READ

Surah Al-Maa'idah

اَلْمَـآئِدَة
120 Ayaat    مدنیۃ


5:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

5:1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ-اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ(۱)
اے ایمان والو! اپنے قول پورے کرو (ف۲) تمہارے لئے حلال ہوئے بے زبان مویشی مگر وہ جو آگے سنایا جائے گا تم کو (ف۳) لیکن شکار حلال نہ سمجھو جب تم احرام میں ہو (ف۴) بیشک اللہ حکم فرماتا ہے جو چاہے،

{اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ: تمام عہد پورے کرو۔} عُقود کا معنیٰ عہد ہیں ، انہیں پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے مراد کون سے عہد ہیں اس بارے میں مفسرین کے چند اقوال ہیں :

(1)… امام ابن جریج رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ یہاں اہلِ کتاب کو خطاب فرمایا گیا ہے اور معنیٰ یہ ہیں کہ اے اہلِ کتاب کے مومنو! میں نے گزشتہ کتابوں میں سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنے کے متعلق جو تم سے عہد لئے ہیں وہ پورے کرو۔

(2)… بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں خطاب مؤمنین کو ہے، انہیں اپنے عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

(3)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ان عقود یعنی عہدوں سے مراد ایمان اور وہ عہد ہیں جو حرام و حلال کے متعلق قرآنِ پاک میں لئے گئے۔

(4)…بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس میں مؤمنین کے باہمی معاہدے مراد ہیں۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۴۵۸)

{اُحِلَّتْ لَكُمْ: تمہارے لئے حلال کردئیے گئے۔} یہاں سے حلال جانوروں کابیان کیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا کہ جن کی حرمت شریعت میں بیان ہوئی ہے ان کے سوا تمام چوپائے تمہارے لئے حلال کئے گئے۔ اس میں ان کفار کا رد ہے جو بتوں کے نام پر چھوڑے ہوئے جا نور بَحِیرہ، سائبہ وغیر ہ کو حرام سمجھتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حرام صرف وہ ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حرام فرما دیں۔ حلال کے لئے خا ص دلیل کی ضرورت نہیں ، کسی چیز کا حرام نہ ہو نا ہی حلا ل کی دلیل ہے جس طرح اس آیت میں واضح طور پر فرما دیا گیا۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو مسلمانوں کے پاکیزہ کھانوں کو حیلے بہانوں سے حرام بلکہ شرک قرار دیتے رہتے ہیں۔

{وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ: اور تم حالت ِ احرام میں ہو۔} احرام کی حالت میں خشکی کا شکار کر نا حرام ہے جبکہ دریا ئی شکار جائز ہے۔(بدائع الصنائع، کتاب الحج، فصل واما بیان انواعہ، ۲ / ۴۲۷)

خیال رہے کہ مُحْرِمْ (یعنی احرام والے) کا شکار کیا ہو ا نہ مُحْرِمْ کو حلال ہے نہ غیر کو، احرام خواہ حج کا ہو یا عمرہ کا۔ اس سورۃ کے آخر میں بھی مُحْرِمْ کے شکار کے مسائل کا بیان آئے گا۔

5:2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىٕرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآىٕدَ وَ لَاۤ ﰰ مِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًاؕ-وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْاؕ-وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْاۘ-وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۲)
اے ایمان والو! حلال نہ ٹھہرالو اللہ کے نشان (ف۵) اور نہ ادب والے مہینے (ف۶) اور نہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں اور نہ (ف۷) جن کے گلے میں علامتیں آویزاں (ف۸) اور نہ ان کا مال و آبرو جو عزت والے گھر کا قصد کرکے آئیں (ف۹) اپنے رب کا فضل اوراس کی خوشی چاہتے اور جب احرام سے نکلو تو شکار کرسکتے ہو (ف۱۰) اور تمہیں کسی قوم کی عداوت کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا، زیادتی کرنے پر نہ ابھارے (ف۱۱) اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو (ف۱۲) اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے،

{لَا تُحِلُّوْا شَعَآىٕرَ اللّٰهِ:اللہ کی نشانیاں حلال نہ ٹھہرالو۔} اس آیت میں دین کی نشانیوں کی قدر کرنے کا حکم فرمایا ہے اور معنیٰ یہ ہیں کہ جو چیزیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرض کیں اور جو منع فرمائیں سب کی حرمت کا لحاظ رکھو۔ نیز جو چیزیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیاں قرار پاجائیں ان کا احترام کرنا بہت ضروری ہے لہٰذا دینی عظمت والی چیزوں کا احترام کیا جائے گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشادفرماتا ہے:

وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ (الحج:۳۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جواللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔

اس شَعَآىٕرَ اللّٰه یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیوں میں خا نہ کعبہ، قرآنِ پاک، مساجد، اذان، بزر گوں کے مزارات وغیرہ سب ہی داخل ہیں بلکہ جس چیز کو اللہ عَزَّوَجَلَّکے مقبول بند وں سے نسبت ہو جائے وہ بھی شَعَآىٕرَ اللّٰه بن جا تی ہے جیسے حضرت ہا جرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکے قدم صفا و مروہ پہاڑوں پر پڑے تو وہ پہاڑ شَعَآىٕرَ اللّٰه بن گئے اور ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ نے فرما دیا:

اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ (البقرہ:۱۵۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں سے ہیں۔

{وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ: اور نہ حرمت والے مہینوں کو۔} فرمایا گیا کہ حرمت والے مہینوں کو حلال نہ ٹھہرالو۔ محترم مہینے چار ہیں ، رجب، ذیقعد، ذوالحجہ اور محرم۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی کفا ر ان کا ادب کر تے تھے اور اسلا م نے بھی ان کا احترام باقی رکھا۔ یاد رہے کہ اولاً اسلام میں ان مہینو ں میں جنگ حرام تھی، اب ہر وقت جہاد ہوسکتا ہے، لیکن ان کا احترام بدستور باقی ہے۔ اس کی تفصیل سورۂ توبہ ، آیت نمبر 36میں آئے گی۔

{وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآىٕدَ: اور نہ حرم کی قربانیاں اور نہ علامتی پٹے والی قربانیاں۔} عرب کے لوگ قربانیوں کے گلے میں حرم شریف کے درختوں کی چھال وغیرہ سے ہار بُن کر ڈالتے تھے تاکہ دیکھنے والے جان لیں کہ یہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں ہیں اور ان سے چھیڑ خوانی نہ کریں۔ حرم شریف کی اُن قربانیوں کے احترام کا حکم دیا گیا ہے۔

{وَ لَاۤ ﰰ مِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ:اور نہ ادب والے گھر کا قصد کرکے آنے والوں (کے مال و عزت) کو۔} ادب والے گھر کا قصد کرکے آنے والوں سے مراد حج و عمرہ کرنے کے لئے آنے والے ہیں۔ آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ شُریح بن ہند ایک مشہور بدبخت تھا وہ مدینہ طیبہ میں آیا اور سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مخلوقِ خدا کو کیا دعوت دیتے ہیں ؟ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا، اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے اور اپنی رسالت کی تصدیق کرنے اور نماز قائم رکھنے اور زکوٰۃ دینے کی دعوت دیتا ہوں۔ وہ کہنے لگا، بہت اچھی دعوت ہے، میں اپنے سرداروں سے رائے لے لوں تو میں بھی اسلام لاؤں گا اور انہیں بھی لاؤں گا۔ یہ کہہ کروہ چلا گیا۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے آنے سے پہلے ہی اپنے اصحاب کو خبر دے دی تھی کہ قبیلہ ربیعہ کا ایک شخص آنے والا ہے جو شیطانی زبان بولے گا۔ اس کے چلے جانے کے بعد حضورِ ۱قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’کافر کا چہرہ لے کر آیا اور غدار وبدعہد کی طرح پیٹھ پھیر کر گیا، یہ اسلام لانے والا نہیں۔ چنانچہ اس نے فریب کیا اور مدینہ شریف سے نکلتے ہوئے وہاں کے مویشی اور اموال لے گیا۔ اگلے سال وہ یمامہ کے حاجیوں کے ساتھ تجارت کا کثیر سامان اور حج کی قَلادَہ پوش یعنی مخصوص ہار والی قربانیاں لے کر حج کے ارادہ سے نکلا۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے اصحاب   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے ،راستے میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اسی شُریح کو دیکھا اور چاہا کہ مویشی اس سے واپس لے لیں لیکن نبی کریم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے منع فرما دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۴۵۹)

اور حکم دیا گیا کہ جو حج کے ارادے سے نکلا ہو اسے کچھ نہ کہاجائے۔

{وَ اِذَا حَلَلْتُمْ:اور جب تم احرام سے فارغ ہوجاؤ۔} احرام سے فارغ ہونے کے بعدحرم شریف سے باہر شکار کرنے کی اجازت ہے ۔ یہ حکم درحقیقت ایک اجازت ہے مگر یہ اِباحت (جائز ہونا) ایسی قطعی ہے کہ اس کا منکر کافر ہے ۔

{وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ: اور تمہیں برانگیختہ نہ کرے۔} مراد یہ ہے کہ اہلِ مکہ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو حدیبیہ کے دن عمرہ کرنے سے روکا لیکن تم ان کے اس معاندانہ فعل کا انتقام نہ لو۔ البتہ یہ یاد رہے کہ اب کافر کومسجد ِ حرام سے روکا جائے گا کیونکہ بعد میں ممانعت کا حکم نازل ہوگیا تھا، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ(التوبہ:۲۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: مشرک نرے ناپاک ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں۔

{وَ تَعَاوَنُوْا: اورایک دوسرے کی مدد کرو۔} اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے (1)نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔ (2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔ بِرسے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اِثْم سے مراد گناہ ہے اور عُدْوَانسے مراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا۔ (جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۹۴)

ایک قول یہ ہے کہ اِثْم سے مراد کفر ہے اور عُدْوَان سے مراد ظلم یا بدعت ہے۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۴۶۱)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں نیکی سے مراد سنت کی پیروی کرنا ہے۔(صاوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۴۶۹)

حضرت نواس بن سمعان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: نیکی حسنِ اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند ہو۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی البرّ والاثم، ۴ / ۱۷۳، الحدیث: ۲۳۹۶)

نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ کے کاموں میں مدد نہ کرنے کا حکم:

یہ انتہائی جامع آیتِ مبارکہ ہے، نیکی اور تقویٰ میں ان کی تمام اَنواع واَقسام داخل ہیں اور اِثْم اور عُدْوَان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ اور زیادتی کے زُمرے میں آتی ہو۔ علمِ دین کی اشاعت میں وقت ،مال ، درس و تدریس اور تحریر وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا، دینِ اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے باہمی تعاون کرنا، اپنی اور دوسروں کی عملی حالت سدھارنے میں کوشش کرنا ،نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا، ملک و ملت کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، سوشل ورک اور سماجی خدمات سب اس میں داخل ہے۔ گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے ۔ کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔ سُبْحَانَ اللہ! قرآنِ پاک کی تعلیمات کتنی عمدہ اور اعلیٰ ہیں ، اس کا ہر حکم دل کی گہرائیوں میں اترنے والا، اس کی ہر آیت گمراہوں اور گمراہ گروں کے لئے روشنی کا ایک مینار ہے۔ اس کی تعلیمات سے صحیح فائدہ اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ان پر عمل بھی کیا جائے۔ افسوس، فی زمانہ مسلمانوں کی ایک تعداد عملی طور پر قرآنی تعلیمات سے بہت دور جا چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ سبھی مسلمانوں کو قرآن کے احکامات پرعمل کی توفیق عطا فرمائے۔

5:3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ- وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِؕ-ذٰلِكُمْ فِسْقٌؕ-اَلْیَوْمَ یَىٕسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِؕ-اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ-فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍۙ-فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳)
تم پر حرام ہے (ف۱۳) مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا اور جو گلا گھونٹنے سے مرے اور بے دھار کی چیز سے مارا ہوا اور جو گر کر مرا اور جسے کسی جانور نے سینگ مارا اور جسے کوئی درندہ کھا گیا مگر جنہیں تم ذبح کرلو، اور جو کسی تھان پر ذبح کیا گیا اور پانسے ڈال کر بانٹا کرنا یہ گناہ کا کا م ہے، آج تمہارے دین کی طرف سے کافروں کی آس نوٹ گئی (ف۱۴) تو اُن سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا (ف۱۵) اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی (ف۱۶) اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا (ف۱۷) تو جو بھوک پیاس کی شدت میں ناچار ہو یوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے (ف۱۸) تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

{حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ: تم پر حرام کردیا گیا ہے۔} سورت کی پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ تم پر چوپائے حلال ہیں سوائے ان چوپایوں کے جو آگے بیان کئے جائیں گے۔ یہاں انہیں کا بیان ہے اور گیارہ چیزوں کے حرام ہونے کا ذکر کیا گیا ہے:

(1)… مردار یعنی جس جانور کے لیے شریعت میں ذبح کا حکم ہو اور وہ بے ذبح مرجائے ۔

(2)…بہنے والا خون۔

(3)… سور کا گوشت اور اس کے تمام اجزاء۔

(4)…وہ جانور جس کے ذبح کے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو جیسا کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ بتوں کے نا م پر ذبح کرتے تھے اور جس جانور کو ذبح تو صرف اللہ عَزَّوَجَلَّکے نام پر کیا گیا ہو مگر دوسرے اوقات میں وہ غیرِ خدا کی طرف منسوب رہا ہو وہ حرام نہیں جیسا کہ عبداللہ  کی گائے، عقیقے کا بکرا ،ولیمہ کا جانور یا وہ جانور جن سے اولیاء کی ارواح کو ثواب پہنچانا منظور ہو اُن کو ذبح کے وقت کے علاوہ اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْکے ناموں کے ساتھ نامزد کیا جائے مگر ذبح اُن کا فقط اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر ہو، اس وقت کسی دوسرے کا نام نہ لیا جائے وہ حلال و طیّب ہیں۔اس آیت میں صرف اسی کو حرام فرمایا گیا ہے جس کو ذبح کرتے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو ،جو لوگ ذبح کی قید نہیں لگاتے وہ آیت کے معنیٰ میں غلطی کرتے ہیں اور ان کا قول تمام معتبرتفاسیراور خود مفہومِ قرآن کے خلاف ہے۔

(5)… گلا گھونٹ کر مارا ہو ا جانور۔

(6)…وہ جانور جو لاٹھی پتھر ،ڈھیلے، گولی چھرے یعنی بغیر دھار دار چیز سے مارا گیا ہو۔

(7)…جو گر کر مرا ہو خواہ پہاڑ سے یا کنوئیں وغیرہ میں۔

(8)…وہ جانور جسے دوسرے جانور نے سینگ مارا ہو اور وہ اس کے صدمے سے مر گیا ہو۔

(9)…وہ جسے کسی درندہ نے تھوڑا سا کھایا ہو اور وہ اس کے زخم کی تکلیف سے مرگیا ہو لیکن اگر یہ جانور مر نہ گئے ہوں اور ایسے واقعات کے بعد زندہ بچ گئے ہوں پھر تم انہیں باقاعدہ ذبح کرلو تو وہ حلال ہیں۔

(10)…وہ جوکسی بت کے تھان پر بطورِ عبادت کے ذبح کیا گیا ہو جیسا کہ اہلِ جاہلیت نے کعبہ شریف کے گرد تین سو ساٹھ پتھر نَصب کئے تھے جن کی وہ عبادت کرتے اور ان کے لیے ذبح کرتے تھے اور اس ذبح سے اُن کی تعظیم و تقرب کی نیت کرتے تھے ۔اس صورت کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ طریقہ بطورِ خاص ان میں رائج تھا۔

(11)… کسی کام وغیرہ کا حکم معلوم کرنے کے لئے پانسہ ڈالنا ،زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کو جب سفر یا جنگ یا تجارت یا نکاح وغیرہ کام درپیش ہوتے تو وہ تین تیروں سے پانسے ڈالتے اور جو’’ہاں ‘‘یا ’’نہ‘‘ نکلتا اس کے مطابق عمل کرتے اور اس کو حکمِ الٰہی جانتے ۔ان سب کی ممانعت فرمائی گئی۔

{اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ:آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین مکمل کردیا۔} تکمیلِ دین سے متعلق یہ آیتِ مبارکہ حجۃ الوداع میں عرفہ کے روز، جمعہ کے دن ،عصر کے بعد نازل ہوئی اور بتادیا گیا کہ حرام و حلال کے جو احکام ہیں وہ اور قِیاس کے قانون سب مکمل کردیئے ،اسی لئے اس آیت کے نزول کے بعد بیانِ حلال و حرام کی کوئی آیت نازل نہ ہوئی اگرچہ ’’وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ‘‘ نازل ہوئی جووعظ و نصیحت پر مشتمل ہے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ دین کامل کرنے کے معنی اسلام کو غالب کرنا ہے جس کا یہ اثر ہے کہ حجۃ الوداع میں جب یہ آیت نازل ہوئی تو کوئی مشرک مسلمانوں کے ساتھ حج میں شریک نہ ہوسکا ۔ایک قول یہ ہے کہ آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ میں نے تمہیں دشمن سے امن دی، ایک قول یہ ہے کہ دین کا اِکمال یعنی مکمل کرنایہ ہے کہ وہ پچھلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہوگا اور قیامت تک باقی رہے گا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۴۶۴)

دینی کامیابی کے دن خوشی منانا جائز ہے

            اس آیت کے متعلق بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا، اے امیرالمومنین ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے ،اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نازل ہونے کے دن عید مناتے ۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس سے فرمایا ’’ کون سی آیت؟ اس یہودی نے یہی آیت ’’اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ‘‘ پڑھی۔ آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے نازل ہونے کے مقام کو بھی پہچانتا ہوں ، وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۱ / ۲۸، الحدیث: ۴۵، مسلم، کتاب التفسیر، ص۱۶۰۹، الحدیث: ۵(۳۰۱۷))

            آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے۔ نیز ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں ، جمعہ اور عرفہ۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۳، الحدیث: ۳۰۵۵)

            اس سے معلوم ہوا کہ کسی دینی کامیابی کے دن کو خوشی کا دن منانا جائز اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ثابت ہے ورنہ حضرت عمر اور عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمصاف فرما دیتے کہ جس دن کوئی خوشی کا واقعہ ہو اس کی یادگار قائم کرنا اور اس روز کو عید منانا ہم بدعت جانتے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ عید میلاد منانا جائز ہے کیونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سب سے عظیم نعمت کی یادگار و شکر گزاری ہے۔

{وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ: اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔} مراد یہ ہے کہ مکہ مکرمہ فتح فرما کر میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔ مکہ مکرمہ کی فتح اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظیم نعمت تھی۔

{وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا:اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔} یعنی میں نے تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کرلیا کہ اس کے سوا کوئی اور دین قبول نہیں۔

آیت ’’وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا‘‘سے معلوم ہونے والے احکام:

            اس آیت سے کئی احکام معلوم ہوئے:

          پہلا یہ کہ صرف اسلام اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پسند ہے یعنی جو اَب دین محمدی کی صورت میں ہے، باقی سب دین اب ناقابلِ قبول ہیں۔

          دوسرا یہ کہ اس آیت کے نزول کے بعد قیامت تک اسلام کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہو سکتا۔

          تیسرا یہ کہ اصولِ دین میں زیادتی کمی نہیں ہو سکتی۔ اجتہادی فروعی مسئلے ہمیشہ نکلتے رہیں گے۔

          چوتھا یہ کہ سیدُالمرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا کیونکہ دین کامل ہو چکا، سورج نکل آنے پر چراغ کی ضرورت نہیں ، لہٰذا قادیانی جھوٹے ،بے دین اور خدا عَزَّوَجَلَّکے کلام اور دین کو ناقص سمجھنے والے ہیں۔

          پانچواں یہ کہ اسلام کو چھوڑ کر کوئی لاکھوں نیکیاں کرے خدا عَزَّوَجَلَّکو پیارا نہیں کیونکہ اسلام جڑ ہے اور اعمال شاخیں اور پتے اور جڑ کٹ جانے کے بعد شاخوں اور پتوں کو پانی دینا بے کار ہے۔

{فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ: تو جو بھوک پیاس کی شدت میں مجبور ہو۔} اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اوپر حرام چیزوں کا بیان کردیا گیا ہے لیکن جب کھانے پینے کو کوئی حلال چیز مُیَسَّر ہی نہ آئے اور بھوک پیاس کی شدت سے جان پر بن جائے اس وقت جان بچانے کے لئے بقدرِ ضرورت کھانے پینے کی اجازت ہے اس طرح کہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو یعنی ضرورت سے زیادہ نہ کھائے اور ضرورت اسی قدر کھانے سے رفع ہوجاتی ہے جس سے خطرۂ جان جاتا رہے۔

5:4
یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْؕ-قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُۙ-وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِ حِ مُكَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ٘-فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ وَ اذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهِ۪-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(۴)
اے محبوب! تم سے پوچھتے ہیں کہ اُن کے لئے کیا حلال ہوا تم فرمادو کہ حلال کی گئیں تمہارے لئے پاک چیزیں (ف۱۹) اور جو شکاری جانور تم نے سدھالیے (ف۲۰) انہیں شکار پر دوڑاتے جو علم تمہیں خدا نے دیا اس سے انہیں سکھاتے تو کھاؤ اس میں سے جو وہ مار کر تمہارے لیے رہنے دیں (ف۲۱) اور اس پر اللہ کا نام لو (ف۲۲) اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کو حساب کرتے دیر نہیں لگتی،

{مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْ:ان کے لئے کیاحلال ہوا؟} یہ آیت حضرت عدی بن حاتم اور حضرت زید بن مہلہل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں نازل ہوئی جن کا نام سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ’’زَیْدُ الْخَیرْ‘‘ رکھا تھا۔ ان دونوں صاحبوں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم لوگ کتے اور باز کے ذریعے سے شکار کرتے ہیں تو کیا ہمارے لئے حلال ہے ؟ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔ (بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ:۴،۲ / ۸)

            آیت میں ’’طَیِّبٰتُ‘کو حلال فرمایا گیا ہے اور’’طَیِّبٰتُ‘‘ وہ چیزیں ہیں جن کی حرمت قرآن و حدیث اور اِجماع و قِیاس میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ طَیِّبٰتُ  وہ چیزیں ہیں جن کو سلیم الطبع لوگ پسند کرتے ہیں اور خبیث وہ چیزیں ہیں جن سے سلیم طبیعتیں نفرت کرتی ہیں۔(بیضاوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۲۹۵)

            اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کی حرمت پر دلیل نہ ہونا بھی اس کی حلت کے لئے کافی ہے۔

{اَلْجَوَارِحِ: شکاری جانور۔} شکاری جانوروں سے کیا ہوا شکار بھی حلال ہے خواہ وہ شکاری جانور درندوں میں سے ہوں جیسے کتے اور چیتے کے شکار یا شکاری جانور کا تعلق پرندوں سے ہو جیسے شکرے، باز، شاہین وغیرہ کے شکار ۔جب اس طرح سدھا کر ان کی تربیت کردی جائے کہ وہ جو شکار کریں اس میں سے نہ کھائیں اور جب شکاری ان کو چھوڑے تب شکار پر جائیں اور جب بلائے واپس آجائیں ایسے شکاری جانوروں کو معلَّم (یعنی سکھایا ہوا) کہتے ہیں۔

 {مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ: جو وہ شکار کرکے تمہارے لئے روک دیں۔} یعنی تمہارے سدھائے ہوئے شکاری کتے یا جانور جب شکار کرکے لائیں اور اُس میں سے خود کچھ نہ کھائیں تو اگرچہ جانور مر گیا ہو،تب بھی حلال ہے اور اگر کتے نے کچھ کھا لیا ہو تو حرام ہے کہ یہ اس نے اپنے لئے شکار کیا، تمہارے لئے نہیں۔

          آیت کا خلاصہ: آیت سے جو معلوم ہوتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص نے کتا یا شکرہ وغیرہ کوئی شکاری جانور شکار پر چھوڑا تو اس کا شکار چند شرطوں سے حلال ہے۔

(1)… شکاری جانور مسلمان یا کتابی کا ہو اور سکھایا ہوا ہو ۔

(2)… اس نے شکار کو زخم لگاکر مارا ہو۔

(3)…شکاری جانور بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ  کہہ کر چھوڑا گیا ہو۔

(4)… اگر شکاری کے پاس شکار زندہ پہنچا ہو تو اس کوبِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ کہہ کر ذبح کرے اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط نہ پائی گئی تو حلال نہ ہوگا۔ مثلاً اگر شکاری جانور مُعَلَّم (یعنی سکھایا ہوا) نہ ہو یا اس نے زخم نہ کیا ہو یا شکار پر چھوڑتے وقت جان بوجھ کر بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ نہ پڑھا ہو یا شکار زندہ پہنچا ہو اور اس کو ذبح نہ کیا ہو یا مُعَلَّم( یعنی سکھائے ہوئے جانور) کے ساتھ غیر مُعَلَّم( یعنی نہ سکھایا ہوا جانور) شکار میں شریک ہوگیا ہو یا ایسا شکاری جانور شریک ہوگیا ہو جس کو چھوڑتے وقت بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ نہ پڑھا گیا ہو یا وہ شکاری جانور مجوسی کافر کا ہو، ان سب صورتوں میں وہ شکار حرام ہے۔

 شکار کے دوسرے طریقے کا شرعی حکم:

           تیرسے شکار کرنے کا بھی یہی حکم ہے اگر بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْ کہہ کر تیر مارا اور اس سے شکار مجروح (یعنی زخمی) ہو کر مر گیا تو حلال ہے اور اگر نہ مرا تو دوبارہ اس کو بِسْمِ اللہِ اللہُ اَکْبَرْپڑھ کر ذبح کرے اگر اس پر بِسْمِ اللہْ نہ پڑھی یا تیر کا زخم اس کو نہ لگایا زندہ پانے کے بعد اس کو ذبح نہ کیا ان سب صورتوں میں حرام ہے۔

          نوٹ: شکار کے مسائل کی مزید تفصیل کیلئے بہار شریعت حصہ 17کا مطالعہ فرمائیں۔

5:5
اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُؕ-وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ۪-وَ طَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ٘-وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَ لَا مُتَّخِذِیْۤ اَخْدَانٍؕ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ٘-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۠(۵)
آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال ہوئیں، اور کتابیوں کا کھانا (ف۲۳) تمہارے لیے حلال ہوا، اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے، اور پارسا عورتیں مسلمان (ف۲۴) اور پارسا عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی جب تم انہیں ان کے مہر دو قید میں لاتے ہوئے (ف۲۵) نہ مستی نکالتے اور نہ ناآشنا بناتے (ف۲۶) اور جو مسلمان سے کافر ہو اس کا کیا دھرا سب اکارت گیا اور وہ آخرت میں زیاں کار ہے(ف۲۷)

{اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُ: آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئیں۔} اہلِ کتاب کا ذبح کیا ہوا جانور بھی مسلمانوں کیلئے حلال ہے خواہ یہودی ذبح کرے یا عیسائی، یونہی مرد ذبح کرے یا عورت یا سمجھدار بچہ۔ لیکن یہ یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کہ اُن اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلال ہے جو واقعی اہلِ کتاب ہوں ، موجودہ زمانے میں عیسائیوں کی بہت بڑی تعداد دہریہ اور خدا کے منکر ہو چکے ہیں لہٰذا نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے اور نہ عورتیں۔

 اہلِ کتاب سے نکاح کے چند اہم مسائل:

(1)…اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح حلال ہے لیکن اس میں بھی یہ شرط ہے کہ وہ واقعی اہلِ کتاب ہوں ،دہریہ نہ ہوں جیسے آج کل بہت سے ایسے بھی ہیں۔

(2)…یہ اجازت بھی دارُالاسلام میں رہنے والی ذِمِّیَہ اہلِ کتاب عورت کے ساتھ ہے۔ موجودہ زمانے میں جو اہلِ کتاب ہیں یہ حربی ہیں اور حربیہ اہلِ کتاب کے ساتھ نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔

(3)…ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ اجازت صرف مسلمان مردوں کو ہے مسلمان عورت کا نکاح کتابی مرد سے قطعی حرام ہے۔

(4)… اہلِ کتاب عورتوں میں سے اچھے کردار والی سے نکاح کیا جائے یہ حکم مستحب ہے۔

(5)…اہلِ کتاب عورت سے ازدواجی تعلقات نکاح کے ذریعے ہی قائم کئے جائیں ، پوشیدہ دوستیاں لگانایا پوشیدہ یا اعلانیہ بدکاری کرنا ان کے ساتھ بھی حرام ہے۔

(6)…اہلِ کتاب عورت کو بھی مہر دیا جائے گا۔

{غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ: نہ کہ مستی نکالتے ہوئے۔} ناجائز طریقہ پرمستی نکالنے سے بے دھڑک زنا کرنا اور آشنا بنانے سے پوشیدہ زنا مراد ہے۔

{وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِالْاِیْمَانِ: اور جو ایمان سے پھرکر کافر ہوجائے۔} آیتِ مبارکہ کے آخر میں مُرتَد کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے تمام نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں۔ آخرت میں اس کیلئے کوئی اجر وثواب باقی نہیں رہتا۔

 

5:6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِؕ-وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْاؕ-وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآىٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُؕ-مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۶)
اے ایمان والو جب نماز کو کھڑے ہونا چاہو (ف۲۸) تو اپنا منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ (ف۲۹) اور سروں کا مسح کرو (ف۳۰) اور گٹوں تک پاؤ ں دھوؤ (ف۳۱) اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو خوب ستھرے ہولو (ف۳۲) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا یا تم نے عورتوں سے صحبت کی اور ان صورتوں میں پانی نہ پایا مٹی سے تیمم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو، اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی رکھے ہاں یہ چاہتا ہے کہ تمہیں خوب ستھرا کردے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردے کہ کہیں تم احسان مانو،

{اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ: جب نماز کی طرف کھڑے ہونے لگو۔} آیتِ مبارکہ میں وضو اور تیمم کا طریقہ اور ان کی حاجت کب ہوتی ہے اس کا بیان کیا گیا ہے۔

وضو کے فرائض :

            وضو کے چار فرض ہیں : (1) چہرہ دھونا۔ (2) کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کا دھونا۔ (3)چوتھائی سر کا مسح کرنا۔ (4) ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھونا۔

 وضو کے چند احکام:

(1)… جتنا دھونے کا حکم ہے اس سے کچھ زیادہ دھو لینا مستحب ہے کہ جہاں تک اَعضائے وضو کو دھویا جائے گا قیامت کے دن وہاں تک اعضاء روشن ہوں گے۔(بخاری، کتاب الوضو ء، باب فضل الوضوء والغرّ المحجّلون۔۔۔ الخ، ۱ / ۷۱، الحدیث: ۱۳۶)

(2)… رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمہر نماز کے لئے تازہ وضو فرمایا کرتے جبکہ اکثر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جب تک وضو ٹوٹ نہ جاتا اسی وضو سے ایک سے زیادہ نمازیں ادا فرماتے، ایک وضو سے زیادہ نمازیں ادا کرنے کا عمل تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے بھی ثابت ہے۔(بخاری، کتاب الوضو ء، باب الوضوء من غیر حدث، ۱ / ۹۵، الحدیث: ۲۱۴-۲۱۵، عمدۃ القاری، کتاب الوضو ء، باب الوضوء من غیر حدث، ۲ / ۵۹۰، تحت الحدیث: ۲۱۴)

(3)…اگرچہ ایک وضو سے بھی بہت سی نمازیں فرائض و نوافل درست ہیں مگر ہر نماز کے لئے جداگانہ وضو کرنا زیادہ برکت و ثواب کا ذریعہ ہے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ ابتدائے اسلام میں ہر نماز کے لئے جداگانہ وضو فرض تھا بعد میں منسوخ کیا گیا(اور جب تک بے وضو کرنے والی کوئی چیز واقع نہ ہو ایک ہی وضو سے فرائض و نوافل سب کا ادا کرنا جائز ہوگیا۔)(مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶، ص۲۷۴)

(4)…یاد رہے کہ جہاں دھونے کا حکم ہے وہاں دھونا ہی ضروری ہے وہاں مسح نہیں کرسکتے جیسے پاؤں کو دھونا ہی ضروری ہے مسح کرنے کی اجازت نہیں ، ہاں اگر موزے پہنے ہوں تو اس کی شرائط پائے جانے کی صورت میں موزوں پر مسح کرسکتے ہیں کہ یہ احادیث ِ مشہورہ سے ثابت ہے۔

{وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا:اوراگر تم حالت ِ جنابت میں ہو۔} جنابت کاعام فہم مطلب یہ ہے کہ شہوت کے ساتھ منی کا خارج ہونا۔

جنابت کے اسباب اور ان کا شرعی حکم:

            جنابت کے کئی اسباب ہیں : (1) جاگتے میں شہوت کے ساتھ اچھل کر منی کاخارج ہونا۔ (2) سوتے میں احتلام ہو جانا۔ (3) ہم بستری کرنا اگرچہ منی خارج نہ ہو۔ اس کاحکم یہ ہے کہ غسل کئے بغیر نماز پڑھنا، تلاوتِ قرآن کرنا، قرآنِ پاک کو چھونا اور مسجد میں داخل ہونا ناجائز ہے۔ جو کام جنابت کی حالت میں منع ہیں حَیض و نِفاس کی حالت میں بھی منع ہوں گے لیکن جب تک عورت حائضہ یا نفاس کی حالت میں ہے غسل کرنے سے پاک نہ ہو گی جبکہ جُنُبی غسل کرنے سے پاک ہو جاتا ہے، اسی طرح حیض و نفاس کی حالت میں بیوی سے صحبت کرنا بھی منع ہے جبکہ جنابت کی حالت میں صحبت کرنا منع نہیں۔(احکام القرآن، سورۃ المائدۃ، باب الغسل من الجنابۃ، ۲ / ۴۵۷)

            حیض و نفاس سے بھی غسل لازم ہو جاتا ہے۔ حیض کا مسئلہ سورۂ بقرہ آیت نمبر 222میں گزر گیا اور نفاس سے غسل لازم ہونا اجماع سے ثابت ہے اور تیمم کا بیان سورۂ نساء آیت نمبر 43میں تفصیل سے گزر چکا۔ مزید تفصیل جاننے کیلئے فقہی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔ ([1])



[1] …وضو،غسل اور تیمم کے بارے میں شرعی مسائل جاننے کیلئے امیر اہلسنت دامت برکاتھم العالیہ کی تصنیف "نماز کے احکام" کا مطالعہ کرنا بھی بہت مفید ہے۔

5:7
وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مِیْثَاقَهُ الَّذِیْ وَاثَقَكُمْ بِهٖۤۙ-اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا٘-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۷)
اور یاد کرو اللہ کا احسان اپنے اوپر (ف۳۳) اور وہ عہد جو اس نے تم سے لیا (ف۳۴) جبکہ تم نے کہا ہم نے سنا اور مانا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ دلوں کی بات جانتا ہے،

{وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ: اوراپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو۔} اس آیت میں بیعتِ عقبہ یا بیعت ِرضوان کی طرف اشارہ ہے۔(مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۲۷۶)

            مجموعی طور پر آیت ِ مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اے صحابہ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کا اپنے اوپر احسان یاد کرو کہ اس نے تمہیں مسلمان بنایا اور تمہارے لئے آسان احکام بھیجے، ساری زمین کو مسجد اور پاک کرنے والا بنایا۔ نیز اس میثاق و معاہدے کو یاد کرو جو تم نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بیعت کرتے وقت بیعتِ عقبہ کی رات اور بیعتِ رضوان میں کیا۔ اس معاہدے میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کیا تھا کہ ہم تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہر حکم ہرحال میں سنیں گے اور مانیں گے۔

آیت ’’وَ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے چندمسائل معلو م ہوئے:

(1)… انسان ہر نیکی رب عَزَّوَجَلَّ کی توفیق سے کرتا ہے لہٰذااس پر فخرنہ کرے بلکہ ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرے۔

(2) …بیعتِ عقبہ اور بیعتِ رضوان والے سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے اور مقبول بندے ہیں جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُس بیعت کا شرف بخشا ۔اُسی بیعت کو یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت قرار دیا گیاہے۔

(3)… ان سارے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے ان بیعتوں کے سارے وعدے پورے کئے اور صحابہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم وعدے کے سچے تھے کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّنے یہاں ان کے وعدے بغیر تردید ذکر فرمائے۔

5:8
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ٘-وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ-اِعْدِلُوْا- هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى٘-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۸)
اے ایمان والوں اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے (ف۳۶) اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو تمہارے کامو ں کی خبر ہے،

{كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ: انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ۔} آیتِ مبارکہ میں عدل و انصاف کا حکم فرمایا گیا ہے اور واضح فرمادیا کہ کسی قسم کی قرابت یا عداوت کا کوئی اثر تمہیں عدل سے نہ ہٹا سکے۔

عدل و انصاف کے دو اعلیٰ نمونے:

            یہاں عدل و انصاف کے دو اعلیٰ نمونے پیش خدمت ہیں جس سے اسلام کی تعلیمات کا نقشہ سامنے آتا ہے۔ 

(1)…ملک غَسَّان کا بادشاہ جبلہ بن ایہم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا، کچھ دنوں بعد امیرُ المومنین حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حج کے ارادے سے نکلے تو جبلہ بن ایہم بھی اس قافلے میں شریک ہو گیا۔ مکۂ مکرمہ پہنچنے کے بعد ایک دن دورانِ طواف کسی دیہاتی مسلمان کا پاؤں اس کی چادر پر پڑ گیا تو چادر کندھے سے اتر گئی۔ جبلہ بن ایہم نے اس سے پوچھا: تو نے میری چادر پر قدم کیوں رکھا؟ اس نے کہا: میں نے جان بوجھ کر قدم نہیں رکھا غلطی سے پڑ گیا تھا۔ یہ سن کر جبلہ نے ایک زور دار تھپڑ ان کے چہرے پر رسید کر دیا، تھپڑ کی وجہ سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے اور ناک بھی زخمی ہو گئی۔ یہ دیہاتی مسلمان حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جبلہ بن ایہم کے سلوک کی شکایت کی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جبلہ بن ایہم کو طلب فرمایا اور پوچھا :کیا تو نے اس دیہاتی کو تھپڑ مارا ہے؟ جبلہ نے کہا: ہاں میں نے تھپڑ مارا ہے، اگر اس حرم کے تقدس کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے قتل کر دیتا۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: اے جبلہ ! تو نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا ہے، اب یا تو تو اس دیہاتی سے معافی مانگ یا میں تم سے اس کا قصاص لوں گا۔ جبلہ نے حیران ہو کر کہا: کیا آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس غریب دیہاتی کی وجہ سے مجھ سے قصاص لیں گے حالانکہ میں تو بادشاہ ہوں ؟ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: اسلام قبول کرنے کے بعد حقوق میں تم دونوں برابر ہو۔ جبلہ نے عرض کی : مجھے ایک دن کی مہلت دیجئے پھر مجھ سے قصاص لے لیجئے گا۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس دیہاتی سے دریافت فرمایا :کیا تم اسے مہلت دیتے ہو؟ دیہاتی نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے مہلت دے دی، مہلت ملنے کے بعد راتوں رات جبلہ بن ایہم غسانی ملک شام کی طرف بھاگ گیا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔(فتوح الشام، ذکر فتح حمص، ص۱۰۰، الجزء الاول)

(2)…ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا آپس میں کسی بات پر اختلاف ہوا، دونوں نے یہ طے کیا کہ ہمارے معاملے کا فیصلہ حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کریں۔ چنانچہ یہ فیصلے کے لئے حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر پہنچے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے فرمایا: ہم تمہارے پا س اس لئے آئے ہیں تاکہ تم ہمارے معاملے کا فیصلہ کر دو۔ حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بستر کے درمیان سے جگہ خالی کرتے ہوئے عرض کی :اے امیر المومنین! یہاں تشریف رکھئے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: یہ تمہارا پہلا ظلم ہے جو تم نے فیصلے کے لئے مقرر ہونے کے بعد کیا، میں تو اپنے فریق کے ساتھ ہی بیٹھوں گا۔ یہ فرما کر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے بیٹھ گئے۔ مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی، حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دعویٰ کیا اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کا انکار کیا (حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے گواہ پیش نہ کر سکے تو اب شرعی اصول کے مطابق حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر قسم کھانا لازم آتا تھا ) حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے (حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شخصیت اور رتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے) حضرت ابی بن کعب رَضِیَ  اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا: آپ امیر المومنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے قسم لینے سے در گزر کیجئے۔ حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فوراً حلف اٹھالیا اور قسم کھاتے ہوئے فرمایا: زید اس وقت تک منصبِ قضاء (یعنی جج بننے) کا اہل نہیں ہو سکتا جب تک کہ عمر(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) اور ایک عام شخص اس کے نزدیک (مقدمے کے معاملے میں ) برابر نہیں ہو جاتے۔ (ابن عساکر، ذکر من اسمہ زید، زید بن ثابت بن الضحاک۔۔۔ الخ، ۱۹ / ۳۱۹)

 

5:9
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۹)
ایمان والے نیکو کاروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے،

{وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور انہوں نے اچھے عمل کئے۔} اچھے اعمال سے مراد ہر وہ عمل ہے جو رضائے الہٰی کا سبب بنے۔ اس میں فرائض و واجبات، سنتیں ، مستحبات، جانی ومالی عبادتیں ، حقوق اللہ، حقوق العباد وغیرہ سب داخل ہیں۔

نیک اعمال کی ترغیب:

ترغیب کیلئے ایک حدیثِ مبارک پیش کی جاتی ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’میں ایک سفر میں رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ تھا، ایک روز چلتے چلتے میں آپ کے قریب ہو گیا اور عرض کی: یارسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جو مجھے جنت میں داخل کرے اور جہنم سے دور رکھے۔ حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ا رشاد فرمایا: تو نے مجھ سے ایک بہت بڑی بات کا سوال کیا البتہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسان فرما دے اس کے لئے آسان ہے، تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو ، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیتُ اللہ شریف کا حج کرو۔ پھر ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں نیکی کے دروازے نہ بتاؤں ؟ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو ایسے بجھا (یعنی مٹا) دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا تا ہے  اور رات کے درمیانی حصے میں انسان کا نماز پڑھنا (بھی گناہوں کو مٹا دیتا ہے) پھر یہ آیت ’’تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ‘‘ (ترجمہ: ان کی کروٹیں بستروں سے الگ رہتی ہیں ) سے لے کر’’یَعْمَلُوْنَ ‘‘ تک تلاوت فرمائی۔ پھر ارشاد فرمایاـ: میں تمہیں ساری چیزوں کاسر، ستون اور کوہان کی بلندی نہ بتادوں ؟ میں نے عرض کی :ہاں یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ارشاد فرمایا: تمام چیزوں کا سر اسلام ہے اور اس کا ستون نماز اور کوہان کی بلندی جہاد ہے۔ پھر ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ان سب کے اصل کی خبر نہ دے دوں۔ میں نے عرض کی: کیوں نہیں یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر ارشاد فرمایا: ’’ اسے روکو۔ میں نے عرض کی :اے اللہ عَزَّوَجَلَّکے پیارے نبی! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا زبانی گفتگو پر بھی ہمارا مؤاخذہ ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’تیری ماں تجھے روئے! لوگوں کو اوندھے منہ جہنم میں ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتی ( یعنی گفتگو) گراتی ہے(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی حرمۃ الصلاۃ، ۴ / ۲۸۰، الحدیث: ۲۶۲۵)۔[1]

{وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور جنہوں نے کفر کیا۔}اس آیت سے معلوم ہوا کہ دائمی جہنمی صرف کافر ہیں جبکہ مسلمان ہمیشہ کے لئے جہنم میں نہ رہیں گے۔ 


[1] ۔۔۔نیک اعمال میں رغبت اور زبان کی حفاظت کا جذبہ پانے کے لئے ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کے ساتھ وابستہ ہو جانا چاہئے۔

5:10
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ(۱۰)
اور وہ جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتیں جھٹلائیں وحی دوزخ والے ہیں(ف۳۷)

5:11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠(۱۱)
اے ایمان والو! اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب ایک قوم نے چاہا کہ تم پر دست درازی کریں تو اس نے ان کے ہاتھ تم پر سے روک دیئے (ف۳۸) اور اللہ سے ڈرو اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہئے،

{اِذْ هَمَّ قَوْمٌ: جب ایک قوم نے ارادہ کیا۔} اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک منزل میں قیام فرمایا، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جدا جدا درختوں کے سائے میں آرام کرنے لگے۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی تلوار ایک درخت پرلٹکادی ۔ایک اَعرابی موقع پا کر آیا اور چھپ کر اس نے تلوار لی اور تلوار کھینچ کر حضورِاقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہنے لگا ،آپ کومجھ سے کون بچائے گا ؟ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ‘‘۔اس اعرابی نے دو یا تین مرتبہ یہ کہا کہ آپ کو مجھ سے کون بچائے گا، ہر بار اسے یہی جواب ملا کہ ’’اللہ‘‘ پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامنے اس کے ہاتھ سے تلوار گرا دی اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے پکڑ کر فرمایا ’’اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟ اس نے عرض کی ’’مجھے کوئی نہیں بچا سکتا۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو بلوایا اور انہیں (اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے ) اس اعرابی کی حرکت کے بارے میں خبر دی، پھررحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے معاف فرما دیا۔(تفسیر کبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱،۴ / ۳۲۲)

5:12
وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَۚ-وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًاؕ-وَ قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْؕ-لَىٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْهُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ لَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ(۱۲)
اور بیشک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد کیا (ف۳۹) اور ہم نے ان میں بارہ سردار قائم کیے (ف۴۰) اور اللہ نے فرمایا بیشک میں (ف۴۱) تمہارے ساتھ ہوں ضرور اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو اور میرے سوالوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ کو قرض حسن دو (ف۴۲) بیشک میں تمہارے گناہ اتار دوں گا اور ضرور تمہیں باغوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں، پھر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے وہ ضرور سیدھی راہ سے بہکا (ف۴۳)

{وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ: اور بیشک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا۔} آیت کا مفہوم سمجھنے کے لئے یہ واقعہ سمجھ لینا مفید ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے وعدہ فرمایا تھا کہ انہیں اور ان کی قوم کو مقدس سرزمین یعنی شام کا وارث بنائے گا جس میں کنعانی جَبّار رہتے تھے۔ فرعون کے ہلاک ہونے کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حکمِ الٰہی ہوا کہ بنی اسرائیل کو اَرضِ مُقَدَّسہ (بیتُ المقدس) کی طرف لے جائیں ، میں نے اس کو تمہارے لئے رہائش بنایا ہے ،تو وہاں جاؤ اور جو دشمن وہاں ہیں اُن سے جہاد کرو، میں تمہاری مدد فرماؤں گا اور اے موسیٰ! تم اپنی قوم کے ہرہر گروہ میں سے ایک ایک سردار بناؤ، اس طرح بارہ سردار مقرر کرو جن میں سے ہر ایک اپنی قوم کے حکم ماننے اور عہد پورا کرنے کا ذمہ دار ہو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  بارہ سردار منتخب کرکے بنی اسرائیل کو لے کر روانہ ہوئے۔ جب اَرِیحاء کے قریب پہنچے تو ان نقیبوں (سرداروں ) کو دشمن کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا، وہاں انہوں نے دیکھا کہ وہ لوگ بہت عظیمُ الْجُثَّہ(عظیم جسامت والے)، نہایت قوی و توانا اور صاحب ِہیبت و شوکت ہیں ، یہ ان سے ہیبت زدہ ہو کر واپس آئے اور آکر انہوں نے اپنی قوم سے سب حال بیان کردیا حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا لیکن سب نے عہد شکنی کی سوائے دو آدمیوں کے ایک:کالب بن یوقنا اور دوسرے یوشع بن نون۔ یہ دونوں عہد پر قائم رہے۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۲۷۷)

            اس سیاق و سباق کو سامنے رکھ کر آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بنی اسرائیل سے عہد لیاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور توریت کے احکام کی پیروی کریں۔ پھر قوم جَبّارین سے جہاد کیلئے ان میں بارہ سردار بنائے گئے اور اللہ  تعالیٰ نے انہیں فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور میں تمہاری مدد کروں گا اور اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کو قرضِ حَسَن دو یعنی اس کی راہ میں خرچ کرو تو میں تم سے تمہارے گناہ معاف کردوں گا اور تمہیں جنت میں داخل کروں گا۔ آیت میں رسولوں پر ایمان لانے کے ساتھ ان کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تعظیم اہم ترین فرائض میں سے ہے۔

5:13
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِیَةًۚ-یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖۙ-وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖۚ-وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰى خَآىٕنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ(۱۳)
تو ان کی کیسی بد عہدیوں (ف۴۴) پر ہم نے انہیں لعنت کی اور ان کے دل سخت کردیئے اللہ کی باتوں کو (ف۴۵) ان کے ٹھکانوں سے بدلتے ہیں اور بُھلا بیٹھے بڑا حصہ ان نصیحتوں کا جو انہیں دی گئیں (ف۴۶) اور تم ہمیشہ ان کی ایک نہ ایک دغا پر مطلع ہوتے رہو گے (ف۴۷) سوا تھوڑوں کے (ف۴۸) تو انہیں معاف کردو اور ان سے درگزرو (ف۴۹) بیشک احسان والے ا لله کو محبوب ہیں،

{فَبِمَا نَقْضِهِمْ:تو ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے۔} بنی اسرائیل نے عہد ِالٰہی کو توڑا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد آنے والے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کیا اور تورات کے احکام کی مخالفت کی نیز ان آیات کو بدل دیا جن میں سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نعت و صفت کا بیان تھا جو توریت میں بیان کی گئیں ہیں نیز انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بہت سی ہدایات کو فراموش کردیا جو توریت میں دی گئی تھیں کہ وہ  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کریں اور ان پر ایمان لائیں تو ان حرکتوں کے نتیجے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان پر لعنت فرمائی اور ان کے دل سخت کردئیے۔

گناہوں کی وجہ سے دل سخت ہو جاتے ہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ بداعمالیوں کی وجہ سے بھی دل سخت ہوجاتے ہیں۔ حضرت یحیٰ بن مُعاذ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:آنسو دلوں کی سختی کی وجہ سے خشک ہوتے ہیں اور دلوں کی سختی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہوتی ہے اور عیب زیادہ ہونے کی وجہ سے گناہ کثیر ہوتے ہیں۔(شعب الایمان، السابع والاربعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی الطبع علی القلب او الرین، ۵ / ۴۴۶، الحدیث: ۷۲۲۱)

             اور حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’سخت دل آدمی اللہ تعالیٰ سے بہت دور رہتا ہے۔(ترمذی، کتاب الزہد،۶۲-باب منہ،۴ / ۱۸۴، الحدیث:۲۴۱۹)

            اللہ تعالیٰ ہمیں دل کی سختی سے محفوظ فرمائے۔اٰمین

{وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ: اور آپ ہمیشہ مطلع ہوتے رہیں گے۔} سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا گیا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہمیشہ ان لوگوں کی خیانتوں پر مطلع ہوتے رہیں گے کیونکہ دغابازی، خیانت ،عہد توڑنا اور رسولوں کے ساتھ بدعہدی اُن کی اور اُن کے آباء و اجداد کی قدیم عادت ہے۔ ہاں ان میں سے جو ایمان لانے والوں کی تھوڑی سی تعداد ہے یہ خائن نہیں ہیں اور ان لوگوں سے جو کچھ پہلے سرزد ہوا اس پر گرفت نہ کرو۔ (بیضاوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۲ / ۳۰۶)

            بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت اس قوم کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے پہلے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عہد کیا پھر توڑ دیا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس پر مطلع فرمایا اور یہ آیت نازل کی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱ / ۴۷۶)

             اس صورت میں معنیٰ یہ ہیں کہ اُن کی اس عہد شکنی سے درگزر کیجئے جب تک کہ وہ جنگ سے باز رہیں اور جزیہ ادا کرنے سے منع نہ کریں۔

5:14
وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰۤى اَخَذْنَا مِیْثَاقَهُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ۪-فَاَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِؕ-وَ سَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۱۴)
اور وہ جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نصاریٰ ہیں ہم نے ان سے عہد لیا (ف۵۰) تو وہ بھلا بیٹھے بڑا حصہ ان نصیحتوں کا جو انہیں دی گئیں (ف۵۱) تو ہم نے ان کے آپس میں قیامت کے دن تک بَیر اور بغض ڈال دیا (ف۵۲) اور عنقریب اللہ انہیں بتادے گا جو کچھ کرتے تھے (ف۵۳)

{وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى: اور جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔}یہودیوں کے بعد اب عیسائیوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نصاریٰ یعنی دینِ خدا کے مددگار ہیں ان سے بھی ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر ایمان لانے کاعہد لیا لیکن وہ بھی انجیل میں دی گئی نصیحتوں کا بڑا حصہ بھلا بیٹھے اور اُنہوں نے بھی عہد شکنی کی تو ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک کے لئے دشمنی اور بغض ڈال دیا چنانچہ حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ جب نصاریٰ نے کتابِ الٰہی (انجیل) پر عمل کرنا ترک کیا اور رسولوں کی نافرمانی کی، فرائض ادا نہ کئے اورحدود ِ الٰہی کی پرواہ نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان عداوت ڈال دی۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۱ / ۴۷۷)

            جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ فرقوں میں بٹ گئے اور ایک دوسرے کو تباہ کرنے لگے چنانچہ دو عالمی عظیم جنگیں اور ان کی تباہیاں انہی صاحبان کی برکت سے ہوئیں۔

5:15
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ ﱟ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)
اے کتاب والو (ف۵۴) بیشک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول (ف۵۵) تشریف لائے کہ تم پر ظاہر فرماتے ہیں بہت سی وہ چیزیں جو تم نے کتاب میں چھپا ڈالی تھیں (ف۵۶) اور بہت سی معاف فرماتے ہیں (ف۵۷) بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا (ف۵۸) اور روشن کتاب(ف۵۹)

{یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ: اے اہلِ کتاب۔}یہاں یہودیوں اور عیسائیوں سب سے خطاب ہے۔ فرمایا گیا کہ اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے ، وہ تم پر بہت سی وہ چیزیں ظاہر فرماتے ہیں جو تم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب سے چھپا ڈالی تھیں جیسے رَجَم کی آیات اورسرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف جو تم نے چھپا دئیے تھے لیکن حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بیان فرمادئیے اور یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزہ ہے۔ تمہاری چھپائی ہوئی چیزیں بیان کرنے کے ساتھ بہت سی باتیں یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمعاف فرما دیتے ہیں اور ان کا ذکر بھی نہیں کرتے اور نہ ان پر مؤاخذہ فرماتے ہیں کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسی چیز کا ذکر فرماتے ہیں جس میں مَصلحت ہو۔ یہ سب حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کا بیان ہے۔

{قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ : بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آگیا۔} اس آیت ِمبارکہ میں نور سے کیا مراد ہے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ذات والا صفات ہے۔

فقیہ ابو اللیث سمرقندی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ وَھُوَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَالْقُرْآنُ‘‘ یعنی نور سے مراد محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآن ہیں۔(سمرقندی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۱ / ۴۲۴)

امام ابو محمد حسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِلکھتے ہیں ’’یَعْنِیْ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَقِیْلَ اَلْاِسْلَامُ‘‘ یعنی نور سے مراد محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ،اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اسلام ہے۔(تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۲ / ۱۷)

            علامہ خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یَعْنِیْ مُحَمَّدًاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِنَّمَا سَمَّاہُ اللہُ نُوْرًا لِاَنَّہٗ یُھْتَدٰی بِہٖ کَمَا یُھْتَدٰی بِالنُّوْرِ فِیْ الظُّلَامِ ‘‘ یعنی نور سے مراد محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نور اس لیے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۱ / ۴۷۷)

             علامہ جلا ل الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لفظ’’نُورْ‘‘ کی تفسیر لکھتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ وَھُوَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ‘‘نور سے مراد نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں۔(جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۹۷)

            علامہ صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’وَ سُمِّیَ نُوْرًا لِاَنَّہٗ یُنَوِّرُ الْبَصَائِرَ وَ یَھْدِیْھَا لِلرَّشَادِ وَ لِاَنَّہٗ اَصْلُ کُلِّ نُوْرٍ حِسِّیٍّ وَ مَعْنَوِیٍّ‘‘یعنی حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام اس آیت میں نور رکھا گیا اس لیے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بصیرتوں کو روشن کرتے ہیں اور انہیں رُشد و ہدایت فرماتے ہیں اور اس لیے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر نور حِسّی (وہ نور جسے دیکھا جا سکے ) اور مَعْنَوِ ی (جیسے علم وہدایت )کی اصل ہیں۔(تفسیر صاوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۲ / ۴۸۶)

            امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’اَلنُّوْرُ وَالْکِتَابُ ھُوَ الْقُرْآنُ، وَھٰذَا ضَعِیْفٌ لِاَنَّ الْعَطْفَ یُوْجِبُ الْمُغَایَرَۃَ بَیْنَ الْمَعْطُوْفِ وَالْمَعْطُوْفِ عَلَیْہِ‘‘ یعنی یہ قول کہ نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن ہے یہ ضعیف ہے کیونکہ حرف عَطف مَعطوف و معطوف عَلیہ میں مُغایَرت (یعنی ایک دوسرے کاغیر ہونے ) کو مُسْتَلْزِم ہے ۔ (تفسیر کبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۳۲۷)

            علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ وَھُوَ نُوْرُ الْاَنْوَارِ وَالنَّبِیُّ الْمُخْتَارُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ‘‘ یعنی اس نور سے مراد تمام نوروں کے نور، نبی مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ذات ہے۔ (روح المعانی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۵ / ۳۶۷)

            علامہ ملا علی قاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’وَ اَیُّ مَانِعٍ مِنْ اَنْ یُجْعَلَ النَّعْتَانِ لِلرَّسُوْلِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فَاِنَّہٗ نُوْرٌعَظِیْمٌ لِکَمَالِ ظُھُوْرِہٖ بَیْنَ الْاَنْوَارِ وَ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ حَیْثُ اَنَّہٗ جَامِعٌ لِجَمِیْعِ الْاَسْرَارِ وَمُظْھِرٌ لِلْاَحْکَامِ وَالْاَحْوَالِ وَالْاَخْبَارِ‘‘ یعنی اور کون سی رکاوٹ ہے اس بات سے کہ دونوں نعتیں یعنی نور اور کتابِ مبین رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لیے ہوں بے شک حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نورِ عظیم ہیں انوارمیں ان کے کمال ظہور کی وجہ سے اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کتاب مبین ہیں اس حیثیت سے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جمیع اسرار کے جامع ہیں اور احکام و احوال و اخبار کے مُظْہِر ہیں۔(شرح شفا، القسم الاول، الباب الاول فی ثناء اللہ تعالی علیہ۔۔۔ الخ، الفصل الاول، ۱ / ۵۱)

بلکہ خود رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا نور ہونا بیان فرمایا، چنانچہ امام بخاری اور امام مسلم کے استاذ کے استاذ امام عبد الرزاق رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ  حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت کرتے ہیں ’’قَالَ سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عَنْ اَوَّلِ شَیْئٍ خَلَقَہُ اللہُ تَعَالٰی؟ فَقَالَ ھُوَ نُوْرُ نَبِیِّکَ یَا جَابِرُ خَلَقَہُ اللہُ‘‘ یعنی حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  ُفرماتے ہیں : میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس شے کو پیدا فرمایا؟ ارشاد فرمایا ’’اے جابر! وہ تیرے نبی کا نور ہے جسے اللہ  تعالیٰ نے پیدا فرمایا۔(الجزء المفقود من المصنف عبد الرزاق، کتاب الایمان، باب  فی تخلیق نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ص۶۳، الحدیث: ۱۸ )

5:16
یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۶)
اللہ اس سے ہدایت دیتا ہے اسے جو اللہ کی مرضی پر چلا سلامتی کے ساتھ اور انہیں اندھیریوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اپنے حکم سے اور انہیں سیدھی راہ دکھاتا ہے،

{یَهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ: اللہ اس کے ذریعے ہدایت دیتا ہے۔} یہاں قرآن کی شان کا بیان ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآن کے ذریعے اسے ہدایت عطا فرماتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہوجاتا ہے اور جو اپنے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کی خوشنودیمیں لگا دیتا ہے تواللہ تعالیٰ اسے کفر و شرک اور مَعاصی کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان اور اعمالِ صالحہ کے نور میں داخل فرما دیتا ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ’’بِهٖ‘‘کی ضمیر سے سرکارِ دوعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی مراد ہیں۔ اس اعتبار سے معنیٰ بنے گا کہ اللہ  تعالیٰ حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے ہدایت عطا فرماتا ہے۔ مَعنَوِی اعتبار سے یہ بات قطعاً درست ہے۔

5:17
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَؕ-قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّهْلِكَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاؕ-وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَاؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۱۷)
بیشک کافر ہوئے وہ جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح بن مریم ہی ہے (ف۶۰) تم فرما دو پھر اللہ کا کوئی کیا کرسکتا ہے اگر وہ چاہے کہ ہلاک کردے مسیح بن مریم اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو (ف۶۱) اور اللہ ہی کے لیے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی جو چاہے پیدا کرتا ہے، اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے،

{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا: بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ نجران کے عیسائیوں نے یہ بات کہی ہے اور نصرانیوں کے فرقہ یعقوبیہ وملکانیہ کا یہی مذہب ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اللہ بتاتے ہیں کیونکہ وہ حُلُول کے قائل ہیں اور ان کا اعتقاد ِباطل یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حلول کیا ہوا ہے جیسے پھول میں خوشبو اور آگ میں گرمی نے، مَعَاذَ اللہ ثُمَّ مَعَاذَاللہ ۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حکمِ کفر دیا اور اس کے بعد اُن کے مذہب کا فساد بیان فرمایا۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اُلُوہِیَّت کی تردید:

اس آیت میں حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی الوہیت کی کئی طرح تردید ہے۔

(1)… حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو موت آسکتی ہے، اور جسے موت آ سکتی ہے وہ خدا نہیں ہو سکتا۔

(2)… آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ماں کے شکم سے پیدا ہوئے، اور جس میں یہ صفات ہوں وہ اللہ نہیں ہو سکتا ۔

(3)… اللہ تعالیٰ تمام آسمانی اور زمینی چیزوں کا مالک ہے اور ہر چیز رب عَزَّوَجَلَّ کا بندہ ہے، اگرکسی میں اللہ تعالیٰ نے حلول کیا ہوتا تووہ اللہ کا بندہ نہ ہوتا حالانکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامخود ا س بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ اللہتعالیٰ کے بندے ہیں۔

(4)…اللہ تعالیٰ از خود خالق ہے، اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں اُلُوہیت ہوتی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی از خود خالق ہوتے۔

5:18
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗؕ-قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْؕ-بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَؕ-یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا٘-وَ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ(۱۸)
اور یہودی اور نصرانی بولے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں (ف۶۲) تم فرما دو پھر تمہیں کیوں تمہارے گناہوں پر عذاب فرماتا ہے (ف۶۳) بلکہ تم آدمی ہو اس کی مخلوقات سے جسے چاہے بخشتا ہے اور جسے چاہے سزا دیتا ہے، اور اللہ ہی کے لئے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین اور اس کے درمیان کی، اور اسی کی طرف پھرنا ہے،

{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى: یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس اہلِ کتاب آئے اور انہوں نے دین کے معاملہ میں آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے گفتگو شروع کی ۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُنہیں اسلام کی دعوت دی اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے اس کے عذاب کا خوف دلایا تو وہ کہنے لگے کہ اے محمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) آپ ہمیں کیا ڈراتے ہیں ہم تو اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۱ / ۴۷۸)

            یہودیوں کے قول کا مطلب یہ تھا کہ ہم خدا عَزَّوَجَلَّکو ایسے پیارے ہیں جیسے بیٹا باپ کو کیونکہ بیٹا کتنا ہی برا ہو مگر باپ کو پیارا ہوتا ہے، ایسے ہی ہم ہیں۔ یہاں بیٹے سے مراد اولاد نہیں کیونکہ وہ لوگ اپنے کو اس معنی میں خدا کا بیٹا نہ کہتے تھے۔

خود کو اعمال سے مُستَغنی جاننا عیسائیوں کا عقیدہ ہے:

             اس آیت سے معلوم ہوا کہ اپنے آپ کو اعمال سے مُستَغنی جاننا عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔ آج کل بعض اہلِ بیت سے محبت کے دعوے دار حضرات اور بعض جاہل فقیروں کا یہی عقیدہ ہے ۔ ایسا عقیدہ کفر ہے کیونکہ قرآنِ کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ اعمالِ صالحہ کا ذکر فرمایا۔

{فَلِمَ یُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْؕ:پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں پر عذاب کیوں دیتا ہے ؟} یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہم چالیس دن دوزخ میں رہیں گے یعنی بچھڑے کی پوجا کی مدت کے برابر۔ اس آیت میں فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم بیٹوں کی طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پیارے ہو تو تمہیں یہ سزا بھی کیوں ملے گی یعنی اس بات کا تمہیں بھی اقرار ہے کہ گنتی کے دن تم جہنّم میں رہو گے تو سوچو کوئی باپ اپنے بیٹے کو یا کوئی شخص اپنے پیارے کو آگ میں جلاتا ہے! جب ایسا نہیں تو تمہارے دعوے کا جھوٹا اور باطل ہونا تمہارے اقرار سے ثابت ہے۔

5:19
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّ لَا نَذِیْرٍ٘-فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۱۹)
اے کتاب والو! بیشک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول (ف۶۴) تشریف لائے کہ تم پر ہمارے احکام ظاہر فرماتے ہیں بعد اس کے کہ رسولوں کا آنا مدتوں بند رہا تھا (ف۶۵) کہ کبھی کہو کہ ہمارے پاس کوئی خوشی اور ڈر سنانے والا نہ آیا تو یہ خوشی اور ڈر سنانے والے تمہارے پاس تشریف لائے ہیں، اور اللہ کو سب قدرت ہے،

{یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ: اے اہلِ کتاب!} اس آیت میں اللہ تعالیٰ اہلِ کتاب کو اپنے عظیم ترین احسان کی طرف توجہ دلا رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے زمانہ تک پانچ سو انہتر (569) برس کی مدت کسی بھی نبی کی تشریف آوری سے خالی رہی، اس کے بعد سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری تو ایسی نعمت ہے جیسے شدید پیاس میں خوشگوار، جاں بخش ٹھنڈا پانی یا شدید گرمی ، تپش اور حَبْس میں خوشگوار بارش، تو ایسی انتہائی حاجت کے وقت تم پر اللہ  تعالیٰ کی عظیم نعمت بھیجی گئی تو تمہیں اس کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ اب تو تمہارے پاس یہ کہنے کا موقع بھی نہیں رہا کہ ہمارے پاس کوئی تَنْبِیہ کرنے والے تشریف نہیں لائے تھے۔

زمانہ فِتْرَت سے کیا مراد ہے ؟

          حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے درمیانی زمانے کا نام’’ زمانہ فترت‘‘ ہے، اس زمانہ کے لوگوں کو صرف عقیدہِ توحید کافی تھا جیسے حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے والدَین کریمَیْن۔

5:20
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ﳓ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۲۰)
اور جب موسیٰ نے کہا اپنی قوم سے اے میری قوم اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو کہ تم میں سے پیغمبر کیے اور تمہیں بادشاہ کیا (ف۶۷) اور تمہیں وہ دیا جو آج سارے جہان میں کسی کو نہ دیا (ف۶۸)

{وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ: اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیَٰ کا شکر اداکرنے کی تلقین فرمائی اور اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں کا ذکر فرمایا اور بطورِ خاص تین نعمتیں یہاں بیان فرمائیں :

(1)…بنی اسرائیل میں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے۔

(2)…بنی اسرائیل کو حکومت و سلطنت سے نوازا گیا۔ بنی اسرائیل آزاد ہوئے اور فرعونیوں کے ہاتھوں میں قید ہونے کے بعد اُن کی غلامی سے نجات پائی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مُلُوک یعنی بادشاہ سے مراد ہے خادموں اور سواریوں کا مالک ہونا۔ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں جو کوئی خادم اور عورت اور سواری رکھتا وہ مَلِک کہلایا جاتا ہے۔(در منثور، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲۰،۳ / ۴۶)

(3)…بنی اسرائیل کو وہ نعمتیں ملیں جو کسی دوسری قوم کو نہ ملیں جیسے من و سلویٰ اترنا، دریا کا پھٹ جانا، پانی سے چشموں کا جاری ہوجانا وغیرہا۔

میلاد منانے کا ثبوت:

          اس آیت میں بیان کی گئی پہلی نعمت سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کی تشریف آوری نعمت ہے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو اس کے ذکر کرنے کا حکم دیا کہ وہ بَرَکات و ثمرات کا سبب ہے۔ اس سے  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکامیلاد مبارک منانے اور اس کا ذکر کرنے کی واضح طور پر دلیل ملتی ہے کہ جب انبیاءِ بنی اسرائیل  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تشریف آوری نعمت ہے اور اسے یاد کرنے کا حکم ہے تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری تو اس سے بڑھ کر نعمت ہے کہ اسے تو اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:

لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا(آل عمران :۱۶۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا جب ان میں عظیم رسول مبعوث فرمایا۔

            لہٰذا اسے یاد کرنے کا حکم بدرجہ اولیٰ ہوگا۔

اِقتِدار ملنے پر اللہ  تعالیٰ کا شکر اد اکرنے کا بہترین طریقہ:

            اس آیت میں بیان کی گئی دوسری نعمت سے معلوم ہوا کہ حکومت و سلطنت اور اقتدار بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کے شکر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حکومت و سلطنت اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چلائی جائے، غریبوں کی مدد کی جائے، لوگوں کے حقوق ادا کئے جائیں ، ظلم کا خاتمہ کیا جائے اور ملک کے باشندوں کو امن وسکون کی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔

حکمرانوں کے لئے نصیحت آموز4 اَحادیث:

            یہاں حکمرانی کرنے والوں کے لئے نصیحت آموز 4احادیث ملاحظہ ہوں۔

(1)…حضرت معقل بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا حکمران بنایا ہو اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا۔(بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح، ۴ / ۴۵۶، الحدیث: ۷۱۵۰)

(2)…حضرت معقل بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی مروی ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ مسلمانوں کو جس والی کی رعایا بنایا جائے، پھر وہ والی ایسی حالت میں مرے کہ اس نے مسلمانوں کے حقوق غصب کئے ہوں تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرما دیتا ہے۔(بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح، ۴ / ۴۵۶، الحدیث: ۷۱۵۱)

(3)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا ’’اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ،میری امت کا جو شخص بھی کسی پر والی اور حاکم ہو اور وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ ان پر نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل وعقوبۃ الجائر۔۔۔ الخ، ص۱۰۱۶، الحدیث: ۱۹(۱۸۲۸))

(4)…حضرت ابومریم ازدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جسے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے کسی کام کا والی بنائے اور وہ ان کی حاجت مندی، بے کسی اور غریبی میں ان سے کنارہ کشی کرے تواللہ تعالیٰ اس کی حاجت مندی، بے کسی اور غریبی میں اسے چھوڑ دے گا۔ (ابو داؤد، کتاب الخراج والفیء والامارۃ، باب فیما یلزم الامام من امر الرعیّۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۸۸، الحدیث: ۲۹۴۸)

اقتدار کے بوجھ سے اَشکْبار:

            حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہ محترمہ فرماتی ہیں ’’جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مرتبۂ خلافت پر فائز ہوئے تو گھر آ کر مصلے پر بیٹھ کر رونے لگے اور اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی ۔ یہ دیکھ کر میں نے عرض کی: اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’میری گردن پر تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت کابوجھ ڈال دیاگیا ہے اور جب میں نے بھوکے فقیروں ، مریضوں ، مظلوم قیدیوں ، مسافروں ، بوڑھوں ، بچوں اور عیالداروں ، الغرض پوری سلطنت کے مصیبت زدوں کی خبر گیری کے بارے میں غور کیا اور مجھے معلوم ہے کہ میرا ربعَزَّوَجَلَّقیامت کے دن ان کے بارے مجھ سے باز پُرس فرمائے گا تو مجھے اس بات سے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ سے ان کے بارے میں جواب نہ بن پڑے! (بس اس بھاری ذمہ داری اور اس کے بارے میں باز پُرس کی فکر کی وجہ سے ) میں رو رہا ہوں۔ (تاریخ الخلفاء، عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ، ص۱۸۹)

5:21
یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَرْتَدُّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ(۲۱)
اے قوم اس پاک زمین میں داخل ہو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے اور پیچھے نہ پلٹو (ف۶۹) کہ نقصان پر پلٹو گے،

{یٰقَوْمِ: اے میری قوم!۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلانے کے بعد ان کو اپنے دشمنوں پر جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اے قوم! مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ۔ اِس زمین کو مقدس اِس لئے کہا گیا کہ وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی مَسکَن (رہائش گاہ) تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سُکونَت سے زمینوں کو بھی شرف حاصل ہوتا ہے اور دوسروں کے لئے باعثِ برکت ہوتی ہے۔ کلبی سے منقول ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوہِ لبنان پر چڑھے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا گیا :دیکھئے جہاں تک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نظر پہنچے وہ جگہ مقدس ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کی میراث ہے، یہ سرزمین طُور اور اس کے گردو پیش کی تھی اور ایک قول یہ ہے کہ تمام ملک شام اس میں داخل ہے۔    (بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲۱،۲ / ۱۹)

5:22
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ ﳓ وَ اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰى یَخْرُجُوْا مِنْهَاۚ-فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ(۲۲)
بولے اے موسیٰ اس میں تو بڑے زبردست لوگ ہیں، اور ہم اس میں ہرگز داخل نہ ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ہاں وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم وہاں جائیں،

{اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ: بیشک اس میں تو بڑے زبردست لوگ ہیں۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کو شہر میں داخلے کا حکم دیا تو قوم نے بزدلی کا مظاہرہ شروع کردیا ۔ اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیات میں اسی کا بیان ہے۔

5:23
قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَۚ-فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ ﳛ وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۳)
دو مرد کہ اللہ سے ڈرنے والوں میں سے تھے (ف۷۰) ا لله نے انہیں نوازا (ف۷۱) بولے کہ زبردستی دروازے میں (ف۷۲) ان پر داخل ہو اگر تم دروازے میں داخل ہوگئے تو تمہارا ہی غلبہ ہے (ف۷۳) اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تمہیں ایمان ہے،

{قَالَ رَجُلٰنِ: دو آدمیوں نے کہا۔} بنی اسرائیل نے بزدلی دکھا دی تھی مگر دو حضرات کالب بن یوقنا اور یوشع بن نون رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے جرأت مندی کا مظاہرہ کیا۔ یہ دونوں حضرات اُن سرداروں میں سے تھے جنہیں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے جَبّارین قوم کا حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا تھا اور انہوں نے حالات معلوم کرنے کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرمان کے مطابق جبارین کا حال صرف حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کیاتھا اور دوسروں کو نہ بتایا تھا۔ ان دونوں حضرات نے قوم کو جوش دلانے کیلئے فرمایا کہ اے لوگو! شہر کے دروازے سے ان جبارین پر داخل ہوجاؤ، اگر تم ہمت کرکے دروازے میں داخل ہوجاؤ تو تم ہی غالب ہوگے اور اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مدد کا وعدہ کیا ہے اور اس کا وعدہ ضرور پورا ہوناہے۔ تم جبار ین کے بڑے بڑے جسموں سے خوف نہ کھاؤ، ہم نے اُنہیں دیکھا ہے اُن کے جسم بڑے ہیں اور دِل کمزور ہیں ان دونوں نے جب یہ کہا تو بنی اسرائیل بہت برہم ہوئے اور بجائے جوش میں آنے کے اُلٹا انہی کے خلاف ہوگئے اور انہوں نے چاہا کہ ان پرپتھر برسادیں۔

5:24
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ(۲۴)
بولے (ف۷۴) اے موسیٰ ہم تو وہاں (ف۷۵) کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں ہیں تو آپ جائیے اور آپ کا رب تم دونوں لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں،

{اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا: بیشک ہم تو وہاں ہرگزکبھی نہیں جائیں گے۔} بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ جہاد میں جانے سے صاف انکار کردیا۔

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی افضلیت:

اس سے معلوم ہوا کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرامرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ والوں سے کہیں افضل ہیں کیونکہ ان حضرات نے کسی سخت موقعہ پر بھی حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ایسا رُوکھا جواب نہ دیا بلکہ اپنا سب کچھ حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر قربان کر دیا جیسے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام نبیوں کے سردار ہیں ایسے ہی حضورِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمتمام نبیوں کے صحابہ کے سردار ہیں۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی جانثاری کے بارے میں جاننے کے لئے یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔ جنگِ بدر کے موقع پر سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ فرمایا تو حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہماری رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں ، اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم ارشاد فرمائیں تو ہم اس میں کود جائیں گے۔(مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب غزوۃ البدر، ص۹۸۱، الحدیث: ۸۳(۱۷۷۹))

انصار کے ایک معزز سردار حضرت مقداد بن اسود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ َکا خدا عَزَّوَجَلَّ جا کر لڑیں بلکہ ہم لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دائیں سے، بائیں سے،آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے۔ یہ سن کر رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرۂ انور خوشی سے چمک اٹھا۔(بخاری، کتاب المغازی، باب قول اللہ تعالی: اذ تستغیثون ربکم۔۔۔ الخ، ۳ / ۵، الحدیث: ۳۹۵۲)

5:25
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(۲۵)
موسیٰ نے عرض کی کہ اے رب! میرے مجھے اختیار نہیں مگر اپنا اور اپنے بھائی کا تو تو ہم کو ان بے حکموں سے جدا رکھ (ف۷۶)

{قَالَ رَبِّ: موسیٰ نے عرض کی : اے میرے رب!} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کے جواب سے غمزدہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی کہ ’’ مولا! مجھے صرف اپنی جان اور اپنے بھائی ہارون کا اختیار ہے، تو تو ہمارے اور نافرمان قوم کے درمیان جدائی ڈال دے اور ہمیں ان کی صحبت اور قرب سے بچا اوریہ کہ ہمارے اوراُن کے درمیان فیصلہ فرمادے۔

آیت ’’قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے 3 مسئلے معلوم ہوئے:

(1)… بروں سے علیحدگی اچھی چیز ہے جس کی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے دعا مانگی۔

(2)… بروں کی برائی سے نیک بھی بعض اوقات مشقت میں پڑ جاتے ہیں جیسا کہ ان نافرمانوں کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی مقامِ تیہ میں قیام فرمانا پڑا اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیلئے سہولت مُیَسَّر فرما دی تھی۔

(3)… اچھوں کی صحبت سے برے بھی فیض حاصل کرلیتے ہیں چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی برکت سے بنی اسرائیل کو مقامِ تیہ میں مَن و سَلْویٰ ملا، پتھر سے پانی کے بارہ چشمے ملے اور وہ لباس عطا ہوا جو اتنے عرصہ تک نہ گلانہ میلا ہوا۔

5:26
قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةًۚ-یَتِیْهُوْنَ فِی الْاَرْضِؕ-فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۶)
فرمایا تو وہ زمین ان پر حرام ہے (ف۷۷) چالیس برس تک بھٹکتے پھریں زمین میں (ف۷۸) تو تم ان بے حکموں کا افسوس نہ کھاؤ،

{فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً: پس چالیس سال تک وہ زمین ان پر حرام ہے۔} بنی اسرائیل کی بزدلی اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حکم پر عمل نہ کرنے کی سزا بنی اسرائیل کو یہ ملی کہ ان پر مقدس سرزمین چالیس سال تک کیلئے حرام کردی گئی، یعنی بنی اسرائیل اب مقدس سرزمین میں نہ داخل ہوسکیں گے۔ وہ زمین جس میں یہ لوگ بھٹکتے پھرے تقریباً ستائیس میل تھی اور قوم کئی لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔وہ سب اپنے سامان لئے تمام دن چلتے تھے، جب شام ہوتی تو اپنے کو وہیں پاتے جہاں سے چلے تھے۔یہ اُن پر سزاتھی سوائے حضرت موسیٰ، حضرت ہارون، حضرت یوشع اور حضرت کالب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کہ اُن پر اللہ تعالیٰ نے آسانی فرمائی اور ان کی مدد فرمائی جیسا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے آگ کو سرد اور سلامتی والابنایا اور اتنی بڑی جماعتِ عظیمہ کا اتنے چھوٹے حصہ زمین میں چالیس برس آوارہ و حیران پھرنا اور کسی کا وہاں سے نکل نہ سکنا خلافِ عادات میں سے ہے ۔جب بنی اسرائیل نے اس جنگل میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کھانے پینے وغیرہ ضروریات اور تکالیف کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دُعا سے اُن کو آسمانی غذا’’ مَنّ وسَلوٰی‘‘ عطا فرمایا اور لباس خود اُن کے بدن پر پیدا کیا جو جسم کے ساتھ بڑھتا تھا اور ایک سفید پتھر کوہِ طور کا عنایت کیا کہ جب رخت ِسفر اُتارتے اور کسی وقت ٹھہرتے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس پتھر پر عصا مارتے ، اس سے بنی اسرائیل کے بارہ گروہوں کے لئے بارہ چشمے جاری ہوجاتے اور سایہ کرنے کیلئے ایک بادل بھیجا اور میدانِ تیہ میں جتنے لوگ داخل ہوئے تھے ان میں سے جو بیس سال سے زیادہ عمر کے تھے سب وہیں مر گئے سوائے یوشع بن نون اور کالب بن یوقنا کے اور جن لوگوں نے ارضِ مقدسہ میں داخل ہونے سے انکار کیا ان میں سے کوئی بھی داخل نہ ہوسکا اور کہا گیا ہے کہ تیہ میں ہی حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات ہوئی ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات سے چالیس برس بعد حضرت یوشع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت عطا کی گئی اور جبارین پر جہاد کا حکم دیا گیا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام باقی ماندہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر گئے اور جبارین پر جہاد کیا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۴۸۲، بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲۶،۲ / ۲۲، ملتقطاً )

5:27
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّۘ-اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِؕ-قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَؕ-قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(۲۷)
اور انہیں پڑھ کر سناؤ آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر (ف۷۹) جب دونوں نے ایک ایک نیاز پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ قبول ہوئی بولا قسم ہے میں تجھے قتل کردوں گا (ف۸۰) کہا اللہ اسی سے قبول کرتا ہے، سے ڈر ہے (ف۸۱)

{وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ:اور انہیں آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر پڑھ کر سناؤ۔}حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اِن دوبیٹوں کا نام ہابیل اور قابیل تھا۔ اس واقعہ کو سنانے سے مقصد یہ ہے کہ حسد کی برائی معلوم ہو اورسرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حسد کرنے والوں کو اس سے سبق حاصل کرنے کا موقع ملے ۔

ہابیل اور قابیل کا واقعہ:

            تاریخ کے علماء کا بیان ہے کہ حضرت حوا  رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کے ہر حمل میں ایک لڑکا اورایک لڑکی پیدا ہوتے تھے اور ایک حمل کے لڑکے کا دوسرے حمل کی لڑکی کے ساتھ نکاح کیا جاتا تھا اور چونکہ انسان صرف حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں مُنْحَصِر تھے توآپس میں نکاح کرنے کے علاوہ اور کوئی صورت ہی نہ تھی۔ اسی دستور کے مطابق حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ’’قابیل ‘‘کا نکاح’’ لیودا‘‘ سے جو’’ ہابیل ‘‘کے ساتھ پیدا ہوئی تھی اور ہابیل کا اقلیما سے جو قابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی کرنا چاہا۔ قابیل اس پر راضی نہ ہوا اور چونکہ اقلیما زیادہ خوبصورت تھی اس لئے اس کا طلبگار ہوا۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ کیونکہ وہ تیرے ساتھ پیدا ہوئی ہے لہٰذا وہ تیری بہن ہے، اس کے ساتھ تیرا نکاح حلال نہیں۔ قابیل کہنے لگا ’’یہ تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی رائے ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نہیں دیا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا :اگر تم یہ سمجھتے ہو تو تم دونوں قربانیاں لاؤ ،جس کی قربانی مقبول ہوجائے وہی اقلیما کا حقدار ہے۔ اس زمانہ میں جو قربانی مقبول ہوتی تھی آسمان سے ایک آگ اتر کر اس کو کھالیا کرتی تھی۔ قابیل نے ایک انبار گندم اور ہابیل نے ایک بکری قربانی کے لیے پیش کی۔ آسمانی آگ نے ہابیل کی قربانی کو لے لیا اور قابیل کی گندم کو چھوڑ دیا۔ اس پر قابیل کے دل میں بہت بغض و حسد پیدا ہوا اور جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے توقابیل نے ہابیل سے کہا کہ’’ میں تجھے قتل کردوں گا۔ ہابیل نے کہا: کیوں ؟ قابیل نے کہا: اس لئے کہ تیری قربانی مقبول ہوئی اور میری قبول نہ ہوئی اور تو اقلیما کا مستحق ٹھہرا ،اس میں میری ذلت ہے۔ ہابیل نے جواب دیا کہ’’ اللہ تعالیٰ صرف ڈرنے والوں کی قربانی قبول فرماتا ہے۔ ہابیل کے اس مقولہ کا یہ مطلب ہے کہ ’’قربانی کو قبول کرنااللہ عَزَّوَجَلَّکا کام ہے وہ متقی لوگوں کی قربانی قبول فرماتا ہے، تو متقی ہوتا تو تیری قربانی قبول ہوتی ،یہ خود تیرے افعال کا نتیجہ ہے اس میں میرا کیا قصور ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ تیری طرف نہیں بڑھاؤں گا، کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میر ی طرف سے ابتدا ہو حالانکہ میں تجھ سے قوی و توانا ہوں یہ صرف اس لئے کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا یعنی میرے قتل کرنے کا گناہ اور تیرا گناہ یعنی جو اس سے پہلے تو نے کیا کہ والد کی نافرمانی کی، حسد کیا اور خدائی فیصلہ کو نہ مانا یہ دونوں قسم کے گناہ تیرے اوپر ہی پڑجائیں توتو دوز خی ہوجائے۔

5:28
لَىٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَۚ-اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸)
بیشک اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر بڑھائے گا کہ مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تجھ پر نہ بڑھاؤں گا کہ تجھے قتل کروں (ف۸۲) میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو مالک ہے سارے جہاں کا،

5:29
اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِۚ-وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَۚ(۲۹)
میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا (ف۷۳) اور تیرا گناہ (ف۸۴) دونوں تیرے ہی پلہ پڑے تو تو دوز خی ہوجائے، اور بے انصافوں کی یہی سزا ہے،

5:30
فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۳۰)
تو اسکے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا تو اسے قتل کردیا تو رہ گیا نقصان میں(ف۸۵)

{فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ: تو اس کے نفس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر راضی کرلیا۔} قابیل تمام گفتگو کے بعد بھی ہابیل کو قتل کرنے کے ارادے پر ڈٹا رہا اور اس کے نفس نے اسے اِس ارادے پر راضی کرلیا، چنانچہ قابیل نے ہابیل کوکسی طریقے سے قتل کردیا لیکن پھر حیران ہوا کہ اس لاش کو کیا کرے! کیونکہ اس وقت تک کوئی انسان مرا ہی نہ تھا ۔ مدت تک لاش کو پشت پر لادے پھرتا رہا۔ پھر جب اسے لاش چھپانے کا کوئی طریقہ سمجھ نہ آیا تواللہ عَزَّوَجَلَّ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کوکرید رہا تھا، چنانچہ یوں ہوا کہ دو کوے آپس میں لڑے، ان میں سے ایک نے دوسرے کو مار ڈالا، پھر زندہ کوے نے اپنی مِنْقَار یعنی چونچ اور پنجوں سے زمین کرید کر گڑھا کھودا، اس میں مرے ہوئے کوے کو ڈال کر مٹی سے دبا دیا۔ یہ دیکھ کر قابیل کو معلوم ہوا کہ مردے کی لاش کو دفن کرنا چاہئے چنانچہ اس نے زمین کھود کر دفن کردیا۔ (جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۹۸، مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۲۸۲، ملتقطاً)

ہابیل اور قابیل کے واقعہ سے حاصل ہونے والے اَسباق :

یہ واقعہ بہت سی عبرتوں اور نصیحتوں پر مشتمل ہے ،ان میں سے ایک یہ کہ انسان نے جو سب سے پہلے جرائم کئے ان میں ایک قتل تھا ،اوردوسر ی یہ ہے کہ حسد بڑی بری چیز ہے، حسد ہی نے شیطان کو برباد کیا اور حسد ہی نے دنیا میں قابیل کو تباہ کیا۔

حسد ،قتل اور حُسن پرستی کی مذمت:

اس واقعے سے تین چیزوں کی مذمت بھی ظاہر ہوتی ہے۔

(1)…حسد۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۵۶-باب، ۴ / ۲۲۸، الحدیث: ۲۵۱۸)

(2)…قتل۔ حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ ’’ناحق حرام خون بہانا ہلاک کرنے والے اُن اُمور میں سے ہے جن سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی: ومن یقتل مؤمناً۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۶، الحدیث: ۶۸۶۳)

(3)…حسن پرستی۔ حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عورت کے محاسن کی طرف نظر کرنا ابلیس کے زہر میں بجھے ہوئے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ (نوادر الاصول، الاصل الرابع والثلاثون، ۱ / ۱۴۷، الحدیث: ۲۱۳)

5:31
فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِؕ-قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْۚ-فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ(۳۱)ﮊ
تو اللہ نے ایک کوا بھیجا زمین کریدتا کہ اسے دکھائے کیونکر اپنے بھائی کی لاش چھپائے (ف۸۶) بولا ہائے خرابی میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ میں اپنے بھائی کی لاش چھپاتا تو پچتاتا رہ گیا(ف۸۷)

5:32
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ﳎ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ٘-ثُمَّ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ(۳۲)
اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے (ف۸۸) تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا (ف۸۹) اور جس نے ایک جان کو جِلا لیا (ف۹۰) اس نے گویا سب لوگوں کو جلالیا، اور بیشک ان کے (ف۹۱) پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے (ف۹۲) پھر بیشک ان میں بہت اس کے بعد زمین میں زیادتی کرنے والے ہیں(ف۹۳)

{مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ﳎ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:اس کے سبب ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا۔} بنی اسرائیل کو یہ فرمایا گیا اور یہی فرمان ہمارے لئے بھی ہے کیونکہ گزشتہ امتوں کے جو احکام بغیر تردید کے ہم تک پہنچے ہیں وہ ہمارے لئے بھی ہیں۔ بہرحال بنی اسرائیل پر لکھ دیا گیا کہ جس نے بلا اجازتِ شرعی کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حق، بندوں کے حق اور حدودِ شریعت سب کو پامال کردیا اور جس نے کسی کی زندگی بچا لی جیسے کسی کو قتل ہونے یا ڈوبنے یا جلنے یا بھوک سے مرنے وغیرہ اَسبابِ ہلاکت سے بچالیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو بچالیا۔

قتل ناحق کی 2 وعیدیں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کسی مومن کوقتل کرنے میں اگر زمین وآسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے ۔ (ترمذی، کتاب الدیات، باب الحکم فی الدماء، ۳ / ۱۰۰، الحدیث: ۱۴۰۳)

(2)…حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، ۳ / ۲۶۱، الحدیث: ۲۶۱۹)

امن و سلامتی کا مذہب:

            یہ آیت ِ مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما دھبا لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلا کر بے قصور لوگوں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت سر انجام دے دی۔

قتل کی جائز صورتیں :

             قتل کی شدید ممانعت کے ساتھ چند صورتوں کو اس سے جدا رکھا ہے اورآیتِ مبارکہ میں بیان کردہ وہ صورتیں یہ ہیں :

(1)…قاتل کو قصاص میں قتل کرنا جائز ہے۔

(2)…زمین میں فساد پھیلانے والے کو قتل کرنا جائز ہے اس کی تفصیل اگلی آیت میں موجودہے۔

            اس کے علاوہ مزید چند صورتوں میں شریعت نے قتل کی اجازت دی ہے۔

  (1)شادی شدہ مرد یا عورت کو زنا کرنے پر بطورِ حد رجم کرنا، (2) مرتد کو قتل کرنا۔ (3) باغی کو قتل کرنا۔

5:33
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِؕ-ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ(۳۳)
وہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے (ف۹۴) اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کیے جائیں یا سولی دیے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹے جائیں یا زمین سے دور کردیے جائیں، یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا غداب،

{اَلَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ:جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں۔} اس سے پچھلی آیات میں قتل کی ایک نَوعِیَّت یعنی ناجائز قتلوں کا ذکر کیا گیا اب دوسری نوعیت یعنی جائز قتلوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ شانِ نزول : عُرَینہ قبیلے کے کچھ لوگ مدینۂ منورہ میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، انہیں وہاں کی آب و ہوا موافق نہ آئی،   سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان سے فرمایا: صدقہ کی اونٹنیوں کی چراگاہ میں جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو، انہوں نے اسی طرح کیا تو تندرست ہو گئے۔ پھر وہ مرتد ہو گئے، چرواہوں پرحملہ کر کے انہیں قتل کر دیا اور اونٹ لے کر بھاگ گئے۔ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس واقعے کی خبر پہنچی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے پیچھے لوگوں کو بھیجا جو انہیں گرفتار کر کے لے آئے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے ہاتھ پاؤں کٹوا دئیے،ا ن کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروائیں پھر انہیں تپتے ہوئے میدان میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قصۃ عکل وعرینۃ، ۳ / ۷۸، الحدیث: ۴۱۹۲، تفسیرات احمدیہ، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۳۵۰)

ڈاکو کی سز اکی شرائط:

            اس آیتِ کریمہ میں راہزن یعنی ڈاکو کی سز اکا بیان ہے۔ راہزن جس کے لئے شریعت کی جانب سے سزا مقرر ہے اس میں چند شرطیں ہیں :

(1)… ان میں اتنی طاقت ہو کہ راہ گیر ان کا مقابلہ نہ کرسکیں اب چاہے ہتھیار کے ساتھ ڈاکہ ڈالا یا لاٹھی لے کر یا پتھر وغیرہ سے۔

(2)… بیرونِ شہر راہزنی کی ہو یا شہر میں رات کے وقت ہتھیار سے ڈاکہ ڈالا۔

(3)… دارُ الاسلام میں ہو۔

(4)… چوری کی سب شرائط پائی جائیں۔

(5)… توبہ کرنے اور مال واپس کرنے سے پہلے بادشاہِ اسلام نے ان کو گرفتار کرلیا ہو۔(عالمگیری، کتاب السرقۃ، الباب الرابع فی قطاع الطریق، ۲ / ۱۸۶)

ڈاکو کی 4سزائیں :

            جن میں یہ سب شرطیں پائی جائیں ان کے لئے قرآنِ پاک میں چار سزائیں بیان کی گئی ہیں

(1)…انہیں قتل کر دیا جائے۔

(2)…سولی چڑھا دیا جائے۔

(3)…دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔

(4)… جلا وطن کر دیا جائے، ہمارے ہاں اس سے مراد قید کر لینا ہے۔

            اس سزا کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ڈاکوؤں نے کسی مسلمان یا ذمی کو قتل کیا اور مال نہ لیا تو انہیں قتل کیا جائے ۔ اگر قتل بھی کیا اور مال بھی لوٹا تو بادشاہِ اسلام کو اختیار ہے کہ ہاتھ پاؤں کاٹ کر قتل کر ڈالے یا سولی دیدے یاہاتھ پاؤں کاٹ کر قتل کرے پھر اس کی لاش کو سولی پر چڑھا دے یا صرف قتل کردے یا قتل کرکے سولی پر چڑھا دے یا فقط سولی دیدے۔ اگر قتل نہیں کیا صرف مال لوٹا تو ان کا دایاں ہاتھ ا ور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ اگر نہ مال لوٹا نہ قتل کیا صرف ڈرایا دھمکایا تو اس صورت میں انہیں قید کر لیا جائے یہاں تک کہ صحیح توبہ کر لے ۔ (عالمگیری، کتاب السرقۃ، الباب الرابع فی قطاع الطریق، ۲ / ۱۸۶، در مختار، کتاب السرقۃ، باب قطع الطریق، ۶ / ۱۸۱-۱۸۳، ملخصاً)

اسلامی سزاؤں کی حکمت:

             اسلا م نے ہر جرم کی سزا اس کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف رکھی ہے، چھوٹے جرم کی سزا ہلکی اور بڑے کی اس کی حیثیت کے مطابق سخت سزا نافذ کی ہے تاکہ زمین میں امن قائم ہو اور لوگ بے خوف ہوکر سکون اور چین کی زندگی بسر کرسکیں۔ ا س کے علاوہ اور بھی بے شمار حکمتیں ہیں۔ ایک اس ڈاکہ زنی کی سزا ہی کو لے لیجئے کہ جب تک اس پر عمل رہا تو تجارتی قافلے اپنے قیمتی سازو سامان کے ساتھ بے خوف و خطر سفر کرتے تھے جس کی وجہ سے تجارت کو بے حد فروغ ملا اور لوگ معاشی اعتبار سے بہت مضبوط ہو گئے اور جب سے اس سزا پر عمل نہیں ہو رہا تب سے تجارتی سر گرمیاں سب کے سامنے ہیں ، جس ملک میں تجارتی ساز و سامان کی نَقل و حَمل کی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام نہیں وہاں کی بَرآمدات اور دَرآمدات انتہائی کم ہیں جس کی وجہ سے ان کی معیشت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اب تو حالات اتنے نازک ہو چکے ہیں کہ بینک سے کوئی پیسے لے کر نکلا تو راستے میں لٹ جاتا ہے، کوئی پیدل جا رہا ہے تو اس کی نقدی اور موبائل چھن جاتا ہے، کوئی بس کا مسافر ہے تو وہاں بھی محفوظ نہیں ،کوئی اپنی سواری پر ہے تو وہ خود کو زیادہ خطرے میں محسوس کرتا ہے، سرکاری اور غیر سرکاری اَملاک ڈاکوؤں کی دست بُرد سے محفوظ نہیں۔ اگر ڈاکہ زنی کی بیان کردہ سزا پر صحیح طریقے سے عمل ہو تو ان سب کا دماغ چند دنوں میں ٹھکانے پر آ جائے گا اور ہر انسان پر امن ماحول میں زندگی بسر کرنا شروع کر دے گا۔

5:34
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهِمْۚ-فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۳۴)
مگر وہ جنہوں نے توبہ کرلی اس سے پہلے کہ تم ان پر قابو پاؤ (ف۹۵) تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

{اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا:مگر وہ جنہوں نے توبہ کرلی۔} گرفتاری سے پہلے اگر ڈاکو توبہ اور ا س کے تقاضے پورے کر لے تو ڈاکہ زنی کی سزا اورآخرت کی رسوائی سے بچ جائے گا لیکن لوٹے ہوئے مال کی واپسی اور قصاص کا تعلق چونکہ بندوں کے حقوق سے ہے اس لئے ان کا تقاضا باقی رہے گا۔ اب اس کے اولیاء چاہیں تومعاف کر دیں ، چاہیں تو اس کا تقاضا کر لیں۔(تفسیرات احمدیہ، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۳۵۲)

5:35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۵)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو (ف۶۶) اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ،

{وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ: اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔} آیت میں وسیلہ کا معنی یہ ہے کہ ’’جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادات چاہے فرض ہوں یا نفل، ان کی ادائیگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو ۔اور اگر تقویٰ سے مراد فرائض و واجبات کی ادائیگی اور حرام چیزوں کو چھوڑ دینا مراد لیا جائے اور وسیلہ تلاش کرنے سے مُطْلَقاً ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا سبب بنے مراد لی جائے تو بھی درست ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے محبت، صدقات کی ادائیگی، اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی زیارت، دعا کی کثرت، رشتہ داروں سے صِلہ رَحمی کرنا اور بکثرت ذِکْرُ اللہ عَزَّوَجَلَّمیں مشغول رہنا وغیرہ بھی اسی عموم میں شامل ہے۔ اب معنی یہ ہوا کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے قریب کر دے اسے لازم پکڑ لو اور جو بارگاہِ الٰہی سے دور کرے اسے چھوڑ دو۔ (صاوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۲ / ۴۹۷)

نیک بندوں کو وسیلہ بنانا جائز ہے:

             یاد رکھئے! رب تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے نیک بندوں کو وسیلہ بنانا، ان کے وسیلے سے دعائیں کرنا، ان کے تَوَسُّل سے بارگاہِ ربِّ قدیر عَزَّوَجَلَّ میں اپنی جائز حاجات کی تکمیل کے لئے اِلتجائیں کرنا نہ صرف جائز بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا طریقہ رہا ہے۔ چنانچہ اس سے متعلق یہاں 3 روایات ملاحظہ ہوں :

(1)… صحیح بخاری میں حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب لوگ قحط میں مبتلا ہو جاتے تو حضرت عمر  بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت عباس بن عبدُالمطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے وسیلے سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے ’’اَللّٰہُمَّ اِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتاتھا اور ا ب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا جان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوو سیلہ بناتے ہیں کہ ہم پر بارش برسا۔ تو لوگ سیراب کیے جاتے تھے۔ (بخاری، کتاب الاستسقاء، باب سؤال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا، ۱ / ۳۴۶، الحدیث: ۱۰۱۰)

(2)…حضرت اوس بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مدینۂ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہاسے ا س کی شکایت کی ۔ آپ  رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہانے فرمایا: رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور کی طرف غور کرو ،اس کے اوپر (چھت میں ) ایک طاق آسمان کی طرف بنادو حتّٰی کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان چھت نہ رہے ۔ لوگوں نے ایسا کیا تو ہم پر اتنی بارش برسی کہ چارہ اُگ گیا اور اونٹ موٹے ہوگئے حتّٰی کہ چربی سے گویا پھٹ پڑے، تو اس سال کا نام عَامُ الْفَتْق یعنی پھٹن کا سال رکھا گیا۔(سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۶، الحدیث: ۹۲)

(3)…بلکہ خود رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے کی تعلیم ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دی، چنانچہ حضرت عثمان بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوئے توان کو یہ دعا ارشاد فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّی قَدْ تَوَجَّہْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ہَذِہٖ لِتُقْضٰی اَللّٰہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف نبی رحمت حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ متوجہ ہوتا ہوں ، اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کی تاکہ میری حاجت پوری کردی جائے، اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، میرے لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شفاعت قبول فرما۔(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب ما جاء فی صلاۃ الحاجۃ، ۲ / ۱۵۶، الحدیث: ۱۳۸۵)

          نوٹ: جو شخص اس حدیثِ پاک میں مذکور دعا پڑھنا چاہے تو اسے چاہئے کہ اس دعا میں ان الفاظ’’یَا مُحَمَّدُ‘‘ کی جگہ ’’یَا نَبِیَّ اللہ ‘‘یا ’’ یَارَسُوْلَ اللہ‘‘ پڑھے۔ اس بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے سورۂ فاتحہ کی آیت نمبر 4 کی تفسیر میں مذکور کلام ملاحظہ فرمائیں۔

5:36
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لِیَفْتَدُوْا بِهٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۳۶)
بیشک وہ جو کافر ہوئے جو کچھ زمین میں ہے سب اور اس کی برابر اور اگر ان کی ملک ہو کہ اسے دے کر قیامت کے عذاب سے اپنی جان چھڑائیں تو ان سے نہ لیا جائے گا اور ان کے لئے دکھ کا عذاب ہے(ف۹۷)

{لِیَفْتَدُوْا بِهٖ: تاکہ فدیہ دے کر جان چھڑائیں۔} یعنی اگر کافر دنیا کا مالک ہو اور اس کے ساتھ اس کے برابر دوسری دنیا کا مالک ہو اور یہ سب کچھ اپنی جان کو قیامت کے دن کے عذاب سے چھڑانے کے لئے فدیہ کر دے تو ا س کا یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور قیامت کے دن کافروں کو عذاب ضرور ہو گا، اس دن ان کے پاس عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہ ہو گی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۱ / ۴۹۱)

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن جب کافر کو پیش کیا جائے گا تو ا س سے کہا جائے گا کہ اگر تیرے پاس اتنا سونا ہو کہ اس سے زمین بھر جائے تو کیا تو اسے اپنے بدلے میں دینے کوتیار ہو جاتا؟ وہ اِثبات میں جواب دے گا تو اس سے کہا جائے گا: تم سے اس کی نسبت بہت ہی آسان چیز کا مطالبہ کیا گیا تھا (یعنی ایمان کا)۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب من نوقش الحساب عذّب، ۴ / ۲۵۷، الحدیث: ۶۵۳۸)

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص سے فرمائے گا جسے جہنم میں سب سے کم عذاب ہو گا کہ اگر تیرے پاس زمین کی ساری چیزیں ہوں تو کیا تو انہیں اپنے بدلے میں دے دیتا۔ وہ جواب دے گا :جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’میں نے اس سے بھی آسان چیز تجھ سے چاہی تھی جب کہ تو آدم کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا تو تو نے انکار کیا اور میرے ساتھ شرک کرتا رہا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۱، الحدیث: ۶۵۵۷)

ایمان کی حفاظت کی فکر کرنا بہت ضروری ہے:

اس آیت سے معلوم ہو اکہ ایمان ہوگا تو ہی قیامت کے دن اعمال کا اجر ملے گا، تبھی شفاعت کا فائدہ ہوگا، تبھی رحمت ِ الہٰی متوجہ ہوگی اور تبھی جہنم سے چھٹکارا ملے گا، اس لئے ایمان کی حفاظت کی فکر کرنا نہایت ضروری ہے۔ ہمارے بزرگانِ دین نیک اعمال کی کثرت کے باوجود ہمیشہ برے خاتمے سے ڈرتے رہتے تھے ،چنانچہ :

جب حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ بے حد بے قرار اور مُضْطَرب ہوئے اور زار وقطار رونے لگے۔ لوگوں نے عرض کی :حضور! ایسی گریہ و زاری نہ کریں ، اللہ تعالیٰ کی بخشش اور مغفرت آپ کے گناہوں سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے جواب دیا:مجھے اس بات کا یقین نہیں کہ میرا خاتمہ بالخیر ہوگا، اگر یہ پتا چل جائے کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو گا تو مجھے پہاڑوں کے برابر گناہوں کی بھی پرواہ نہ ہو گی۔

حضرت امام حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا گیا: آپ کا کیا حال ہے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’جس شخص کی کشتی دریا کے درمیان جا کر ٹوٹ جائے ،اس کے تختے بکھر جائیں اور ہر شخص ہچکولے کھاتے تختوں پر نظر آئے تو اس کاکیا حال ہو گا؟ عرض کی گئی: بے حد پریشان کُن۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’میرا بھی یہی حال ہے۔

ایک بار آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایسے دل گرفتہ ہوئے کہ کئی سال تک ہنسی نہ آئی۔ لوگ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایسے دیکھتے جیسے کوئی قید ِتنہائی میں ہے اور اسے سزائے موت سنائی جانے والی ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے اس غم و حزن کاسبب دریافت کیاگیا کہ آپ اتنی عبادت و ریاضت اور مجاہدات کے باوجود فکرمند کیوں رہتے ہیں ؟ آپ رَضِیَ اللہُ  تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’مجھے ہر وقت یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں مجھ سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہو جائے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے اور وہ فرما دے کہ ’’تم جو چاہے کرو مگر میری رحمت تمہارے شامل حال نہ ہو گی۔ بس اسی وجہ سے میں اپنی جان پگھلا رہا ہوں(کیمیاء سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل سیم در خوف ورجا، ۲ / ۸۲۵-۸۳۲)۔([1])

ایمان پہ موت بہتر او نفس

تیری ناپاک زندگی سے


[1] …ایمان کی حفاظت کا  جذبہ پانے کے لئے امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تصنیف ’’کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب‘‘ کا مطالعہ کرنا بہت مفید ہے۔

5:37
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْهَا٘-وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(۳۷)
دوزخ سے نکلنا چاہیں گے اور وہ اس سے نہ نکلیں گے اور ان کو دوامی سزا ہے،

5:38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۳۸)
اور جو مرد یا عورت چور ہو (ف۹۸) تو ان کا ہاتھ کاٹو (ف۹۹) ان کے کیے کا بدلہ اللہ کی طرف سے سزا، اور اللہ غالب حکمت والا ہے،

{فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا:تو ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔} اس آیت میں چور کی سزا بیان کی گئی ہے کہ شرعی اعتبار سے جب چوری ثابت ہوجائے تو چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔

چوری کرنے کا شرعی حکم اور ا س کی وعیدیں :

          چوری گناہِ کبیرہ ہے اور چور کے لئے شریعت میں سخت وعیدیں ہیں ، چنانچہ

           حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا : ’’چور چوری کرتے وقت مؤمن نہیں رہتا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی۔۔۔ الخ، ص۴۸، الحدیث: ۱۰۰(۵۷))

             انہی سے روایت ہے، حضورِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا :’’اگر اس نے ایسا کیا (یعنی چوری کی) تو بے شک اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے اُتار دیا پھر اگر اس نے تو بہ کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی تو بہ قبول فرما لے گا۔(نسائی، کتاب قطع السارق، تعظیم السرقۃ، ص۷۸۳، الحدیث: ۴۸۸۲)

چوری کی تعریف:

            سَرِقَہْ یعنی چوری کا لغوی معنی ہے خفیہ طریقے سے کسی اور کی چیز اٹھا لینا۔    (ہدایہ، کتاب السرقۃ، ۱ / ۳۶۲)

            جبکہ شرعی تعریف یہ ہے کہ عاقل بالغ شخص کا کسی ایسی محفوظ جگہ سے کہ جس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا ہو دس درہم یا اتنی مالیت (یا اس سے زیادہ) کی کوئی ایسی چیز جو جلدی خراب ہونے والی نہ ہو چھپ کر کسی شبہ و تاویل کے بغیر اٹھا لینا۔ (فتح القدیر، کتاب السرقۃ، ۵ / ۱۲۰)

 چوری سے متعلق2شرعی مسائل:

(1)…چوری کے ثبوت کے دو طریقے ہیں (1) چور خود اقرار کر لے اگرچہ ایک بار ہی ہو۔ (2) دو مرد گواہی دیں ، اگر ایک مرد اور دو عورتوں نے گواہی دی تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

(2)…قاضی گواہوں سے چند باتوں کا سوال کرے ،کس طرح چوری کی، اور کہاں کی، اور کتنے کی کی، اور کس کی چیز چرائی؟ جب گواہ ان امور کا جواب دیں اور ہاتھ کاٹنے کی تمام شرائط پائی جائیں توہاتھ کاٹنے کا حکم ہے۔

           تنبیہ: حدود و تعزیر کے مسائل میں عوامُ النّاس کو قانون ہاتھ میں لینے کی شرعاً اجازت نہیں۔ چوری کے مسائل کی تفصیلی معلومات کے لئے بہار شریعت حصہ 9کا مطالعہ کیجئے۔

5:39
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۹)
تو جو اپنے ظلم کے بعد توبہ کرے اور سنور جائے تو اللہ اپنی مہر سے اس پر رجوع فرمائے گا (ف۱۰۰) بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

{فَمَنْ تَابَ: تو جو توبہ کرلے۔} توبہ نہایت نفیس شے ہے ۔ کتنا ہی بڑا گناہ ہو اگر اس سے توبہ کرلی جائے تو اللہ تعالیٰ اپنا حق معاف فرما دیتا ہے اور تو بہ کرنے والے کو عذابِ آخرت سے نجات دے دیتا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ جس گناہ میں کسی بندے کا حق بھی شامل ہووہاں توبہ کیلئے ضروری ہے کہ اس بندے کے حق کی ادائیگی بھی ہوجائے۔

5:40
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۴۰)
کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی، سزا دیتا ہے جسے چاہے اور بخشتا ہے جسے چاہے، اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے، (ف۱۰۱)

{یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ: جسے چاہے سزا دیتا ہے۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ عذاب کرنا اور رحمت فرمانا اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر ہے ،وہ مالک ہے جو چاہے کرے کسی کو اعتراض کرنے کی مجال نہیں۔اس سے قَدرِیَہ( یعنی تقدیر کے منکر) اور معتزلہ فرقے کا رد ہوگیا جونیک پر رحمت اور گناہگار پر عذاب کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب کہتے ہیں کیونکہ واجب ہونا مشیت کے منافی ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۱ / ۴۹۴)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْمَـآئِدَة
اَلْمَـآئِدَة
  00:00



Download

اَلْمَـآئِدَة
اَلْمَـآئِدَة
  00:00



Download