READ

Surah Al-Mu'minun

اَلْمُؤْمِنُوْن
118 Ayaat    مکیۃ


23:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

23:1
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)
بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے

{قَدْ اَفْلَحَ:بیشک کامیاب ہوگئے۔} اس آیت میں  ایمان والوں  کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ  اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے مقصد میں  کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں  داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پاجائیں  گے۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱، ۸ / ۲۵۸، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۶۶، ملتقطاً)

حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے :

            یاد رہے کہ ہر ایک نے موت کا کڑوا ترین ذائقہ چکھ کر ا س دنیا سے کوچ کرنا ہے اور قیامت کے دن سب کو اپنے اعمال کا بدلہ پانا ہے اور جسے اس دن جہنم کے دردناک عذابات سے بچا لیاگیا اور بے مثل نعمتوں  کی جگہ جنت میں  داخل کر دیا گیا وہی حقیقی طور پر کامیاب ہے، جیسا کہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ-وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَ‘‘(اٰل عمران:۱۸۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان:ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اورقیامت کے دن تمہیں  تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں  گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں  داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا۔

            اور جہنم سے بچنے اور جنت میں  داخلے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے،جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو جہنم سے بچنا اور جنت میں  داخل ہونا پسند ہو تو اسے موت ضرور اس حال میں  آئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جس معاملے کو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہو وہی معاملہ دوسروں  کے ساتھ کرے۔( مسند امام احمد، مسند عبد  اللہ بن عمرو بن العاص رضی  اللہ تعالی عنہما، ۲ / ۶۲۵، الحدیث: ۶۸۲۱)

            اور چونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں  ا س لئے ایمان پر ثابت قدم رہنا اور اس کی حفاظت کی بھرپور کوشش کرنا ضرور ی ہے تاکہ موت کے وقت ایمان سلامت رہے اور قیامت کے دن جنت میں  داخلہ نصیب ہو۔

سورۂ مومنون کی ابتدائی دس آیات کی فضیلت:

            سورۂ مومنون کی ابتدائی دس آیات کے بارے میں  حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’جب نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر وحی نازل ہوتی تو آپ کے چہرۂ اقدس کے پاس مکھیوں  کی بھنبھناہٹ کی طرح آواز سنائی دیتی۔ایک دن وحی نازل ہوئی تو ہم کچھ دیر ٹھہرے رہے، جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قبلہ رو ہو کر ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا مانگی’’اے اللّٰہ!عَزَّوَجَلَّ، ہمیں  زیادہ عطا کرنا اور کمی نہ فرمانا، ہمیں  عزت دینا اور ذلیل نہ کرنا،ہمیں  عطا فرما نااور محروم نہ رکھنا۔ہمیں  چن لے اور ہم پر کسی دوسرے کو نہ چن۔اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، ہمیں  راضی فرما اور ہم سے راضی ہو جا۔اس کے بعد ارشاد فرمایا’’مجھ پر دس آیات نازل ہوئی ہیں ، جس نے ان میں  مذکور باتوں  کو اپنایا وہ جنت میں  داخل ہو گا،پھر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ’’قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ سے لے کر دسویں  آیت کے آخر تک پڑھا۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المؤمنین، ۵ / ۱۱۷، الحدیث: ۳۱۸۴)

 

23:2
الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)
جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں (ف۲)

{خٰشِعُوْنَ: خشوع و خضوع کرنے والے۔} یہاں  سے ایمان والوں کے چند اَوصاف ذکر فرمائے گئے ہیں ، چنانچہ ان کا پہلا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں  میں   اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ص۷۵۱)

نماز میں  ظاہری و باطنی خشوع:

نماز میں  خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی،ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں  پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں  کنارے لٹکتے ہوں  اور آپس میں  ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں  نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ کی عظمت پیش ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اورنماز میں  دل لگا ہو۔(صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۱۳۵۶، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۳۲۰، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ص۷۵۱)یہاں  نماز کے دوران آسمان کی طرف نظریں  اٹھانے،اِدھر اُدھر دیکھنے اور یہاں  وہاں  توجہ کرنے سے متعلق 3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ان لوگوں  کا کیا حال ہے جو اپنی نماز میں  نظریں  آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں!پھر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس میں  بہت سختی کی اور ارشاد فرمایا’’یہ لوگ اس سے باز آ جائیں  ورنہ ان کی نظریں  چھین لی جائیں  گی۔(بخاری، کتاب الاذان، باب رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ، ۱ / ۲۶۵، الحدیث: ۷۵۰)

(2)…حضرت انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں ،نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’اے بیٹے!نماز میں  اِدھر اُدھر دیکھنے سے بچو کیونکہ نماز میں  اِدھراُدھر توجہ ہلاکت ہے۔(ترمذی، کتاب السفر، باب ما ذکر فی الالتفات فی الصلاۃ، ۲ / ۱۰۲، الحدیث: ۵۸۹)

(3)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں  :میں  نے حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نماز میں  اِدھر اُدھر توجہ کرنے کے بارے میں  سوال کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا’’یہ شیطانی لغزش ہے،اس کے ذریعے شیطان بندے کو نماز سے پھسلانا چاہتا ہے۔( ترمذی، کتاب السفر، باب ما ذکر فی الالتفات فی الصلاۃ، ۲ / ۱۰۲، الحدیث: ۵۹۰)

لہٰذا ہر مسلمان مرد وعورت کو چاہئے کہ وہ پوری توجہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز اداکرے اور  اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے جیسے عبادت کرنے کا حق ہے۔

خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی فضیلت اور دو واقعات:

حضرت عثمان رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس مسلمان شخص پر فرض نماز کاوقت آ جائے اور وہ ا س نماز کا وضو اچھی طرح کرے پھر نماز میں  اچھی طرح خشوع اور رکوع کرے تو وہ نماز اس کے سابقہ گناہوں  کا کفارہ ہو جاتی ہے جب تک کہ وہ کوئی کبیرہ گناہ نہ کرے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضو ء والصلاۃ عقبہ، ص۱۴۲، الحدیث: ۷(۲۲۸))

 اگر صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ اور دیگر بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ مْ کی سیر ت کا مطالعہ کیا جائے تو بکثرت ایسے واقعات مل جائیں  گے کہ جو اس آیت میں  مذکور وصف کے اعلیٰ نمونے ہوں  گے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب صحابہ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نماز پڑھتے تو وہ اپنی نماز کی طرف متوجہ رہتے، اپنی نظریں  سجدہ کرنے کی جگہ پر رکھتے تھے اور انہیں  یہ یقین ہوتا تھا کہ  اللہ تعالیٰ انہیں  دیکھ رہا ہے اور وہ دائیں  بائیں  توجہ نہیں  کرتے تھے۔(در منثور، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ۶ / ۸۴)

حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں’’غزوہ ذاتُ الرقاع میں  ایک صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے ایک مشرک کی بیوی کو گرفتار کیا۔ اس نے انتقام لینے کے لئے قسم کھالی کہ جب تک حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ میں  سے کسی صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے خون سے زمین کو رنگین نہ کرلوں  گا، چین نہ لوں  گا،چنانچہ جب آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوہ سے واپس ہوئے تواس نے تَعاقُب کیا۔ جب تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک جگہ قیام کیا تو دریافت فرمایا کہ کون میرا پہرہ دینے کی ذمہ داری اپنے سر لے گا۔ مہاجرین وانصار دونوں  میں  سے ایک ایک بہادر اس شرف کو حاصل کرنے کے لئے اٹھے، آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم دیا کہ گھاٹی کے دہانے پر جاکر پہرہ دو۔ دونوں  صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا وہاں  پہنچے تو مہاجر صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سوگئے اور انصاری صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ مشرک آیا اور فوراً تاڑ گیا کہ یہ محافظ اور نگہبان ہیں ، چنانچہ اس نے تین تیر مارے اور تینوں  کے تینوں  ان انصاری صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے جسم میں  پیوست ہوگئے لیکن وہ اسی طرح رکوع اور سجدہ کرتے رہے۔(ابو داؤد، کتاب الطہارۃ، باب الوضو ء من الدم، ۱ / ۹۹، الحدیث: ۱۹۸)

23:3
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)
اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے (ف۳)

{عَنِ اللَّغْوِ: فضول بات سے۔} فلاح پانے والے مومنوں  کا دوسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ ہر لَہْوو باطل سے بچے رہتے ہیں۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۳۲۰)

لَغْو سے کیا مراد ہے؟

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’لغو سے مراد ہر وہ قول، فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کودینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق مَسخری،بیہودہ گفتگو،کھیل کود،فضول کاموں  میں  وقت ضائع کرنا، شہوات پوری کرنے میں  ہی لگے رہنا وغیرہ وہ تمام کام جن سے  اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کو اپنی آخرت کی بہتری کے لئے نیک اعمال کرنے میں  مصروف رہنا چاہئے یا وہ اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے بقدرِ ضرورت (حلال) مال کمانے کی کوشش میں  لگا رہے۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۱۳۵۶-۱۳۵۷)

            اَحادیث میں  بھی لا یعنی اور بیکار کاموں  سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’آدمی کے اسلام کی اچھائی میں  سے یہ ہے کہ وہ لایعنی چیز چھوڑ دے۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۱۱-باب، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۲۳۲۴) یعنی جوچیز کار آمد نہ ہو اس میں  نہ پڑے، زبان، دل اور دیگر اَعضاء کو بے کار باتوں  کی طرف متوجہ نہ کرے۔([1])

            اورحضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ  فرماتے ہیں ’’میں  حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر ہوا اور عرض کی، نجات کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’اپنی زبان پر قابو رکھو اور تمہارا گھر تمہارے لیے گنجائش رکھے (یعنی بے کار ادھر ادھر نہ جاؤ) اور اپنی خطا پر آنسو بہاؤ۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۲، الحدیث: ۲۴۱۴)

زبان کی حفاظت کرنے کی ضرورت اور ا س کے فوائد و نقصانات:

            یاد رہے کہ زبان کی حفاظت و نگہداشت اور فضولیات ولَغْویات سے اسے باز رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ زیادہ  سرکشی اور سب سے زیادہ فساد و نقصان اسی زبان سے رونما ہوتا ہے اور جو شخص زبان کو کھلی چھٹی دے دیتا اور اس کی لگام ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے تو شیطان اسے ہلاکت میں  ڈال دیتا ہے۔زبان کی حفاظت کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے نیک اعمال کی حفاظت ہوتی ہے کیونکہ جو شخص زبان کی حفاظت نہیں  کرتا بلکہ ہر وقت گفتگو میں  مصروف رہتا ہے تو ایسا شخص لوگوں  کی غیبت میں  مبتلا ہونے سے بچ نہیں  پاتا، یونہی اس سے کفریہ الفاظ نکل جانے کا بہت اندیشہ رہتا ہے اور یہ دونوں  ایسے عمل ہیں  جس سے بندے کے نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں ۔منقول ہے کہ حضرت امام حسن بصری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے کسی شخص نے کہا:فلاں  شخص نے آپ کی غیبت کی ہے۔یہ سن کر آپ نے غیبت کرنے والے آدمی کو کھجوروں  کا تھال بھر کر روانہ کیا اور ساتھ میں  یہ کہلا بھیجا:سنا ہے کہ تم نے مجھے اپنی نیکیاں  ہدیہ کی ہیں ،تو میں  نے ان کا معاوضہ دینا بہتر جانا (اس لئے کھجوروں  کا یہ تھال حاضر ہے۔)( منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الرابع، الفصل الثالث: اللسان، ص۷۶)

            اوردوسرا فائدہ یہ ہے کہ زبان کی حفاظت کرنے سے انسان دنیا کی آفات سے محفوظ رہتا ہے، چنانچہ حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :زبان سے ایسی بات نہ نکالوجسے سن کر لوگ تمہارے دانت توڑ دیں ۔ اور ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :اپنی زبان کو بے لگام نہ چھوڑو تاکہ یہ تمہیں  کسی فساد میں  مبتلانہ کر دے۔( منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الرابع، الفصل الثالث: اللسان، ص۷۶)

            نیززبان کی حفاظت نہ کرنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ بندہ ناجائز و حرام، لغو اور بیکار باتوں  میں  مصروف ہو کر گناہوں  میں  مبتلا ہوتا اور اپنی زندگی کی قیمتی ترین چیز’’ وقت ‘‘کو ضائع کر دیتا ہے۔ حضرت حسان بن سنان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے بارے میں  مروی ہے کہ آپ ایک بالا خانے کے پاس سے گزرے تو ا س کے مالک سے دریافت فرمایا ’’یہ بالاخانہ بنائے تمہیں  کتناعرصہ گزرا ہے ؟یہ سوال کرنے کے بعدآپ کود ل میں  سخت ندامت ہوئی اور نفس کو مُخاطَب کرتے ہوئے یوں  فرمایا’’اے مغرورنفس!تو فضول اور لا یعنی سوالات میں  قیمتی ترین وقت کو ضائع کرتا ہے؟پھر ا س فضول سوال کے کَفّارے میں  آپ نے ایک سال روزے رکھے۔( منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الرابع، الفصل الثالث: اللسان، ص۷۵)

            اوردوسرا نقصان یہ ہے کہ ناجائز و حرام گفتگو کی وجہ سے انسان قیامت کے دن جہنم کے دردناک عذاب میں  مبتلا ہو سکتا ہے جسے برداشت کرنے کی طاقت کسی میں  نہیں ۔ لہٰذا عافیت اسی میں  ہے کہ بندہ اپنی زبان کی حفاظت کرےاور اِسے ان باتوں  کے لئے استعمال کرے جو اُسے دنیا اور آخرت میں  نفع دیں ۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں  کو زبان کی حفاظت و نگہداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔([2])


[1] بہار شریعت، حصہ شانزدہم، زبان کو روکنا اور گالی گلوچ، غیبت اور چغلی سے پرہیز کرنا، ۳ / ۵۲۰۔

[2] زبان کی حفاظت اور اس سے متعلق دیگر چیزوں  کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’جنت کی دو چابیاں ‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ فرمائیں ۔

23:4
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)
اور وہ کہ زکوٰة دینے کا کام کرتے ہیں (ف۴)

{هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ: وہ زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔} اس آیت میں  کامیابی پانے والے اہلِ ایمان کا تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں  پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں  مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’ تَزکیہ ِ نفس‘‘ بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں۔( مدارک ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۴ ، ص ۷۵۱ ، البحر المحیط ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۴ ،  ۶ / ۳۶۶، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴، ۶ / ۶۸، ملتقطاً)

زکوٰۃ ادا کرنے کے فضائل اور نہ دینے کی وعید:

            کثیر اَحادیث میں  زکوٰۃ ادا کرنے کے فضائل اور نہ دینے کی وعیدیں  بیان کی گئی ہیں ، ان میں  سے 4 اَحادیث درج ذیل ہیں  :

(1)…حضرت جابر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی، تو بیشک ا س کے مال کا شر اُس سے چلا گیا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۴۳۱، الحدیث: ۱۵۷۹)

(2)…حضرت ابو امامہ  رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’زکوٰۃ دے کر اپنے مالوں  کو مضبوط قلعوں  میں  کر لو اور اپنے بیماروں  کا علاج صدقہ سے کرو۔( شعب الایمان ، باب الثانی و العشرین من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، فصل فیمن اتاہ  اللہ مالاً من غیر مسألۃ ، ۳ / ۲۸۲ ، الحدیث: ۳۵۵۷)

(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے مال کی زکاۃ نکال، کہ وہ پاک کرنے والی ہے تجھے پاک کر دے گی۔( مسندامام احمد، مسند انس بن مالک رضی  اللہ عنہ، ۴ / ۲۷۳، الحدیث: ۱۲۳۹۷)

(4)…صحیح بخاری شریف میں  حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس کو  اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اُس کی زکاۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں  کر دیا جائے گا، جس کے سر پر دو نشان ہوں  گے۔ وہ سانپ اُس کے گلے میں  طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا، پھر اس کی باچھیں  پکڑے گا اور کہے گا میں  تیرا مال ہوں  اور میں  تیرا خزانہ ہوں ۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ۱ / ۴۷۴، الحدیث: ۱۴۰۳)

 نفس کو مذموم صفات سے پاک کرنا کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ ہے:

            اس آیت کی دوسری تفسیر سے معلوم ہو اکہ نفس کو مذموم صفات جیسے تکبر و ریاکاری، بغض وحسد اور دنیا کی محبت وغیرہ سے پاک کرنا اُخروی کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔اسی سے متعلق  اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے: ’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى‘‘(اعلٰی:۱۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹)وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا‘‘(شمس:۹،۱۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اور بیشک جس نے نفس کو گناہوں  میں  چھپادیا وہ ناکام ہوگیا۔

حضرت زید بن ارقم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  :رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس طرح دعا مانگا کرتے تھے: ’’اَللّٰہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا اَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلَاہَا‘‘ اے اللّٰہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما اور اسے پاکیزہ کر،تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے، تو ہی اس کاولی اور مولیٰ ہے۔( مسلم ، کتاب الذکر و الدعاء و التوبۃ و الاستغفار ،  باب التعوّذ من شرّ ما عمل ۔۔۔ الخ ، ص۱۴۵۷، الحدیث: ۷۳ (۲۷۲۲))

             نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یہ دعا امت کی تعلیم کے لئے ہے، اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو مذموم صفات سے پاک کرنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پاکی کے لئے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  دعا بھی کرے اور اس دعا کے لئے وہ الفاظ سب سے بہترین ہیں  جو اوپر حدیث پاک میں  مذکور ہوئے۔

23:5
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵)
اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں،

{هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ: وہ اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔} اس آیت سے کامیابی حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کا چوتھا وصف بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اَسباب و لَوازمات وغیرہ حرام کاموں  سے اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرتے ہیں  البتہ اگروہ اپنی بیویوں  اور شرعی باندیوں  کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں  تو اس میں  ان پر کوئی ملامت نہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۳ / ۳۲۰-۳۲۱، ملخصًا)

شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی فضیلت:

            حدیث پاک میں  زبان اور شرمگاہ کو حرام اور ممنوع کاموں  سے بچانے پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے،چنانچہ صحیح بخاری میں  حضرت سہل بن سعد رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’جو شخص میرے لیے اس چیز کا ضامن ہو جائے جو اس کے جبڑوں  کے درمیان میں  ہے یعنی زبان کا اور اس کا جو اس کے دونوں  پاؤں  کے درمیان میں  ہے یعنی شرمگاہ کا، میں  اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، ۴ / ۲۴۰، الحدیث: ۶۴۷۴)

شرمگاہ کی شہوت کا علمی اور عملی علاج:

            یاد رہے کہ شرمگاہ کی شہوت کو پورا کرنا انسانی فطرت کا تقاضا اور بے شمار فوائد حاصل ہونے کا ذریعہ ہے،اگر اس تقاضے کو شریعت کے بتائے ہوئے جائز طریقے سے پورا کیا جائے تو یہ دنیا میں  بہت بڑی نعمت اور آخرت میں  ثواب حاصل ہونے کا ایک ذریعہ ہے اور اگر اسے ناجائز و حرام ذرائع سے پورا کیا جائے تو یہ دنیا میں  بہت بڑی آفت اور قیامت کے دن جہنم کے دردناک عذاب میں  مبتلا ہونے کا سبب ہے، لہٰذا جو شخص اپنی خواہش کی تکمیل چاہتا ہے تواسے چاہئے کہ اگرکسی عورت سے شرعی نکاح کر سکتا ہے تو نکاح کر لے تاکہ اسے اپنے لئے جائز ذریعہ مل جائے اور اگر وہ شرعی نکاح کرنے کی طاقت نہیں  رکھتا تو پھر روزے رکھ کر اپنے نفس کو مغلوب کرنے کی کوشش کرے اور ا س کے ساتھ ساتھ ان تمام اَسباب اور مُحرِّکات سے بچنے کی بھی بھرپور کوشش کرے جن کی وجہ سے نفس کی اِس خواہش میں  اضافہ ہوتا ہے،نیز ناجائز و حرام ذریعے سے اِس خواہش کو پورا کرنے پر قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں  جن سزاؤں  اور عذابات کا ذکر کیا گیا ہے ان کا بغور مطالعہ کر ے اور  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اپنے نفس کی حفاظت کے لئے خوب دعائیں  کرے۔

23:6
اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶)
مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں (ف۵)

23:7
فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ(۷)
تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں(ف۶)

{ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ: تو جو اِن دو کے سوا کچھ اور چاہے۔} یعنی جو بیویوں  اور شرعی باندیوں  کے علاوہ کسی اور ذریعے سے شہوت پوری کرنا چاہے تو وہی حد سے بڑھنے والے ہیں  کہ حلال سے حرام کی طرف تَجاوُز کرتے ہیں ۔( روح ا لبیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷، ۶ / ۶۸، ملخصاً)

ہم جنس پرستی، مشت زنی اور مُتعہ حرام ہے:

            اس سے معلوم ہو اکہ شریعت میں  صرف بیویوں  اور شرعی باندیوں  سے جائز طریقے کے ساتھ شہوت پوری کرنے کی اجاز ت ہے، اس کے علاوہ شہوت پوری کرنے کی دیگر صورتیں  جیسے مرد کا مرد سے، عورت کا عورت سے، شوہر کا بیوی یاشرعی باندی کے پچھلے مقام سے، اپنے ہاتھ سے شہوت پوری کرنا حرام ہے یونہی کسی عورت سے متعہ کرنا بھی حرام ہے۔

            علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اس آیت سے ثابت ہوا کہ اپنے ہاتھ سے قضائے شہوت کرنا حرام ہے۔حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا’’  اللہ تعالیٰ نے ایک اُمت کو عذاب کیا جو اپنی شرمگاہوں  سے کھیل کرتے تھے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۳۲۱)

            اورامام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’اس آیت سے ثابت ہو اکہ متعہ حرام ہے کیونکہ جس عورت سے متعہ کیا جاتا ہے وہ مرد کی بیوی نہیں  کیونکہ اگر ان دونوں  میں  سے کوئی مر جائے تو دوسرا اس کا وارث نہیں  بنتا، اگر وہ عورت بیوی ہوتی تو مرد کے انتقال کے بعد اس کی وارث بھی بنتی کیونکہ بیوی کی وراثت قرآن سے ثابت ہے۔ لہٰذا جب واضح ہو گیا کہ متعہ کروانے والی عورت مرد کی بیوی نہیں  تو ضروری ہے کہ وہ مرد کے لئے حلال نہ ہو۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷، ۸ / ۲۶۲)

23:8
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)
اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں (ف۷)

{لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ: اپنی امانتوں  اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ۔} اس آیت میں  فلاح حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کے مزید دو وصف بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں  خیانت نہیں  کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں  اسے پورا کرتے ہیں ۔

             یاد رہے کہ امانتیں  خواہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ہوں  یا مخلوق کی اور اسی طرح عہد خدا عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ ہوں  یا مخلوق کے ساتھ، سب کی وفا لازم ہے۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۶۹، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۳۲۱، ملتقطاً)

6چیزوں  کی ضمانت دینے پر جنت کی ضمانت:

            حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے لیے چھ چیزوں  کے ضامن ہوجاؤ، میں  تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ (1)بات بولو تو سچ بولو۔ (2)وعدہ کرو تو پورا کرو۔ (3)تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو اور(4) اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرو اور (5)اپنی نگاہوں  کو پَست کرو اور (6)اپنے ہاتھوں  کو روکو۔( مستدرک، کتاب الحدود، ستّ یدخل بہا الرجل الجنّۃ، ۵ / ۵۱۳، الحدیث: ۸۱۳۰)

23:9
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)
اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں (ف۸)

{هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ: جو اپنی نمازوں  کی حفاطت کرتے ہیں ۔} یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مومن ہیں  جو اپنی نمازوں  کی حفاطت کرتے ہیں  اور انہیں  اُن کے وقتوں  میں ، ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں  اور فرائض و واجبات اور سُنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۳۲۱، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹، ص۷۵۲، ملتقطاً)

 عظیم الشّان عبادت:

            ایمان والوں  کا پہلا وصف خشوع وخضوع کے ساتھ نما زادا کرنا بیان کیا گیا اور آخری وصف نمازوں  کی حفاظت کرنا ذکر کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ نماز بڑی عظیم الشان عبادت ہے اور دین میں  اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ پانچوں  نمازیں  پابندی کے ساتھ اور ان کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرے۔ حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پانچ نمازیں   اللہ تعالیٰ نے بندوں  پر فرض کیں ، جس نے اچھی طرح وضو کیا اور وقت میں  سب نمازیں  پڑھیں  اور رکوع و خشوع کو پورا کیا تو اس کے لیے  اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر عہد کر لیا ہے کہ اسے بخش دے، اور جس نے نہ کیا اس کے لیے عہد نہیں ، چاہے بخش دے، چاہے عذاب کرے۔( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب المحافظۃ علی وقت الصلوات، ۱ / ۱۸۶، الحدیث: ۴۲۵)

23:10
اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰)
یہی لوگ وارث ہیں،

{اُولٰٓىٕكَ: یہی لوگ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن ایمان والوں  میں  ما قبل آیات میں  مذکور اَوصاف پائے جاتے ہیں  یہی لوگ کافروں  کے جنتی مقامات کے وارث ہوں  گے۔یہ فردوس کی میراث پائیں  گے اوروہ جنت الفردوس میں  ہمیشہ رہیں  گے،نہ انہیں  اس میں  سے نکالا جائے گا اور نہ ہی وہاں  انہیں  موت آئے گی۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۳ / ۳۲۱)

ہر شخص کے دو مقام ہیں ، ایک جنت میں  اور ایک جہنم میں :

             حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر شخص کے دو مقام ہوتے ہیں ،ایک جنت میں  اور ایک جہنم میں ،جب کوئی شخص مر کر(ہمیشہ کے لئے) جہنم میں  داخل ہو  جائے تو اہلِ جنت اس کے جنتی مقام کے وارث ہوں  گے۔ یہی اس آیت ’’اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ‘‘ کا مقصد ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب صفۃ الجنّۃ، ۴ / ۵۴۲، الحدیث: ۴۳۴۱)

 اللہ تعالیٰ سے سب سے اعلیٰ جنت کا سوال کریں :

            یاد رہے کہ فردوس سب سے اعلیٰ جنت ہے اور اسی کا سوال کرنے کی حدیث پاک میں  ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جنت میں  سو درجے ہیں ،دو درجوں  کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔فردوس سب سے اعلیٰ اور درمیانی جنت ہے اورا س سے اوپر رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا عرش ہے اور اس سے جنت کی نہریں  نکلتی ہیں ۔جب تم  اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کرو۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء فی صفۃ درجات الجنّۃ، ۴ / ۲۳۸، الحدیث: ۲۵۳۸) لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ جب  اللہ تعالیٰ سے جنت کی دعا مانگے تو جنت الفردوس کی ہی دعا مانگے، اگر  اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے یہ دعا قبول فرما لی تو آخرت میں  ملنے والی یہ سب سے عظیم نعمت ہو گی۔

            دعا:اے  اللہ ! ہمیں  فردوس کی میراث پانے والوں  اوراس کی عظیم الشان نعمتوں  سے لطف اندوز ہونے والوں  میں  سے بنا دے اور جہنم کی طرف لے جانے والے تمام اَسباب سے ہماری حفاظت فرما،اٰمین۔

23:11
الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)
کہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،

23:12
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ(۱۲)
اور بیشک ہم نے آدمی کو چنی ہوئی (انتخاب کی) مٹی سے بنایا، (ف۹)

{اَلْاِنْسَانَ: انسان۔} اس آیت سے رکوع کے آخر تک  اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت پر چار دلائل ذکر فر مائے ہیں ۔ سب سے پہلے انسان کی پیدائش کے مختلف مَراحل سے اپنی قدرت پر اِستدلال فرمایا،اس کے بعد آسمانوں  کی تخلیق سے،پھر پانی نازل کرنے سے اور سب سے آخر میں  حیوانات کے مختلف مَنافع سے اپنی قدرت پر استدلال فرمایا۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۱۳۵۸)

           مفسرین فرماتے ہیں  کہ اس آیت میں انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ، انہیں   اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہوں  سے چنی ہوئی مٹی سے بنایا۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۳۲۱)

{ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً: پھر اس کو پانی کی بوند بنایا۔} یعنی پھر حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسل کو ایک مضبوط ٹھہراؤ یعنی ماں  کے رحم میں  پانی کی بوند بنایا۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۷۵۳)

23:13
ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۪(۱۳)
پھر اسے (ف۱۰) پانی کی بوند کیا ایک مضبوط ٹھہراؤ میں (ف۱۱)

23:14
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاۗ-ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَؕ-فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ(۱۴)
پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں پھر ان ہڈیوں پر گوشت پہنایا، پھر اسے اور صورت میں اٹھان دی (ف۱۲) تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بتانے والا،

{ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً: پھر ہم نے اس پانی کی بوند کوجما ہوا خون بنادیا۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے ماں  کے رحم میں  نطفہ قرار پکڑنے کے بعد والے مَراحل بیان فرمائے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ پھر ہم نے اس پانی کی بوند کوجما ہوا خون بنادیا پھر جمے ہوئے خون کو گوشت کی بوٹی بنادیا پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں بنادیا پھر ہم نے ان ہڈیوں  کو گوشت پہنایا، پھر اس میں  روح ڈال کر اس بے جان کو جان دار کیا، بولنے، سننے اور دیکھنے کی صلاحیت عطا کی اوراسے ایک دوسری صورت بنا دیاجو مکمل انسان ہوتا ہے تو بڑی برکت والا ہے وہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ جو سب سے بہتربنانے والاہے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۳۲۱-۳۲۲، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۷۵۳، ملتقطاً)

حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی سعادت :

            حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  :جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے (اس کا ابتدائی حصہ سن کر) کہا’’فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ‘‘حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عمر! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ، اسی طرح نازل ہوا ہے۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۴، ۸ / ۲۶۶)

انسان کی تخلیق  اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بہت بڑی دلیل ہے:

            انسان کے ظاہر وباطن،اس کے ہر ہر عُضْو اور ہر ہر جز میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کی اتنی نشانیاں  موجود ہیں  جنہیں  شمار نہیں  کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کی شرح بیان کی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص انصاف کے ساتھ اپنی تخلیق کے مراحل اور اپنے جسم کی بناوٹ میں  غور وفکر کرے تو اس کے پا س یہ بات ماننے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو گا کہ ایسی حیرت انگیز تخلیق پر  اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی قادر نہیں  اوروہی اکیلا اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔

23:15
ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَیِّتُوْنَؕ(۱۵)
پھر اس کے بعد تم ضرور (ف۱۳) مرنے والے ہو،

{بَعْدَ ذٰلِكَ: اس کے بعد۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تخلیق مکمل ہونے کے بعد جب تمہاری عمریں  پور ی ہو جائیں  گی تو تمہیں  ضرور موت آئے گی، پھر تم سب قیامت کے دن حساب و جزا کے لئے اٹھائے جاؤ گے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۳ / ۳۲۲)

{وَ لَقَدْ خَلَقْنَا: اور بیشک ہم نے بنائے۔} ا س آیت میں   اللہ تعالیٰ نے آسمانوں  کی تخلیق سے اپنی قدرت پر اِستدلال فرمایا،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے تمہارے اوپر سات راستے بنائے۔ان سے مراد سات آسمان ہیں  جو فرشتوں  کے چڑھنے اُترنے کے راستے ہیں ۔اور فرمایا کہ ہم مخلوق سے بے خبر نہیں ،سب کے اَعمال، اَقوال اور چھپی حالتوں  کو جانتے ہیں  اورکوئی چیز ہم سے چھپی نہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۳۲۲)

23:16
ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ(۱۶)
پھر تم سب قیامت کے دن (ف۱۴) اٹھائے جاؤ گے،

23:17
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآىٕقَ ﳓ وَ مَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِیْنَ(۱۷)
اور بیشک ہم نے تمہارے اوپر سات راہیں بنائیں (ف۱۵) اور ہم خلق سے بے خبر نہیں (ف۱۶)

23:18
وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِی الْاَرْضِ ﳓ وَ اِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَۚ(۱۸)
اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا (ف۱۷) ایک اندازہ پر (ف۱۸) پھر اسے زمین میں ٹھہرایا اور بیشک ہم اس کے لے جانے پر قادر ہیں (ف۱۹)

{وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً: اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے پانی نازل کرنے سے اپنی قدرت پر اِستدلال فرمایا،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ یعنی جتنی ہمارے علم و حکمت میں  مخلوق کی حاجتوں  کے لئے چاہیے اتنی بارش برسائی، پھر اسے زمین میں  ٹھہرایا اور بیشک ہم اسے لے جانے پر قادر ہیں  یعنی جیسے اپنی قدرت سے پانی نازل فرمایا ایسے ہی اس پر بھی قادر ہیں  کہ اس کو ختم کردیں  تو بندوں کو چاہیے کہ اس نعمت کی شکر گزاری سے حفاظت کریں۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۳۲۲، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۷۵۴، ملتقطاً)

23:19
فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍۘ-لَكُمْ فِیْهَا فَوَاكِهُ كَثِیْرَةٌ وَّ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَۙ(۱۹)
تو اس سے ہم نے تمہارے باغ پیدا کیے کھجوروں اور انگوروں کے تمہارے لیے ان میں بہت سے میوے ہیں (ف۲۰) اور ان میں سے کھاتے ہو (ف۲۱)

{فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ: تو ہم نے تمہارے لئے پیدا کئے۔} یعنی جو پانی آسمان سے نازل فرما یا اس سے ہم نے تمہارے لئے کھجوروں  اور انگوروں  کے باغات پیدا کئے۔ تمہارے لیے ان باغوں میں  کھجوروں  اور انگوروں  کے علاوہ مزید بہت سے پھل میوے ہیں  اور سردی گرمی وغیرہ موسموں  میں  ان میں  سے تم کھاتے ہو اور عیش کرتے ہو۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۳۲۳، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۷۵۴، ملتقطاً)

{وَ شَجَرَةً: اور درخت۔} یعنی  اللہ تعالیٰ نے زیتون کادرخت پیدا کیا جو طورِ سَینا نامی پہاڑسے نکلتا ہے، تیل اور کھانے والوں  کے لیے سالن لے کر اگتا ہے۔ یہ اس میں  عجیب صفت ہے کہ وہ تیل بھی ہے کہ تیل کے مَنافع اور فوائد اس سے حاصل کئے جاتے ہیں ، جلایا بھی جاتا ہے، دوا کے طریقے پر بھی کام میں  لایا جاتا ہے اور سالن کا بھی کام دیتا ہے کہ تنہا اس سے روٹی کھائی جاسکتی ہے۔( ابو سعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۴۱-۴۲، ملخصاً)

23:20
وَ شَجَرَةً تَخْرُ جُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَآءَ تَنْۢبُتُ بِالدُّهْنِ وَ صِبْغٍ لِّلْاٰكِلِیْنَ(۲۰)
اور وہ پیڑ پیدا کیا کہ طور سینا سے نکلتا ہے (ف۲۲) لے کر اگتا ہے تیل اور کھانے والوں کے لیے سالن (ف۲۳)

23:21
وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةًؕ-نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهَا وَ لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ كَثِیْرَةٌ وَّ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَۙ(۲۱)
اور بیشک تمہارے لیے چوپایوں میں سمجھنے کا مقام ہے، ہم تمہیں پلاتے ہیں اس میں سے جو ان کے پیٹ میں ہے (ف۲۴) اور تمہارے لیے ان میں بہت فائدے ہیں (ف۲۵) اور ان سے تمہاری خوراک ہے (ف۲۶)

{فِی الْاَنْعَامِ: چوپایوں  میں ۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے حیوانات کے مَنافع سے اپنی قدرتِ کاملہ پر اِستدلال فرمایا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک تمہارے لیے چوپایوں  میں  سمجھنے کا مقام ہے جس کے ذریعے تم عبرت حاصل کر سکتے ہو، ہم تمہیں  ان کے پیٹ میں  موجود دودھ پلاتے ہیں  اور وہ خوشگوار،طبیعت کے موافق لطیف غذا ہے اور تمہارے لیے ان میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں  کہ اُن کے بال، کھال اوراُون وغیرہ سے کام لیتے ہو اور انہی میں  سے تم بعض چوپایوں  کو ذبح کرکے ان کا گوشت بھی کھالیتے ہو۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۳۲۳، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۷۵۴، ملتقطاً)

          نوٹ:اس آیت کی مزید تفصیل جاننے کے لئے سورۂ نحل آیت نمبر66 کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔

{وَ عَلَیْهَا: اور ان پر۔} یعنی خشکی میں  ان جانوروں پر اور دریاؤں  میں  کشتیوں  پرتمہیں  سوار کیا جاتا ہے۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۲ص۷۵۴)

23:22
وَ عَلَیْهَا وَ عَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ۠(۲۲)
اور ان پر (ف۲۷) اور کشتی پر (ف۲۸) سوار کیے جاتے ہو،

23:23
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۲۳)
اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں، تو کیا تمہیں ڈر نہیں (ف۲۹)

{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ: اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔}  اللہ تعالیٰ نے ان آیات سے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کے علاوہ پانچ واقعات بیان فرمائے ہیں ۔ پہلا :حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔دوسرا :حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا۔تیسرا :قُرونِ آخَرین کا قصہ۔چوتھا: حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ اور پانچواں :حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی والدہ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کا واقعہ۔ ان تمام واقعات کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت سابقہ امتوں  کے حالات سے آگاہ ہو تاکہ ان کے اچھے اَوصاف اپنانے کی کوشش کریں  اور مذموم اوصاف سے بچیں ۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۱۳۶۱)

            اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں  نے قوم سے فرمایا: اے میری قوم! تم( ایمان قبول کر کے)  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، کیا تم اس کے عذاب سے ڈرتے نہیں  جو اس کے سوا اوروں کو پوجتے ہو۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۳۲۳، ملخصاً)

          نوٹ:حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کی تفصیلات سورہ ٔ اَعراف آیت نمبر59تا64 اور سورۂ ہود آیت نمبر 25تا 49 میں  گزر چکی ہیں ۔

23:24
فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْۙ-یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰٓىٕكَةً ۚۖ-مَّا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآىٕنَا الْاَوَّلِیْنَۚ(۲۴)
تو اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کیا بولے (ف۳۰) یہ تو نہیں مگر تم جیسا آدمی چاہتا ہے کہ تمہارا بڑا بنے (ف۳۱) اور اللہ چاہتا (ف۳۲) تو فرشتے اتارتا ہم نے تو یہ اگلے باپ داداؤں میں نہ سنا (ف۳۳)

{فَقَالَ: تو کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے کافر سرداروں  نے اپنی قوم کے لوگوں  سے کہا کہ یہ تو تمہارے جیسا ہی ایک آدمی ہے کہ کھاتا اور پیتا ہے، یہ چاہتا ہے کہ تم پر  بڑا بن جائے اور تمہیں  اپنا تابع بنالے اور اگر  اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا کہ رسول بھیجے اور مخلوق پرستی کی ممانعت فرمائے تو وہ فرشتے اتاردیتالیکن اس نے ایسا تو نہیں  کیا، نیز ہم نے تو اپنے پہلے باپ داداؤں  میں  یہ بات نہیں  سنی کہ بشر بھی رسول ہوتا ہے۔ یہ ان کی حماقت کی انتہاء تھی کہ بشر کا رسول ہونا تو تسلیم نہ کیا، پتھروں  کو خدا مان لیا اور انہوں  نے حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے بارے میں  یہ بھی کہا ’’یہ تو صرف ایک ایسا مرد ہے جس پر جنون طاری ہے تو ایک مدت تک انتظار کرلو یہاں  تک کہ اس کا جنون دور ہو جائے، ایسا ہوا تو خیر ورنہ اس کو قتل کر ڈالنا۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۴-۲۵، ص۷۵۵، ملخصاً)

{قَالَ: عرض کی۔} جب حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوان لوگوں  کے ایمان لانے اور اُ ن کے ہدایت پانے کی امید نہ رہی تو حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میری مدد فرما اور اس قوم کو ہلا ک کر دے کیونکہ انہوں  نے مجھے جھٹلایاہے۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۷۵۵)

23:25
اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوْا بِهٖ حَتّٰى حِیْنٍ(۲۵)
وہ تو نہیں مگر ایک دیوانہ مرد تو کچھ زمانہ تک اس کا انتظار کیے رہو (ف۳۴)

23:26
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا كَذَّبُوْنِ(۲۶)
نوح نے عرض کی اے میرے رب! میری مدد فرما (ف۳۵) اس پر کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا،

23:27
فَاَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا فَاِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُۙ-فَاسْلُكْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْۚ-وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاۚ-اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ(۲۷)
تو ہم نے اسے وحی بھیجی کہ ہماری نگاہ کے سامنے (ف۳۶) اور ہمارے حکم سے کشتی بنا پھر جب ہمارا حکم آئے (ف۳۷) اور تنور ابلے (ف۳۸) تو اس میں بٹھالے (ف۳۹) ہر جوڑے میں سے دو (ف۴۰) اور اپنے گھر والے (ف۴۱) مگر ان میں سے وہ جن پر بات پہلے پڑچکی (ف۴۲) اور ان ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے بات نہ کرنا (ف۴۳) یہ ضرور ڈبوئے جائیں گے،

{فَاَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِ: تو ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی تو  اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرماتے ہوئے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تم ہماری حمایت و حفاظت میں  اور ہمارے حکم سے کشتی بنا ؤپھر جب ان کی ہلاکت کا ہماراحکم آئے اور عذاب کے آثار نمودار ہوں  اور تنور ابلنے لگ جائے اور اس میں  سے پانی برآمد ہو تو یہ عذاب کے شروع ہونے کی علامت ہے، تو اس وقت کشتی میں  ہر طرح کے جانوروں  کے جوڑے میں  سے نراور مادہ اور اپنے گھر والوں  یعنی اپنی مومنہ بیوی اور ایماندار اولاد یا تمام مومنین کو داخل کرلو،البتہ ان میں  سے ان لوگوں  کو سوار نہ کرنا جن پر بات پہلے طے ہوچکی ہے اور کلامِ اَزلی میں  ان پر عذاب اور ہلاکت مُعَیّن ہوچکی ہے۔ اس سے مراد حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاکنعان نامی ایک بیٹا اور ایک بیوی ہیں  کہ یہ دونوں  کافر تھے، چنانچہ حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے تین فرزندوں  سام، حام، یافث اور اُن کی بیویوں  کو اور دوسرے مؤمنین کو سوار کیا، کل لوگ جو کشتی میں  تھے اُن کی تعداد ایک قول کے مطابق 80تھی نصف مرد اور نصف عورتیں ۔ حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام سے مزید ارشاد فرمایا کہ ان ظالموں  کے معاملہ میں  مجھ سے بات نہ کرنا اور اُن کے لئے نجات طلب کرنا نہ دعا فرمانا، یہ ضرور غرق کئے جانے والے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ : ۲۷، ۳ / ۳۲۴ ، مدارک ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۲۷ ، ص۷۵۵ - ۷۵۶، جلالین مع صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۹۱۳، ملتقطاً)

          نوٹ:اس واقعے کی مزید تفصیل سورۂ ہود کی آیت نمبر37تا 40میں  ملاحظہ فرمائیں ۔

23:28
فَاِذَا اسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَ مَنْ مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۲۸)
پھر جب ٹھیک بیٹھ لے کشتی پر تُو اور تیرے ساتھ والے تو کہہ سب خوبیاں اللہ کو جس نے ہمیں ان ظالموں سے نجات دی،

{فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ: تو تم کہناتمام تعریفیں   اللہ کیلئے ہیں ۔} کافروں  سے نجات حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والے تمام لوگوں  کو نصیب ہوئی لیکن اس پر  اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرنے کا حکم صرف حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیاگیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے نبی اور امام تھے تو اِن کا حمد و ثنا کرنااُن ایمان والوں  کا حمد و ثنا کرنا ہے نیز اس میں   اللہ تعالیٰ کی کِبریائی اور رَبوبِیَّت اور نبوت کی عظمت و فضیلت کی طرف اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کیونکہ  اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونا وہ عظیم رتبہ ہے جو فرشتے اور نبی کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں  ہوتا۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۸، ۸ / ۲۷۳)  نیز بحیثیت ِ نبی حمد کا حکم حضرت نوح عَلَیْہِ  السَّلَام کو ہوا تو امت نے اس کی پیروی کرنی تھی۔

23:29
وَ قُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ(۲۹)
اور عرض کر (ف۴۴) کہ اے میرے رب مجھے برکت والی جگہ اتار اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے،

{وَ قُلْ: اور عرض کرنا۔} یعنی کشتی سے اُترتے وقت یا اس میں  سوار ہوتے وقت عرض کرنا کہ: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے برکت والی جگہ اتار دے اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔کشتی میں  سوار ہوتے وقت کی برکت عذاب سے نجات ہے اور کشتی سے اترتے وقت کی برکت نسل کی کثرت اور پے درپے بھلائیوں  کا ملنا ہے۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۷۵۶)

            اس آیت میں  اشارہ ہے کہ ہر مسلمان کو  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ایسی برکت والی جگہ کی دعامانگنی چاہئے جس میں  اس کے لئے دین اور دنیا دونوں  کی برکتیں  ہوں ۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۸۱)
23:30
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ وَّ اِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ(۳۰)
بیشک اس میں (ف۴۵) ضرو ر نشانیاں (ف۴۶) اور بیشک ضرور ہم جانچنے والے تھے (ف۴۷)

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ: بیشک اس میں ۔} یعنی حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں  اور اس میں  جو دشمنانِ حق کے ساتھ کیا گیا ضرور نشانیاں ، عبرتیں ، نصیحتیں  اور  اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل ہیں  اور بیشک ہم حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو اس قوم میں  بھیج کر اور ان کو وعظ و نصیحت پر مامُور فرما کر انہیں  ضرور آزمانے والے تھے تاکہ ظاہر ہوجائے کہ عذاب نازل ہونے سے پہلے کون نصیحت قبول کرتا اور تصدیق و اطاعت کرتا ہے اور کون نافرمان تکذیب و مخالفت پر ڈٹا رہتا ہے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۳۲۴، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۷۵۶، ملتقطاً)

23:31
ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَۚ(۳۱)
پھر ان کے (ف۴۸) بعد ہم نے اور سنگت (قوم) پیدا کی (ف۴۹)

{ثُمَّ: پھر۔} یعنی حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل کرنے اور اِس کی ہلاکت کے بعد ہم نے پھر ایک دوسری قوم پیدا کی اور وہ حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد ہے۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۱، ۶ / ۸۱)

            نوٹ: حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور قومِ عاد کا واقعہ سورۂ اَعراف آیت نمبر65تا72 اور سورۂ ہود آیت نمبر50تا60 میں  گزر چکا ہے۔

{فَاَرْسَلْنَا فِیْهِمْ رَسُوْلًا: تو ہم نے ان میں  ایک رسول بھیجا۔} یعنی ہم نے قومِ عاد میں  انہیں  میں  سے ایک رسول بھیجا، جن کا نام حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے اور اُن کی معرفت اُس قوم کو حکم دیا کہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں  تو کیا تم  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرتے نہیں ؟ تا کہ شرک چھوڑ کر ایمان قبول کر لو۔(روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۲، ۶ / ۸۱، ملخصاً)

23:32
فَاَرْسَلْنَا فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۠(۳۲)
تو ان میں ایک رسول انہیں میں سے بھیجا (ف۵۰) کہ اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں، تو کیا تمہیں ڈر نہیں (ف۵۱)

23:33
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ وَ اَتْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۙ-مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْۙ-یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَﭪ (۳۳)
اور بولے اس قوم کے سردار جنہوں نے کفر کیا اور آخرت کی حاضری (ف۵۲) کو جھٹلایا اور ہم نے انہیں دنیا کی زندگی میں چین دیا (ف۵۳) کہ یہ تو نہیں مگر جیسا آدمی جو تم کھاتے ہو اسی میں سے کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو اسی میں سے پیتا ہے (ف۵۴)

{وَ قَالَ: اور بولے۔} یہاں  سے حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے کافر سرداروں  کے شبہات بیان کئے گئے ہیں ، ا س آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت سن کر ان کی قوم کے وہ سردار جنہوں  نے کفرکیااورآخرت کی ملاقات اور وہاں  کے ثواب و عذاب وغیرہ کو جھٹلایا حالانکہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  عیش کی وسعت اور دنیا کی نعمت عطا فرمائی تھی، یہ اپنے نبی عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  اپنی قوم کے لوگوں  سے کہنے لگے ’’یہ تو تمہارے جیسے ہی ایک آدمی ہیں ، جو تم کھاتے ہو اسی میں  سے یہ کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو اسی میں  سے یہ پیتا ہے۔ یعنی اگر یہ نبی ہوتے تو فرشتوں کی طرح کھانے پینے سے پاک ہوتے۔ ان باطن کے اندھوں  نے کمالاتِ نبوت کو نہ دیکھا اور کھانے پینے کے اوصاف دیکھ کر نبی کو اپنی طرح بشر کہنے لگے اور یہی چیز اُن کی گمراہی کی بنیادہوئی، چنانچہ اسی سے انہوں  نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپس میں  کہنے لگے’’اور اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی بات مان کر اس کی اطاعت کرو گے جب تو تم ضرور خسارہ پانے والے ہوگے۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ص۷۵۷، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۶ / ۸۲، ملتقطاً)

آیت ’’وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ‘‘ سے معلوم ہونے والی باتیں :

            اس سے دو باتیں  معلوم ہوئیں 

(1)… ہمیشہ مالدار، سردار، دنیاوی عزت والے زیادہ تر لوگ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مخالف ہوئے۔ غُرباء و مَساکین زیادہ مومن ہوئے، اب بھی یہی دیکھا جا رہا ہے کہ عموماًغریب لوگ ہی دینی کام زیادہ کرتے ہیں ۔

(2)… نبی کو اپنے جیسا بشر کہنا اور ان کے ظاہری کھانے پینے کو دیکھنا، باطنی اَسرار کو نہ دیکھنا، ہمیشہ سے کفار کا کام رہا ہے۔ پہلی بارشیطان نے نبی کو بشر کہا، پھر ہمیشہ کفار نے ایساکہا۔

{اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ: جب تو تم ضرور خسارہ پانے والے ہوگے۔} یعنی خدا کی قسم! اگر تم نے اس کے احکاما ت کی پیروی کی تو ا س صورت میں  اپنے آپ کوذلت میں  ڈال کر تم ضرور خسارہ پانے والے ہوگے۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۸۲)

کافر بہت بڑا بے عقل ہے:

             اللہ تعالیٰ کے نبی عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی سے دونوں  جہاں  میں  سعادتیں  نصیب ہوتی ہیں  لیکن ان بیوقوفوں  نے نبی عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اطاعت میں  اپنی ناکامی جبکہ پتھروں  کی عبادت میں  کامیابی سمجھی، اس سے معلوم ہوا کہ کافر بہت بڑا بے عقل ہوتا ہے۔

 

23:34
وَ لَىٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَۙ(۳۴)
اور اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کرو جب تو تم ضرور گھاٹے میں ہو،

23:35
اَیَعِدُكُمْ اَنَّكُمْ اِذَا مِتُّمْ وَ كُنْتُمْ تُرَابًا وَّ عِظَامًا اَنَّكُمْ مُّخْرَجُوْنَﭪ(۳۵)
کیا تمہیں یہ وعدہ دیتا ہے کہ تم جب مرجاؤ گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجاؤ گے اس کے بعد پھر (ف۵۵) نکالے جاؤ گے،

{اَیَعِدُكُمْ: کیا تمہیں  یہ وعدہ دیتا ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے کافر سرداروں  نے حشر کے صحیح ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا’’ کیا تمہیں  یہ کہا جاتا ہے کہ جب تم مرجاؤ گے اور تمہارا گوشت پوست سب مٹی ہو جائے گا اور ہڈیاں  باقی رہ جائیں  گی، اس کے بعد پھر تم قبروں  سے زندہ نکالے جاؤ گے۔ انہوں  نے صرف اتنی بات کہنے کو کافی نہ سمجھا بلکہ مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو بہت بعیدجانا اور کہا’’قبروں  سے نکالے جانے کاجو وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ بہت دور ہے، وہ بہت دور ہے۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ۸ / ۲۷۶، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ۶ / ۸۲،  ملتقطاً)

23:36
هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَﭪ(۳۶)
کتنی دور ہے کتنی دور ہے جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے (ف۵۶)

23:37
اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَﭪ(۳۷)
وہ تو نہیں مگر ہماری دنیا کی زندگی (ف۵۷) کہ ہم مرتے جیتے ہیں (ف۵۸) اور ہمیں اٹھنا نہیں (ف۵۹)

{اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا: زندگی تو صرف ہماری دنیا کی زندگی ہے۔} اُن سرداروں  نے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو بہت بعید جانا اور سمجھا کہ ایسا کبھی ہونے والا ہی نہیں  اور اسی باطل خیال کی بنا پر کہنے لگے کہ زندگی تو صرف ہماری دنیا کی زندگی ہے۔ اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اس دُنْیَوی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں  صرف اتنا ہی ہے، ہم مرتے جیتے ہیں  کہ ہم میں  کوئی مرتا ہے کوئی پیدا ہوتا ہے اور ہم مرنے کے بعداٹھائے جانے والے نہیں  ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۳۲۵، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۷۵۷، ملتقطاً)

{اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌ: یہ تو صرف ایک مرد ہے۔} کافر سرداروں  نے اپنے رسول حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  یہ کہا کہ وہ تو صرف ایک ایسا مرد ہے جس نے  اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھاہے کہ اپنے آپ کو اس کا نبی بتایا اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کی خبر دی اور ہم اس کی بات کا یقین کرنے والے نہیں  ہیں ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۷۵۷)

23:38
اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلُ-ﰳافْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا وَّ مَا نَحْنُ لَهٗ بِمُؤْمِنِیْنَ(۳۸)
وہ تو نہیں مگر ایک مرد جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا (ف۶۰) اور ہم اسے ماننے کے نہیں (ف۶۱)

23:39
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا كَذَّبُوْنِ(۳۹)
عرض کی کہ اے میرے رب میری مدد فرما اس پر کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا،

{قَالَ: عرض کی۔} جب حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اُن کے ایمان لانے کی امید نہ رہی اور انہوں  نے دیکھا کہ قوم انتہائی سرکشی پر ہے تو اُن کے خلاف دعا کی اور بارگاہِ الٰہی میں  عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میری مدد فرما اور انہیں  ہلاک کر دے کیونکہ انہوں  نے مجھے جھٹلایاہے اور وہ اسی پر قائم ہیں ۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۴۸)

{ قَالَ:  اللہ نے فرمایا۔}  اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرمائی اور ان سے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ تھوڑی دیر میں  جب  اللہ تعالیٰ کا عذاب دیکھیں  گے تو یہ اپنے کفر اور تکذیب پر پچھتانے والے ہوجائیں  گے۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۷۵۷)

{فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ بِالْحَقِّ: تو سچی چیخ نے انہیں  پکڑ لیا۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی قوم کے لوگ عذاب اور ہلاکت میں  گرفتار کئے گئے اور وہ ہلاک ہو کر گھاس کوڑے کی طرح ہوگئے تو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرنے والے ظالم لوگوں  کے لئے خدا کی رحمت سے دوری ہے۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ:۴۱، ۳ / ۳۲۵، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴۱، ۶ / ۸۳، ملتقطاً)

23:40
قَالَ عَمَّا قَلِیْلٍ لَّیُصْبِحُنَّ نٰدِمِیْنَۚ(۴۰)
اللہ نے فرمایا کچھ دیر جاتی ہے کہ یہ صبح کریں گے پچھتاتے ہوئے (ف۶۲)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْمُؤْمِنُوْن
اَلْمُؤْمِنُوْن
  00:00



Download

اَلْمُؤْمِنُوْن
اَلْمُؤْمِنُوْن
  00:00



Download