READ

Surah Ash-Shu'araa

اَلشُّـعَرَاء
227 Ayaat    مکیۃ


26:41
فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَىٕنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ(۴۱)
پھر جب جادوگر آئے فرعون سے بولے کیا ہمیں کچھ مزدوری ملے گی اگر ہم غالب آئے،

{فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ: پھر جب جادوگر آئے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جادوگر فرعون کے پاس آئے توانہوں  نے فرعون سے کہا:اگر ہم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر غالب ہوگئے توکیا ہمارے لئے کوئی معاوضہ بھی ہے ؟ فرعون نے کہا: ہاں  ہے اورکوئی معمولی معاوضہ نہیں  بلکہ اس وقت تم میرے نہایت قریبی لوگوں  میں  سے ہوجاؤ گے، تمہیں  درباری بنالیا جائے گا، تمہیں  خاص اعزاز دیئے جائیں  گے، سب سے پہلے داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی اور سب سے بعد تک دربار میں  رہو گے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ص۸۱۹، ملخصاً)

26:42
قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ(۴۲)
بولا ہاں اور اس وقت تم میرے مقرب ہوجاؤ گے (ف۴۴)

26:43
قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰۤى اَلْقُوْا مَاۤ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ(۴۳)
موسیٰ نے ان سے فرمایا ڈالو جو تمہیں ڈالنا ہے (ف۴۵)

{قَالَ لَهُمْ: موسیٰ نے ان سے فرمایا۔} فرعون سے معاوضے کا وعدہ لینے کے بعد جادو گروں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: کیا آپ پہلے اپنا عصا ڈالیں  گے یا ہمیں  اجازت ہے کہ ہم اپنا جادو کا سامان ڈالیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان جادوگروں سے فرمایا:تم اپنا وہ سامان زمین پرڈالو جو تم ڈالنے والے ہو تاکہ تم اس کا انجام دیکھ لو۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۳۱۱، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۸۱۹، ملتقطاً)

{فَاَلْقَوْا: تو انہوں  نے ڈال دیں ۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کہنے پر جادوگروں  نے اپنی رسیاں  اور لاٹھیاں  زمین پر ڈال دیں  اورکہنے لگے: فرعون کی عزت کی قسم :بیشک ہم ہی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر غالب ہوں  گے۔ جادوگروں  نے فرعون کی عزت کی قسم اس لئے کھائی کہ انہیں اپنے غلبہ کا اطمینان تھا کیونکہ جادوکے اعمال میں  سے جو انتہا کے عمل تھے یہ اُن کو کام میں  لائے تھے اور کامل یقین رکھتے تھے کہ اب کوئی جادو اس کا مقابلہ نہیں  کرسکتا۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۴، ۶ / ۲۷۳، ملخصاً)

26:44
فَاَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَ عِصِیَّهُمْ وَ قَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ(۴۴)
تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں اور بولے فرعون کی عزت کی قسم بیشک ہماری ہی جیت ہے، (ف۴۶)

26:45
فَاَلْقٰى مُوْسٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَۚۖ(۴۵)
تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا جبھی وہ ان کی بناوٹوں کو نگلنے لگا (ف۴۷)

{ فَاَلْقٰى مُوْسٰى عَصَاهُ: تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جادو گروں  نے رسیاں  ڈال دیں  توحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کے حکم سے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا تو وہ اسی وقت بہت بڑا سانپ بن کراُن رسیوں  اور لاٹھیوں  کو نگلنے لگا جو جادو کی وجہ سے اژدھے بن کر دوڑتے نظر آرہے تھے،جب وہ اُن سب کو نگل گیا اور اس کے بعدحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے اپنے دست ِمبارک میں  لیا تو وہ پہلے کی طرح عصا تھا۔ جادوگروں  نے جب یہ منظر دیکھا تو انہیں  یقین ہوگیا کہ یہ جادو نہیں  ہے اور یہ دیکھنے کے بعد ان پر ایسااثر ہوا کہ وہ بے اختیار اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گئے اور یوں  لگتا تھا جیسے کسی نے انہیں  پکڑ کر سجدے میں  گرا دیا ہو،پھر جادو گروں  نے سچے دل سے کہا: ہم ا س پر ایمان لائے جو سارے جہان کا رب عَزَّوَجَلَّ ہے اور جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا رب عَزَّوَجَلَّ ہے۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۸، ۳ / ۳۸۶، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۸، ۶ / ۲۷۳-۲۷۴، ملتقطاً)

26:46
فَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَۙ(۴۶)
اب سجدہ میں گرے،

26:47
قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۴۷)
جادوگر، بولے ہم ایمان لائے اس پر جو سارے جہان کا رب ہے،

26:48
رَبِّ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(۴۸)
جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے،

26:49
قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْۚ-اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَۚ-فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۬ؕ-لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُوصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَۚ(۴۹)
فرعون بولا کیا تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں، بیشک وہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا (ف۴۸) تو اب جاننا چاہتے ہو (ف۴۹) مجھے قسم ہے! بیشک میں تمہارے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا اور تم سب کو سولی دوں گا (ف۵۰)

{قَالَ: فرعون نے کہا۔} جب جادو گر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئے تو فرعون نے ان سے کہا: ’’کیا تم میری اجازت کے بغیر ہی اس پر ایمان لے آئے۔ بیشک موسیٰ تمہارا بڑا استادہے، جس نے تمہیں  جادو سکھایا، اسی لئے وہ تم پر غالب آ گئے اور تم نے آپس میں  مل کر میرے خلاف سازش کی اور میرے ملک میں  فساد پھیلانے کی کوشش کی، اب تم جان جاؤ گے کہ تمہارے ا س عمل کی وجہ سے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیاجاتا ہے۔ مجھے قسم ہے! عنقریب میں  ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں  کاٹ دوں  گا اور تم سب کو پھانسی دے دوں  گا۔ اس گفتگوسے فرعون کا ایک مقصد یہ تھا کہ لوگ شبہ میں  پڑ جائیں  اور وہ یہ نہ سمجھیں  کہ جادوگروں  پر حق ظاہر ہو گیا اسی لئے وہ ایمان لے آئے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ عام مخلوق ڈر جائے اور لوگ جادو گروں  کو دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان نہ لے آئیں ۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۲۷۴-۲۷۵،  مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۸۱۹-۸۲۰، ملتقطاً)

26:50
قَالُوْا لَا ضَیْرَ٘-اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَۚ(۵۰)
وہ بولے کچھ نقصان نہیں (ف۵۱) ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں (ف۵۲)

{قَالُوْا: وہ بولے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کی دھمکی سن کر ان جادو گروں  نے کہا’’اللہ تعالٰی کی خاطر جان دینے میں  کچھ نقصان نہیں  خواہ دنیا میں  کچھ بھی پیش آئے کیونکہ ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ایمان کے ساتھ پلٹنے والے ہیں  اور ہمیں  اللہ تعالٰی سے رحمت کی امید ہے اور ہمیں  اس بات کا لالچ ہے کہ ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ اس بنا پر ہماری خطائیں  بخش دے کہ ہم فرعون کی رعایا میں  سے یا اس مجمع کے حاضرین میں  سے سب سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والے ہیں۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ۳ / ۳۸۶-۳۸۷، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ص۸۲۰، ملتقطاً)

اس واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کئی سال تک وہاں ٹھہرے رہے اور ان لوگوں  کو حق کی دعوت دیتے رہے، لیکن اُن کی سرکشی بڑھتی گئی۔

26:51
اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَاۤ اَنْ كُنَّاۤ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَؕ۠(۵۱)
ہمیں طمع ہے کہ ہمارا رب ہماری خطائیں بخش دے اس پر کہ سب سے پہلے ایمان لائے (ف۵۳)

26:52
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ(۵۲)
اور ہم نے موسٰی کو وحی بھیجی کہ راتوں را ت میرے بندو ں کو (ف ۵۴) لے نکل بیشک تمھارا پیچھا ہو نا ہے، ف۵۵)

{وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى: اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی۔} جب ایک عرصے تک حق کی دعوت دینے اور پے درپے نشانیاں  دکھانے کے باوجود فرعونی ایمان نہ لائے اور اپنی سرکشی میں  بڑھتے ہی گئے تو اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی بھیجی کہ راتوں  را ت بنی اسرائیل کو مصر سے لے چلو، بیشک فرعون اور اس کے لشکر تمہارا پیچھا کریں  گے اور وہ لوگ تمہارے پیچھے پیچھے دریا میں  داخل ہوجائیں  گے، اس کے بعدہم تمہیں  نجات دیں  گے اور فرعون کو ا س کے لشکر کے ساتھ دریا میں  غرق کردیں  گے۔(روح ا لبیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵۲، ۶ / ۲۷۶، ملخصًا)

26:53
فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدَآىٕنِ حٰشِرِیْنَۚ(۵۳)
اب فرعون نے شہروں میں جمع کرنے والے بھیجے (ف۵۶)

{فَاَرْسَلَ: تو اس نے بھیجے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر راتوں  رات مصر سے نکل گئے اور جب فرعون نے ان کے مصر سے نکلنے کی خبر سنی تو اس نے لشکر جمع کرنے کے لئے شہروں  میں  قاصدبھیجے، جب لشکر جمع ہوگئے تو ان کی کثرت کے مقابلے میں  بنی اسرائیل کی تعداد تھوڑی معلوم ہونے لگی، چنانچہ فرعون نے بنی اسرائیل کے بارے میں  کہا: یہ لوگ ایک تھوڑی سی جماعت ہیں  اور بیشک یہ ہماری مخالفت کرکے اور ہماری اجازت کے بغیر ہماری سرزمین سے نکل کر ہم سب کا دل جلاتے اور ہمیں  غصہ دلانے والے ہیں اور بیشک ہم سب ہتھیاروں  سے لیس اور ہوشیار ہیں ۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵۳-۵۶، ص۳۱۱، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵۳-۵۶، ص۸۲۰، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ:۵۳-۵۶، ۳ / ۳۸۷، ملتقطاً)

26:54
اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِیْلُوْنَۙ(۵۴)
کہ یہ لوگ ایک تھوڑی جماعت ہیں،

26:55
وَ اِنَّهُمْ لَنَا لَغَآىٕظُوْنَۙ(۵۵)
اور بیشک ہم سب کا دل جلاتے ہیں (ف۵۷)

26:56
وَ اِنَّا لَجَمِیْعٌ حٰذِرُوْنَؕ(۵۶)
اور بیشک ہم سب چوکنے ہیں (ف۵۸)

26:57
فَاَخْرَجْنٰهُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ(۵۷)
تو ہم نے انہیں (ف۵۹) باہر نکالا باغوں اور چشموں،

{فَاَخْرَجْنٰهُمْ: تو ہم نے انہیں  باہر نکالا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیتوں  کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے فرعون اور اس کی قوم کوباغوں  اور چشموں کی سرزمین مصرسے اورسونے چاندی کے خزانوں  اور عمدہ مکانوں  سے باہر نکالا تاکہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور بنی اسرائیل تک پہنچیں اور اللہ تعالٰی نے فرعونیوں  کو ایسے ہی ان کے وطن سے نکالا جیساکہ بیان ہوا، پھرفرعون اور اس کی قوم کو غرق کر دئیے جانے کے بعد اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل کو فرعونیوں  کی سرزمین اور ان کے خزانوں اور مکانوں  کاوارث بنادیا۔( جلالین،الشعراء،تحت الآیۃ:۵۷-۵۹،ص۳۱۱-۳۱۲، روح البیان،الشعراء،تحت الآیۃ:۵۷-۵۹،۶ / ۲۷۷-۲۷۸،ملتقطاً)

26:58
وَّ كُنُوْزٍ وَّ مَقَامٍ كَرِیْمٍۙ(۵۸)
اور خزانوں اور عمدہ مکانوں سے،

26:59
كَذٰلِكَؕ-وَ اَوْرَثْنٰهَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۵۹)
ہم نے ایسا ہی کیا اور ان کا وارث کردیا بنی اسرائیل کو (ف۶۰)

26:60
فَاَتْبَعُوْهُمْ مُّشْرِقِیْنَ(۶۰)
تو فرعونیوں نے ان کا تعاقب کیا دن نکلے،

{فَاَتْبَعُوْهُمْ: تو فرعونیوں  نے ان کا تعاقب کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب سورج طلوع ہو اتو فرعونیوں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور بنی اسرائیل کا تعاقب کیا،پھر جب دونوں  گروہوں  کا آمنا سامنا ہوا اور ان میں  سے ہر ایک نے دوسرے کو دیکھا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھیوں  نے کہا: بیشک اب وہ ہم پر قابو پالیں  گے، نہ ہم ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں  اور نہ ہمارے پاس بھاگنے کی کوئی جگہ ہے کیونکہ آگے دریا ہے۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چونکہ اللہ تعالٰی کے وعدے پر پورا بھروسہ تھا ا س لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اللہ تعالٰی سے براگمان نہ رکھو، وہ لوگ ہر گز تمہیں  نہ پا سکیں  گے بیشک میرے ساتھ میرا رب عَزَّوَجَلَّ ہے اور وہ ابھی مجھے بچنے کاراستہ دکھا دے گا۔( روح ا لبیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۲، ۶ / ۲۷۸، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۲، ص۸۲۱، ملتقطاً)

26:61
فَلَمَّا تَرَآءَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰۤى اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَۚ(۶۱)
پھر جب آمنا سامنا ہوا دونوں گروہوں کا (ف۶۱) موسیٰ والوں نے کہا ہم کو انہوں نے آلیا (ف۶۲)

26:62
قَالَ كَلَّاۚ-اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ(۶۲)
موسیٰ نے فرمایا یوں نہیں (ف۶۳) بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے اب راہ دیتا ہے،

26:63
فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَؕ-فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِۚ(۶۳)
تو ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ دریا پر اپنا عصا مار (ف۶۴) تو جبھی دریا پھٹ گیا (ف۶۵) تو ہر حصہ ہوگیا جیسے بڑا پہاڑ (ف۶۶)

{فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى: تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی۔} اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی بھیجی کہ اپنا عصا دریا پر مارو، چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دریا پر عصا مارا تو اچانک وہ دریابارہ راستوں  میں  تقسیم ہوکر پھٹ گیا، ہر راستہ بڑے پہاڑ جیسا ہوگیا اور ان کے درمیان خشک راستے بن گئے جن پر چل کر بنی اسرائیل دریا سے پار ہو گئے۔(جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۳۱۲)

{وَ اَزْلَفْنَا: اور ہم قریب لے آئے۔} یعنی ہم فرعون اور ا س کے لشکر کو بنی اسرائیل کے قریب لے آئے، یہاں  تک کہ وہ بنی اسرائیل کے راستوں  میں  چل پڑے جواُن کے لئے دریا میں  اللہ تعالٰی کی قدرت سے پیدا ہوئے تھے۔( روح ا لبیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۴، ۶ / ۲۷۹-۲۸۰)

26:64
وَ اَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَۚ(۶۴)
اور وہاں قریب لائے ہم دوسروں کو (ف۶۷)

26:65
وَ اَنْجَیْنَا مُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗۤ اَجْمَعِیْنَۚ(۶۵)
اور ہم نے بچالیا موسیٰ اور اس کے سب ساتھ والوں کو (ف۶۸)

{وَ اَنْجَیْنَا: اور ہم نے بچالیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے سب ساتھ والوں  کو دریا سے سلامت نکال کر بچا لیا اور فرعون اور اس کی قوم کو اس طرح غرق کر دیا کہ جب بنی اسرائیل سارے کے سارے دریا سے باہر ہوگئے اور تمام فرعونی دریا کے اندر آ گئے تو اللہ تعالٰی کے حکم سے دریا مل گیا اور پہلے کی طرح ہوگیا،یوں  فرعون اپنی قوم کے ساتھ ڈوب گیا۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۵-۶۶، ص۳۱۲)

26:66
ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَؕ(۶۶)
پھر دوسروں کو ڈبو دیا (ف۶۹)

26:67
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۶۷)
بیشک اس میں ضرور نشانی ہے (ف۷۰) اور ان میں اکثر مسلمان نہ تھے (ف۷۱)

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً: بیشک اس میں  ضرور نشانی ہے۔} یعنی دریا میں  جو کچھ واقع ہوا اس میں  اللہ تعالٰی کی قدرت پر ضرور نشانی ہے اور یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا معجزہ ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۳۸۸)

{وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ: اور ان میں  اکثر مسلمان نہ تھے۔} یعنی فرعونیوں  میں  سے اکثر مسلمان نہ تھے۔ مصر والوں  میں  سے صرف تین حضرات ایمان لائے۔ (1)فرعون کی بیوی حضرت آسیہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا۔ (2)حِزْقِیْل۔ انہیں  آلِ فرعون کا مؤمن کہتے ہیں ،یہ اپنا ایمان چھپائے رہتے تھے اور فرعون کے چچا زاد تھے۔ (3)مریم۔ یہ ایک بوڑھی خاتون تھیں ، انہوں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جنت کا وعدہ لے کر دریائے نیل میں  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر ِانور کا محلِ وقوع بتایا تھا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالٰی کے حکم سے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تابوت شریف دریا سے نکال  کر ملک ِشام لے گئے تھے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۳۸۸، صاوی، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۷، ۴ / ۱۴۶۱، ملتقطاً)

26:68
وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠(۶۸)
اور بیشک تمہارا رب وہی عزت والا (ف۷۲) مہربان ہے (ف۷۳)

{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دست ِاقدس سے معجزات ظاہر ہونے کے باوجود جب آپ کی قوم جھٹلاتی تو بعض اوقات آپ کا قلبِ منیر غمزدہ ہو جاتا، اس پر اللہ تعالٰی نے گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں  سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرما کر آپ کو تسلی دی اور ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی غالب اور اپنے دشمنوں  سے انتقام لینے والا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے فرعون اور اس کی قوم کو غرق کر کے ان سے انتقام لیا اور اے حبیب!  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کارب عَزَّوَجَلَّ ایمان والوں  پرمہربان ہے اور ا س کی ایک مثال یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والوں  کو غرق ہونے سے نجات دے کر ان پر مہربانی فرمائی، لہٰذا آپ اپنی قوم کی اَذِیَّتوں  پر اس طرح صبر فرمائیں  جس طرح پچھلے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے صبر فرمایا۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۸، ۶ / ۲۸۰-۲۸۱، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۳۱۲، ملتقطاً)

26:69
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَۘ(۶۹)
اور ان پر پڑھو خبر ابراہیم کی (ف۷۴)

{وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ: اور ان کے سامنے پڑھو۔} اس رکوع میں  سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان فرمایا جا رہا ہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ کے سامنے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وہ واقعہ بیان کریں  کہ جب انہوں  نے اپنے (عُرفی) باپ اور اپنی قوم سے فرمایا’’ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جانتے تھے کہ وہ لوگ بت پرست ہیں ، اس کے باوجود آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ان سے یہ سوال فرمانا اس لئے تھا تاکہ اُنہیں  دکھادیں  کہ جن چیزوں  کو وہ لوگ پوجتے ہیں  وہ کسی طرح بھی عبادت کے مستحق نہیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۹-۷۰، ص۸۲۲، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۹-۷۰، ۳ / ۳۸۸، ملتقطاً)

          نوٹ:یاد رہے کہ آیت میں  باپ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا آزَر مراد ہے۔ اس بارے میں  تفصیلی معلومات کے لئے سورۂ مریم آیت نمبر42کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ،نیزاس واقعے کی بعض تفصیلات سورۂ اَنعام، آیت نمبر74تا83،سورۂ توبہ، آیت نمبر114، سورۂ مریم،آیت نمبر 41تا49 اور سورۂ اَنبیاء، آیت نمبر51تا 70 میں  گزر چکی ہیں ۔

{ قَالُوْا: انہوں  نے کہا۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سوال کرنے پر قوم نے جواب دیا ’’ہم بتوں  کی عبادت کرتے ہیں ،اس کے بعد فخریہ انداز میں  کہنے لگے کہ ہم ان کے سامنے سار ادن جم کر بیٹھے رہتے ہیں ۔( ابو سعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ۴ / ۱۶۶)

 

26:70
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا تَعْبُدُوْنَ(۷۰)
جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا تم کیا پوجتے ہو (ف۷۵)

26:71
قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِیْنَ(۷۱)
بولے ہم بتوں کو پوجتے ہیں پھر ان کے سامنے آسن مارے رہتے ہیں،

26:72
قَالَ هَلْ یَسْمَعُوْنَكُمْ اِذْ تَدْعُوْنَۙ(۷۲)
فرمایا کیا وہ تمہاری سنتے ہیں جب تم پکارو،

{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:جب تم ان بتوں  کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری پکار سنتے ہیں ؟ یا تمہیں  عبادت کرنے پرکوئی نفع یا عبادت نہ کرنے پر کوئی نقصان دیتے ہیں ؟ جب ایسا کچھ نہیں  ہے تو تم نے انہیں  معبود کس طرح قرار دے دیا!( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۲-۷۳، ص۳۱۲، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۲-۷۳، ۳ / ۳۸۹، ملتقطاً)

26:73
اَوْ یَنْفَعُوْنَكُمْ اَوْ یَضُرُّوْنَ(۷۳)
یا تمہارا کچھ بھلا برا کرتے ہیں (ف۷۶)

26:74
قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا كَذٰلِكَ یَفْعَلُوْنَ(۷۴)
بولے بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا،

{قَالُوْا: بولے۔} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیش کردہ دلیل کا کوئی جواب نہ بن پڑا تو کہنے لگے: ’’بت اگرچہ نہ کسی کی بات سنتے ہیں ، نہ کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں  اور نہ ہی کسی سے کوئی نقصان دور کر سکتے ہیں  لیکن بتوں  کی عبادت کرنے میں  ہم نے اپنے باپ دادا کی پیروی کی ہے کیونکہ ہم نے انہیں  ایسا ہی کرتے پایا ہے (اس لئے ہم آپ کے کہنے پر اپنے آباؤ اَجداد کے طریقے کو نہیں  چھوڑ سکتے۔)( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۳۸۹)

26:75
قَالَ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَۙ(۷۵)
فرمایا تو کیا تم دیکھتے ہو یہ جنہیں پوج رہے ہو،

{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان لوگوں  سے فرمایا: جن بتوں  کی تم عبادت کر رہے ہو اور جن کی تمہارے پہلے آباؤ اَجداد عبادت کرتے رہے ہیں ،کیا تم نے ان کے بارے میں  غور کیا؟اگر تم حقیقی طور پر ان سے متعلق غور کرلو تو جان جاؤگے کہ جن بتوں  کی تم عبادت کر رہے ہو ان کی عبادت کرنا پرانی گمراہی اور باطل کام ہے اورکوئی باطل کام پرانا ہو یا نیا،یونہی اس باطل کام کو کرنے والے تھوڑے ہوں  یا زیادہ، اس سے اس کام کے باطل ہونے میں کوئی فرق نہیں  پڑتا بلکہ وہ باطل کا م باطل ہی رہتا ہے۔( روح المعانی،الشعراء،تحت الآیۃ:۷۵-۷۶، ۱۰ / ۱۲۶، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۵-۷۶، ۸ / ۵۱۰، ملتقطاً)

غمی خوشی کی ناجائز رسموں  میں  مبتلالوگوں  کو نصیحت:

            اس تفسیر کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں  کو بھی اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا چاہئے جو غمی خوشی کے موقع پرشریعت کے خلاف رسمیں  بجا لانے اور دیگر اَفعال کرنے پر کوئی شرعی دلیل پیش کرنے کی بجائے یہ کہنے لگتے ہیں  کہ ہمارے بڑے بوڑھے عرصۂ دراز سے یہ رسم و کام کرتے چلے آ رہے ہیں  اور ہمارے خاندان میں  شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جو غمی خوشی کے موقع پران رسموں  اور کاموں  کو نہ کرتا ہو،پھر ہم کسی کے کہنے پر ان چیزوں  کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں !اگر یہ لوگ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دئیے ہوئے احکام کو سامنے رکھ کر اپنے طر زِعمل پر صحیح طریقے سے غور کریں  تو انہیں  بھی معلوم ہو جائے گا کہ ان کی کچھ رسمیں  اور اَفعال شریعت کے سراسر خلاف ہیں  اور یہ ان کے کندھوں  پر اپنے اور دوسروں  کے گناہوں  کا بہت بھاری بوجھ ہیں ۔ اللہ تعالٰی ایسے لوگوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور شریعت کے احکام کے مطابق عمل کرنے اور ان کے خلاف کام کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

26:76
اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ٘ۖ(۷۶)
تم اور تمہارے اگلے باپ دادا (ف۷۷)

26:77
فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۷۷)
بیشک وہ سب میرے دشمن ہیں (ف۷۸) مگر پروردگار عالم (ف۷۹)

{فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْ: بیشک وہ سب میرے دشمن ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 4آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا: ’’بیشک وہ سب بت میرے دشمن ہیں ،میں  گوارانہیں  کرسکتا کہ میں  یا کوئی دوسرا ان کی عبادت کرے، البتہ پروردگارِ عالَم وہ ہستی ہے جومیرا رب عَزَّوَجَلَّ ہے، میں  صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں  کیونکہ وہی عبادت کا مستحق ہے اور اس کے اَوصاف یہ ہیں  کہ وہ مجھے عدم سے وجود میں  لایا اور اپنی طاعت کے لئے بنایا، تو وہی میری رہنمائی کرتا ہے اور مجھے ہدایت پر رکھتا ہے اور وہی مجھے اپنا خلیل بننے کے آداب کی ہدایت دے گا جیساکہ پہلے دین و دنیا کی مَصلحتوں  کی ہدایت فرما چکا ہے، وہی مجھے کھلاتا، پلاتا ہے اور مجھے روزی دینے والا ہے،جب میں  بیمار ہوتا ہوں  تو وہی میرے اَمراض دور کر کے مجھے شفا دیتا ہے اور وہی مجھے وفات دے گا، پھر آخرت میں  مجھے زندہ کرے گا کیونکہ موت اور زندگی اُسی کے قبضہ ِقدرت میں  ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۷-۸۱، ۳ / ۳۸۹، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۷-۸۱، ص۳۱۲،  مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:۷۷-۸۱، ص۸۲۲، ملتقطاً)

{وَ اِذَا مَرِضْتُ: اور جب میں  بیمار ہوں ۔} یہاں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ادب کی وجہ سے بیماری کو اپنی طرف اور شفاء کو اللہ تعالٰی کی طرف منسوب فرمایا اگرچہ بیماری اور شفا دونوں  اللہ تعالٰی کی طرف سے ہوتی ہیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۳۸۹) اس سے معلو م ہوا کہ برائی کی نسبت اپنی طرف اور خوبی و بہتری کی نسبت اللہ تعالٰی کی طرف کرنی چاہیے۔

26:78
الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِۙ(۷۸)
وہ جس نے مجھے پیدا کیا (ف۸۰) تو وہ مجھے راہ دے گا (ف۸۱)

26:79
وَ الَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِۙ(۷۹)
اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے (ف۸۲)

26:80
وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِﭪ(۸۰)
اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے (ف۸۳)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلشُّـعَرَاء
اَلشُّـعَرَاء
  00:00



Download

اَلشُّـعَرَاء
اَلشُّـعَرَاء
  00:00



Download