Surah an-Najm
{ وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰى: اور یہ کہ بیشک تمہارے رب ہی کی طرف انتہا ہے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ غم نہ کریں کیونکہ تمام مخلوق کی انتہا آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہے اور آخرت میں انہیں اسی کی طرف لوٹنا ہے،وہی نیک اور بد انسان کواس کے اعمال کی جزا دے گا۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہگار کو ڈراتے ہوئے اور نیکوکار کو ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے سننے والو! بے شک تمام مخلوق کی انتہا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہے،یہ بات اس لئے ارشاد فرمائی تاکہ گناہگار اپنے گناہوں سے باز آ جائے اور نیکوکار اپنے نیک اعمال اور زیادہ کرے۔(تفسیر طبری، النجم، تحت الآیۃ: ۴۲، ۱۱ / ۵۳۴، ، خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۴۲، ۴ / ۱۹۹-۲۰۰، ملتقطاً)
{ وَ اَنَّهٗ هُوَ اَضْحَكَ وَ اَبْكٰى: اور یہ کہ وہی ہے جس نے ہنسایااور رلایا۔} یعنی ایک ہی محل میں مختلف اوقات میں ایک دوسرے کے مخالف دو چیزوں ، رونے اور ہنسنے کو پیدا کرنے پر اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کی قضاء،قدرت اور اس کے پیدا کرنے سے ہیں ۔اس کے علاوہ مفسرین نے اس آیت کے اور معنی بھی بیان فرمائے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں ،
(1)… اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ جنت کو جنت میں داخل کر کے ہنسائے گا اور اہلِ جہنم کو جہنم میں داخل کر کے رُلائے گا۔
(2)… اللہ تعالیٰ دنیا والوں میں سے جسے چاہتا ہے ہنساتا ہے اور جسے چاہتا ہے رُلاتا ہے۔
(3)… اللہ تعالیٰ زمین کو نباتات کے ذریعے ہنساتا ہے اور آسمان کو بارش کے ذریعے رُلاتا ہے۔(خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۴۳، ۴ / ۲۰۰، تفسیر طبری، النجم، تحت الآیۃ: ۴۳، ۱۱ / ۵۳۴، ملتقطاً)
{ وَ اَنَّهٗ هُوَ اَمَاتَ وَ اَحْیَا: اور یہ کہ وہی ہے جس نے موت اور زندگی دی۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی دنیا میں موت دی اوروہی آخرت میں زندگی عطا فرمائے گا۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی باپ دادا کو موت دی اوران کی اولاد کو زندگی بخشی۔تیسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کوکفر کی موت سے ہلاک کیا اور ایمانداروں کو ایمانی زندگی بخشی۔( مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۱۱۸۳)
{ وَ اَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ: اور یہ کہ اسی نے دو جوڑے بنائے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب رحم میں نطفہ ڈالا جائے تو اس نطفہ سے انسانوں اورحیوانات کے نر اور مادہ دو جوڑے اللہ تعالیٰ نے ہی بنائے(روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۶، ۹ / ۲۵۵)اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت معلوم ہوئی کہ سانچہ ایک ہے مگر اس میں بننے والے برتن مختلف ہیں کہ ایک رحم، ایک ہی نطفہ مگر کبھی اس سے لڑکا بنتا ہے کبھی لڑکی،کبھی نر کبھی مادہ۔ سُبْحَانَ اللہ۔
{ وَ اَنَّ عَلَیْهِ النَّشْاَةَ الْاُخْرٰى: اور یہ کہ دوبارہ زندہ کرنااسی کے ذمہ ہے۔} اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ پر زندہ کرنا واجب ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت میں زندہ فرمانے کا وعدہ فرما لیا ہے اس لئے اپنے وعدے کو پورا فرمانے کے لئے اللہ تعالیٰ مخلوق کو اس کی موت کے بعد زندہ فرمائے گا۔( روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۹ / ۲۵۶)
{ وَ اَنَّهٗ هُوَ اَغْنٰى: اور یہ کہ وہی ہے جس نے غنی کیا۔} یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو مال ودولت سے نواز کر غنی کرتا ہے اور قناعت کی نعمت سے بھی وہی نوازتا ہے۔( روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۴۸، ۹ / ۲۵۶)
{ وَ اَنَّهٗ هُوَ رَبُّ الشِّعْرٰى: او ریہ کہ وہی شعریٰ کا رب ہے۔} شعریٰ ایک ستارہ ہے جو کہ شدید گرمی کے موسم میں جو زاء ستارے کے بعد طلوع ہوتاہے۔ دورِ جاہلیّت میں خزاعہ قبیلے کے لوگ اس کی عبادت کرتے تھے اوران میں سب سے پہلے عبادت کایہ طریقہ ان کے ایک سردار ابو کبشہ نے جاری کیا۔ اس آیت میں انہیں بتایا گیا کہ سب کا رب اللہ تعالیٰ ہے اور جس ستارے کی تم پوجا کرتے ہواس کا رب بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے لہٰذا صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔(مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۱۸۳، خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۴۹، ۴ / ۲۰۰، ملتقطاً)
{ وَ اَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَاﰳ الْاُوْلٰى: اور یہ کہ اسی نے پہلی عاد کو ہلاک فرمایا۔} قومِ عاد دو ہیں ،ایک حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ، یہ چونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سب سے پہلے تیز آندھی سے ہلاک ہوئے تھے ا س لئے انہیں پہلی عاد کہتے ہیں اور ان کے بعد والوں کو دوسری عاد کہتے ہیں کیونکہ وہ انہیں کی اولاد میں سے تھے۔(خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۴ / ۲۰۰)
{ وَ ثَمُوْدَاۡ فَمَاۤ اَبْقٰى: اور ثمود کو تو اس نے (کسی کو) باقی نہ چھوڑا۔}ثمود حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم تھی،اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے (حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی) چیخ سے ہلاک کیا اور ان میں سے کوئی بھی باقی نہ بچا۔(خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۲۰۰)
{ وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ: اور ان سے پہلے نوح کی قوم کو۔} یعنی عاد اور ثمود سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو غرق کرکے ہلاک کیا بیشک وہ ان عاد اور ثمودسے بھی زیادہ ظالم اور سرکش تھے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان میں ایک ہزار برس کے قریب تشریف فرمارہے ،لیکن انہوں نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت قبول نہ کی اور اُن کی سرکشی بھی کم نہ ہوئی۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۵۲، ۴ / ۲۰۰، جلالین، النجم، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۴۳۹، ملتقطاً)
{ وَ الْمُؤْتَفِكَةَ اَهْوٰى: اور اس نے الٹنے والی بستیوں کو نیچے گرایا۔} ان بستیوں سے مراد حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیاں ہیں جنہیں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اٹھا کر اوندھا کر کے زمین پر ڈال دیا اور ان بستیوں کو زیرو زبر کردیا۔ جلالین، النجم، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۴۳۹-۴۴۰)
{ فَغَشّٰىهَا مَا غَشّٰى: پھر ان بستیوں کو اس نے ڈھانپ لیاجس نے ڈھانپ لیا۔} یعنی بستیوں کو الٹنے کے بعداللہ تعالیٰ نے ان بستیوں کو نشان لگے ہوئے پتھروں کی خوفناک بارش سے ڈھانپ دیا۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ:۵۴، ۴ / ۲۰۱)
{ هٰذَا نَذِیْرٌ: یہ ایک ڈر سنانے والے ہیں ۔} یعنی اے لوگو! جس طرح پہلے ڈر سنانے والے اپنی قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے اسی طرح تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی ایک ڈر سنانے والے عظیم رسول ہیں جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں ۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۵۶، ۴ / ۲۰۱)
{ اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ: قریب آنے والی قریب آگئی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ قیامت قریب آ چکی ہے اور جب قیامت قائم ہونے کا وقت آئے گا تو اسے اللہ تعالیٰ ہی ظاہر فرمائے گا۔اسی سے متعلق ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْۚ-لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ ﲪ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً‘‘(اعراف:۱۸۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے ؟ تم فرماؤ: اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے، اسے وہی اس کے وقت پر ظاہر کرے گا، وہ آسمانوں او رزمین میں بھاری پڑ رہی ہے، تم پر وہ اچانک ہی آجائے گی۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ قیامت قریب آ گئی ہے اور جب قیامت قائم ہو گی تو اس کی ہَولناکیوں اور شدّتوں کو اللہ تعالیٰ کے سواکوئی دور نہیں کرسکتا اور اللہ تعالیٰ انہیں دور نہ فرمائے گا۔( مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۸، ص۱۱۸۴)
{ اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ: تو کیا اس بات پر تم تعجب کرتے ہو؟} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفارِ قریش کو مُخاطَب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہونے کی وجہ سے اس قرآن کا انکار کرتے ہو اور ا س کا مذاق اُڑاتے ہوئے ہنستے ہو اور اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کی جو وعیدیں اس میں بیان ہوئی ہیں انہیں سن کر روتے نہیں حالانکہ تم نافرمان ہو اور ا س قرآن میں ذکر کی گئی عبرت اور نصیحت انگیز باتوں سے غفلت میں پڑے ہوئے ہو اور اس کی آیتوں سے منہ پھیرتے ہو۔( تفسیر طبری، النجم، تحت الآیۃ: ۵۹-۶۱، ۱۱ / ۵۴۱)
{ فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ: تو اللہ کے لیے سجدہ کرو۔} یعنی اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے، اس کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ کرو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو کیونکہ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۲۰۱)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan