READ

Surah Ash-Shu'araa

اَلشُّـعَرَاء
227 Ayaat    مکیۃ


26:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

26:1
طٰسٓمّٓ(۱)
طٰسم

{طٰسٓمّٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں  سے ایک حرف ہے اور ا س کی مراد اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی بہتر جانتے ہیں۔

{تِلْكَ: یہ} یعنی اِس سورت کی آیتیں  اُس قرآن کی آیتیں  ہیں  جس کا مُعْجِز یعنی دوسروں  کو مقابلے سے عاجز کر دینے والا نیز اللہ تعالٰی کا کلام ہونا روشن و ظاہر ہے اور جس کا حق کو باطل سے ممتاز کرنے والا ہونا واضح ہے۔اگر اس کی یہ شان نہ ہوتی تو لوگ اس کی مثل لانے پر ضرور قادر ہو جاتے اور اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز نہ رہتے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲، ۶ / ۲۶۱، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲، ص۳۰۹، ملتقطاً)

26:2
تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ(۲)
یہ آیتیں ہیں روشن کتا ب کی (ف۲)

26:3
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(۳)
کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤ گے ان کے غم میں کہ وہ ایمان نہیں لائے (ف۳)

{لَعَلَّكَ: کہیں  آپ۔} تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ا س بات کی شدید خواہش تھی کہ اہل ِمکہ ایمان لے آئیں ، لیکن جب وہ ایمان نہ لائے اور کفار ِمکہ نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلایا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی ایمان سے محرومی کی وجہ سے قلبی طور پر بہت دکھ ہوا، اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت ِکریمہ نازل فرمائی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے رحمت و کرم کے انداز میں  خطاب فرمایا کہ’’ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قرآن مجید حق کو بیان کرنے میں  انتہا کو پہنچا ہو اہے اور کفارِ مکہ میں  سے جو لوگ اللہ تعالٰی کے علم میں  ایمان سے محروم ہیں  وہ قرآنِ کریم کی آیات سن کر بھی ایمان نہیں  لائیں  گے، اس لئے آپ ان کے ایمان قبول نہ کرنے پر اتنا غم نہ کریں  کہ آپ کی جان ہی چلی جائے۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۳۸۲، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳، ۸ / ۴۹۰، ملتقطاً)

رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخلوق پر انتہائی کرم نوازی:

             اس آیت میں  حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے انتہائی محبوبیت کے اظہار کے ساتھ ساتھ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخلوق پر انتہائی کرم نوازی کا بھی ذکر ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر کرم نوازی دنیا میں  تو ہے ہی، آخرت میں  یہ رحمت و شفقت اپنے مرتبۂ کمال کو پہنچی ہوئی ہوگی۔

اِدھر امّت کی حسرت پر اُدھر خالق کی رحمت پر

نرالا طَور ہوگا گردشِ چشمِ شفاعت کا

 

26:4
اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ اٰیَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِیْنَ(۴)
اگر ہم چاہیں تو آسمان سے ان پر کوئی نشانی اتاریں کہ ان کے اونچے اونچے اس کے حضور جھکے رہ جائیں (ف۴)

{اِنْ نَّشَاْ: اگر ہم چاہیں ۔} اس آیت میں  مزید تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کے ایمان قبول نہ کرنے کی وجہ سے غمزدہ نہ ہوں ،اگر ہمیں  ان کا ایمان قبول کر لینا منظور ہوتا تو ہم ضرور ان پر ایسی نشانی اتار دیتے جس کی وجہ سے ان کے بڑے بڑے بھی اس نشانی کے سامنے جھک جاتے، لیکن ہمیں  ان کی شَقاوت معلوم ہے، اس لئے ہم ان کے سامنے ایسی کوئی نشانی نہیں  اتارتے، لہٰذا آپ زیادہ غم فرما کر اپنی جان کو مشقت میں  نہ ڈالیں ۔

26:5
وَ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا كَانُوْا عَنْهُ مُعْرِضِیْنَ(۵)
اور نہیں آتی ان کے پاس رحمٰان کی طرف سے کوئی نئی نصیحت مگر اس سے منہ پھیر لیتے ہیں (ف۵)

{وَ مَا یَاْتِیْهِمْ: اور ان کے پاس نہیں  آتی۔} یعنی اللہ تعالٰی نے تنبیہ اور نصیحت پر مشتمل ایک کے بعد ایک آیت نازل فرمائی اوران کفار کا حال یہ ہے کہ جب بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے کوئی نئی نصیحت اور وحی نازل ہوتی ہے تووہ اس کا انکار کرتے چلے جاتے ہیں  اور یوں  دم بدم ان کا کفر بڑھتا جاتا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۲۶۲-۲۶۳، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵، ص۸۱۴، ملتقطاً)

{فَقَدْ كَذَّبُوْا: تو بیشک انہوں  نے جھٹلایا۔} اس آیت میں  قرآن مجیدکا انکارکرنے پر مشرکوں  کو وعید سنائی گئی اور اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اللہ تعالٰی کی طرف سے جو قرآن لے کر ان مشرکوں  کے پاس تشریف لائے ہیں ، انہوں  نے اسے جادو،شعر اور سابقہ لوگوں  کی کہانیاں  کہہ کر جھٹلایا تو عنقریب جب انہیں  (دنیا میں  قتل یا آخرت میں  جہنم کا) عذاب پہنچے گا تب انہیں  خبر ہوگی کہ قرآن مجید اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلانے کا یہ انجام ہے اورجب جھٹلانے کا نتیجہ ظاہر ہوگیا تو اس کے بعدان کی شرمندگی اورندامت کوئی فائدہ نہ دے گی۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:۶،ص۸۱۴، تفسیرطبری، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶، ۹ / ۴۳۳، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۲۶۳، ملتقطاً)

26:6
فَقَدْ كَذَّبُوْا فَسَیَاْتِیْهِمْ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(۶)
تو بیشک انہوں نے جھٹلایا تو اب ان پر آیا چاہتی ہیں خبریں ان کے ٹھٹھے کی (ف۶)

26:7
اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ كَمْ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِیْمٍ(۷)
کیا انہوں نے زمین کو نہ دیکھا ہم نے اس میں کتنے عزت والے جوڑے اگائے (ف۷)

{اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ: کیا انہوں  نے زمین کی طرف نہ دیکھا۔} ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالٰی کی آیات سے منہ پھیرنے والے، انہیں  جھٹلانے والے اور ان کا مذاق اڑانے والے مشرکین نے کیا زمین کے عجائبات کی طرف نہیں  دیکھاکہ ہم نے اس میں  کتنی قسموں  کی نباتات کے اچھے جوڑے اگائے اور ان سے انسان و جانور دونوں  نفع اٹھاتے ہیں۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷، ۶ / ۲۶۳)

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ: بیشک اس میں ۔} یعنی زمین میں  کتنی قسموں  کے اچھے جوڑے اگائے جانے میں  عظیم نشانی ہے جو کہ اللہ تعالٰی کی قدرت کے کمال،اس کے علم کی کثرت اور اس کی رحمت کی وسعت پر دلالت کرتی ہے اور یہ چیزیں  ایمان قبول کرنے کی طرف راغب کرنے والی اور کفر سے روکنے والی ہیں  اور ا س کے باوجود ان مشرکوں  میں  سے اکثر ایمان قبول کرنے والے نہیں  کیونکہ یہ کفر و گمراہی میں  ڈوبے ہوئے اور سرکشی و جہالت میں  مُنہَمِک ہیں ۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۲۶۳)

            بعض مفسرین نے اس آیت کا یہ معنی بھی بیان کیا ہے کہ وہ لوگ جو قیامت میں  دوبارہ زندہ کئے جانے کے منکر ہیں  ان کیلئے زمین میں  مختلف قسموں  کی بہترین اور نفع بخش چیزوں  کی پیدائش میں  اس بات کی دلیل موجود ہے کہ قیامت میں  لوگوں  کو دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ جو رب تعالٰی مردہ زمین سے ایسی بہترین نباتات پیدا کرنے پر قادر ہے تو وہ ہر گز اس بات سے عاجز نہیں  کہ مردوں  کے بکھرے ہوئے اَجزاء جمع کر کے قبروں  سے انہیں  زندہ اٹھائے۔ لیکن ان میں  سے ا کثر قیامت کے دن اٹھائے جانے پر ایمان نہیں  لاتے۔( تفسیر طبری، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸، ۹ / ۴۳۴)

{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی یقینی طور پر عزت والا ہے، وہی غالب اور کافروں  کو سزا دینے پر قدرت رکھنے والا ہے اور وہی بہت بڑا مہربان ہے اور اسی نے اپنی رحمت سے مشرکوں  کی فوری گرفت نہیں  فرمائی بلکہ انہیں  (اپنا حال سنوار لینے کی) مہلت دی ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۲۶۴)

 

26:8
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۸)
بیشک اس میں ضرور نشانی ہے (ف۸) اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیں،

26:9
وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠(۹)
اور بیشک تمہارا رب ضرور وہی عزت والا مہربان ہے (ف۹)

26:10
وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۙ(۱۰)
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے موسیٰ کو ندا فرمائی کہ ظالم لوگوں کے پاس جا،

{وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰى: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے موسیٰ کو ندا فرمائی۔} یہاں  سے مشرکوں  کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں  پر اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینے کے لئے اللہ تعالٰی نے پچھلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوموں  کے واقعات بیان فرمائے ہیں ، ان کی ترتیب یہ ہے۔ (1)حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ (2)حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ (3)حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ (4)حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ (5)حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ (6)حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ (7)حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ ا س سے پہلے (متعدد سورتوں  میں ) ان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات گزر چکے ہیں ،ان واقعات کو بار بار ذکر کرنے سے (ایک) مقصود یہ (بھی) ہے کہ مومن کے ایمان میں  اضافہ ہو اور کافر پر مزید حجت قائم ہو جائے۔( البحر المحیط، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰، ۷ / ۷، صاوی، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۱۴۵۳، ملتقطاً)

            اس آیت سے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کی ابتداء کی جارہی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ وہ وقت یاد کریں  جب آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس وقت ندا فرمائی جب وہ مَدیَن سے لوٹے اور انہوں  نے رات میں  درخت اور آگ دیکھی، اللہ تعالٰی نے ان سے فرمایا کہ اے موسیٰ! تم ان لوگوں  کے پاس جاؤ جنہوں  نے کفر اور گناہوں  کا اِرتکاب کر کے اپنی جانوں  پر ظلم کیا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰، ۶ / ۲۶۵)

          نوٹ:حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرعون کا واقعہ سورۂ اَعراف،سورۂ یونس،سورہ ٔہود،سورۂ طٰہٰ اورسورۂ  مؤمنون میں  گزر چکاہے۔

26:11
قَوْمَ فِرْعَوْنَؕ-اَلَا یَتَّقُوْنَ(۱۱)
جو فرعون کی قوم ہے (ف۱۰) کیا وہ نہ ڈریں گے (ف۱۱)

{قَوْمَ فِرْعَوْنَ: جو فرعون کی قوم ہے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بنی اسرائیل کی طرف بھی رسول بنا کر بھیجا گیا تھا مگر یہاں  جو پیغام مذکور ہے وہ خاص فرعون کی قوم قِبط کی طرف ہے تاکہ اُنہیں  اُن کی بدکرداری پر زَجر فرمائیں ، چنانچہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ تم ظالم لوگوں  کے پاس جاؤ اور وہ فرعون کی قوم ہے، انہوں  نے کفر اور گناہوں  کا اِرتکاب کر کے اپنی جانوں  پر ظلم کیا اور بنی اسرائیل کو غلام بنا کر اور انہیں  طرح طرح کی ایذائیں  پہنچا کر اُن پر ظلم کیا۔کیا وہ اللہ تعالٰی سے نہیں  ڈریں  گے اور اپنی جانوں  کو اللہ تعالٰی پر ایمان لا کر اور اس کی فرمانبرداری کرکے اس کے عذاب سے نہ بچائیں  گے؟( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۳ / ۳۸۳)

26:12
قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِؕ(۱۲)
عرض کی کہ اے میرے رب میں ڈرتا ہوں کہ مجھے جھٹلا ئیں گے،

{قَالَ: عرض کی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا حکم سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  عرض کی ’’اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  اس بات سے ڈرتا ہوں  کہ وہ مجھے جھٹلا ئیں  گے اوران کے جھٹلانے سے میرا سینہ تنگ ہوگا اور میں  نے بچپن میں  جو آگ کا انگارہ منہ میں  رکھا تھا ا س کی وجہ سے مجھے گفتگو کرنے میں  بھی کچھ تَکَلُّف ہوتا ہے تو تو میرے بھائی ہارون کو بھی رسول بنا دے تاکہ وہ رسالت کی تبلیغ میں  میری مدد کریں ۔جس وقت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شام میں  نبوت عطا کی گئی اس وقت حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام مصر میں  تھے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ۳ / ۳۸۳، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ص۸۱۵، ملتقطاً)

26:13
وَ یَضِیْقُ صَدْرِیْ وَ لَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ(۱۳)
اور میرا سینہ تنگی کرتا ہے (ف۱۲) اور میری زبان نہیں چلتی (ف۱۳) تو توُ ہا رون کو بھی رسول کر، (ف۱۴)

26:14
وَ لَهُمْ عَلَیَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِۚ(۱۴)
اور ان کا مجھ پر ایک الزام ہے (ف۱۵) تو میں ڈرتا ہو ں کہیں مجھے (ف۱۶) کر دیں،

{وَ لَهُمْ عَلَیَّ ذَنْۢبٌ: اور ان کا مجھ پر ایک الزام ہے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید عرض کی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، ان فرعونیوں کا مجھ پر قتل کاایک الزام ہے کہ میں  نے قبطی کو مارا تھاتو مجھے ا س بات کا ڈر ہے کہ اگر میں  اکیلا گیا تو کہیں  وہ مجھے رسالت کی ادائیگی سے پہلے ہی اس کے بدلے میں  قتل نہ کر دیں  جبکہ حضرت ہارون پر ان کا کوئی الزام نہیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۸۱۵، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴، ۶ / ۲۶۶، ملتقطاً)

26:15
قَالَ كَلَّاۚ-فَاذْهَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ(۱۵)
فرما یا یوں نہیں (ف ۱۷) تم دو نوں میری آئتیں لے کر جا ؤ ہم تمھا رے ساتھ سنتے ہیں (ف۱۸)

{قَالَ: فرمایا۔} اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا: ’’وہ تمہیں  ہرگز قتل نہیں کرسکیں  گے کیونکہ میں  انہیں  آپ پر مُسَلَّط نہیں  ہونے دوں  گا بلکہ آپ کو ان پر غالب فرما دوں  گا۔ اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی درخواست منظور فرما کر حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی نبی بنادیا اور دونوں  کو حکم دیا کہ’’تم دو نوں  میرے دئیے ہوئے معجزات لے کر جا ؤ، ہم اپنی مدد و نصرت کے ذریعے تمہارے ساتھ ہیں  اورجو تم کہو اور جو تمہیں  جواب دیا جائے اسے خوب سننے والے ہیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۳۸۳، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۸۱۵-۸۱۶، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۲۶۶، ملتقطاً)

26:16
فَاْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶)
تو فرعون کے پاس جاؤ پھر اس سے کہو ہم دونو ں اسکے رسل ہیں جو رب ہے سارے جہا ں کا،

{اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا: کہ تو ہما رے ساتھ بھیج دے۔} فرعون نے چار سو برس تک بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھا تھا اور اس وقت بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ تیس ہزار تھی اللہ تعالٰی کا یہ حکم پا کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مصر کی طرف روانہ ہوئے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پشمینہ کا جبہ پہنے ہوئے تھے، دستِ مبارک میں  عصا تھا اورعصا کے سرے میں  زنبیل لٹکیہوئی تھی جس میں  سفرکا توشہ تھا۔ اس شان سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مصر میں  پہنچ کر اپنے مکان میں  داخل ہوئے۔ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہیں  تھے، آپ نے انہیں  خبر دی کہ اللہ تعالٰی نے مجھے رسول بنا کر فرعون کی طرف بھیجا ہے اور آپ کو بھی رسول بنایا ہے کہ فرعون کو خدا کی طرف دعوت دو۔ یہ سن کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ صا        حبہ گھبرائیں  اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہنے لگیں  کہ فرعون تمہیں  قتل کرنے کے لئے تمہاری تلاش میں  ہے، جب تم اس کے پاس جاؤ گے تو وہ تمہیں  قتل کردے گا لیکن حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اُن کے یہ فرمانے سے نہ رکے اور حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ساتھ لے کر رات کے وقت فرعون کے دروازے پر پہنچے۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں ؟ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ میں  سب جہانوں  کے رب کا رسول موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام ہوں ۔ فرعون کو خبر دی گئی اور صبح کے وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بلائے گئے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س کے پاس پہنچ کر اللہ تعالٰی کی رسالت ادا کی اور فرعون کے پاس جو حکم پہنچانے پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مامور کئے گئے تھے وہ پہنچایا۔ فرعون نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہچان لیا کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسی کے گھر میں  پلے بڑھے تھے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۳۸۳-۳۸۴)

 

26:17
اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۱۷)
کہ تو ہما رے ساتھ بنی اسرائیل کو چھوڑ دے (ف۱۹)

26:18
قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّ لَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِیْنَۙ(۱۸)
بو لا کیا ہم نے تمھیں اپنے یہاں بچپن میں نہ پالا اور تم نے ہما رے یہا ں اپنی عمر کے کئی برس گزارے، ف۲۰)

{قَالَ: کہا۔} جب فرعون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہچان لیا تو احسان جتاتے ہوئے آپ سے کہا: کیا ہم نے تمہیں  اپنے شاہی محل میں  بچپن میں  نہ پالا ؟اور تم نے ہما رے محل میں  اپنی عمر کے کئی سال گزارے۔ مفسرین فرماتے ہیں  کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون کے محل میں  تیس سال گزارے اوراس زمانے میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون کے عمدہ لباس پہنتے تھے اور اس کی سواریوں  میں  سوار ہوتے تھے اور اس کے فرزند کے طور پر مشہور تھے۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۳۱۰، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۲۶۷، ملتقطاً)

{وَ فَعَلْتَ: اور تم نے کیا۔} فرعون نے مزید یہ کہا کہ اے موسیٰ! تم نے ہمارے احسانات کے باوجود قبطی کو قتل کیااور تم شکریہ ادا کرنے والوں  میں  سے نہیں  ہو کیونکہ تم نے ہماری نعمت کی شکرگزاری نہ کی اور ہمارے ایک آدمی کو قتل کردیا۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۳۸۴، ملتقطاً)

26:19
وَ فَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَ اَنْتَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۱۹)
اور تم نے کیا اپنا وہ کام جو تم نے کیا (ف۲۱) اور تم نا شکر تھے (ف۲۲)

26:20
قَالَ فَعَلْتُهَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَؕ(۲۰)
موسٰی نے فر ما یا میں نے وہ کام کیا جب کہ مجھے راہ کی خبر نہ تھی (ف۲۳)

{قَالَ: موسیٰ نے فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون سے فر ما یا’’میں  نے قبطی والاوہ کام اس وقت کیا تھا جب میں  نہ جانتا تھا کہ گھونسہ مارنے سے وہ شخص مرجائے گا کیونکہ میرا مارنا ادب سکھانے کیلئے تھا نہ کہ قتل کرنے کیلئے۔پھرجب میں  نے تم لوگوں  سے ڈر محسوس کیا کہ اس کے بدلے تم مجھے قتل کردوگے تو میں  تمہارے پاس سے مَدیَن شہر کی طرف نکل گیا اور مدین سے مصر آتے وقت کوہِ طور کے پاس مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم عطا فرمایا اور مجھے رسولوں  میں  سے کردیا۔ یہاں  حکم سے نبوت یا علم مراد ہے۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰-۲۱، ۳ / ۳۸۴، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰-۲۱، ص۸۱۶، ملتقطاً)

26:21
فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِیْ رَبِّیْ حُكْمًا وَّ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۲۱)
تو میں تمھا رے یہا ں سے نکل گیا جب کے تم سے ڈرا (ف۲۴) تو میرے رب نے مجھے حکم عطا فرمایا (ف۲۵) اور مجھے پیغمبروں سے کیا،

26:22
وَ تِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۲۲)
اور یہ کوئی نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان جتاتا ہے کہ تو نے غَلام بناکر رکھے بنی اسرائیل (ف۲۶)

{وَ تِلْكَ: اور یہ۔} فرعون نے جو احسان جتایا تھا ا س کے جواب میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اس میں  تیرا کیا احسان ہے کہ تم نے میری تربیت کی اور بچپن میں  مجھے اپنے پاس رکھا، کھلایا اور پہنایا کیونکہ میرا تجھ تک پہنچنے کا سبب تو یہی ہوا کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنایا اور اُن کی اولادوں  کو قتل کیا،تیرے اس عظیم ظلم کی وجہ سے میرے والدین میری پرورش نہ کرسکے اور مجھے دریا میں  ڈالنے پر مجبور ہوئے، اگرتو ایسا نہ کرتا تو میں  اپنے والدین کے پاس ہی رہتا، اس لئے یہ بات کیا اس قابل ہے کہ اس کا احسان جتایا جائے۔ (روح البیان ،الشعراء،تحت الآیہ:۶،۲۲ / ۲۶۸،ملخصاً) اسے دوسرے الفاظ میں  یوں  سمجھ لیں  کہ کوئی شخص کسی بچے کے باپ کو قتل کرکے بچہ گود میں  لے اور اس کی پرورش کرے پھر بڑا ہونے پر اسے احسان جتلائے کہ بیٹا تو یتیم و لاوارث تھا میں  نے تجھ پر احسان کیا اور تجھے پال پوس کر بڑا کیا۔ تو اس کے جواب میں  وہ بچہ کیا کہے گا۔ وہ یہی کہے گا کہ اپنا احسان اپنے پاس سنبھال کر رکھ۔ مجھے پالنا تو تجھے یاد ہے لیکن یہ تو بتا کہ مجھے یتیم و لاوارث بنایا کس نے تھا؟

26:23
قَالَ فِرْعَوْنُ وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۲۳)
فرعون بولا اور سارے جہان کا رب کیا ہے (ف۲۷)

{قَالَ فِرْعَوْنُ: فرعون نے کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اس تقریر سے فرعون لاجواب ہوگیا او ر اس نے اُسلوب ِکلام بدلا اور یہ گفتگو چھوڑ کر دوسری بات شروع کر دی کہ سارے جہان کا رب کیا چیزہے جس کے تم اپنے آپ کو رسول بتاتے ہو۔(ابو سعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۱۵۹، ملخصاً)

{قَالَ: موسیٰ نے فرمایا۔} بعض مفسرین کے نزدیک فرعون کا سوال چیز کی جنس کے بارے میں  تھا اور اللہ تعالٰی چونکہ جنس اور ماہیت سے پاک ہے ا س لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اللہ تعالٰی کے افعال اور ا س کی قدرت کے وہ آ ثار ذکر فرمائے جن کی مثل لانے سے مخلوق عاجز ہے،چنانچہ فرمایا کہ سارے جہان کا رب وہ ہے جو آسمانوں  اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں  ہے، ان سب کو پیدا کرنے والا ہے، اگر تم لوگ اَشیاء کو دلیل سے جاننے کی صلاحیت رکھتے ہو تو ان چیزوں  کی پیدائش اُس کے وجود کی کافی دلیل ہے۔اس مفہوم کے اعتبار سے آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہرشخص سے اس کے لائق گفتگو کرنی چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ ہمیں  حکم دیا گیا ہے کہ ہم لوگوں  سے ان کی عقلوں  کے مطابق کلام کریں ۔( مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۳۹۸، الحدیث: ۱۶۱۱)

بعض مفسرین کے نزدیک فرعون کا سوال اللہ تعالٰی کی صفت کے بارے میں  تھا اس لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہاں  جو جواب دیا وہ فرعون کے سوال کے مطابق ہے۔ یاد رہے کہ اِیقان اس علم کو کہتے ہیں  جو اِستدلال سے حاصل ہو، اسی لئے اللہ تعالٰی کی شان میں مُوْقِن نہیں  کہا جاتا۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۳۸۴، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۸۱۷، ملتقطاً)

26:24
قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَاؕ-اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ(۲۴)
موسیٰ نے فرمایا رب آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے، اگر تمہیں یقین ہو (ف۲۸)

26:25
قَالَ لِمَنْ حَوْلَهٗۤ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ(۲۵)
اپنے آس پاس والوں سے بولا کیا تم غور سے سنتے نہیں (ف۲۹)

{قَالَ: کہا۔} اس آیت اوربعدوالی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کے آس پاس اس کی قوم کے سرداروں  میں  سے پانچ سو شخص زیوروں  سے آراستہ زریں  کرسیوں  پر بیٹھے تھے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جواب سن کر تعجب کرتے ہوئے فرعون نے ان سے کہا’’ کیا تم غور سے نہیں  سنتے‘‘اس کا مطلب یہ تھا کہ میں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سارے جہان کے رب کی ماہیت پوچھی ہے اور یہ اِس کے جواب میں  اُس کے افعال اور آثار بتا رہے ہیں  اور بعض مفسرین کے نزدیک فرعون کا یہ کہنااس معنی میں  تھا کہ وہ لوگ آسمان اور زمین کو قدیم سمجھتے تھے اور ان کے حادث ہونے کا انکار کرتے تھے اور مطلب یہ تھا کہ جب یہ چیزیں  قدیم ہیں  تو ان کے لئے ربّ کی کیا حاجت ہے۔یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان چیزوں  سے اِستدلال پیش کر نے کی ضرورت محسوس فرمائی جن کا حادث ہونا اور جن کا فنا ہو جانا ان کے مشاہدہ میں  آ چکا تھا، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اگر تم دوسری چیزوں  سے استدلال نہیں  کرسکتے تو خود تمہاری جانوں  سے استدلال پیش کیا جاتا ہے،سنو!تم لوگ اپنے آپ کے بارے میں  جانتے ہو کہ پیدا ہوئے ہو اور اپنے باپ دادا کے بارے میں  جانتے ہو کہ وہ فنا ہوگئے تو تمہاری اپنی پیدائش اور تمہارے باپ دادا کے فنا ہو جانے میں  اس رب تعالٰی کے وجود کا ثبوت موجود ہے جو پیدا کرنے والا اور فنا کر دینے والا ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ۳ / ۳۸۵، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ص۸۱۷، ملتقطاً)

26:26
قَالَ رَبُّكُمْ وَ رَبُّ اٰبَآىٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ(۲۶)
موسیٰ نے فرمایا رب تمہارا اور تمہارے اگلے باپ داداؤں کا (ف۳۰)

26:27
قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِیْۤ اُرْسِلَ اِلَیْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ(۲۷)
بولا تمہارے یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں ضرور عقل نہیں رکھتے (ف۳۱)

{قَالَ: کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جواب سن کرفرعون نے کہا: بیشک تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور دیوانہ ہے کہ یہ سوال ہی نہیں  سمجھ سکا تو ا س کاجواب کیا دے گا۔بعض مفسرین کے نزدیک فرعون نے یہ اس لئے کہا کہ وہ اپنے سوا کسی معبود کے وجود کا قائل نہ تھا اور جو اس کے معبود ہونے کا اعتقاد نہ رکھے اس کو وہ خارج از عقل کہتا تھا اور حقیقۃً اس طرح کی گفتگو آدمی کی زبان پر ا س وقت آتی ہے جب وہ عاجز ہو چکا ہو، لیکن حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہدایت کے فریضہ کو علیٰ وجہِ الکمال ادا کیا اور اس کی اس تمام لایعنی گفتگو کے باوجود پھر مزید بیان کی طرف متوجہ ہوئے۔

26:28
قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ مَا بَیْنَهُمَاؕ-اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ(۲۸)
موسیٰ نے فرمایا رب پورب (مشرق) اور پچھم(مغرب) کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے (ف۳۲) اگر تمہیں عقل ہو (ف۳۳)

{قَالَ: فرمایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:سارے جہان کا رب وہ ہے جو مشرق اور مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے، اگر تمہیں  عقل ہو تو جو بات میں  نے بیان کی اس سے اللہ تعالٰی کے وجود پر اِستدلال کر سکتے ہو کیونکہ مشرق سے سورج کا طلوع کرنا اور مغرب میں  غروب ہوجانا اور سال کی فصلوں  میں  ایک مُعَیَّن حساب پر چلنا اور ہواؤں  اور بارشوں  وغیرہ کے نظام یہ سب اس کے وجود و قدرت پر دلالت کرتے ہیں ۔( ابو سعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۱۶۰، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۸۱۷، ملتقطاً)

26:29
قَالَ لَىٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰهًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ(۲۹)
بولا اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو خدا ٹھہرایا تو میں ضرور تمہیں قید کردوں گا (ف۳۴)

{قَالَ: کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ جواب سن کر فرعون حیران رہ گیا اور ا س کے پاس اللہ تعالٰی کی قدرت کے آثار کا انکار کرنے کی کوئی راہ باقی نہ رہی اوراس سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو اس نے کہا:اے موسیٰ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں  ضرور تمہیں  قید کردوں  گا۔ فرعون کی قید قتل سے بدتر تھی، اس کا جیل خانہ تنگ و تاریک اور گہرا گڑھا تھا، اس میں  اکیلا ڈال دیتا تھا، نہ وہاں  کوئی آواز سنائی دیتی تھی اور نہ کچھ نظر آتا تھا۔(مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۸۱۸)

26:30
قَالَ اَوَ لَوْ جِئْتُكَ بِشَیْءٍ مُّبِیْنٍۚ(۳۰)
فرمایا کیا اگرچہ میں تیرے پاس کوئی روشن چیز لاؤں (ف۳۵)

{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون سے فرمایا: کیاتو مجھے قید کرے گا اگرچہ میں  تیرے پاس کوئی حق اور باطل میں  فرق واضح کرنے والا کوئی معجزہ لے کر آؤں  اور یہ معجزہ اللہ تعالٰی کے موجود ہونے اور میری رسالت کی دلیل ہو۔ اس پر فرعون نے کہا: اے موسیٰ!اگر تم اپنے دعوے کی صداقت پر دلیل پیش کرنے میں  سچوں  میں  سے ہو تو وہ نشانی لے آؤ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۰- ۳۱، ص۸۱۸،  روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۰- ۳۱، ص۸۱۸، ۶ / ۲۷۰، ملتقطاً)

26:31
قَالَ فَاْتِ بِهٖۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۳۱)
کہا تو لاؤ اگر سچے ہو،

26:32
فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ(۳۲)
تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا جبھی وہ صریح اژدہا ہوگیا (ف۳۶)

{فَاَلْقٰى عَصَاهُ: تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کے نشانی طلب کرنے پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا تو اچانک وہ بالکل واضح ایک بہت بڑا سانپ بن گیا اور فرعون کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگا: اے موسیٰ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، مجھے جو چاہے حکم دیجئے۔ فرعون نے گھبرا کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اس کی قسم جس نے تمہیں  رسول بنایا، اس کو پکڑلو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کو اپنے دست ِمبارک میں  لیا تو وہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ فرعون کہنے لگا: اس کے سوا اور بھی کوئی معجزہ ہے؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ہاں  !اورحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا ہاتھ گریبان میں  ڈال کر نکالا تو اچانک اس سے سورج کی سی شعاع ظاہر ہوئی جس سے دیکھنے والوں  کی نگاہیں  چکاچوند ہو گئیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۲-۳۳، ۳ / ۳۸۵، ملتقطاً)

26:33
وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ۠(۳۳)
اور اپنا ہاتھ (ف۳۷) نکالا تو جبھی وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں جگمگانے لگا (ف۳۸)

26:34
قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗۤ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ(۳۴)
بولا اپنے گرد کے سرداروں سے کہ بیشک یہ دانا جادوگر ہیں،

{قَالَ: کہا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دو نشانیاں  دیکھنے کے بعد فرعون کی حالت یہ ہوئی کہ اسے اپنی خدائی کا دعویٰ بھول گیا اور وہ خوف کی وجہ سے تھر تھرانے لگا۔اپنے گمان میں  خود کو معبود اور لوگوں  کو اپنا بندہ سمجھنے کے باوجود اپنے ارد گرد موجود سرداروں  سے مشورہ مانگتے ہوئے کہنے لگا ’’ بیشک موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بڑے علم والا جادوگر ہے، یہ چاہتا ہے کہ تمہیں  اپنے جادو کے زور سے تمہارے ملک سے نکال دے تو اب تم کیا مشورہ دیتے ہو؟ اس زمانے میں  چونکہ جادو کا بہت رواج تھا اس لئے فرعون نے خیال کیا کہ یہ بات چل جائے گی اور اس کی قوم کے لوگ اس دھوکے میں  آکر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مُتَنَفِّر ہوجائیں  گے اور ان کی بات قبول نہ کریں  گے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۴-۳۵، ص۸۱۸، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۴-۳۵، ۳ / ۳۸۶، ملتقطاً)

مسلمان بھائیوں  کو بدنام کرنے والوں  کے لئے عبرت انگیز دو اَحادیث:

            آیت کی تفسیر میں  فرعون کا جو طریقہ بیان ہو ا، حقیقت میں  یہ وہی طریقہ ہے جسے ہم سیاسی چالبازی کہتے ہیں  کہ جھوٹا پروپیگنڈا کرکے کسی کو بدنام اور غیر مقبول کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ کوئی اس کی بات نہ سنے۔فی زمانہ ہمارے معاشرے میں  دُنْیَوی اعتبار سے بڑے منصب والوں  کو اور دینی اعتبار سے بڑے رتبے والی شخصیات کو اسی طریقے کے ذریعے بدنام کرنے کی بھرپور کوششیں  کی جاتی ہیں  تاکہ لوگ ان کی طرف مائل نہ ہوں  اور دینی شخصیات کی صحبت و قرب اور ان کے وعظ و نصیحت سے محروم رہیں اور اس مقصد کے لئے پرنٹ،الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کو بطورِ خاص استعمال کیا جاتا اور بے حد پیسہ خرچ کیا جاتا ہے،ایسے حضرات کے لئے درجِ ذیل دو اَحادیث میں  بڑی عبرت ہے،

(1)…حضرت معاذ بن انس جہنی  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ تعالٰی جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں  تک کہ وہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پالے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۳)

(2)…حضرت مستورد بن شداد  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کو کسی مسلمان مردکی برائی کرنے کی وجہ سے کھانے کو ملا، اللہ تعالٰی اسے اتنا ہی جہنم سے کھلائے گا اور جس کو کسی مسلمان مردکی برائی کرنے کی وجہ سے کپڑا پہننے کو ملا، اللہ تعالٰی اسے جہنم کا اتنا ہی کپڑا پہنائے گا۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۱)

            اللہ تعالٰی ایسے لوگوں  کو عقل ِسلیم عطا فرمائے اور مسلمان بھائیوں  کو بدنام کرنے کے ارادے اور منصوبے بنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

 

26:35
یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهٖ ﳓ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ(۳۵)
چاہتے ہیں، کہ تمہیں تمہارے ملک سے نکال دیں اپنے جادو کے زور سے، تب تمہارا کیا مشورہ ہے (ف۳۹)

26:36
قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ ابْعَثْ فِی الْمَدَآىٕنِ حٰشِرِیْنَۙ(۳۶)
وہ بولے انہیں ان کے بھائی کو ٹھہرائے رہو اور شہروں میں جمع کرنے والے بھیجو،

{قَالُوْا: انہوں  نے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کے مشورہ طلب کرنے پر سرداروں  نے اس سے کہا’’تم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اس کے بھائی ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مہلت دو اور جب تک ان کا جھوٹاہونا ظاہر نہیں  ہو جاتا اس وقت تک انہیں  قتل کرنے میں  جلدی نہ کرو تاکہ لوگ تمہارے بارے میں  برا گمان نہ کریں  اور تمہارے پاس انہیں  قتل کرنے کا عذر بھی ہو جائے، اس کے لئے تم یوں  کرو کہ مختلف شہروں  میں  جادوگروں  کوجمع کرنے والے بھیجو اور وہ تمہارے پاس ہر بڑے علم والے جادوگرکو لے آئیں  جوجادو کے علم میں  (بقول اُن کے) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بڑھ کر ہواور وہ لوگ اپنے جادو سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات کا مقابلہ کریں  تاکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے کوئی حجت باقی نہ رہے اور فرعونیوں  کو یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ یہ کام جادو سے ہوجاتے ہیں ، لہٰذا یہ نبوت کی دلیل نہیں  ہیں ۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۷، ۶ / ۲۷۱-۲۷۲، ملخصاً)

26:37
یَاْتُوْكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِیْمٍ(۳۷)
کہ وہ تیرے پاس لے آئیں ہر بڑے جادوگر دانا کو (ف۴۰)

26:38
فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍۙ(۳۸)
تو جمع کیے گئے جادوگر ایک مقرر دن کے وعدے پر (ف۴۱)

{فَجُمِعَ: توجمع کرلیا گیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جادو گروں  کو فرعونیوں  کی عید کے دن جمع کر لیا گیا اور اس مقابلے کے لئے چاشت کا وقت مقرر کیا گیا اورفرعون کی جانب سے لوگوں  سے کہا گیا :کیا تم بھی جمع ہوگے تاکہ دیکھو کہ دونوں  فریق کیا کرتے ہیں  اور اُن میں سے کون غالب آتا ہے۔شاید ہم ان جادوگروں  ہی کی پیروی کریں  اگر یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر غالب ہوجائیں ۔ اس سے ان کا مقصود جادو گروں  کی پیروی کرنا نہ تھا بلکہ غرض یہ تھی کہ اس حیلے سے لوگوں  کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کرنے سے روکیں۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۸-۴۰، ص۸۱۹، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۸-۴۰، ۳ / ۳۸۶، ملتقطاً)

26:39
وَّ قِیْلَ لِلنَّاسِ هَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَۙ(۳۹)
اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم جمع ہوگئے (ف۴۲)

26:40
لَعَلَّنَا نَتَّبِـعُ السَّحَرَةَ اِنْ كَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَ(۴۰)
شاید ہم ان جادوگروں ہی کی پیروی کریں اگر یہ غالب آئیں (ف۴۳)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلشُّـعَرَاء
اَلشُّـعَرَاء
  00:00



Download

اَلشُّـعَرَاء
اَلشُّـعَرَاء
  00:00



Download