Surah Ar-Rum
{ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ: خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیا۔} یعنی شرک اور گناہوں کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد جیسے قحط سالی ، بارش کا رک جانا، پیداوار کی قلت ، کھیتیوں کی خرابی ، تجارتوں کے نقصان ، آدمیوں اور جانوروں میں موت ، آتش زدگی کی کثرت ، غرق اور ہر شے میں بے برکتی ، طرح طرح کی بیماریاں ، بے سکونی، وغیرہ ظاہر ہو گئی اور ان پریشانیوں میں مبتلا ہونا اس لئے ہے تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں آخرت سے پہلے دنیا میں ہی ان کے بعض برے کاموں کا مزہ چکھائے تاکہ وہ کفر اور گناہوں سے باز آجائیں اوران سے توبہ کر لیں ۔( مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۹۱۰، جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۳۴۴، ملتقطاً)
پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہونے کا سبب:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ گناہوں کی وجہ سے لوگ ہزاروں قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور صحیح اَحادیث سے بھی ثابت ہے کہ کسی قوم میں اِعلانیہ بے حیائی پھیل جانے کی وجہ سے ان میں طاعون اور مختلف اَمراض عام ہو جاتے ہیں ۔ناپ تول میں کمی کرنے کی وجہ سے قحط آتا اور ظالم حاکم مقرر ہوتے ہیں ۔زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے بارش رکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا عہد توڑنے کی وجہ سے دشمن مُسَلَّط ہو جاتا ہے۔لوگوں کے مالوں پر جَبری قبضہ کرنے کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق حکمرانوں کے فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کے درمیان قتل و غارت گری ہوتی ہے اور سود خوری کی وجہ سے زلزلے آتے اور شکلیں بگڑ جاتی ہیں ۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۴۱، ۷ / ۴۶-۴۷، ملخصاً)
آیت اور اَحادیث کے خلاصے کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ موجودہ صورتِ حال پر غور کر لے کہ فی زمانہ بے حیائی عام ہونا،ناپ تول میں کمی کرنا ، لوگوں کے اَموال پر جبری قبضے کرنا،زکوٰۃ نہ دینا،جوا اورسود خوری وغیرہ، الغرض وہ کونسا گناہ ہے جو ہم میں عام نہیں اور شائد انہی اعمال کا نتیجہ ہے کہ آج کل لوگ ایڈز، کینسر اور دیگر جان لیوا اَمراض میں مبتلا ہیں ،ظالم حکمران ان پرمقرر ہیں ،بارش رک جانے یا حد سے زیادہ آنے کی آفت کا یہ شکار ہیں ، دشمن ان پر مُسَلَّط ہوتے جارہے ہیں ، قتل و غارت گری ان میں عام ہو چکی ہے، زلزلوں ،طوفانوں اور سیلاب کی مصیبتوں میں یہ پھنسے ہوئے ہیں ،تجارتی خسارے اور ہر چیز میں بے برکتی کا رونا یہ رو رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل ِسلیم عطا کرے اور اپنی بگڑی عملی حالت سدھارنے کی توفیق عطافرمائے۔
یہاں بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کافروں کے ممالک جہاں کفر و شرک اور زنا و گناہ سب کچھ عام ہے وہاں فساد کیوں نہیں ہے تو اس کے دو جواب ہیں ، اول یہ کہ کفار کو دنیا میں کئی اعتبار سے مہلت ملی ہوئی ہے لہٰذا وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور دوسرا جواب یہ ہے کہ فساد اور بربادی صرف مال کے اعتبار سے نہیں ہوتی بلکہ بیماریوں اور ذہنی پریشانیوں بلکہ اور بھی ہزاروں اعتبار سے بھی ہوتی ہے ، اب ذرا کفارکے ممالک میں جنم لینے والی اور پھیلنے والی نئی نئی بیماریوں کی معلومات جمع کرلیں یونہی یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ پاگل خانے، ذہنی مریض، دماغی سکون کی دواؤں کااستعمال، دماغی اَمراض کے مُعا لِجین، ذہنی مریضوں کے ادارے اور نفسیاتی ہسپتال بھی انہی کفار کے ممالک میں ہیں اور اسی طرح دنیا میں سب سے زیادہ طلاقیں ، ناجائز اولادیں ، بوڑھے والدین کو اولڈ ہومز میں پھینک کر بھول جانے کے واقعات ،یونہی دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیاں بھی انہی ممالک میں ہیں ، جو ظاہرا ًتو بڑے خوشحال نظر آتے ہیں لیکن اندر سے گل سڑ رہے ہیں ۔
{قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ: تم فرماؤ: زمین پر چل کر دیکھو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ اے مشرکو! تم (اپنے سفر کے دوران) عذاب یافتہ قوموں کی سرزمین پر چل کر عبرت کی نگاہ سے دیکھ لو کہ تم سے پہلے برے لوگوں کا انجام کیسا ہوا؟ان میں اکثر لوگ مشرک اور باقی لوگ دیگرگناہوں میں مبتلا تھے تو جب انہیں ان کےشرک اور گناہوں کی وجہ سے ہلاک اور بربادکر دیا گیا تو کفارِ قریش اور دیگر مشرکوں میں سے جو اُن کے طریقے کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور اپنے کفر پر قائم ہیں ،یہ بھی ان کی طرح ہلاک اور برباد کر دئیے جا سکتے ہیں ، لہٰذا انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈریں اور اپنے کفر و شرک سے باز آجائیں ۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۴۲، ۷ / ۴۷، ملخصاً)
{فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ الْقَیِّمِ: تو اپنا منہ دین ِمستقیم کیلئے سیدھا کرلو۔} اس آیت میں خطاب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے اور مراد آپ اور آپ کی امت ہے اور معنی یہ ہیں کہ قیامت کا دن آنے سے پہلے پہلے دینِ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں ، دینِ اسلام کو پھیلانے میں مشغول رہیں اور کافروں کے ایمان نہ لانے پر غمزدہ نہ ہوں اورقیامت کا دن ایسا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ٹلنا نہیں ہے اوراس دن حساب کے بعد لوگ الگ الگ ہو جائیں گے کہ جنتی جنت کی طرف اور دوزخی دوزخ کی طرف چلے جائیں گے۔( مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۹۱۰، جلالین مع صاوی، الروم، تحت الآیۃ: ۴۳، ۴ / ۱۵۸۵-۱۵۸۶، ملتقطاً)
{مَنْ كَفَرَ فَعَلَیْهِ كُفْرُهٗ: جس نے کفر کیا تو اس کے کفر کا وبال اسی پرہے۔} یعنی جس نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا تو اس کے کفر کا وبال اسی پرہے کہ اس کے کفر سے دوسرے نہ پکڑے جائیں گے بلکہ خود وہی پکڑا جائے گا اور جو اچھا کام کریں وہ اپنے فائدے ہی کیلئے تیاری کر رہے ہیں کہ جنت کے درجات میں راحت و آرام پائیں گے۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۴۳، ۷ / ۴۷، ملخصاً)
ہمارے اعمال کا فائدہ یا نقصان ہمیں ہی ہو گا:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال سے بے نیاز ہے اور ہم جو اچھا یا برا عمل کریں گے ا س کا فائدہ یا نقصان ہمیں ہی ہو گا،اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ- وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا‘‘(بنی اسرائیل:۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر تم بھلائی کرو گے تو تم اپنے لئے ہی بہتر کرو گے اور اگر تم برا کرو گے تو تمہاری جانوں کیلئے ہی ہوگا۔
اورارشاد فرماتا ہے:
’’ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَ مَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْهَاؕ-وَ مَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ‘‘(حم السجدہ:۴۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جو نیکی کرتا ہے وہ اپنی ذات کیلئے ہی کرتا ہے اور جو برائی کرتا ہے تو اپنے خلاف ہی وہ برا عمل کرتا ہے اور تمہارا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
اور جس طرح آخرت میں اچھے عمل کا فائدہ اور برے عمل کا نقصان عمل کرنے والے کوہو گا اسی طرح قبر میں بھی اچھے برے اعمال کا فائدہ اور نقصان اسے ہی ہو گا ۔جس کے عمل اچھے ہوں گے تو وہ اسے قبر میں اُنْسِیَّت پہنچائیں گے، اس کی قبر وسیع اور منور کر دیں گے اور اسے قبر میں دہشتوں اور مصیبتوں سے محفوظ رکھیں گے اور جس کے عمل برے ہوں گے تو وہ اسے قبر میں دہشت زدہ کریں گے،اس کی قبر کو تنگ اور اندھیری کر دیں گے اور اسے دہشتوں ، مصیبتوں اور عذاب سے نہ بچائیں گے۔ لہٰذا ہرایک کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرے تاکہ یہ قبر کی طویل اور حشر کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں اس کے کام آئیں اور وہ خود کوکفر،گمراہی ،بد مذہبی اور دیگر گناہوں سے بچائے تاکہ قبر و حشر میں اپنے برے اعمال کے نقصان سے محفوظ رہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِرَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہوسکے کرلے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اجالی ہے
اندھیرا گھر، اکیلی جان، دَم گھٹتا، دل اُکتاتا
خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے
{لِیَجْزِیَ: تا کہ اللہ جزا عطا فرمائے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ جولوگ اچھا کام اور نیک عمل کر رہے ہیں وہ اپنے ہی فائدے کے لئے کر رہے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو جزا عطا فرمائے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگو ں کو اس لئے الگ الگ کر دیا جائے گا تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان لوگوں کو صلہ عطا فرمائے جنہوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال کئے۔بے شک اللہ تعالیٰ کافروں کوپسندنہیں کرتا بلکہ وہ کافر سے ناراض ہے اور اسے سخت سزا دے گا۔( قرطبی، الروم، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱۴ / ۳۲، الجزء الرابع عشر، جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۳۴۴، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۴۵، ۷ / ۴۸، ملتقطاً)
نیک اعما ل کی جز املنا محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے:
{وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ بارش اور پیداوار کی کثرت کی خوشخبری دیتی ہوئی ہوائیں بھیجتا ہے اور وہ اس لئے ہوائیں بھیجتا ہے تاکہ تمہیں اپنی رحمت یعنی بارش کا مزہ چکھائے اور وہ اس لئے ہوائیں بھیجتا ہے تاکہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا میں کشتی چلے اور تم سمندر ی سفر کے ذریعے اس کا فضل یعنی رزق تلاش کرو اور ا س لئے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حق مانو اوراس کی وحدانیت پر ایمان لا کر شکر گزار بندے بن جاؤ۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۶۶، جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۳۴۴، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۴۶، ۷ / ۴۹-۵۰، ملتقطاً)
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ: اور بیشک ہم نے تم سے پہلے کتنے رسول ان کی قوم کی طرف بھیجے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح ہم نے آپ کو آ پ کی قوم کی طرف بھیجا اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کتنے رسول ان کی قوم کی طرف بھیجے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے اسی طرح وہ رسول بھی اپنی قوموں کے پا س کھلی نشانیاں لائے جواُن رسولوں کی رسالت کی تصدیق پر واضح دلیل تھیں ، لیکن ان کی قوم میں سے بعض لوگ ایمان لائے اور بعض نے کفر کیا۔پھر ان رسولوں پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے ہم نے مجرموں سے انتقام لیا کہ دنیا میں اُنہیں عذاب میں مبتلا کرکے ہلاک کردیا اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مسلمانوں کو نجات دینا اور کافروں کو ہلاک کرنا ہمارے ذمہ ِکرم پرہے۔ آیت کے آخری حصے میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو آخرت کی کامیابی اور دشمنوں پر فتح و نصرت کی بشارت دی گئی ہے۔( ابو سعود، الروم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۲۸۲، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۴۶۶، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۹۱۱، ملتقطاً)
مسلمان بھائی کی آبرو بچانے کی فضیلت:
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو مسلمان اپنے بھائی کی آبرو بچائے گا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن جہنم کی آگ سے بچائے گا، یہ فرما کرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’كَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: مسلمانوں کی مدد کرناہمارے ذمۂ کرم پر ہے۔( شرح السنہ، کتاب البرّ والصلۃ، باب الذبّ عن المسلمین، ۶ / ۴۹۴، الحدیث: ۳۴۲۲)
{اَللّٰهُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ: اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی حکمت کے موافق ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ ہوائیں بادل اٹھا کر لاتی ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ اپنی مَشِیَّت کے مطابق کبھی اس بادل کو آسمان میں پھیلا دیتا ہے کہ ہر طرف بادل چھائے ہوتے ہیں اورکبھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے کہ کہیں بادل اور کہیں خالی جگہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس بادل کے بیچ میں سے بارش نکلتی نظر آتی ہے، پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جن کے شہروں اور سرزمین کی طرف چاہتا ہے ان تک وہ بارش پہنچاتا ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو وہ بندے خوش ہوجاتے ہیں حالانکہ اس بارش کے نازل کئے جانے سے پہلے وہ لوگ بارش ہونے سے بڑے ناامید ہو چکے ہوتے ہیں ۔ (مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۴۸-۴۹، ص۹۱۱، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۴۸-۴۹، ۷ / ۵۱، ملتقطاً)
{فَانْظُرْ اِلٰۤى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰهِ: تو اللہ کی رحمت کے نشانات دیکھو۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ کی رحمت یعنی بارش نازل ہونے پر مُرَتَّب ہونے والے نشانات دیکھو کہ بارش زمین کو سیراب کرتی ہے ،پھر اس سے سبزہ نکلتا ہے، سبزے سے پھل پیدا ہوتے ہیں اور پھلوں میں غذائیت ہوتی ہے اور اس سے جانداروں کے جسمانی نظام کو مدد پہنچتی ہے اور یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ یہ سبزے اور پھل پیدا کرکے کس طرح خشک ہوجانے والی زمین کوسرسبز و شاداب بنا دیتا ہے اور جس نے خشک زمین کوسرسبز کر دیا وہ بے شک مُردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہراس چیز پر قادر ہے جو اس کی قدرت کے تحت آنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۷ / ۵۲، ابو سعود، الروم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۴ / ۲۸۳ ، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۹۱۲، ملتقطاً)
{وَ لَىٕنْ اَرْسَلْنَا رِیْحًا: اور اگر ہم کوئی ہوابھیجیں ۔} اس سے پہلی آیات میں بیان ہواکہ بارش رک جانے سے لوگ مایوس ہوجاتے ہیں اور بارش ہوتی دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ ان کی یہ حالت ہمیشہ نہیں رہتی بلکہ اگر ہم کوئی ایسی ہو ابھیجیں جو کھیتی اور سبزے کے لئے نقصان دِہ ہو،پھر وہ کھیتی کو سرسبز و شاداب ہونے کے بعد زرد دیکھیں تو ضرور کھیتی زرد ہونے کے بعد ناشکری کرنے لگیں گے اور پہلی نعمت سے بھی مکر جائیں گے۔ مراد یہ ہے کہ ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب انہیں رحمت پہنچتی ہے، رزق ملتا ہے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں اور جب کوئی سختی آتی ہے، کھیتی خراب ہو تی ہے توپہلی نعمتوں سے بھی مکر جاتے ہیں حالانکہ انہیں چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے اور جب نعمت پہنچتی توشکر بجالاتے اور جب بلا آتی توصبر کرتے اور دعا و اِستغفار میں مشغول ہوجاتے۔(تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۵۱، ۹ / ۱۰۹، ابو سعود، الروم، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۲۸۳، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۵۱، ۷ / ۵۴، ملتقطاً)
{فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى: پس بیشک تم مُردوں کو نہیں سناسکتے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ اکرم،سَرورِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کافروں کی محرومیاور ان کے ایمان نہ لانے پر رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ جن کے دل مرچکے اور ان سے کسی طرح حق بات کو قبول کرنے کی توقُّع نہیں رہی ،آپ انہیں حق بات نہیں سنا سکتے، اسی طرح جو لوگ حق بات سننے سے بہرے ہوں اور بہرے بھی ایسے کہ پیٹھ دے کر پھر گئے اور ان سے کسی طرح سمجھنے کی اُمید نہیں تو آپ ان بہروں کو حق کی کوئی پکار نہیں سنا سکتے ۔
اس آیت سے بعض لوگوں نے مُردوں کے نہ سننے پر اِستدلال کیا ہے مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ یہاں مردوں سے مراد موت کا شکار ہونے والے لوگ نہیں بلکہ مردہ دل کفار مراد ہیں جن کے دل مرے ہوئے ہیں جو دُنْیَوی زندگی تو رکھتے ہیں مگر وعظ ونصیحت سے فائدہ حاصل نہیں کرتے ،اس لئے انہیں مُردوں سے تشبیہ دی گئی کیونکہ مردے عمل کے مقام سے گزر گئے ہوتے ہیں اور وہ وعظ و نصیحت سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اس آیت سے مردوں کے نہ سننے پر دلیل پیش کرنا درست نہیں اور بکثرت اَحادیث سے مُردوں کا سننا اور اپنی قبروں پر زیارت کیلئے آنے والوں کو پہچاننا ثابت ہے۔
{وَ مَاۤ اَنْتَ بِهٰدِ الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ: اور نہ تم اندھو ں کو ان کی گمراہی سے سیدھا راستہ دکھا سکتے ہو۔} یہاں بھی اندھوں سے دل کے اندھے مراد ہیں ۔ (مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۹۱۲)
{اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا: تو تم اسی کو سناسکتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں ۔} اس سے پہلی آیات میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دل کے مُردوں ، بہروں اوراندھوں کوسناسکنے کی نفی کی گئی جبکہ اس آیت میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان لانے والوں کو سناسکنا ثابت کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مومن (دل کا) زندہ ہے اور سن سکتا ہے کیونکہ جب مومن کے دل پر دلائل کی بارش ہوتی ہے تو اس میں سچے عقائد پیدا ہوتے ہیں اور جب وہ وعظ و نصیحت سنتا ہے تو اس سے نیک افعال صادر ہوتے ہیں۔(تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۵۳، ۹ / ۱۱۱، ملخصاً)
{اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ: اللہ ہی ہے جس نے تمہیں کمزور پیدا فرمایا۔} اس آیت میں انسان کے مختلف احوال کی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ پہلے وہ ماں کے پیٹ میں ایک لوتھڑا تھا، پھر بچہ بن کر پیدا ہوا اورشِیر خوار رہا ،یہ اَحوال انتہائی ضُعف اور کمزوری کے ہیں ۔ پھر تمہیں بچپن کی کمزوری کے بعد جوانی کی قوت عطا فرمائی،پھر جوانی کی قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا۔ اللہ تعالیٰ جس چیزکو چاہے پیدا کرتا ہے اور کمزوری ، قوت ، جوانی اور بڑھاپا یہ سب اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے سے ہیں جو ظاہری اسباب کے اعتبار سے ایک طبعی عمل ہے لیکن حقیقت میں ارادہ ِ الٰہی کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق اور اندازِ تخلیق کو جانتا ہے اور اسے ایک حال سے دوسرے حال کی طرف بدلنے پربڑی قدرت رکھنے والا ہے۔
{وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ: اور جس دن قیامت قائم ہوگی۔} ارشاد فرمایا کہ جس دن قیامت قائم ہو گی ا س دن مجرم قسم کھا کر کہیں گے کہ وہ صرف ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں یعنی آخرت کو دیکھ کر مجرم کو دنیا یا قبر میں رہنے کی مدت بہت تھوڑی معلوم ہوگی ،اس لئے وہ اس مدت کو ایک گھڑی سے تعبیرکریں گے۔ مزیدفرمایا کہ اسی طرح وہ پھیرے جاتے تھے یعنی ایسے ہی دنیا میں غلط اور باطل باتوں پر جمتے اور حق سے پھرتے تھے اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرتے تھے جیسا کہ اب قبر یا دنیا میں ٹھہرنے کی مدت کو قسم کھا کر ایک گھڑی بتارہے ہیں ۔ ان کی اس قسم سے اللہ تعالیٰ انہیں تمام اہلِ مَحشر کے سامنے رسوا کرے گا اور سب دیکھیں گے کہ ایسے مجمعِ عام میں قسم کھا کر ایسا صریح جھوٹ بول رہے ہیں۔(خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۴۶۷، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۹۱۳، ملتقطاً)
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَ الْاِیْمَانَ: اورجنہیں علم اور ایمان دیا گیا وہ کہیں گے۔} یعنی انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، فرشتے اور مومنین اُن کا رد کریں گے اور فرمائیں گے کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔بے شک جو اللہ تعالیٰ نے اپنے سابق علم میں لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے کہ تم مرنے کے بعد اٹھنے کے دن تک وہاں ٹھہرے ہو اور اب جہاں تم موجود ہو وہ مرنے کے بعد اٹھنے کا دن یعنی قیامت کا دن ہے جس کاتم دنیا میں انکار کرتے تھے ،اور تم نہ جانتے تھے کہ یہ حق ہے اور ضرور واقع ہوگا۔ اب تم نے جان لیاکہ وہ دن آگیا اور اس کا آنا حق تھا لیکن ا ب اس وقت کا جاننا تمہیں کوئی نفع نہ دے گا۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۴۶۷، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۹۱۳، ملتقطاً)
{فَیَوْمَىٕذٍ: تو ا س دن۔} یعنی قیامت کے دن ظالموں کوان کا معافی مانگنا کوئی نفع نہ دے گا اور نہ اُن سے یہ کہا جائے گا کہ توبہ کرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو راضی کرلو جیسا کہ دنیا میں ان سے توبہ طلب کی جاتی تھی کیونکہ اس وقت توبہ اور طاعت مقبول نہیں ۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۵۷، ۷ / ۵۹)
گناہگار مسلمانوں کے لئے نصیحت :
اس آیت میں ان گناہگار مسلمانوں کے لئے بھی نصیحت ہے کہ جو اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گناہوں میں صَرف کر رہے ہیں اور اُن سے توبہ کی طرف اِن کا دل مائل نہیں ہو رہا،انہیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں گناہوں پر پکڑ بھی ہو سکتی ہے اور توبہ کا وقت دنیا کی زندگی ہے ،آخرت میں توبہ کرنا کچھ کام نہ دے گا، لہٰذاانہیں چاہئے کہ اپنی زندگی کو غنیمت جان کر موت سے پہلے اپنے اعمال کا مُحاسبہ کر لیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گناہوں سے سچی توبہ کر کے نیک اعمال میں مصروف ہو جائیں ۔کثیر اَحادیث میں اس کی بہت ترغیب دی گئی ہے، یہاں ان میں سے 3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
(1)… حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! مرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کر لو اور مشغولیّت سے پہلے نیک اعمال میں جلدی کرلو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فرض الجمعۃ، ۲ / ۵، الحدیث: ۱۰۸۱)
(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص سے نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ (1)بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔(2) بیماری سے پہلے تندرستی کو۔(3) فقیری سے پہلے مالداری کو۔ (4) مشغولیّت سے پہلے فُرصت کو۔ (5) اور اپنی موت سے پہلے زندگی کو۔(مستدرک، کتاب الرقاق، نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس۔۔۔ الخ، ۵ / ۴۳۵، الحدیث: ۷۹۱۶)
(3)… حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عقلمند وہ شخص ہے جو اپنا مُحاسبہ کرے اورموت کے بعد کے لئے عمل کرے، جبکہ عاجز وہ ہے جو اپنے آپ کو خواہشات کے پیچھے لگا دے اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھے۔
امام ترمذی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث میں مذکور الفاظ ’’مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ‘‘ کا مطلب قیامت کے حساب سے پہلے (دنیا ہی میں ) نَفس کا محاسبہ کرنا ہے۔
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو ا س سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جاؤ۔قیامت کے دن اس آدمی کا حساب آسان ہو گا جس نے دنیا ہی میں اپنا حساب کر لیا۔
حضرت میمون بن مہران رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ بندہ اس وقت تک پرہیز گار شمار نہیں ہوتا جب تک اپنے نفس کا ایسے محاسبہ نہ کرے جیسے اپنے شریک کا کرتا ہے کہ اس نے کہاں سے کھایا اور کہاں سے پہنا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ۔۔۔ الخ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۷)
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کواپنے اعمال کا محاسبہ کرنے، گناہوں سے بچنے ،توبہ کرنے اور نیک اعمال میں مصروفہونے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ: اور بیشک ہم نے لوگوں کے لئے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال بیان فرمائی۔} یعنی ہم نے ا س قرآن میں لوگوں کے لئے ہر طرح کی مثال بیان فرما دی جس کی انہیں دین اور دنیا میں حاجت ہے اور اس میں غورو فکر اور تَدَبُّر کرنے والا ہدایت اور نصیحت حاصل کر سکتا ہے اور مثالیں اس لئے بیان فرمائی گئیں کہ کافروں کو تنبیہ ہو اور انہیں عذاب سے ڈرانا اپنے کمال کو پہنچے ،لیکن انہوں نے اپنی سیاہ باطنی اور سخت دلی کے باعث کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ جب کوئی آیت ِقرآن آئی اس کو جھٹلا دیا اور اس کا انکار کر دیا۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۵۸، ۷ / ۶۰، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۹۱۳-۹۱۴، ملتقطاً)
گناہ کے تین درجے:
صُوفیاء فرماتے ہیں کہ گناہ کے تین درجے ہیں ۔ ادنیٰ درجہ یہ کہ مجرم اپنے آپ کو گنہگار جانتا ہوا گناہ کرے اور سمجھانے پر کم از کم شرمندہ ہو جائے اس کی معافی اِنْ شَاءَ اللہ ہو جائے گی۔ اس سے اوپر درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے گناہ سے لاپروا ہو جائے۔ گناہ کرے، نادم نہ ہو، کبھی یہ سوچے بھی نہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں ۔ اس بیماری سے شفاء بمشکل ہوتی ہے ۔اس کے اوپر یہ کہ اپنے گناہوں کو اچھا سمجھے، دوسروں کی نیکیوں کو برا جانے ،گناہوں پر فخرکرے اور نیکیوں پر طعنہ کرے، یہ دل کی مُہر کا باعث ہے ۔ یہاں آیت میں کفار کا یہی تیسرا درجہ بیان ہوا ہے۔
{كَذٰلِكَ: اسی طرح۔} یعنی جس طرح ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی اسی طرح ان جاہلوں کے دلوں پر بھی اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتا ہے جن کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ گمراہی اختیار کریں گے اور حق والوں کو باطل پر بتائیں گے۔(جلالین، الروم، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۳۴۵، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۹۱۴، ملتقطاً)
{فَاصْبِرْ: تو صبر کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اِن کفار کی ایذا اور عداوت پر صبر کریں ، بے شک آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد فرمانے کا اور دین ِاسلام کو تمام دینوں پر غالب کرنے کا اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا وہ سچا ہے اور یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا اور یہ لوگ جنہیں آخرت کا یقین نہیں ہے اور قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے اور حساب کے منکر ہیں ، ان کی شِدّتیں اور ان کے انکار اور اُن کی نالائق حرکات آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے طیش اوررنج کا باعث نہ ہوں اور ایسا نہ ہو کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن کے حق میں عذاب کی دعا کرنے میں جلدی فرمادیں ۔(مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۹۱۴، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۴۶۸، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan