Surah Al-Mu'minun
{ثُمَّ اَنْشَاْنَا: پھر ہم نے پیدا کیں ۔} یعنی قومِ عاد کی ہلاکت کے بعد ہم نے دوسری بہت سی قومیں جیسے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم وغیرہ پیدا کیں تاکہ لوگوں پر ہماری قدرت ظاہر ہو اور ہر امت جان لے کہ ہم ان سے بے نیاز ہیں ، اگر وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت قبول کرتے اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اطاعت کرتے ہیں تو اس کا انہیں ہی فائدہ ہو گا۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۲، ۶ / ۸۴)
{مِنْ اُمَّةٍ: کوئی امت۔} ارشاد فرمایا کہ کوئی امت اپنی مدت سے نہ پہلے جاتی ہے اور نہ وہ لوگ اس مدت سے پیچھے رہتے ہیں ، جس امت کے لئے ہلاک ہونے کا جو وقت مقرر ہے وہ ٹھیک اسی وقت ہلاک ہوگی اس میں کچھ بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۷۵۸)
{ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا: پھر ہم نے لگاتار اپنے رسول بھیجے۔} یعنی جس طرح ہم نے ایک کے بعد دوسری قوم کو پیدا کیا اسی حساب سے ہم نے ان میں لگاتار اپنے رسول بھیجے اور جب کبھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آیا توانہوں نے پہلوں کی طرح اسے جھٹلایا اور اس کی ہدایت کو نہ مانا اور اس پر ایمان نہ لائے تو ہم نے انہیں ہلاک کرکے ایک کو دوسرے سے ملادیا اور بعد والوں کو پہلوں کی طرح ہلاک کردیااور انہیں داستانیں بنا ڈالاکہ بعد والے افسانے کی طرح ان کا حال بیان کیا کریں اور ان کے عذاب اور ہلاکت کا بیان عبرت کا سبب ہو تو ایمان نہ لانے والے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوں۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۴، ۸ / ۲۷۸، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۴، ۶ / ۸۴-۸۵، ملتقطاً)
جنت کی نعمتیں پانے کا ذریعہ اور جہنم کے عذاب میں مبتلا ہونے کا سبب :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح جنت کی نعمتیں ملنے اور جہنم کے عذاب سے نجات کا ذریعہ ایمان لانا ہے اسی طرح دنیا میں ہلاکت اور آخرت میں جہنم کے دردناک عذاب میں مبتلا ہونے کاسبب ایمان نہ لانا ہے، لہٰذا ہر عقل مند انسان پر لاز م ہے کہ وہ کفر کر کے اپنی جان کے ساتھ دشمنی نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت اور تمام ضروریات ِدین پر ایمان لاکر عقلمندی کا ثبوت دے اور اپنی جان کو ہلاکت سے بچائے۔
{ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى: پھر ہم نے موسیٰ کو بھیجا۔} یہاں سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے، چنانچہ اس آیت اوراس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے پہلی آیت میں جن رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر ہوا ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی آیتوں اور روشن دلیل جیسے عصا اور روشن ہاتھ وغیرہ معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو فرعون اورا س کے درباریوں نے غرور کیا اور اپنے تکبرکے باعث ایمان نہ لائے اور وہ بنی اسرائیل پر اپنے ظلم و ستم سے غلبہ پائے ہوئے لوگ تھے۔(تفسیرطبری، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۶، ۹ / ۲۱۶، ملخصاً)
{فَقَالُوْا: تو کہنے لگے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُنہیں ایمان کی دعوت دی تو کہنے لگے’’کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرایمان لے آئیں حالانکہ ان کی قوم بنی اسرائیل ہمارے زیرِ فرمان ہے، تو یہ کیسے گوارا ہو کہ اسی قوم کے دو آدمیوں پر ایمان لا کر اُن کے اطاعت گزار بن جائیں ۔ یہ لوگ اپنی تکذیب پر قائم رہے یہاں تک کہ دریا میں غرق ہو کر ہلاک کئے جانے والوں میں سے ہوگئے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ۳ / ۳۲۶، ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ۴ / ۴۹-۵۰، ملتقطاً)
{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کتاب یعنی توریت شریف عطا فرمائی تاکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم بنی اسرائیل ا س کے احکامات پر عمل کر کے سیدھے راستے کی ہدایت پاجائیں ۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۸۶)
{وَ جَعَلْنَا: اور ہم نے بنا دیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی قدرت کی نشانی بنادیا۔حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کا نشانی ہونا اس طور پر ہے کہ انہیں کسی مرد نے نہ چھوا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کے پیٹ میں حمل پیدا فرما دیا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نشانی ہونا اس طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بغیر باپ کے پیدا فرمایا،جھولے میں انہیں کلام کرنے کی طاقت دی اور ان کے دستِ اقدس سے پیدائشی اندھوں اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دی اور مُردوں کوزندہ فرمایا۔مزید ارشاد فرمایا کہ ہم نے انہیں ایک بلند، ہموار، کشادہ اور پھلوں والی جگہ دی جو اِن چیزوں کی وجہ سے رہائش کے قابل تھی نیز وہاں آنکھوں کے سامنے پانی بہہ رہا تھا جو خوبصورتی کی علامت بھی ہے اور قابلِ رہائش ہونے کی بھی۔ ایک قول کے مطابق اس سر زمین سے مراد بَیتُ الْمَقْدَس ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک اس سے دمشق یا فلسطین کی سرزمین مراد ہے۔ اس بارے میں اور بھی کئی قول ہیں ۔( تفسیرکبیر ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۵۰ ، ۸ / ۲۷۹ - ۲۸۰ ، خازن ، المؤمنون ، تحت الآیۃ:۵۰، ۳ / ۳۲۶، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۷۵۸-۷۵۹، ملتقطاً)
{یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ: اے رسولو!} یہ حکم تمام رسولوں کو تھاجیسا کہ آگے حدیث نمبر چار سے واضح ہے۔ البتہ بطورِ ندا مُخاطَب کئے جانے کے اعتبار سے بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں رسولوں سے مراد تمام رسول ہیں اور ہر ایک رسول کو اُن کے زمانے میں یہ ندا فرمائی گئی۔ ایک قول یہ ہے کہ رسولوں سے مراد خاص سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے مرادحضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ان کے علاوہ اور بھی کئی قول ہیں ۔ پاکیزہ چیزوں سے مراد حلال چیزیں اور اچھے کام سے مراد شریعت کے اَحکام پر اِستقامت کے ساتھ عمل کرنا ہے۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۷۵۹، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۳۲۶، ملتقطاً)
پاکیزہ اور حلال چیزیں کھانے کی ترغیب اور ناپاک و حرام چیزیں کھانے کی مذمت:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پاکیزہ اور حلال چیزیں کھانے کاحکم دیا اور قرآنِ مجید میں د وسرے مقام پریہی حکم اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو بھی دیا ہے،اس مناسبت سے یہاں پاکیزہ و حلال چیزیں کھانے کی ترغیب اور ناپاک و حرام اَشیاء کھانے کی مذمت پر مشتمل 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ۔
(1)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص پاکیزہ (یعنی حلال) چیز کھائے اور سنت کے مطابق عمل کرے اور لوگ ا س کے شر سے محفوظ رہیں تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۶۰-باب، ۴ / ۲۳۳، الحدیث: ۲۵۲۸)
(2)…حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر وہ جسم جو حرام سے پلابڑھا توآگ اس سے بہت قریب ہوگی۔(شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی طیب المطعم والملبس،۵ / ۵۶،الحدیث:۵۷۵۹)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں سے کوئی شخص اپنے منہ میں مٹی ڈال لے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے منہ میں ایسی چیز ڈالے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیاہے۔(شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔الخ،فصل فی طیب المطعم والملبس،۵ / ۵۷،الحدیث: ۵۷۶۳)
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں فرماتا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا اور فرمایا:
’’ یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھاکام کرو،بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں ۔
اور فرمایا:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھریچیزیں کھاؤ۔
پھر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک ایسے شخص کاذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں ،وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے’’یا رب! یا رب! اور اس کا کھانا پینا حرام ہو،اس کا لباس حرام ہو،اس کی غذا حرام ہو تو ا س کی دعا کہاں قبول ہو گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیّب وتربیتہا، ص۵۰۶، الحدیث: ۶۵(۱۰۱۵))
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو حلال رزق کھانے اور حرام رزق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
حلال رزق پانے اور نیک کاموں کی توفیق ملنے کی دعا:
حضرت حنظلہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے مجھ سے عرض کی کہ آپ یہ دو دعائیں مانگا کریں : ’’اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ طَیِّبًا وَّ اسْتَعْمِلْنِیْ صَالِحًا‘‘ یعنی اے اللہ !، مجھے پاکیزہ رزق عطا فرما اور مجھے نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔(نوادر الاصول، الاصل الثانی والستون المائۃ، ۱ / ۶۳۹، الحدیث: ۸۹۶(
عبادت کرنے سے کو ئی مُسْتَغنی نہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بھی عبادات فرض تھیں ، لہٰذا کوئی شخص خواہ وہ کسی درجہ کا ہوعبادت سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔اس سے ان لوگوں کو عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی بہت ضرورت ہے جو فقیروں کالبادہ اوڑھ کر اور اللہ تعالیٰ کے کامل اولیاء جیسی شکل و صورت بنا کر یہ دعوے کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اب ہم پر کوئی عبادت فرض نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو مقام انبیاءِ کرام اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حاصل ہے وہ کسی ولی اورصحابی کو حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی کامل ولی ان کے مقام تک پہنچنے کا دعویٰ کر سکتا ہے تو جب انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر عبادات فرض رہیں اور انہیں کوئی عبادت معاف نہ ہوئی تو یہ بناوٹی صوفی کس منہ سے دعویٰ کر رہا ہے کہ اب اس پر کوئی عبادت فرض نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ اِنَّ هٰذِهٖ: اور بیشک یہ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے لوگو! تم جس دین پر ہو یعنی دین ِاسلام، یہ ایک ہی دین ہے، اسی دین پر تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والے تھے۔( تفسیرسمرقندی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۲، ۲ / ۴۱۵) مراد یہ ہے کہ اصولی عقائد میں کسی کا اختلاف نہیں ، اس اعتبار سے سب متفق ہیں ، البتہ ان کی شریعتوں میں فروعی احکام اور عبادت کے طریقوں میں جو اختلاف ہے اسے دین میں اختلاف نہیں کہا جاتا۔
{فَتَقَطَّعُوْا: تو ان کی امتوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر لیا۔} یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا دین ایک ہی ہے البتہ ان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امتوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا اور یہودی، عیسائی، مجوسی وغیرہ فرقے فرقے ہوگئے۔ معنی یہ ہے کہ ہر قوم نے ایک کتاب کو مضبوطی سے تھام لیا، صرف اسی پر ایمان لائے اور دیگر کتابوں کا انکار کر دیا۔ ہر گروہ اس پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے اور اپنے ہی آپ کو حق پر جانتا ہے اور دوسروں کو باطل پر سمجھتا ہے۔ اس طرح اُن کے درمیان دینی اختلافات ہیں۔( تفسیرسمرقندی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۳، ۲ / ۴۱۵، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۳۲۷، ملتقطاً)
اسی طرح امتیں یوں بھی ٹکڑوں میں بٹیں کہ فرقوں میں بٹ گئیں اور اپنے دین کی اپنی اپنی تشریحات بنالیں جیسے یہودیوں اور عیسائیوں میں ہوا کہ بیسیوں فرقوں میں بٹ گئے۔دین کی یہ تفریق بھی حرام ہے۔ اس حوالے سے یہاں دو اَحادیث ذکر کی جاتی ہیں ۔
(1)… حضرت معاویہ بن سفیان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا’’خبردار ہو جاؤ!تم سے پہلے اہلِ کتاب بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور عنقریب یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی،بہتر فرقے تو جہنم میں جائیں گے اور ایک ہی فرقہ جنت میں جائے گا اوروہ سب سے بڑی جماعت ہے۔‘‘ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ عنقریب میری امت میں ایسے لوگ نکلیں گے کہ گمراہی ان میں یوں سرایت کر جائے گی جیسے باؤلے کتے کے کاٹے ہوئے آدمی کے جسم میں زہر سرایت کر جاتا ہے۔ایک روایت میں یوں ہے کہ جیسے کتے کے کاٹے ہوئے کے جسم میں زہر داخل ہو جاتا ہے کہ کوئی رگ اور کوئی جوڑ اس سے نہیں بچتا۔( ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب شرح السنّۃ، ۴ / ۲۶۳، الحدیث: ۴۵۹۷)
(2)…حضرت عرباض بن ساریہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک دن صبح کی نماز کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں انتہائی بلیغ وعظ فرمایا جس سے ہر آنکھ سے آنسو رواں ہو گئے اور سب کے دل لرز گئے۔ایک صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یہ تو ا س شخص کی نصیحت کی طرح ہے جو رخصت ہو رہا ہو۔ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ہمیں کس بات کا حکم دیتے ہیں ؟حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور اگر کوئی حبشی غلام تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے تو ا س کا بھی حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔بے شک تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا۔ تم (شریعت کے خلاف) نئی باتوں سے بچتے رہنا کیونکہ یہ گمراہی ہے۔تم میں جو شخص یہ زمانہ پائے اسے میرا اور میرے ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والے خُلفاء کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے اور تم سنت کو مضبوطی سے پکڑ لو۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی الاخذ بالسنّۃ واجتناب البدع، ۴ / ۳۰۸، الحدیث: ۲۶۸۵)
{فَذَرْهُمْ: تو تم ان کو چھوڑ دو۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار ِمکہ کو ان کے کفرو گمراہی اور ان کی جہالت و غفلت میں ان کی موت کے وقت تک چھوڑ دیں اور ان پر جلد عذاب نازل کرنے کا مطالبہ نہ فرمائیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۳۲۷، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۴، ۶ / ۸۹، ملتقطاً)
{اَیَحْسَبُوْنَ: کیا یہ خیال کررہے ہیں۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں کفارِ مکہ کے بارے میں فرمایا گیا کہ کیا وہ یہ خیال کررہے ہیں کہ ہم جو مال اور بیٹوں کے ساتھ ان کی مدد کررہے ہیں تو یہ ہم ان کیلئے بھلائیوں میں جلدی کررہے ہیں اور ہماری یہ نعمتیں ان کے اعمال کی جزاء ہیں یا ہمارے راضی ہونے کی دلیل ہیں ؟ایسا ہر گز نہیں ،بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ انہیں خبر ہی نہیں کہ ہم انہیں مہلت دے رہے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۶، ۳ / ۳۲۷، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۶، ۶ / ۸۹، ملتقطاً)
کفار کی ترقی اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی دلیل نہیں :
اس سے معلوم ہو اکہ کفار کے پاس مال اور اولاد کی کثرت اللہ تعالیٰ کے ان سے راضی ہونے کی دلیل نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ڈھیل ہے۔دوسری آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’وَ لَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ‘‘(التوبہ:۸۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان کے مال اوراولاد تمہیں تعجب میں نہ ڈالیں ۔ اللہ یہی چاہتا ہے کہ انہیں اس کے ذریعے دنیا میں سزا دے اور کفر کی حالت میں ان کی روح نکل جائے۔
فی زمانہ کفار کی دُنْیَوی علوم و فنون میں ترقی اور مال ودولت کی بہتات دیکھ کر بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے جبھی تو وہ اس قدر ترقی یافتہ ہیں ،اگر اللہ تعالیٰ ان سے راضی نہ ہوتا تو وہ ا س قدر آسائشوں میں تھوڑی ہوتے۔ اگر انہوں نے قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھا ہوتا تو شاید ایسی باتیں ان کی زبان پر کبھی نہ آتیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم اور فہم عطا فرمائے،اٰمین۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ: بیشک وہ جو۔} گزشتہ آیات میں کفار کی مذمت بیان فرمانے کے بعد اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں ایمان والوں کے اَوصاف بیان فرمائے جا رہے ہیں ۔چنانچہ ان کاایک وصف یہ ہے کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے خوفزدہ ہیں ۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ مومن نیکی کرنے کے باوجود اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا ہے جبکہ منافق گناہ کرنے کے باوجود بے خوف رہتا ہے۔ دوسرا وصف یہ ہے کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی تمام کتابوں کو مانتے ہیں ۔ تیسرا وصف یہ ہے کہ وہ عرب کے مشرکوں کی طرح اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کرتے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹، ۳ / ۳۲۷، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹، ص۷۶۰، ملتقطاً)
{وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ: اور وہ جو دیتے ہیں ۔} اس آیت میں ایمان والوں کا چوتھاوصف بیان فرمایا کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو کچھ زکوٰۃ و صدقات دیتے ہیں یا جو نیک اعمال بجالاتے ہیں ، اس وقت ان کاحال یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل اس بات سے ڈر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں ان کے اعمال رد ہی نہ کر دئیے جائیں ، کیونکہ انہیں یقین ہے کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹنے والے ہیں۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۳۲۷)
ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا نے دو عالَم کے سردار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا کہ کیا اس آیت میں ان لوگوں کا بیان ہے جو شرابیں پیتے ہیں اور چوری کرتے
ہیں ؟ ارشاد فرمایا: اے صدیق کی بیٹی! ایسا نہیں ، اس آیت میں اُن لوگوں کا بیان ہے جو روزے رکھتے ہیں ،نمازیں پڑھتے ہیں ،صدقے دیتے ہیں اور ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ اعمال نامقبول نہ ہوجائیں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المؤمنین، ۵ / ۱۱۸، الحدیث: ۳۱۸۶)
نیکی کرنا اور ڈرنا، ایمان کے کمال کی علامت ہے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ نیکی کرنا اور ڈرنا، کمالِ ایمان کی علامت ہے۔
پہلے زمانے کے اور موجودہ زمانے کے لوگوں کا حال:
امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’پہلے زمانے کے لوگ دن رات عبادت کرتے اور جو بھی عمل کرتے دل میں خوفِ خدا رہتا تھا کہ انہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹ کر جانا ہے، وہ رات دن عبادت میں گزارنے کے باوجود اپنے نفسوں کے بارے میں خوف زدہ رہتے تھے، وہ بہت زیادہ تقویٰ اختیار کرتے اور خواہشات اور شبہات سے بچتے تھے، اس کے باوجود وہ تنہائی میں اپنے نفسوں کے لئے روتے تھے۔
لیکن اب حالت یہ ہے کہ تم لوگوں کو مطمئن، خوش اوربے خوف دیکھو گے حالانکہ وہ گناہوں پر اوندھے گرتے ہیں ، دنیا میں پوری توجہ رکھے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے منہ پھیر رکھا ہے، ان کا خیال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر کامل یقین رکھتے ہیں ، اس کے عفوودرگزر اور مغفرت کی امید رکھتے ہیں گویا ان کا گمان یہ ہے کہ انہوں نے جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کی معرفت حاصل کی ہے اس طرح انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور پہلے بزرگوں کو بھی حاصل نہ تھی۔ اگر یہ بات محض تمنا اور آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے تو ان بزرگوں کے رونے، خوف کھانے اور غمگین ہونے کا کیا مطلب تھا۔حضرت معقل بن یسار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں قرآن پاک ان کے دلوں میں ایسے پرانا ہوجائے گا جیسے بدن پر کپڑے پرانے ہو جاتے ہیں ، ان کے تما م کام لالچ کی وجہ سے ہوں گے جس میں خوف نہیں ہوگا، اگر ان میں سے کوئی اچھا عمل کرے گا تو کہے گا یہ مقبول ہوگا اور اگر برائی کرے گا تو کہے گا میری بخشش ہوجائے گی۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۴)
یہ امام غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے آج سے تقریباً 900 سال پہلے کے حالات لکھے ہیں اور فی زمانہ تو حالاتاس سے کہیں زیادہ نازک ہو چکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور نیک اعمال کے سلسلے میں اپنے بزرگوں کی راہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{اُولٰٓىٕكَ: یہ لوگ۔} یعنی جن لوگوں کے اَوصاف سابقہ آیات میں بیان ہوئے وہ بہت رغبت اور اہتمام کے ساتھ نیک اعمال کرتے ہیں اور ان میں ا س لئے جلدی کرتے ہیں کہ کہیں ان کا وقت ختم نہ ہو جائے اور اس نیک عمل کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی واقع نہ ہو جائے اور وہ نیک اعمال کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مفسرین نے آیت کے اس حصے ’’وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ‘‘ کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں کہ وہ اپنی نیکیوں کے اجر میں سبقت کرنے والے ہیں یعنی انہیں ان کے نیک اعمال کا اجر آخرت سے پہلے دنیا میں بھی مل جاتا ہے یا وہ نیکیوں کی وجہ سے جنتوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں ۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۱، ۶ / ۹۱، تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۱، ۸ / ۲۸۴، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۷۶۰، ملتقطاً)
{وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا: اور ہم کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے۔} یعنی سابقہ آیت میں نیک لوگوں کے جو اَوصاف بیان ہوئے یہ ان کی طاقت اور وسعت سے باہر نہیں ، یونہی ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر لازم فرمائی ہے وہ ان کی طاقت سے زیادہ نہیں ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، ورنہ اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ جو چاہے کرے،اس بارے میں کسی کو سوال کرنے کی مجال نہیں ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۷۶۰، صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۱۳۶۹-۱۳۷۰، ملتقطاً)
مزیدارشاد فرمایا کہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو حق ہی بیان کرتی ہے، اس میں ہر شخص کا عمل لکھا ہواہے، اور وہ لوحِ محفوظ ہے اور عمل کرنے والوں پر کوئی ظلم نہ ہوگا، نہ کسی کی نیکی گھٹائی جائے گی اورنہ بدی بڑھائی جائے گی۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۳۲۷-۳۲۸)
{بَلْ قُلُوْبُهُمْ: بلکہ ان کے دل۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ کافروں کے دل اس قرآن شریف سے غفلت میں ہیں اور اِن کافروں کے خبیث کام جنہیں یہ کررہے ہیں ان کاموں کے خلاف ہیں جو مذکورہ بالا آیات میں ایمانداروں کے ذکر کئے گئے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ کافروں کے دل اس قرآن سے غفلت میں ہیں اور وہ اس عظیم غفلت کے علاوہ اور بھی بہت سے خبیث کام کر رہے ہیں ۔( جمل مع جلالین،المؤمنون، تحت الآیۃ:۶۳، ۵ / ۲۴۶-۲۴۷، روح البیان،المؤمنون، تحت الآیۃ:۶۳،۶ / ۹۲، ملتقطاً)
{حَتّٰى: یہاں تک کہ۔} اس آیت میں کفار کے اعمال کا انجام بیا ن کیاگیا کہ کفار اپنے اعمال پر ہی قائم رہے یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے خوشحال لوگوں کو عذاب میں پکڑا اور وہ بدر کے دن تلواروں سے قتل کئے گئے تو جبھی وہ فریاد کرنے لگے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس عذاب سے مراد فاقوں اور بھوک کی وہ مصیبت ہے جو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا سے ان پر مُسَلّط کی گئی تھی اور اس قحط کی وجہ سے ان کی حالت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ وہ کتّے اور مردار تک کھا گئے تھے۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۴، ۶ / ۹۲، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۳۲۸، ملتقطاً)
{لَا تَجْــٴَـرُوا الْیَوْمَ: آج فریاد نہ کرو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کی فریاد کے جواب میں ان سے کہا گیا کہ آج فریاد نہ کرو، اس سے تمہیں کوئی فائدہ نہ ہو گا کیونکہ بیشک ہماری طرف سے تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ) بے شک قرآن مجید کی آیات تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی تھیں ، لیکن تم اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتے تھے اور ان آیات پر ایمان نہ لاتے تھے اور تمہارا حال یہ تھاکہ تم خانہ کعبہ کی خدمت پر یہ کہتے ہوئے ڈینگیں مارتے تھے کہ ہم حرم والے ہیں اور بَیْتُ اللہ کے ہمسائے ہیں ، ہم پر کوئی غالب نہ ہوگا، ہمیں کسی کا خوف نہیں اور کعبہ معظمہ کے گرد جمع ہو کرالٹی سیدھی باتیں ہانکتے ہوئے رات کو وہاں بیہودہ باتیں کرتے تھے اور اُن باتوں میں اکثر قرآن پاک پر طعن کرنا، اسے جادو اور شعر کہنا، اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں بے جا باتیں کہنا ہوتا تھا اورتم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اور مومنوں کو نیز قرآن کریم کو چھوڑے ہوئے تھے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۵-۶۷، ۳ / ۳۲۸، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۵-۶۷، ص۷۶۰، ملتقطاً)
{اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا: کیا اُنہوں نے غور و فکر نہیں کیا؟} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے حق کی پیروی سے اِعراض کرنے کی وجہ سے کفارِ مکہ کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ کیا انہوں نے قرآن پاک میں غور نہیں کیا اور اس کے اعجازپر نظر نہیں ڈالی جس سے اُنہیں معلوم ہوجاتا کہ یہ کلام حق ہے، اس کی تصدیق لازم ہے اور جو کچھ اس میں ارشاد فرمایا گیا وہ سب حق اور اسے تسلیم کرنا واجب ہے اوررسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت و حقّانیّت پر اس میں واضح دلالتیں موجود ہیں اور کیااُن کے پاس وہ چیز آئی ہے جو اُن کے باپ دادا کے پاس نہ آئی تھی۔یعنی رسول کا تشریف لانا ایسی نرالی بات نہیں ہے جو کبھی پہلے زمانے میں ہوئی ہی نہ ہو اور وہ یہ کہہ سکیں کہ ہمیں خبر ہی نہ تھی کہ خدا عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے رسول آیا بھی کرتے ہیں ، کبھی پہلے کوئی رسول آیا ہوتا اور ہم نے اس کا تذکرہ سنا ہوتا تو ہم کیوں اس رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ مانتے۔ تمہارے پاس یہ عذر کرنے کا موقع بھی نہیں ہے کیونکہ پہلی امتوں میں رسول آچکے ہیں اور خدا عَزَّوَجَلَّ کی کتابیں نازل ہوچکی ہیں ۔(…تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۸، ۸ / ۲۸۶، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۳۲۸، ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۸، ۴ / ۵۷، ملتقطاً)
{اَمْ لَمْ یَعْرِفُوْا: یا کیا اُنہوں نے پہچانانہیں ہے؟} کفار ِمکہ سے مزید فرمایا کہ کیا انہوں نے اپنے رسول کو پہچانانہیں اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عمر شریف کے جملہ اَحوال کو نہ دیکھا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عالی نسب، صدق و امانت، وُفورِ عقل، حسنِ اَخلاق، کمالِ حلم، وفا و کرم اور مُرَوَّت وغیرہ پاکیزہ اخلاق، اچھی صِفات اور بغیر کسی سے سیکھے آپ کے علم میں کامل اور تمام جہان سے زیادہ علم رکھنے اور فائق ہونے کو نہ جانا، کیا ایسا ہے؟ حقیقت میں یہ بات تو نہیں بلکہ وہ سَرورِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَوصاف و کمالات کو خوب جانتے ہیں اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برگُزیدہ صفات شہرہ آفاق ہیں ، پھر بھی وہ بلاوجہ ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس پیارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انکار کررہے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ : ۶۹، ۳ / ۳۲۸، مدارک، المؤمنون ، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۷۶۱، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۹، ۶ / ۹۴، ملتقطاً)
حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت پہچاننے کا ایک طریقہ:
قاضی عیاض رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کی روشنی میں یہاں ایک مختصر مضمون دیا جارہا ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت پہچاننے اور آپ کے محبت کیلئے قابل ترین ہستی ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل یہ ہے کہ انسان کے کچھ کمالات فِطری ہوتے ہیں جیسے حسن،قوت،عقل، فہم کی درستی، زبان کی فصاحت، حَواس اور اَعضاء کی قوت،مُعتدل حرکات،نسب کی شرافت، قومی عزت،وطنی کرامت۔ نیز کچھ چیزیں زندگی کی ضرورت ہوتی ہیں جو اگرچہ دنیوی ہوتی ہیں لیکن جب ان سے تقویٰ مقصود ہو تو وہ آخرت کی خوبیوں اور خصلتوں کے ساتھ لاحق ہوجاتی ہیں جیسے غذا،نیند،لباس، مکان، نکاح،مال اور عہدہ و منصب وغیرہ اور کچھ اَوصاف وہ ہوتے ہیں جو مُطلَقاً آخرت کے شمار ہوتے ہیں جیسے تمام بلند اَخلاق، شرعی آداب، علم، بُردباری، صبر، شکر،انصاف،زُہد، تواضع، عَفْو، عِفَّت، سخاوت، شجاعت، حیائ، مُرَوَّت، خاموشی، سکون، وقار، مہربانی، آداب و معاشرت کا حسن وغیرہ ۔ اوریہی وہ خصائل ہیں جن کے مجموعہ کو حسنِ خُلق سے تعبیر کیا جاتاہے۔ان میں سے بعض خصلتیں تو کسی کی فطری عادت ہوتی ہیں اور کسی کی فطری تو نہیں ہوتی لیکن وہ انہیں محنت و ریاضت سے حاصل کرلیتا ہے۔ ان خوبیوں کا حال یہ ہے کہ کسی شخص میں ان میں سے ایک یا دو بھی پائی جائیں تو وہ بڑا مشرف ومعزز مانا جاتا ہے،مثلاً نسب یا جمال یا، قوت یا علم یا شجاعت یا سخاوت وغیرہ میں سے ایک بھی وصف پایا جائے تو وہ پسندیدہ، محبوب اور عظیم بن جاتا ہے حتّٰی کہ اس بندے کی قدر اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ا س کے نام کو مثال کے طور پر پیش کیاجاتا ہے اور اس وصف کی وجہ سے دلوں میں اس کے اثر اورعظمت کا سکہ جم جاتا ہے اور یہ بات گزشتہ زمانے سے چلی آرہی ہے،توپھر ا س ذاتِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت اور محبوبیت کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جس میں یہ تمام کے تمام مَحاسن و خَصائل پیدائشی اور فطری طور پر کامل ترین طرز پر جمع ہیں جن سے بہتر جامِعِیّت کا تَصَوُّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ: یا وہ کہتے ہیں ۔} مزید فرمایا کہ کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نبی پر جنون طاری ہے،یہ بھی سراسر غلط اور باطل ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جیسا دانا اور کامل عقل والا شخص اُن کے دیکھنے میں نہیں آیا لہٰذا اِس ہستی کو جنون نہیں بلکہ یہ مقدس نبی ہیں جو ان کے پاس حق یعنی قرآن کریم کے ساتھ تشریف لائے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور دینی اَحکام کے بیان پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود کافروں کا انہیں برا کہنا اس لئے ہے کہ ان کافروں میں اکثر حق کو ناپسند کرنے والے ہیں کیونکہ قرآن میں اُن کی نفسانی خواہشات کی مخالفت ہے، اس لئے وہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صفات و کمالات کو جاننے کے باوجود حق کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اکثر کی قید سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حال ان میں بیشتر لوگوں کا ہے چنانچہ ان میں بعض ایسے بھی تھے جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حق پر جانتے تھے اور حق اُنہیں برا بھی نہیں لگتا تھا لیکن وہ اپنی قوم سے موافقت کی وجہ سے یا اُن کے طعن و تشنیع کے خوف سے ایمان نہ لائے جیسے کہ ابو طالب۔( مدارک ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۷۰، ص۷۶۱، جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۲۹۱، بیضاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۰، ۴ / ۱۶۲، ملتقطاً)
{وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ: اور اگر سچا قرآن ان کی خواہشوں کی پیروی کرتا۔} یعنی اگر قرآن شریف ان کی خواہشات اور نظریات کے مطابق نازل ہوتا اس طرح کہ اس میں وہ مَضامین مذکور ہوتے جن کی کفار خواہش کرتے ہیں تو تمام عالَم کا نظام درہم برہم ہوجاتا کیونکہ قرآن سچی کتاب ہے اور اس میں اگر یہ مَضامین مذکور ہوتے تو حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوتا اورجب ایک سے زیادہ خدا ہوں تو ہر خدا کا حکم دوسرے کے مخالف ہوتا یونہی سب کے ارادے کا ایک ہی وقت میں پورا ہونا محال ہے اور یوں کائنات کا نظام تباہ ہو کر رہ جاتا لیکن ہم تو ان کے پاس قرآن لائے ہیں اور ہم یہ قرآن حقیقت میں ان کی تباہی کا ذریعہ بنا کر نہیں لائے بلکہ ہم تو اسے ان کے پاس قرآن کی صورت میں نصیحت لائے ہیں ، مگروہ تو اپنی نصیحت ہی سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۳۲۹، جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۲۹۱، ملتقطاً)
ایک دوسری تفسیر کے اعتبار سے اس کا معنی یہ ہے کہ ہم یہ قرآن حقیقت میں ان کی تباہی کا ذریعہ بنا کر نہیں لائے بلکہ ہم تو اسے ان کے پاس قرآن کی صورت میں ان کی عزت و شہرت کا ذریعہ لائے ہیں کہ یہ اس پر عمل کرکے عزت و شہرت دونوں کما سکتے ہیں لیکن وہ تو اپنی عزت و شہرت ہی سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔
{اَمْ تَسْــٴَـلُهُمْ خَرْجًا: کیا تم ان سے کچھ اجرت مانگتے ہو؟} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ انہیں ہدایت کرنے اور راہِ حق بتانے پر کچھ اجرت مانگتے ہو؟ ایسا بھی تو نہیں تو یہ بات آپ کے کمالِ اخلاص کی دلیل ہے جو انہیں سمجھنی چاہیے۔ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا اجر تو آپ کے رب کے پاس ہے جو سب سے بہترین اجر ہے اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والاہے اور اس کا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فضل عظیم ہے اور جو نعمتیں اُس نے آپ کو عطا فرمائیں وہ بہت کثیر اور اعلیٰ ہیں تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی کیا پروا ہ؟ پھر جب وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف و کمالات سے واقف بھی ہیں ، قرآن پاک کا اعجاز بھی اُن کی نگاہوں کے سامنے ہے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن سے ہدایت و اِرشاد کا کوئی اجرو عِوَض بھی طلب نہیں فرماتے تو اب انہیں ایمان لانے میں کیا عذر رہا۔
{وَ اِنَّكَ: اور بیشک تم۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک آپ انہیں سیدھی راہ یعنی دین ِاسلام کی طرف بلاتے ہیں تو اُن پر لازم ہے کہ آپ کی دعوت قبول کریں اور اسلام میں داخل ہوں ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۷۶۲)
{وَ اِنَّ الَّذِیْنَ: اور بیشک جو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک جو لوگ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء ملنے پر ایمان نہیں لاتے وہ ضرور دینِ حق سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔( جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۲۹۱)
اس سے معلوم ہوا کہ آخرت پر ایمان لانا اور قیامت کے دن کی ہَولْناکیوں کا خوف راہِ حق تلاش کرنے اور اس پر چلنے کا بہت مضبوط ذریعہ ہے۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۴، ۶ / ۹۶، ملخصاً)
{وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ: اور اگر ہم ان پر رحم فرماتے۔} شانِ نزول: جب قریش سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا سے سات برس کے قحط میں مبتلا ہوئے اور ان کی حالت بہت اَبتر ہوگئی تو ابوسفیان اُن کی طرف سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : کیا آپ اپنے خیال میں سب جہانوں کے لئے رحمت بنا کر نہیں بھیجے گئے۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا بے شک۔ ابوسفیان نے کہا: قریش اپنے خلاف آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا سے اس حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ قحط کی مصیبت میں مبتلا ہوئے، فاقوں سے تنگآگئے، لوگ بھوک کی بے تابی سے ہڈیاں چبا گئے اور مردار تک کھا گئے۔ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں اور قرابت کی، آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہم سے اس قحط کو دور فرمادے۔ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا کی اور انہوں نے اس بلا سے رہائی پائی اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۳۲۹، ملخصاً)
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر ہم ان پر رحم فرمائیں اور سات سالہ قحط سالی کی جو مصیبت ان اہلِ مکہ پر پڑی ہے وہ ٹال بھی دیں توپھر وہ اپنے کفر و عناد اور سرکشی کی طرف لوٹ جائیں گے اور ان کی یہ خوشامد و چاپلوسی جاتی رہے گی اور رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مومنین کی عداوت اور تکبر جواُن کا پہلا طریقہ تھا، یہ وہی اختیار کریں گے۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۵، ۴ / ۶۰، ملخصاً)
{وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ: اور بیشک ہم نے انہیں عذاب میں گرفتار کردیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک ہم نے انہیں بھوک کے عذاب میں گرفتار کر دیا تو وہ پھر بھی نہ ا س وقت اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور جھکے ہیں اور نہ ہی وہ آئندہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عاجزی کریں گے۔( جلالین مع صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۶، ۴ / ۱۳۷۳)
اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کرنا بڑی بد بختی کی دلیل ہے۔
{حَتّٰى: یہاں تک۔} آیت کا معنی یہ ہے کہ جب ہم اُن پر موت کے وقت یا قیامت کے دن کسی سخت عذاب والا دروازہ کھولیں گے تو اس وقت وہ اس عذاب میں ہر بھلائی سے ناامید پڑے ہوں گے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۳۲۹)
{وَ هُوَ: اور وہی ہے۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے خطاب فرمایا اور ا س سے مقصود اہلِ ایمان کو نعمتیں یاد دلا نا جبکہ کفار کو ا س بات پر سختی سے تَنبیہ کرنا ہے کہ انہوں نے ان نعمتوں کو ان کے مَصرَف میں استعمال نہیں کیا کیونکہ کان اس لئے بنائے گئے ہیں کہ ان سے وہ بات سنی جائے جس سے ہدایت ملے اورا ٓنکھیں اس لئے پیدا کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی صفات کے کمال پر دلالت کرنے والی نشانیوں کا مشاہدہ کیا جائے اور دلوں کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی صَنعتوں میں غورو فکر کیا جائے تو جس نے ان نعمتوں کو ان کے مصرف میں استعمال نہ کیا تو وہ ایسا شخص ہے جس نے ان نعمتوں سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۸، ۴ / ۱۳۷۳-۱۳۷۴)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم ان کے ذریعے سنو، دیکھو اورسمجھو اور دینی، دُنْیَوی مَنافع حاصل کرو۔اے لوگو!تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو کیونکہ تم نے ان نعمتوں کی قدر نہ جانی اور ان سے فائدہ نہ اُٹھایا اور کانوں ، آنکھوں اور دلوں سے اللہ تعالیٰ کی آیات سننے، دیکھنے، سمجھنے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے اور حقیقی طور پر نعمتیں عطا فرمانے والے کا حق پہچان کر شکر گزار بننے کا نفع نہ اٹھایا۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۳۲۹، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۷۶۲-۷۶۳، ملتقطاً)
{وَ هُوَ: اور وہی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ وہی رب عَزَّوَجَلَّ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور نسل بڑھا کر تمہیں زمین میں پھیلایا اور تم اپنے پھیلاؤ کے باوجود قیامت کے دن اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے نہ کہ کسی اور کی طرف، تو تم کیوں اس پر ایمان نہیں لاتے اور اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۹، ۴ / ۶۱)
{وَ هُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ: اور وہی زندگی دیتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ وہی زندگی دیتا ہے اوروہی موت دیتا ہے، رات اور دن کا تبدیل ہونااسی کے اختیار میں ہے، ان میں سے ہر ایک کا دوسرے کے بعد آنا اور تاریکی و روشنی اور زیادتی و کمی میں ہر ایک کا دوسرے سے مختلف ہونا یہ سب اس کی قدرت کے نشان ہیں ،توکیا تم سمجھتے نہیں کہ ان سے عبرت حاصل کرو اور ان میں خدا عَزَّوَجَلَّ کی قدرت کا مشاہدہ کرکے مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو تسلیم کرو اور اس پر ایمان لاؤ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۷۶۳)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan