READ

Surah al-Maun

اَلْمَاعُوْن
7 Ayaat    مکیۃ


107:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

107:1
اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱)
بھلا دیکھو تو جو دین کو جھٹلاتا ہے (ف۲)

{اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِ: کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے۔} شانِ نزول : اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت عاص بن وائل سہمی کے بارے میں  نازل ہوئی ،وہ قیامت کے دن کا انکار کرتا تھا اور برے کام بھی کیا کرتا تھا۔

دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ کے بارے میں  نازل ہوئی۔

تیسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ابو جہل کے بارے میں  نازل ہوئی،مروی ہے کہ ابو جہل نے ایک یتیم کی پرورش کی ذمہ داری لی،ایک دن وہ یتیم ننگے بدن ا س کے پاس آیا اور اپنے مال میں  سے کچھ طلب کیا،اُس نے اسے دھکے دے کر نکال دیا ۔قریش کے سرداروں  نے اس سے کہا کہ تم محمد(مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کے پاس جاؤ وہ تمہاری سفارش کر دیں  گے،اس سے ان لوگوں  کا مقصد نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا مذاق اڑانا تھا لیکن یتیم کو یہ چیز معلوم نہ تھی،چنانچہ وہ یتیم تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور اپنی فریاد پیش کی اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کبھی کسی       محتاج کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے تھے،چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس یتیم کے ساتھ ابو جہل کے پاس گئے ،اس نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو دیکھ کر مرحبا کہا اور فوراً یتیم کا مال اس کے حوالے کر دیا۔یہ دیکھ کر قبیلہ قریش کے لوگوں  نے اسے عار دلایا اور کہا کہ تو اپنے دین سے پھر گیا ہے۔ ابو جہل نے جواب دیا : خدا کی قسم!میں  اپنے دین سے پھرا نہیں  ،اصل بات یہ ہے کہ میں  نے اُن کی دائیں  اور بائیں  طرف ایک نیزہ دیکھا اور مجھے یہ ڈر لگا کہ اگر میں  نے ان کی بات نہ مانی تو یہ نیزہ مجھے پھاڑ ڈالے گا۔

چوتھا قول یہ ہے کہ یہ آیت کسی خاص آدمی کے بارے میں  نازل نہیں  ہوئی بلکہ اس میں  ہر وہ شخص داخل ہے جو قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا نیک اعمال کرنا اور ممنوعات سے رکنا ثواب میں  رغبت اور عذاب کے ڈر سے ہوتا ہے تو جب وہ قیامت کا ہی منکر ہو گا تو وہ نفسانی خواہشات اور لذتوں  میں  سے کچھ نہ چھوڑے گا ،اس سے ثابت ہوا کہ قیامت کا انکارکفر اور گناہوں  کی تمام اَقسام کی بنیاد کی طرح ہے۔اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے انسان!کیا تم اس شخص کو پہچانتے ہوجو دلائل واضح ہونے کے باوجود حساب اور جزاکا انکار کرتا ہے، اگر نہیں  پہچانتے تو سنو:یہ وہ شخص ہے جو اپنے کفر کی وجہ سے یتیم کو دھکے دیتا،ڈانٹتا اور مارتا ہے اور ا س کے ساتھ ظلم کرتے ہوئے ا س کا حق اور اس کا مال اسے نہیں  دیتا اور اپنے انتہا درجے کے بخل،دل کی سختی اور کمینے پن کی وجہ سے مسکین کو کھانا نہیں  دیتا اور نہ ہی وہ کسی اور کویتیم کو کھانا دینے کی ترغیب دیتا ہے کیو نکہ وہ ا س عمل پر ثواب ملنے کا اعتقاد نہیں  رکھتا،اگر وہ جزا پر ایمان لاتا اور وعید پر یقین رکھتا تو ا س سے یہ اَفعال صادر نہ ہوتے۔( تفسیر کبیر، الماعون، تحت الآیۃ: ۱-۳، ۱۱ / ۳۰۱-۳۰۳، خازن، الماعون، تحت الآیۃ: ۱-۳، ۴ / ۴۱۲، ملتقطاً)

107:2
فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲)
پھر وہ وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (ف۳)

{فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ: پھر وہ ایسا ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔} یعنی دین کو جھٹلانے والے شخص کا اخلاقی حال یہ ہے کہ وہ یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

یتیموں  کے ساتھ کفار کا سلوک اوران کے بارے میں  اسلام کی تعلیمات:

اس آیت میں  کفار کا یتیموں  کے ساتھ سلوک بیان کیا گیا جبکہ ا س کے مقابلے یتیموں  کے بارے میں  اسلام کی تعلیمات ملاحظہ کیجئے۔چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ یتیموں  کے سرپرستوں  سے ارشاد فرماتا ہے:

 ’’وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ  وَ  لَا  تَتَبَدَّلُوا  الْخَبِیْثَ  بِالطَّیِّبِ   ۪-  وَ  لَا  تَاْكُلُوْۤا  اَمْوَالَهُمْ  اِلٰۤى  اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ  كَانَ  حُوْبًا  كَبِیْرًا ‘‘(النساء:۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یتیموں  کو ان کے مال دیدو اور پاکیزہ مال کے بدلے گندا مال نہ لواور ان کے مالوں  کو اپنے مالوں  میں  ملاکر نہ کھا جاؤ بیشک یہ بڑا گناہ ہے۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’وَ  لَا  تُؤْتُوا  السُّفَهَآءَ  اَمْوَالَكُمُ  الَّتِیْ  جَعَلَ  اللّٰهُ  لَكُمْ  قِیٰمًا  وَّ  ارْزُقُوْهُمْ  فِیْهَا  وَ  اكْسُوْهُمْ  وَ  قُوْلُوْا  لَهُمْ  قَوْلًا  مَّعْرُوْفًا‘‘(النساء:۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اورکم عقلوں  کوان کے وہ مال نہ دو جسے اللّٰہ نے تمہارے لئے گزر بسر کا ذریعہ بنایاہے اور انہیںاس مال میں  سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہو۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’وَ  لْیَخْشَ الَّذِیْنَ  لَوْ  تَرَكُوْا  مِنْ  خَلْفِهِمْ  ذُرِّیَّةً  ضِعٰفًا  خَافُوْا  عَلَیْهِمْ   ۪-  فَلْیَتَّقُوا  اللّٰهَ  وَ  لْیَقُوْلُوْا  قَوْلًا  سَدِیْدًا ‘‘ (النساء:۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:  اور وہ لوگ ڈریں جو اگر اپنے پیچھے کمزور اولاد چھوڑ تے تو ان کے بارے میں  کیسے اندیشوں  کا شکار ہوتے۔تو انہیں  چاہیے کہ اللّٰہ سے ڈریں  اور درستبات کہیں ۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا ‘‘ (النساء:۱۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک و ہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں  کا مال کھاتے ہیں  وہ اپنے پیٹ میں  بالکل آ گ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں  جائیں  گے۔

اورحضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں  میں  بہترین گھر وہ گھر ہے جس میں  یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں  میں  بدترین گھر وہ گھر ہے جس میں  یتیم ہو اور ا س کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو ۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب حقّ الیتیم، ۴ / ۱۹۳، الحدیث: ۳۶۷۹)

اورحضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،  رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا ’’ جو کسی یتیم کے سر پر اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہاتھ پھیرے تو اس کے لیے ہر اس بال کے عِوَض نیکیاں  ہوں  گی جس پر اس کا ہاتھ پھرے اور جو اپنے پاس رہنے والے یتیم لڑکے یا یتیم لڑکی سے بھلائی کرے توجنت میں  مَیں  اور وہ ان کی طرح ہوں  گے، اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اپنی دو انگلیاں  ملائیں۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی... الخ، ۸ / ۳۰۰، الحدیث: ۲۲۳۴۷)

کفار کے طرزِ عمل اور اسلام کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ بچوں  کے حقوق کی حفاظت کے لئے جو اِقدامات دین ِاسلام نے کئے اور جو احکامات دین ِاسلام نے دئیے ان کی مثال کسی اور دین میں  نہیں  مل سکتی۔

107:3
وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِؕ(۳)
اور مسکین کو کھانا دینے کی رغبت نہیں دیتا (ف۴)

{وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ: اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں  دیتا۔} یعنی دین کو جھٹلانے والے کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے گھر والوں  اور دیگر مالداروں  کو اس بات کی ترغیب نہیں  دیتا کہ وہ مسکین کو کھانا دیں ۔( روح البیان، الماعون، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۵۲۲)

مسکین کے ساتھ کفار کا طرزِ عمل اوردین ِاسلام کی تعلیمات:

          اس آیت میں  مسکین سے کفار کا سلوک بیان کیا گیا،اب مسکین کے بارے میں  اسلام کی تعلیمات ملاحظہ ہوں ، اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(روم:۳۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان:  تو رشتے دار کو ا س کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی۔ یہ ان لوگوں  کیلئے بہتر ہے جو اللّٰہ کی رضاچاہتے ہیں  اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔

            اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں  کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸)اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا‘‘(دہر:۸،۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ اللّٰہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اورقیدی کوکھانا کھلاتے ہیں  ۔ ہم تمہیں  خاص اللّٰہ کی رضاکے لیے کھانا کھلاتے ہیں ۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں  اور نہ شکر یہ ۔

            اور حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا’’ مسکین لوگ جنت میں  مالداروں  سے چالیس برس پہلے جائیں  گے ، اے عائشہ! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا ، مسکین کو خالی نہ پھیرو اگرچہ کھجور کی قاش ہی ہو اسے دے دو ۔ اے عائشہ ! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا ،مسکینوں سے محبت کرو، انہیں  قریب رکھو تاکہ اللّٰہ تعالیٰ قیامت میں  تمہیں  قریب کردے۔( ترمذی، کتاب الزّہد، باب ما جاء انّ فقراء المہاجرین یدخلون الجنۃ قبل اغنیائہم، ۴ / ۱۵۷، الحدیث: ۲۳۵۹)

107:4
فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ(۴)
تو ان نمازیوں کی خرابی ہے،

{فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ: تو ان نمازیوں  کے لئے خرابی ہے۔} یہ آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ ان نمازیوں  کیلئے خرابی ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں  ۔اس سے مراد منافقین ہیں  کہ جب وہ لوگ تنہا ہوتے ہیں  تو نماز نہیں  پڑھتے کیونکہ وہ اس کے فرض ہونے کا اعتقادنہیں  رکھتے اور جب وہ لوگوں  کے سامنے ہوتے ہیں  تو نمازی بنتے، اپنے آپ کو نمازی ظاہر کرتے اور انہیں  دکھانے کے لئے اُٹھ بیٹھ لیتے ہیں  اور حقیقت میں  یہ لوگ نماز سے غافل ہیں ۔( مدارک، الماعون، تحت الآیۃ: ۴-۵، ص۱۳۷۷)

نماز سے غفلت برتنے والوں  کا انجام:

            نماز سے غافل رہنے والوں  کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا‘‘(مریم:۵۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں  نے نمازوں  کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں  گے۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ(۱۴۲) مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ ﳓ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا‘‘(النساء:۱۴۲،۱۴۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں  اللّٰہکو فریب دینا چاہتے ہیں  اور وہی انہیں  غافل کرکے مارے گااور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں  توبڑے سست ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللّٰہ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں ۔درمیان میں  ڈگمگا رہے

ہیں ، نہ اِن کی طرف ہیں  نہ اُن کی طرف اور جسے اللّٰہ گمراہ کرے تو تم اس کے لئے کوئی راستہ نہ پاؤ گے۔

            یاد رہے کہ نماز سے غفلت کرنے یعنی کبھی نماز پڑھ لینے اور کبھی چھوڑ دینے سے بھی بچنا ضروری ہے اور یہ خاص منافقوں  کا وصف ہے اور نماز میں  غفلت کرنا یعنی نمازکے دوران دیگر کاموں  کے بارے میں  سوچ بچار کرنے لگ جانا یا شیطان کے وسوسوں  کو قبول کر لیناوغیرہ اس سے بھی بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اگرچہ اس کی شناعت یعنی برائی کم ہے۔

{اَلَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ: جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔} نماز سے غفلت کی چند صورتیں  ہیں ، جیسے پابندی سے نہ پڑھنا، صحیح وقت پر نہ پڑھنا، فرائض و واجبات کو صحیح طریقے سے ادا نہ کرنا، شرعی عذر کے بغیر با جماعت نہ پڑھنا، نماز کی پرواہ نہ کرنا، تنہائی میں  قضا کر دینا اور لوگوں  کے سامنے پڑھ لینا وغیرہ، یہ سب صورتیں  وعید میں  داخل ہیں  جبکہ شوق سے نہ پڑھنا، سمجھ بوجھ کر ادا نہ کرنا، توجہ سے نہ پڑھنا بھی نماز سے غفلت میں  داخل ہے البتہ یہ صورتیں  اس وعید میں  داخل نہیں  جو ماقبل آیت میں  بیان ہوئی ہے ۔

{اَلَّذِیْنَ هُمْ یُرَآءُوْنَ:وہ جو دکھاوا کرتے ہیں ۔} یعنی منافقین فرائض کی ادائیگی اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نہیں  بلکہ لوگوں  کو دکھانے کے لئے کرتے ہیں ۔( مدارک، الماعون، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۳۷۷)

ریاکاری کی تعریف اور اس کی مذمت:

            ریا کاری کی تعریف یہ ہے کہ اپنے عمل کو اس ارادے سے ظاہر کرنا کہ لوگ اسے دیکھ کراس کی عبادت گزاری کی تعریف کریں  ۔( قرطبی، الماعون، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۱۵۴، الجزء العشرون)

            کثیر اَحادیث میں  ریا کاری کی مذمت بیان کی گئی ہے،یہاں  ان میں  سے دو اَحادیث ملاحظہ ہوں  ،چنانچہ

(1)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :ہم لوگ مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے کہ رسولِ کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ تشریف لائے اورارشاد فرمایا’’ میں  تمہیں  ایسی چیز کی خبر نہ دوں  جس کا مسیح دجا ل سے بھی زیادہ میرے نزدیک تم پر خوف ہے؟ہم نے عرض کی:ہاں ، یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، ارشاد فرمایا’’وہ شرکِ خفی ہے،آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو ا س وجہ سے طویل کرتا ہے کہ دوسرا شخص اسے نماز پڑھتا دیکھ رہا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الریاء والسمعۃ، ۴ / ۴۷۰، الحدیث: ۴۲۰۴)

(2)…حضرت ابوسعید بن ابو فضالہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،  رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب اللّٰہ تعالیٰ تمام اَوّلین و آخرین کو اس دن میں  جمع فرمائے گا جس میں  شک نہیں ، تو ایک مُنادی ندا کرے گا، جس نے کوئی کام اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے کیا اور اس میں  کسی کو شریک کرلیا وہ اپنے عمل کا ثواب اسی شریک سے طلب کرے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ شرک سے بالکل بے نیاز ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الکہف، ۵ / ۱۰۵، الحدیث: ۳۱۶۵)

            یاد رہے کہ اپنی نیت کو درست رکھتے ہوئے فرض عبادات کی بجا آوری اِعلانیہ کرنی چاہئے تاکہ لوگ فرض عبادات چھوڑنے کی ا س پر تہمت نہ لگائیں  اور نفلی عبادات پوشیدہ کرنی چاہئیں  کیونکہ ان میں  تہمت لگنے کا اندیشہ نہیں  ۔

107:5
الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَۙ(۵)
جو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں (ف۵)

107:6
الَّذِیْنَ هُمْ یُرَآءُوْنَۙ(۶)
وہ جو دکھاوا کرتے ہیں (ف۶)

107:7
وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۠(۷)
اور بر تنے کی چیز (ف۷) مانگے نہیں دیتے (ف۸)

{وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ: اور برتنے کی معمولی چیزیں  بھی نہیں  دیتے۔} اس سے پہلی آیات میں  خالق کے ساتھ منافقین کا معاملہ بیان کیا گیا اب یہاں  سے مخلوق کے ساتھ ان کا طرزِ عمل بیان کیا جا رہا ہے کہ اگر ان سے برتنے کی کوئی معمولی چیز جیسے سوئی،ہنڈیہ یا پیالہ وغیرہ مانگے تو بخل کرتے ہوئے اسے نہیں  دیتے ۔( جلالین، الماعون، تحت الآیۃ: ۷، ص۵۰۷)

گھروں  میں استعمال کی معمولی چیزیں  حاجت سے زیادہ رکھیں  :

             علماء فرماتے ہیں  : مستحب ہے کہ آدمی اپنے گھر میں  ایسی چیز اپنی حاجت سے زیادہ رکھے جن کی ہمسایوں  کو حاجت ہوتی ہے اور انہیں  عاریۃ ً دیا کرے۔ (خازن، الماعون، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۴۱۳)

             حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں :میں  نے عرض کی:  یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ،  کون سی چیز ہے جس کا منع کرنا حلال نہیں ؟ارشاد فرمایا ’’پانی، نمک اور آگ۔ میں  نے عرض کی:  یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، پانی کو تو ہم سمجھ گئے، مگر نمک اور آگ کا یہ حکم کیوں  ہے؟ارشاد فرمایا: اے حمیراء!  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا، جس نے کسی کو آگ دی اس نے گویا اس آگ سے پکا ہوا سارا کھانا خیرات کیا اور جس نے کسی کو نمک دیا اس نے گویا سارا وہ کھانا خیرات کیا جسے اس نمک نے لذیذ بنایا اور جس نے کسی مسلمان کو ایک گھونٹ پانی وہاں  پلایا جہاں  پانی عام ملتا ہو اس نے گویا غلام آزاد کیا اور جس نے مسلمان کو وہاں  ایک گھو نٹ پانی پلایا جہاں  پانی نہ ملتا ہو اس نے گویا اسے زندگی بخشی ۔ (ابن ماجہ، کتاب الرہون، باب المسلمون شرکاء فی ثلاث، ۳ / ۱۷۷، الحدیث: ۲۴۷۴)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْمَاعُوْن
اَلْمَاعُوْن
  00:00



Download

اَلْمَاعُوْن
اَلْمَاعُوْن
  00:00



Download