Surah an-Naziat
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًا: سختی سے جان کھینچنے والوں کی قسم۔} یعنی ان فرشتوں کی قسم! جو کافروں کے جسموں سے ان کی روح سختی سے کھینچ کر نکالتے ہیں ۔ (تفسیر بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۱۰)
{وَ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا: اور نرمی سے بند کھولنے والوں کی۔} یعنی ان فرشتوں کی قسم !جو مومنوں کے جسموں سے ان کی روحیں نرمی سے قبض کرتے ہیں ۔ (تفسیر بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۴۱۰)
مومن کی روح نرمی سے نکالی جاتی ہے:
حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام جب کسی مومن کی روح قبض فرماتے ہیں تو ا س کے ساتھ نرمی فرماتے ہیں ، چنانچہ حضرت خزرج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ایک انصاری صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سرہانے حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا تو ان سے فرمایا’’میرے صحابی پر نرمی کرنا کیونکہ یہ مومن ہے۔ حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ خوش ہو جائیں اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھیں بے شک میں ہر مومن کے ساتھ (روح نکالنے کے معاملے میں ) نرمی کرنے والا ہوں ۔( معجم الکبیر، باب الخائ، خزرج الانصاری، ۴ / ۲۲۰، الحدیث: ۴۱۸۸)
{وَ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا: اور آسانی سے تیرنے والوں کی۔} یعنی اوران فرشتوں کی قسم! جو (زمین اور آسمان کے درمیان) مومنین کی روحیں لے کر آسانی سے تیرنے والے ہیں ۔( تفسیر قرطبی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۱۳۶-۱۳۷، الجزء التاسع عشر)
{فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا: پھر آگے بڑھنے والوں کی۔} ارشاد فرمایا کہ پھران فرشتوں کی قسم جن کاوصف یہ ہے کہ وہ اپنی اس خدمت پر جلد پہنچتے ہیں جس پر وہ مقرر ہیں ۔ (روح البیان، النّازعات، تحت الآیۃ: ۴، ۱۰ / ۳۱۵)
{فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا: پھر کائنات کا نظام چلانے والوں کی۔ } یعنی ،پھر ان فرشتوں کی قسم!جو دنیا کے کاموں کا انتظام کرنے پر مقرر ہیں اور ان کاموں کو سر انجام دیتے ہیں ،ان تمام قسموں کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اے کفار ِمکہ ! تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ (بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۴۱۱)
ہر کام وسیلے کے ذریعے ہونا اللّٰہ تعالیٰ کا قانون ہے:
یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت تو یہ ہے کہ ہر چھوٹا بڑا کام کسی وسیلے کے بغیر خود اسی کے حکم سے ہو جائے، لیکن قانون یہ ہے کہ کام وسیلے کے ذریعے ہو کیونکہ دنیا کا ہر کام کائنات کا نظام چلانے پر مقرر فرشتوں کے سپرد ہے۔آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض نام اللّٰہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان مُشتَرک ہیں ، جیسے علی، سمیع، بصیر، انہیں میں سے مُدَبِّر بھی ہے کہ رب عَزَّوَجَلَّ بھی تدبیر فرمانے والا ہے اور فرشتے بھی مُدَبِّرات ِ اَمر یعنی کاموں کی تدبیر کرنے والے ہیں ۔
{یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ: جس دن تھرتھرانے والی تھر تھرائے گی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! تم اس دن ضرور زندہ کئے جاؤ گے جس دن (ایک سینگ میں ) پہلی پھونک ماری جائے گی تو ا س دن کی ہولناکی کی وجہ سے زمین اورپہاڑ شدید حرکت کرنے لگیں گے اور انتہائی سخت زلزلہ آ جائے گا اور تمام مخلوق مرجائے گی، پھر ا س پہلی پھونک کے بعد دوسری پھونک ماری جائے گی جس سے ہر چیز اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ کردی جائے گی۔ ان دونوں پھونکوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا۔( روح البیان، النّازعات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۱۰ / ۳۱۶-۳۱۷، بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۴ / ۴۱۱، ملتقطاً)
قیامت قریب ہے، جو کرنا ہے کر لو:
حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب رات کے دو تہائی حصے گزر جاتے تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اٹھتے اور ارشادفرماتے’’ اے لوگو! اللّٰہ تعالیٰ کویاد کرو، اللّٰہ تعالیٰ کویاد کرو۔ (قیامت کا) پہلا نَفخہ آن پہنچا اور دوسرا نفخہ اس کے تابع ہو گا، موت آپہنچی ہے، موت اپنی ان تکالیف کے ساتھ آ پہنچی ہے جو اس میں ہیں ۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۲۳-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۵) مراد یہ ہے کہ قیامت قریب ہے، جو کرنا ہے کر لو اور موت تمہارے سر پہ کھڑی ہے اس لئے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرلو۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہوسکے کرلے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ
دو دن کی اجالی ہے
{قُلُوْبٌ یَّوْمَىٕذٍ وَّاجِفَةٌ: دل اس دن خوفزدہ ہوں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دن (صُور میں ) پھونک ماری جائے گی تواس دن مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرنے والے کفار کا حال یہ ہو گا کہ برے اعمال اور قبیح اَفعال کی وجہ سے ان کے دل خوفزدہ ہوں گے اور اس دن کی دہشت اور ہَولْناکی کی وجہ سے ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔(روح البیان،النّازعات،تحت الآیۃ:۸-۹،۱۰ / ۳۱۷، مدارک،النّازعات، تحت الآیۃ: ۸-۹، ص ۱۳۱۷-۱۳۱۸، ملتقطاً)
{یَقُوْلُوْنَ: کافر کہتے ہیں ۔} اس آیت اوراس کے بعد والی 4 آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ جب کفار سے کہا جاتا ہے کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اُٹھائے جاؤ گے تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم موت کے بعد پھر زندگی کی طرف واپس کر دئیے جائیں گے؟کیا جب ہماری یہ حالت ہو جائے گی کہ ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر چکی ہوں گی تو پھر بھی ہم زندہ کئے جائیں گے؟پھر مذاق اڑانے کے طور پر وہ کہنے لگے کہ اگر موت کے بعد زندہ کیا جانا صحیح ہے اور ہم مرنے کے بعد اُٹھائے گئے تواس میں ہمارا بڑا نقصان ہے کیونکہ ہم دنیا میں اس بات کو جھٹلاتے رہے۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ تم مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو یہ نہ سمجھو کہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے یہ کام کچھ دشوار ہے، کیونکہ وہ قادر برحق ہے اور اس پر کچھ بھی دشوار نہیں تو جب اللّٰہ تعالیٰ تمہیں زندہ کرنے کاا رادہ فرمائے گا ،اس وقت وہ دوسری پھونک ایک ہَولْناک آواز ہی ہو گی اورا س کے بعد فوراً وہ زندہ ہو کرکھلے میدان میں آپڑے ہوں گے۔(خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۱۰-۱۴، ۴ / ۳۵۰-۳۵۱، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۴، ص۱۳۱۸، ملتقطاً)
{هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ مُوْسٰى: کیا تمہیں موسیٰ کی خبر آئی۔} جب قوم کا جھٹلانانبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو دشوار اور ناگوار گزرا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دل کی تسکین کے لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمایا جنہوں نے اپنی قوم سے بہت تکلیفیں پائی تھیں ،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی 11آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ مشرکین کے جھٹلانے کی وجہ سے غمگین نہ ہو ں کیونکہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کفارکی طرف سے ایسی باتیں پیش آتی رہتی ہیں ،آپ میرے کلیم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہی دیکھ لیں ،جب اسے اس کے رب عَزَّوَجَلَّ نے ملکِ شام میں طور پہاڑ کے قریب واقع پاک جنگل طُویٰ میں ندا فرما ئی کہ اے موسیٰ!تم فرعون کے پاس جاؤ، بیشک وہ سرکش ہوگیا ہے اور وہ کفر وفساد میں حد سے گزر گیا ہے اور اس سے کہو کہ کیا تجھے اس بات کی طرف کوئی رغبت ہے کہ تو ایمان قبول کر کے اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو کر کفر،شرک ، مَعْصِیَت اورنافرمانی سے پاکیزہ ہوجائے اور کیاتو اس بات کی طرف رغبت رکھتاہے کہ میں تجھے تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی ذات و صفات کی معرفت کی طرف راہ بتاؤں تاکہ تو اس کے عذاب سے ڈرے کیونکہ اس کے عذاب سے ڈر اسی وقت لگے گا جب اس کی تمہیں معرفت ہو گی ۔پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون کے پاس گئے اور انہوں نے فرعون کوروشن ہاتھ اور عصا کی بہت بڑی نشانی دکھائی تو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اس نشانی کو جادو کہنے لگا،پھر اس نے مقابلے اور فساد انگیزی کی کوشش کرتے ہوئے ایمان قبول کرنے سے منہ موڑ لیا اورا س نے جادوگروں کو اور اپنے لشکر وں کو جمع کیا ،جب وہ جمع ہو گئے تو فرعون نے انہیں پکارا اور ان سے کہا ’’ میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں ، میرے اوپر اور کوئی رب نہیں ،تو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں ا س طرح پکڑا کہ دنیا میں اسے غرق کر دیا اور آخرت میں جہنم میں داخل فرمائے گا۔ بے شک فرعون کے ساتھ جو کچھ ہوااس میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے عبرت ہے۔( خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۱۵-۲۶،۴ / ۳۵۱، مدارک،النّازعات، تحت الآیۃ: ۱۵-۲۶، ص۱۳۱۸-۱۳۱۹، ملتقطاً)
{ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ: کیا (تمہاری سمجھ کے مطابق) تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا؟} اللّٰہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والوں سے فرمایا کہ کیا تمہاری سمجھ کے مطابق تمہارے مرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کے لئے تمہیں دوبارہ بنانا مشکل ہے یا آسمان کو بنانا؟اس کے جواب میں تم یہی کہو گے کہ آسمان جیسی بڑی اور مضبوط چیز پیدا کرنے کے مقابلے میں انسان کو پیدا کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ وہ آسمان سے بہت چھوٹا اور کمزور ہے۔ تو جب تمہاری سمجھ کے مطابق تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا اللّٰہ تعالیٰ پرزیادہ آسان ہے تو پھر تم اس کا انکار کیوں کرتے ہیں حالانکہ تم جانتے ہو کہ زمین و آسمان کو اللّٰہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اس کا تم انکار بھی نہیں کرتے۔( خازن، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۳۵۱، ملخصاً)
{رَفَعَ سَمْكَهَا: اس کی چھت اونچی کی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی5آیات میں آسمان اور زمین کی تخلیق کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان کو بنایا اور کسی ستون کے بغیر اس کی چھت اونچی کی ،پھر اسے ایسا ٹھیک کیا کہ اس میں کہیں کوئی خَلَل نہیں اوراس کی رات کو تاریک کیا اور سورج کے نورکوظاہر فرما کر اس کی روشنی چمکائی اور اس کے بعد زمین پھیلائی جو پیدا تو آسمان سے پہلے فرمائی گئی تھی مگر پھیلائی نہ گئی تھی اوراس میں سے چشمے جاری فرما کر اس کا پانی اور اس کاچارہ نکا لا جسے جاندار کھاتے ہیں اور پہاڑوں کو روئے زمین پرجمایا تاکہ اس کو سکون ہو اور جو کچھ زمین سے نکالا ہے وہ تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدے کیلئے ہے۔( خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۲۸-۳۳، ۴ / ۳۵۱-۳۵۲، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۸-۳۳، ص۱۳۱۹، جلالین، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۸-۳۳، ص۴۸۹، ملتقطاً)
{فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى: پھر جب وہ عام سب سے بڑی مصیبت آئے گی۔} یہاں سے مخلوق کا اُخروی حال بیان کیا جا رہا ہے چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی7آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دوسری بار صُور میں پھونک ماری جائے گی اور اس وقت مردے زندہ کر دئیے جائیں گے تو اس دن آدمی کواپنے اعمال نامے دیکھ کر وہ تمام اچھے برے اعمال یا دآجائیں گے جو اس نے دنیا میں کئے تھے اور اس دن جہنم ظاہر کردی جائے گی اورتمام مخلوق اسے دیکھے گی تو وہ شخص جس نے سرکشی کی،نافرمانی میں حد سے گزرا اور کفر اختیار کیا اور دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی اور اپنی نفسانی خواہشات کا تابع ہوا تو بیشک جہنم ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے جس سے اسے نکالا نہیں جائے گا اور وہ جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور اس نے جانا کہ اسے قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حساب کے لئے حاضر ہونا ہے اور اس نے اپنے نفس کو حرام چیزوں کی خواہش سے روکا تو بیشک ثواب کاگھرجنت ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے۔(روح البیان ، النّازعات ، تحت الآیۃ : ۳۴- ۴۱ ، ۱۰ / ۳۲۶-۳۲۸، خازن، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳۴-۴۱، ۴ / ۳۵۲، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳۴-۴۱، ص۱۳۱۹-۱۳۲۰، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan