۱۱۳، ۳ / ۳۹۱، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۲-۱۱۳، ص۸۲۵، ملتقطاً)
{وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ: اور میں دور کرنے والا نہیں ۔} قوم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر کہا کہ پھر آپ کمینوں کو اپنی مجلس سے نکال دیجئے تاکہ ہم آپ کے پاس آئیں اور آپ کی بات مانیں ۔ اس کے جواب میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’یہ میری شان نہیں کہ میں تمہاری ایسی خواہشوں کو پورا کروں اور تمہارے ایمان کے لالچ میں غریب مسلمانوں کو اپنے پاس سے نکال دوں ۔( تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۸ / ۵۲۱، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ص۸۲۶، ملتقطاً)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی غریب پَروری:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ غریبوں فقیروں کے ساتھ بیٹھنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ غریب مسلمانوں سے بھی ہم نشینی رکھے،ان کی دلجوئی کرے اور ان کی مشکلات دور کرنے کے لئے عملی طور پراِ قدامات کرنے کی کوشش کرے، ترغیب کے لئے یہاں غریب پروری اور مسکین نوازی سے متعلق تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیمات اور آپ کی مبارک سیرت ملاحظہ ہو،چنانچہ
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں :نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ دعا مانگی: ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، قیامت کے دن مجھے مسکینوں کی جماعت سے ہی اٹھانا۔حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے عرض کی: کیوں (ایسا ہو؟) ارشاد فرمایا: ’’مسکین لوگ امیر لوگوں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے،اے عائشہ! مسکین کے سوال کو کبھی رد نہ کرنا اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو،اے عائشہ!مسکینوں سے محبت رکھو اور انہیں اپنے قریب کرو (ایسا کرنے سے) اللہ تعالٰی قیامت کے دن تجھے اپنا قرب عطا فرمائے گا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء انّ فقراء المہاجرین یدخلون الجنّۃ قبل اغنیاء ہم، ۴ / ۱۵۷، الحدیث: ۲۳۵۹)
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(اگر تم مجھے ڈھونڈنا چاہو تو) مجھے اپنے کمزور اور غریب لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ تمہیں کمزور اور غریب لوگوں کے سبب رزق دیاجاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔( ترمذی، کتاب الجہاد، باب ما جاء فی الاستفتاح بصعالیک المسلمین، ۳ / ۲۶۸، الحدیث: ۱۷۰۸)
حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ (غلام) تمہارے بھائی اور خادم ہیں ، اللہ تعالٰی نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے تو جس شخص کے ماتحت ا س کا بھائی ہو وہ اسے وہ چیز کھلائے جسے خود کھاتا ہو،وہ لباس پہنائے جسے خود پہنتا ہو اور تم انہیں ایسے کام پر مجبور نہ کرو جو ان کے لئے دشوار ہو اور اگرانہیں ایسے کام کے لئے کہو تواس میں ان کی مدد کرو۔( مسلم، کتاب الایمان والنذور، باب اطعام المملوک ممّا یأکل۔۔۔ الخ، ص۹۰۶، الحدیث: ۴۰(۱۶۶۱))
اسی طرح کثیر اَحادیث میں یتیموں اور بیواؤں کی سرپرستی کرنے، مزدور کو ا س کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دینے،غریب مقروض کو مہلت دینے یا قرض معاف کردینے کی تعلیم دی گئی ہے۔اب غریب پَروری سے متعلق سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کا عالم ملاحظہ ہو،چنانچہ قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مشہور تصنیف ’’شفا شریف‘‘ میں ہے کہ’’حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکینوں کی عیادت فرماتے،فقیروں کے پاس بیٹھتے اور کوئی غلام بھی دعوت دیتا تو اسے قبول فرمالیتے تھے۔( الشفا، القسم الاول، الباب الثانی، فصل وامّا تواضعہ، ص۱۳۱، الجزء الاول)
علامہ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں جب حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی محتاج کو ملاحظہ فرماتے تو اپنا کھاناپینا تک اٹھا کر عنایت فرما دیتے حالانکہ ا س کی آپ کو بھی ضرورت ہوتی،آپ کی عطا مختلف قسم کی ہوتی جیسے کسی کو تحفہ دیتے، کسی کو کوئی حق عطا فرماتے،کسی سے قرض کا بوجھ ا تار دیتے،کسی کو صدقہ عنایت فرماتے، کبھی کپڑ اخریدتے اور ا س کی قیمت ادا کر کے اس کپڑے والے کو وہی کپڑ ابخش دیتے،کبھی قرض لیتے اور (اپنی طرف سے) اس کی مقدار سے زیادہ عطا فرما دیتے،کبھی کپڑ اخرید کراس کی قیمت سے زیادہ رقم عنایت فرما دیتے اور کبھی ہدیہ قبول فرماتے اور اس سے کئی گُنا زیادہ انعام میں عطا فرما دیتے۔( مدارج النبوہ، باب دوم در بیان اخلاق وصفا، وصل در جود وسخاوت، ۱ / ۴۹)
اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں کو اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک تعلیمات کو اپنانے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیاری سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
اللہ تعالٰی کی اطاعت کے معاملے میں کسی کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے:
اس آیت میں ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کفار کے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام غریبوں کو خود سے دور کردیں ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی کی اطاعت میں کسی کی طرف سے ہونے والی باتوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس سے بے پرواہ ہو کر اللہ تعالٰی کی اطاعت کرنا اور حق بات کو بیان کرنا چاہئے۔ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بطورِ خاص صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو اس بات کا حکم دیتے اور اس پر بیعت لیتے کہ وہ اللہ تعالٰی کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈریں گے نہ اس کی پرواہ کریں گے اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا یہ حال تھا کہ وہ اس عہد کی پاسداری میں اپنی جان تک چلی جانے کی بھی پرواہ نہ کیا کرتے تھے۔افسوس!فی زمانہ حق بات بیان کرنے کے حوالے سے مسلمانوں کا حال انتہائی نازک ہے،یہ اپنے سامنے اللہ تعالٰی اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانیاں ہوتی دیکھ کر، دین کا مذاق اڑتا ہوا اور شریعت کے احکامات پر عمل پیرا حضرات کی تذلیل ہوتی دیکھ کر،دینِ اسلام کے احکام اور اس کی تعلیمات پر انگلیاں اٹھتی دیکھ کر اتنی ہمت بھی نہیں کر پاتے کہ ایسے لوگوں کو زبان سے ہی روک دیں بلکہ الٹا ان کی ہاں میں ہاں ملاتے اور ان کی الٹی سیدھی اور جاہلانہ باتوں کو صحیح قرار دیتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی انہیں عقل ِسلیم عطا فرمائے اور حق بات کہنے اور اس میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے،اٰمین۔
{نَذِیْرٌ: ڈر سنانے والا۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میری ذمہ داری تمہیں صحیح دلیل کے ساتھ صاف صاف ڈر سناناہے جس سے حق و باطل میں امتیاز ہوجائے، تو جو ایمان لائے وہی میرا مُقَرّب ہے اور جو ایمان نہ لائے وہی مجھ سے دور ہے۔(مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ص۸۲۶، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۳ / ۳۹۱، ملتقطاً)
{قَالُوْا: بولے۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے کہا :اے نوح ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اگر تم دعوت دینے اور ڈر سنانے سے باز نہ آئے تو ضرورتم سنگسار کئے جانے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۶ / ۲۹۳)
{قَالَ: عرض کی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی :اے میرے رب! بیشک میری قوم نے تیری وحی ورسالت میں مجھے جھٹلایا ہے، پس تو مجھ میں اور ان میں وہ فیصلہ کردے جس کا ہم میں سے ہر کوئی حق دار ہے اور مجھے اور میرے ساتھ والے مسلمانوں کو ان کافروں کی اَذِیَّتوں سے نجات دے۔
{فَاَنْجَیْنٰهُ: تو ہم نے اسے بچالیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرمائی اور اس نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور ان کے ساتھ والوں کوانسانوں ، پرندوں اور جانوروں سے بھری ہوئی کشتی میں سوار کرکے طوفان سے بچا لیا اور انہیں نجات دینے کے بعد باقی لوگوں کو طوفان میں غرق کر دیا۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۹-۱۲۰، ۳ / ۳۹۲)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan