READ

Surah Al-Mu'minun

اَلْمُؤْمِنُوْن
118 Ayaat    مکیۃ


23:81
بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ(۸۱)
بلکہ انہوں نے وہی کہی جو اگلے (ف۱۳۳) کہتے تھے،

{بَلْ: بلکہ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ سمجھے نہیں  بلکہ انہوں  نے وہی بات کہہ دی جو ان سے پہلے والے کفارکہتے تھے کہ جب ہم مرجائیں  گے اور اس کے بعدمٹی اور ہڈیاں  ہوجائیں  گے توکیا ہم پھر زندہ کر کے اٹھائے جائیں  گے؟ بیشک ہمیں  اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جانے کا وعدہ دیا گیا اور ہمارے باپ دادا نے تو اس کی کوئی حقیقت نہ دیکھی تو ہمیں  کہاں  سے نظر آئے گی، یہ تو صرف پہلے لوگوں  کی جھوٹی داستانیں  ہیں  جن کی کچھ بھی حقیقت نہیں ۔( جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۱-۸۳، ص۲۹۲، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۱-۸۳، ۶ / ۱۰۰، ملتقطاً)

23:82
قَالُوْۤا ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ(۸۲)
بولے کیا جب ہم مرجائیں اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں کیا پھر نکالے جائیں گے،

23:83
لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَ اٰبَآؤُنَا هٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(۸۳)
بیشک یہ وعدہ ہم کو اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا کو دیا گیا یہ تو نہیں مگر وہی اگلی داستانیں (ف۱۳۴)

23:84
قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۸۴)
تم فرماؤ کس کا مال ہے زمین اور جو کچھ اس میں ہے اگر تم جانتے ہو (ف۱۳۵)

{قُلْ: تم فرماؤ۔} کفار کی اُس بات کا رد فرمانے اور اُن پر حجت قائم فرمانے کے لئے  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں  کہ زمین اور جو کچھ اس میں  ہے وہ سب کس کا ہے؟ اگر تم جانتے ہو تومجھے بتاؤ کہ ا ن کا خالق اور مالک کون ہے؟( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۷۶۳، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۳۳۰، ملتقطاً)

{سَیَقُوْلُوْنَ: اب کہیں  گے۔}  اللہ تعالیٰ نے کفار کی طرف سے ا س سوال کا دیا جانے والاجواب پہلے ہی اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرما دیا کہ اس سوال کے جواب میں  عنقریب کافر کہیں  گے: ان کا خالق و مالک  اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی جواب ہی نہیں  اور مشرکین  اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کا اقرار بھی کرتے ہیں ، جب وہ یہ جواب دیں  تو اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمائیں  کہ پھر تم کیوں  غور نہیں  کرتے تا کہ یہ بات جان جاؤ کہ جس نے زمین کو اور اس کی کائنات کو ابتداء ً پیدا کیا وہ ضرور مُردوں  کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۳۳۰، ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۵، ۴ / ۶۱، ملتقطاً)

23:85
سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِؕ-قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(۸۵)
اب کہیں گے کہ اللہ کا (ف۱۳۶) تم فرماؤ پھر کیوں نہیں سوچتے (ف۱۳۷)

23:86
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ(۸۶)
تم فرماؤ کون ہے مالک سوتوں آسمانوں کا اور مالک بڑے عرش کا،

{سَیَقُوْلُوْنَ: اب کہیں  گے۔} اس سے پہلی آیت میں  کفار سے دوسراسوال کیا گیا کہ ساتوں  آسمانوں  کا اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کفار کی طرف سے دیا جانے والاجواب پہلے ہی ارشاد فرما دیا کہ وہ آپ کی اس بات کے جواب میں  کہیں  گے کہ یہ سب  اللہ تعالیٰ ہی کاہے۔ تو آپ ان سے فرمائیں  کہ پھرتم غَیْرُ اللہ کی عبادت کرنے اور  اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے سے اور اس کے مُردوں  کو زندہ کرنے پر قادر ہونے کا انکار کرنے سے کیوں  نہیں  ڈرتے اور اس کے عذاب سے خوف کیوں  نہیں  کھاتے۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ص۷۶۳، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ۳ / ۳۳۰، ملتقطاً)

23:87
سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِؕ-قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۸۷)
اب کہیں گے یہ اللہ ہی کی شان ہے، تم فرماؤ پھر کیوں نہیں ڈرتے (ف۱۳۸)

23:88
قُلْ مَنْۢ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُوَ یُجِیْرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۸۸)
تم فرماؤ کس کے ہاتھ ہے ہر چیز کا قابو (ف۱۳۹) اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے خلاف کوئی پناہ نہیں دے سکتا اگر تمہیں علم ہو (ف۱۴۰)

{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار سے فرمائیں ’’اگر تمہیں  علم ہے تومجھے اس بات کا جواب دو کہ ہر چیز کی ملکیت کس کے ہاتھ میں  ہے اور ہر چیز پر حقیقی قدرت و اختیار کس کا ہے؟  اللہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے خلاف پناہ نہیں  دی جاسکتی۔ کفار آپ کے سوال کے جواب میں  کہیں  گے کہ یہ ملکیت  اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے۔ آپ ان سے فرمائیں  کہ تو پھر تم کس جادو کے فریب میں  پڑے ہو؟ یعنی کس شیطانی دھوکے میں ہو کہ توحید اور  اللہ تعالیٰ کی عبادت کو چھوڑ کر حق کو باطل سمجھ رہے ہو؟ جب تم اقرار کرتے ہو کہ حقیقی قدرت اسی کی ہے اور اس کے خلاف کوئی کسی کو پناہ نہیں  دے سکتا تو دوسرے کی عبادت قطعاً باطل ہے۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۸، ۴ / ۶۲، ملخصاً)

23:89
سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِؕ-قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ(۸۹)
اب کہیں گے یہ اللہ ہی کی شان ہے، تم فرماؤ پھر کس جادو کے فریب میں پڑے ہو (ف۱۴۱)

23:90
بَلْ اَتَیْنٰهُمْ بِالْحَقِّ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(۹۰)
بلکہ ہم ان کے پاس حق لائے (ف۱۴۲) اور وہ بیشک جھوٹے ہیں (ف۱۴۳)

{بَلْ: بلکہ۔} یعنی مشرکین جیساگمان کرتے ہیں  ویسا قطعاً نہیں  بلکہ ہم ان کے پاس حق لائے کہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نہ اولاد ہوسکتی ہے نہ اس کا شریک، یہ دونوں  باتیں  محال ہیں  اور وہ بیشک جھوٹے ہیں  جو اس کیلئے شریک اور اولاد ٹھہراتے ہیں ۔( تفسیر طبری، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۹۰، ۹ / ۲۳۹ - ۲۴۰ ، مدارک، المؤمنون ، تحت الآیۃ: ۹۰، ص۷۶۳، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۳۳۰، ملتقطاً)

{مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ:  اللہ نے کوئی بچہ اختیار نہ کیا۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے کفار کے جھوٹا ہونے کو مزید تاکید سے بیان فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ نے کوئی بچہ اختیار نہیں  کیا،وہ اس سے بری ہے کیونکہ  اللہ تعالیٰ نوع اور جنس سے پاک ہے  اور اولاد وہی ہوسکتی ہے جو ہم جنس ہو اور نہ  اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا خداہے جو اُلوہِیّت میں  ا س کا شریک ہو۔ اگر بِالفرض کوئی دوسرا خدا ہوتاتو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ہر معبود اپنی مخلوق لے جاتا اور اسے دوسرے کے تحت ِتَصَرُّف نہ چھوڑتا اور ضرور ان میں  سے ایک دوسرے پر بڑائی و غلبہ چاہتا اوردوسرے پر اپنی برتری اور اپنا غلبہ پسند کرتا کیونکہ ایک دوسرے کے مقابل حکومتیں  اسی چیز کاتقاضاکرتی ہیں  اور ایسی صورت میں  کائنات کے نظام کی تباہی یقینی تھی۔ اس سے معلو م ہوا کہ دو خدا ہونا باطل ہے، خدا ایک ہی ہے اور ہر چیز اسی کے تحت ِتصرف ہے۔آیت کے آخر میں  فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ ان شرکیہ باتوں  سے پاک ہے جو یہ کفاربیان کرتے ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ کے لئے شریک اور اولاد ہے۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۷۶۴، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۳۳۰، ملتقطاً)

23:91
مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّ مَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یَصِفُوْنَۙ(۹۱)
اللہ نے کوئی بچہ اختیار نہ کیا (ف۱۴۴) اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا (ف۱۴۵) یوں ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق لے جاتا (ف۱۴۶) اور ضرور ایک دوسرے پر اپنی تعلی چاہتا (ف۱۴۷) پاکی ہے اللہ کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں (ف۱۴۸)

23:92
عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَتَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۠(۹۲)
جاننے والا ہر نہاں و عیاں کا تو اسے بلندی ہے ان کے شرک سے،

{عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ: ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کا جاننے والا ہے۔} یعنی  اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ ہر پوشیدہ اورظاہر بات کو جاننے والا ہے یعنی جومخلوق سے پوشیدہ ہے یا مخلوق پر ظاہر ہے توایسا علم والا خدا ا ن بتوں  کا شریک کیسے ہو سکتا ہے جو چھپی ہوئی کوئی بات تک نہیں  جانتے اور نہ ہی ظاہری باتوں  کی انہیں  خبر ہے یعنی مکمل بے خبر ہیں ،لہٰذا  اللہ تعالیٰ اس شرک سے بلند و بالا ہے جو یہ مشرک کرتے ہیں ۔

23:93
قُلْ رَّبِّ اِمَّا تُرِیَنِّیْ مَا یُوْعَدُوْنَۙ(۹۳)
تم عرض کرو کہ اے میرے رب! اگر تو مجھے دکھائے (ف۱۴۹) جو انہیں وعدہ دیا جاتا ہے،

{قُلْ رَّبِّ: تم عرض کرو: اے میرے رب!} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم یوں دعاکرو کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو مجھے وہ عذا ب دکھادے جس کا(دنیا میں ) ان کافروں سے وعدہ کیا جاتا ہے تو اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے ان ظالموں  میں  شامل نہ کرنا اور ان کا ساتھی نہ بنانا۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۳-۹۴، ۴ / ۶۲)

             یاد رہے کہ یہ بات یقینی طور پر معلوم ہے کہ  اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کا ساتھی نہ بنائے گا،اس کے باوجود رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاا س طرح دعا فرمانا، عاجزی اور بندگی کے اظہار کے طور پر ہے۔ اسی طرح انبیاءِ معصومین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام استغفار کیا کرتے ہیں حالانکہ انہیں  اپنی مغفرت اور اکرامِ خداوندی کا علم یقینی ہوتا ہے، یہ سب تواضع اور اظہارِبندگی کے طور پر ہے۔

23:94
رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِیْ فِی الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۹۴)
تو اے میرے رب! مجھے ان ظالموں کے ساتھ نہ کرنا (ف۱۵۰)

23:95
وَ اِنَّا عَلٰۤى اَنْ نُّرِیَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقٰدِرُوْنَ(۹۵)
اور بیشک ہم قادر ہیں کہ تمہیں دکھادیں جو انہیں وعدہ دے رہے ہیں (ف۱۵۱)

{وَ اِنَّا: اور بیشک ہم۔} اس آیت میں  ان کفار کو جواب دیا گیا ہے جو اُس عذاب کا انکار کرتے اور اس کی ہنسی اڑاتی تھے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا، انہیں  بتایا گیا کہ اگر تم غور کرو تو سمجھ لو گے کہ  اللہ تعالیٰ اس وعدے کو پورا کرنے پر قادر ہے،تو پھر انکار کی وجہ اورمذاق اڑانے کا سبب کیا ہے ؟اور کفار کے عذاب میں  جو تاخیر ہورہی ہے اس میں   اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت یہ ہے کہ ان میں  سے جو ایمان لانے والے ہیں  وہ ایمان لے آئیں  اور جن کی نسلیں  ایمان لانے والی ہیں  ان سے وہ نسلیں  پیدا ہولیں ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۷۶۵، ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۵، ۴ / ۶۳، ملتقطاً)

23:96
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَؕ-نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ(۹۶)
سب سے اچھی بھلائی سے برائی کو دفع کرو (ف۱۵۲) ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ بناتے ہیں (ف۱۵۳)

{اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَ: بُرائی کو اس خصلت و عادت سے دفع کروجو سب سے اچھی ہو۔} مفسرین نے اس خوبصورت جملے کے کثیرمعنی بیان فرمائے ہیں ، ان میں  سے چند یہ ہیں ۔(1) توحید جو کہ سب سے اعلیٰ بھلائی ہے اس سے شرک کی برائی کو دفع فرمائیں ۔ (2)طاعت و تقویٰ کو رواج دے کر مَعصیَت اور گناہ کی برائی دفع کیجئے۔ (3)اپنے مَکارمِ اَخلاق سے خطا کاروں  پر اس طرح عفْو ورحمت فرمائیں  جس سے دین میں  کوئی سستی نہ ہو۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۶، ۴ / ۶۳، ملخصاً)

رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت سے برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالنے کی مثالیں :

            سُبْحَانَ اللّٰہ! اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اور آپ کے ذریعے آپ کی امت کی کتنی پیاری تربیت فرمائی ہے، اسی طرح ایک اور آیت میں  ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ-اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ‘‘(حم السجدہ:۳۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اچھائی اور برائی برابرنہیں  ہوسکتی۔ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو تو تمہارے اور جس شخص کےدرمیان دشمنی ہوگی تو اس وقت وہ ایسا ہوجائے گا کہ جیسے وہ گہرا دوست ہے۔

            حضور پُرنور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ میں  برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالنے کی بے شمار مثالیں  موجود ہیں ، جیسے سو اونٹوں  کے لالچ میں  آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کے لئے آنے والے سراقہ بن مالک کو امان لکھ دی۔آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کے ارادے سے زہر میں  بجھی تلوار لے کر آنے والے عمیر بن وہب کے ساتھ ایسا سلوک فرمایا کہ وہ وہیں  کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ فتحِ مکہ کے بعد ان کی سفارش پر صفوان بن امیہ کو بھی معاف کر دیا، منافقوں  کے سردار عبد اللہ بن اُبی سلول کی نماز جنازہ پڑھا دی۔مدینہ منورہ پر کئی حملے کرنے والے ابو سفیان کو معاف کر دیا۔ اپنے چچا حضرت حمزہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کو شہید کرنے والے شخص وحشی کومعاف کر دیا۔ حضرت حمزہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا کلیجہ چبانے والی ہند بنت ِعتبہ کو معاف کر دیا۔اگر تمام مسلمان اس آیت مبارکہ میں  دئیے گئے حکم پر عمل پیرا ہوجائیں  تو کوئی بعید نہیں  کہ ہمارے معاشرے میں  امن و سکون کا دَور دورہ ہو جائے۔

{نَحْنُ اَعْلَمُ: ہم خوب جانتے ہیں ۔} اس آیت میں  حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے  اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم خوب جانتے ہیں  جو باتیں  یہ کفار  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں  کررہے ہیں ، آپ ان کا معاملہ ہم پہ چھوڑدیں ، ہم انہیں  اس کی سزا دیں  گے۔( ابوسعود ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۹۶ ، ۴ / ۶۳ ، بیضاوی ، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۶، ۴ / ۱۶۷، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۷۶۴، ملتقطاً)

23:97
وَ قُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِۙ(۹۷)
اور تم عرض کرو کہ اے میرے رب تیری پناہ شیاطین کے وسوسو ں سے (ف۱۵۴)

{وَ قُلْ: اور تم عرض کرو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مزید دو دعائیں  تعلیم فرمائی ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ یوں  دعا کریں  کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  شیطانوں  کے وسوسوں  سے تیری پناہ مانگتا ہوں  جن سے وہ لوگوں  کو فریب دے کر مَعاصی اور گناہوں  میں  مبتلا کرتے ہیں  اور اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  تیری پناہ مانگتا ہوں  اس سے کہ وہ شیطان میرے پاس آئیں۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۷-۹۸، ص۷۶۴-۷۶۵، ملخصاً)

شیطان سے حفاظت انتہائی اہم چیز ہے:

          علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اگرچہ معصوم ہیں  لیکن چونکہ شیطان سے حفاظت انتہائی اہم چیز ہے ا س لئے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ دعا مانگنے کا حکم دیا گیا اور ا س سے مقصود سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو تعلیم دینا ہے کہ وہ شیطان اور اس کے وسوسوں  سے پناہ مانگتے رہا کریں ۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۷، ۴ / ۱۳۷۷)

{ وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ : اور اے میرے رب!میں  تیری پناہ مانگتا ہوں۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شیطان کے وسوسوں  سے بھی محفوظ ہیں  اور حضور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ تک شیطان کی رسائی نہیں  کیونکہ  اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ دعا سکھائی اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ دعا مانگی جو کہ قبول ہوئی۔یہ بھی معلوم ہوا کہ بڑے سے بڑا آدمی بھی اپنے آپ کو شیطان سے محفوظ نہ سمجھے۔ جب نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شیطان سے پناہ مانگی تو ہم کیا چیز ہیں ۔

23:98
وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ(۹۸)
اور اے میرے رب تیری پناہ کہ وہ میرے پاس آئیں،

23:99
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ(۹۹)
یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آئے (ف۱۵۵) تو کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھے واپس پھر دیجئے، (ف۱۵۶)

{حَتّٰى: یہاں  تک کہ۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر دی کہ جو کفار مرنے کے بعد اٹھنے کا انکار کر رہے ہیں  یہ اپنی موت کے وقت دنیا کی طرف لوٹائے جانے کا سوال کریں  گے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کافر اپنی موت کے وقت تک تو اپنے کفر و سرکشی،  اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرنے اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کا انکار کرنے پر ڈٹارہتا ہے اور جب ا س کی موت کا وقت آتا ہے اور جہنم میں  اس کا جو مقام ہے وہ اسے دکھایاجاتا ہے اور جنت کا وہ مقام بھی دکھایا جاتا ہے جو ایمان لانے کی صورت میں  اسے ملتا، تو کہتا ہے کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے دنیا کی طرف واپس لوٹادے۔( خازن، المؤمنون،تحت الآیۃ:۹۹، ۳ / ۳۳۱، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۷۶۵، جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۲۹۲)

23:100
لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّاؕ-اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىٕلُهَاؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۱۰۰)
شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں اس میں جو چھوڑ آیا ہوں (ف۱۵۷) ہشت یہ تو ایک بات ہے جو وہ اپنے منہ سے کہتا ہے (ف۱۵۸) اور ان کے آگے ایک آڑ ہے (ف۱۵۹) اس دن تک جس دن اٹھائے جائیں گے،

{لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا: شاید اب میں  کچھ نیک عمل کرلوں ۔} ارشاد فرمایا کہ کافر اپنی موت کے وقت عرض کرے گا کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے دنیا کی طرف واپس لوٹادے،شاید اب میں  اس دنیا میں  کچھ نیک عمل کرلوں جسے میں  نے چھوڑدیا ہے اور نیک اعمال بجا لا کر اپنی غلطیوں  اورکوتاہیوں  کا تَدارُک کروں ۔ اس پر اس سے فرمایا جائے گا’’ہرگز نہیں ! یہ تو ایک بات ہے جو وہ حسرت و ندامت سے کہہ رہا ہے، یہ ہونے والی نہیں  اور اس کا کچھ فائدہ نہیں ۔ مزید ارشاد فرمایا کہ ان کے آگے ایک رکاوٹ ہے جو انہیں  دنیا کی طرف واپس ہونے سے مانع ہے اور وہ موت ہے کہ قانونِ الٰہی یہی ہے کہ جو مرگیا وہ دوبارہ دنیا میں  نہیں  لوٹایا جائے گا۔ یہاں  یہ بات ذہن میں  رہے کہ انبیاء و اَولیاء کا قدرت ِ الٰہی اور اِذنِ الٰہی سے مُردوں  کو زندہ کرنا اس آیت کے مُنافی نہیں  کہ آیت میں  عمومی قانون بیان کیا گیا ہے جبکہ انبیاء و اَولیاء کا زندہ کرنا قدرت ِ الٰہی کا اِظہار ہے۔

موت کے وقت دنیا میں  واپسی کا سوال مومن و کافر دونوں  کریں  گے:

            یاد رہے کہ جس طرح کافراپنی موت کے وقت ایمان لانے اورنیک اعمال کرنے کے لئے دوبارہ دنیا میں  لوٹا دئیے جانے کاسوال کریں  گے اسی طرح وہ مسلمان بھی دنیا میں  لوٹائے جانے کا سوا ل کریں  جنہوں  نے نیک اعمال کرنے  میں  کمی یا کوتاہی کی ہو گی، چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۹)وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ-فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰)وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَاؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘(منافقون:۹۔۱۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاریاولاد تمہیں   اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں  سے اس وقت سے پہلے پہلے کچھ ہماری راہ میں  خرچ کرلو کہ تم میں  کسی کو موت آئے تو کہنے لگے، اے میرے رب !تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کیوں  مہلت نہ دی کہ میں  صدقہ دیتا اور صالحین میں  سے ہوجاتا۔اور ہرگز اللّٰہکسی جان کو مہلت نہ دے گا جب اس کا وعدہ آجائے اور اللّٰہتمہارے کاموں  سے خبردار ہے۔

            ترمذی شریف میں  ہے،حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا:جس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ بَیْتُ  اللہ شریف کا حج کرنے پہنچ سکتا ہو یا اس پر زکوٰۃ فرض ہو، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے یا زکوٰۃ نہ دے تو وہ مرتے وقت دنیا میں  واپسی کا سوال کرے گا۔ایک شخص نے کہا:اے عبد اللہ بن عباس! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا، آپ  اللہ تعالیٰ سے ڈریں ، دنیا میں  واپسی کا سوال تو صرف کفار کریں  گے (اور آپ مسلمانوں  کے بارے میں  ایسا کہہ رہے ہیں ) حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا:میں  اس کے بارے میں  تمہارے سامنے قرآن مجید کی آیات پڑھتا ہوں ، چنانچہ آپ نے سورہِ منافقون کی ان تین آیات کی تلاوت فرمائی۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المنافقین، ۵ / ۲۰۸، الحدیث: ۳۳۲۷)

             لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ادائیگی اور ا س کے اَحکام کی بجا آوری میں  ہر گز ہر گز غفلت سے کام نہ لے اور دنیا کی زندگی میں  زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کر لے تاکہ موت کے وقت ایسے حال کا سامنا کرنے سے محفوظ رہے۔

23:101
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَىٕذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ(۱۰۱)
تو جب صُور پھونکا جائے گا (ف۱۶۰) تو نہ ان میں رشتے رہیں گے (ف۱۶۱) اور نہ ایک دوسرے کی بات پوچھے (ف۱۶۲)

{ فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ: تو جب صُورمیں  پھونک ماری جائے گی۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اس سے مراد پہلی مرتبہ صور میں  پھونک مارنا ہے جسے پہلا نَفخہ کہتے ہیں  اورحضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ ا س سے مراد دوسری مرتبہ صور میں  پھونک مارنا ہے جسے دوسرا نفخہ کہتے ہیں ۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۳۲)اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب صورمیں  پھونک ماری جائے گی تولوگوں  کے درمیان کوئی رشتے نہ رہیں  گے جن پر وہ دنیا میں  فخر کیا کرتے تھے اوران میں  آپس کے نسبی تعلقات منقطع ہوجائیں  گے اور رشتے داری کی محبتیں  باقی نہ رہیں  گی اور یہ حال ہوگا کہ آدمی اپنے بھائیوں ، ماں  باپ، بیوی اور بیٹوں  سے بھاگے گا اوراس وقت نہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں  گےجیسا کہ دنیا میں  پوچھتے تھے کیونکہ ہر ایک اپنے ہی حال میں مبتلا ہوگا، پھر دوسری بارصور پھونکا جائے گا اور حساب کے بعد لوگ ایک دوسرے کا حال دریافت کریں  گے۔(روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۱۰۶-۱۰۷)

رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نسب اس وقت بھی فائدہ دے گا جب رشتے مُنقطع ہو جائیں گے:

             یاد رہے کہ ا س حکم میں  حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نسب داخل نہیں ، آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نسب قیامت کے دن مومن سادات کو کام آئے گا۔یہاں  اس سے متعلق 4اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ قیامت کے دن میرے نسبی اور سسرالی رشتے کے علاوہ ہر نسبی اور سسرالی رشتہ منقطع ہو جائے گا۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ: علی، ۳ / ۱۴۵، الحدیث: ۴۱۳۲)

(2)… حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں  کو جمع کیا اور منبر پر تشریف لے گئے اور ارشادفرمایا’’ ان لوگوں  کا کیا حال ہے جو یہ گمان کرتے ہیں  کہ میری قَرابت نفع نہ دے گی۔ ہر تعلق اوررشتہ قیامت میں  منقطع ہوجائے گا مگرمیرا رشتہ اور تعلق (منقطع نہ ہوگا) کیونکہ دنیا وآخرت میں  جڑا ہواہے۔( مجمع الزواءد، کتاب علامات النبوّۃ، باب فی کرامۃ اصلہ صلی  اللہ علیہ وسلم، ۸ / ۳۹۸، الحدیث: ۱۳۸۲۷)

(3)… امیر المومنین مولیٰ علی کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی بہن حضرت اُمِّ ہانی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا کی بالیاں  کسی وجہ سے ایک بار ظاہر ہوگئیں(حالانکہ انہیں  چھپانے کا حکم ہے) اس پر ان سے کہا گیا:محمد مصطفٰی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہیں نہ بچائیں  گے۔وہ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت ِاقدس میں  حاضر ہوئیں  اور حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ واقعہ عرض کیا، حضور انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ ان لوگوں  کا کیاحال ہے جو یہ گمان کرتے ہیں  کہ میری شفاعت میرے اہلِ بیت کو نہ پہنچے گی؟ بے شک میری شفاعت ضرور ’’حَا‘‘ اور ’’حَکَمْ‘‘ (نامی یمن کے دو قبیلوں ) کو بھی شامل ہے۔(معجم الکبیر، عبد الرحمٰن بن ابی رافع عن امّ ہانیٔ، ۲۴ / ۴۳۴، الحدیث: ۱۰۶۰)

(4)…حضرت انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرےرب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میرے اہل ِبیت میں  سے جو شخص  اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت اور میری رسالت پر ایمان لائے گا،اسے عذاب نہ فرمائے گا۔( مستدرک،کتاب معرفۃالصحابۃ رضی  اللہ تعالی عنہم،وعدنی ربّی فی اہل بیتی ان لایعذّبہم،۴ / ۱۳۲، الحدیث: ۴۷۷۲)

23:102
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۲)
تو جن کی تولیں (ف۱۶۳) بھاری ہولیں وہی مراد کچھ پہنچے،

{ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ: تو جن کے پلڑے بھاری ہوں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا معنی یہ ہے کہ جس کے عقائد درست اور اعمال نیک ہوں  گے تو اس کے اعمال کا  اللہ تعالیٰ کے نزدیک وزن ہو گا اور یہی لوگ اپنا مقصد ومطلوب کو پا کر کامیاب ہوں  گے اور جن کے عقائد غلط اور اعمال نیک نہ ہوں  گے، ان کے اعمال کا  اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی وزن نہ ہو گا اور ان سے مراد کفار ہیں ، انہوں  نے اپنی جانوں  کو نقصان میں  ڈالا اوروہ ہمیشہ دوزخ میں  رہیں  گے۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۲-۱۰۳، ۴ / ۶۴-۶۵)

            نوٹ: اعمال کے وزن سے متعلق مزید تفصیل کے لئے سورۂ اَعراف آیت نمبر8اور 9کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔

23:103
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فِیْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۳)
اور جن کی تولیں ہلکی پڑیں (ف۱۶۴) وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانیں گھاٹے میں ڈالیں ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے،

23:104
تَلْفَحُ وُجُوْهَهُمُ النَّارُ وَ هُمْ فِیْهَا كٰلِحُوْنَ(۱۰۴)
ان کے منہ پر آگ لپیٹ مارے گی اور وہ اس میں منہ چڑائے ہوں گے (ف۱۶۵)

{وَ هُمْ فِیْهَا كٰلِحُوْنَ: اور وہ اس میں  منہ چڑائے ہوں  گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی جانوں  کو نقصان میں  ڈالنے والے بدبختوں  کا حال یہ ہو گا کہ جہنم کی آ گ ان کے چہروں  کو جلادے گی اور جہنم میں  ان کے دونوں  ہونٹ سکڑ کر دانتوں  سے دور ہو جائیں  گے اور ان سے فرمایا جائے گا’’ کیا دنیا میں  تمہارے سامنے میرے قرآن کی آیتیں  نہ پڑھی جاتی تھیں  ؟ضرور پڑھی جاتی تھیں ، لیکن تم انہیں  سن کر میرے عذاب سے ڈرنے کی بجائے انہیں  جھٹلاتے تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ یہ  اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں  ہے۔( مدارک،المؤمنون،تحت الآیۃ:۱۰۴-۱۰۵،ص۷۶۶، جلالین،المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۴-۱۰۵، ص۲۹۳، ملتقطاً)

جہنم کا ایک عذاب:

            حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ’’ وَ هُمْ فِیْهَا كٰلِحُوْنَ کے بارے میں  ارشاد فرمایا ’’ آگ انہیں  بھون ڈالے گی اور اوپر کا ہونٹ سکڑ کر آدھے سر تک پہنچ جائے گا اور نیچے کا ہونٹ لٹک کرناف کو چھونے لگے گا۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المؤمنین، ۵ / ۱۱۹، الحدیث: ۳۱۸۷) اللہ تعالیٰ ہمیں  جہنم کے اس دردناک عذاب سے پناہ عطا فرمائے۔

             حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی       عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جہنم میں  بد نصیب ہی جائے گا۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بدنصیب کون ہے ؟ ارشاد فرمایا: ’’ جو  اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے کام نہ کرے اور اس کی نافرمانی نہ چھوڑے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ما یرجی من رحمۃ  اللہ عزّوجل یوم القیامۃ، ۴ / ۵۱۶، الحدیث: ۴۲۹۸)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ بھی ان آیات سے عبرت ونصیحت حاصل کرے، ہر حال میں   اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کرے اور کسی بھی حال میں  اس کی نافرمانی نہ کرے۔

23:105
اَلَمْ تَكُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ(۱۰۵)
کیا تم پر میری آیتیں نہ پڑھی جاتی تھیں (ف۱۶۶) تو تم انہیں جھٹلاتے تھے،

23:106
قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَ كُنَّا قَوْمًا ضَآلِّیْنَ(۱۰۶)
کہیں گے اے ہمارے رب ہم پر ہماری بدبختی غالب آئی اور ہم گمراہ لوگ تھے،

{قَالُوْا: وہ کہیں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ڈانٹ سن کر کفار کہیں  گے:ہم اپنے اختیار سے لذتوں  اور نفسانی خواہشات کی تکمیل میں  مصروف ہوئے اور یہ چیز ہم پر ایسی غالب آئی کہ ہم اس برے انجام تک پہنچ گئے اور انہی لذتوں  کی وجہ سے ہم لوگ حق سے گمراہ ہو گئے تھے اور ہم نے تیرے نبی کو جھٹلا دیا اور تیری نافرمانیاں  کیں ۔اے ہمارے رب! ہمیں  دوزخ سے نکال دے،اس کے بعد اگر ہم نے دوبارہ ویسے ہی کام کئے تو بیشک ہم اپنی جانوں  پر ظلم کرنے میں  حد سے بڑھنے والے ہوں  گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: دھتکارے ہوئے جہنم میں  پڑے رہو کیونکہ یہ سوال کرنے کی جگہ نہیں  اور مجھ سے جہنم سے نکال کر دنیا میں  لوٹا دینے کی بات نہ کرو کیونکہ اب ایسا کبھی بھی نہیں  ہو گا۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۸، ۶ / ۱۰۹)

جہنمیوں  کی فریاد:

            ان آیات میں  جہنمیوں  کی فریاد کا ذکر ہوا،اس مناسبت سے یہاں  دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ابو درداء رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ دوزخی لوگ جہنم کے داروغہ حضرت مالک عَلَیْہِ  السَّلَام کو پکار کر کہیں  گے اے مالک! تیرا رب (ہمیں  موت دے کر) ہمارا کام پورا کردے۔حضرت مالک عَلَیْہِ  السَّلَام ان سے کہیں  گے کہ تم جہنم ہی میں  پڑے رہو گے۔ پھر وہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  فریاد کریں  گے پکاریں  گے اور کہیں  گے ’’اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم پر ہماری بدبختی غالب آئی اور ہم گمراہ لوگ تھے، اے ہمارے رب! ہمیں  دوزخ سے نکال دے پھر اگر ہم ویسے ہی کریں  تو بیشک ہم ظالم ہوں  گے۔ اُنہیں  جواب دیا جائے گا کہ دھتکارے ہوئے جہنم میں  پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔ اب اُن کی امیدیں  منقطع ہوجائیں  گی اور اس وقت ندامت اور خرابی کی پکار میں  مشغول ہوں  گے۔( ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ طعام اہل النار، ۴ / ۲۶۳، الحدیث: ۲۵۹۵)

(2)…حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ دوزخی لوگ جہنم کے داروغہ حضرت مالک عَلَیْہِ  السَّلَام کو پکاریں  گے تو وہ چالیس برس تک انہیں  جواب نہ دیں  گے، اس کے بعد وہ کہیں  گے کہ تم جہنم ہی میں  پڑے رہو گے پھر وہ کہیں  گے’’اے ہمارے رب! ہمیں  دوزخ سے نکال دے پھر اگر ہم ویسے ہی کریں  تو بیشک ہم ظالم ہوں  گے۔ اور انہیں  دنیا سے دگنی عمر تک جواب نہ دیا جائے گا۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب ذکر النار، ما ذکر فیما اعدّ لاہل النار وشدّتہ، ۸ / ۹۲، الحدیث: ۶)

            اور دنیا کی عمر کتنی ہے اس بارے میں  کئی قول ہیں ’’ بعض نے کہا کہ دنیا کی عمر سات ہزار برس ہے، بعض نے کہا بارہ ہزار برس اور بعض نے کہا کہ تین لاکھ ساٹھ برس ہے۔ وَ اللہ  تَعَالٰی  اَعْلَم(التذکرہ للقرطبی ، باب منہ و ما جاء فی خروج الموحدین من النار۔۔۔ الخ، ص۴۱۸، صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۴ / ۱۳۷۸)اور آخری بیان کردہ عمر بھی قطعی نہیں  ہے۔

 

23:107
رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ(۱۰۷)
اے رب ہمارے ہم کو دوزخ سے نکال دے پھر اگر ہم ویسے ہی کریں تو ہم ظالم ہیں (ف۱۶۷)

23:108
قَالَ اخْسَــٴُـوْا فِیْهَا وَ لَا تُكَلِّمُوْنِ(۱۰۸)
رب فرمائے گا دھتکارے (خائب و خاسر) پڑے رہو اس میں اور مجھ سے بات نہ کرو (ف۱۶۸)

23:109
اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ(۱۰۹)
بیشک میرے بندوں کا ایک گروہ کہتا تھا اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے،

{اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ: بیشک میرے بندوں  کا ایک گروہ کہتا تھا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! تمہارا حال یہ تھا کہ جب دنیا میں  میرے مومن بندوں  کا ایک گروہ کہتا تھا: اے ہمارے رب! ہم تجھ پر ایمان لائے اور ہم نے تیری اور جو کچھ تیری طرف سے آیا ا س کی تصدیق کی، توہمارے گناہوں  کو معاف فرما کر ہمیں  بخش دے اور ہم پر رحم فرما اورہمیں  جہنم سے نجات دے کر اور جنت میں  داخل فرما کر ہم پراپنا احسان فرما اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے کیونکہ تیری رحمت ہی تمام رحمتوں  کا مَنبع ہے۔‘‘تو اے کافرو،تم نے انہیں  مذاق بنالیا یہاں  تک کہ ان لوگوں کا مذاق اڑانے نے تمہیں  میری یاد بھلا دی اور تمہیں  میرے عذاب کا خوف نہ رہا اور تم ان سے ہنسا کرتے اور ان کا بہت مذاق اڑایا کرتے تھے۔بیشک آج میں  نے انہیں  تمہاری اَذِیَّتوں  اور مذاق اڑانے پر صبر کرنے کا یہ بدلہ دیا کہ وہی ہمیشہ کے لئے جنت کی نعمتیں  پا کر کامیاب ہیں ۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۹-۱۱۱، ۶ / ۱۰۹، جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۹-۱۱۱، ص۲۹۳، ملتقطاً)

          شانِ نزول : بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیتیں  ان کفارِ قریش کے بارے میں  نازل ہوئیں  جو حضرت بلال، حضرت عمار،حضرت صہیب، حضرت خبّاب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ اوران جیسے دیگر فقراء صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۳۳۳)

23:110
فَاتَّخَذْتُمُوْهُمْ سِخْرِیًّا حَتّٰۤى اَنْسَوْكُمْ ذِكْرِیْ وَ كُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُوْنَ(۱۱۰)
تو تم نے انہیں ٹھٹھا بنالیا (ف۱۶۹) یہاں تک کہ انہیں بنانے کے شغل میں (ف۱۷۰) میری یاد بھول گئے اور تم ان سے ہنسا کرتے،

23:111
اِنِّیْ جَزَیْتُهُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوْۤاۙ-اَنَّهُمْ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۱۱۱)
بیشک آج میں نے ان کے صبر کا انہیں یہ بدلہ دیا کہ وہی کامیاب ہیں،

23:112
قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ(۱۱۲)
فرمایا (ف۱۷۱) تم زمین میں کتنا ٹھہرے (ف۱۷۲) برسوں کی گنتی سے

{قٰلَ: فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دوآیات کاخلاصہ یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کفار سے فرمائے گا کہ تم دنیا میں  اور قبر میں  سالوں  کی گنتی کے اعتبار سے کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ کفار اس سوال کے جواب میں  کہیں  گے: ہم ایک دن رہے یاایک دن کا بھی کچھ حصہ ٹھہرے ہیں ۔ کفار یہ جواب اس وجہ سے دیں  گے کہ اس دن کی دہشت اور عذاب کی ہَیبت سے انہیں  اپنے دنیا میں  رہنے کی مدت یاد نہ رہے گی اور انہیں  شک ہوجائے گا، اسی لئے کہیں  گے: اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تواُن فرشتوں  سے دریافت فرما جنہیں  تو نے بندوں  کی عمریں  اور ان کے اعمال لکھنے پر مامور کیا ہے۔  اللہ تعالیٰ کفار کو جواب دے گا کہ اگر تمہیں  دنیا میں  رہنے کی مدت معلوم ہوتی تو تم جان لیتے کہ آخرت کے مقابلے میں  دنیا میں  بہت ہی تھوڑا عرصہ ٹھہرے ہو۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۱۲-۱۱۴، ۳ / ۳۳۳)

23:113
قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْــٴَـلِ الْعَآدِّیْنَ(۱۱۳)
، بولے ہم ایک دن رہے یا دن کا حصہ (ف۱۷۳) تو گننے والوں سے دریافت فرما (ف۱۷۴)

23:114
قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا لَّوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۱۴)
فرمایا تم نہ ٹھہرے مگر تھوڑا (ف۱۷۵) اگر تمہیں علم ہوتا،

23:115
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵)
تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں (ف۱۷۶)

{اَفَحَسِبْتُمْ: تو کیا تم یہ سمجھتے ہو۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے کفار کو مزید سرزنش فرمائی کہ اے بد بختو! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں  بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں  جاؤ گے،ایسانہیں  بلکہ ہم نے تمہیں  عبادت کے لئے پیدا کیا تاکہ تم پر عبادت لازم کریں  اور آخرت میں  تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ تو تمہیں  تمہارے اعمال کی جزا دیں ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ص۷۶۷، ملخصاً)

 اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غفلت دانشمندی نہیں :

            یاد رہے کہ ہماری زندگی کا اصلی مقصد  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘(الذاریات:۵۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور میں  نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔

             اور یہ بھی یاد رہے کہ ہمیں  بالکل آزاد نہیں  چھوڑا جائے گا کہ نہ ہم پر اَمرونَہی وغیرہ کے اَحکام ہوں ، نہ ہمیں  مرنے کے بعد اُٹھایا جائے نہ ہم سے اعمال کا حساب لیا جائے اور نہ ہمیں  آخرت میں  اعمال کی جزا دی جائے، ایسا نہیں  ہے،

 اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًى‘‘(القیامہ:۳۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا آدمی اس گھمنڈ میں  ہے کہ اسے آزاد چھوڑ دیا جائے گا۔

            جب ہماری پیدائش کا اصل مقصد  اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور ہم شریعت کے احکام سے آزاد بھی نہیں  ہیں  اور ہمیں  قیامت کے دن اپنے ہر عمل کا حساب بھی بہر صورت دینا ہے تو  اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل ہو کر دنیا کے کام دھندوں  میں  ہی مصروف رہنا کہاں کی دانشمندی ہے۔

23:116
فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِیْمِ(۱۱۶)
تو بہت بلندی والا ہے اللہ سچا بادشاہ کوئی معبود نہیں سوا اس کے عزت والے عرش کا مالک،

{فَتَعٰلَى اللّٰهُ: تو  اللہ بہت بلندی والا ہے۔} یعنی  اللہ تعالیٰ اپنی ذات،صفات اور اَفعال میں  مخلوق کی مُماثلَت سے پاک ہے،وہی سچا بادشاہ ہے اور ہر چیز اسی کی ملکیت اور اسی کی بادشاہی میں  داخل ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں  کیونکہ تمام چیزیں  اسی کی ملکیت ہیں  اور جو ملکیت ہو وہ معبود نہیں  ہو سکتی اور وہ اس عرش کا مالک ہے جو عزت والا ہے کیونکہ  اللہ تعالیٰ کے کرم و رحمت کا فیضان یہیں  سے تقسیم ہوتا ہے اور ہر مخلوق میں  اس کی رحمت و کرم کے آثار یہیں  سے بٹتے ہیں ۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۶ / ۱۱۲)

23:117
وَ مَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۙ-لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖۙ-فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ(۱۱۷)
اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے خدا کو پوجے جس کی اس کے پاس کوئی سند نہیں (ف۱۷۷) تو اس کا حساب اس کے رب کے یہاں ہے، بیشک کافروں کا چھٹکارا نہیں،

{وَ مَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ: اور جو  اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت کرے۔} ارشاد فرمایا کہ جو  اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت کرے جس کی عبادت کرنے پر اس کے پاس کوئی دلیل نہیں  تو اس کا حساب اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس ہی ہے اور وہی اسے اس عمل کی سز ادے گا، بیشک کافر حساب کی سختی اور عذاب سے چھٹکارا نہیں  پائیں  گے اور انہیں  کوئی سعادت نصیب نہ ہوگی۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۶ / ۱۱۲-۱۱۳، جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ص۲۹۳، ملتقطاً)

23:118
وَ قُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۠(۱۱۸)
اور تم عرض کرو، اے میرے رب بخش دے (ف۱۷۸) اور رحم فرما اور تو سب سے برتر رحم کرنے والا،

{وَ قُلْ: اور تم عرض کرو۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو استغفار کرنے کا حکم دیا تاکہ امت اس میں  آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرے اوربعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ اس آیت میں  سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے واسطے سے آپ کی امت کو استغفار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔( قرطبی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۶ / ۱۱۷، الجزء الثانی عشر)

استغفار کا سردار:

          حضرت شداد بن اوس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’استغفار کا سردار یہ ہے کہ تم کہو ’’اَللّٰہُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ، لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اَنْتَ، خَلَقْتَنِیْ وَ اَنَا عَبْدُکَ، وَ اَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، اَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَ اَبُوْئُ بِذَنْبِی،فَاغْفِرْلِی، فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ‘‘ یعنی الٰہی تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو نے مجھے پیدا کیا، میں  تیرا بندہ ہوں  اور اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں ، میں  اپنے کیے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں ، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں  اور اپنے گناہوں  کا اقراری ہوں ، مجھے بخش دے تیرے سوا گناہ کوئی نہیں  بخش سکتا۔حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ جو یقینِ قلبی کے ساتھ دن میں  یہ کہہ لے پھر اسی دن شام سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا اور جو یقینِ دل کے ساتھ رات میں  یہ کہہ لے پھر صبح سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہوگا۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب افضل الاستغفار، ۴ / ۱۸۹، الحدیث: ۶۳۰۶)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْمُؤْمِنُوْن
اَلْمُؤْمِنُوْن
  00:00



Download

اَلْمُؤْمِنُوْن
اَلْمُؤْمِنُوْن
  00:00



Download