Surah Al-Mutaffifeen
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ: کم تولنے والوں کے لئے خرابی ہے۔} جب رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری ہوئی تو اس وقت یہاں کے لوگوں کا حال یہ تھا کہ وہ ناپ تول میں خیانت کرتے تھے اور خاص طور پر ابوجُہَینہ ایک ایسا شخص تھا جس نے چیزیں لینے اور دینے کے لئے دو جدا جدا پیمانے رکھے ہوئے تھے ۔ان لوگوں کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں اور اس آیت اور ا س کے بعد والی5آیات میں فرمایا گیا کہ کم تولنے والوں کیلئے خرابی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب دوسرے لوگوں سے ناپ لیں توپورا وصول کریں اور جب انہیں ناپ یا تول کردیں توکم کردیں ،کیا جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ یقین نہیں رکھتے کہ انہیں ایک عظمت والے دن کے لیے اٹھایا جائے گا اوراس دن ان سے ذرے ذرے کا حساب کیا جائے گا،اگر انہیں اٹھائے جانے کا یقین ہوتا تو ناپ تول میں کمی کرنے سے باز رہتے اور عظمت والا دن وہ ہے جس دن سب لوگ اپنی قبروں سے نکل کر ربُّ العالَمین کے حضور حساب اور جزاء کے لئے کھڑے ہوں گے۔( خازن، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۱-۶، ۴ / ۳۵۹-۳۶۰، مدارک، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۱-۶، ص۱۳۲۹، ملتقطاً)
ناپ ،تول صحیح رکھنے کا فائدہ اور نہ رکھنے کا نقصان:
یاد رہے کہ ناپ تول ایک انتہائی اہم معاملہ ہے کیونکہ تقریباً تمام لوگوں کو اَشیاء بیچنے اور خریدنے سے واسطہ پڑتا ہے اور زیادہ تر چیزوں کا بیچنا اور خریدنا انہیں ناپنے اور تولنے پر ہی مَبنی ہے، اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کام کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ‘‘(الرحمٰن:۷۔۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور آسمان کو اللّٰہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی۔ کہ تولنے میں نا انصافی نہ کرو۔اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔
اور ارشاد فرمایا: ’’لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ‘‘(حدید:۲۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل کی ترازو اتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ۔
اور صحیح ناپنے تولنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۳۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ماپ کرو تو پورا ماپ کرو اور بالکل صحیح ترازو سے وزن کرو ۔یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔
صحیح ناپنے اور تولنے کا انجام دنیا میں بھی بہتر ہوتا ہے کہ اس سے لوگوں کا اعتبار قائم رہتا ہے، تجارت میں خوب اضافہ ہوتا ہے اور رزق میں برکت ہوتی ہے اور آخرت میں بھی یقینا بہتر ہو گا کہ اِس حوالے سے لوگوں کا اُس پر کوئی حق نہیں ہوگا اور یوں لوگ اپناحق طلب کرنے کے لئے اسے نہیں پکڑیں گے ،یہ حرام رزق کھانے اور کھلانے کے عذاب سے بچ جائے گا اور ا س کے نیک اعمال محفوظ رہیں گے اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ان کے لئے زیرِ تفسیر آیات میں سخت وعید ہے اور ایسے لوگوں کے لئے درج ذیل حکایت میں بھی بڑی عبرت ہے،چنانچہ
حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ میں اپنے ایک پڑوسی کے پاس اس کے انتقال کے وقت گیا تو ا س نے مجھے دیکھ کر کہا: ’’اے مالک بن دینار! رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ، اس وقت مجھے اپنے سامنے آگ کے دو پہاڑ نظر آ رہے ہیں اور مجھ سے کہا جا رہا ہے کہ ان پہاڑوں پر چڑھو لیکن ان پر چڑھنا میرے لئے دشوار ہے۔میں نے اس کے گھر والوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو ان لوگوں نے بتایا کہ اس کے پاس غلہ ناپنے کے دو پیمانے ہیں ، ایک سے غلہ ناپ کر لیتا تھا اور دوسرے سے غلہ ناپ کر دیتا تھا۔حضرت مالک بن دینا ر رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں نے ان دونوں پیمانوں کو منگوایا اور انہیں ایک دوسرے پر رکھ کر توڑ دیا ،پھر میں نے اس شخص سے پوچھا کہ اب تمہارا کیا حال ہے؟اس نے جواب دیا میرے ساتھ ویسا ہی معاملہ ہے بلکہ اب پہلے سے زیادہ خراب ہو گیا ہے۔( منہاج العابدین،العقبۃ الخامسۃ، اصول سلوک طریق الخوف والرجاء، الاصل الثالث، ص۱۶۶)
اللّٰہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو صحیح ناپنے اور تولنے کی توفیق عطا فرمائے۔
{اَلَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ: وہ لوگ کہ جب دوسرے لوگوں سے ناپ لیں توپورا وصول کریں ۔} یہ ایک اَخلاقی تنبیہ ہے کہ جب یہ خود لیتے ہیں تو پورا وصول کرتے ہیں لیکن دوسروں کو دیتے ہوئے ڈنڈی مارتے ہیں جبکہ صحیح انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو اپنے ساتھ دوسرے کا چاہتاہے۔حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔( بخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحبّ لاخیہ ما یحبّ لنفسہ، ۱ / ۱۶، الحدیث: ۱۳)
{وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَ: اور جب انہیں ناپ یا تول کردیں توکم کردیں ۔} ناپ تول میں کمی کرنے کی تمام صورتیں ا س آیت میں داخل ہیں جیسے کپڑا ناپتے وقت لچک دار کپڑے کو کھینچ کر ناپنا،الاسٹک کو کھینچ کر ناپنا،باٹ کم رکھنا، باٹ تو پورا ہو لیکن تولنے میں ڈنڈی مار دینا، چیز کو زور سے ترازو میں رکھ کر فوراً اٹھا لینا،ترازو کے پلڑوں میں فرق رکھنا،ترازو کے جس حصے میں باٹ رکھے جاتے ہیں ا س کے نیچے کوئی چیز لگا دینا ،وزن کرنے کے الیکٹرونک آلات کی سیٹنگ میں یا میٹر میں تبدیلی کر کے کم تول کے دینا وغیرہ۔
{یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ: جس دن سب لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔} یعنی جس دن سب لوگ اپنے اعمال کے حساب اور ان کی جز اکے لئے رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے اس دن ان لوگوں کا ناپ تول میں کمی کرنا اور ان کی جزا ظاہر ہو جائے گی۔( جلالین، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۶، ص۴۹۳، روح البیان، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۳۶۵، ملتقطاً)
ربُّ العالَمین کی بارگاہ میں کھڑے ہوتے وقت لوگوں کا حال:
قیامت کے دن جب لوگ اپنی اپنی قبروں سے نکلیں گے اور حشر کے میدان میں جمع ہوں گے ،پھر اپنے اعمال کے حساب و کتاب اور ان کی جزاء کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے تو اس وقت ان کا حال کیا ہو گا،اس سے متعلق درج ذیل3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ بشیر نام کا ایک آدمی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں بیٹھا کرتا تھا،ایک مرتبہ وہ تین دن بعد بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا تو حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ا س کی بدلی ہوئی رنگت دیکھ کر ارشاد فرمایا’’اے بشیر! تیرا رنگ کیسے تبدیل ہو گیا؟اس نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، میں نے ایک اونٹ خریدا تھا، وہ مجھ سے بھاگ گیا تو میں تین دن تک اس کی تلاش میں لگا رہا اور میں نے ا س کے بارے میں کوئی شرط بھی نہیں رکھی تھی۔حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بھاگے ہوئے اونٹ کو تو واپس لوٹایا جا سکتا ہے،کیا اس کے علاوہ کسی اور چیز نے تیرا رنگ تو نہیں بدلا؟اس نے عرض کی :نہیں ۔ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ (آج تین دن تک اونٹ تلاش کرنے کی وجہ سے تیرا یہ حال ہو گیا ہے) تو اس دن تیرا کیا حال ہو گا جس کی مقدار 50,000سال ہے اور اس دن سب لوگ ربُّ العالَمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔( کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الافعال، الرّد بالعیب، ۲ / ۶۳، الجزء الرابع، الحدیث: ۹۹۵۰)
(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس دن تمام انسان پروردگارِ عالَم کے حضور کھڑے ہوں گے تو کوئی اس حال تک پہنچا ہوا ہو گا کہ کانوں کی لَو تک اپنے پسینے میں غرق ہو گا۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ ویل للمطفّفین، باب یوم یقوم الناس۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۷۴، الحدیث: ۴۹۳۸)
(3)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کی:مجھے خبر دیجئے کہ قیامت کے اس دن کھڑے ہونے پر کون قدرت رکھے گا جس کے بارے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ ’’یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: جس دن سب لوگ رب العالمین کےحضور کھڑے ہوں گے۔
رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ وہ دن مومن پر ہلکا کردیا جائے گا حتّٰی کہ اس پر ایک فرض نماز کی طرح ہوجائے گا ۔( مشکاۃ المصابیح ، کتاب احوال القیامۃ و بدء الخلق ، باب الحساب و القصاص والمیزان، الفصل الثالث، ۲ / ۳۱۷، الحدیث: ۵۵۶۳)
اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو قیامت کے دن کی شدّتوں اور حساب کی سختیوں سے پناہ مانگنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
{كَلَّاۤ اِنَّ كِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِیْ سِجِّیْنٍ: یقینا بیشک بد کاروں کا نامہ اعمال ضرور سجین میں ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 6 آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ بیشک وہ کتاب جس میں کافروں کے اعمال لکھے ہوئے ہیں سب سے نیچی جگہ سِجِّین میں ہے اور تم اس جگہ کی حقیقت نہیں جان سکتے کہ وہ کتنا ہَولْناک اور ہیبت کامقام ہے اور کافروں کا اعمال نامہ مُہرلگائی ہوئی ایک کتاب ہے جو نہ مٹ سکتی ہے نہ بدل سکتی ہے یہاں تک کہ اِن سے اُن اعمال کا حساب لے لیا جائے اور اُن اعمال پر انہیں سزا دے دی جائے اورجس دن اعمال نامے کی وہ کتاب نکالی جائے گی تو ا س دن اُن جھٹلانے والوں کیلئے خرابی ہے جو انصاف کے دن کو جھٹلاتے ہیں اور جزا ملنے کے دن یعنی قیامت کے منکر ہیں اور اس دن کو وہی جھٹلاتا ہے جس میں یہ تین باتیں پائی جاتی ہوں
(1)…وہ حق سے تجاوز کرنے والا ہو اور مخلوق کے ساتھ معاملات کرنے میں ان پر ظلم کرنے والا ہو ۔
(2)…اپنے اَفعال اوراَقوال میں اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے گناہوں میں مُنْہمِک ہو۔
(3)…جب اس کے سامنے قرآن کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی وحی نہیں بلکہ سابقہ لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔
یاد رہے کہ سِجِّین کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ ساتویں زمین کے نیچے ایک مقام ہے اور یہ مقام ابلیس اور اس کے لشکروں کا محل ہے۔( خازن ، المطفّفین ، تحت الآیۃ : ۷، ۴ / ۳۶۰ ، مدارک ، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۷-۹، ص۱۳۳۰، قرطبی، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۱۸۲، الجزء التاسع عشر، ملتقطاً)
{كَلَّا: ہرگز نہیں ۔} یعنی اس سرکش اور گناہگار کا یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن توسابقہ لوگوں کے قصوں ،کہانیوں کی بات ہے یعنی اس طرح کی باتیں کرکے اس کا اثر اپنے اوپر نہیں ہونے دیتے تو اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر و شرک جیسے برے اعمال کی شامت سے ان کے دل زنگ آلود اور سیاہ ہو گئے ہیں اسی وجہ سے وہ حق کو پہچان نہیں سکتے۔( روح البیان، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۸، ۱۰ / ۳۶۷۔)
گناہ دل کو میلا کردیتے ہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ گناہ دل کو میلا کرتے ہیں اور گناہوں کی زیادتی دل کے زنگ کا باعث ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پیدا ہوتا ہے، جب اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور توبہ واِستغفار کرلیتا ہے تو اس کادل صاف ہوجاتا ہے اور اگر پھر گناہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بڑھتا ہے یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور یہی رَان یعنی وہ زنگ ہے جس کا اس آیت میں ذکر ہوا۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ویل للمطفّفین، ۵ / ۲۲۰، الحدیث: ۳۳۴۵)
{كَلَّا: یقینا۔} یعنی یقینابیشک وہ کفارقیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے دیدار سے اسی طرح محروم ہوں گے جس طرح دنیا میں اس کی توحید کا اقرار کرنے سے محروم رہے۔
ایمان والوں کوآخرت میں اللّٰہ تعالیٰ کے دیدار کی نعمت نصیب ہو گی:
اس آیت سے ثابت ہوا کہ مؤمنین کو آخرت میں اللّٰہ تعالیٰ کے دیدار کی نعمت مُیَسَّر آئے گی کیونکہ دیدار سے محرومی کفار کے لئے وعید کے طور پر ذکر کی گئی اور جو چیز کفار کے لئے وعید اور تہدید ہو وہ مسلمان کے حق میں ثابت نہیں ہو سکتی ورنہ کافروں کی وہ خاص سزا ہی کیا جواُن کے ساتھ مسلمانوں کو بھی برابر مل رہی ہو،تواس سے لازم آیا کہ مؤمنین کے حق میں اللّٰہ تعالیٰ کے دیدار سے محرومی نہیں ہے ۔ حضرت امام مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:’’ جب اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے دشمنوں کو اپنے دیدار سے محروم کیا تو دوستوں کو اپنی تجلّی سے نوازے گا اور اپنے دیدار سے سرفراز فرمائے گااورحضرت امام شافعی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’یہ آیت ا س بات کی دلیل ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے محبوب بندے اس کا دیدار کریں گے۔( خازن، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۳۶۱)
{ثُمَّ اِنَّهُمْ لَصَالُوا الْجَحِیْمِ: پھر بیشک وہ ضرور جہنم میں داخل ہونے والے ہیں۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار اللّٰہ تعالیٰ کے دیدار سے محروم ہونے کے بعد جہنم میں داخل کر دئیے جائیں گے ،پھران سے جہنم کے خازن کہیں گے کہ یہ وہ عذاب ہے جسے تم دنیا میں جھٹلاتے تھے اور ا س کے واقع ہونے کا انکار کرتے تھے۔( مدارک، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ص۱۳۳۰)
{كَلَّا: یقینا ۔} اس سے پہلی آیات میں کفار کے اعمال ناموں کی جگہ بیان کی گئی اوراب یہاں سے اہلِ ایمان کے اعمال ناموں کی جگہ بیان کی جا رہی ہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک یقینا وہ کتاب جس میں سچے دل سے ایمان لانے والے نیک لوگوں کے اعمال لکھے ہیں ساتویں آسمان میں عرش کے نیچے سب سے اونچے مقام عِلِّیِّین میں ہے اور تجھے کیا معلوم کہ عِلِّیِّین کی شان کتنی عجیب ہے ا ور وہ کیسی عظمت والی ہے اور وہ اعمال نامے عِلِّیِّین میں مُہرلگائی ہوئی ایک کتاب ہے جس میں ان نیک لوگوں کے اعمال لکھے ہیں اور جب وہ کتاب علیین تک پہنچتی ہے تواللّٰہ تعالیٰ کے مُقَرّب فرشتے اس کی زیارت کرتے ہیں ۔( خازن، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۱۸-۲۱،۴ / ۳۶۱، جلالین، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۱۸-۲۱، ص۴۹۳، ملتقطاً)
{اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ: بیشک نیک لوگ ضرور چین میں ہوں گے۔} نیک لوگوں کے اعمال نامے کی جگہ بیان کرنے کے بعد اب ان کی جزا بیان کی جا رہی ہے،چنانچہ اس آیت اورا س کے بعد والی6 آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ بیشک اللّٰہ تعالیٰ کے اطاعت گزارنیک لوگ ضرور جنت کی نعمتوں میں ہوں گے ،وہ جنت میں تختوں پربیٹھ کر اللّٰہ تعالیٰ کے اِکرام اور اس کی نعمتوں کو دیکھ رہے ہوں گے جو اُس نے انہیں عطا فرمائیں اوروہ اپنے دشمنوں کو بھی دیکھ رہے ہوں گے جو کہ طرح طرح کے عذابات میں گرفتار ہوں گے۔جب تم ان کی طرف دیکھو گے تو تم ان کے چہروں میں نعمتوں کی تروتازگی پہچان لو گے کہ وہ خوشی سے چمکتے دمکتے ہوں گے اور دل کی خوشی کے آثار ان چہروں پر نمایاں ہوں گے اور جنت میں انہیں صاف ستھری خالص شراب پلائی جائے گی جس کے برتنوں پر مُہر لگائی ہوئی ہوگی اور اَبرار ہی ان کی مہر توڑیں گے، ان برتنوں پر لگی مہر مشک کی بنی ہوئی ہے اور للچانے والوں کو اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرف سبقت کرکے اور برائیوں سے باز رہ کر ،اسی پر للچانا چاہئے تاکہ انہیں مشک کی مہر لگی یہ شراب حاصل ہو اور اس شراب میں تسنیم ملی ہوئی ہے جو کہ جنت کی شرابوں میں سب سے اعلیٰ ہے اورتسنیم شراب کاوہ چشمہ ہے جس سے صرف اللّٰہ تعالیٰ کے مُقَرّب بندے پئیں گے اور باقی جنَّتیوں کی شرابوں میں شرابِ تسنیم کے چند قطرے ملائے جائیں گے۔( خازن،المطفّفین،تحت الآیۃ:۲۲-۲۸، ۴ / ۳۶۱-۳۶۲، مدارک، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۸، ص۱۳۳۱،ملتقطاً)
{اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا: بیشک مجرم لوگ۔} اس سے پہلی آیات میں آخرت میں اَبرار کو ملنے والی نعمتوں کو بیان کیا گیا اور اب یہاں سے مسلمانوں کو تسلی دینے کے لئے یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ دنیا میں کفار کس طرح مسلمانوں کا مذاق اڑاتے اور ان پر ہنستے تھے اور آخرت میں معاملہ ا س کے برعکس ہو گا،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی7آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک مجرم لوگ جیسے ابوجہل ، ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل وغیرہ کفار کے سردار ایمان والوں جیسے حضرت عمار، حضرت خباب ،حضرت صہیب اورحضرت بلال وغیرہ غریب مؤمنین پر ہنسا کرتے تھے اور جب وہ غریب مومنین ان مالدار کافر سرداروں کے پاس سے گزرتے تو یہ سردارآپس میں طعن کے طور پر ان مومنین پر آنکھوں سے اشارے کرتے تھے اور جب یہ کافر اپنے گھروں کو لوٹتے تومسلمانوں کو برا کہہ کر آپس میں اُن کی ہنسی بناتے اور خوش ہوتے ہوئے لوٹتے اور جب مسلمانوں کو دیکھتے توکہتے: بیشک یہ لوگ بہکے ہوئے ہیں کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر ایمان لے آئے اور دنیا کی لذتوں کو آخرت کی امیدوں پر چھوڑ دیا۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ان کافروں کو مسلمانوں پر نگہبان بناکر نہیں بھیجا گیا کہ وہ اُن کے احوال اور اعمال پر گرفت کریں بلکہ ان کفار کو اپنی اصلاح کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنا حال درست کریں ، دوسروں کو بے وقوف بتانے اور ان کی ہنسی اڑانے سے یہ لوگ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، تو جس طرح کافر دنیا میں مسلمانوں کی غربت اور محنت پر ہنستے ہیں اسی طرح قیامت کے دن ایمان والے کافروں پر ہنسیں گے اور قیامت کے دن معاملہ اس کے برعکس ہو گا کہ ایمان والے دائمی عیش اور راحت میں ہوں گے اور کافر ذلت و خواری کے دائمی عذاب میں ہوں گے ،جب جہنم کا دروازہ کھولا جائے گا تو کافر جہنم سے نکلنے کے لئے دروازے کی طرف دوڑیں گے اور جب وہ دروازہ کے قریب پہنچیں گے تو دروازہ بند ہوجائے گا اوران کے ساتھ بار بار ایسا ہی ہوگا اور کافروں کی یہ حالت دیکھ کر مسلمان اُن پر ہنسیں گے اور مسلمانوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ جنت میں جواہرات کے تختوں پر بیٹھ کر کفار کی ذلت و رسوائی اورعذاب کی شدت کودیکھ رہے ہوں گے اور اس پر ہنستے ہوں گے اور کافروں کو ان کے کئے ہوئے ان اعمال ہی کا بدلہ دیا جائے گا جو اُنہوں نے دُنیا میں کئے تھے کہ مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے اور ان پر ہنستے تھے۔بعض مفسرین نے ان آیات کے شانِ نزول میں یہ روایت بھی ذکر کی ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ تشریف لے جارہے تھے، منافقین نے انہیں دیکھ کر آنکھوں سے اشارے کئے اور مَسْخری سے ہنسے اور آپس میں ان حضرات کے حق میں بے ہودہ کلمات کہے، تو حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں پہنچنے سے پہلے ہی یہ آیتیں نازل ہوگئیں ۔( تفسیرکبیر،المطفّفین،تحت الآیۃ: ۲۹-۳۶، ۱۱ / ۹۴-۹۵، خازن، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۶، ۴ / ۳۶۲، مدارک، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۶، ص۱۳۳۱-۱۳۳۲، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan