READ

Surah An-Nur

اَلنُّوْر
64 Ayaat    مدنیۃ


24:41
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍؕ-كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ(۴۱)
کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے (ف۹۶) پر پھیلائے سب نے جان رکھی ہے اپنی نماز اور اپنی تسبیح، اور اللہ ان کے کاموں کو جانتا ہے،

{اَلَمْ تَرَ: کیا تم نے نہ دیکھا۔} اس رکوع میں   اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور قدرت پر دلائل بیان فرمائے اور ان کے بعد منافقین کا حال بیان فرمایا ہے۔اس آیت میں  حضور سیِّدُ الْمرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ خبر دینے کے لئے خطاب فرمایا گیا کہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  نور کے اعلیٰ مراتب پر فائض فرمایا ہے اور ان کے سامنے ملکوت و ملک کے انتہائی باریک اور مخفی ترین اسرار بیان فرمائے ہیں ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو مضبوط اور قوی مشاہدے، صریح وحی اورصحیح اِستدلال کے ذریعے اس چیز کا یقینی علم حاصل ہے کہ آسمانوں  اور زمین میں موجود تمام مخلوق اور ان کے درمیان پرندے اپنے پَر پھیلائے ہوئے  اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور اَفعال میں  ہر اس نَقْص و عیب سے پاکی بیان کر رہے ہیں  جو  اللہ تعالیٰ کی شانِ جلیل کے لائق نہیں ۔ ان میں  سے ہر ایک اپنی نماز اور اپنی تسبیح جانتا ہے اور  اللہ تعالیٰ نے نماز و تسبیح کا جسے جو طریقہ سکھایا اسی کے مطابق وہ عمل کرتاہے۔ (اگرچہ ہمیں  وہ طریقہ دکھائی نہ دے یا سمجھ نہ آئے۔)( ابو سعود، النور، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۹۸، تفسیر سمرقندی، النور، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۴۴۳، ملتقطاً)

24:42
وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ(۴۲)
اور اللہ ہی کے لیے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین کی اور اللہ ہی کی طرف پھر جانا،

{وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اور آسمانوں  اور زمین کی بادشاہت  اللہ ہی کے لیے ہے۔} ارشاد فرمایا کہ آسمانوں  اور زمین کی بادشاہت کسی اور کے لئے نہیں  بلکہ صرف  اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے کیونکہ وہی ان کا خالق ہے اور وہی ان میں  ہر طرح کا تَصَرُّف فرمانے کی قدرت رکھتا ہے اور مخلوق کوفنا ہونے کے بعد جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو سب نے صرف  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ہی لوٹنا ہے لہٰذا ہر عقلمند انسان کو چاہئے کہ صرف ایسے قوت والے مالک کی ہی عبادت کرے اور زبان و دل سے اسی کی پاکی بیان کرے۔(روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۴۲، ۶ / ۱۶۴)

24:43
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُزْجِیْ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَهٗ ثُمَّ یَجْعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُ جُ مِنْ خِلٰلِهٖۚ-وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ جِبَالٍ فِیْهَا مِنْۢ بَرَدٍ فَیُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَصْرِفُهٗ عَنْ مَّنْ یَّشَآءُؕ-یَكَادُ سَنَا بَرْقِهٖ یَذْهَبُ بِالْاَبْصَارِؕ(۴۳)
کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نرم نرم چلاتا ہے بادل کو (ف۹۷) پھر انہیں آپس میں مِلاتا ہے (ف۹۸) پھر انہیں تہہ پر تہہ کردیتا ہے تو تُو دیکھے کہ اس کے بیچ میں سے مینہ نکلتا ہے اور اتارتا ہے آسمان سے اس میں جو برف کے پہاڑ ہیں ان میں سے کچھ اولے (ف۹۹) پھر ڈالنا ہے انہیں جس پر چاہے (ف۱۰۰) اور پھیردیتا ہے انہیں جس سے چاہے (ف۱۰۱) قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھ لے جائے (ف۱۰۲)

{اَلَمْ تَرَ: کیا تم نے نہ دیکھا۔} اس آیت میں  حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ساتھ ہر عقلمند سے بھی خطاب ہے کیونکہ جو ان چیزوں  میں  غورو فکر کرے گا تو وہ جان لے گا اور جاننے والے کا علم و یقین مزید بڑھ جائے گا کہ  اللہ تعالیٰ قدرت والا،حکمت والا ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے’’کیا تم نے نہ دیکھا کہ  اللہ تعالیٰ جس سر زمین اور جن شہروں کی طرف چاہے نرمی کے ساتھ بادل کو چلاتا ہے، پھر انہیں  آپس میں  ملا دیتا ہے اور ان کے جدا جدا ٹکڑوں  کو یک جا کردیتا ہے، پھر انہیں  تہ در تہ کردیتا ہے، تو تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان میں  سے بارش نکلتی ہے اور  اللہ تعالیٰ آسمان میں  موجود برف کے پہاڑوں  سے اولے اُتارتا ہے، پھر جس پر چاہتا ہے اس پر ڈال دیتا ہے اور جس کے جان و مال کو چاہتا ہے ان سے ہلاک و تباہ کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اس سے اولوں  کوپھیر دیتا ہے اور اُس کے جان و مال کو محفوظ رکھتا ہے، قریب ہے کہ اس بادل کی بجلی کی چمک آنکھوں  کے نور کو لے جائے اور روشنی کی تیزی سے آنکھوں  کو بے کار کردے۔آگ ٹھنڈک اور پانی کی ضد ہے اور آگ کا ٹھنڈک سے ظاہر ہونا ایک شے کا اپنی ضد سے ظاہر ہونا ہے اور یہ کسی قادر و حکیم کی قدرت کے بغیر ممکن نہیں ۔( صاوی، النور، تحت الآیۃ: ۴۳، ۴ / ۱۴۱۰-۱۴۱۱، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۷۸۴-۷۸۵، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۳۵۷، تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۴۳، ۸ / ۴۰۴-۴۰۵، ملتقطاً)

{وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ جِبَالٍ فِیْهَا مِنْۢ بَرَدٍ: اور وہ آسمان میں  موجود برف کے پہاڑوں  سے اولے اُتارتا ہے۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اس آیت کے بارے میں  مفسرین کے دو قول ہیں ، (1)آسمان میں  اولوں  کے پہاڑ ہیں  جنہیں   اللہ تعالیٰ نے اسی طرح پیدا فرمایا ہے، پھر وہ ان پہاڑوں  میں  سے جتنے اولے چاہتا ہےنازل فرماتا ہے۔ یہ اکثر مفسرین کا قول ہے۔ (2)آسمان سے مراد حقیقی آسمان نہیں  بلکہ وہ باد ل ہے جو لوگوں  کے سروں  پر بلند ہے، اسے بلندی کی وجہ سے آسمان فرمایا گیا کیونکہ ’’سمائ‘‘اس چیز کو کہتے ہیں  جو تجھ سے بلند ہے اور تیرے اوپر ہے۔  اللہ تعالیٰ اس بادل سے اولے نازل فرماتا ہے، جبکہ پہاڑوں  سے بڑے بڑے بادل مراد ہیں  کیونکہ وہ بڑا ہونے کی وجہ سے پہاڑوں  کے مشابہ ہیں ، جیسے مال کی وسعت کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ فلاں  آدمی مال کے پہاڑوں  کا مالک ہے (اسی طرح یہاں  بادلوں  کو بڑا ہونے کی وجہ سے پہاڑوں  کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے) اور یہ مفسرین کہتے ہیں  کہ اولے جما ہوا پانی ہیں  جسے  اللہ تعالیٰ نے بادلوں  میں  پیدا فرمایا ہے، پھر وہ انہیں  زمین کی طرف نازل فرماتا ہے۔ مفسرین فرماتے ہیں  کہ پہلا قول زیادہ مناسب ہے کیونکہ آسمان ایک مخصوص جسم کا نام ہے اور اسے بادل کا نام قرار دینا مجازی طورپر ہے اور جس طرح یہ درست ہے کہ  اللہ تعالیٰ بادلوں  میں  پانی رکھے،پھر اسے اولوں  کی صورت میں  نازل فرمائے تو بلا شبہ یہ بھی صحیح ہے کہ آسمان میں  اولوں  کے پہاڑ ہوں  اور جب دونوں  کاموں  کا  اللہ تعالیٰ کی قدرت میں  ہونا صحیح ہے تو اس آیت کے ظاہری معنی کو ترک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔( تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۴۳، ۸ / ۴۰۵)

            یاد رہے کہ امام عبد اللہ بن عمر بیضاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے’’ تفسیر بیضاوی‘‘ میں ، علامہ شہاب الدین احمد بن عمر خفاجی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے بیضاوی کی شرح ’’عنایۃ القاضی‘‘ میں  اور محمد بن مصلح الدین رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے تفسیر بیضاوی پر اپنے حاشیے’’محی الدین شیخ زادہ‘‘ میں ، امام ابو سعود محمد بن محمد رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے’’تفسیر ابو سعود ‘‘میں  اور علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے’’ تفسیر روح البیان ‘‘میں  دوسرے قول کو اختیار فرمایا ہے کہ یہاں  آسمان سے مراد بادل ہیں ۔

24:44
یُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ(۴۴)
اللہ بدلی کرتا ہے رات اور دن کی (ف۱۰۳) بیشک اس میں سمجھنے کا مقام ہے نگاہ والوں کو،

{یُقَلِّبُ اللّٰهُ:  اللہ تبدیل فرماتا ہے۔} یعنی  اللہ تعالیٰ رات اور دن کوتبدیل فرماتا ہے اس طرح کہ رات کے بعد دن لاتا اور دن کے بعد رات لاتا ہے۔ بیشک بادلوں  کو چلانے،ان سے بارش نکلنے،آسمانوں  سے اولے برسانے، بادلوں  سے بجلی ظاہر کرنے اور دن رات کو تبدیل کرنے میں  غوروفکر کرنے والوں  کے لئے  اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی قدرت اور وحدانیت پر واضح دلائل موجود ہیں۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۷۸۵، ملخصاً)

24:45
وَ اللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍۚ-فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى بَطْنِهٖۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى رِجْلَیْنِۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰۤى اَرْبَعٍؕ-یَخْلُقُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۴۵)
اور اللہ نے زمین پر ہر چلنے والا پانی سے بنایا (ف۱۰۴) تو ان میں کوئی اپنے پیٹ پر چلتا ہے (ف۱۰۵) اور ان میں کوئی دو پاؤں پر چلتا ہے (ف۱۰۶) اور ان میں کوئی چار پاؤں پر چلتا ہے (ف۱۰۷) اللہ بناتا ہے جو چاہے، بیشک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے،

{وَ اللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍ: اور  اللہ نے زمین پر چلنے والا ہر جاندار پانی سے بنایا۔} اس سے پہلی آیات میں  آسمانوں  اور زمین کے احوال سے اور آسمانی آثارسے  اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت پر دلائل ذکر کئے گئے اور اس آیت سے جانداروں  کے احوال سے  اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت پر اِستدلال کیا جارہا ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے جانداروں  کی تمام اَجناس کو پانی کی جنس سے پیدا کیا اور پانی ان سب کی اصل ہے اور اپنی اصل میں  متحد ہونے کے باوجود ان سب کا حال ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہے،یہ کائنات کو تخلیق فرمانے والے کے علم و حکمت اور اس کی قدرت کے کمال کی روشن دلیل ہے کہ اس نے پانی جیسی چیز سے ایسی عجیب مخلوق پیدا فرمادی۔مزید فرمایا کہ ان جانداروں  میں  کوئی اپنے پیٹ کے بل چلتا ہے جیسا کہ سانپ، مچھلی اور بہت سے کیڑے اور ان میں  کوئی دو پاؤں  پر چلتا ہے جیسا کہ آدمی اور پرندے اور ان میں  کوئی چار پاؤں  پر چلتا ہے جیسا کہ چوپائے اور درندے۔  اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اور جیسے چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے۔ بیشک  اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر شے پر قادر ہے تو کچھ بھی اس کے لئے مشکل نہیں ۔( تفسیرکبیر،النور، تحت الآیۃ: ۴۵،۸ / ۴۰۶-۴۰۷، مدارک، النور،تحت الآیۃ:۴۵، ص۷۸۵، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۳۵۸، ملتقطاً)

          نوٹ: اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب مخلوقات کے بارے میں  تفصیلی معلومات کے لئے کتاب ’’حیاۃُ الحیوان‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔

24:46
لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍؕ-وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۴۶)
بیشک ہم نے اتاریں صاف بیان کرنے والی آیتیں (ف۱۰۸) اور اللہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھائے (ف۱۰۹)

{لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ: بیشک ہم نے صاف بیان کرنے والی آیتیں  نازل فرمائیں ۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے صاف بیان کرنے والی آیتیں  یعنی قرآنِ کریم نازل فرمایاجس میں  ہدایت و احکام اور حلال و حرام کا واضح بیان ہے اور  اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے اور سیدھی راہ جس پر چلنے سے  اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی نعمت میسر ہو، وہ دین ِاسلام ہے۔(خازن، النور، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۳۵۸)

            قرآنِ پاک نازل کرنے کا ذکر فرمانے کے بعدبتایا جارہا ہے کہ انسان تین فرقوں  میں  تقسیم ہوگئے۔ ایک وہ جنہوں  نے ظاہری طور پر حق کی تصدیق کی اور باطنی طور پر اس کی تکذیب کرتے رہے، وہ منافق ہیں ۔ دوسرا وہ جنہوں  نے ظاہری طور پر بھی تصدیق کی اور باطنی طور پر بھی مُعْتَقِد رہے، یہ مخلص لوگ ہیں ۔ تیسرا وہ جنہوں  نے ظاہر ی طور پربھی تکذیب کی اور باطنی طور پر بھی، وہ کفار ہیں ۔ اگلی آیات میں  ترتیب سے ان کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۷۸۶)

24:47
وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَؕ-وَ مَاۤ اُولٰٓىٕكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ(۴۷)
اور کہتے ہیں ہم ایمان لائے اللہ اور رسول پر اور حکم مانا پھر کچھ ان میں کے اس کے بعد پھر جاتے ہیں (ف۱۱۰) اور وہ مسلمان نہیں (ف۱۱۱)

{وَ یَقُوْلُوْنَ: اور کہتے ہیں ۔} اس آیت میں  انسانوں  کے پہلے گروہ کے بارے میں  بتایا گیا کہ وہ کہتے ہیں  ہم  اللہ تعالیٰ اور رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی اطاعت کی، پھر ان میں  سے ایک گروہ اس اقرار کے بعد پھر جاتا ہے اور اپنے قول کی پابندی نہیں  کرتا اورحقیقت میں  وہ مسلمان نہیں  منافق ہیں  کیونکہ ان کے دل ان کی زبانوں  کے مُوَافِق نہیں۔(جلالین، النور، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۳۰۰، ملخصاً)

24:48
وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۴۸)
اور جب بلائے جائیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو جبھی ان کا ایک فریق منہ پھیر جاتا ہے،

{وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: اور جب انہیں   اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ بشر نامی منافق کازمین کے معاملے میں  ایک یہودی سے جھگڑا تھا، یہودی جانتا تھا کہ اس معاملہ میں  وہ سچا ہے اور اس کو یقین تھا کہ رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حق و عدل کا فیصلہ فرماتے ہیں ، اِس لئے اُس نے خواہش کی کہ ا س مقدمے کا فیصلہ رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کرایا جائے۔ لیکن منافق بھی جانتا تھا کہ وہ باطل پر ہے اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عدل و انصاف میں  کسی کی رُو رِعایت نہیں  فرماتے، اس لئے وہ حضورِ انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلہ پر تو راضی نہ ہوا اور کعب بن اشرف یہودی سے فیصلہ کرانے کااصرار کیا اور تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  کہنے لگا کہ وہ ہم پر ظلم کریں  گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۷۸۶)

آیت ’’وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ‘‘ سے معلوم ہونے والے اُمور:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ ہے اور ان کے ہاں  حاضری  اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری ہے کیونکہ ان لوگوں  کو حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف بلایا گیاتھا، جسے  اللہ تعالیٰ نے فرمایا،  اللہ و رسول کی طرف بلایا گیا۔

(2)… حضورِ انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم  اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کے خلاف اپیل ناممکن ہے اورحضورِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے منہ موڑنا رب تعالیٰ کے حکم سے منہ موڑنا ہے۔

24:49
وَ اِنْ یَّكُنْ لَّهُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْۤا اِلَیْهِ مُذْعِنِیْنَؕ(۴۹)
اور اگر ان میں ڈگری ہو (ان کے حق میں فیصلہ ہو) تو اس کی طرف آئیں مانتے ہوئے (ف۱۱۲)

{وَ اِنْ: اور اگر۔} اس آیت میں  کفار و منافقین کا حال بیان کیا گیا کہ وہ بارہا تجربہ کرچکے تھے اور انہیں  کامل یقین تھا کہ سید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فیصلہ سراسر حق اور عدل و انصاف پر مبنی ہوتا ہے اس لئے ان میں  جو سچا ہوتا وہ تو خواہش کرتا تھا کہ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کا فیصلہ فرمائیں  اور جو حق پر نہ ہوتا وہ جانتا تھا کہ رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سچی عدالت سے وہ اپنی ناجائز مراد نہیں  پاسکتا اس لئے وہ حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلہ سے ڈرتا اور گھبراتا تھا۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۷۸۶)

24:50
اَفِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْۤا اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ رَسُوْلُهٗؕ-بَلْ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۠(۵۰)
کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے (ف۱۱۳) یا شک رکھتے ہیں (ف۱۱۴) کیا یہ ڈرتے ہیں کہ اللہ و رسول ان پر ظلم کریں گے (ف۱۱۵) بلکہ خود ہی ظالم ہیں،

{اَفِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ: کیا ان کے دلوں  میں  بیماری ہے؟} اس آیت میں  منافقین کے اِعراض کی قباحت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کیا ان کے دلوں  میں  کفر و منافقت کی بیماری ہے؟ یا انہیں  ہمارے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت میں  شک ہے ؟یا کیا وہ اس بات سے ڈرتے ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان پر ظلم کریں  گے ؟ایسا ہرگز نہیں  ہے،کیونکہ یہ وہ خوب جانتے ہیں  کہ رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فیصلہ حق و قانون کے خلاف ہو ہی نہیں  سکتا اور کوئی بددیانت آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عدالت سے غلط فیصلہ کروانے میں  کامیاب نہیں  ہوسکتا، اسی وجہ سے وہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلہ سے اِعراض کرتے ہیں  اور وہ حق سے اِعراض کرنے کی بنا پر خود ہی اپنی جانوں  پر ظلم کرنے والے ہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۳۵۹، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۷۸۶، ملتقطاً)

24:51
اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵۱)
مسلمانوں کی بات تو یہی ہے (ف۱۱۶) جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے کہ عرض کریں ہم نے سنا اور حکم مانا او ریہی لوگ مراد کو پہنچے،

{اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ: مسلمانوں  کی بات تو یہی ہے۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو شریعت کا ادب سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمانوں  کو ایسا ہونا چاہئے کہ جب انہیں   اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف بلایا جائے تا کہ رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے درمیان  اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے احکامات کے مطابق فیصلہ فرمادیں  تو وہ عرض کریں  کہ ہم نے بُلاوا      سُنا اور اسے قبول کر کے اطاعت کی او رجو ان صفات کے حامل ہیں  وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۳۵۹، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۷۸۷، ملتقطاً)

دین ودنیا میں  کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ :

            اس سے معلوم ہوا کہ سید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کے سامنے اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں  اور نہ ہی آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں  صرف اپنی عقل کو معیار بنایا جائے بلکہ جس طرح ایک مریض اپنے آپ کو ڈاکٹر کے سپرد کر دیتا ہے اور اس کی دی ہوئی دوائی کو چون وچرا کئے بغیر استعمال کرتا ہے اسی طرح خود کوحضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حوالے کر دینا اور آپ کے ہر حکم کے سامنے سر ِتسلیم خم کر دینا چاہئے کیونکہ ہماری عقلیں  ناقص ہیں  اور تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقلِ مبارک وحی کے نور سے روشن اور کائنات کی کامل ترین عقل ہے۔ اگر اس پر عمل ہو گیا تو پھر دین و دنیا میں  کامیابی نصیب ہو گی۔

24:52
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲)
اور جو حکم مانے اللہ اور اس کے رسول کا اور اللہ سے ڈرے اور پرہیزگاری کرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں،

{وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ: اور جو  اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو فرائض میں   اللہ تعالیٰ کی اور سُنّتوں  میں  اس کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرے اور ماضی میں   اللہ تعالیٰ کی ہونے والی نافرمانیوں  کے بارے میں   اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور آئندہ کے لئے پرہیز گاری اختیار کرے تو ایسے لوگ ہی کامیاب ہیں ۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۷۸۷)

اُخروی کامیابی کے اسباب کی جامع آیت:

            یہ آیتِ مبارکہ جَوَامِعُ الْکَلِمْ میں  سے ہے۔ اس کے الفاظ اگرچہ کم ہیں  لیکن اُخروی کامیابی کے تمام اسباب اس میں  جمع کر دئیے گئے ہیں ۔

ایک عیسائی کے قبولِ اسلام کا سبب:

            ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ مسجد ِنبوی شریف میں  کھڑے تھے، اسی دوران روم کے دِہقانوں  میں  سے ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’میں  گواہی دیتا ہوں  کہ  اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں  اور میں  گواہی دیتا ہوں  کہ بے شک محمد صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔‘‘حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے اس سے فرمایا: ’’کیا تمہارے اسلام قبول کرنے کا کوئی خاص سبب ہے؟‘‘ اس نے عرض کی : جی ہاں ۔ میں  نے تورات، انجیل، زبور اور دیگر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحائف کا مطالعہ کیا ہوا ہے۔میں  نے ایک قیدی کو قرآنِ پاک کی ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا جو سابقہ تمام کتابوں  میں  دئیے گئے احکامات کی جامع ہے، اس سے میں  نے جان لیا کہ قرآنِ پاک واقعی  اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے ا س سے دریافت فرمایا کہ وہ کون سی آیت ہے؟تو اس نے یہ آیت تلاوت کی ’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ‘‘ حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا: ’’حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے جَوَامِعُ الْکَلِمْ عطا کئے گئے ہیں ۔‘‘( تفسیرقرطبی، النور، تحت الآیۃ: ۵۲، ۶ / ۲۲۷، الجزء الثانی عشر)

24:53
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَىٕنْ اَمَرْتَهُمْ لَیَخْرُجُنَّؕ-قُلْ لَّا تُقْسِمُوْاۚ-طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۵۳)
اور انہوں نے (ف۱۱۷) اللہ کی قسم کھائی اپنے حلف میں حد کی کوشش سے کہ اگر تم انہیں حکم دو گے تو وہ ضرور جہاد کو نکلیں گے تم فرماؤ قسمیں نہ کھاؤ (ف۱۱۸) موافق شرع حکم برداری چاہیے، اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو (ف۱۱۹)

{وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ: او رانہوں  نے پوری کوشش کرکے  اللہ کی قسمیں  کھائیں ۔} اس آیت سے دوبارہ منافقین کا تذکرہ شروع کیا گیا۔ جب  اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ منافقین رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احکام کو پسند نہیں  کرتے تو منافقین حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہو کر کہنے لگے:  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!اگر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں  حکم دیں  کہ ہم اپنے گھروں  سے، اپنے مالوں  اور اپنی عورتوں  کے پاس سے نکل جائیں  تو ہم ضرور نکل جائیں  گے اور اگر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں  جہاد کرنے کا حکم دیں  تو ہم جہاد کریں  گے،جب ہمارا یہ حال ہے تو ہم آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے کیسے راضی نہ ہوں  گے۔ اس پر  اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمائیں  کہ تم قسمیں  نہ کھاؤ، تمہیں  اس کی بجائے شریعت کے مطابق اطاعت کرنی چاہیے، بیشک  اللہ تعالیٰ تمہارے تمام پوشیدہ اَعمال سے خبردار ہے،وہ تمہیں  ضرور رُسوا کرے گا اور تمہاری منافقت کی سزا دے گا۔( تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۵۳، ۸ / ۴۱۱-۴۱۲، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۳۵۹، ملتقطاً)

             اس آیت سے معلوم ہوا کہ اپنے قول کو اپنے عمل سے سچا کرکے دکھانا چاہیے، صرف قسموں  سے سچا کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ بارگاہِ خداوندی میں  عمل دیکھے جاتے ہیں  نہ کہ محض زبانی دعوے۔

24:54
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْهِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْؕ-وَ اِنْ تُطِیْعُوْهُ تَهْتَدُوْاؕ-وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(۵۴)
تم فرماؤ حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا (ف۱۲۰) پھر اگر تم منہ پھیرو (ف۱۲۱) تو رسول کے ذمہ وہی ہے جس اس پر لازم کیا گیا (ف۱۲۲) اور تم پر وہ ہے جس کا بوجھ تم پر رکھا گیا (ف۱۲۳) اور اگر رسول کی فرمانبرداری کرو گے راہ پاؤ گے، اور رسول کے ذمہ نہیں مگر صاف پہنچا دینا (ف۱۲۴)

{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان قسمیں  کھانے والوں  سے فرمادیں  کہ تم سچے دل اور سچی نیت سے  اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو۔ اگر تم  اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری سے منہ پھیرو گے تو اس میں  ان کا نہیں  بلکہ تمہارا اپناہی نقصان ہے کیونکہ رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذمے صرف دین کی تبلیغ اور احکامِ الٰہی کا پہنچا دینا ہے اور جب انہوں  نے یہ ذمہ داری اچھی طرح نبھا دی ہے تو وہ اپنے فرض سے عہد ہ برآ ہوچکے اور تمہیں  چونکہ رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری کا پابند کیا گیا ہے لہٰذا تم پر یہ لازم ہے۔ ا گراس سے روگردانی کرو گے تو  اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضی کا تمہیں  ہی سامنا کرنا پڑے گا اور اگر تم رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذمے صرف صاف صاف تبلیغ کردینا لازم ہے، تمہاری ہدایت ان کے ذمہ داری نہیں ۔( تفسیر طبری، النور ، تحت الآیۃ : ۵۴ ، ۹ / ۳۴۲، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۳۵۹-۳۶۰، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۷۸۷، ملتقطاً)

حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت قبولیت کی چابی ہے :

          علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت قبولیت کے دروازے کی چابی ہے اور اطاعت کی فضیلت پر یہ بات تیری رہنمائی کرتی ہے کہ اصحابِ کہف کے کتّے نے جب  اللہ تعالیٰ کی طاعت میں  اصحابِ کہف کی پیروی کی تو  اللہ تعالیٰ نے اس سے جنت کا وعدہ فرمایا اور جب اطاعت کرنے والوں  کی پیروی کرنے کی یہ برکت ہے تو خود اطاعت کرنے والوں  کے بارے میں  تیر ا کیا گمان ہے۔ اور حضرت امام احمد بن حنبل رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے جب حمام میں  لوگوں  کے درمیان سَتْرِ عورت کھولنے کے معاملے میں  شرعی حکم کی رعایت کی (یعنی وہاں  پردہ کرکے نہانے کا حکم ہے اور آپ نے اس پر عمل کیا) تو ان سے خواب میں  کہا گیا :شرعی حکم کی رعایت کرنے کی وجہ سے  اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوگوں  کا امام بنا دیا ہے۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۵۴، ۶ / ۱۷۲-۱۷۳)

             اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں  کو صحیح طریقے سے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،امین۔
24:55
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪-وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ-یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۵۵)
اللہ نے وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کیے (ف۱۲۵) کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا (ف۱۲۶) جیسی ان سے پہلوں کو دی (ف۱۲۷) اور ضرور ان کے لیے جمادے گا ان کا وہ دین جو ان کے لیے پسند فرمایا ہے (ف۱۲۸) اور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا (ف۱۲۹) میری عبادت کریں میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں، اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ بے حکم ہیں،

{وَعَدَ اللّٰهُ :  اللہ نے وعدہ فرمایا ہے۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے انسانوں  کے دوسرے گروہ یعنی مخلص مؤمنوں  کا ذکر فرمایاہے۔ آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وحی نازل ہونے سے لے کر دس سال تک مکہ مکرمہ میں  صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کے ساتھ قیام فرمایا اور شب و روز کفار کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں  پر صبر کیا، پھر  اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ طیبہ کو ہجرت فرمائی اور انصار کے مکانات کو اپنی سکونت سے سرفراز کیا، مگر قریش اس پر بھی باز نہ آئے، آئے دن ان کی طرف سے جنگ کے اعلان ہوتے اور طرح طرح کی دھمکیاں  دی جاتیں ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ ہر وقت خطرہ میں  رہتے اور ہتھیار ساتھ رکھتے۔ ایک روز ایک صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا کبھی ایسا بھی زمانہ آئے گا کہ ہمیں  امن میسرہو اور ہتھیاروں  کے بوجھ سے ہم سبکدوش ہوں ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ نے تم میں  سے ایمان والوں  اور اچھے اعمال کرنے والوں  سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ضرورانہیں  زمین میں  خلافت دے گا جیسی ان سے پہلوں  یعنی حضرت داؤد اور حضرت سلیمان وغیرہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوخلافت دی ہے اور جیسا کہ مصر و شام کے جابر کافروں  کوہلاک کرکے بنی اسرائیل کو خلافت دی اور ان ممالک پر اُن کو مُسلَّط کیااور  اللہ تعالیٰ ضرور اِن کے لیے دین ِاسلام کو تمام اَدیان پر غالب فرمادے گا اور ضرور ان کے خوف کے بعد ان کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔ چنانچہ یہ وعدہ پورا ہوا اور سرزمین ِعرب سے کفار مٹادیئے گئے، مسلمانوں  کا تَسلُّط ہوا، مشرق و مغرب کے ممالک  اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے فتح فرمائے، قیصر وکسریٰ کے ممالک اور خزائن اُن کے قبضہ میں  آئے اورپوری دنیا پر اُن کا رُعب چھا گیا۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۳۶۰، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۷۸۸، ملتقطاً)

خلافت ِراشدہ کی دلیل:

            علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں :اس آیت میں  حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ اور آپ کے بعد ہونے والے خلفائِ راشدین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کی خلافت کی دلیل ہے کیونکہ ان کے زمانے میں  عظیم فتوحات ہوئیں  اور کسریٰ وغیرہ بادشاہوں  کے خزانے مسلمانوں  کے قبضہ میں  آئے اور امن، قوت و شوکت اور دین کا غلبہ حاصل ہوا۔(خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۳۶۰)

            ترمذی اور ابوداؤد کی حدیث میں  ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خلافت میرے بعد تیس سال ہے پھر ملک ہوگا۔‘‘( ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی الخلافۃ، ۴ / ۹۷، الحدیث: ۲۲۳۳، ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب فی الخلفاء، ۴ / ۲۷۸، الحدیث: ۴۶۴۶)اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی خلافت دو برس تین ماہ، حضرت عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت دس سال چھ ماہ، حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی خلافت بارہ سال اور حصرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی خلافت چار سال نو ماہ اور حضرت امام حسن رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی خلافت چھ ماہ ہوئی۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۳۶۱)

{وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ: اور جو اس کے بعد ناشکری کرے۔} یعنی جو اس وعدے کے بعد نعمت کی ناشکری کرے گا تو وہی فاسق ہیں کیونکہ انہوں  نے اہم ترین نعمت کی ناشکری کی اور اسے حقیر سمجھنے پر دلیر ہوئے۔مفسرین فرماتے ہیں  کہ اس نعمت کی سب سے پہلی جو ناشکری ہوئی وہ حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کو شہید کرنا ہے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۷۸۸)

24:56
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۵۶)
اور نماز برپا رکھو اور زکوٰة دو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اس امید پر کہ تم پر رحم ہو،

{وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ: اور نمازقائم رکھو۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!نماز کو اس کے ارکان و شرائط کے ساتھ قائم رکھو، اسے ضائع نہ کرو اور جو زکوۃ  اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض فرمائی ہے اسے ادا کرو اور احکامات وممنوعات میں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حبیب رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور  اللہ تعالیٰ تمہیں  اپنے عذاب سے نجات دے۔( تفسیرطبری، النور، تحت الآیۃ: ۵۶، ۹ / ۳۴۴)

{لَا تَحْسَبَنَّ: ہرگز گمان نہ کرو۔} یعنی ان کفار نا بکار کا زمین میں  امن سے رہنا اس وجہ سے نہیں  کہ وہ رب کے قابو سے باہر ہیں  بلکہ یہ رب تعالیٰ کی مہلت ہے لہٰذا ان کے بارے میں  یہ خیال نہ کرو کہ یہ ہماری پکڑ سے بھاگ کر زمین میں  ہمیں  عاجز کر دیں  گے، ان کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے اور بیشک وہ کیا ہی بُری لوٹنے کی جگہ ہے۔

24:57
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِۚ-وَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۠(۵۷)
ہرگز کافروں کو خیال نہ کرنا کہ وہ کہیں ہمارے قابو سے نکل جائیں زمین میں اور ان کا ٹھکانا آ گ ہے، اور ضرور کیا ہی برا انجام،

24:58
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِیْنَ مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍؕ-مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَ حِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِیْرَةِ وَ مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ۫ؕ-ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْؕ-لَیْسَ عَلَیْكُمْ وَ لَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّؕ-طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۵۸)
اے ایمان والو! چاہیے کہ تم سے اذن لیں تمہارے ہاتھ کے مال غلام (ف۱۳۰) اور جو تم میں ابھی جوانی کو نہ پہنچے (ف۱۳۱) تین وقت (ف۱۳۲) نمازِ صبح سے پہلے (ف۱۳۳) اور جب تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو دوپہر کو (ف۱۳۴) اور نماز عشاء کے بعد (ف۱۳۵) یہ تین وقت تمہاری شرم کے ہیں (ف۱۳۶) ان تین کے بعد کچھ گناہ نہیں تم پر نہ ان پر (ف۱۳۷) آمدورفت رکھتے ہیں تمہارے یہاں ایک دوسرے کے پاس (ف۱۳۸) اللہ یونہی بیان کرتا ہے تمہارے لیے آیتیں، اور اللہ علم و حکمت والا ہے،

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!۔} شانِ نزول:حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک انصاری غلام مِدْلَج بن عمرو کو دوپہر کے وقت حضرت عمرفاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کو بلانے کے لئے بھیجا، وہ غلام اجازت لئے بغیر ویسے ہی حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے مکان میں  چلا گیا اور اس وقت حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ بے تکلف اپنے دولت سرائے میں  تشریف فرما تھے۔ غلام کے اچانک چلے آنے سے آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے دِل میں  خیال پیدا ہوا کہ کاش غلاموں  کو اجازت لے کر مکانوں میں  داخل ہونے کا حکم ہوتا۔ اس پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی۔اس آیت میں  غلاموں ، باندیوں  اور بلوغت کے قریب لڑکے، لڑکیوں  کو تین اوقات میں  گھر میں  داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے کا حکم دیا گیا۔ وہ تین اوقات یہ ہیں ۔

(1)…فجر کی نماز سے پہلے۔ کیونکہ یہ خواب گاہوں  سے اُٹھنے اورشب خوابی کا لباس اُتار کر بیداری کے کپڑے پہننےکا وقت ہے۔

(2)… دوپہر کے وقت، جب لوگ قیلولہ کرنے کے لئے اپنے کپڑے اُتار کر رکھ دیتے اور تہ بند باندھ لیتے ہیں ۔

(3)… نماز عشاء کے بعد،کیونکہ یہ بیداری کی حالت میں  پہنا ہوا لباس اُتارنے اورسوتے وقت کا لباس پہننے کاٹائم ہے۔

            یہ تین اوقات ایسے ہیں  کہ اِن میں  خلوت و تنہائی ہوتی ہے، بدن چھپانے کا بہت اہتمام نہیں  ہوتا، ممکن ہے کہ بدن کا کوئی حصہ ُکھل جائے جس کے ظاہر ہونے سے شرم آتی ہے، لہٰذا اِن اوقات میں  غلام اور بچے بھی بے اجازت داخل نہ ہوں  اور اُن کے علاوہ جو ان لوگ تمام اوقات میں  اجازت حاصل کریں ، وہ کسی وقت بھی اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں ۔ ان تین وقتوں  کے سوا باقی اوقات میں  غلام اور بچے بے اجازت داخل ہوسکتے ہیں  کیونکہ وہ کام اور خدمت کیلئے ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے والے ہیں  تو اُن پر ہر وقت اجازت طلب کرنا لازم ہونے میں  حرج پیدا ہوگا اور شریعت میں  حرج کو دُور کیا گیا ہے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۳۶۱-۳۶۲، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۷۸۹، ملتقطاً)

لڑکا اور لڑکی کب بالغ ہوتے ہیں ؟

          یاد رہے کہ لڑکے اور لڑکی میں جب بلوغت کے آثارظاہر ہوں  مثلاً لڑکے کو احتلام ہو اور لڑکی کوحیض آئے اس وقت سے وہ بالغ ہیں  اور اگر بلوغت کے آثار ظاہر نہ ہوں  تو پندرہ برس کی عمر پوری ہونے سے بالغ سمجھے جائیں  گے۔( فتاویٰ رضویہ، ۱۲ / ۳۹۹، ملخصاً)

 

24:59
وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَاْذِنُوْا كَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۵۹)
اور جب تم میں لڑکے (ف۱۳۹) جوانی کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اذن مانگیں (ف۱۴۰) جیسے ان کے اگلوں (ف۱۴۱) نے اذن مانگا، اللہ یونہی بیان فرماتا ہے تم سے اپنی آیتیں، اور اللہ علم و حکمت والا ہے،

{وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ: اور جب تم میں  سے لڑکے جوانی کی عمر کو پہنچ جائیں ۔} اس آیت میں  ارشاد فرمایا: جب تمہارے یا قریبی رشتہ داروں  کے چھوٹے لڑکے جوانی کی عمر کو پہنچ جائیں  تو وہ بھی تمام اوقات میں  گھر میں  داخل ہونے سے پہلے اسی طرح اجازت مانگیں  جیسے ان سے پہلے بڑے مردوں  نے اجازت مانگی۔  اللہ تعالیٰ اپنے دین کے شرعی احکام اسی طرح بیان فرماتا ہے جیسے ا س نے لڑکوں  کے اجازت طلب کرنے کا حکم بیان فرمایا اور  اللہ تعالیٰ مخلوق کی تمام مصلحتوں  کو جانتا ہے اور وہ اپنی مخلوق کے معاملات کی تدبیر فرمانے میں  حکمت والا ہے۔( تفسیرطبری، النور، تحت الآیۃ: ۵۹، ۹ / ۳۴۸)

گھر میں  اجازت لے کر داخل ہونے کی ایک حکمت:

            گھر میں  اجازت لے کر داخل ہونے کی بے شمار حکمتیں  ہیں ، ان میں  سے ایک یہاں  ذکر کی جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عطا بن یسار رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ ایک شخص نے رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا : کیا میں  اپنی ماں  کے پاس جاؤں  تو اس سے بھی اجازت لوں ۔ حضورِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ہاں ۔ انہوں  نے عرض کی:میں  تو اس کے ساتھ اسی مکان میں  رہتا ہی ہوں ۔ حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اجازت لے کر اس کے پاس جاؤ، انہوں  نے عرض کی: میں  اس کی خدمت کرتا ہوں  (یعنی بار بار آنا جانا ہوتا ہے، پھر اجازت کی کیا ضرورت ہے؟) رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اجازت لے کر جاؤ، کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اسے بَرَہْنَہ دیکھو؟‘‘ عرض کی: نہیں ، فرمایا: تو اجازت حاصل کرو۔( موطا امام مالک، کتاب الاستءذان، باب الاستءذان، ۲ / ۴۴۶، الحدیث: ۱۸۴۷)

             اسی حکم سے کچھ اور احکام کی حکمت بھی سمجھ آتی ہے جیسے باپ یا بھائی اگر بیٹیوں  یا بہنوں  کو جگانے کیلئے کمرے میں  جائیں  تو کمرے کے باہر سے آواز دیں  اور جگائیں  کہ بلااجازت اندر جانا نامناسب ہے کیونکہ حالت ِ نیند میں  بعض اوقات بدن سے کپڑے ہٹ جاتے ہیں ۔

24:60
وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَهُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِیْنَةٍؕ-وَ اَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّهُنَّؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۶۰)
اور بوڑھی خانہ نشین عورتیں (ف۱۴۲) جنہیں نکاح کی آرزو نہیں ان پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے بالائی کپڑے اتار رکھیں جب کہ سنگھار نہ چمکائیں (ف۱۴۳) اور ان سے بھی بچنا (ف۱۴۴) ان کے لیے اور بہتر ہے، ور اللہ سنتا جانتا ہے،

{وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ: اورگھروں  میں  بیٹھ رہنے والی بوڑھی عورتیں ۔} ا س آیت میں  بوڑھی عورتوں  کے بارے میں  فرمایا گیاکہ ایسی بوڑھی عورتیں  جن کی عمر زیادہ ہو چکی ہو اور ان سے اولاد پیدا ہونے کی امید نہ رہی ہو اور عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں  نکاح کی کوئی خواہش نہ ہو تو ان پر کچھ گناہ نہیں  کہ وہ اپنے اوپر کے کپڑے یعنی اضافی چادر وغیرہ اُتار کر رکھ دیں  جبکہ وہ اپنی زینت کی جگہوں  مثلا بال، سینہ اورپنڈلی وغیرہ کو ظاہر نہ کررہی ہوں  اور ان بوڑھی عورتوں کا اس سے بھی بچنا اور اضافی چادر وغیرہ پہنے رہنا ان کے لیے سب سے بہترہے اور  اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والاہے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۷۹۰، ملخصاً)

            مفسرین فرماتے ہیں  کہ یہ حکم ایسی بوڑھی عورتوں  کے لئے ہے جنہیں  دیکھنے سے مردوں  کو شہوت نہ آئے، اگر بڑھاپے کے باوجود عورت کا اتنا حسن وجمال قائم ہے کہ اسے دیکھنے سے شہوت آتی ہو تو وہ ا س آیت کے حکم میں  داخل نہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۳۶۲)

 فتوے پر عمل کرنے سے تقوے پر عمل کرنا زیادہ اَولیٰ ہے :

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ جب کسی کام میں  فتنے کا اندیشہ باقی نہ رہے تو شریعت ا س کے حکم میں  سختی ختم کر دیتی ہے اور ا س کے معاملے میں  آسان حکم اور کچھ رخصت دے دیتی ہے،البتہ اس رخصت و اجاز ت کے باوجود تقو ی و پرہیزگاری کی وجہ سے اسی سابقہ حکم پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے۔

24:61
لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُیُوْتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآىٕكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوْ صَدِیْقِكُمْؕ-لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًاؕ-فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَیِّبَةًؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۠(۶۱)
نہ اندھے پر تنگی اور نہ لنگڑے پر مضائقہ اور نہ بیمار پر روک اور نہ تم میں کسی پر کہ کھاؤ اپنی اولاد کے گھر (ف۱۴۶) یا اپنے باپ کے گھر یا اپنی ماں کے گھر یا اپنے بھائیوں کے یہاں یا اپنی بہنوں کے گھر ے یا اپنے چچاؤں کے یہاں یا اپنی پھپیوں کے گھر یا اپنے ماموؤں کے یہاں یا اپنی خالاؤں کے گھر یا جہاں کی کنجیاں تمہارے قبضہ میں ہیں (ف۱۴۷) یا اپنے دوست کے یہاں تم پر کوئی الزام نہیں کہ مل کر کھاؤ یا الگ الگ (ف۱۴۰) پھر جب کسی گھر میں جاؤ تو اپنوں کو سلام کرو (ف۱۵۰) ملتے وقت کی اچھی دعا اللہ کے پاس سے مبارک پاکیزہ، اللہ یونہی بیان فرماتا ہے تم سے آیتیں کہ تمہیں سمجھ ہو،

{لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ: اندھے پر کوئی پابندی نہیں ۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  تین قول ہیں  :

          پہلا قول :حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے مروی ہے کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جہاد کو جاتے تو اپنے مکانوں  کی چابیاں  نابینا ؤں ، بیماروں  اور اپاہجوں  کو دے جاتے جو ان عذروں  کے باعث جہاد میں  نہ جاسکتے اور انہیں اجازت دیتے کہ ان کے مکانوں  سے کھانے کی چیزیں  لے کر کھائیں ، لیکن وہ لوگ اس خیال سے اسے گوارا نہ کرتے کہ شاید یہ اُن کو دل سے پسند نہ ہو، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں  اس کی اجازت د ی گئی۔

            دوسرا قول: یہ ہے کہ اندھے، اپاہج اور بیمار لوگ تندرستوں  کے ساتھ کھانے سے بچتے کہ کہیں  کسی کو نفرت نہ ہو، اس آیت میں  انہیں  تندرستوں  کے ساتھ کھانے کی اجازت دی گئی۔

          تیسرا قول: یہ ہے کہ جب کبھی اندھے، نابینا اوراپاہج کسی مسلمان کے پاس جاتے اور اس کے پاس اُن کے کھلانے کے لئے کچھ نہ ہوتا تو وہ انہیں  کسی رشتہ دار کے یہاں  کھلانے کے لئے لے جاتا، یہ بات ان لوگوں  کو گوارا نہ ہوتی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں  بتایا گیا کہ اس میں  کوئی حرج نہیں  ہے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۷۹۱، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۶۳، ملتقطاً)

{وَ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ: اور تم پر بھی کوئی پابندی نہیں ۔} آیت کے ا س حصے سے گیارہ مقامات ایسے بتائے گئے جہاں  سے کھانا مباح ہے۔(1)اپنی اولاد کے گھروں  سے،کیونکہ اولاد کا گھر اپنا ہی گھر ہے۔ حدیث شریف میں  ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘( ابو داؤد، کتاب الاجارۃ، باب فی الرجل یأکل من مال ولدہ، ۳ / ۴۰۳، الحدیث: ۳۵۳۰) اسی طرح شوہر کے لئے بیوی کا اور بیوی کے لئے شوہر کا گھر بھی اپنا ہی گھر ہے۔(2) اپنے باپ کے گھروں  سے۔ (3) اپنی ماں  کے گھرسے۔ (4) اپنے بھائیوں  کے گھروں ۔(5)اپنی بہنوں  کے گھروں  سے۔(6) اپنے چچاؤں  کے گھر وں  سے۔(7) اپنی پھوپھیوں  کے گھروں  سے۔(8) اپنے ماموؤں  کے گھر وں  سے۔(9) اپنی خالاؤں  کے گھروں  سے۔(10) اس گھر سے جس کی چابیاں  تمہارے قبضہ میں  ہیں ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اس سے مراد آدمی کا وکیل اور اس کے معاملات کے انتظامات پر مامور شخص ہے۔ (11)اپنے دوست کے گھر سے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۶۳، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۷۹۱، جلالین، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۳۰۲، ملتقطاً)

کسی کی غیر موجودگی میں  یا اجازت کے بغیر اس کی چیز نہ کھائی جائے:

خلاصہ یہ ہے کہ ان سب لوگوں  کے گھر کھانا،کھانا جائز ہے خواہ وہ موجود ہوں  یا نہ ہوں  لیکن یہ اجازت ا س صورت میں  جب کہ وہ ا س پر رضامند ہوں  اور اگر وہ اس پر رضامند نہ ہو ں  تو اگرچہ وہ واضح طور پراجازت دے دیں  تب بھی ان کا کھانا،کھانا مکروہ ہے اور فی زمانہ تو یہی سمجھ آتا ہے کہ کسی کی غیر موجودگی میں  اور اجازت کے بغیر بالکل نہ کھائے کیونکہ ہمارے زمانے کے حالات میں  مادیت پرستی بہت بڑھ چکی ہے۔امام غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’جب آدمی اپنے کسی دوست کے گھر جائے اورصاحبِ خانہ گھر      پر نہ ہو اور اِسے ا س کی دوستی پر کامل یقین ہو، نیز وہ آدمی جانتا ہو کہ ا س کا دوست اس کے کھانے پر خوش ہو گا تو وہ اپنے دوست کی اجازت کے بغیر کھا سکتا ہے کیونکہ اجازت سے مراد رضا مندی ہے اور بعض لوگ صراحتاً اجازت دے دیتے ہیں  اور اس اجازت پرقسم کھاتے ہیں  لیکن وہ دل سے راضی نہیں  ہوتے (لہٰذا اگر قرائن کے ذریعے تجھ پر یہ ظاہر ہو کہ اسے تیرا کھانا پسند نہیں  تو اس کا کھانا مت کھاؤ کہ) ایسے لوگوں  کا کھانا،کھانا مکروہ ہے۔‘‘( احیاء علوم الدین، کتاب آداب الاکل، الباب الثالث، آداب الدخول للطعام، ۲ / ۱۳)

            ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ہمارے اسلاف کا تو یہ حال تھا کہ آدمی اپنے دوست کے گھر اس کی غیر موجودگی میں  پہنچتا تو اس کی باندی سے اس کا تھیلا طلب کرتا اور جو چاہتا اس میں  سے لے لیتا، جب وہ دوست گھر آتا اور باندی اس کو خبر دیتی تو اس خوشی میں  وہ باندی کو آزاد کردیتا مگر اس زمانہ میں یہ فیاضی کہاں ؟ لہٰذا اب اجازت کے بغیرنہیں کھانا چاہئے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۷۹۱)

{ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا: تم مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ قبیلہ بنی لیث بن عمرو کے لوگ تنہا بغیر مہمان کے کھانا نہ کھاتے تھے کبھی کبھی مہمان نہ ملتا تو صبح سے شام تک کھانا لئے بیٹھے رہتے، ان کے حق میں  یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۶۴) اور فرمایا گیا کہ تم مل کر کھاؤ یا الگ الگ تم پر کوئی پابندی نہیں ۔

مہمان نوازی سے متعلق دو احادیث:

            آیت کے شانِ نزول سے معلوم ہوا کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ بڑے مہمان نواز ہو اکرتے تھے،اسی مناسبت سے یہاں  مہمان نوازی سے متعلق 2 احادیث ملاحظہ ہوں ۔

 (1)…حضرت ابو شریح کعبی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص  اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ مہمان کا اکرام کرے، ایک دن رات اس کا جائزہ ہے (یعنی ایک دن اس کی پوری خاطر داری کرے، اپنے مقدور بھر اس کے لیے تکلف کا کھانا تیار کرائے) اور ضیافت تین دن ہے (یعنی ایک دن کے بعد جو موجود ہو وہ پیش کرے) اور تین دن کے بعد صدقہ ہے، مہمان کے لیے یہ حلال نہیں  کہ اس کے یہاں  ٹھہرا ر ہے کہ اسے حرج میں  ڈال دے۔‘‘( بخاری، کتاب الادب، باب اکرام الضیف وخدمتہ ایّاہ بنفسہ، ۴ / ۱۳۶، الحدیث: ۶۱۳۵)

 (2)…حضرت ابو الاحوص رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ اپنے والد سے ر وایت کرتے ہیں ، کہتے ہیں : میں  نے عرض کی: یا رسولَ  اللہ !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ فرمائیے کہ میں  ایک شخص کے یہاں  گیا، اس نے میری مہمانی نہیں  کی، اب وہ میرے یہاں  آئے تو اس کی مہمانی کروں  یا بدلا دوں ۔ ارشاد فرمایا: ’’بلکہ تم اس کی مہمانی کرو۔‘‘( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الاحسان والعفو، ۳ / ۴۰۵، الحدیث: ۲۰۱۳)

مل کر کھانے کے3فضائل:

            یہاں  آیت میں  مل کرکھانا کھانے کا ذکر ہوا اس مناسبت سے مل کر کھانے کے 3فضائل ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مل کر کھاؤاورالگ الگ نہ کھاؤ کیونکہ برکت جماعت کے ساتھ ہے۔‘‘( ابن ماجہ، کتاب الاطعمۃ، باب الاجتماع علی الطعام، ۴ / ۲۱، الحدیث: ۳۲۸۷)

(2)…ایک مرتبہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نے بارگاۂ رسالت میں  عرض کی: یا رسولَ  اللہ !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم کھانا تو کھاتے ہیں  لیکن سیر نہیں  ہوتے۔ ارشاد فرمایا: ’’تم الگ الگ کھاتے ہو گے۔‘‘ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نے عرض کی:جی ہاں !رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم مل بیٹھ کر کھانا کھایا کرو اور کھاتے وقت بِسْمِ  اللہ پڑھ لیا کرو تمہارے لئے کھانے میں  برکت دی جائے گی۔‘‘( ابو داؤد، کتاب الاطعمۃ، باب فی الاجتماع علی الطعام، ۳ / ۴۸۶، الحدیث: ۳۷۶۴)

(3)…حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند وہ کھانا ہے جسے کھانے والے زیادہ ہوں ۔‘‘( شعب الایمان،الثامن والستون من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی التکلّف للضیف عند القدرۃ علیہ، ۷ / ۹۸، الحدیث: ۹۶۲۰)

{فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا: پھر جب گھروں  میں  داخل ہو۔} ارشاد فرمایا کہ پھر جب گھروں  میں  داخل ہو تو اپنے لوگوں  کو سلام کرو، یہ ملتے وقت کی اچھی دعا ہے اور  اللہ تعالیٰ کے پاس سے مبارک پاکیزہ کلمہ ہے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۶۴)

گھر میں  داخل ہوتے وقت سلام کرنے سے متعلق دو شرعی مسائل:

            یہاں  گھر میں  داخل ہوتے وقت اہلِ خانہ کو سلام کرنے سے متعلق دو شرعی مسائل ملاحظہ ہوں :

(1)… جب آدمی اپنے گھر میں  داخل ہو تو اپنے اہلِ خانہ کو سلام کرے اور ان لوگوں  کو جو مکان میں  ہوں  بشرطیکہ وہ مسلمان ہوں ۔

(2)… اگر خالی مکان میں  داخل ہو جہاں  کوئی نہیں  ہے تو کہے: ’’ اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ وَرَحْمَۃُ  اللہ وَبَرَکَاتُہٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ  اللہ الصَّالِحِیْنَ اَلسَّلَامُ عَلٰی اَہْلِ الْبَیْتِ وَرَحْمَۃُ  اللہ وَبَرَکَاتُہٗ ‘‘ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا کہ مکان سے یہاں  مسجدیں  مُراد ہیں ۔ امام نخعی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  کہ جب مسجد میں  کوئی نہ ہو تو کہے ’’ اَلسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ  اللہ صَلَّی  اللہ  عَلَیْہِ  وَسَلَّمْ۔( الشفا، القسم الثانی، الباب الرابع فی حکم الصلاۃ علیہ، فصل فی الموطن التی یستحبّ فیہا الصلاۃ والسلام۔۔۔ الخ، ص۶۷، الجزء الثانی)

            ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے شفا شریف کی شرح میں  لکھا کہ خالی مکان میں  سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سلام عرض کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ اسلام کے گھروں  میں  روحِ اقدس جلوہ فرما ہوتی ہے۔( شرح الشفا، القسم الثانی، الباب الرابع فی حکم الصلاۃ علیہ والتسلیم، فصل فی الموطن التی یستحبّ فیہا الصلاۃ والسلام، ۲ / ۱۱۸)

24:62
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰۤى اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْهَبُوْا حَتّٰى یَسْتَاْذِنُوْهُؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۶۲)
ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر یقین لائے اور جب رسول کے پاس کسی ایسے کام میں حاضر ہوئے ہوں جس کے لیے جمع کیے گئے ہوں (ف۱۵۱) تو نہ جائیں جب تک ان سے اجازت نہ لے لیں وہ جو تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں (ف۱۵۲) پھر جب وہ تم سے اجازت مانگیں اپنے کسی کام کے لیے تو ان میں جسے تم چاہو اجازت دے دو اور ان کے لیے اللہ سے معافی مانگو (ف۱۵۳) بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ: ایمان والے تو وہی ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت سے مقصود مخلص مؤمنوں  کی تعریف اور منافقوں  کی مذمت بیان کرنا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ایمان والے تو وہی ہیں  جو  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائیں  اور جب کسی ایسے کام پر رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہوں  جو انہیں  رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  جمع کرنے والا ہو جیسے کہ جہاد، جنگی تدبیر، جمعہ، عیدین، مشورہ اور ہر اجتماع جو  اللہ تعالیٰ کے لئے ہو، تواس وقت تک نہ جائیں  جب تک ان سے اجازت نہ لے لیں  یا وہ خود انہیں  اجازت نہ دے دیں ۔ بیشک وہ جو آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اجازت مانگتے ہیں  وہی ہیں  جو  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاتے ہیں ، ان کا اجازت چاہنا فرمانبرداری کا نشان اور صحتِ ایمان کی دلیل ہے۔ پھر اے محبوب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب وہ اپنے کسی کام کے لیے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جانے کی اجازت مانگیں  تو ان میں  جسے تم چاہو اجازت دے دو اور ان کے لیے  اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو، بیشک  اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔( صاوی، النور، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۱۴۲۰-۱۴۲۱، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۷۹۲، ملتقطاً)

آیت ’’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ‘‘ سے معلوم ہونے والے اہم اُمور:

             اس آیت سے چند باتیں  معلوم ہوئیں ۔

(1) …حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مجلس پاک کا ادب یہ ہے کہ وہاں  سے اجازت کے بغیر نہ جائیں ، اسی لئے اب بھی روضۂ مُطَہَّر ہ پر حاضری دینے والے رخصت ہوتے وقت اَلْوِداعی سلام عرض کرتے ہوئے اجازت طلب کرتے ہیں ۔

(2)…اس آیت سے دربارِ رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب بھی معلوم ہوا کہ آئیں  بھی اجازت لے کر اورجائیں  بھی اِذن حاصل کرکے، جیسا کہ غلاموں  کا مولیٰ کے دربار میں  طریقہ ہوتا ہے۔

(3)…سلطانِ کونین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار کے آداب خود رب تعالیٰ سکھاتا ہے بلکہ اسی نے ادب کے قوانین بنائے۔

(4)…سرکارِ دو عالم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اجازت دینے یا نہ دینے میں  مختار ہیں ۔

(5)… حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت برحق ہے کہ رب تعالیٰ نے حضورِ انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شفاعت کا حکم دیا ہے۔

(6)… اللہ تعالیٰ مسلمانوں  پر بڑامہربان ہے کہ اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کے لئے دعائے خیر کا حکم دیتا ہے۔

(7)…ہر مؤمن سید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت کا      محتاج ہے کیونکہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُمْ جو اَولیائُ  اللہ کے سردار ہیں  ان کے متعلق شفاعت کا حکم دیا گیا تو اوروں  کا کیا پوچھنا۔

(8)… اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ افضل یہی ہے کہ حاضر رہیں  اور اجازت طلب نہ کریں ۔ یاد رہے کہ اساتذہ و مشائخ اور دینی پیشواؤں  کی مجلس سے بھی اجازت کے بغیر نہ جانا چاہیے۔

24:63
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًاۚ-فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۳)
رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے (ف۱۵۴) بیشک اللہ جانتا ہے جو تم میں چپکے نکل جاتے ہیں کسی چیز کی آڑ لے کر (ف۱۵۵) تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے (ف۱۵۶) یا ان پر دردناک عذاب پڑے (ف۱۵۷)

{لَا تَجْعَلُوْا: نہ بنالو۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!میرے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پکارنے کو آپس میں  ایسا نہ بنالو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اے لوگو!میرے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پکارنے کو آپس میں  ایسا معمولی نہ بنالو جیسے تم میں  سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے کیونکہ جسے رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پکاریں  اس پر جواب دینا اور عمل کرنا واجب اور ادب سے حاضر ہونا لازم ہوجاتا ہے اور قریب حاضر ہونے کے لئے اجازت طلب کر ے اور اجازت سے ہی واپس ہو۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اے لوگو! میرے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام لے کر نہ پکارو بلکہ تعظیم،تکریم، توقیر، نرم آواز کے ساتھ اور عاجزی و انکساری سے انہیں  ا س طرح کے الفاظ کے ساتھ پکارو: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، یَانَبِیَّ اللّٰہِ، یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ، یَااِمَامَ الْمُرْسَلِیْنَ، یَارَسُوْلَ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ، یَاخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں  اور وصالِ ظاہری کے بعد بھی انہیں  ایسے الفاظ کے ساتھ نِدا کرنا جائز نہیں  جن میں  ادب و تعظیم نہ ہو۔یہ بھی معلوم ہو اکہ جس نے بارگاہِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حقیر سمجھا وہ کافر ہے اور دنیا وآخرت میں  ملعون ہے۔( بیضاوی، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ۴ / ۲۰۳، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۳۶۵، صاوی، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ۴ / ۱۴۲۱، ملتقطاً)

            اسی لئے نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’یا محمد‘‘ کہہ کر پکارنے کی اجازت نہیں ۔ لہٰذا اگر کسی نعت وغیرہ میں  اس طرح لکھا ہوا ملے تو اسے تبدیل کردینا چاہیے۔

            نوٹ:حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’یا محمد‘‘ کہہ کر پکارنے سے متعلق مزید تفصیل ’’صراط الجنان‘‘ کی جلد1،صفحہ48پر ملاحظہ فرمائیں ۔

{قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ: بیشک  اللہ جانتا ہے۔} شانِ نزول :جمعہ کے دن منافقین پر مسجد میں  ٹھہر کر نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خطبے کا سُننا گراں  ہوتا تھا تو وہ چپکے چپکے، آہستہ آہستہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کی آڑ لے کر سرکتے سرکتے مسجد سے نکل جاتے تھے، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک  اللہ تعالیٰ ان لوگوں  کو جانتا ہے جو تم میں سے کسی چیز کی آڑ لے کر چپکے سے نکل جاتے ہیں  تو میرے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے اِعراض کرنے والے اور ان کی اجازت کے بغیر چلے جانے والے اس بات سے ڈریں  کہ انہیں  دنیا میں  تکلیف، قتل، زلزلے، ہولناک حوادث، ظالم بادشاہ کا مُسلَّط ہونا یا دل کا سخت ہو کر معرفت ِالٰہی سے محروم رہنا وغیرہ کوئی مصیبت پہنچے یا انہیں  آخرت میں  دردناک عذاب پہنچے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۳۶۵، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۷۹۲، ملتقطاً)

24:64
اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-قَدْ یَعْلَمُ مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِؕ-وَ یَوْمَ یُرْجَعُوْنَ اِلَیْهِ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْاؕ-وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠(۶۴)
سن لو ! بیشک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، بیشک وہ جانتا ہے جس حال پر تم ہو (ف۱۵۸) اور اس دن کو جس میں اس کی طرف پھیرے جائیں گے (ف۱۵۹) تو وہ انہیں بتادے گا جو کچھ انہوں نے کیا، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے، (ف۱۶۰)

{اَلَا: سُن لو!} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت و شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ سن لو!جو کچھ آسمانوں  اور زمین میں  ہے سب کا مالک  اللہ تعالیٰ ہی ہے، بیشک وہ تمہارے ہر اُس حال کو جانتا ہے جس پر تم ہو یعنی ایمان پر ہویا نفاق پر اور وہ اس دن کوجانتا ہے جس میں  لوگ اس کی طرف جزا کے لئے پھیرے جائیں  گے اور وہ دن روزِ قیامت ہے تو وہ انہیں  بتادے گا جو کچھ اچھا بُرا عمل انہوں  نے کیا اور  اللہ تعالیٰ ہر شے کو جاننے والا ہے اس سے کچھ چھپا نہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۳۶۵، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۷۹۳، ملتقطاً)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلنُّوْر
اَلنُّوْر
  00:00



Download

اَلنُّوْر
اَلنُّوْر
  00:00



Download