Surah ash-Sharh
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ: کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کشادہ نہ کر دیا؟ } اس سورت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک روز سرورِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بارگاہِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی:اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ ،تو نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا خلیل ہونے کا شرف عطا فرمایا،حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے ساتھ کلام کرنے سے سرفراز کیا،حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بلند مکان جنت تک رسائی دی،پہاڑوں اور لوہے کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا فرمانبردار کر دیا،جِنّات،انسان اور تمام حیوانات حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تابع کر دئیے، تومجھے کس شرف اور کرامت سے خاص فرمایا ہے؟اس پر یہ سورت نازل ہوئی جس میں گویا کہ ارشاد فرمایا گیا ’’اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، اگر ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواپنا خلیل بنایا ہے تو آپ کی خاطر ہم نے آپ کا سینہ علم و حکمت اور معرفت کے نور سے کھول دیا تاکہ مُناجات کی لذّت،امت کا غم،اپنی بارگاہ میں حاضری کا ذوق اور آخرت کے گھر کا شوق آپ کے دل میں سما جائے،آسمانی وحی کو اٹھانا آپ کے دل پر آسان ہو جائے، اللّٰہ تعالیٰ کی طرف رغبت دینے کی تبلیغ کرنے پر آنے والے مَصائب کو برداشت کر سکے اور ان خوبیوں اور کرامتوں کی بدولت آپ کو وہ مقام حاصل ہو کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خلیل ہونے کو اس سے کچھ نسبت نہ رہے اور اگر ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف عطا کیا اور حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بلند مکان تک رسائی عطا کی ہے تو آپ کو اس غم سے نجات دی جو آپ کی پُشت پر بہت بھاری تھا اور آپ کو لامکاں میں بلا کر اپنے دیدار سے مشرف کیا یہاں تک کہ ہم میں اور آپ میں (ہماری شایانِ شان)دو کمانوں کے برابر بلکہ ا س سے بھی کم فاصلہ رہ گیا اور آسمانوں کی پوری سلطنت میں آپ کی قربت اور منزلت کا شہرہ ہو گیا۔اگر ہم نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دنیا کی چند چیزوں پر حکومت بخشی ہے تو آپ کو عالَمِ عُلْوی یعنی آسمانوں پر قدرت دی ہے کہ وہاں کے فرشتے خادموں کی طرح آپ کی بارگاہ میں حاضر رہتے ہیں اور آپ کے سپاہیوں کی طرح آپ کے دشمنوں سے لڑتے ہیں اور آسمانوں میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کی نبوت و رسالت سے واقف نہ ہو اور آپ کے حکم سے اِنحراف کرے۔( روح البیان، الم نشرح، تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۰ / ۴۶۵، الکلام الاوضح فی تفسیر الم نشرح، ص۱۴، ملتقطاً)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اصالتِ کُل، امامتِ کل، سیادتِ کل، امارتِ کل
حکومتِ کل ،ولایتِ کل ،خدا کے یہاں تمہارے لئے
فرشتے خِدَم رسول حِشم تمامِ امم غُلامِ کرم
وجود و عدم حدوث و قِدم جہاں میں عیاں تمہارے لئے
یہ طور کجا سپہر تو کیا کہ عرشِ عُلا بھی دور رہا
جہت سے ورا وصال ملا یہ رفعتِ شاں تمہارے لئے
مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، ہم نے آپ کی خاطر آپ کے سینۂ اقدس کو ہدایت ، معرفت،نصیحت، نبوت اور علم وحکمت کے لئے کشادہ اور وسیع کر دیا یہاں تک کہ عالَمِ غیب اور عالَمِ شہادت اس کی وسعت میں سما گئے اور جسمانی تعلقات روحانی اَنوار کے لئے مانع نہ ہوسکے اور علومِ لدُنّیہ ، حکمِ الہٰیہ ، معارفِ ربّانیہ اور حقائقِ رحمانیہ آپ کے سینۂ پاک میں جلوہ نُما ہوئے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ظاہری طور پر سینۂ مبارک کا کھلنا مراد ہے ۔اَحادیث میں مذکور ہے کہ ظاہری طور پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے سینۂ مبارک کا کھلنا بھی بار ہا ہوا ،جیسے عمر مبارک کی ابتداء میں سینۂ اَقدس کھلا ، نزولِ وحی کی ابتداء کے وقت اور شبِ معراج سینہ مبارک کھلا اور اس کی شکل یہ تھی کہ حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے سینۂ پاک کو چاک کرکے قلب مبارک نکالا اور زریں طَشت میں آبِ زمزم سے غسل دیا اور نور و حکمت سے بھر کر اس کو اس کی جگہ پر رکھ دیا۔(خزائن العرفان، الم نشرح ، تحت الآیۃ:۱، ص ۱۱۱۰، خازن ، الم نشرح ، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۸۸، روح البیان، الم نشرح ، تحت الآیۃ:۱، ۱۰ / ۴۶۱-۴۶۲، ملتقطاً)
آیت ’’ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلوماتـ:
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…دنیا کی حقارت اور آخرت کے کمال کے علم سے سینے کا کھل جانا اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ ‘‘(انعام:۱۲۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جسے اللّٰہ ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ تنگ ،بہت ہی تنگ کردیتا ہے گویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔
اورحضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: اس کھولنے سے کیا مراد ہے؟ارشاد فرمایا:’’ اس سے مراد وہ نور ہے جو مومن کے دل میں ڈالا جاتا ہے جس سے اس کا دل کھل جاتا ہے۔عرض کی گئی: کیا اس کی کوئی نشانی ہے جس سے اس کی پہچان ہو سکے؟ارشاد فرمایا:’’ہاں ،(ا س کی تین علامتیں ہیں ) (1)آخرت کی طرف رغبت(2) دنیا سے نفرت ، اور(3) موت سے پہلے آخرت کی تیاری۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، ما ذکر عن نبیّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الزہد ، ۸ / ۱۲۶، الحدیث: ۱۴)
(2)… حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے ایسے حبیب ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بن مانگے ان کا مقدس سینہ ہدایت اور معرفت کے لئے کھول کر انہیں یہ نعمت عطا کر دی۔
{وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ: اور ہم نے تمہارے اوپر سے تمہارا بوجھ اتاردیا۔ } اس بوجھ سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے وہ غم مراد ہے جوحضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو کفار کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے رہتا تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس بوجھ سے اُمت کے گناہوں کا غم مراد ہے جس میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا قلب مبارک مشغول رہتا تھا۔ مراد یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، ہم نے آپ کو شفاعت قبول کئے جانے والا بناکر غم کاوہ بوجھ دور کردیا جس نے آپ کی پیٹھ توڑدی تھی۔( تفسیر کبیر ، الم نشرح ، تحت الآیۃ ، ۲-۳ ، ۱۱ / ۲۰۷-۲۰۸ ، خازن، الم نشرح، تحت الآیۃ، ۲-۳، ۴ / ۳۸۸-۳۸۹، خزائن العرفان، الم نشرح، تحت الآیۃ: ۳، ص ۱۱۱۰، ملتقطاً)
حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا غمِ اُمّت:
کفار کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کوکتنا غم ہوتا تھا اِس کا اندازہ اُس آیت سے لگایا جا سکتا ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے ارشاد فرمایا:
’’ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا ‘‘(کہف:۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ہوسکتا ہے کہ تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ختم کردو۔
اور امت کے بارے میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا کیا حال تھا اِس کا اندازہ اس آیت سے لگایاجا سکتا ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ‘‘(توبہ:۱۲۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیمرسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔
اور ا س حدیث سے بھی ا س کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے قرآنِ پاک میں سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس قول کی تلاوت فرمائی:
’’ رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘(ابراہیم:۳۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے میرے رب! بیشک بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا تو جو میرے پیچھے چلے تو بیشک وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے۔
اور وہ آیت تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا یہ قول ہے:
’’ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ‘‘(المائدہ:۱۱۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرےبندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی غلبے والا،حکمت والا ہے۔
تو حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر گریہ طاری ہو گیا اور اپنے دستِ اَقدس اٹھا کر دعا کی ’’اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ ، میری امت ،میری امت۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت جبریل سے فرمایا’’ اے جبریل !،میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں جاؤ، تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے مگر ان سے پوچھو کہ انہیں کیا چیز رُلارہی ہے ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پوچھا تو انہیں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنی عرض معروض کی خبر دی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت جبریل سے فرمایا :تم میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ’’اِنَّا سَنُرْضِیْکَ فِی اُمَّتِکَ وَلَا نَسُوْ ءُکَ‘‘ آپ کی امت کی بخشش کے معاملے میں ہم آپ کو راضی کر دیں گے اور آپ کو غمگین نہ کریں گے ۔( مسلم، کتاب الایمان، باب دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لامّتہ... الخ، ص۱۳۰، الحدیث: ۳۴۶(۲۰۲))
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ جانِ برادر!تو نے کبھی سنا ہے کہ جس کو تجھ سے اُلفت ِصادقہ ہے وہ تیری اچھی بات سن کر چیں بہ جبیں (یعنی ناراض ) ہو اوراس کی مَحو(یعنی ختم کرنے) کی فکر میں رہے اورپھر محبوب بھی کیسا،جانِ ایمان وکانِ احسان،جس کے جمالِ جہاں آراء کا نظیر کہیں نہ ملے گا اور خامۂ قدرت (یعنی تقدیر کے قلم )نے اس کی تصویر بناکر ہاتھ کھینچ لیا کہ پھر کبھی ایسا نہ لکھے گا، کیسا محبوب، جسے اس کے مالک نے تمام جہان کے لئے رحمت بھیجا، کیسا محبوب، جس نے اپنے تن پر ایک عالَم کا بار اٹھالیا ، کیسا محبوب ، جس نے تمہارے غم میں دن کاکھانا ، رات کا سونا ترک کردیا، تم رات دن اس کی نافرمانیوں میں مُنہَمِک اورلَہْو ولَعب میں مشغول ہو اوروہ تمہاری بخشش کے لئے شب وروز گِریاں ومَلول ۔
شب، کہ اللّٰہ جَلَّ جَلَالُہٗ نے آسائش کے لئے بنائی، اپنے تسکین بخش پر دے چھوڑے ہوئے مَوقوف ہے ، صبح قریب ہے ، ٹھنڈی نسیموں کا پنکھا ہو رہا ہے ، ہر ایک کاجی اس وقت آرام کی طرف جھکتاہے ، بادشاہ اپنے گرم بستروں ، نرم تکیوں میں مست خواب ناز ہے اورجو محتاج بے نوا ہے اس کے بھی پاؤں دوگز کی کملی(چادر) میں دراز، ایسے سہانے وقت ، ٹھنڈے زمانہ میں ، وہ معصوم ، بے گناہ، پاک داماں ، عصمت پناہ اپنی راحت وآسائش کو چھوڑ، خواب وآرام سے منہ موڑ ، جبینِ نیازآستانۂ عزت پر رکھے ہے کہ الٰہی!میری امت سیاہ کارہے ، درگزرفرما، اوران کے تمام جسموں کو آتشِ دوزخ سے بچا۔
جب وہ جانِ راحت کانِ رأفتپیداہوا،بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کیا اور رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِیْ فرمایا، جب قبر شریف میں اتارا لبِ جاں بخش کو جنبش تھی، بعض صحابہ نے کان لگا کر سنا، آہستہ آہستہ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ فرماتے تھے ۔ قیامت کے روز کہ عجب سختی کا دن ہے ، تانبے کی زمین ، ننگے پاؤں ، زبانیں پیاس سے ، باہر ، آفتاب سروں پر ، سائے کا پتہ نہیں ، حساب کا دغدغہ ، ملکِ قہار کا سامنا ،عالَم اپنی فکر میں گرفتارہوگا ، مجرمانِ بے یار دامِ آفت کے گرفتار، جدھر جائیں گے سوا نَفْسِیْ نَفْسِیْ اِذْھَبُوْا اِلٰی غَیْرِیْ کچھ جواب نہ پائیں گے۔اس وقت یہی محبوبِ غمگسار کام آئے گا ، قفلِ شفاعت اس کے زورِ بازو سے کھل جائے گا ، عمامہ سرِاَقدس سے اتاریں گے اورسربسجود ہو کر ’’یَا رَبِّ اُمَّتِیْ‘‘ فرمائیں گے ۔(تو ایسے محبوب، غم خوار اور غمگسار آقا کی سچی فضیلتوں کو مٹانا اور دن رات ان کے اوصاف کی نفی کی فکر میں رہنااور ان کی اطاعت سے منہ موڑنا اور ان کی نافرمانی پر کمر بستہ ہونا کتنی بڑی ناانصافی ہے)۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۷۱۶-۷۱۷)
{وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ: اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کردیا۔} مفسرین نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر بلندہونے کی مختلف تَوجیہات بیان کی ہیں۔
(1)…حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا مخلوق پر لازم کر دیا ہے حتّٰی کہ کسی کا اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانا،اس کی وحدانیّت کا اقرار کرنا اوراس کی عبادت کرنا اس وقت تک مقبول نہیں جب تک وہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر ایمان نہ لے آئے اور ان کی اطاعت نہ کرنے لگے۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ‘‘(النساء:۸۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللّٰہ کا حکم مانا۔
اور ارشاد فرمایا: ’’فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ‘‘(النساء:۶۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو اے حبیب!تمہارے رب کی قسم،یہ لوگ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی رکاوٹ نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں۔
حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرے ،ہر بات میں اس کی تصدیق کرے اورسرورِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی رسالت کی گواہی نہ دے تو یہ سب بے کار ہے اور وہ کافر ہی رہے گا۔
(2)…حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اذان میں ،اقامت میں ،نماز میں ،تشہد میں ،خطبے میں اور کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام سے اس آیت کے بارے میں دریافت فرمایا تو اُنہوں نے عرض کی:اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے تو میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر کیا جائے۔
اورحضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دنیا و آخرت میں بلند کیا، ہر خطیب اورہر تشہد پڑھنے والا ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘ کے ساتھ ’’ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ ‘‘ پکارتا ہے۔
(3)…رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نام کی طرف ان کے نام کی نسبت کی ہے اور نبوت و رسالت کے وصف کے ساتھ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا ذکر کیا جبکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے علاوہ دیگر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر ان کے اَسماء کے ساتھ کیا ہے۔
(4)… سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر ایمان لانے کا عہد لیا۔( تاویلات اہل السنہ، الشرح، تحت الآیۃ: ۴، ۵ / ۴۸۲، تفسیر بغوی، الشرح، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۴۶۹، ملتقطاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت سے متعلق فرماتے ہیں :یعنی ارشاد ہوتا ہے اے محبوب ہمارے !ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کیا کہ جہاں ہماری یا دہوگی تمہارا بھی چرچاہوگا اور ایمان بے تمہاری یاد کے ہرگز پورا نہ ہوگا،آسمانوں کے طبقے اورزمینوں کے پردے تمہارے نامِ نامی سے گونجیں گے ، مؤذن اذانوں اور خطیب خطبوں اورذاکرین اپنی مجالس اور واعظین اپنے مَنابر پر ہمارے ذکر کے ساتھ تمہاری یا د کریں گے ۔ اشجار واَحجار، آہُو وسوسمار(یعنی ہرن اور گوہ)ودیگر جاندار واطفالِ شیرخوار ومعبودانِ کفار جس طرح ہماری توحید بتائیں گے ویسا ہی بہ زبان فصیح وبیان صحیح تمہارامنشورِ رسالت پڑھ کر سنائیں گے ، چار اَکنافِ عالَم میں لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا غلغلہ ہوگا، جز (سوائے)اشقیائے ازل ہر ذرہ کلمۂ شہادت پڑھتا ہوگا، مسبحانِ ملاء اعلیٰ کو ادھر اپنی تسبیح وتقدیس میں مصروف کروں گا اُدھر تمہارے محمود، درودِ مسعود کا حکم دوں گا ۔عرش وکرسی، ہفت اوراقِ سدرہ ، قصورِجناں ، جہاں پر اللّٰہ لکھوں گا، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ بھی تحریر فرماؤں گا ، اپنے پیغمبروں اور اولُوا الْعزم رسولوں کو ارشاد کروں گا کہ ہر وقت تمہار ادم بھریں اورتمہاری یاد سے اپنی آنکھوں کو روشنی اورجگر کو ٹھنڈک اورقلب کو تسکین اور بزم کو تزئین دیں ۔ جو کتاب نازل کروں گا اس میں تمہاری مدح وستائش اورجمالِ صورت وکمالِ سیرت ایسی تشریح وتوضیح سے بیان کروں گا کہ سننے والوں کے دل بے اختیار تمہاری طرف جھک جائیں اورنادیدہ تمہارے عشق کی شمع ان کے کانوں ، سینوں میں بھڑک اٹھے گی ۔ ایک عالَم اگر تمہارادشمن ہوکر تمہاری تنقیصِ شان اورمحوِ فضائل میں مشغول ہوتو میں قادرِ مُطلق ہوں ، میرے ساتھ کسی کا کیا بس چلے گا۔ آخر اسی وعدے کا اثر تھا کہ یہود صدہا برس سے اپنی کتابوں سے ان کا ذکر نکالتے اورچاند پر خاک ڈالتے ہیں تو اہلِ ایمان اس بلند آواز سے ان کی نعت سناتے ہیں کہ سامع اگر انصاف کرے بے ساختہ پکار اٹھے ۔ لاکھوں بے دینوں نے ان کے محوِ فضائل پر کمر باندھی ، مگر مٹانے والے خود مٹ گئے اور ان کی خوبی روز بروز مترقی رہی ۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۷۱۸-۷۱۹)
رفعتِ ذکر ہے تیرا حصّہ دونوں عالَم میں ہے تیرا چرچا
مرغِ فردوس پس از حمد ِخدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں
اور فرماتے ہیں :
وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذِکر ہے اُونچا تیرا
مِٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللّٰہ تعالیٰ تیرا
{فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا: تو بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔ } یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،جو شدت اور سختی آپ کفارکے مقابلے میں برداشت فرمارہے ہیں ، اس کے ساتھ ہی آسانی ہے کہ ہم آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو ان پر غلبہ عطا فرمائیں گے۔
بعض مفسرین نے فرمایا کہ مشرکین رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو فقر کی وجہ سے عار دلاتے تھے یہاں تک کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو یہ گمان ہوا کہ مسلمانوں کی تنگدستی ان کفارکے اسلام قبول کرنے میں رکاوٹ ہے،اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، آپ ان کافروں کی باتوں سے غمزدہ نہ ہوں عنقریب تنگدستی کی یہ دشواری ختم ہو جائے گی۔( مدارک، الشرح، تحت الآیۃ: ۶، ص ۱۳۵۸، خازن الم نشرح، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۳۸۹، ملتقطاً)
مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہئے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ کسی مشکل ،مصیبت یا دشواری کے ا ٓجانے کی وجہ سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ سے مشکل اور مصیبت دور ہو جانے اور دشواری آسان ہو جانے کی امید رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہئے،اللّٰہ تعالیٰ نے چاہا تو بہت جلد آسانی مل جائے گی۔اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠‘‘( طلاق:۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اللّٰہ کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتا مگر اسی قابل جتنا اسے دیا ہے، جلد ہی اللّٰہ دشواری کے بعد آسانی فرمادے گا۔
{اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا: بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔} اس آیت کو دوبارہ ذکر کرنے سے معلوم ہواکہ ایک تنگی کے بعد دو سہولتیں اور آسانیاں ہیں ۔ حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ایک دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ (اپنے کاشانۂ اقدس سے) خوشی اور سُرُور کی حالت میں مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اورارشاد فرمایا ’’ایک تنگی دو آسانیوں پر ہر گز غالب نہیں آئے گی،تو بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔ (مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الم نشرح، ۳ / ۳۸۰، الحدیث: ۴۰۰۴)
{فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ: تو جب تم فارغ ہو تو خوب کوشش کرو۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ نماز سے فارغ ہو جائیں تو آخرت کے لئے دعا کرنے میں محنت کریں کیونکہ نماز کے بعد دعا مقبول ہوتی ہے۔ اس آیت میں مذکور دعا کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس سے کونسی دعا مراد ہے، بعض مفسرین کے نزدیک اس سے وہ دعا مراد ہے جو نماز کے آخر میں نماز کے اندر مانگی جاتی ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک اس سے وہ دعا مراد ہے جو سلام پھیرنے کے بعد مانگی جاتی ہے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، جب آپ مخلوق کو دین کی دعوت دینے سے فارغ ہو جائیں تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرنے میں مشغول ہو جائیں۔(مدارک، الشرح، تحت الآیۃ: ۷، ص ۱۳۵۹، ملخصاً)
آیت’’ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں
(1)… نماز کے بعد خاص طور پر اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللّٰہ تعالیٰ نماز کے بعدکی گئی دعائیں قبول فرماتا ہے۔
(2)… بندے کو فارغ نہیں رہنا چاہئے اور نہ ہی کسی ایسے کام میں مشغول ہونا چاہئے جس کا کوئی دینی یا دُنْیَوی فائدہ نہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انسان کے اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ا س چیز کو چھوڑ دے جو اسے فائدہ نہ دے۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۱۱-باب، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۲۳۲۴)
(3)… جو خطیب،واعظ اور مُبَلِّغ حضرات رات گئے تک مَحافل اور اجتماعات میں عوامُ النّاس کے سامنے خطاب، تقریر اور بیان کرتے ہیں ،انہیں بھی چاہئے کہ وہ اس کام سے فارغ ہونے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی کوشش کریں ۔ لیکن افسوس کہ فی زمانہ ایسے حضرات کی ایک تعداد ایسی ہے کہ جو آدھی رات بلکہ ا س سے بعد تک بھی محافل اور اجتماعات میں اپنے خطاب ،تقریر اور بیان کرنے کے معاملے میں تو انتہائی چست نظر آتے ہیں اور ان کے خطاب میں جوش اور ولولہ نمایا ں نظر آتا ہے،جماعت چھوڑنے،نماز قضا کرنے یا بالکل ہی نہ پڑھنے کی سزاؤں پر مشتمل آیات و اَحادیث رورو کر سنا رہے ہوتے ہیں لیکن اس سے فارغ ہونے کے بعد نماز کے معاملے میں ان کی اپنی سستی کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ فجر کی نماز جماعت کے بغیر یا قضا کر کے پڑھتے ہیں اور دیگر نمازوں کی ادائیگی میں بھی انتہائی سستی سے کام لیتے ہیں ۔ایسے حضرات کو چاہئے کہ ان آیات اور اَحادیث کو پڑھ کر اپنی عملی حالت اور ا س کی جزاء کے بارے میں خود ہی غور کر لیں ۔چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲)كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ‘‘(صف:۲،۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو ! وہ بات کیوں کہتے ہوجو کرتے نہیں ۔اللّٰہ کے نزدیک یہ بڑی سخت ناپسند یدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(بقرہ:۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اوراپنے آپ کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں ۔
اورحضرت اسامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ایک شخص کولایاجائے گا،پھراس کودوزخ میں ڈال دیاجائے گا یہاں تک کہ اس کی انتڑیاں دوزخ میں بکھرجائیں گی اوروہ اس طرح گرد ش کررہاہوگاجس طرح چکی کے گردگدھاگردش کرتاہے۔جہنمی اس کے گرد جمع ہوکراس سے کہیں گے :اے فلاں !کیابات ہے تم توہم کونیکی کی دعوت دیتے اوربرائی سے منع کرتے تھے(اور تم یہاں عذاب میں مبتلاء ہو)! وہ کہے گا:میں تم کونیکی کی دعوت دیتاتھااورخود نیک کام نہیں کرتاتھااورمیں تم کوتوبرائی سے روکتا تھا لیکن خودبرے کام کرتاتھا۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۶، الحدیث: ۳۲۶۷)
اور حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’شبِ معراج میراگزرایسے لوگوں کے پاس سے ہواجن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے، جب بھی ان کوکاٹاجاتاتوو ہ دوبارہ جڑجاتے اورپھران کوکاٹاجاتا۔میں نے پوچھا:اے جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی:یہ آپ کی امت کے وہ خطیب ہیں جولوگوں کو تو نیکی کی دعوت دیتے تھے لیکن اپنی جانوں کو بھول جاتے تھے حالانکہ وہ قرآن کی تلاوت کرتے تھے ،کیا وہ عقل نہیں رکھتے تھے۔( مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ما اسندہ علیّ بن زید عن انس، ۳ / ۳۷۰، الحدیث: ۳۹۷۹)
{وَ اِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ: اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت رکھو۔ } یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، آپ خاص طور پر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف رغبت رکھیں ،اسی کے فضل کے طالب رہیں اور اسی پر توکُّل کریں ۔( مدارک، الشرح، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۳۵۹)
اللّٰہ تعالیٰ پر توکُّل کرنے اور اس کا فضل مانگنے کی ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ پر توکُّل کرے اور اللّٰہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگے۔ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ‘‘(ابراہیم:۱۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور مسلمانوں کو اللّٰہ ہی پر بھروسہ کرناچاہیے۔
اور حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو کہ اللّٰہ تعالیٰ مانگنے کو پسند فرماتا ہے۔( ترمذی، احادیث شتی، باب فی انتظار الفرج وغیر ذلک، ۵ / ۳۳۳، الحدیث: ۳۵۸۲)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan