READ

Surah al-Mulk

اَلْمُلْك
30 Ayaat    مکیۃ


67:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

67:1
تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ٘- وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُۙ(ﰳ۱)
بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضہ میں سارا ملک (ف۲) اور وہ ہر چیز پر قادر ہے،

{تَبٰرَكَ: وہ بڑی برکت والا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ اپنی ذات میں  ،صفات میں  اور اَفعال میں  اَزل سے لے کر اَبد تک مخلوق کی صفات سے پاک ہے اور صرف اسی کے قبضۂ قدرت میں  تمام اُمور میں  ہر طرح کا تَصَرُّف ہے ،لہٰذا وہ جس چیز کا چاہے حکم دے اور جس چیز سے چاہے منع کر دے ،جو چاہے عطا کرے اور جو چاہے نہ دے،جسے چاہے زندگی دے اور جسے چاہے موت دے،جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت دے،جسے چاہے غریب بنا دے اور جسے چاہے امیر کر دے،جسے چاہے بیمار کر دے اور جسے چاہے شفا عطا کر دے،جسے چاہے قریب کر دے اور جسے چاہے دور کر دے ،جسے چاہے آباد کر دے اور جسے چاہے برباد کر دے،جسے چاہے توڑ دے اور جسے چاہے ملا دے اور وہ ہر ا س چیز پر قادر جو اس کی قدرت کے تحت آنے کے لائق ہے۔( صاوی، الملک، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۲۱۹۹، روح البیان، الملک، تحت الآیۃ: ۱، ۱۰ / ۷۳، مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۲۶۱، ملتقطاً)

اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت و شان:

            اپنی اسی شان کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ٘-وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُؕ-بِیَدِكَ الْخَیْرُؕ-اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘(ال عمران:۲۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: یوں  عرض کرو، اے اللّٰہ!مُلک کے مالک! تو جسے چاہتاہے سلطنت عطا فرماتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے اور توجسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے ،تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں  ہے، بیشک تو ہر شے پر قدرت رکھنے والاہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے : ’’اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘(مائدہ:۴۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تجھے معلوم نہیں  کہ آسمانوں  اور زمینکی بادشاہی اللّٰہہی کے لئے ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے سزا دیتاہے اور جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور اللّٰہ ہر شے پرقادرہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَۙ(۴۹) اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ‘‘(شوری:۴۹،۵۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: آسمانوں  اور زمین کی سلطنت اللّٰہ ہی کے لیے ہے ۔ وہ جو چاہے پیدا کرے ۔جسے چاہے بیٹیاں  عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے۔یا بیٹے اور بیٹیاں دونوں  ملا دے اور جسے چاہے بانجھ کردے،بیشک وہ علم والا، قدرت والا ہے۔

67:2
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُۙ(۲)
وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو (ف۳) تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے (ف۴) اور وہی عزت والا بخشش والا ہے،

{اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ: وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ۔} یہاں  سے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے بعض آثار بیان کئے جا رہے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ۔ موت (انسانوں  اور حیوانوں  میں ) روح کے جسم سے جدا ہو جانے اورحواس کی طاقت زائل ہوجانے کا نام ہے جبکہ زندگی جسم میں  روح کے وجود کے ساتھ حواس کی طاقت باقی رہنے کا نام ہے اور پیدا کرنے سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کو وجود بخشنا ،اس سے معلوم ہوا کہ موت وجود ی چیز ہے کیونکہ محض عَدمی چیز پیدا نہیں  ہو سکتی ۔( خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۸۹، تفسیر کبیر، الملک، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۵۷۹، ملتقطاً)

{لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا: تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں  کون زیادہ اچھے عمل کرنے والا ہے۔}  یہاں  زندگی اور موت پیدا کرنے کی حکمت بیان کی جا رہی ہے کہ اے لوگو! اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری موت اور زندگی کو اس لئے پیدا کیا تاکہ دنیا کی زندگی میں  وہ اپنے اَحکامات اور مَمنوعات کے ذریعے تمہاری آزمائش کرے کہ کون زیادہ فرمانبردار ، مخلص اور شریعت کے بیان کردہ طریقے کے مطابق عمل کرنے والا ہے اور کوئی اپنے برے اعمال کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کو عاجز نہیں  کر سکتا کیونکہ وہ غالب ہے اور گناہگاروں  میں  سے جو توبہ کرے اسے وہ بخشنے والا ہے۔( مدارک ، الملک ، تحت الآیۃ : ۲ ، ص۱۲۶۱، روح البیان، الملک، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۷۶، ابو سعود، الملک، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۷۴۳، ملتقطاً)

بندے کا ہر عمل اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور شرعی طریقے کے مطابق ہونا چاہئے:

          اس آیت سے معلوم ہو اکہ بندے کا ہر عمل خالص اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور شریعت کے بیان کردہ طریقے کے مطابق ہونا چاہئے، لہٰذا  جس کا عمل خالص اللّٰہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے کے لئے ہو لیکن شریعت کے بیان کردہ طریقے کے مطابق نہ ہو تو وہ عمل مقبول نہیں ، اسی طرح جس کا عمل شریعت کے بیان کردہ طریقے کے مطابق تو ہو لیکن وہ خالص اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نہ ہو بلکہ ریا کاری اور نفاق کے طور پر ہو تو وہ عمل بھی مقبول نہیں ۔ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا‘‘(کہف:۱۱۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان:  تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں  کسی کو شریک نہ کرے۔

            حضرت فضیل بن عیاض  رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’جب عمل خالص ہو لیکن درست نہ ہوتو اسے قبول نہیں  کیا جائے گا اور جب عمل درست تو ہو لیکن خالص نہ ہو تویہ بھی قبول نہیں  کیا جائے گا،عمل صرف وہی مقبول ہے جو خالص اور درست ہو اور عمل خالص اس وقت ہو گا جب اسے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کیا جائے اور درست اس وقت ہو گا جب وہ سنت(یعنی شریعت کے بتائے ہوئے طریقے ) کے مطابق ہو گا۔( جامع العلوم والحکم، الحدیث الاول، ص۲۴)

            اس سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو شریعت کے بیان کردہ طریقے کے مطابق عمل نہیں  کرتے اور اگر انہیں  کوئی سمجھائے تو اپنا عمل درست کرنے کی بجائے یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ قبول کرے گا۔

ہمیں  زندگی عطاکئے جانے اور ہم پر موت مُسَلَّط کئے جانے کی حکمت:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمیں  زندگی عطاکئے جانے اور ہم پر موت مسلّط کئے جانے کی حکمت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے معاملے میں  ہماری جانچ ہو جائے کہ ہم میں  سے کون اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے اور کیسی اطاعت کرتا ہے تاکہ آخرت میں  جب ا طاعت گزاروں  کو انعامات ملیں  اور نافرمانوں  کو سزائیں  ملیں  تو کوئی یہ اعتراض نہ کر سکے کہ اطاعت گزاروں  کو انعامات اور نافرمانوں  کو سزا کیوں  ملی۔یاد رکھیں  کہ دنیا کی زندگی ایک دن ضرور ختم ہو جائے گی جبکہ آخرت کی زندگی ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، جیساکہ  اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌؕ-وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ‘‘(عنکبوت:۶۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کودہے اور بیشک آخرت کا گھر ضرور وہی سچی زندگی ہے۔کیا ہی اچھا تھا اگر وہ (یہ) جانتے ۔

              اور ارشاد فرمایا: ’’وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَاۚ-وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(قصص:۶۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور(اے لوگو!) جو کچھ چیز تمہیں  دی گئی ہے تو وہ دنیوی زندگی کا سازو سامان اور اس کی زینت ہے اور جو(ثواب) اللّٰہ کے پاس ہے وہ بہتر اور زیادہ باقیرہنے والا ہے تو کیا تم سمجھتے نہیں  ؟

             اور دنیا کی رنگینیوں  اور رونقوں سے بھی ہمیں  آزمایا جا رہاہے کہ ہم کیسے عمل کرتے ہیں ۔چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:  ’’اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا‘‘(کہف:۷ )

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ہم نے زمین پر موجود چیزوں کوزمین کیلئے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں  آزمائیں  کہ ان میں  عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے۔

            اسی طرح ہمیں  پیدا کرنے اور اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جو نعمتیں  پیدا کی ہیں  ،ان کے ذریعے بھی ہمارے اعمال کی آزمائش ہو رہی ہے،جیساکہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا‘‘(ہود:۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہی ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو چھ دن میں  بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا(تمہیں  پیدا کیا )تا کہ تمہیں  آزمائے کہ تم میں  کون اچھے عمل کرتا ہے۔

            اور وہ لوگ جو دنیا کی زندگی میں  ایمان لائے اور انہوں  نے نیک اعمال کئے ان کے بارے میں  اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًاۚ(۳۰) اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ یَلْبَسُوْنَ ثِیَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّ اِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِـٕیْنَ فِیْهَا عَلَى الْاَرَآىٕكِؕ-نِعْمَ الثَّوَابُؕ-وَ حَسُنَتْ مُرْتَفَقًا‘‘(کہف:۳۰،۳۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیکاعمال کئے ہم ان کا اجر ضائع نہیں  کرتے جو اچھے عمل کرنے والے ہوں ۔ ان کے لیے ہمیشگی کے باغات ہیں  ان کے نیچے نہریں  بہتی ہیں  ، انہیں  ان باغوں  میں  سونے کے کنگن پہنائے جائیں  گے اور وہ سبز رنگ کے باریک اور موٹے ریشم کے کپڑے پہنیں  گے وہاں  تختوں  پر تکیے لگائے ہوئے ہوں  گے۔ یہ کیا ہی اچھا ثواب ہے اور جنت کی کیا ہی اچھی آرام کی جگہ ہے۔

             اور جنہوں  نے کفر کیا اور گناہوں  میں  مصروف رہے ان کے بارے میں  ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَةٍۭ بِمِثْلِهَاۙ-وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ-مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍۚ-كَاَنَّمَاۤ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًاؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘(یونس:۲۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جنہوں  نے برائیاں  کمائیں  تو برائی کا بدلہ اسی کے برابر ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوگی،انہیں  اللّٰہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، گویا ان کے چہروں کواندھیری رات کے ٹکڑوں  سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔وہی دوزخ والے ہیں ، وہ اس میں  ہمیشہ رہیں  گے۔

                لہٰذا ا ے لوگو! ’’اِسْتَجِیْبُوْا لِرَبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِؕ-مَا لَكُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ یَّوْمَىٕذٍ وَّ مَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِیْرٍ‘‘(شوری:۴۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اس دن کے آنے سے پہلے اپنے رب کا حکم مان لو جو اللّٰہ کی طرف سے ٹلنے والا نہیں ۔اس دن تمہارے لئے کوئی پناہ نہ ہوگی اور نہ تمہارے لئے انکار کرنا ممکن ہوگا ۔

67:3
الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاؕ-مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍؕ-فَارْجِعِ الْبَصَرَۙ-هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ(۳)
جس نے سات آسمان بنائے ایک کے اوپر دوسرا، تو رحمٰن کے بنانے میں کیا فرق دیکھتا ہے (ف۵) تو نگاہ اٹھا کر دیکھ (ف۶) تجھے کوئی رخنہ نظر آتا ہے،

{اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا: وہ جس نے ایک دوسرے کے اوپرسات آسمان بنائے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے آثار میں  سے یہ ہے کہ اس نے کسی سابقہ مثال کے بغیر ایک دوسرے کے اوپرسات آسمان بنائے۔ہر آسمان دوسرے کے اوپر کمان کی طرح ہے اور دنیا کا آسمان زمین کے اوپر گنبد کی طرح ہے اور ایک آسمان کا فاصلہ دوسرے آسمان سے کئی سوبرس کی راہ ہے۔ تو اے بندے! تو اللّٰہ تعالیٰ کے بنانے میں  کوئی فرق اور کوئی عیب نہیں  دیکھے گا بلکہ انہیں  مضبوط،درست،برابر اور مُتَناسِب پائے گا۔تو آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ تا کہ تو اپنی آنکھوں  سے اس خبر کے درست ہونے کو دیکھ لے اور تیرے دل میں  کوئی شبہ باقی نہ رہے،پھر دوبارہ نگاہ اٹھا اور باربار دیکھ، ہر بارتیری نگاہ تیری طرف ناکام ہو کر تھکی ماندی پلٹ آئے گی کہ بار بار کی جُستجُو کے باوجود بھی وہ ان میں کوئی خَلَل اور عیب نہ پاسکے گی۔(خازن،الملک، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۴ / ۲۸۹-۲۹۰، مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۳-۴، ص۱۲۶۱-۱۲۶۲، روح البیان، الملک، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۱۰ / ۷۸-۷۹، ملتقطاً)

67:4
ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِیْرٌ(۴)
پھر دوبارہ نگاہ اٹھا (ف۷) نظر تیری طرف ناکام پلٹ آئے گی تھکی ماندی (ف۸)

67:5
وَ لَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَ جَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ وَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ(۵)
اور بیشک ہم نے نیچے کے آسمان کو (ف۹) چراغوں سے آراستہ کیا (ف۱۰) اور انہیں شیطانوں کے لیے مار کیا (ف۱۱) اور ان کے لیے (ف۱۲) بھڑکتی آگ کا عذاب تیار فرمایا (ف۱۳)

{وَ لَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ: اور ضرور بیشک ہم نے نیچے کے آسمان کو چراغوں  سے آراستہ کیا۔} ا س آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک اور دلیل بیان فرمائی ہے کہ بیشک اللّٰہ تعالیٰ نے نیچے کے آسمان کو ستاروں  سے آراستہ کیا جو کہ زمین کی طرف سب سے زیادہ قریب ہے اور لوگ اسے دیکھتے ہیں  اور ان ستاروں  کوشیطانوں  کے لیے مارنے کا ذریعہ بنایا کہ جب شَیاطین آسمان کی طرف فرشتوں  کی گفتگو سننے اور باتیں  چُرانے پہنچیں  تو ستاروں  سے شعلے اور چنگاریاں  نکلیں  جن سے انہیں  مارا جائے اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان شَیاطین کے لیے دنیا میں  جلانے کے بعد آخرت میں  بھڑکتی آگ کا عذاب تیار کررکھا ہے۔( خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۲۹۰)

            اس کی نظیر یہ آیاتِ مبارکہ ہیں : ’’ اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِ ﹰالْكَوَاكِبِۙ(۶) وَ حِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ‘‘(صٰفّٰت:۶،۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ہم نے نیچے کے آسمان کو ستاروں  کے سنگھار سے آراستہ کیا۔ اور ہر سرکش شیطان سے حفاظت کیلئے ۔

مسجدوں  میں  روشنی کے آلات نَصب کرنے کی ترغیب:

             علامہ اسماعیل حقی  رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اس مقام پر مَساجد میں  روشنی کرنے کے آلات نَصب کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں  ’’جب اللّٰہ تعالیٰ نے زمین کی چھت آسمان کوستاروں  سے مُزَیَّن فرمایا ہے تو بندوں  کو چاہئے کہ وہ مساجد کی چھتوں  کو قندیلوں  اور چراغوں (اورفی زمانہ روشنی حاصل کرنے کے جدید آلات)سے مُزَیَّن کریں ۔جب حضرت عمر بن خطاب  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے نمازِ تراویح میں  لوگوں  کو حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے پیچھے اکٹھا کیا تو مسجد میں  قندیلیں  لٹکائیں ، انہیں  دیکھ کر حضرت علی المرتضیٰ  کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:اے ابنِ خطاب! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ،آپ نے ہماری مسجدوں  کو روشن کیا، اللّٰہ تعالیٰ آپ کی قبر کو روشن کرے۔( روح البیان، الملک، تحت الآیۃ: ۵، ۱۰ / ۸۱، سیرت حلبیہ، باب الہجرۃ الی المدینۃ، ۲ / ۱۱۲)

67:6
وَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَؕ-وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ(۶)
اور جنہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا (ف۱۴) ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے، اور کیا ہی برا انجام،

{وَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ: اور جنہوں  نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ۔} یعنی بھڑکتی آگ کا عذاب شیطانوں  کے ساتھ ہی خاص نہیں  بلکہ انسانوں  اور جنّوں  میں  سے جس نے بھی اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا ان کے لیے ہم نے جہنم کا عذاب تیار کر رکھا ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔( خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۹۰، سمرقندی، الملک، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۳۸۶-۳۸۷، ملتقطاً)

             کہ وہ جگہ بھی تکلیف دِہ ،وہاں  کا کھانا پانی بھی تکلیف دہ ، سانپ بچھو تکلیف دہ اور ساتھی بھی ایذا رَساں ، غرض یہ کہ ا س میں  ہر تکلیف جمع ہے۔

67:7
اِذَاۤ اُلْقُوْا فِیْهَا سَمِعُوْا لَهَا شَهِیْقًا وَّ هِیَ تَفُوْرُۙ(۷)
جب اس میں ڈالے جائیں گے اس کا رینکنا (چنگھاڑنا) سنیں گے کہ جوش مارتی ہے

{اِذَاۤ اُلْقُوْا فِیْهَا: جب وہ کفار جہنم میں  ڈالے جائیں  گے۔} یہاں  سے اللّٰہ تعالیٰ نے جہنم کے اوصاف بیان فرمائے ہیں  ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب وہ کفار جہنم میں  ا س طرح ڈالے جائیں  گے جس طرح بڑی آگ میں  لکڑیاں  ڈالی جاتی ہیں  تو وہ گدھے کی آواز کی طرح جہنم کی خوفناک چنگھاڑ سنیں  گے اور اس وقت جہنم ایسے جوش مارتی ہو گی جیسے پانی ہنڈیا میں  جوش مارتا ہے۔( تفسیر کبیر، الملک، تحت الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۵۸۶، خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۳۱۱، ملتقطاً)

پل صراط سے گزرتے وقت جنَّتیوں  پر انعام:

            یاد رہے کہ قیامت کے دن جنَّتی اگرچہ پل صراط پر سے گزریں  گے لیکن ا س وقت ان پر یہ انعام ہو گا کہ وہ جہنم کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں  گے ،جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَ ‘‘(انبیاء:۱۰۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ اس کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں  گے اور وہ اپنی دل پسند نعمتوں  میں  ہمیشہ رہیں  گے۔

67:8
تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِؕ-كُلَّمَاۤ اُلْقِیَ فِیْهَا فَوْجٌ سَاَلَهُمْ خَزَنَتُهَاۤ اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَذِیْرٌ(۸)
معلوم ہوتا ہے کہ شدت غضب میں پھٹ جائے گی، جب کبھی کوئی گروہ اس میں ڈالا جائے گا اس کے داروغہ (ف۱۵) ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈر سنانے والا نہ آیا تھا (ف۱۶)

{تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ: معلوم ہوتا ہے کہ غضب سے پھٹ جائے گی۔}  یہاں  جہنم کا ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ جہنم کفار پر غضبناک ہو گی اور یوں  لگے گا جیسے غضب کی شدت کی وجہ سے جہنم ابھی پھٹ جائے گی اور ا س کے اَجزاء ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں  گے۔( روح البیان، الملک، تحت الآیۃ: ۸، ۱۰ / ۸۳، ملخصاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ جہنم میں  احساس ہے، وہ غضب بھی کرتی ہے بلکہ کلام بھی کرتی ہے جیساکہ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ وَ تَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ‘‘(ق:۳۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: جس دن ہم جہنم سے فرمائیں  گے:کیا تو بھر گئی؟ وہ عرض کرے گی: کیاکچھ اور زیادہ ہے؟

{كُلَّمَاۤ اُلْقِیَ فِیْهَا فَوْجٌ: جب کبھی کوئی گروہ اس میں  ڈالا جائے گا۔} جہنم کا حال بیان کرنے کے بعد اب اہلِ جہنم کا حال بیان کیا جا رہا ہے،چنانچہ آیت کے اس حصے اور ا س کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ جب کبھی کفار کا کوئی گروہ جہنم میں  ڈالا جائے گا تو جہنم کے داروغہ حضرت مالک  عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے مددگار فرشتے ڈانٹتے ہوئے ان سے پوچھیں  گے:اے کافرو! کیا دنیا میں  تمہارے پاس کوئی ڈر سنانے والا نہیں  آیاتھا جو تمہارے سامنے تمہارے رب  عَزَّوَجَلَّ کی آیات پڑھتا ، تمہیں  ا س دن کی ملاقات سے ڈراتا اور اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف دلاتا۔وہ اعتراف کرتے ہوئے کہیں  گے : کیوں  نہیں ، بیشک ہمارے پاس ڈر سنانے والے تشریف لائے اور اُنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کے اَحکام پہنچائے، اللّٰہ تعالیٰ کے غضب اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا،لیکن ہم نے انہیں جھٹلایا اور دُنْیَوی کاموں  میں  مشغولیّت اور تکبُّر میں  حد سے بڑھنے کی وجہ سے ہم نے ان آیات کے بارے میں  کہا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی چیز نہیں  اتاری ، اے ہمیں  ڈرانے والو!تم تو بڑی گمراہی میں  ہی ہو۔جہنم کے خازن انہیں  مزید ڈانتے ہوئے کہیں  گے ’’کیا تم نے رسولوں  کی زبان سے اپنے رب  عَزَّوَجَلَّ کی آیات نہیں  سنیں  اور ان کے معانی کو نہیں  سمجھا تاکہ تم انہیں  نہ جھٹلاتے ؟ کفار جواب دیتے ہوئے کہیں  گے اگر ہم نے دنیا میں  رسولوں  کی ہدایت کو دل سے سنا ہوتا اور اپنی عقل سے کام لیتے ہوئے اسے سمجھا ہوتا تو آج ہم دوزخ والوں  میں  سے نہ ہوتے۔( روح البیان، الملک، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۱۰ / ۸۴-۸۵، خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۴ / ۲۹۰، مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ص۱۲۶۳، ملتقطاً)

بعض مسلمان بھی جہنم میں  داخل ہوں  گے :

            یاد رہے کہ قیامت کے دن ایسا نہیں  ہو گا کہ صرف کافروں  کو ہی جہنم میں  ڈالا جائے گا بلکہ بعض گنہگار مسلمان بھی ایسے ہوں  گے جنہیں  ان کے گناہوں  کی سزا دینے کے لئے جہنم میں  داخل کیا جائے گا لہٰذا  ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی عقل سے کام لے اور اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دئیے ہوئے اَحکامات کے مطابق نیک عمل کرنے اور گناہوں  سے بچنے کی کوشش کرے تاکہ قیامت کے دن جہنم کے دردناک عذاب میں  مبتلا ہو نے اور اس بات پر پچھتانے سے بچ جائے کہ کاش! میں  نے اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے احکامات کے مطابق زندگی گزاری ہوتی تو آج مجھے جہنم میں  داخل نہ کیا جاتا ۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  اپنی رضاوالی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جہنم اور ا س کے عذابات سے ہمیں  محفوظ فرمائے ،اٰمین۔

{وَ قَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ: اور وہ کہیں  گے: اگر ہم سنتے یا سمجھتے۔} امام عبد اللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی  عَلَیْہِ   فرماتے ہیں ’’یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ احکامِ شرع کا مدار دلیلِ عقلی اور دلیلِ سَمعیدونوں  پر ہے اور دونوں  حجت ِلازمہ ہیں ۔( مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۲۶۳)

{فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ: تو اب انہوں  نے اپنے گناہ کا اقرار کیا۔} ارشاد فرمایا کہ اب(جہنم میں  داخل ہوتے وقت) انہوں  نے اپنے گناہ کا اقرار کیا کہ ہم رسولوں  کی تکذیب کرتے تھے ! اس وقت چاہے یہ اقرار کریں  یا انکار انہیں  ا س کا کوئی فائدہ نہیں  اور جہنمیوں  کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے۔( مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۲۶۳، ملخصاً)

67:9
قَالُوْا بَلٰى قَدْ جَآءَنَا نَذِیْرٌ ﳔ فَكَذَّبْنَا وَ قُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ ۚۖ-اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ كَبِیْرٍ(۹)
کہیں گے کیوں نہیں بیشک ہمارے پاس ڈر سنانے والے تشریف لائے (ف۱۷) پھر ہم نے جھٹلایا اور کہا اللہ نے کچھ نہیں اُتارا، تم تو نہیں مگر بڑی گمراہی میں،

67:10
وَ قَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْۤ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ(۱۰)
اور کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے (ف۱۸) تو دوزخ والوں میں نہ ہوتے،

67:11
فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْۚ-فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ(۱۱)
اب اپنے گناہ کا اقرار کیا (ف۱۹) تو پھٹکار ہو دوزخیوں کو،

67:12
اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ كَبِیْرٌ(۱۲)
بیشک جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں (ف۲۰) ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے (ف۲۱)

{اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ: بیشک جو لوگ بغیر دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔} اللّٰہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں  وعید بیان کرنے کے بعد یہاں  ایمان والوں  کے بارے میں  وعدہ کا بیان فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایاکہ  وہ لوگ جو اپنے رب  عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتے ہیں  حالانکہ انہوں  نے اپنے رب  عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا نہیں  ہے اورا س کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ا س پر ایمان لاتے ہیں  تو ان کے لئے ان کے گناہوں  سے بخشش اور اُن کی نیکیوں کا بڑا ثواب  (یعنی جنت)ہے۔( تفسیر کبیر، الملک، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۵۸۸-۵۸۹، خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۲۹۱)

اللّٰہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے بزرگ:

            اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے والے کے بارے میں  ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ

’’ مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِۙﹰ(۳۳)ادْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍؕ-ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ‘‘(ق:۳۳،۳۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: جو رحمٰن سے بن دیکھے ڈرا اور رجوع کرنے والے دل کے ساتھ آیا۔(ان سے فرمایا جائے گا)سلامتی کے ساتھ جنت میں  داخل ہوجاؤ ،یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے دل میں  اللّٰہ تعالیٰ کا خوف رکھے اور ا س کے عذاب سے ڈرتا رہے، ترغیب کے لئے یہاں  خوف ِ خدا کی 2 مثالیں  ملاحظہ ہوں  ،

(1 )…علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’حضور پُر نور  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نمازِ تہجد میں  اتنا روتے تھے کہ آپ کے سینہ مبارک سے ہانڈی کَھولنے کی سی آواز آتی تھی ۔( روح البیان، الملک، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۸۵)

(2) …حضرت ابو عمران رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ   فرماتے ہیں  کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ایک مرتبہ بارگاہِ رسالت میں  روتے ہوئے حاضر ہوئے تو نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے دریافت کیا ،’’اے جبریل! عَلَیْہِ السَّلَام، تمہیں  کس چیز نے رُلا دیا؟ انہوں  نے عرض کی’’ جب سے اللّٰہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا فرمایا ہے ، میری آنکھیں  اُس وقت سے کبھی اس خوف کے سبب خشک نہیں  ہوئیں کہ مجھ سے کہیں  کوئی نافرمانی نہ ہوجائے اور میں  جہنم میں  ڈال دیا جاؤں  ۔ (شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،۱ / ۵۲۱، الحدیث: ۹۱۵) اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  بھی اپنا خوف نصیب کرے، اٰمین۔[1]


[1]:۔۔۔ خوفِ خدا سے متعلق مفید معلومات حاصل کرنے کے لیے کتاب’’خوف خدا‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ فرمائیں۔  

67:13
وَ اَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ اَوِ اجْهَرُوْا بِهٖؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۱۳)
اور تم اپنی بات آہستہ کہو یا آواز سے، وہ تو دلوں کی جانتا ہے (ف۲۲)

{وَ اَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ اَوِ اجْهَرُوْا بِهٖ: اور تم اپنی بات آہستہ کہو یا آواز سے۔} شانِ نزول: حضرت عبد اللّٰہ بن عباس   رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  فرماتے ہیں  ’’ مشرکین  رسولُ  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  باتیں  کیا کرتے اور حضرت جبریل  عَلَیْہِ السَّلَام  ان کی گفتگورسولِ کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک پہنچا دیتے،اس پر مشرکین نے آپس میں  کہا کہ چپکے چپکے بات کیاکرو تاکہ محمد(مصطفٰیصَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کا خدا سن نہ پائے۔ اس پریہ آیت نازل ہوئی اور انہیں  بتایا گیا کہ تمہاری یہ کوشش فضول ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے وہ دل کی بات کو زبان پر آنے سے پہلے ہی جانتاہے تووہ تمہاری زبانوں  سے کی ہوئی گفتگو کو کیسے نہیں  جان سکتا۔( خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۱۳، ۴ / ۲۹۱، مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۲۶۳، ملتقطاً)

اللّٰہ تعالیٰ کی شان تو بہت ہی بلند و بالا ہے، اس کے محبوب بندے حضرت سلیمان  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ حال تھا کہ انہوں  نے تین میل سے چیونٹی کی آواز سن لی تھی۔

67:14
اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَؕ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۠(۱۴)
کیا وہ نہ جانے جس نے پیدا کیا؟ (ف۲۳) اور وہی ہے ہر باریکی جانتا خبردار،

{اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ: کیا جس نے پیدا کیاوہ نہیں  جانتا؟ ۔} اس سے پہلی آیت میں  کئے ہوئے دعویٰ کی دلیل دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جس رب تعالیٰ نے اپنی کامل حکمت سے تمام اَشیاء کو وجود بخشا ہے اور انہی چیزوں  میں  تمہاری آہستہ یا بلند آواز سے کی گئی گفتگو بھی شامل ہے تو کیا اسے تمہاری باتوں  کا علم نہ ہو گا حالانکہ ا س کی شان تو یہ ہے کہ وہ ہر باریکی کو جاننے والاہے حتّٰی کہ وہ اندھیری رات میں  ٹھوس پتھر پر چلنے والی سیاہ چیونٹی کے نشانات کوبھی دیکھتا ہے اور وہ تمام باطنی چیزوں  پر خبردار ہے۔( روح البیان، الملک، تحت الآیۃ: ۱۴، ۱۰ / ۸۷، ملخصاً)

67:15
هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاكِبِهَا وَ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖؕ-وَ اِلَیْهِ النُّشُوْرُ(۱۵)
وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین رام (تابع) کر دی تو اس کے رستوں میں چلو اور اللہ کی روزی میں سے کھاؤ (ف۲۴) اور اسی کی طرف اٹھنا ہے (ف۲۵)

{هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا: وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کوتابع کر دیا۔} اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے وہ نعمتیں  بیان فرمائیں  جو ا س نے اپنی مخلوق کو عطا فرمائی ہیں  تاکہ وہ اس کی نعمت کو پہچان کر ا س کا شکر ادا کریں  اور اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیَّتکا اقرار کریں ۔چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ وہی ہے جس نے زمین کو مناسب طور پر نرم فرما کر تمہارے تابع کر دیاتاکہ تمہارے لئے اس میں  کنویں  کھودنا،چشمے جاری کرنا،نہریں  بنانا، مکانات اور عمارتیں  تعمیر کرنا ،کھیتی باڑی اور باغبانی کرنا ممکن ہو جائے ،ورنہ اگر وہ زمین کو ٹھوس پتھر کی طرح بنا دیتا یا لوہا، سونا،پیتل وغیرہ کسی دھات کی بنا دیتا تو گرمیوں  میں  زمین انتہائی گرم ہوجاتی اور سردیوں  میں  انتہائی ٹھنڈی، ا س طرح زمین پر چلنا دشوار ہو جاتا (اور اگر پانی کی طرح نرم بنا دیتا تو کوئی چیز اس پر ٹھہر ہی نہ سکتی اور یوں  زمین پر زندگی گزارنا ہی دشوار ہو جاتا) یہ اللّٰہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے زمین کو ایسابنایا ہے کہ ا س سے نفع حاصل کیا جا سکے تو تم اس کے راستوں  میں  چلو اور اللّٰہ تعالیٰ کی روزی میں  سے کھاؤجو اس نے تمہارے لئے پیدا فرمائی ہے اور تمہیں قبروں  سے جزا ء کیلئے اسی کی طرف اٹھنا ہے۔( روح البیان ، الملک ، تحت الآیۃ : ۱۵ ، ۱۰ / ۸۸-۸۹، خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۲۹۱، سمرقندی، الملک، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۳۸۸، صاوی، الملک، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۲۲۰۴، ملتقطاً)

67:16
ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِیَ تَمُوْرُۙ(۱۶)
کیا تم اس سےنڈر ہوگئے جس کی سلطنت آسمان میں ہے کہ تمہیں زمین میں دھنسادے (ف۲۶) جبھی وہ کانپتی رہے (ف۲۷)

{ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ: کیا تم اُس سے بے خوف ہوگئے جس کی سلطنت آسمان میں  ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے کفارِمکہ کو اپنے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا کہ اے کفارِمکہ!جس رب تعالیٰ کی سلطنت آسمان میں  ہے ،اس کی نافرمانی کر کے کیا تم اِس بات میں  اُس سے بے خوف ہو گئے کہ وہ قارون کی طرح تمہیں  بھی زمین میں  دھنسا دے اور اس وقت تک زمین کو حرکت میں  رکھے جب تک تم اس کے سب سے نچلے حصے میں  نہ پہنچ جاؤ۔یا جس رب تعالیٰ کی سلطنت آسمان میں  ہے، اس کی نافرمانی کر کے کیا تم اِس بات میں  اُس سے بے خوف ہوگئے کہ وہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرح تم پر بھی پتھراؤ بھیجے،تو عذاب دیکھ کر تم جلد جان لو گے کہ میرا اپنے عذاب سے ڈراناکیسا تھا؟( خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ۴ / ۲۹۱، سمرقندی، الملک، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ۳ / ۳۸۸، ملتقطاً)

اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف نہ ہُوا جائے:ـ

            اسی عذاب کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِیْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۶۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئےکہ اللّٰہ تمہارے ساتھ خشکی کا کنارہ زمین میں  دھنسا دے یا تم پر پتھر بھیجے پھر تم اپنے لئے کوئی حمایتی نہ پاؤ ۔

             اور ارشاد فرمایا: ’’ قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ‘‘(انعام:۶۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے یا تمہارے قدموں  کے نیچے سے عذاب بھیجے۔

            اور یہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق پر لطف و کرم اور اس کی رحمت ہے کہ انہیں  عذاب دینے پر قادر ہونے کے باوجود ان کے کفر اور گناہوں  کی وجہ سے فوری عذاب نازل نہیں  کرتا بلکہ اسے مُؤخّر فرما دیتا ہے ،جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِیْرًا‘‘(فاطر:۴۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر اللّٰہ لوگوں  کو ان کے اعمال کے سبب پکڑتا تو زمین کی پیٹھ پر کوئی چلنے والانہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مقرر میعاد تک انہیں  ڈھیل دیتا ہے پھرجب  ان کی مقررہ مدت آئے گی تو بیشک اللّٰہ  اپنے تمام بندوں  کو دیکھ رہا ہے۔

            لہٰذا اس کی رحمت اور کرم کے پیشِ نظر اس کے عذاب سے بے خوف ہو جانابہت بڑی نادانی اور کم عقلی ہے۔

67:17
اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًاؕ-فَسَتَعْلَمُوْنَ كَیْفَ نَذِیْرِ(۱۷)
یا تم نڈر ہوگئے اس سے جس کی سلطنت آسمان میں ہے کہ تم پر پتھراؤ بھیجے (ف۲۸) تو اب جانو گے (ف۲۹) کیسا تھا میرا ڈرانا،

67:18
وَ لَقَدْ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَكَیْفَ كَانَ نَكِیْرِ(۱۸)
اور بیشک ان سے اگلوں نے جھٹلایا (ف۳۰) تو کیسا ہوا میرا انکار (ف۳۱)

{وَ لَقَدْ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: اور بیشک ان سے پہلے لوگوں  نے جھٹلایا ۔} اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دیتے ہوئے اور کفارِمکہ کو اپنے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا کہ اے پیارے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفارِمکہ آپ کو جھٹلاتے ہیں  تو ا س پر آپ غم نہ فرمائیں  کیونکہ کفارِ مکہ سے پہلی اُمتوں  کے کفار جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور قومِ عاد وغیرہ نے بھی میرے رسولوں  کو جھٹلایا تو جب میں  نے انہیں  ہلاک کیا تو ا س وقت میراانکار کیسا ہوا،کیا انہوں  نے میرے عذاب کوحق نہیں  پایا۔ضرور انہوں  نے میرے عذاب کو حق پایا ہے ۔( ابو سعود ، الملک ، تحت الآیۃ : ۱۸ ، ۵ / ۷۴۸ ، صاوی ، الملک ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۲۲۰۵، خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۱۸، ۴ / ۲۹۱، ملتقطاً)

67:19
اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ فَوْقَهُمْ صٰٓفّٰتٍ وَّ یَقْبِضْنَﰉ مَا یُمْسِكُهُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُؕ-اِنَّهٗ بِكُلِّ شَیْءٍۭ بَصِیْرٌ(۱۹)
اور کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندے نہ دیکھے پر پھیلاتے (ف۳۲) اور سمیٹتے انہیں کوئی نہیں روکتا (ف۳۳) سوا رحمٰن کے (ف۳۴) بیشک وہ سب کچھ دیکھتا ہے،

{اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ فَوْقَهُمْ: اور کیا انہوں  نے اپنے اوپر پرندے نہ دیکھے۔} اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے وہ چیز بیان فرمائی جو اس کی قدرت کے کمال پر دلالت کرتی ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کیا کفارِمکہ غافل ہیں  اور انہوں  نے اپنے اوپر ہوا میں  اُڑتے وقت پر پھیلاتے ہوئے اور سمیٹتے ہوئے پرندے نہیں  دیکھے، انہیں  ہوا میں  پر پھیلانے اور سمیٹنے کی حالت میں  گرنے سے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کے سواکوئی نہیں  روکتاحالانکہ پرندے بوجھل ،موٹے اورجسیم ہوتے ہیں  اور بھاری چیز طبعاً پستی کی طرف مائل ہوتی ہے وہ فضا میں  نہیں  رک سکتی،یہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ ٹھہرے رہتے ہیں ،اور جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے پرندوں  کو فضا میں  ٹھہرایا ایسے ہی آسمانوں  کو جب تک وہ چاہے روکے ہوئے ہے اور اگر وہ نہ روکے تو آسمان گر پڑیں  ۔بیشک وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور ا س پر کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں  ہے۔(خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۲۹۱، مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۱۲۶۴، ملتقطاً)

پرندوں  اور جہازوں  کی پرواز اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کی دلیل ہے:

            پرندوں  کی پروا ز کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اَلَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِؕ-مَا یُمْسِكُهُنَّ اِلَّا اللّٰهُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ‘‘(نحل:۷۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان:  کیا انہوں  نے پرندوں  کی طرف نہ دیکھا جو آسمان کی فضا میں  (اللّٰہ کے)حکم کے پابند ہیں ۔انہیں (وہاں )اللّٰہ کے سوا کوئی نہیں  روکتا۔ بیشک اس میں ایمان والوں  کیلئے نشانیاں  ہیں  ۔

             اس سے معلوم ہوا کہ پرندوں  کوہوا میں  محض پَر نہیں  روکتے بلکہ انہیں  اللّٰہ تعالیٰ روکے ہوئے ہے ،اسی طرح فی زمانہ ہوا میں  مَحوِ پرواز ٹنوں  وزنی ہوائی جہازوں  کو مشین اور انجن گرنے سے نہیں  بچاتے بلکہ انہیں  بھی اللّٰہ تعالیٰ ہی گرنے سے بچاتا ہے یعنی مُؤثِّرِ حقیقی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی ذات ہے۔

67:20
اَمَّنْ هٰذَا الَّذِیْ هُوَ جُنْدٌ لَّكُمْ یَنْصُرُكُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِؕ-اِنِ الْكٰفِرُوْنَ اِلَّا فِیْ غُرُوْرٍۚ(۲۰)
یا وہ کونسا تمہارا لشکر ہے کہ رحمٰن کے مقابل تمہاری مدد کرے (ف۳۵) کافر نہیں مگر دھوکے میں (ف۳۶)

{اَمَّنْ هٰذَا الَّذِیْ هُوَ جُنْدٌ لَّكُمْ: یا وہ کون سا تمہارا لشکر ہے۔} کفارِمکہ دو چیزوں  پر اعتماد کرتے ہوئے ایمان قبول کرنے سے انکار کرتے اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے دشمنی رکھتے تھے۔(1)مالی اور افرادی قوت۔ (2)ان کا یہ عقیدہ کہ بت ان تک بھلائیاں  پہنچاتے ہیں  اور ان سے نقصانات دور کرتے ہیں ۔اللّٰہ تعالیٰ نے اس آیت میں  پہلی چیز کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’اے کافرو!اگر اللّٰہ تعالیٰ تمہیں  عذاب میں  مبتلا کرنا چاہے تو تمہارا وہ کون سا لشکر ہے جو رحمٰن کے مقابلے میں  تمہاری مدد کرے گا اور تم سے اس کا عذاب دور کر دے گا،تمہارا کوئی مددگار نہیں  اور کافر صرف شیطان کے اس فریب میں  ہیں  کہ اُن پر عذاب نازل نہ ہوگا۔( جلالین مع صاوی، الملک، تحت الآیۃ: ۲۰، ۶ / ۲۲۰۵-۲۲۰۶، خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۲۹۲، ملتقطاً)

67:21
اَمَّنْ هٰذَا الَّذِیْ یَرْزُقُكُمْ اِنْ اَمْسَكَ رِزْقَهٗۚ-بَلْ لَّجُّوْا فِیْ عُتُوٍّ وَّ نُفُوْرٍ(۲۱)
یا کونسا ایسا ہے جو تمہیں روزی دے اگر وہ اپنی روزی روک لے (ف۳۷) بلکہ وہ سرکش اور نفرت میں ڈھیٹ بنے ہوئے ہیں (ف۳۸)

{اَمَّنْ هٰذَا الَّذِیْ یَرْزُقُكُمْ: یا کون ایسا ہے جو تمہیں  روزی دے۔} اس آیت میں  دوسری چیز کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے کافرو!اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں  جو رزق دیا ہے اگر وہ اپنا رزق اور ا س کے پہنچنے کے اَ سباب(جیسے بارش یا دھوپ وغیرہ) روک لے تو ایساکون ہے جو تمہیں  کھلائے اور پلائے گا اور تم تک تمہاری غذا پہنچائے گا۔ان کفار کا حال تو یہ ہے کہ انہوں  نے ان نصیحتوں  سے اثر نہیں  لیا اور نہ ہی ان پر یقین کیا بلکہ وہ سرکش اور نفرت میں  ڈھیٹ بن گئے ہیں  اسی وجہ سے وہ حق سے قریب نہیں  ہوتے۔( صاوی ، الملک ، تحت الآیۃ : ۲۱ ، ۶ / ۲۲۰۶ ، تفسیر طبری ، الملک ، تحت الآیۃ : ۲۱ ، ۱۲ / ۱۷۰، خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۲۹۲، ملتقطاً)

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ ساری مخلوق کو حقیقی طور پر رزق دینے والا اللّٰہ تعالیٰ ہے اور یہ اس کا بہت بڑ اانعام ہے اور جس نے مخلوق پر اتنا عظیم احسان اور انعام فرمایا صرف وہی عبادت کئے جانے کا حق دار ہے جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْؕ-هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰهِ یَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ﳲ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ‘‘(فاطر:۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے لوگو!اپنے اوپر اللّٰہ کا احسان یادکرو۔ کیا اللّٰہکے سوااور بھی کوئی خالق ہے جو آسمان اور زمین سے تمہیں  روزی دیتا ہے ؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، تو تم کہاں  الٹے پھرے جاتے ہو؟

67:22
اَفَمَنْ یَّمْشِیْ مُكِبًّا عَلٰى وَجْهِهٖۤ اَهْدٰۤى اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۲۲)
تو کیا وہ جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلے (ف۳۹) زیادہ راہ پر ہے یا وہ جو سیدھا چلے (ف۴۰) سیدھی راہ پر (ف۴۱)

{اَفَمَنْ یَّمْشِیْ مُكِبًّا عَلٰى وَجْهِهٖ: تو کیا وہ جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلے۔} اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے مؤمن اور کافر کا حال واضح کرنے کے لئے ایک مثال بیان فرمائی ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! کیا وہ شخص جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلے اور نہ آگے دیکھے نہ پیچھے ،نہ دائیں  دیکھے نہ بائیں  ،وہ زیادہ راہ پر ہے یا وہ شخص جو راستے کو دیکھتے ہوئے سیدھی راہ پرسیدھا چلے جو منزلِ مقصود تک پہنچانے والی ہے۔( صاوی، الملک، تحت الآیۃ: ۲۲، ۱۰ / ۲۲۰۶، تفسیر طبری، الملک، تحت الآیۃ: ۲۲، ۱۲ / ۱۷۱، ملتقطاً)

کافر اور مؤمن کی دُنْیَوی مثال اوران کا اُخروی حال:

            اس مثال کا مقصود یہ ہے کہ کافر گمراہی کے میدان میں  اس طرح حیران و سرگرداں  جاتا ہے کہ نہ اسے منزل معلوم اور نہ وہ راستہ پہچانے اور مؤمن آنکھیں  کھولے راہِ حق دیکھتا اورپہچانتا چلتا ہے۔یہ تو کافر اور مؤمن کی دُنْیَوی مثال ہے جبکہ آخرت میں کفار کو واقعی منہ کے بل اٹھایا اور چہروں  کے بل جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ نَحْشُرُهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ عُمْیًا وَّ بُكْمًا وَّ صُمًّاؕ-مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۹۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم انہیں  قیامت کے دن ان کے منہ کے بل اٹھائیں  گے اس حال میں  کہ وہ اندھے اور گونگے اور بہرے ہوں  گے۔ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب کبھی بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکادیں  گے۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’ اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ اِلٰى جَهَنَّمَۙ-اُولٰٓىٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ سَبِیْلًا ‘‘(فرقان:۳۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ جنہیں  ان کے چہروں  کے بلجہنم کی طرف ہانکا جائے گا ان کا ٹھکانہ سب سے بدتر اوروہ سب سے زیادہ گم راہ ہیں۔

            اور ایمان والے متّقی لوگوں  کے بارے میں  ارشاد فرمایا: ’’وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ‘‘(زمر:۷۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اپنے رب سے ڈرنے والوں  کوگروہ درگروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا یہاں  تک کہ جب وہ وہاں  پہنچیں  گے اور اس کے دروازے کھلے ہوئے ہوں  گے اور اس کے داروغے ان سے کہیں  گے: تم پر سلام ہو،تم پاکیزہ رہے تو ہمیشہ رہنے کوجنت میں  جاؤ۔

67:23
قُلْ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـٕدَةَؕ-قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ(۲۳)
تم فرماؤ (ف۴۲) وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لیے کان اور آنکھ اور دل بنائے (ف۴۳) کتنا کم حق مانتے ہو (ف۴۴)

{قُلْ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ: تم فرماؤ: وہی ہے جس نے تمہیں  پیدا کیا ۔} یعنی اے پیارے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،آپ مشرکین سے فرما دیں  کہ اے کافرو!جس خدا کی طرف میں  تمہیں  دعوت دیتا ہوں  وہ وہی ہے جس نے تمہیں  پیدا کیا اور ا س نے تمہارے لئے کان بنائے تاکہ تم اللّٰہ تعالیٰ کی آیات کو سنو اور ان سے نصیحت حاصل کرو، اس نے تمہارے لئے آنکھیں  بنائیں  تاکہ تم ان کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی ان مَصنوعات کو دیکھو جو اس کی وحدانیَّتپر دلالت کرتی ہیں  اور ا س نے تمہارے لئے دل بنائے تاکہ تم ان کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی آیات اور مَصنوعات میں  غور وفکر کر سکو ،لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ تم نے اِن اعضاء سے فائدہ نہ اُٹھایا کہ جو سنا وہ نہ مانا، جو دیکھا اُس سے عبرت حاصل نہ کی اور جو سمجھا اس میں  غورنہ کیا اور تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو کہ اللّٰہ تعالیٰ کے عطا فرمائے ہوئے اَعضاء سے وہ کام نہیں  لیتے جس کیلئے وہ عطا ہوئے ہیں  اور یہی وجہ ہے کہ تم شرک و کفر میں مبتلا ہوگئے ہو۔( صاوی، الملک، تحت الآیۃ: ۲۳، ۶ / ۲۲۰۷، خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۲۹۲، ملتقطاً)

نعمتوں  کو ان کے مَقاصِد میں  استعمال کریں:   

            اس آیت میں  خطاب اگرچہ کفار سے ہے لیکن اس میں  مسلمانوں  کے لئے بھی نصیحت ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  کان ،آنکھ اور دل کی جو نعمت عطا کی ہے اسے انہی مقاصد کے لئے استعمال کریں  جس کے لئے یہ نعمت عطا ہوئی ہے۔ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰) وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ هُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ‘‘(انفال:۲۰،۲۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو!اللّٰہاور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرواورسن کر اس سے منہ نہ پھیرو۔ اور ان لوگوں  کی طرح نہ ہونا جنہوں  نے کہا :ہم نے سن لیا حالانکہ وہ نہیں  سنتے ۔

            اور ارشاد فرمایا : ’’ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۳۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان:  بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں  سوال کیا جائے گا۔

             اور ارشاد فرمایا: ’’وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ اَنْ یَّشْهَدَ عَلَیْكُمْ سَمْعُكُمْ وَ لَاۤ اَبْصَارُكُمْ وَ لَا جُلُوْدُكُمْ وَ لٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا یَعْلَمُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ‘‘(حم السجدۃ:۲۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم اس بات سے نہیں  چھپ سکتےتھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں  اورتمہاری کھالیں گواہی دیں لیکن تم تو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اللّٰہتمہارے بہت سے کام نہیں  جانتا۔

            اللّٰہتعالیٰ ہمیں  اپنی دی ہوئی ہر نعمت کو ا س کے مقصد میں  استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

67:24
قُلْ هُوَ الَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ(۲۴)
تم فرماؤ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف اٹھائے جاؤ گے (ف۴۵)

{قُلْ هُوَ الَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ: تم فرماؤ: وہی ہے جس نے تمہیں  زمین میں  پھیلایا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں  کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  وہی ہے جس نے گفتگومیں  تمہاری زبانوں ،تمہارے رنگوں ، تمہارے لباسوں ،تمہاری شکلوں  اورصورتوں  کے مختلف ہونے کے ساتھ تمہیں  زمین کے کونے کونے میں  پھیلایا اور تم (قیامت کے دن اپنے اعمال کے) حساب اور (ان کی) جزا کے لئے اسی کی طرف اٹھائے جاؤ گے ۔( ابن کثیر، الملک، تحت الآیۃ: ۲۴، ۸ / ۲۰۲، مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۱۲۶۵، ملتقطاً)

67:25
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۲۵)
اور کہتے ہیں (ف۴۶) یہ وعدہ (ف۴۷) کب آئے گا اگر تم سچے ہو،

{وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ: اور وہ کہتے ہیں : یہ وعدہ کب آئے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار مسلمانوں  سے مذاق اور محض دل لگی کے طور پر کہتے تھے کہ اگر تم قیامت یا عذاب کی خبر دینے میں  سچے ہو، تو بتاؤ ان کا ظہور کب ہو گا؟اللّٰہ تعالیٰ نے ان کا جواب دیتے ہوئے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے ارشاد فرمایا کہ اے مخلوق میں  سب سے بڑے عالِم! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ مشرکین سے فرما دیں  کہ اس کا علم تو اللّٰہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے ،میں  تو عذاب اورقیامت کے آنے کا تمہیں  ڈر سناتا ہوں  اور مجھے اتنے ہی کام کا حکم دیاگیا ہے، اسی سے میرا فرض ادا ہوجاتا ہے ا س لئے وقت کا بتانا میری ذمہ داری نہیں ۔( مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ص۱۲۶۵، روح البیان، الملک، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ۱۰ / ۹۵-۹۶، ملتقطاً)

{قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ: تم فرماؤ: یہ علم تو اللّٰہ ہی کے پاس ہے۔} یاد رہے کہ اس سے یہ ثابت نہیں  ہو تا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قیامت کا علم نہیں  دیا کیونکہ یہاں  یہ نہ فرمایا کہ مجھے علم نہیں  دیا گیا بلکہ یہ فرمایا کہ یہ حقیقی و ذاتی علم تو اللّٰہ ہی کے پاس ہے،اور ایسے انداز میں  بات اس وقت بھی کہی جاتی جب معلومات ہونے کے باوجودبتانا نہ ہو۔حق یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو قیامت کا علم دیا ہے اور اس پر وہ تمام اَحادیث شاہد ہیں  جن میں  آپ نے قیامت کی علامات ارشاد فرمائیں  حتّٰی کہ سال بتانے کے علاوہ وقت ،دن اور مہینہ بھی بتا دیا۔

67:26
قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ۪-وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(۲۶)
تم فرماؤ یہ علم تو اللہ کے پاس ہے، اور میں تو یہی صاف ڈر سنانے والا ہوں (ف۴۸)

67:27
فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِیْٓــٴَـتْ وُجُوْهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ قِیْلَ هٰذَا الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تَدَّعُوْنَ(۲۷)
پھر جب اسے (ف۴۹) پاس دیکھیں گے کافروں کے منہ بگڑ جائیں گے (ف۵۰) اور ان سے فرمادیا جائے گا (ف۵۱) یہ ہے جو تم مانگتے تھے (ف۵۲)

{فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً: پھر جب وہ اسے قریب دیکھیں  گے۔} اس آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جب کفار آخرت میں  ا س عذاب کو اپنے قریب دیکھیں  گے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے تو کافروں  کے چہرے سیاہ پڑ جائیں  گے اور وحشت و غم سے ان کی صورتیں  خراب ہوجائیں  گی اورجہنم کے فرشتے ان سے کہیں  گے یہ وہ عذاب ہے جو مذاق کے طور پرتم مانگتے تھے اور اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے کہتے تھے کہ وہ عذاب کہاں  ہے جلدی لاؤ ،اب دیکھ لو یہ ہے وہ عذاب جس کی تمہیں  طلب تھی۔( مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۱۲۶۵، روح البیان، الملک، تحت الآیۃ: ۲۷، ۱۰ / ۹۶، ملتقطاً)

67:28
قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَهْلَكَنِیَ اللّٰهُ وَ مَنْ مَّعِیَ اَوْ رَحِمَنَاۙ-فَمَنْ یُّجِیْرُ الْكٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(۲۸)
تم فرماؤ (ف۵۳) بھلا دیکھو تو اگر اللہ مجھے اور میرے ساتھ والوں کو (ف۵۴) بلاک کردے یا ہم پر رحم فرمائے (ف۵۵) تو وہ کونسا ہے جو کافروں کو دکھ کے عذاب سے بچالے گا (ف۵۶)

{قُلْ: تم فرماؤ ۔} کفارِمکہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اور صحابہ ٔکرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی وفات کی آرزو رکھتے تھے ، اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ا رشادفرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار سے فرما دیں  کہ ہم مومن ہیں  اور دو اچھی چیزوں  میں  سے ایک کے مُنتظر ہیں (1) تمہاری آرزو کے مطابق اللّٰہ تعالیٰ مجھے اور میرے صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ   کو وفات دیدے تو(اس میں  بھی ہمارا فائدہ ہے کہ ) ہم جنت میں  چلے جائیں  گے ۔(2)اللّٰہ تعالیٰ تمہارے مقابلے میں  ہماری مدد فرما کر ہم پر رحم فرمائے اور ہماری عمریں  دراز کردے ۔ دونوں  صورتوں  میں  فائدہ ہمارا ہی ہے اب تم بتاؤ کہ وہ کون ہے جو تمہیں  اللّٰہ تعالیٰ کے درد ناک عذاب سے بچالے گا؟ تمہیں  تو بہر حال اپنے کفر کے سبب ضرور عذاب میں  مبتلا ہونا ہے ،ہماری وفات تمہیں  کیا فائدہ دے گی۔( مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۲۶۵، ملخصاً)

67:29
قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِهٖ وَ عَلَیْهِ تَوَكَّلْنَاۚ-فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ هُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۲۹)
تم فرماؤ وہی رحمٰن ہے (ف۵۷) ہم اس پر ایمان لائے اور اسی پر بھروسہ کیا، تو اب جان جاؤ گے (ف۵۸) کون کھلی گمراہی میں ہے،

{قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ: تم فرماؤ: وہی رحمٰن ہے۔ }ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ ان مشرکین  سے فرما دیں  کہ جس کی طرف ہم تمہیں  دعوت دیتے ہیں  وہی رحمٰن ہے ،ہم اس پر ایمان لائے اور اسی کی عبادت کرتے ہیں  اور تم اس کے ساتھ کفر کرتے ہو اور ہم نے اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے تمام اُمور اس کے سپرد کر دئیے ہیں  اورجب تم پر عذاب نازل ہو گا تو تم جلد جان جاؤ گے کہ ہم گمراہی میں  تھے یا تم۔( خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۲۹۲، مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۲۶۵، ملتقطاً)

67:30
قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْكُمْ بِمَآءٍ مَّعِیْنٍ۠(۳۰)
تم فرماؤ بھلا دیکھو تو اگر صبح کو تمہارا پانی زمین میں دھنس جائے (ف۵۹) تو وہ کون ہے جو تمہیں پانی لادے نگاہ کے سامنے بہتا (ف۶۰)

{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے دلیل کے طور پر اپنی ایک نعمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اے حبیب!  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ ان مشرکین سے فرما دیں  کہ اگر صبح کو تمہارا پانی زمین میں  دھنس جائے اور اتنی گہرائی میں  پہنچ جائے کہ ڈول وغیرہ سے بھی ہاتھ نہ آسکے تو وہ کون ہے جو تمہیں  نگاہوں  کے سامنے بہتاہواپانی لادے کہ اُس تک ہر ایک کا ہاتھ پہنچ سکے۔اس کے جواب میں  وہ ضرورکہیں  گے کہ یہ صرف اللّٰہ تعالیٰ ہی کی قدرت میں  ہے تو اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ بت جو کہ کسی چیز پر قدرت نہیں  رکھتے انہیں  کیوں  عبادت میں  اُس قادرِ برحق کا شریک کرتے ہو۔( خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۲۹۳)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْمُلْك
اَلْمُلْك
  00:00



Download

اَلْمُلْك
اَلْمُلْك
  00:00



Download