READ

Surah ash-Shams

اَلشَّمْس
15 Ayaat    مکیۃ


91:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

91:1
وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَاﭪ(۱)
سورج اور اس کی روشنی کی قسم،

{وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا: سورج اور اس کی روشنی کی قسم۔} یعنی سور ج کی قسم جبکہ اس کی روشنی ظاہر ہو۔اس سورت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی عظمت اور معبود ہونے میں  اپنی وحدانیّت کا اظہار کرنے کے لئے متعدد چیزوں  کی قسم ارشاد فرمائی ہے اور یہ چیزیں  ایسی ہیں  کہ ان کے ساتھ مخلوق کے عظیم مَنافع وابستہ ہیں  اور ان میں  غور و فکر کر کے ہر انسان اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیّت کے بارے میں  جان سکتا ہے۔( خازن ، الشّمس ، تحت الآیۃ : ۱، ۴ / ۳۸۱، صاوی، الشّمس، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۲۳۶۹، تفسیرکبیر، الشّمس، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱ / ۱۷۳، ملتقطاً)

{وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا: اور چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آئے۔} یعنی چاند کی قسم جب وہ سورج غروب ہونے کے بعد نکل آئے ۔

91:2
وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَاﭪ(۲)
اور چاند کی جب اس کے پیچھے آئے (ف۲)

91:3
وَ النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَاﭪ(۳)
اور دن کی جب اسے چمکائے (ف۳)

{وَ النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا: اور دن کی جب وہ سورج کو چمکائے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ دن کی قسم جب وہ سورج کو خوب واضح کر دے۔ کیونکہ دن سورج کے نور کا نام ہے تو جتنا دن زیادہ روشن ہوگا اتنا ہی سورج کا ظہور زیادہ ہوگا کیونکہ اثر کی قوت اور اس کا کمال اثر کرنے والے کی قوت اور کمال پر دلالت کرتاہے لہٰذا دن سورج کو ظاہر کر دیتا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ دن کی قسم جب دن دنیا کو یا زمین کو روشن کردے یا رات کی تاریکی کو دور کردے۔( تفسیرکبیر، الشّمس، تحت الآیۃ: ۳، ۱۱ / ۱۷۴-۱۷۵، خازن، الشّمس، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۳۸۱، ملتقطاً)

{وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىهَا: اور رات کی جب وہ سورج کو چھپادے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ رات کی قسم جب وہ سورج کو چھپادے اور آسمان کے کنارے ظلمت و تاریکی سے بھر جائیں ۔دوسرا معنی یہ ہے کہ رات کی قسم کہ جب رات دنیا کو چھپائے۔

            یہاں  تک جو چار چیزیں  بیان ہوئیں یہ سب در حقیقت سورج کے چار اوصاف ہیں  کیونکہ سورج کے وجود سے ہی دن ہوتا ہے اور روشنی خوب واضح ہو جاتی ہے اور سورج کے غروب ہونے سے ہی رات ہوتی ہے اور ا س کے بعد چاند نکل آتا ہے اور جو شخص سورج میں  تھوڑا سا بھی غور کرے گا اور دل کی آنکھ سے ا س کی بناوٹ اور تخلیق وغیرہ کا مشاہدہ کرے گا تو وہ ا س کے خالق کی عظمت کو جان لے گا۔ (خازن، الشّمس، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۸۱-۳۸۲،  تفسیرکبیر، الشّمس، تحت الآیۃ: ۴، ۱۱ / ۱۷۵، ملتقطاً)

91:4
وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىهَاﭪ(۴)
اور رات کی جب اسے چھپائے (ف۴)

91:5
وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰىهَاﭪ(۵)
اور آسمان اور اس کے بنانے والے کی قسم،

{وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰىهَا: اور آسمان کی اور اس کے بنانے والے کی قسم۔} یعنی آسمان کی قسم اور اس کی قسم جس نے اسے انتہائی بڑا اور نہایت بلند بنایا ہے اور اسے بنانے والا اللّٰہ تعالیٰ ہے۔ (روح البیان، الشّمس، تحت الآیۃ: ۵، ۱۰ / ۴۴۲)

{وَ الْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىهَا: اور زمین کی اور اس کے پھیلانے والے کی قسم۔} یعنی زمین کی قسم اور اس کی قسم جس نے اسے پانی پر پھیلایا تاکہ زمین پر موجود جانداروں  کے لئے اس پر زندگی گزارنا ممکن ہو۔ (روح البیان، الشّمس، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۴۴۲، ملخصاً)

91:6
وَ الْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىهَاﭪ(۶)
اور زمین اور اس کے پھیلانے والے کی قسم،

91:7
وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَاﭪ(۷)
اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا (ف۵)

{وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا: اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جان کی اور اس کی قسم جس نے اسے ٹھیک بنایا اور اسے کثیرقوتیں  عطا فرمائیں  جیسے بولنے کی قوت،سننے کی قوت، دیکھنے کی قوت اور فکر، خیال ،علم ،فہم سب کچھ عطا فرمایا پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں  ڈالی اور اچھائی برائی،نیکی اور گناہ سے اسے باخبر کردیا اور نیک و بد کے بارے میں  بتادیا۔( خازن، الشّمس، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۴ / ۳۸۲)

نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ایک دعا:

            حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جب رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ (تلاوت کرتے ہوئے) ان آیات ’’وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَاﭪ(۷) فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا‘‘ پر پہنچتے تو رک جاتے، پھر فرماتے ’’اَللّٰہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا اَنْتَ خَیْرٌ مَّنْ زَکَّاہَا اَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلَاہَا‘‘ یعنی اے اللّٰہ ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما،اس کو پاکیزہ کر،تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے ،تو ہی اس کا ولی اور مولیٰ ہے۔( معجم الکبیر،عمرو بن دینار عن ابن عباس،۱۱ / ۸۷،الحدیث:۱۱۱۹۱،روح البیان،الشّمس،تحت الآیۃ:۸،۱۰ / ۴۴۳)

91:8
فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَاﭪ(۸)
پھر اس کی بدکاری اور اس کی پرہیزگاری دل میں ڈالی (ف۶)

91:9
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹)
بیشک مراد کو پہنچایا جس نے اسے (ف۷) ستھرا کیا (ف۸)

{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا: بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔} اللّٰہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیات میں  چند چیزوں  کی قَسمیں  ذکر کر کے ا س آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  فرمایا کہ بیشک جس نے اپنے نفس کو برائیوں  سے پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا اور بیشک جس نے اپنے نفس کو گناہوں  میں  چھپادیا وہ ناکام ہوگیا۔( جلالین مع صاوی، الشّمس، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ۶ / ۲۳۷۰)

نفس کو برائیوں  سے پاک کرنا کامیابی کا ذریعہ ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ اپنے نفس کو برائیوں  سے پاک کرنا کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ اور اپنے نفس کو گناہوں  میں  چھپا دینا ناکامی کا سبب ہے اور نفس برائیوں  سے اسی وقت پاک ہو سکتا ہے جب اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی اطاعت کی جائے اوراطاعت کرنے والوں  کے بارے اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ‘‘(النور:۵۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو اللّٰہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللّٰہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘(احزاب:۷۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو اللّٰہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔

            لہٰذا جو شخص حقیقی کامیابی حاصل کرنا اور ناکامی سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی اطاعت کر کے اپنے نفس کو برائیوں  سے پاک کرے ۔

91:10
وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ(۱۰)
اور نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چھپایا،

91:11
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَاۤﭪ(۱۱)
ثمود نے اپنی سرکشی سے جھٹلایا (ف۹)

{كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَا: قومِ ثمود نے اپنی سرکشی سے جھٹلایا۔} اس سے پہلی آیات میں  کئی قَسموں  سے اطاعت گزار کی کامیابی اور نافرمان کی ناکامی کو بیان کیا گیا،اب یہاں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے ایک رسول اور ان کی نافرمانی کرنے والوں  کا حال بیان کیا ہے تاکہ کفارِ مکہ پر واضح ہو جائے کہ جس طرح حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے ان کی قوم ہلاک کر دی گئی تو اسی طرح رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے انہیں  بھی ہلاک کیا جاسکتا ہے۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 4 آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ ثمود نے اپنی سرکشی سے اپنے رسول حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس وقت جھٹلایا جب ان کا سب سے بڑابدبخت آدمی قدار بن سالف ان سب کی مرضی سے اونٹنی کی کو چیں  کاٹنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا تو اللّٰہ تعالیٰ کے رسول حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا :تم اللّٰہ تعالیٰ کی اونٹنی کے درپے ہونے سے بچو اور جو دن اس کے لئے پانی پینے کا مقرر ہے اس دن پانی نہ لو تاکہ تم پر عذاب نہ آئے۔تو انہوں  نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا، پھر اونٹنی کی کونچیں  کاٹ دیں  تو ان پر ان کے رب عَزَّوَجَلَّ نے، ان کے اس گناہ کے سبب تباہی ڈال کر اور ان کی بستی کو برابر کرکے سب کو ہلاک کردیا اوران میں  سے کوئی باقی نہ بچا اور اللّٰہ تعالیٰ کو ان کے پیچھا کرنے کا خوف نہیں  جیسا بادشاہوں  کو ہوتا ہے کیونکہ وہ سب بادشاہوں  کا بادشاہ ہے ،وہ جو چاہے کرے اور کسی کو ا س کے آگے دَم مارنے کی مجال نہیں ۔ (صاوی ، الشّمس ، تحت الآیۃ : ۱۱-۱۵ ، ۶ / ۲۳۷۰-۲۳۷۱ ، ابو سعود، الشّمس، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۵، ۵ / ۸۷۵- ۸۷۶، خازن، الشّمس، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۵، ۴ / ۳۸۲-۳۸۳، ملتقطاً)

{وَ لَا یَخَافُ عُقْبٰهَا: اور اسے ان کے پیچھا کرنے کا خوف نہیں ۔} بعض مفسرین نے اس آیت کے معنی یہ بھی بیا ن کئے ہیں  کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان میں  سے کسی کا خوف نہیں  کہ عذاب نازل ہونے کے بعد وہ انہیں  ایذا پہنچاسکے۔ (خازن، الشّمس، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۳۸۳)

91:12
اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَاﭪ(۱۲)
جبکہ اس کا سب سے بدبخت (ف۱۰) اٹھ کھڑا ہوا،

91:13
فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ نَاقَةَ اللّٰهِ وَ سُقْیٰهَاؕ(۱۳)
تو ان سے اللہ کے رسول (ف۱۱) نے فرمایا اللہ کے ناقہ (ف۱۲) اور اس کی پینے کی باری سے بچو (ف۱۳)

91:14
فَكَذَّبُوْهُ فَعَقَرُوْهَاﭪ--فَدَمْدَمَ عَلَیْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ فَسَوّٰىهَاﭪ(۱۴)
تو انہوں نے اسے جھٹلایا پھر ناقہ کی کوچیں کاٹ دیں تو ان پر ان کے رب نے ان کے گناہ کے سبب (ف۱۴) تباہی ڈال کر وہ بستی برابر کردی (ف۱۵)

91:15
وَ لَا یَخَافُ عُقْبٰهَا۠(۱۵)
اور اس کے پیچھا کرنے والے کا اسے خوف نہیں (ف۱۶)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلشَّمْس
اَلشَّمْس
  00:00



Download

اَلشَّمْس
اَلشَّمْس
  00:00



Download