READ

Surah al-Qiyamah

اَلْقِيَامَة
40 Ayaat    مکیۃ


75:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

75:1
لَاۤ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَةِۙ(۱)
روزِ قیامت کی قسم! یاد فرماتا ہوں،

{لَاۤ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ: مجھے قیامت کے دن کی قسم ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مُشرکین مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرتے تھے ،اللّٰہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ جیسا تم گمان کرتے ہو درحقیقت ویسا نہیں  ہے ، مجھے قیامت کے دن کی قَسم ہے اور مجھے اس جان کی قسم ہے جو مُتَّقی اور کثرت سے نیکیاں  کرنے والی ہونے کے باوجود اپنے اوپر اپنی کوتاہیوں  کی وجہ سے ملامت کرے کہ تم مرنے کے بعد ضرور اٹھائے جاؤ گے۔( مدارک، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۱-۲، ص۱۳۰۲)

75:2
وَ لَاۤ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ(۲)
اور اس جان کی قسم! جو اپنے اوپر ملامت کرے (ف۲)

75:3
اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗؕ(۳)
کیا آدمی (ف۳) یہ سمجھتا ہے کہ ہم ہرگز اس کی ہڈیاں جمع نہ فرمائیں گے،

{اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ: کیا آدمی یہ سمجھتا ہے۔} شانِ نزول : یہ آیت عدی بن ربیعہ کے بارے میں  نازل ہوئی ،اس نے نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پوچھا:قیامت کب واقع ہو گی اور اس کے اَحوال کیسے ہوں  گے؟ نبی ٔاکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے بتایا تو اس نے کہا: اگر میں  قیامت کا دن دیکھ بھی لوں  تو بھی نہ مانوں  اور آپ پر ایمان نہ لاؤں، کیا اللّٰہ تعالیٰ بکھری ہوئی ہڈیاں  جمع کردے گا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کے معنی یہ ہیں  کہ کیا اس کافر کا یہ گمان ہے کہ ہڈیاں  بکھرنے ،گلنے ، ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں  ملنے اور ہواؤں  کے ساتھ اُڑ کر دور دراز مقامات میں  مُنْتَشِر ہوجانے سے ایسی ہوجاتی ہیں  کہ ان کوجمع کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے ،یہ فاسد خیال اس کے دِل میں  کیوں  آیاا وراس نے یہ کیوں  نہیں  جانا کہ جو پہلی بار پیدا کرنے پر قادر ہے وہ مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے پر ضرور قادر ہے۔یاد رہے کہ یہاں  آیت میں  آدمی سے مراد خاص عدی بن ربیعہ ہے یا ہر وہ کافر مراد ہے جو مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرتا ہے۔( خازن، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۳۳۳، روح البیان، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۲۴۴، ملتقطاً)

75:4
بَلٰى قٰدِرِیْنَ عَلٰۤى اَنْ نُّسَوِّیَ بَنَانَهٗ(۴)
کیوں نہیں ہم قادر ہیں کہ اس کے پور ٹھیک بنادیں (ف۴)

{بَلٰى: کیوں  نہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ کیا کافر یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں  کو جمع نہیں  کر سکتے ؟کیوں  نہیں  ،ہم اس کی ہڈیوں  کو جمع کر سکتے ہیں اور ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں  کہ اس آدمی کی انگلیاں  جیسی تھیں  کسی فرق کے بغیر ویسی ہی کردیں  اور اُن کی ہڈیاں  اُن کے مقام پر پہنچا دیں ، جب ہم چھوٹی چھوٹی ہڈیاں  اس طرح ترتیب دے سکتے ہیں  تو بڑی ہڈیوں  کا کیا کہنا ،انہیں  تو بدرجہ اَوْلیٰ ترتیب دے سکتے ہیں ۔( خازن، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۳۳، مدارک، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۳۰۲، ملتقطاً)

75:5
بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَهٗۚ(۵)
بلکہ آدمی چاہتا ہے کہ اس کی نگاہ کے سامنے بدی کرے (ف۵)

{بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ: بلکہ آدمی چاہتا ہے۔} مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان کئے ہیں  ،ان میں  سے 3 معانی درج ذیل ہیں :

(1)…اس کا معنی یہ ہے کہ انسان کا مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرنا کسی شُبہے اور دلیل نہ ہونے کی وجہ سے نہیں  ہے بلکہ حال یہ ہے کہ وہ سوال کرنے کے باوجود بھی اپنی بَدی پر قائم رہنا چاہتا ہے اور اِس کی دلیل یہ ہے کہ وہ مذاق اُڑانے کے طور پر پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہوگا ۔

(2) …حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: اس آیت کے معنی یہ ہیں  کہ آدمی مرنے کے بعد اٹھائے جانے اور قیامت کے دن حساب ہونے کو جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے سامنے ہے ۔

(3)…حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :اس آیت کے معنی یہ ہیں  کہ آدمی گناہ کو مُقَدَّم کرتا ہے اور توبہ کو مُؤخَّر کرتا ہے اور یہی کہتا رہتا ہے کہ اب توبہ کروں  گا، اب عمل کروں  گا یہاں  تک کہ اسے موت آجاتی ہے اور وہ اپنی بَدیوں میں  ہی مبتلا ہوتا ہے۔( جلالین مع جمل، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۸ / ۱۷۳-۱۷۴، خازن، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۳۴، ملتقطاً)

توبہ میں  تاخیر کا مرض ـ:

            فی زمانہ مسلمانوں  کی ایک تعداد ایسی ہے جس میں  یہ مرض پایا جاتا ہے کہ انہیں  گناہوں  سے رُک جانے اور ان سے توبہ کرنے کی ترغیب دی جائے اور شریعت کے اَحکامات پر عمل کرنے کا کہا جائے تو آگے سے یہ جواب دیتے ہیں کہ بھیا! ابھی تو بہت عمر پڑی ہے، جب بڑھاپا آئے گا تو گناہوں  سے توبہ بھی کر لیں  گے، نمازیں  بھی شروع کر دیں  گے،روزے بھی رکھنے لگیں  گے ، داڑھی بھی رکھ لیں  گے اور اللّٰہ اللّٰہ کرنے میں  مصروف ہو جائیں  گے لیکن ابھی تو ہم جوان ہیں  ، ابھی توہمارے عیش کرنے کے دن ہیں  اورابھی تو ہم نے دنیا دیکھی ہی کیا ہے جو اِن چیزوں  میں  مصروف ہو جائیں  اور بعض مسلمان تو ایسے بھی نظر آتے ہیں  کہ اگر ان کی اولاد میں  سے کوئی جوانی میں  گناہوں  سے دور بھاگنے لگے، نیکیوں  کی طرف راغب ہونے لگے،چہرے پہ داڑھی شریف سجا لے، نماز روزے کی پابندی شروع کر دے اور نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنتوں  پر عمل کرنے لگے تو اسے عمر لمبی ہونے کا کہہ کر ان چیزوں  سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں  اور طرح طرح سے اسے سمجھاتے ہیں ،مرنے یا ماردینے کی دھمکیا ں  دیتے ہیں  اور اسے گناہوں  بھری زندگی میں  لَوٹانے کے پورے پورے جَتَن کرتے ہیں  اور اگر وہ ان کی باتوں  میں  نہ آئے تو اسے گھر سے نکال دیتے اوراس کا سوشل بائیکاٹ کر دیتے ہیں  گویا کہ ان کے نزدیک اسلام کے اَحکام پر عمل کرنا ایسا سنگین جرم ہے جو ا س وقت تک معافی کے قابل نہیں  جب تک وہ ان احکام پر عمل کرنا چھوڑ نہیں  دیتا۔مسلمانوں  کی گناہوں  میں  مَشغولِیَّت، توبہ اور اپنی اصلاح سے دوری اور اسلام کے احکامات پر عمل نہ کرنے کا دُنْیَوی نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ مسلمان دنیا بھر  میں  کمزور اور مغلوب نظر آ رہے ہیں  اور کفّار مُسلم ممالک پر حملے کر کے ا ن کی اینٹ سے انیٹ بجا رہے ہیں  جبکہ آخرت میں  ا س چیزکا انجام کیا ہو گا وہ اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

وہ مُعَزّز تھے زمانے میں  مسلماں  ہو کر                 ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں  ہو کر

            توبہ میں  تاخیر کرنے کے حوالے سے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’ایمان دار توبہ کرنے کی خواہش تو رکھتا ہے لیکن محض سُستی اور کاہلی کے باعث اس سے توبہ کرنے میں  تاخیر ہو رہی ہوتی ہے اور وہ دل ہی دل میں  کہتا جاتا ہے کہ میں  کل توبہ کر لوں  گا، ابھی یہ خواہش تو پوری کر لوں  بعد میں  اس کا نام تک نہ لوں  گا ،تو ایسے شخص سے پوچھئے کہ تُو (توبہ کے معاملے میں ) ٹال مٹول کرنے میں  کیوں  مبتلاہے ؟تو کس خوش فہمی کا شکار ہے؟تو توبہ کرنے کے لئے آج کی بجائے کل کا کیوں  مُنْتَظر ہے؟کیا معلوم کہ تجھے کل کا دن نصیب ہی نہ ہو،اگر تم یہ گمان رکھتے ہو کہ آج کی بجائے کل توبہ آسان ہو گی تو اس خام خیالی کو اپنے دل سے نکال دے کیونکہ یہ محال ہے اور یہ غلط بات جتنی جلدی تیرے دل سے نکل جائے اتنا ہی (تیرے لئے) اچھا ہے کیونکہ جو مشکل آج تمہیں  درپیش ہے وہی کل بھی ہو سکتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے تمام دن ایک جیسے بنائے ہیں ،ان میں  کوئی دن خاص نہیں  کیا جس میں  شہوت کو ترک کرنا آسان ہو۔ ایسے شخص کی مثال یوں  سمجھئے کہ جب اسے کہا جائے کہ فلاں  درخت کو جڑوں  سے اکھیڑ دو تو وہ کہے کہ یہ درخت بہت مضبوط ہے اور میں  بہت کمزور ہوں ،اب تو اسے اکھیڑنا میرے بس کی بات نہیں  البتہ آئندہ سال میں  اسے اکھیڑ دوں  گا۔ ذرا اس احمق سے پوچھئے کہ کیا اگلے سال وہ درخت اور مضبوط نہیں  ہو چکا ہو گا اور تیری کمزوری مزید بڑھ نہ چکی ہو گی؟ بس یہی صورتِ حال خواہشات کے درخت کی ہے جو روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جاتا ہے اس لئے کہ وہ تو خواہشات اور لذات کا محکوم بن چکا ہے جس کی وجہ سے وہ خواہشات کے اَحکام پر تَسَلْسُل سے عمل پیرا ہے اور ا س کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ ان خواہشات کی غلامی کی بندش کی وجہ سے ان کے خلاف چلنا اس کے بس کا روگ نہیں  رہتا، لہٰذا اے انسان !جتنی جلدی تو خواہشات اور شہوات کے درخت کو اکھیڑ سکتا ہے اسے اکھیڑ دے کیونکہ اس میں  تیرا ہی فائدہ ہے۔( کیمیاء سعادت، رکن چہارم، اصل اول در توبہ، ۲ / ۷۷۳)

75:6
یَسْــٴَـلُ اَیَّانَ یَوْمُ الْقِیٰمَةِؕ(۶)
پوچھتا ہے قیامت کا دن کب ہوگا،

75:7
فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُۙ(۷)
پھر جس دن آنکھ چوندھیائے گی (ف۶)

{فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ: توجس دن آنکھ دہشت زدہ ہوجائے گی۔} اس سے پہلی آیت میں  بیان ہوا کہ کافر نے قیامت کے واقع ہونے کو بعید سمجھتے ہوئے مذاق اُڑانے کے طور پر اس کے بارے میں  سوال کیا کہ قیامت کب واقع ہو گی اور اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں  اللّٰہ تعالیٰ نے ا س کے سوال کا جواب دیتے ہوئے قیامت کی تین علامات بیان فرمائی ہیں ۔

(1)…اس دن کی ہَولناکی دیکھ کر آنکھ دہشت اور حیرت زدہ ہوجائے گی۔

(2)…چاندکی روشنی زائل ہوجائے گی جس سے وہ تاریک ہو جائے گا ۔

 (3)… سورج اور چاند کو ملادیا جائے گا۔ یہ ملا دینا طلوع ہونے میں  ہوگا کہ دونوں  مغرب سے طلوع ہوں  گے یا بے نور ہونے میں  ہو گا کہ دونوں  کی روشنی ختم ہوجائے گی۔( تفسیرکبیر،القیامۃ،تحت الآیۃ:۷-۹،۱۰ / ۷۲۳-۷۲۴، روح البیان،القیامۃ،تحت الآیۃ:۷-۹،۱۰ / ۲۴۵-۲۴۶،ملتقطاً)

75:8
وَ خَسَفَ الْقَمَرُۙ(۸)
اور چاند کہے گا (ف۷)

75:9
وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُۙ(۹)
اور سورج اور چاند ملادیے جائیں گے (ف۸)

75:10
یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَىٕذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّۚ(۱۰)
اس دن آدمی کہے گا کدھر بھاگ کر جاؤں (ف۹)

{یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَىٕذٍ: اس دن آدمی کہے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کا انکار کرنے والا انسان جب قیامت کے ان اَحوال کو دیکھے گاتو کہے گا:میں  اس نازل ہونے والی ہَولناکی سے بچنے کے لئے کس طرف بھاگ کر جاؤں ؟اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہاں  بھاگ جانا اسے کوئی فائدہ نہیں  دے گا کیونکہ اس طرح اسے نجات نہیں  مل جائے گی اور اس دن نہ ہی پہاڑ یا قلعہ وغیرہ ایسی کوئی پناہ ہوگی جہاں  جا کر وہ اللّٰہ تعالیٰ کے آجانے والے حکم سے بچ سکے۔( تفسیر طبری، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۱۲ / ۳۳۳، ملخصاً)

75:11
كَلَّا لَا وَزَرَؕ(۱۱)
ہرگز نہیں کوئی پناہ نہیں،

75:12
اِلٰى رَبِّكَ یَوْمَىٕذِ ﹰالْمُسْتَقَرُّؕ(۱۲)
اس دن تیرے رب ہی کی طرف جاکر ٹھہرنا ہے (ف۱۰)

{اِلٰى رَبِّكَ یَوْمَىٕذِ ﹰالْمُسْتَقَرُّ: اس دن تیرے رب ہی کی طرف جاکر ٹھہرنا ہے۔} یعنی جس دن یہ کام ہوں  گے جن کا اوپر ذکر ہوا اس دن تمام مخلوق اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حاضر ہوگی اور ان کے اعمال کا حساب کیا جائے گا اور انہیں  جزا دی جائے گی،اللّٰہ تعالیٰ جسے چاہے گااسے اپنی رحمت سے جنت میں  داخل کرے گا اورجسے چاہے گااسے اپنے عدل سے جہنم میں  ڈالے گا۔( جلالین مع جمل، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۸ / ۱۷۵، خازن، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۳۳۴، ملتقطاً)

75:13
یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَىٕذٍۭ بِمَا قَدَّمَ وَ اَخَّرَؕ(۱۳)
اس دن آدمی کو اس کا سب اگلا پچھلا جتادیا جائے گا (ف۱۱)

{یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَىٕذٍ: اس دن آدمی کو بتادیا جائے گا۔} اس آیت ا ور اس کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن آدمی کو اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پیش ہو کر مُحاسبہ کئے جانے اور اعمال کا وزن کئے جانے کے وقت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے سب اگلے پچھلے اور اچھے برے عمل بتا دئیے جائیں  گے بلکہ آدمی تو خبر دئیے جانے کا      محتاج ہی نہ ہوگا کیونکہ وہ خود ہی اپنے حال پر پوری نگاہ رکھنے والا ہوگا کہ اس کے نفس نے کون کون سے برے عمل کئے اور اس نے اپنے اَعضا ءسے کون کون سے برے کام سر انجام دئیے اور ممکن ہے کہ وہ اپنی طرف سے ان برے اعمال پر کوئی معذرت پیش کرے لیکن اگرچہ وہ اپنی سب معذرتیں  پیش کرڈالے جب بھی اسے نجات نہیں  ملے گی۔( روح البیان،القیامۃ، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۵،۱۰ / ۲۴۶-۲۴۷)

75:14
بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌۙ(۱۴)
بلکہ آدمی خود ہی اپنے حال پر پوری نگاہ رکھتا ہے،

75:15
وَّ لَوْ اَلْقٰى مَعَاذِیْرَهٗؕ(۱۵)
اور اگر اس کے پاس جتنے بہانے ہوں سب لا ڈالے،

75:16
لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖؕ(۱۶)
جب بھی نہ سنا جائے گا تم یاد کرنے کی جلدی میں قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو (ف۱۲)

{لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ: تم یاد کرنے کی جلدی میں  قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔} شانِ نزول:حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس وحی لے کر آتے تو حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے (پڑھنے کے) ساتھ اپنی زبان اور ہونٹوں  کو حرکت دیاکرتے تھے اور اس سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تکلیف ہوتی جو کہ دوسروں  کو بھی معلوم ہو جاتی تھی (اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یہ مشقت گوارا نہ فرمائی اور) سورہ ٔقیامہ میں  یہ آیات نازل فرمائیں : ’’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖؕ(۱۶) اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗۚۖ(۱۷) فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِـعْ قُرْاٰنَهٗۚ(۱۸) ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ‘‘ یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ یاد کرنے کی جلدی میں  قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں ،بیشک اس کوآپ کے سینۂ پاک میں  محفوظ کر دینا اور آپ کی زبان پراس کا پڑھنا جاری کردیناہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہماری جانب سے پڑھا جا چکے تواس وقت اس پڑھے ہوئے کی اِتباع کرواور جب ہماری طرف سے کچھ نازل ہو تو اسے غور سے سنیں  پھر اس کو بیان کرنا ہماری ذمہ داری ہے کہ اسے آپ کی زبان سے بیان کرا دیں ۔

            حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’اس کے بعد جب حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آتے تو نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنا سر ِانور جھکا لیتے اور جب وہ (وحی نازل کر کے) چلے جاتے تو حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسی طرح پڑھتے جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا۔( بخاری، کتاب تفسیر القرآن، سورۃ المدثر، باب قولہ: فاذا قرأناہ فاتبع قرآنہ، ۳ / ۳۶۹، الحدیث: ۴۹۲۹)

75:17
اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗۚۖ(۱۷)
بیشک اس کا محفوظ کرنا (ف۱۳) اور پڑھنا (ف۱۴) ہمارے ذمہ ہے،

{اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ: بیشک اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔} اس آیت سے 3 باتیں  معلوم ہوئیں،

(1)… درحقیقت قرآن کو جمع فرمانے والا اللّٰہ تعالیٰ ہے کہ اس نے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سینۂ مبارک میں  قرآنِ کریم کو ترتیب وار جمع فرمایا۔

(2)… حضورپُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کے حافظ ، قاری ، عالِم اور صاحبِ اَسرار ہیں  کسی مخلوق کے شاگرد نہیں ۔

(3)… حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیان پیغام رَساں  ہیں  نہ کہ حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے استاد ہیں ۔

{فَاِذَا قَرَاْنٰهُ: تو جب ہم اسے پڑھ لیں ۔} اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ کا حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے پڑھنے کو اپنی طرف منسوب کرنا ان کی عظمت و شرافت کی دلیل ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کئی کام بھی اپنی طرف منسوب کئے ہیں  جیسا کہ بیعتِ عقبہ میں  نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے 70 اَنصاری صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی جانیں  اور ان کے مال جنت کے بدلے میں  خریدے اور اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ‘‘(توبہ:۱۱۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللّٰہ نے مسلمانوں  سے ان کی جانیں  اور ان کے مال اس بدلے میں  خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے۔

            اور بیعتِ رضوان کے موقع پر حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بیعت لی اور ان کے ہاتھوں  پر اپنا ہاتھ رکھا اور اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ-یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ ‘‘(فتح:۱۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک جولوگ تمہاری بیعت کرتے ہیں  وہ تو اللّٰہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ، ان کے ہاتھوں  پر اللّٰہ کا ہاتھ ہے۔

            اورجنگ ِبدر میں  حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفّار کی طرف کنکریاں  پھینکی اور اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:     ’’وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى‘‘(انفال:۱۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اے حبیب!جب آپ نے خاک پھینکی تو آپ نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللّٰہ نے پھینکی تھی۔

{ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ: پھر بیشک اسے بیان فرمانا ہمارے ذمہ ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قرآن کے معانی اور اَحکام میں  سے جس چیز کو سمجھنا آ پ کو مشکل لگے تو اسے بیان کرنا اور اس کی باریکیوں  کو ظاہر فرمانا ہمارے ذمہ ہے۔( روح البیان،القیامۃ، تحت الآیۃ: ۱۹،۱۰ / ۲۴۸)

آیت ’’ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے3 مسئلے معلوم ہوئے:

 (1)… قرآن کا بیان قرآن نازل ہونے سے کچھ دیر بعد بھی ہوسکتا ہے۔

(2)… حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام صرف قرآن کے الفاظ لاتے تھے اور قرآن کے معانی ، اس کے اَحکام اور اَسرار بلاواسطہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا ہوتے تھے۔

(3) …حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بلا واسطہ اللّٰہ تعالیٰ سے سیکھنے والے ہیں  لہٰذا دنیا میں  کوئی آپ جیسا عالِم نہیں  ہوسکتا کیونکہ سب لوگ مخلوق سے علم حاصل کرتے ہیں  جبکہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خالق سے علم حاصل کیا۔

75:18
فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِـعْ قُرْاٰنَهٗۚ(۱۸)
تو جب ہم اسے پڑھ چکیں (ف۱۵) اس وقت اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو (ف۱۶)

75:19
ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗؕ(۱۹)
پھر بیشک اس کی باریکیوں کا تم پر ظاہر فرمانا ہمارے ذمہ ہے،

75:20
كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَۙ(۲۰)
کوئی نہیں بلکہ اے کافرو! تم پاؤں تلے کی (دنیاوی فائدے کو) عزیز دوست رکھتے ہو (ف۱۷)

{كَلَّا: خبردار!} اس آیت ا ور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرنے والے کافروں  سے فرمایا کہ اصل بات وہ نہیں  جو تم گمان کرتے ہو بلکہ تم ایسے لوگ ہو جوجلد جانے والی دنیا اور اس کی زندگی کوپسند کرتے ہو اور تم پر دُنْیَوی خواہشات کی محبت غالب آ چکی ہے حتّٰی کہ تم آخرت کے گھر اور اس کی نعمتوں  کو چھوڑرہے ہو، یہی وجہ ہے کہ تم انہیں  پانے کے لئے عمل نہیں  کرتے بلکہ ان کا انکار کرتے ہو۔( البحر المحیط، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۲۰-۲۱، ۸ / ۳۸۰، تفسیر قرطبی، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۲۰-۲۱، ۱۰ / ۷۹، الجزء التاسع عشر، ملتقطاً)

75:21
وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَؕ(۲۱)
اور آخرت کو چھوڑ بیٹھے ہو،

75:22
وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ(۲۲)
کچھ منہ اس دن (ف۱۸) تر و تازہ ہوں گے (ف۱۹)

{وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ: کچھ چہرے اس دن تر و تازہ ہوں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  مخلص مومنین کے بارے میں  فرمایا گیا کہ جب قیامت قائم ہو گی تو اس دن کچھ چہرے ایسے ہوں  گے جو اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت و کرم پر مَسرور ہوں  گے اور ان سے اَنوار پھوٹ رہے ہوں  گے اور انہیں  اللّٰہ تعالیٰ کے دیدار کی نعمت سے سرفراز کیا جائے گا۔( خازن، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۳، ۴ / ۳۳۵، روح البیان،القیامۃ، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۳،۱۰ / ۲۵۰)

جنتیوں  میں  سب سے زیادہ عزت والا شخص:

            حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ادنیٰ درجے کا جنتی اپنے باغات،بیویوں ،خادموں  اور تختوں  کو ہزار برس کی مسافت تک دیکھے گا،اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ان میں  سب سے زیادہ عزت والا وہ ہو گا جو صبح و شام اللّٰہ تعالیٰ کے دیدار سے مُشَرَّف ہوگا۔ اس کے بعد نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پڑھا: ’’وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ(۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ‘‘ ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ القیامۃ، ۵ / ۲۱۸، الحدیث: ۳۳۴۱)

{اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ: اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں  گے۔} اس آیت سے ثابت ہوا کہ آخرت میں  مومنین کو اللّٰہ تعالیٰ کا دیدارہو گا، یہی اہلِ سنت کا عقیدہ ہے اور اس پر قرآن و حدیث اور اِجماع کے کثیر دلائل قائم ہیں  اور یہ دیدار کسی کَیْفِیَّت اور جِہَت کے بغیر ہوگا۔

            نوٹ:اس عقیدے سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے سورۂ اَنعام کی آیت نمبر 103کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔

75:23
اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌۚ(۲۳)
اپنے رب کا دیکھتے (ف۲۰)

75:24
وَ وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍۭ بَاسِرَةٌۙ(۲۴)
اور کچھ منہ اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے (ف۲۱)

{وَ وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍۭ بَاسِرَةٌ: اور کچھ چہرے اس دن بگڑے ہوئے ہوں  گے۔} اس آیت سے کفار اور منافقین کاحال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قیامت کے دن کچھ چہرے ایسے ہوں  گے کہ جب وہ اپنی بدبختی کے آثار دیکھیں گے اور اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو جائیں  گے تو ان کا رنگ سیاہ ہو جائے گا اور ان سے خوشی کے آثار ختم ہو جائیں  گے۔( تفسیرکبیر، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۱۰ / ۷۳۳، ملخصاً)

{تَظُنُّ: سمجھتے ہوں  گے۔} یعنی جب وہ یہ اَحوال دیکھیں  گے تو انہیں  یقین ہو جائے گا کہ اب وہ عذاب کی شدت اور ہَولناک مَصائب میں  گرفتار کئے جائیں  گے۔ (خازن، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ۴ / ۳۳۶)

75:25
تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌؕ(۲۵)
سمجھتے ہوں گے کہ ان کے ساتھ وہ کی جائے گی جو کمر کو توڑ دے (ف۲۲)

75:26
كَلَّاۤ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَۙ(۲۶)
ہاں ہاں جب جان گلے کو پہنچ جائے گی (ف۲۳)

{كَلَّا: ہاں  ہاں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! جب تم نے آخرت میں  خوش نصیبوں  کی سَعادت اور بد بختوں  کی شَقاوت کے بارے میں  جان لیا تو تمہیں  معلوم ہو گیا ہو گا کہ آخرت کے مقابلے میں  دنیا کی کوئی حیثیت ہی نہیں  لہٰذا تم دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے سے باز آ جاؤ اور اپنے سامنے موجود موت کو پیش ِنظر رکھو جو کہ دنیا سے نکال کر آخرت کی طرف لے جانے والی ہے اور یاد رکھو کہ جب موت کے وقت کسی کی جان گلے کو پہنچ جائے گی اور ا س کے پاس موجود لوگ کہیں  گے کہ کوئی طبیب یا جھاڑ پھونک کرنے والا ہے جو اس کا علاج کرے یا دَم وغیرہ کرے تاکہ اسے شِفا حاصل ہو جائے لیکن وہ (اپنی کوششوں  کے باوجود) اس پر آنے والے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کو ٹال نہیں  سکیں  گے اور اس وقت مرنے والے کو یقین ہو جائے گا کہ اب یہ مال ،اولاد اور اہل ِخانہ سے جدائی اوراس کی محبوب دنیا سے نکل جانے کی گھڑی ہے۔( تفسیر طبری، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۸، ۱۲ / ۳۴۵-۳۴۶، ملتقطاً)

نیک اعمال کرنے کا وقت موت آنے سے پہلے تک ہےـ:

            اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کو بہتر بنانے کے لئے جس نے جو عمل کرنا ہے وہ موت آنے سے پہلے پہلے ہی کر سکتا ہے اور جب موت کا وقت آ جائے گا تو اس وقت عمل کرنے کا وقت ختم ہوجائے گا۔اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ-فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰) وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَاؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘(منافقون:۱۰، ۱۱)

ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہیں  جو رزق دیا اس سے اس وقت سے پہلے پہلے کچھ (ہماری راہ میں ) خرچ کرلو کہ تم میں  کسی کو موت آئے تو کہنے لگے، اے میرے رب! تو  نے مجھے تھوڑی سی مدت تک کیوں  مہلت نہ دی کہ میں  صدقہ دیتا اور صالحین میں  سے ہوجاتا۔ اور ہرگز اللّٰہ کسی جان کومہلت نہ دے گا جب اس کا مقررہ وقت آجائے اور اللّٰہ تمہارے کاموں  سے خوب خبردار ہے۔

            اورحضرت بسر بن حجاش قرشی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ایک مرتبہ رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے اپنا لعابِ دَہن اپنی ہتھیلی پر ڈالا اور اس پر شہادت کی انگلی رکھ کر فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: بندہ مجھے عاجز کرنا چاہتا ہے حالانکہ میں  نے اُسے اِس جیسی چیزسے پیدا کیا،جب اس کا سانس گلے میں  پہنچتا ہے تو کہتا ہے’’اب میں  صدقہ کرتا ہوں ‘‘ حالانکہ وہ صدقہ کرنے کا وقت نہیں ۔(ابن ماجہ، کتاب الوصایا، باب النہی عن الامساک فی الحیاۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۰۷، الحدیث: ۲۷۰۷)

            اورحضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ ایک انصاری صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بارگاہِ رسالت میں  حاضر ہو کر عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں  میں  سب سے زیادہ عقل مند اور پختہ ارادے والا کون ہے؟نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ وہ شخص جو سب سے زیادہ موت کویاد کرتا ہے اور موت آنے سے پہلے موت کی تیاری کرنے کے معاملے میں  سب سے زیادہ سخت ہے، یہی لوگ سب سے زیادہ عقلمند ہیں  (کیونکہ ) وہ دنیا کا شرف اور آخرت کی سعادت پا گئے۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۵ / ۳۱، الحدیث: ۶۴۸۸)

            اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  موت سے پہلے پہلے اپنی قبر و آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

75:27
وَ قِیْلَ مَنْٚ-رَاقٍۙ(۲۷)
اور کہیں گے (ف۲۴) کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرے (ف۲۵)

75:28
وَّ ظَنَّ اَنَّهُ الْفِرَاقُۙ(۲۸)
سمجھ لے گا کہ یہ جدائی کی گھڑی ہے (ف۲۷)

75:29
وَ الْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِۙ(۲۹)
اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی (ف۲۸)

{وَ الْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ: اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ موت کی سختی اور کَرْب سے انسان کے پاؤں  ایک دوسرے سے لپٹ جائیں  گے ۔دوسرا معنی یہ ہے کہ دونوں  پاؤں کفن میں لپیٹ دئیے جائیں  گے ۔تیسرا معنی یہ ہے کہ ایک سختی کے ساتھ دوسری سختی جمع ہو جائے گی ،یعنی ایک تودنیا سے جدائی کی سختی ہو گی اور اس کے ساتھ موت کی سختی بھی ہوگی یا ایک تو موت کی سختی ہو گی اور اس کے ساتھ آخرت کی سختیاں  بھی مل جائیں  گی۔( تفسیرقرطبی،القیامۃ،تحت الآیۃ:۲۹،۱۰ / ۸۳،الجزء التاسع عشر،خازن،القیامۃ،تحت الآیۃ:۲۹،۴ / ۳۳۶-۳۳۷،ملتقطاً)

75:30
اِلٰى رَبِّكَ یَوْمَىٕذِ-ﹰالْمَسَاقُ(۳۰)ﮒ
اس دن تیرے رب ہی کی طرف ہانکنا ہے (ف۱۹)

{اِلٰى رَبِّكَ یَوْمَىٕذِ ﹰالْمَسَاقُ: اس دن تیرے رب ہی کی طرف چلنا ہوگا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بندوں  کا رجوع اللّٰہ تعالیٰ کی طرف ہی ہے اورقیامت کے دن بندوں  کو آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہی چلنا ہوگا اور وہی ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔( خازن، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۳۳۷)

{فَلَا صَدَّقَ: تو کافر نے نہ تو تصدیق کی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ ابو جہل نے نہ تو قرآن کی تصدیق کی اور نہ ہی اللّٰہ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھی ،ہاں  ا س نے قرآن کوجھٹلایا اور ایمان لانے سے منہ پھیرا، پھر اپنے گھر کو اَکڑتا ہوا مُتکَبِّرانہ شان سے چلاگیا۔( خازن، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۳، ۴ / ۳۳۷)

            اس سے معلوم ہوا کہ کفّار اسلام کے فروعی اَحکام پر عمل کرنے کے ا س اعتبار سے مُکَلَّف ہیں  کہ قیامت کے دن ان اَحکام پر عمل نہ کرنے کا بھی ان سے مُؤاخذہ ہو گا یعنی جس طرح کافر کو ایمان نہ لانے پر سزا دی جائے گی اسی طرح نماز چھوڑنے پر بھی اسے سزا دی جائے گی اور اس کی مذمت کی جائے گی اگرچہ دنیا میں  کافر پر (ایمان قبول کرنے کے بعد سابقہ) نماز کی قضا واجب نہیں ۔( روح البیان، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۱۰ / ۲۵۶)

75:31
فَلَا صَدَّقَ وَ لَا صَلّٰىۙ(۳۱)
اس نے (ف۳۰) نہ تو سچ مانا (ف۳۱) اور نہ نماز پڑھی،

75:32
وَ لٰكِنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰىۙ(۳۲)
ہاں جھٹلایا اور منہ پھیرا (ف۳۲)

75:33
ثُمَّ ذَهَبَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ یَتَمَطّٰىؕ(۳۳)
پھر اپنے گھر کو اکڑتا چلا (ف۳۳)

75:34
اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰىۙ(۳۴)
تیری خرابی ا ٓ لگی اب آ لگی،

{اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى: تیرے لئے خرابی ہے پھر خرابی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے ابو جہل کومُخاطَب کر کے فرمایا کہ تیرے لئے بے ایمانی کی حالت میں  ذلت کی موت کی صورت میں خرابی ہے ،پھر قبر کی سختیوں  کی صورت میں  خرابی ہے ، پھر تیرے لئے مرنے کے بعد اٹھنے کے وقت مَصائب میں  گرفتار ہونے کی صورت میں  خرابی ہے،پھر جہنم کے عذاب کی صورت میں  خرابی ہے ۔

            حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’ہمیں  بتایا گیا ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں  تو نبی ٔکریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بطحا کی وادی میں  ابوجہل کے کپڑے پکڑ کر اس سے فرمایا: ’’اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰىۙ(۳۴) ثُمَّ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى‘‘ یعنی تیرے لئے خرابی ہے پھر خرابی ہے۔پھر تیرے لئے خرابی ہے پھر خرابی ہے۔ تو ابوجہل نے کہا :اے محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیا تم مجھے دھمکاتے ہو !تم اور تمہارا رب میرا کچھ نہیں  بگاڑ سکتے کیونکہ مکہ کے پہاڑوں  کے درمیان میں  سب سے زیادہ مضبوط،زور آور اور شوکت و قوت کا مالک ہوں ۔ (لیکن چونکہ قرآن کی خبر ضرور پوری ہونی تھی اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ضرور پورا ہونے والا تھا، اس لئے ایسا ہی ہوا اور) جنگ ِبدر میں  ابوجہل ذلت و خواری کے ساتھ بری طرح مارا گیا۔( مدارک، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۳۴-۳۵، ص۱۳۰۴، خازن، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۳۴-۳۵، ۴ / ۳۳۷، ملتقطاً)

اس امت کا فرعون:

            ابو جہل کے بارے میں  حدیث ِپاک میں  ہے، نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ہر امت میں  ایک فرعون ہوتا ہے اور میری امت کا فرعون ابوجہل ہے۔( مسند شاشی، مسند عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ، ما روی ابوعبیدۃ بن عبد اللّٰہ عن ابیہ، ۲ / ۳۳۱، الحدیث: ۹۲۲)

75:35
ثُمَّ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰىؕ(۳۵)
پھر تیری خرابی آ لگی اب آ لگی، (ف۳۴)

75:36
اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًىؕ(۳۶)
کیا آدمی اس گھمنڈ میں ہے کہ آزاد چھوڑ دیا جائے گا (ف۳۵)

{اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ: کیا آدمی اس گھمنڈ میں  ہے۔} ارشاد فرمایا : کیا آدمی اس گھمنڈ میں  ہے کہ اسے یوں  آزاد چھوڑ دیا جائے گا کہ نہ اسے کسی چیز کا حکم دیا جائے اور نہ اسے کسی چیز سے منع کیا جائے، نہ وہ مرنے کے بعد اُٹھایا جائے، نہ اس سے اعمال کا حساب لیا جائے اور نہ اُسے آخرت میں  جزا دی جائے ۔ ایسا نہیں  ہو گا بلکہ اسے دنیا میں  اَمر و نہی کا پابند کیا جائے گا،مرنے کے بعد اُٹھایا جائے گا،اس سے اعمال کا حساب لیا جائے گا اور آخرت میں  اسے اس کے اعمال کی جزا بھی دی جائے گی۔

ہمیں  آزاد نہیں  چھوڑا گیا:

            اس سے معلوم ہو اکہ ہمیں  بالکل آزاد نہیں  چھوڑا گیا کہ جیسے چاہیں  زندگی گزاریں  ،جیسے چاہیں  اعمال کریں  اور اپنی مرضی کے مطابق جس طرح اور جہاں  چاہے رہیں  بلکہ ہمیں  دنیا کی زندگی میں  اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے کچھ چیزوں  کا پابند کیا گیاہے اور کچھ چیزوں  سے منع کیاگیاہے اور زندگی گزارنے کے لئے ہمیں  ایک دائرۂ کار عطا کیا گیا ہے جس میں  رہ کر ہمیں  اپنی زندگی کے اَیّام پورے کرنے ہیں  اور ہمارے سامنے یہ بھی واضح کر دیاگیا ہے کہ ہمیں  مرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور پھر دنیامیں  جیسے اعمال کئے ہوں  گے ویسی جزا بھی ملے گی ،لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ خود کو شریعت کی پابندیوں  سے آزاد سمجھ کر زندگی نہ گزاری جائے بلکہ زندگی جینے کا جو طریقہ اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دیا ہے اسی کے مطابق زندگی بسر کی جائے کہ اسی میں  دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے اور جو شخص شریعت کے احکامات سے آزاد ہو کر جینا چاہتا ہے وہ بڑا بیوقوف اور بہت نادان ہے کہ وہ تھوڑے سے مزے کی خاطر ہمیشہ کے لئے خود کو ذلت و رُسوائی اور انتہائی دردناک عذاب میں  دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ لوگوں  کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور انہیں  شریعت کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

75:37
اَلَمْ یَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰىۙ(۳۷)
کیا وہ ایک بوند نہ تھا اس منی کا کہ گرائی جائے (ف۳۶)

{اَلَمْ یَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍّ: کیا وہ منی کا ایک قطرہ نہ تھا؟} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ اُس انسان کی یہ اَوقات کہا ں  ہے کہ وہ تکَبُّر کرے اور اپنے پیدا کرنے والے کی نافرمانی کرے جو منی کا وہ گندہ قطرہ تھا جسے عورت کے رحم میں  گرایا جاتا ہے، پھر وہ چالیس دن کے بعد منی سے خون کا لوتھڑا ہوگیا تواللّٰہ تعالیٰ نے اس سے انسان کو بنایا ،پھر اس کے اَعضاء کوکامل کیا اور اس میں  روح ڈالی تو اس منی سے اس نے مرد اور عورت کی صورت میں  دو قسمیں  بنائیں ۔(خازن، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۳۷-۳۹، ۴ / ۳۳۷، مدارک، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۳۷-۳۹، ص۱۳۰۴، ملتقطاً)

75:38
ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰىۙ(۳۸)
پھر خون کی پھٹک ہوا تو اس نے پیدا فرمایا (ف۳۷) پھر ٹھیک بنایا (ف۳۸)

75:39
فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَیْنِ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰىؕ(۳۹)
تو اس سے (ف۳۹) دو جوڑ بنائے (ف۴۰) مرد اور عورت،

75:40
اَلَیْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ یُّحْیِﰯ الْمَوْتٰى۠(۴۰)
کیا جس نے یہ کچھ کیا وہ مردے نہ جِلا سکے گا،

{اَلَیْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ: کیا وہ قادر نہیں  ہے؟} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مَروی ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب اس آیت ِکریمہ کی تلاوت فرماتے تو کہتے ’’سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ بَلٰی‘‘ یعنی اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تو (ہر نقص و عیب سے) پاک ہے ،کیوں  نہیں  (تو مُردوں  کو زندہ کرنے پر ضرور قادر ہے)۔( مصنف عبد الرزاق، کتاب الصلاۃ، باب الرجل یدعو ویسمّی فی دعائہ، ۲ / ۲۹۹، الحدیث: ۴۰۶۴)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْقِيَامَة
اَلْقِيَامَة
  00:00



Download

اَلْقِيَامَة
اَلْقِيَامَة
  00:00



Download