Surah al-Mudathir
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ: اے چادر اوڑھنے والے۔} شانِ نزول: حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں حرا پہاڑ پر تھا کہ مجھے ندا کی گئی ’’یَا مُحَمَّدْ اِنَّکَ رسولُ اللّٰہ‘‘ میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا توکچھ نہ پایا اور جب اوپر دیکھا تو ایک شخص (یعنی وہی فرشتہ جس نے ندا کی تھی) آسمان اور زمین کے درمیان بیٹھا ہے ،یہ دیکھ کر مجھ پر رُعب طاری ہوا اور میں حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس آیا اور میں نے انہیں کہا کہ مجھے چادر اُڑھاؤ، انہوں نے چادر اُڑھا دی،اس کے بعد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آئے اور انہوں نے کہا ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ‘‘ اے چادر اوڑھنے والے۔( مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۲۹۶)
{قُمْ: کھڑے ہوجاؤ ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے چادر اوڑھنے والے (نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،) آپ اپنی خواب گاہ سے کھڑے ہو جائیں ،پھر اپنی قوم کو ایمان نہ لانے پر اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے چادر اوڑھنے والے (نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،) آپ اپنی خواب گاہ سے کھڑے ہو جائیں پھر تمام لوگوں کو ایمان نہ لانے پر اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں کیونکہ آپ تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔( مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۲۹۶، روح البیان، المدثر، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۲۲۴، ملتقطاً)
{وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ: اور اپنے رب ہی کی بڑائی بیان کرو۔} یعنی بتوں کے پُجاری اللّٰہ تعالیٰ کی شان میں جو بکواس کرتے ہیں آپ اس سے اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی بیان کریں ۔مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اَللّٰہُ اَکْبَر فرمایا، حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے بھی حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکبیرسن کر تکبیر کہی اور خوش ہوئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ وحی آئی ہے۔( خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۳۲۶، مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۲۹۶، ملتقطاً)
{وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ: اور گندگی سے دور رہو۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو (پہلے کی طرح) بتوں کی عبادت سے دور رہنے پر قائم رہنے کا حکم دیا ہے لہٰذا جس طرح مسلمان کے اس قول ’’اِهْدِنَا ‘‘ کا یہ معنی نہیں کہ اے اللّٰہ ہم ہدایت پر نہیں اس لئے ہمیں ہدایت عطا فرما،بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ ہمیں اس ہدایت پر ثابت قدم رکھ تو اسی طرح یہاں ہے (کہ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور اب انہیں اس سے منع کیا جارہا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ پہلے بتوں کی پوجا کرنے سے دور تھے اسی طرح ہمیشہ اس سے دور ہی رہئے)۔( تفسیرکبیر، المدثر، تحت الآیۃ: ۵، ۱۰ / ۷۰۰)
{وَ لَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ: اور زیادہ لینے کی خاطر کسی پر احسان نہ کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنا مال کسی کو اس نیت سے ہدئیے کے طور پر نہ دینا کہ وہ آپ کو اس سے زیادہ دے گا۔
یاد رہے کہ دنیا میں تحفے اور نیوتے دینے کے معاملے میں دستور ہے کہ دینے والا یہ خیال کرتا ہے کہ جس کو میں نے دیا ہے وہ موقع آنے پر مجھے اس سے زیادہ دیدے گا ،اس قسم کے نیوتے اور ہدیئے شرعاً اگرچہ جائز ہیں لیکن نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس سے منع فرمایا گیا کیونکہ شانِ نبوت بہت اَرفع واعلیٰ ہے اور اس مَنصب ِعالی کے لائق یہی ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جس کو جو کچھ دیں وہ محض کرم کے طور پرہو اور جسے دیا اس سے لینے یا نفع حاصل کرنے کی نیت نہ ہو۔( خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۳۲۷، خزائن العرفان، المدثر، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۰۶۶، ملتقطاً)
{وَ لِرَبِّكَ فَاصْبِرْ: اور اپنے رب کے لیے ہی صبر کرتے رہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لئے اس کی اطاعت،اس کے احکامات،اس کے ممنوعات اور ان ایذاؤں پر صبر کرتے رہیں جو دین کی خاطر آپ کو ( کُفّار کی طرف سے) برداشت کرنی پڑیں ۔( خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۳۲۷)
{فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِ: پھر جب صور میں پھونکا جائے گا۔} سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے چند باتیں ارشاد فرمانے کے بعد یہاں سے اللّٰہ تعالیٰ نے بدبخت کافروں کے لئے وعید بیان فرمائی ہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دوسری بار صور میں پھونک ماری جائے گی تو وہ دن عذاب اور برے حساب کے اعتبار سے سخت دن ہوگا اور وہ کافروں پر آسان نہیں ہوگا کیونکہ ان سے سخت حساب لیا جائے گا اور ان کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھوں میں دئیے جائیں گے اور ان کے چہرے سیاہ ہوں گے اور ان کے اَعضاء کلام کریں گے اور وہ محشر میں سب لوگوں کے سامنے رُسوا ہوں گے۔اس سے معلوم ہوا کہ وہ دن اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے مومنین پر آسان ہوگا۔( تفسیر کبیر ، المدثر ، تحت الآیۃ: ۸ ، ۱۰ / ۷۰۲ ، خازن ، المدثر ، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۴ / ۳۲۷، روح البیان، المدثر، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۱۰ / ۲۲۷، ملتقطاً)
{ذَرْنِیْ وَ مَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا: اسے مجھ پر چھوڑ دوجسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔} شانِ نزول: ولید بن مغیرہ مخزومی اپنی قوم میں وحید یعنی یکتاکے لقب سے مشہورتھا ،ا س کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 5آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی طرف سے اس سے انتقام لینے کے لئے میں کافی ہوں جسے میں نے اس کی ماں کے پیٹ سے مال اور اولاد کے بغیر اکیلا پیدا کیا، پھر میں نے اس پر انعام کیا اور اسے کھیتیوں ، کثیر مویشیوں اور تجارتوں سے وسیع مال دیا اوراسے ایسے دس بیٹے دئیے جنہیں مالدار ہونے کی وجہ سے مال کمانے کیلئے سفر کرنے کی حاجت نہ تھی اس لئے وہ سب باپ کے سامنے رہتے اور میں نے اس کے لیے دُنْیوی نعمتوں کوخوب بچھا دیا کہ اسے (قوم میں ) عزت و مرتبہ بھی دیا، ریاست بھی عطا فرمائی ، عیش بھی دیا اور لمبی عمر بھی عطا کی،پھر وہ میری ناشکری کے باوجود حرص اور ہَوس کی وجہ سے یہ امید کرتا ہے کہ میں اسے مال و اولاداور زیادہ دوں ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا اورآج کے بعد اس کے کفر کے ہوتے ہوئے اس کی نعمتوں میں اضافہ نہیں ہو گا اورا س کی وجہ یہ ہے کہ وہ میری آیتوں سے دشمنی رکھتا ہے اور ان کاا نکار کرتا ہے۔( خازن ، المدثر ، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ۴ / ۳۲۷-۳۲۸، روح البیان، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ۱۰ / ۲۲۸، مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ص۱۲۹۷، ملتقطاً)
{وَ جَعَلْتُ لَهٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا: اور اسے وسیع مال دیا۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ولید بن مغیرہ کے پاس9000مثقال (یعنی تقریباً 3375 تولے) چاندی تھی اور ا س کے پاس اونٹ، گھوڑے اور مویشی اتنے زیادہ تھے کہ مکہ سے لے کر طائف تک کا علاقہ بھر جاتا تھا اور ان کے علاوہ کثیر تعداد میں بکریاں ، غلام اور لونڈیاں بھی تھیں ۔حضرت مجاہد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے کہ ولید بن مغیرہ کے پاس ایک لاکھ دینار نقد موجود تھے اور طائف میں اس کا ایسا بڑا باغ تھا جو سال کے کسی وقت پھلوں سے خالی نہ ہوتا تھا۔( خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۳۲۸، مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۲۹۷، ملتقطاً)
{وَ بَنِیْنَ شُهُوْدًا: اور سامنے حاضر رہنے والے بیٹے دئیے۔} ولید بن مغیرہ کے دس بیٹوں میں سے تین مُشَرَّف بَہ اسلام ہوئے اور ان میں سے ایک اسلامی لشکروں کے مشہور سِپہ سالار اور ملکِ شام کے فاتح حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔
{كَلَّا: ہرگز نہیں ۔} منقول ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ولید کے مال ، اولاد اور عزت و مرتبے میں کمی ہونا شروع ہوگئی یہاں تک کہ (وہ بڑی ذلت و خواری کے ساتھ) ہلاک ہوگیا۔( خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۳۲۸)
{سَاُرْهِقُهٗ صَعُوْدًا: جلد ہی میں اسے (آگ کے پہاڑ) صعود پر چڑھاؤں گا۔} حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’صعود آگ کا ایک پہاڑ ہے جس پر کافر کو ستر سال تک چڑھایا جائے گا،پھر ستر سال تک اسے اس پہاڑ سے نیچے گرایا جائے گا اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔( ترمذی، کتاب التفسیر ، باب ومن سورۃ المدثر، ۵ / ۲۱۶،الحدیث: ۳۳۳۷)
{اِنَّهٗ فَكَّرَ وَ قَدَّرَ: بیشک اس نے سوچا اور دل میں کوئی بات ٹھہرا لی۔} شانِ نزول: جب یہ آیت ’’ حٰمٓۚ(۱) تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ‘‘ نازل ہوئی اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسجد میں نماز کے دوران تلاوت فرمائی تو ولید نے اس آیت کو سنا اور اپنی قوم کی مجلس میں آکر اُس نے کہا کہ خدا کی قسم !میں نے محمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے ابھی ایک کلام سنا ہے، نہ وہ کلام آدمی کا ہے اور نہ جن کا، خدا کی قسم! اس کلام میں عجیب شیرینی، تازگی ، فوائد اور دل کَشی ہے،وہ کلام سب پر غالب رہے گا ۔ قریش کو اُس کی اِن باتوں سے بہت غم ہوا اور ان میں مشہور ہوگیا کہ ولید اپنے آبائی دین سے مُنْحَرِف ہوگیا ہے۔ابوجہل نے ولید کو سمجھانے کا ذمہ لیااور اس کے پاس آکر بہت غمزدہ صورت بنا کر بیٹھ گیا۔ ولید نے کہا :تمہیں کیا غم ہے؟ ابوجہل نے کہا :غم کیسے نہ ہو، تو بوڑھا ہوگیاہے اور قریش تیرے خرچ کیلئے روپیہ جمع کردیں گے، اُنہیں خیال ہے کہ تو نے محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے کلام کی تعریف اس لئے کی ہے کہ تجھے ان کے دستر خوان کا بچا ہوا کھانا مل جائے۔ اس پر اُسے بہت طیش آیا اور کہنے لگا کہ کیا قریش کو میرے مال و دولت کا حال معلوم نہیں ہے اور کیا محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اور ان کے اَصحاب نے کبھی سیر ہو کر کھانا بھی کھایا ہے جو اُن کے دستر خوان پر کچھ بچے گا۔ پھر وہ ابوجہل کے ساتھ اُٹھا اور قوم میں آکر کہنے لگا:تمہیں خیال ہے کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) مجنون ہیں ،کیا تم نے اُن میں کبھی دیوانگی کی کوئی بات دیکھی؟ سب نے کہا: ہرگز نہیں ۔ولید کہنے لگا :تم انہیں کاہِن سمجھتے ہو ،کیا تم نے انہیں کبھی کہانت کرتے دیکھاہے؟ سب نے کہا: ہرگز نہیں ۔ ولید بولا: تم انہیں شاعر گمان کرتے ہو ،کیا تم نے کبھی انہیں شعر کہتے ہوئے پایا ہے؟سب نے کہا:ہرگز نہیں : ولید کہنے لگا: تم انہیں کَذّاب کہتے ہو، کیا تمہارے تجربہ میں ایسا ہے کہ کبھی اُنہوں نے جھوٹ بولا ہو؟سب نے کہا: ہرگز نہیں اور قریش میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سچائی اور دیانت ایسی مشہور تھی کہ قریش آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو امین کہا کرتے تھے۔ یہ سن کر قریش نے کہا :ولید!پھر بات کیا ہے؟ تو ولید سوچ کر بولا کہ بات یہ ہے کہ وہ جادو گر ہیں ، تم نے دیکھا ہوگا کہ ان کی بدولت رشتہ دار رشتہ دار سے اورباپ بیٹے سے جدا ہوجاتے ہیں بس یہی جادو گر کا کام ہے اور جو قرآن وہ پڑھتے ہیں وہ دل میں اثر کر جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جادو ہے۔اس سے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں ۔
چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی 8آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ نے سوچا کہ وہ اُس قرآن کے بارے میں کیا کہے جو اس نے نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنا ،چنانچہ اس نے غوروفکر کر کے اپنے دل میں وہ کلام مُرَتَّب کر لیا جو اس نے قرآن کے بارے میں کہنا تھا ۔ اب فرمانِ الٰہی ہوتا ہے کہ اس پر لعنت ہو ، اس نے اپنے دل میں کیسی عجیب بات ٹھہرائی ہے ۔ پھراس پر لعنت ہو ، اس نے اپنے دل میں کیسی حیرت انگیزبات ٹھہرائی ہے۔پھر اس نے نظر اٹھا کر اپنی قوم کے چہروں کی طرف دیکھا۔پھر اس نے کسی چیز میں غور کرنے والے کی طرح تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا۔پھراس نے ایمان لانے سے پیٹھ پھیری اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنے کو اپنی بڑائی کے خلاف سمجھا۔پھر قرآنِ مجید کے بارے میں بولا: یہ تو وہی جادو ہے جو جادوگروں سے منقول چلتا آرہا ہے اوریہ کسی آدمی ہی کا کلام ہے۔یہ سن لے کہ جلد ہی اللّٰہ تعالیٰ اسے دوزخ میں دھنسادے گا۔(جلالین، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۸-۲۶، ص۴۸۰، خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۱۸-۲۶، ۴ / ۳۲۹، ملتقطاً)
{وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا سَقَرُ: اور تمہیں کیا معلوم کہ دوزخ کیا ہے؟} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مُخاطَب! تمہیں کیا معلوم کہ دوزخ کیا ہے ؟ وہ ایسی جگہ ہے کہ عقل اس کی شدت اور سختی کا اندازہ نہیں لگا سکتی، وہ نہ کسی عذاب کے مُسْتحق کو چھوڑے گی اور نہ کسی کے جسم پر گوشت پوست کھال لگی رہنے دے گی، بلکہ عذاب کے مُستحق کو گرفتار کرے گی اور گرفتار کو جلائے گی اور ایسا نہیں ہو گا کہ ہلاک ہونے کے بعد معاملہ ختم ہو جائے گا بلکہ جب اس میں داخل لوگ جل جائیں گے تو پھر ویسے ہی کردیئے جائیں گے جیسے پہلے تھے اور جہنم پھر انہیں جلائے گی،وہ جہنم تو جلا کر آدمی کی کھال اتارلینے والی ہے اور اس پر 19 فرشتے حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے اٹھارہ ساتھی داروغہ کے طور پر مقررہیں ۔( روح البیان، المدثر، تحت الآیۃ: ۲۷-۳۰، ۱۰ / ۲۳۱، خازن، المدثر، تحت الآیۃ: ۲۷-۳۰، ۴ / ۳۲۹، ملتقطاً)
کفار کا سخت عذاب اور جہنم کی شدت:
کفار کے سخت عذاب اورجہنم کی شدت کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَارًاؕ-كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِیْزًا حَكِیْمًا‘‘(النساء:۵۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماریآیتوں کا انکار کیا عنقریب ہم ان کو آگ میں داخل کریں گے۔ جب کبھی ان کی کھالیں خوب جل جائیں گی توہم ان کی کھالوں کو دوسری کھالوں سے بدل دیں گے کہ عذاب کا مزہ چکھ لیں ۔ بیشک اللّٰہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًاۙ-اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَاؕ-وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ-بِئْسَ الشَّرَابُؕ-وَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا‘‘(کہف:۲۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی اور اگروہ پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو اُن کے منہ کوبھون دے گا۔ کیا ہی برا پینا اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ایمان کی حالت میں ہی ہمیں موت نصیب فرمائے اور جہنم کے انتہائی سخت اور دردناک عذاب سے ہمیں نجات عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ مَا جَعَلْنَاۤ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓىٕكَةً: اور ہم نے دوزخ کے داروغے فرشتے ہی بنائے۔} شانِ نزول: حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں’’جب یہ آیت نازل ہوئی (جس میں دوزخ پر مقرر فرشتوں کی تعداد 19 بتائی گئی) تو ابو جہل نے قریش سے کہا’’تمہاری ماں تم پر روئے، محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے خبر دی ہے کہ دوزخ کے داروغہ 19 ہیں اور تم انتہائی بہادر اور تعداد میں کثیرلوگ ہو تو کیا تم میں سے دس مرد دوزخ کے ایک داروغہ کو نہیں پکڑ سکتے؟ابو الاشد بن اُسید نے کہا:میں اکیلا ان میں سے 17 کو کافی ہوں گا،10اپنی پیٹھ پر رکھ لوں گا اور 7 اپنے پیٹ پر باقی دو کو تم سنبھال لینا۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کاخلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے دوزخ کے داروغے انسانوں میں مرد نہیں بنائے جن پر کفار غالب آ جائیں گے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ نے دوزخ کے داروغے فرشتے ہی بنائے ہیں لہٰذا ان میں سے ایساکون ہے جو فرشتوں پر غالب آ سکے اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کی یہ قلیل تعداد کافروں کی اس آزمائش کیلئے ہی رکھی ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت پر اعتماد نہ کرکے اس تعداد میں کلام کریں اور کہیں کہ19کیوں ہوئے ،نیز یہ تعداد بیان کرنے میں چار باتیں اور مقصود ہیں ۔
(1)… تورات اور انجیل میں لکھا ہوا تھا دوزخ کے داروغے 19 ہیں ،قرآنِ پاک میں بھی ان کی تعداد بیان کر دی گئی تاکہ یہ تعداد اپنی کتابوں کے موافق دیکھ کر یہودیوں کو حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت کا یقین حاصل ہو۔
(2)… اہلِ کتاب میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کارسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اعتقاد اور زیادہ ہو جائے اور وہ یہ بات جان لیں کہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو کچھ فرماتے ہیں وہ اللّٰہ تعالیٰ کی وحی ہے اور اسی لئے وہ سابقہ کتابوں سے مطابقت رکھتی ہے۔
(3)… اہلِ کتاب اور مسلمان اس گنتی میں شک نہ کریں ۔
(4)… جن کے دلوں میں مُنافقت کا مرض ہے وہ اور کافر کہیں : اس عجیب و غریب بات سے اللّٰہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟ اورجس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے اُسے گمراہ کیا جس نے ا س تعداد کا انکار کیا اور اُسے ہدایت دی جس نے اس تعداد کی تصدیق کی،اسی طرح اللّٰہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتااور وہ یعنی جہنم اور اس کی صفت یا قرآن کی آیات توانسان کیلئے نصیحت ہی ہے۔(خازن ، المدثر ، تحت الآیۃ : ۳۱ ، ۴ / ۳۲۹-۳۳۰ ، تفسیر کبیر ، المدثر، تحت الآیۃ: ۳۱، ۱۰ / ۷۱۰-۷۱۱، مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۱۲۹۹، ملتقطاً)
{اِنَّهَا لَاِحْدَى الْكُبَرِ: بیشک دوزخ بہت بڑی چیزوں میں سے ایک چیز ہے۔} اس سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ نے چاند، رات اور صبح کی قسم ارشاد فرمائی کیونکہ ان میں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات ظاہر ہیں ،اس کے بعد اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں ارشا دفرمایا کہ بیشک دوزخ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے سے لے کر قیامت تک کے تمام گناہگار جنوں اور انسانوں کو عذاب دینے پر اللّٰہ تعالیٰ کے قادر ہونے پر دلالت کرنے والی بہت بڑی چیزوں میں سے ایک چیز ہے اور یہ دوزخ آدمیوں میں سے اس کوڈرانے والی ہے جو تم میں سے ایمان لا کربھلائی کی طرف یا جنت کی طرف آگے بڑھنا چاہے یا کفر اختیار کر کے جنت سے پیچھے ہٹنا چاہے اور جہنم کے عذاب میں گرفتار ہونا چاہے۔( روح البیان،المدثر،تحت الآیۃ:۳۵-۳۷، ۱۰ / ۲۳۸-۲۳۹، جلالین، المدثر، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۷، ص۴۸۱، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ انسان اپنے اعمال میں مجبورِ محض نہیں بلکہ اسے ایک طرح کا اختیار حاصل ہے۔
{كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌ: ہر جان اپنے کمائے ہوئے اعمال میں گروی رکھی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جنوں اور انسانوں میں سے ہر جان اپنے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے ایسے قید ہے جیسے وہ چیز جسے گروی رکھا ہوا ہے، البتہ کافر دائمی طور پر اور ایمان والے عارضی طور پر قید ہیں کیونکہ کافر جہنم کے عذاب سے کبھی نجات نہ پائیں گے جبکہ بعض ایمان والے شروع سے ہی جہنم سے نجات پاکر جنت میں چلے جائیں گے اوربعض اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد جنت میں داخل ہوں گے، ا س طر ح ایمان والے سب کے سب نجات پا جائیں گے۔( صاوی، المدثر، تحت الآیۃ: ۳۸، ۶ / ۲۲۷۳، ملخصاً)
{فِیْ جَنّٰتٍﰈ یَتَسَآءَلُوْنَ: باغوں میں ہوں گے۔ وہ پوچھ رہے ہوں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 7آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے آخرت میں باغوں میں ہوں گے اور جب جہنم میں داخل ہونے والے مومن اس سے نکل جائیں گے تو جنتی کافروں سے ان کا حال پوچھیں گے کہ تمہیں کون سی چیزدوزخ میں لے گئی؟وہ انہیں جواب دیتے ہوئے کہیں گے:ہم دنیا میں نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے کیونکہ ہم نماز کے فرض ہونے کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے اور مسلمانوں کی طرح مسکین پر صدقہ نہیں کرتے تھے اور اللّٰہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں بیہودہ فکر کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر بیہودہ باتیں سوچتے تھے اور ان کے بارے میں جھوٹی باتیں بولتے تھے اور ہم انصاف کے اس دن کو جھٹلاتے رہے جس میں اعمال کا حساب ہوگا اور ان کی جزا دی جائے گی ،یہاں تک کہ ہمیں موت آئی اور ہم ان مذموم افعال کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل ہو گئے۔( مدارک،المدثر،تحت الآیۃ:۴۰-۴۷،ص۱۳۰۰-۱۳۰۱، جلالین مع صاوی، المدثر، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۷، ۶ / ۲۲۷۳ -۲۲۷۴، روح البیان، المدثر، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۷، ۱۰ / ۲۴۰، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan