Surah Al-Maa'idah
{وَ لَوْ كَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ النَّبِیِّ:اور اگر یہ اللہ اور نبی پر ایمان لاتے۔} کفار و مشرکین سے دوستی اور محبت کا رشتہ اُستُوار کرنے والے یہودی اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اس کی نازل کردہ کتاب قرآنِ پاک پر صدق و اخلاص کے ساتھ ایمان لائے ہوتے تو کسی صورت بھی ان کے ساتھ دوستی کا سلسلہ قائم نہ کرتے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ان میں بہت زیادہ فاسق ہیں۔ ان آیات کے پسِ منظر پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کا اصل مقصود ریاست کی حکمرانی اور منصب کا حصول تھا اور اس کے لئے انہیں کوئی بھی طریقہ اپنانا پڑا، کسی بھی ذریعے کو اختیار کرنا پڑا وہ کر گزرے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال فی زمانہ ہم مسلمانوں میں عام ہو چکی ہے۔اپنی کرسی کوبچانے کے چکر میں کفار کے سامنے گھٹنے ٹیکتے اورایڑیاں گھسیٹتے پھرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ا نہیں عقل سلیم عطا فرمائے۔
{وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے ۔} اس آیتِ کریمہ میں اُن عیسائیوں کی تعریف بیان کی گئی ہے جوحضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے زمانۂ اقدس تک حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین پر قائم رہے اور تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثت معلوم ہونے کے بعد سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے۔ شانِ نزول: ابتدائے اسلام میں جب کفارِ قریش نے مسلمانوں کو بہت ایذائیں دیں تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے گیارہ مرد اور چار عورتوں نے سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حکم سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، یہ تمام حضرات اعلانِ نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینے میں بَحری سفر کرکے حبشہ پہنچے۔ اس ہجرت کو ہجرتِ اُولیٰ کہتے ہیں۔ اُن کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ گئے پھر اور مسلمان روانہ ہوتے رہے یہاں تک کہ بچوں اور عورتوں کے علاوہ مہاجرین کی تعداد بیاسی (82) مَردوں تک پہنچ گئی، جب قریش کو اس ہجرت کا علم ہوا تو انہوں نے چند افراد کوتحفہ تحائف دے کر نجاشی بادشاہ کے پاس بھیجا، ان لوگوں نے دربارِ شاہی میں باریابی حاصل کرکے بادشاہ سے کہا : ہمارے ملک میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور لوگوں کو نادان بنا ڈالا ہے اُن کی جماعت جو آپ کے ملک میں آئی ہے وہ یہاں فساد انگیزی کرے گی اور آپ کی رعایا کو باغی بنائے گی، ہم آپ کو خبردینے کے لئے آئے ہیں اور ہماری قوم درخواست کرتی ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالے کیجئے، نجاشی بادشاہ نے کہا :پہلے ہم ان لوگوں سے گفتگو کرلیں باقی بات بعد میں دیکھیں گے۔ یہ کہہ کر اس نے مسلمانوں کو طلب کیا اور ان سے دریافت کیا کہ’’ تم حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کی والدہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو ۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول، کَلِمَۃُ اللہ اور روحُ اللہ ہیں اور حضرت مریم رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہاکنواری پاک ہیں۔ یہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک لکڑی کا ٹکڑا اٹھا کر کہا خدا عَزَّوَجَلَّکی قسم تمہارے آقا نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کلام میں اتنا بھی نہیں بڑھایا جتنی یہ لکڑی، (یعنی حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ارشاد کلامِ عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بالکل مطابق ہے) یہ دیکھ کر مشرکینِ مکہ کے چہرے اتر گئے۔ پھر نجاشی نے قرآن شریف سننے کی خواہش کی تو حضرت جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے سورۂ مریم تلاوت کی، اس وقت دربار میں نصرانی عالم اور درویش موجود تھے، قرآنِ پاک سن کر بے اختیار رونے لگے ۔ پھر نجاشی نے مسلمانوں سے کہا: تمہارے لئے میری سلطنت میں کوئی خطرہ نہیں مشرکینِ مکہ اپنے مقصد میں ناکام ہو کر واپس پلٹے اور مسلمان نجاشی کے پاس بہت عزت و آسائش کے ساتھ رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نجاشی کو دولتِ ایمان کا شرف حاصل ہوا ۔اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۲،۱ / ۵۱۸)
{ وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ:اور جب یہ لوگ اُس کو سنتے ہیں جو رسول کی طرف نازل کیا گیا۔} جب حبشہ کی طر ف ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نجاشی کے دربار میں جمع تھے اور مشرکینِ مکہ کا وفد بھی وہاں موجود تھا تو اس وقت نجاشی نے حضرت جعفر طیاررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کی: کیا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی کتاب میں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکا ذکر ہے؟حضرت جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: قرآنِ پاک میں ایک مکمل سورت حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکی طرف منسوب ہے، پھر سورۂ مریم اور سورۂ طٰہٰ کی چند آیات تلاوت فرمائیں تو نجاشی کی آنکھوں سے سیلِ اشک رواں ہو گیا۔ اسی طرح جب پھر حبشہ کا وفد سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا جس میں 70 آدمی تھے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے سامنے سورۂ یٰسین کی تلاوت فرمائی تو اسے سن کر وہ لوگ بھی زار و قطار رونے لگے۔ اس آیت میں ان واقعات کی طرف اشارہ ہے۔( مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۲۹۹) انہی سب کے متعلق فرمایا گیا کہ جب یہ لوگ اُس کو سنتے ہیں جو رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف نازل کیا گیا تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے ابل پڑتی ہیں کیونکہ وہ حق کو پہچان گئے اور وہ کہتے ہیں : اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرایمان لائے اور ہم نے اُن کے برحق ہونے کی شہادت دی، پس تو ہمیں حق کی گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ دے اور ہمیں اُس حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت میں داخل فرما جو روزِقیامت تمام اُمتوں کے گواہ ہوں گے۔ (اوریہ بات انہیں انجیل سے معلوم ہوچکی تھی۔) اِس آیت سے معلوم ہوا کہ ذکرِ الہٰی کے وقت عشق و محبت میں رونا اعلیٰ عبادت ہے۔ اسی طرح عذابِ الہٰی کے خوف اور رحمتِ الہٰی کی امید میں رونا بھی عبادت ہے ۔بہت سے عاشقانِ قرآن، قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے جھومتے ہیں ، یہ قرآن کریم سے لذت و سُرور حاصل ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ صبح کی خوشگوار ہوا سے نرم شاخیں حرکت کرتی ہیں اور تلاوت کرنے والا رحمتِ الہٰی کی نسیم سے ہلتا ہے۔
تلاوتِ قرآن کے2 فضائل:
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو مومن قرآن پڑھتا ہے، اس کی مثال ترنج کی سی ہے کہ خوشبو بھی اچھی ہے اور مزہ بھی اچھا ہے اور جو مومن قرآن نہیں پڑھتا، وہ کھجور کی مثل ہے کہ اس میں خوشبو نہیں مگر مزہ شیریں ہے ۔اور جو منافق قرآن پڑھتا ہے، وہ پھول کی مثل ہے کہ اس میں خوشبو ہے مگر مزہ کڑوااور جو منافق قرآن نہیں پڑھتا، وہ اندرائن کی مثل ہے کہ اس میں خوشبو بھی نہیں ہے اور مزہ کڑوا ہے ۔( بخاری، کتاب الاطعمۃ، باب ذکر الطعام، ۳ / ۵۳۵، الحدیث: ۵۴۲۷)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے مروی ہے ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو قرآن پڑھنے میں ماہر ہے، وہ کراماً کاتبین کے ساتھ ہے اور جو شخص رک رک کر قرآن پڑھتا ہے اور وہ اُس پر شاق ہے یعنی اُس کی زبان آسانی سے نہیں چلتی، تکلیف کے ساتھ ادا کرتا ہے، اُس کے لیے دو اجر ہیں( مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل الماہر بالقرآن والذی یتتعتع فیہ، ص۴۰۰، الحدیث: ۲۴۴(۷۹۸))۔[1]
تلاوتِ قرآن کے وقت رونے کی ترغیب:
تلاوتِ قرآن کے وقت رونا مستحب ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے جلیلُ القدر بندوں کا طریقہ ہے کہ بلند مراتب پر پہنچنے کے باوجودبھی ان کی دلی کیفیات یہ ہوتی ہیں کہ جب ان کے سامنے کلامِ الہٰی کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو انہیں سن کر وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے لگتے ہیں جیسا کہ سورۂ مریم کی آیت نمبر 58 میں بیان ہوا، اسی طرح ان کی ایک اور کیفیت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ‘‘(زمر: ۲۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اللہ نے سب سے اچھی کتاب اتاری کہ ساری ایک جیسی ہے، باربار دہرائی جاتی ہے۔ اس سے ان لوگوں کے بدن پر بال کھڑے ہوتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل اللہ کی یاد کی طرف نرم پڑجاتے ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث: ۱۳۳۷)
حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قرآن کو غم کے ساتھ پڑھو کیونکہ یہ غم کے ساتھ نازل ہوا ہے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ ابراہیم، ۲ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۹۰۲)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب تم سورۂ سبحان میں سجدہ کی آیت پڑھو تو سجدہ کرنے میں جلدی نہ کرو یہاں تک کہ تم روؤ اور اگر تم میں سے کسی کی آنکھ نہ روئے تو دل کو رونا چاہئے (اور تکلف کے ساتھ رونے کا طریقہ یہ ہے کہ دل میں حزن و ملال کو حاضر کرے کیونکہ ا س سے رونا پیدا ہوتا ہے۔( تفسیر کبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۵۸، ۷ / ۵۵۱)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’غم ظاہر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن کے ڈرانے، وعدہ اور عہد و پیمان کو یاد کرے پھر سوچے کہ اِس نے اُس کے احکامات اور ممنوعات میں کتنی کوتاہی کی ہے تو اس طرح وہ ضرور غمگین ہو گا اور روئے گا اور اگر غم اور رونا ظاہر نہ ہو جس طرح صاف دل والے لوگ روتے ہیں تو اس غم اور رونے کے نہ پائے جانے پر روئے کیونکہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب آداب تلاوۃ القرآن، الباب الثانی فی ظاہر آداب التلاوۃ، ۱ / ۳۶۸)
[1] ۔۔۔۔ تلاوتِ قرآن کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکارسالہ ’’تلاوت کی فضیلت ‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{ وَ مَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰهِ:اور ہمیں کیاہے کہ ہم اللہ پر ایمان نہ لائیں۔} جب حبشہ کا وفد اسلام سے مشرف ہو کر واپس گیا تو یہودیوں نے اُنہیں اِس پر ملامت کی۔ اس کے جواب میں انہوں نے یہ کہا کہ جب حق واضح ہوگیا تو ہم کیوں ایمان نہ لاتے(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۴، ۱ / ۵۲۰) یعنی ایسی حالت میں ایمان نہ لانا قابلِ ملامت ہے نہ کہ ایمان لانا کیونکہ ایمان لانا تو فلاحِ دارَین کا سبب ہے۔
{ لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ:پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ۔} اس آیت ِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی ایک جماعت سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وعظ سن کر ایک روز حضرت عثمان بن مظعون رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاں جمع ہوئی اور اُنہوں نے آپس میں ترک ِدنیا کا عہد کیا اور اس پر اتفاق کیا کہ وہ ٹاٹ پہنیں گے اور ہمیشہ دن میں روزے رکھیں گے اور ساری رات عبادتِ الٰہی میں گزارا کریں گے، بستر پر نہ لیٹیں گے اور گوشت اور چکنائی نہ کھائیں گے اور عورتوں سے جدا رہیں گے نیز خوشبو نہ لگائیں گے ۔اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور انہیں اس ارادہ سے روک دیا گیا۔( تفسیر قرطبی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۷، ۳ / ۱۵۶، الجزء السادس)
احادیث ِ مبارکہ میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جن میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اعتدال کا حکم فرمایا اور عبادت کرنے میں خود کو بہت زیادہ تکلیف میں ڈالنے سے منع فرمایا ۔ اس کے لئے درج ذیل 3 احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
(1)… اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھَا فرماتی ہیں ’’رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے پاس تشریف فرما تھے،اس وقت حضرت حولاء بنتِ تُوَیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھَا ان کے پاس سے گزریں۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھَانے تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی:’’یہ حولاء بنت تُوَیت (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا) ہیں ، لوگ کہتے ہیں کہ یہ رات بھر نہیں سوتیں۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: رات بھر نہیں سوتیں ! اتنا عمل کیا کرو جتنا آسانی سے کر سکو، بخدا! اللہتعالیٰ نہیں اکتائے گا لیکن تم اکتا جاؤ گے۔( مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضیلۃ العمل الدائم من قیام اللیل وغیرہ، ص۳۹۴، الحدیث: ۲۲۰(۷۸۵))
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،رحمت ِعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد میں تشریف لائے، اس وقت مسجد کے دو ستونوں کے درمیان رسی تانی ہوئی تھی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: یہ کیا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی: یہ حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کی رسی ہے وہ نماز پڑھتی ہیں اور جب ان پر تھکن یا سستی طاری ہوتی ہے تو اس رسی کو پکڑ لیتی ہیں۔ حضور سیدُ المرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس رسی کو کھول دو، تم میں سے ہر شخص اس وقت تک نماز پڑھے جب تک وہ آسانی سے نماز پڑھ سکے اور جب اس پر تھکن یا سستی طاری ہو تو وہ بیٹھ جایا کرے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضیلۃ العمل الدائم من قیام اللیل وغیرہ، ص۳۹۴، الحدیث: ۲۱۹(۷۸۴))
(3)… حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں ہمیشہ روزے رکھتا تھا اورہر رات قرآنِ مجید کی تلاوت کرتا تھا، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے میرا ذکر کیا گیا تو آپ نے مجھے بلوایا، میں خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ہر رات قرآنِ مجید پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی: کیوں نہیں ، یا رسول اللہ ! لیکن میں نے اس عبادت سے صرف خیر کا ارادہ کیا ہے۔ سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تمہارے لئے یہ کافی ہے کہ تم مہینے میں صرف تین دن روزے رکھ لیا کرو۔ میں نے عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں ا س سے افضل کی طاقت رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے روزے رکھو کیونکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے۔ میں نے عرض کی :اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے نبی! حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام کے روزے کس طرح تھے؟ ارشاد فرمایا ’’ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ اور فرمایا ’’ہر ماہ میں ایک قرآنِ پاک ختم کیا کرو۔ میں نے عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں اس سے افضل کی طاقت رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: ’’ پھر بیس دن میں ایک قرآنِ پاک ختم کر لو۔ میں نے عرض کی: میں اس سے افضل کی طاقت رکھتا ہوں۔ارشاد فرمایا ’’ پھر دس دن میں ایک قرآنِ پاک ختم کر لو۔میں نے عرض کی: میں اس سے افضل کی طاقت رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’ پھر سات دن میں قرآنِ پاک ختم کر لو اور اس سے زیادہ اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالو کیونکہ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔( مسلم، کتاب الصیام، باب النہی عن صوم الدہر۔۔۔ الخ، ص۵۸۵، الحدیث: ۱۸۲(۱۱۵۹))
حلال چیزوں کو ترک کرنے کاشرعی حکم :
حلال چیزوں کو ترک کرنا جائز ہوتا ہے کہ ان کا کرنا کوئی فرض و واجب نہیں ہوتا لیکن جس طرح حرام کو گناہ و نافرمانی سمجھ کر ترک کیا جاتا ہے اس طرح حلال چیزوں کو ترک کرنے کی اجازت نہیں۔ نیز کسی حلال چیز کے متعلق بطورِ مبالغہ یہ کہنے کی اجازت نہیں کہ ہم نے اس کو اپنے اُوپر حرام کرلیا ہے۔ صوفیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے جو بہت سی چیزوں کو ترک کرنے کے واقعات ملتے ہیں وہ بطورِ علاج ہیں یعنی جس طرح بیمار آدمی بہت سی غذاؤں کو حلال سمجھنے کے باوجود اپنی صحت کی خاطر پرہیز کرتے ہوئے کئی چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے اسی طرح صوفیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نفس کے علاج کیلئے بعض حلال چیزوں کو حلال سمجھنے کے باوجود ترک کردیتے ہیں ، لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ حلال چیزوں کو ترک کرنے کی اجازت تو ہے لیکن یہ اجازت نہیں کہ ان کے ساتھ حرام جیسا سلوک کیا جائے۔
حلال چیزوں کو حرام قرار دینے کے بارے میں ایک اہم مسئلہ:
اس آیت ِ مبارکہ میں پاکیزہ چیزوں کو حرام قرار دینے سے منع فرمایا، اس سے ان لوگوں کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ جو مقبولانِ بارگاہ ِ الٰہی کی طرف منسوب ہر چیز پر حرام کے فتوے دینے پر لگے رہتے ہیں اور ہرچیز میں انہیں شرک ہی سوجھتاہے۔
{لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ:اللہتمہیں تمہاری فضول قسموں پرنہیں پکڑے گا ۔}اس سے پہلی آیت میں بیان ہوا کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت نے کھانے پینے کی چند حلال چیزیں اور کچھ لباس اپنے اوپر حرام کر لئے اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی، مزید یہ کہ اس پر انہوں نے قسمیں بھی کھا لیں۔جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اس چیز سے منع کیا تو انہوں نے عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اب ہم اپنی قسموں کا کیا کریں ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی جس میں قسم کے احکام بیان کئے گئے۔( تفسیر کبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۹، ۴ / ۴۱۸-۴۱۹)
قسم کی تین قسمیں ہیں :
(1)…یمینِ لَغْو یعنی غلط فہمی کی قسم، یہ وہ قسم ہے کہ آدمی کسی واقعہ کو اپنے خیال میں صحیح جان کر قسم کھالے اور حقیقت میں وہ ایسا نہ ہو، ایسی قسم پر کفارہ نہیں۔
(2)…یمینِ غَموس یعنی جھوٹی قسم ،کسی گزشتہ واقعے کے متعلق جان بوجھ کرجھوٹی قسم کھانا، یہ حرام ہے۔
(3)… یمینِ مُنعقدہ، جو کسی آئندہ کے معاملے پر اسے پورا کرنے یا پورا نہ کرنے کیلئے کھائی جائے، کسی صحیح معاملے پر کھائی گئی ایسی قسم توڑنا منع بھی ہے اور اس پر کفارہ بھی لازم ہے۔ قسم کی تیسری صورت پر ہی کفارہ لازم آتا ہے ۔
یہاں آیت ِ مبارکہ میں قسم کا کفارہ بیان کیا گیا ہے اور قسم کا کفارہ یہ ہے کہ اگر کوئی قسم توڑے تو ایک غلام آزاد کرے یا دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر درمیانے درجے کا کھانا کھلائے یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنائے ۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار کرنے کی اجازت ہے اور اگر تینوں میں سے کسی کی بھی طاقت نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھنا کفارہ ہے۔
قسم کے کفارے کے چند مسائل:
قسم کے کفارے سے متعلق چند مسائل یاد رکھیں :
(1)…مسکینوں کو کھانا کھلانے کی بجائے انہیں صدقہ فطر کی مقدار بھی دے سکتا ہے۔
(2)…یہ بھی جائز ہے کہ ایک مسکین کو دس روز دیدے یا کھلادیا کرے۔
(3)…بہت گھٹیا قسم کا کھانا کھلانے کی اجازت نہیں ، درمیانے درجے کا ہونا چاہیے۔
(4)…مسکینوں کو کپڑے پہنائے تو وہ بھی درمیانے درجے کے ہونے چاہئیں اور درمیانے درجے کے وہ ہیں جن سے اکثر بدن ڈھک سکے اور درمیانے درجے کے لوگ پہنتے ہوں یعنی سوٹ بہت گھٹیا نہ ہو اور تین مہینے تک چل سکتا ہو۔
(5)… روزہ سے کفارہ جب ہی اداہو سکتا ہے جب کہ کھانا کھلانے، کپڑا دینے اور غلام آزاد کرنے کی قدرت نہ ہو۔
(6)…روزے رکھنے کی صورت میں ضروری ہے کہ یہ روزے مسلسل رکھے جائیں۔
(7)… کفارہ قسم توڑنے سے پہلے دینا درست نہیں۔
مشورہ:قسم کے بارے میں کچھ کلام سورہ ٔبقرہ کی آیت نمبر 224 اور 225 کے تحت تفسیر میں گزر چکا ہے وہاں سے اس کا مطالعہ فرمائیں ، نیز قسم اور اس کے کفارے کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کیلئے بہارِ شریعت حصہ9 سے ’’قسم کا بیان‘‘مطالعہ فرمائیں۔
{وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْ: اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔} قسم کی حفاظت کا حکم ہے اور وہ یہ ہے کہ انہیں پورا کرو اگر اس میں شرعاً کوئی حرج نہ ہو اور یہ بھی حفاظت ہے کہ قسم کھانے کی عادت ترک کی جائے(تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۵۱)۔[1]
[1] ۔۔۔۔۔ قسم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے رسالہ’’قسم کے بارے میں مدنی پھول‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ بھی مفید ہے۔
{رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ: ناپاک شیطانی کام ہیں۔} اس آیتِ مبارکہ میں چار چیزوں کے نجاست و خباثت اور ان کا شیطانی کام ہونے کے بارے میں بیان فرمایا اور ان سے بچنے کا حکم دیاگیا ہے۔وہ چار چیزیں یہ ہیں : (1) شراب۔ (2) جوا۔(3) اَنصاب یعنی بت ۔(4) اَزلام یعنی پانسے ڈالنا۔ ہم یہاں بالترتیب ان چاروں چیزوں کے بارے میں تفصیل بیان کرتے ہیں۔
(1)… شراب۔ صدرُ الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : شراب پینا حرام ہے اور ا س کی وجہ سے بہت سے گناہ پیدا ہوتے ہیں ، لہٰذا اگر اس کو معاصی (یعنی گناہوں ) اور بے حیائیوں کی اصل کہا جائے تو بجا ہے۔(بہار شریعت، حصہ نہم، شراب پینے کی حد کا بیان، ۲ / ۳۸۵)
حضرت معاذرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ شراب ہر گز نہ پیو کہ یہ ہر بدکاری کی اصل ہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث معاذ بن جبل، ۸ / ۲۴۹، الحدیث: ۲۲۱۳۶)
احادیث میں شراب پینے کی انتہائی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے شراب کے بارے میں دس شخصوں پر لعنت کی: (1) شراب بنانے والے پر۔ (2) شراب بنوانے والے پر۔ (3) شراب پینے والے پر۔ (4) شراب اٹھانے والے پر۔ (5) جس کے پاس شراب اٹھا کر لائی گئی اس پر۔ (6) شراب پلانے والے پر۔ (7) شراب بیچنے والے پر۔ (8) شراب کی قیمت کھانے والے پر۔ (9) شراب خریدنے والے پر۔ (10) جس کے لئے شراب خریدی گئی اس پر۔( ترمذی، کتاب البیوع، باب النہی ان یتخذ الخمر خلاً، ۳ / ۴۷، الحدیث: ۱۲۹۹)
(2)…حضرت ابومالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے اور ا س کا نام بدل کر کچھ اور رکھیں گے، ان کے سروں پر باجے بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے کچھ لوگوں کو بندر اور سور بنا دے گا۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، ۴ / ۳۶۸، الحدیث: ۴۰۲۰)
(3)…حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’قسم ہے میری عزت کی! میرا جو بندہ شراب کی ایک گھونٹ بھی پئے گا میں اس کو اُتنی ہی پیپ پلاؤں گا اور جو بندہ میرے خوف سے اُسے چھوڑے گامیں اس کو حوض قدس سے پلاؤں گا۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی، ۸ / ۲۸۶، الحدیث: ۲۲۲۸۱)
شراب حرام ہونے کا 10انداز میں بیان:
اس آیت اور اس سے بعد والی آیت میں شراب کے حرام ہونے کو 10مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے:
(1)…شراب کو جوئے کے ساتھ ملایا گیا ہے۔
(2)…بتوں کے ساتھ ملایا گیا ہے۔
(3)…شراب کو ناپاک قرار دیا ہے۔
(4)…شیطانی کام قرار دیا ہے۔
(5)…اس سے بچنے کا حکم دیا ہے۔
(6)…کامیابی کا مدار اس سے بچنے پر رکھا ہے۔
(7)… شراب کو عداوت اور بغض کا سبب قرار دیا ہے۔
(8,9)…شراب کو ذکرُاللہ اور نماز سے روکنے والی چیز فرمایا ہے۔
(10)… اس سے باز رہنے کا تاکیدی حکم دیا ہے۔( تفسیرات احمدی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ص۳۷۰)
یہاں ہم شراب نوشی کے چند وہ نتائج ذکر کرتے ہیں جوپوری دنیا میں نظر آ رہے ہیں تاکہ مسلمان ان سے عبرت حاصل کریں اور جو مسلمان شراب نوشی میں مبتلا ہیں وہ اپنے اس برے عمل سے باز آ جائیں۔
(1)…شراب نوشی کی وجہ سے کروڑوں افراد مختلف مُہلک اور خطرناک امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔
(2)… لاکھوں افراد شراب نوشی کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔
(3)…زیادہ تر سڑک حادثات شراب پی کر گاڑی چلانے کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔
(4)…ہزاروں افراد شرابیوں کے ہاتھوں بے قصور قتل وغارت گری کا نشانہ بن رہے ہیں۔
(5)…لاکھوں عورتیں شرابی شوہروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی ہیں۔
(6)…لاکھوں عورتیں شرابی مردوں کی طرف سے جنسی حملوں کا شکار ہو رہی ہیں۔
(7)…والدین کی شراب نوشی کی وجہ سے زندگی کی توانائیوں سے عاری اور مختلف امراض میں مبتلا بچے پیدا ہو رہے ہیں۔
(8)… لاکھوں بچے شرابی والدین کی وجہ سے یتیمی اور اسیری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
(9)…شرابی شخص کے گھر والے اور اہل و عیال ا س کی ہمدردی اور پیار و محبت سے محروم ہو رہے ہیں۔
(10)…ان نقصانات کے علاوہ شراب کے اقتصادی نقصانات بھی بہت ہیں کہ اگر شراب کی خرید و فروخت اور امپورٹ ایکسپورٹ سے حاصل ہونے والی رقم اور ان اخراجات کا موازنہ کیا جائے جو شراب کے برے اثرات کی روک تھام پر ہوتے ہیں تو سب پرواضح ہو جائے گا کہ شراب سے حاصل ہونے والی آمدنی ان ا خراجات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو اس کے برے نتائج کودور کرنے پر ہو رہے ہیں ،مثال کے طور پر شراب نوشی کی وجہ سے ہونے والی نفسیاتی اور دیگر بیماریوں کے علاج، نشے کی حالت میں ڈرائیورنگ سے ہونے والے حادثات، پولیس کی گرفتاریاں اور زحمتیں ، شرابیوں کی اولاد کے لئے پرورش گاہیں اور ہسپتال، شراب سے متعلقہ جرائم کے لئے عدالتوں کی مصروفیات، شرابیوں کے لئے قید خانے وغیرہ امور پر ہونے والے اخراجات دیکھے جائیں تو یہ شراب سے حاصل ہونے والی آمدنی سے کہیں زیادہ نظر آئیں گے اور ا س کے علاوہ کچھ نقصانات تو ایسے ہیں کہ جن کاموازنہ مال و دولت سے کیا ہی نہیں جا سکتا جیسے پاک نسلوں کی تباہی، سستی، بے راہ روی، ثقافت و تمدن کی پسماندگی، احساسات کی موت، گھروں کی تباہی، آرزوؤں کی بربادی اور صاحبانِ فکر افراد کی دماغی صلاحیتوں کا نقصان، یہ وہ نقصانات ہیں جن کی تلافی روپے پیسے سے کسی صورت ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے اور شراب نوشی کی آفتِ بد سے نجات عطا فرمائے۔
(2)…جوا ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جوئے کا روپیہ قطعی حرام ہے۔(فتاوی رضویہ، ۱۹ / ۶۴۶)
جوئے کی مذمت میں 2احادیث:
احادیث میں جوئے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے چنانچہ جوئے کے ایک کھیل کے بارے میں حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس نے نرد شیر (جوئے کا ایک کھیل) کھیلا تو گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈبو دیا۔( مسلم، کتاب الشعر، باب تحریم اللعب بالنردشیر، ص۱۲۴۰، الحدیث: ۱۰(۲۲۶۰))
اور حضرت ابوعبد الرحمٰن خطمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص نرد کھیلتا ہے پھر نماز پڑھنے اٹھتا ہے، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو پیپ اور سوئر کے خون سے وضو کرکے نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے۔(مسند امام احمد، احادیث رجال من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۹ / ۵۰، الحدیث: ۲۳۱۹۹)
جوئے کے دنیوی نقصانات:
دینِ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہر اس عمل اور عادت سے روکا ہے جس سے ان کا مالی اور جسمانی نقصان وابستہ ہو اور وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردے۔ ایسی بے شمار چیزوں میں سے ایک چیز جو ا بازی ہے جو کہ معاشرتی امن و سکون اور باہمی محبت و یکانگت کے لئے زہرِ قاتل سے بڑھ کر ہے اور قرآن و حدیث میں مختلف انداز سے مسلمانوں کو اس شیطانی عمل سے روکا گیا ہے لیکن افسوس کہ فی زمانہ مسلمانوں کی ایک تعداد اس خبیث ترین عمل میں مبتلا نظر آ رہی ہے اور یہ لوگ دنیا و آخرت کے لئے حقیقی طور پر مفیدکاموں کو چھوڑ کر اپنے شب و روز کو اسی عمل میں لگائے ہوئے ہیں اور ان کی اسی روش کا نتیجہ ہے کہ ان مسلمانوں کی نہ تودنیوی پَسماندگی دور ہو رہی ہے اور نہ ہی وہ اپنی اخروی کامیابی کے لیے کچھ کر پا رہے ہیں۔ہم یہاں جوئے بازی کے 3 دنیوی نقصانات ذکر کرتے ہیں تاکہ مسلمان انہیں پڑھ کر اپنی حالت پر کچھ رحم کریں اورجوئے سے باز آ جائیں۔
(1)… جوئے کی وجہ سے جوئے بازوں میں بغض، عداوت اور دشمنی پیدا ہو جاتی ہے اور بسا اوقات قتل و غارت گری تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
(2)… جوئے بازی کی وجہ سے مالدار انسان لمحوں میں غربت و افلاس کا شکار ہو جاتا ہے، خوشحال گھر بدحالی کا نظار ہ پیش کر نے لگتے ہیں ، اچھا خاصا آدمی کھانے پینے تک کا محتاج ہو کر رہ جاتا ہے ، معاشرے میں اس کا بنا ہو اوقار ختم ہو جاتا ہے اور سماج میں اس کی کوئی قدرو قیمت اور عزت باقی نہیں رہتی۔
(3)… جوئے باز نفع کے لالچ میں بکثرت قرض لینے اور کبھی کبھی سودی قرض لینے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے اور جب وہ قرض ادا نہیں کر پاتا یا اسے قرض نہیں ملتا تو وہ ڈاکہ زنی اور چوری وغیرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے حتّٰی کہ جوئے باز چاروں جانب سے مصیبتوں میں ایسا گھر جاتا ہے کہ بالآخر وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور انہیں اس شیطانی عمل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(3)…انصاب۔ حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پتھر ہیں جن کے پاس کفار اپنے جانور ذبح کرتے تھے ۔( ابن کثیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۶۱)
امام عبداللہ بن احمد نسفیرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس سے مراد بت ہیں کیونکہ انہیں نصب کر کے ان کی پوجا کی جاتی ہے۔( مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ص۳۰۲)
علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ اگر انصاب سے مراد وہ پتھر ہوں جن کے پاس کفار اپنے جانور ذبح یا نَحر کرتے تھے تو ان پتھروں کوناپاک ا س لئے کہا گیا تاکہ کمزور ایمان والے مسلمانوں کے دلوں میں اگر ان کی کوئی عظمت باقی ہے تو وہ بھی نکل جائے، اور اگر انصاب سے مراد وہ بت ہوں جن کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے(ان کے پاس جانور ذبح کئے جاتے ہوں یا نہیں ) تو انہیں ناپاک ا س لئے کہا گیا تاکہ سب پر اچھی طرح واضح ہو جائے کہ جس طرح اصنام سے بچنا واجب ہے اسی طرح انصاب سے بچنا بھی واجب ہے۔( البحر المحیط، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۴ / ۱۶)
(4)… ازلام۔ زمانۂ جاہلیت میں کفار نے تین تیر بنائے ہوئے تھے، ان میں سے ایک پر لکھا تھا ’’ہاں ‘‘ دوسرے پر لکھا تھا ’’نہیں ‘‘ اور تیسرا خالی تھا ۔ وہ لوگ ان تیروں کی بہت تعظیم کرتے تھے اور یہ تیر کاہنوں کے پاس ہوتے اور کعبہ معظمہ میں کفارِ قریش کے پاس ہوتے تھے(جب انہیں کوئی سفر یا اہم کام درپیش ہوتا تو وہ ان تیروں سے پانسے ڈالتے اور جو ان پر لکھا ہوتا اس کے مطابق عمل کرتے تھے)۔پرندوں سے اور وحشی جانوروں سے برا شگون لینا اور کتابوں سے فال نکالنا وغیرہ بھی اسی میں داخل ہے۔( البحر المحیط، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۴ / ۱۶)
کاہنوں اور نجومیوں کے پاس جانے کی مذمت:
احادیث میں کاہنوں اور نجومیوں کے پاس جانے کی شدید مذمت کی گئی ہے،ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو کسی نجومی یا کاہن کے پاس گیا اور اس کے قول کی تصدیق کی تو گویااِس نے اُس کا انکار کردیا جو (حضرت) محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کیا گیا۔(مستدرک، کتاب الایمان، التشدید فی اتیان الکاہن وتصدیقہ، ۱ / ۱۵۳، الحدیث: ۱۵)
(2)…حضرت واثلہ بن اسقع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو کاہن کے پاس آیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو چالیس (40) راتوں تک اس کی توبہ روک دی جاتی ہے اور اگر اُس نے اِس کی تصدیق کی تو کفر کیا۔(معجم ا لکبیر ، ابوبکر بن بشیر عن واثلۃ، ۲۲ / ۶۹، الحدیث: ۱۶۹)
(3)…حضرت قبیصہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’خط کھینچنا، فال نکالنا اور پرندے اُڑا کر شگون لینا جِبْت (یعنی شیطانی کاموں ) میں سے ہے۔(ابوداؤد، کتاب الطب، باب فی الخط وزجر الطیر، ۴ / ۲۲، الحدیث: ۳۹۰۷)
آیت’’ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے :
(1)… صرف نیک اعمال کرنے سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی بلکہ برے اعمال سے بچنا بھی ضروری ہے۔ یہ دونوں تقویٰ کے دو پر ہیں ، پرندہ ایک پر سے نہیں اڑتا۔
(2)… نیکیاں کرنا اور برائیوں سے بچنا دنیا اور دکھلاوے کے لئے نہ ہونا چاہئے بلکہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہونا چاہئے۔
{ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ:بیشک شیطان تو چاہتا ہے ۔} اس آیت میں شراب اور جوئے کے نتائج اور وبال بیان فرمائے گئے کہ شراب خوری اور جوئے بازی کا ظاہری دنیوی وبال تو یہ ہے کہ اس سے آپس میں بغض اور عداوتیں پیدا ہوتی ہیں جبکہ ظاہری دینی وبال یہ ہے کہ جوشخص اِن برائیوں میں مبتلا ہو وہ ذکرِ الٰہی اور نماز کے اوقات کی پابندی سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر اور نماز سے روکے ، وہ بری ہے اور چھوڑنے کے قابل ہے، اسی لئے جمعہ کی اذان کے بعد تجارت حرام ہے۔([1])
[1] …بغض کے بارے میں اہم معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’بغض و کینہ‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ:اوراللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو۔} یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جس کام کا تمہیں حکم دیا اور جس کام سے منع کیا اس میں ان کا حکم مانو اور احکامات اور ممنوعات میں اللہتعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مخالفت کرنے سے ڈرو،پھر اگر تم اُس سے منہ موڑ لو جس کا تمہیں حکم دیا گیا اور جس سے منع کیا گیا تو جان لو کہ اس سے ہمارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ ہمارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر تو صرف واضح طور پرتبلیغ فرمادینا لازم ہے، بلکہ اس میں تمہارا اپنا نقصان ہے کہ تم اپنے اعراض کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب کے مستحق ٹھہرو گے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۲، ۱ / ۵۲۵، مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۳۰۲، ملتقطاً)
{ لَیْسَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ : جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان پرکوئی گناہ نہیں۔} یہ آیتِ مبارکہ اُن صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے حق میں نازل ہوئی جو شراب حرام کئے جانے سے پہلے وفات پاچکے تھے اور چونکہ شراب حرام نہ تھی تو وہ پی لیا کرتے تھے۔ جب اُن کے بعد شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اُن کی فکر ہوئی کہ اُن سے شراب کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی یا نہیں ؟( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۸، الحدیث: ۳۰۶۲)نیز جوصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم دیگر شہروں میں موجود ہیں اور انہیں اس بات کا علم ابھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب حرام قرار دے دی ہے ،اگر وہ اِس لاعلمی کے کچھ عرصہ میں شراب پی لیں تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اُن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ حرمت کا حکم نازل ہونے سے پہلے جن نیک ایمانداروں نے کچھ کھایا پیا وہ گنہگار نہیں ، اسی طرح جنہیں حرمت کا حکم نازل ہو جانے کا علم نہیں ان پر بھی حکم کی معلومات ہونے سے پہلے شراب پی لینے کی صورت میں کچھ گناہ نہیں۔
اِس آیتِ مبارکہ میں لفظ ’’اِتَّقَوْا‘‘جس کے معنیٰ ڈرنے اور پرہیز کرنے کے ہیں ، تین مرتبہ آیا ہے: پہلے سے مراد شرک سے بچنا، دوسرے سے مراد تمام حرام کاموں اور گناہوں سے بچنا اور تیسرے سے مراد شبہات کا ترک کر دینا ہے۔( مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۳۰۲)
بعض مفسرین نے فرمایا کہ پہلے سے مراد تمام حرام چیزوں سے بچنا اور دوسرے سے اُس پر قائم رہنا اور تیسرے سے مراد وحی کے نازل ہونے کے زمانے میں یا اُس کے بعد جو چیزیں منع کی جائیں اُن کو چھوڑ دینا ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۳، ۱ / ۵۲۵، مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۳۰۳، جمل، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۲۷۳)
بعض مفسرین نے یہ معنیٰ بیان کیا کہ پہلے بھی گناہوں سے بچتے رہے ہوں اور اب بھی بچتے رہیں اور آئندہ بھی بچتے رہیں۔( تفسیرکبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۳، ۴ / ۴۲۷)
{ لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ:ضرور اللہ تمہیں آزمائے گا۔} 6 ہجری جس میں حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا، اس سال مسلمان حالت ِ احرام میں تھے۔اُس حالت میں وہ اِس آزمائش میں ڈالے گئے کہ شکار کئے جانے والے جانور اور پرندے بڑی کثرت سے آئے اور اُن کی سواریوں پر چھا گئے۔ اتنی کثرت تھی کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکیلئے انہیں ہتھیار سے شکار کرلینا بلکہ ہاتھ سے پکڑ لینا بالکل اختیا رمیں تھا، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۱ / ۵۲۵) لیکن صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمحکمِ الٰہی کی پابندی میں ثابت قدم رہے اور حالت ِ احرام میں شکار نہ کیا۔ اس سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عظمت بھی ظاہر ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی گناہ کے اسباب و مواقع جس قدر کثرت سے موجود ہوں ان سے بچنے میں اتنا ہی زیادہ ثواب ہے، جیسے نوجوان کو تقویٰ و پرہیزگاری اور پارسائی کا ثواب بوڑھے کی بَنِسبت زیادہ ہے۔ یونہی جو برے لوگوں کے درمیان بھی نیک رہے وہ نیکوں کے درمیان نیک رہنے والے سے بہتر ہے۔ حضرت سیدنا یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام اور زلیخا کا واقعہ بھی اِس بات کی قوی دلیل ہے لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ اِن باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ برے دوستوں کی صحبت میں رہ کریا گناہ کی جگہ جاکر نیک بننے کی کوشش کرے تاکہ زیادہ بڑا متقی بنے بلکہ حتی الامکان ایسی صحبت اور مقام سے بچنا ہی چاہیے کہ زیادہ تقویٰ کی امید پر کہیں اصل ہی سے نہ جاتے رہیں۔
{ لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ: حالتِ احرام میں شکار کو قتل نہ کرو۔}اس آیتِ مبارکہ میں حالت ِ احرام میں شکار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ یہاں اِس کے چند مسائل بیان کئے جاتے ہیں۔
حالتِ احرام میں شکار کرنے کے شرعی مسائل:
(1)… مُحْرِم یعنی احرام والے پر شکار یعنی خشکی کے کسی وحشی جانور کو مارنا حرام ہے۔
(2)… جانور کی طرف شکار کرنے کے لئے اشارہ کرنا یاکسی طرح بتانا بھی شکار میں داخل اور ممنوع ہے۔
(3)…حالتِ احرام میں ہر وحشی جانور کا شکار ممنوع ہے خواہ وہ حلال ہو یا نہ ہو ۔
(4)… کاٹنے والا کتا، کوا، بچھو، چیل، چوہا، بھیڑیا اور سانپ ان جانوروں کو احادیث میں فَوَاسِق فرمایا گیا ہے اور ان کے قتل کی اجازت دی گئی ہے ۔
(5)…مچھر، پِسُّو، چیونٹی، مکھی اور حشراتُ الارض اور حملہ آور درندوں کو مارنا معاف ہے۔(تفسیر احمدی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ص ۳۷۲-۳۷۷)
(6)… حالتِ احرام میں جن جانوروں کا مارنا ممنوع ہے وہ ہر حال میں ممنوع ہے جان بوجھ کر ہو یاغلطی سے۔ جان بوجھ کر مارنے کا حکم تو اس آیت میں موجود ہے غلطی سے مارنے کا حکم حدیث شریف سے ثابت ہے۔(مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۳۰۳)
حالتِ احرام میں شکار کے کفارے کی تفصیل:
حالت ِ احرام میں شکار کے کفاروں سے متعلق یہ تفصیل ہے۔
(1)… خشکی کا وحشی جانور شکار کرنا یا اس کی طرف شکار کرنے کو اشارہ کرنا یا اور کسی طرح بتانا یہ سب کام حرام ہیں اور سب میں کفارہ واجب اگرچہ اُس کے کھانے میں مجبور ہو یعنی بھوک سے مرا جاتا ہو اور کفارہ اس کی قیمت ہے یعنی دو عادل وہاں کے حساب سے جو قیمت بتا دیں وہ دینی ہوگی اور اگر وہاں اُس کی کوئی قیمت نہ ہو تو وہاں سے قریب جگہ میں جو قیمت ہو وہ ہے اور اگر ایک ہی عادل نے بتادیا جب بھی کافی ہے ۔
(2)… شکار کی قیمت میں اختیار ہے کہ اس سے بھیڑ بکری وغیرہ اگر خرید سکتا ہے تو خرید کر حرم میں ذبح کرکے فقراء کو تقسیم کردے یا اُس کا غلہ خرید کر مسا کین پر تَصَدُّق کردے، اتنی مقدار دے کہ ہر مسکین کو صدقۂ فطر کی مقدار پہنچ جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس قیمت کے غلہ میں جتنے صدقے ہو سکتے ہوں ہر صدقہ کے بدلے ایک روزہ رکھے اور اگر کچھ غلہ بچ جائے جو پورا صدقہ نہیں تو اختیار ہے وہ کسی مسکین کو دیدے یا اس کے عوض ایک روزہ رکھے اور اگر پوری قیمت ایک صدقہ کے لائق بھی نہیں تو بھی اختیار ہے کہ اتنے کا غلہ خرید کر ایک مسکین کو دیدے یا اس کے بدلے ایک روزہ رکھے۔
(3)…کفارہ کا جانور حرم کے باہر ذبح کیا تو کفارہ ادا نہ ہو گا اور اگر اس میں سے خود بھی کھایا تو اتنے کا تاوان دے۔(بہارِ شریعت، حصہ ششم، جرم اور ان کے کفارے کا بیان، ۱ / ۱۱۷۹-۱۱۸۰)
{ اُحِلَّ لَكُمْ:تمہارے لئے حلال کردیا گیا۔} اس آیت میں یہ مسئلہ بیان فرمایا گیا کہ محرم کے لئے دریا کا شکار حلال ہے اور خشکی کا حرام ۔ دریا کا شکار وہ ہے جس کی پیدائش دریامیں ہو اور خشکی کا وہ جس کی پیدائش خشکی میں ہو۔( بحر الرائق، کتاب الحج، فصل ان قتل محرم صیداً۔۔۔ الخ، ۳ / ۴۷)
یاد رہے کہ دو شکار حرام ہیں : محرم کاکیا ہوا اور حرم کا۔ حرم شریف میں رہنے والے شکارکئے جانے والے جانور کو نہ وہ آدمی شکار کر سکتا ہے جو حالتِ احرام میں ہو اور نہ بغیر احرام والا، وہ اللہ تعالیٰ کی امان میں ہیں۔ یہاں احرام کے شکار کی حرمت کا ذکر ہے جو احرام ختم ہونے پر ختم ہو جاتی ہے مگر حرم کا شکار ہمیشہ ہر شخص کے لئے حرام ہے خواہ وہ شخص احرام میں ہو یا احرام سے فارغ بلکہ حرم کے شکار کو اس کی جگہ سے اٹھانا بھی منع ہے۔
{جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ:اللہ نے ادب والے گھر کعبہ کو لوگوں کے قیام کا ذریعہ بنادیا ۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ نے خانۂ کعبہ کو لوگوں کیلئے قیام کا باعث بنایا کہ وہاں دینی اوردنیوی اُمور کا قیام ہوتا ہے، خوفزدہ وہاں پناہ لیتا ہے، ضعیفوں کو وہاں امن ملتا ہے، تاجر وہاں نفع پاتے ہیں اور حج و عمرہ کرنے والے وہاں حاضر ہو کر مناسک ادا کرتے ہیں لہٰذا یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بڑی نعمت ہے۔یونہی ذی الحجہ جس میں حج کیا جاتا ہے اور ہَدی کے جانور ان سب کے ساتھ بھی دینی اور دنیاوی امور وابستہ ہیں کہ اس کے گوشت سے غریبوں اور امیروں کا گزارہ ہوتا ہے اور اس سے ایک رکنِ اسلامی ادا ہوتا ہے۔
{ اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ : جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا بھی ہے۔} ارشاد فرمایا گیا کہ جان رکھو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سخت عذاب دینے والا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا، مہربان بھی ہے،تو حرم اور احرام کی حرمت کا لحاظ رکھو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتوں کا ذکر فرمانے کے بعد اپنی صفت ’’شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘ ذکر فرمائی تاکہ خوف و امید سے ایمان کی تکمیل ہو ،اس کے بعد صفت’’غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘بیان فرما کر اپنی وسعت ِرحمت کا اظہار فرمایا۔
{ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ:رسول پر صرف تبلیغ لازم ہے۔}ارشاد فرمایا کہ میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر صرف تبلیغ لازم ہے تو جب میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حکم پہنچا کر فارغ ہوگئے تو تم پر اطاعت لازم ہوگئی اور حجت قائم ہوگئی اور تمہارے لئے عذر کی گنجائش باقی نہ رہی۔ اس میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بے نیازی بھی مذکور ہے کہ وہ تمہارے حاجت مند نہیں بلکہ تم ان کے محتاج ہو۔ اگر کوئی بھی ان کی اطاعت نہ کرے تو ان کا کچھ نہ بگڑے گا کیونکہ وہ تبلیغ فرما چکے ،جیسے سورج سے اگر کوئی نو ر نہ لے تو سورج کو کوئی نقصان نہیں بلکہ نقصان اسی کا ہے جو سورج سے نور نہیں لے رہا۔
{ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ:اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور جو تم چھپاتے ہو۔}یعنی تمہارے ظاہری اور باطنی احوال میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں ہے لہٰذا جیسے تمہارے اعمال ہوں گے اللہ تعالیٰ ویسی تمہیں جزا دے گا۔
{ قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ: تم فرمادو کہ گندا اور پاکیزہ برابر نہیں ہیں۔}اس آیت میں فرمایا گیا کہ حلال و حرام، نیک و بد ،مسلم و کافر اور کھرا کھوٹا ایک درجہ میں نہیں ہوسکتے بلکہ حرام کی جگہ حلال، بد کی جگہ نیک، کافر کی جگہ مسلمان اور کھوٹے کی جگہ کھرا ہی مقبول ہے۔
{ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ:اگرچہ گندے کی کثرت تمہیں تعجب میں ڈالے۔}اس کا معنی یہ ہے کہ دنیا داروں کو مال و دولت کی کثرت اور دنیا کی زیب و زینت بھاتی ہے حالانکہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ سب سے اچھی اور سب سے زیادہ باقی رہنے والی ہیں کیونکہ دنیا کی زینت و آرائش اور اس کی نعمتیں ختم ہو جائیں گی جبکہ وہ نعمتیں ہمیشہ باقی رہیں گی جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔( خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۱ / ۵۳۰)
دنیا کی مذمت :
اس سے معلوم ہو اکہ دنیا کے مال و دولت کی چاہت،ا س کی نعمتوں اور آسائشوں کی خواہشات اور اس کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کی تمنا میں لگے رہنا اور اپنی آخرت کی تیاری سے غافل رہنا انتہائی مذموم ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ‘‘(اٰل عمران:۱۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:لوگوں کے لئے ان کی خواہشات کی محبت کو آراستہ کردیا گیا یعنی عورتوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیروں اور نشان لگائے گئے گھوڑوں اورمویشیوں اور کھیتیوں کو( ان کے لئے آراستہ کردیا گیا۔) یہ سب دنیوی زندگی کا سازوسامان ہے اور صرف اللہ کے پاس اچھا ٹھکاناہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَاۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَةِ نُؤْتِهٖ مِنْهَاؕ-وَ سَنَجْزِی الشّٰكِرِیْنَ‘‘(اٰل عمران:۱۴۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جو شخص دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے دنیا کا کچھ انعام دیدیں گے اور جو آخرت کا انعام چاہتا ہے ہم اسے آخرت کا انعام عطافرمائیں گے اورعنقریب ہم شکر ادا کرنے والوں کو صلہ عطا کریں گے۔
حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص ہمیشہ دنیا کی فکر میں مبتلارہے گا (اور دین کی پرواہ نہ کرے گا )تواللہ تعالیٰ ا س کے تمام کام پریشان کر دے گا اور ا س کی مفلسی ہمیشہ اس کے سامنے رہے گی اور اسے دنیا اتنی ہی ملے گی جتنی اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے اور جس کی نیت آخرت کی جانب ہو گی تو اللہ تعالیٰ اس کی دل جمعی کے لئے ا س کے تمام کام درست فرما دے گا اور ا س کے دل میں دنیا کی بے پروائی ڈال دے گا اور دنیا اس کے پاس خودبخود آئے گی۔(ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الہم بالدنیا، ۴ / ۴۲۴، الحدیث: ۴۱۰۵)
اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’دنیا اس کا گھر ہے جس کا (آخرت میں ) کوئی گھر نہیں اور اس کا مال ہے جس کا دوسرا کوئی مال نہیں اور دنیا کے لئے وہ آدمی جمع کرتا ہے جس کے پاس عقل نہیں۔(شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، فصل فیما بلغنا عن الصحابۃ۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۷۵، الحدیث: ۱۰۶۳۸)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جس نے اپنی دنیا سے محبت کی اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے اپنی آخرت سے محبت کی ا س نے اپنی دنیا کو نقصان پہنچایا، پس تم فنا ہونے والی (دنیا) پر باقی رہنے والی (آخرت ) کو ترجیح دو۔( مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری، ۷ / ۱۶۵، الحدیث: ۱۹۷۱۷)
اللہتعالیٰ تمام مسلمانوں کو اپنی دنیوی بہتری کے ساتھ ساتھ اپنی اخروی تیاری کی طرف بھی توجہ کرنے اور اس کے لئے بھر پور کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین۔
{ لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ: ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔} اس آیت ِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک روز سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ’’جس کو جو دریافت کرنا ہو دریافت کرے ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’حذافہ۔ پھر فرمایا ’’اور پوچھو، تو حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اُٹھ کر ایمان و رسالت کا اقرار کرکے معذرت پیش کی۔( بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الظہر عند الزوال، ۱ / ۲۰۰، الحدیث: ۵۴۰)
امام ابنِ شہاب زہری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن حذافہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی والدہ نے اُن سے شکایت کی اور کہا کہ ’’تو بہت نالائق بیٹا ہے ،تجھے کیا معلوم کہ زمانۂ جاہلیت کی عورتوں کا کیا حال تھا؟ خدانخواستہ، تیری ماں سے کوئی قصور ہوا ہوتا تو آج وہ کیسی رسوا ہوتی۔ اس پرحضرت عبداللہ بن حذافہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ اگر سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکسی حبشی غلام کو میرا باپ بتادیتے تو میں یقین کے ساتھ مان لیتا۔( تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۵۷)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ’’لوگ بطریقِ اِستہزاء اس قسم کے سوا ل کیا کرتے تھے، کوئی کہتا میرا باپ کون ہے ؟کوئی پوچھتا کہ میری اونٹنی گم ہوگئی ہے، وہ کہاں ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب لا تسألوا عن اشیاء ان تبد لکم تسؤکم، ۳ / ۲۱۸، الحدیث: ۴۶۲۲)
مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ میں حج فرض ہونے کا بیان فرمایا۔ اس پر ایک شخص نے کہا، کیا ہر سال فرض ہے؟ نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سکوت فرمایا۔ سائل نے سوال کی تکرار کی تو ارشاد فرمایا کہ’’ جو میں بیان نہ کروں اس کے درپے نہ ہو، اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا اور تم نہ کرسکتے۔( مسلم، کتاب الحج۔، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، ص ۶۹۸، الحدیث: ۴۱۲(۱۳۳۷))
آیت’’ لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ ‘‘ اوراس کی تفسیرمیں مذکورروایات سے معلوم ہونے والی اہم باتیں :
اس آیت اور ا س کی تفسیر میں جو روایات ذکر ہوئیں ان سے چار اہم باتیں معلوم ہوئیں:
(1)…حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا علم غیب:ان روایات سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غیب کا علم رکھتے ہیں کیونکہ کسی کا حقیقی باپ کون ہے؟ اس کا تعلق غیب سے ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کلی علم عطا فرمایا گیا ورنہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ نہ فرماتے کہ جو چاہو پوچھو بلکہ فرماتے کہ فلاں فلاں شعبے کے متعلق پوچھ لو یا فرماتے کہ صرف شریعت کے متعلق جو پوچھنا چاہو پوچھ لو۔ سرورِعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بغیر کسی قید کے فرمانا کہ جوپوچھنا ہے پوچھو اور پوچھنے والوں کا بھی ہر طرح کی بات پوچھ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب کچھ جانتے ہیں اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم یہی عقیدہ رکھتے تھے۔
(2)…حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اختیارات: آخری روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اختیار دیا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جس چیز کو فرض فرمادیں وہ فرض ہوجائے۔
(3)… نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر شفقت: آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی امت پر نہایت شفیق ہیں۔ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اگر ایک مرتبہ ہاں فرمادیتے تو ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا لیکن تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے امت پر آسانی فرمائی اور ہاں نہیں فرمایا۔
نوٹ: سرکارِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کے متعلق فتاویٰ رضویہ کی 29ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی درج ذیل کتابوں کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔
(1)خَالِصُ الْاِعْتِقَادْ(علم غیب سے متعلق 120دلائل پر مشتمل ایک عظیم کتاب)(2)اَنْبَاءُالْمُصْطَفٰی بِحَالِ سِرٍّ وَاَخْفٰی(حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کومَاکَانَ وَمَایَکُوْنُ کاعلم دیئے جانے کا ثبوت)(3)اِزَاحَۃُ الْعَیْبِ بِسَیْفِ الْغَیْبِ (علم غیب کے مسئلے سے متعلق دلائل اوربدمذہبوں کا رد)۔اور سرکارِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کائنات اور شریعت دونوں کے متعلق اختیارات جاننے کیلئے فتاوی رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عظیم تصنیف اَلْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ البلاء(مصطفٰی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والاکہنے والوں کے لئے انعامات)کا مطالعہ فرمائیں۔
(4)… حلت و حرمت کا اہم اصول: اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جس امر کی شریعت میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح و جائز ہے۔ حضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی حدیث میں ہے ،رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا کہ’’ حلال وہ ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا اورحرام وہ ہے جس کو اُس نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا تووہ معاف ہے۔( ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفراء، ۳ / ۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲)
{ قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ: بیشک تم سے پہلے ایک قوم نے ان اشیاء کے بارے میں سوال کیا تھا۔} مسلمانوں کو ایک حکم دینے کے بعد سابقہ امتوں کے واقعات سے سمجھایا کہ تم سے پہلی قوموں نے بھی اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے بے ضرورت سوالات کئے اور جب حضراتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے احکام بیان فرما دیئے تو وہ ان احکام کو بجانہ لاسکے۔تو تم سوالات کرنے ہی سے بچو کیونکہ اگر تمہیں تمہارے ہر سوال کا جواب دے دیا گیا تو ہو سکتا ہے کہ کسی سوال کا جواب تمہیں برا لگے۔
احادیث میں بے ضرورت سوالات کرنے کی مذمت بیان کی گئی ہے،اس سے متعلق 3احادیث درج ذیل ہیں ، چنانچہ
(1)…حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ مسلمانوں میں سب سے بڑ امجرم وہ ہے جس نے ایسی چیز کے بارے میں سوا ل کیا جو حرام نہیں کی گئی تھی لیکن اس کے سوال کرنے کے باعث حرام کر دی گئی۔(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب ما یکرہ من کثرۃ السؤال۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۰۲، الحدیث: ۷۲۸۹)
(2)…حضرت ابو ثعلبہ خُشَنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے کچھ حدیں مقرر کی ہیں تو ان سے آگے نہ بڑھو، کچھ فرائض لازم فرمائے ہیں تو انہیں ضائع نہ کرو، کچھ چیزیں حرام کی ہیں تو ان کی حرمت نہ توڑو اورتم پر رحمت فرماتے ہوئے کچھ چیزوں سے بغیر بھولے سکوت فرمایا ہے تو ان کے بارے میں بحث نہ کرو۔( مستدرک، کتاب الاطعمۃ، شان نزول ما احل اللہ فہو حلال، ۵ / ۱۵۷، الحدیث: ۷۱۹۶)
(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میں تمہیں جس کام سے روکوں اس سے اجتناب کرو اور جس کام کا تمہیں حکم دوں اسے اپنی استطاعت کے مطابق کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگ بکثرت سوالات کرنے اور اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔( مسلم، کتاب الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، ص۶۹۸، الحدیث: ۴۱۲(۱۳۳۷))
{ مَا جَعَلَ اللّٰهُ : اللہ نے مقرر نہیں کیا۔} زمانۂ جاہلیت میں کفار کا یہ دستور تھا کہ جو اونٹنی پانچ مرتبہ بچے جنتی اور آخری مرتبہ اس کے نر ہوتا تواس کا کان چیر دیتے پھر نہ اس پر سواری کرتے اور نہ اس کو ذبح کرتے اور نہ پانی اور چارے پر سے ہنکاتے، اس کو بَحِیۡرَہ کہتے۔ اور جب سفر درپیش ہوتا یا کوئی بیمار ہوتا تو یہ نذر کرتے کہ اگر میں سفر سے بخیریت واپس آؤں یا تندرست ہوجاؤں تو میری اونٹنی سائِبَہ ہے اور اس اونٹنی سے بھی نفع اُٹھانا بَحِیۡرَہ کی طرح حرام جانتے اور اس کو آزاد چھوڑ دیتے اور بکری جب سات مرتبہ بچے جن دیتی تو اگر ساتواں بچہ نر ہوتا توا س کو مرد کھاتے اور اگر مادہ ہوتا تو بکریوں میں چھوڑ دیتے اور ایسے ہی اگر نر، مادہ دونوں ہوتے تو کہتے کہ یہ اپنے بھائی سے مل گئی، اس کو وَصِیْلَہ کہتے اور جب نراونٹ سے دس مرتبہ اونٹنی کو گابھن کروالیا جاتا تو اس کو چھوڑ دیتے، نہ اس پر سواری کرتے، نہ اس سے کام لیتے اور نہ اس کو چارے پانی سے روکتے، اس کو اَلْحَامِیْ کہتے ۔( مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۳۰۶)
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ بحیرہ وہ ہے جس کا دودھ بتوں کے لئے روکتے تھے ،کوئی اس جانور کا دودھ نہ نکالتا اور سائبہ وہ جس کو اپنے بتوں کے لئے چھوڑ دیتے تھے کوئی ان سے کام نہ لیتا۔( بخاری، کتاب المناقب، باب قصۃ خزاعۃ، ۲ / ۴۸۰، الحدیث: ۳۵۲۱، مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب النار یدخلہا الجبارون۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۸، الحدیث: ۵۱(۲۸۵۶))
یہ رسمیں زمانۂ جاہلیت سے ابتدائے عہدِاسلام تک چلی آرہی تھیں اس آیت میں ان کو باطل کیا گیا اور فرمایا کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مقرر نہیں کئے بلکہ کفار اللہ عَزَّوَجَلَّپر جھوٹ باندھتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو حرام نہیں کیا اُس کی طرف اِس کی نسبت غلط ہے۔یہ لوگ بیوقوف ہیں کہ جو اپنے سرداروں کے کہنے سے ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور اتنا شعور نہیں رکھتے کہ جو چیز اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسُول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حرام نہ کی اس کو کوئی حرام نہیں کرسکتا۔
جانور پر کسی کا نام پکارنے سے متعلق اہم مسئلہ:
آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جانور کی زندگی میں اس پر کسی کا نام پکارنا اسے حرام نہیں کر دیتا۔ ہاں ذبح کے وقت غیرِ خدا کا نام پکارنا حرام کر دے گا۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جو جانور حلال ہو اسے خواہ مخواہ حرام کہنا مشرکین کا طریقہ اور سراسر جہالت ہے۔
{ وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ:اور جب انہیں کہا جائے۔} مشرکوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرو تو وہ کہتے کہ ہمارے لئے ہمارے باپ دادا کا دین کافی ہے۔ اس پر فرمایا کہ باپ دادا کی اتباع تب درست ہوتی جب وہ علم رکھتے اور سیدھی راہ پر ہوتے۔
آباؤ اَجداد کی ناجائز رسمیں پوری کرنے کی مذمت:
اللہتعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کی دعوت ملنے پرکفار نے جو جواب دیا اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کے مقابلے میں جاہل باپ دادوں کی رسم اختیار کرنا کفار کا طریقہ ہے۔اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو خوشی کی تقریبات میں اور غمی کے مواقع پر ناجائز و حرام رسمیں کرتے ہیں اور ان رسموں میں شامل نہ ہونے والے کو برا بھلا کہتے ہیں اور ان رسموں سے منع کرنے والے سے کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان میں یہ رسمیں عرصۂ دراز سے چلی آ رہی ہیں ،ہم انہیں نہیں چھوڑ سکتے۔ اللہ تعالیٰ ایسے مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔ اٰمین
نیک لوگوں کی پیروی ضروری ہے:
آیت کے آخری حصے سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی اتباع اور ان کی پیروی کرنی ضروری ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰارشاد فرماتا ہے:
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘(توبہ:۱۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اے ایمان والواللہسے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ارشا د ہے:ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرو جن کی صورت دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے، جن کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے اور جن کا عمل تمہیں آخرت کا شوق دلائے۔( جامع بیان العلم وفضلہ، باب جامع فی آداب العالم والمتعلم، ص۱۷۲)
{عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ: تم اپنی فکر کرو۔}مسلمان کفار کی اسلام سے محرومی پر افسوس کرتے تھے اور انہیں رنج ہوتا تھا کہ کفار عناد میں مبتلا ہو کر دولتِ اسلام سے محروم رہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن کی تسلی فرما دی کہ اس میں تمہارا کچھ ضرر نہیں ، اَمْر بِالْمَعْرُوف وَ نَہْی عَنِ الْمُنْکَرکا فرض ادا کرکے تم بری الذمہ ہوچکے ہو،تم اپنی نیکی کی جزا پاؤ گے ۔
حضرت عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’اس آیت میں اَمْر بِالْمَعْرُوف وَ نَہْی عَنِ الْمُنْکَر کے وجوب کی بہت تاکید کی ہے، کیونکہ اپنی فکر رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ’’ایک دوسرے کی خبر گیری کرے، نیکیوں کی رغبت دلائے اور بدیوں سے روکے۔( خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۱ / ۵۳۴)
اور مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے کتنی پیاری بات ارشاد فرمائی جس کا خلاصہ ہے کہ تم اپنی فکر کرو یعنی عقائد درست کرکے ، نیک اعمال کر کے اپنی فکر کرو، اعمال میں تبلیغ بھی شامل ہے لہٰذا جو قدرت کے باوجود تبلیغ نہ کرے وہ راہ پر ہی نہیں۔(نور العرفان، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ص۱۹۸)
نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے بارے میں احادیث :
یہاں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کاذکر ہوا، اس کی مناسبت سے ہم یہاں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے بارے 3 احادیث ذکر کرتے ہیں :
(1)…حضرت ابو بکر صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْۚ-لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ‘‘اور میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے سنا ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتے ) دیکھیں اور اسے (ظلم سے) نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہتعالیٰ ان سب کو عذاب میں مبتلاء کر دے۔( ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی نزول العذاب اذا لم یغیّر المنکر، ۴ / ۶۹، الحدیث: ۲۱۷۵)
(2)…اور ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اے لوگو تم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان’’عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ‘‘ کو پڑھ کر دھوکے میں مبتلا نہ ہو جانا کہ تم میں سے کوئی کہنے لگے ’’میں تو بس اپنی جان کی فکر کروں گا‘‘اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم! تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے ورنہ تم پر تمہارے شریر لوگ حکمران بن جائیں گے جو تمہیں بڑی سخت تکلیفیں پہنچائیں گے، پھر تمہارے نیک لوگ دعا کریں گے بھی توان کی دعا قبول نہ کی جائے گی۔( کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الافعال، الامر بامعروف والنہی عن المنکر، ۲ / ۲۷۱، الجزء الثالث، الحدیث: ۸۴۴۲، تفسیر طبری، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۵ / ۹۸-۹۹)
(3)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اے لوگو! تمہیں لازمی طور پر نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہو گا ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر ظالم حکمران مُسلَّط کر دے گا جو تمہارے بڑوں کی بزرگی کا خیال نہیں رکھے گا اور تمہارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرے گا، تمہارے نیک لوگ ا س کے خلاف دعا مانگیں گے لیکن ان کی دعا قبول نہ ہو گی اور تم مدد مانگو گے لیکن تمہیں مدد نہ ملے گی(احیاء علوم الدین، کتاب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، الباب الاول فی وجوب الامر بالمعروف۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۸۳)۔[1]
[1]۔۔۔۔۔ نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کی ترغیب ، جذبہ اور موقع پانے کے لئے دعوت اسلامی سے وابستگی اور مدنی قافلوں میں سفر بہت مفید ہے۔
{ شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ:تمہاری آپس کی گواہی۔} آیت ِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ مہاجرین میں سے ایک صاحب جن کا نام بُدَیْلْ تھا وہ تجارت کے ارادے سے دو عیسائیوں کے ساتھ ملک ِشام کی طرف روانہ ہوئے۔ اُن عیسائیوں میں سے ایک کانام تمیم بن اَوْسْ داری تھا اور دوسرے کاعدی بن بداء۔شام پہنچتے ہی بُدَیْلْ بیمار ہوگئے اور انہوں نے اپنے تمام سامان کی ایک فہرست لکھ کر سامان میں ڈال دی اور ہمراہیوں کو اس کی اطلاع نہ دی۔ جب مرض کی شدت ہوئی تو بدیل نے تمیم اور عدی دونوں کو وصیت کی کہ ان کا تمام سرمایہ مدینہ شریف پہنچ کر اُن کے گھروالوں کے حوالے کردیا جائے۔ پھربُدَیْلْ کی وفات ہوگئی ان دونوں نے اُن کی موت کے بعد ان کا سامان دیکھا تواس میں ایک چاندی کا جام تھا جس پر سونے کا کام کیا ہوا تھا، اس میں تین سو مثقال چاندی تھی، بُدَیْلْ یہ جام بادشاہ کو نذر کرنے کے قصد سے لائے تھے، ان کی وفات کے بعد ان کے دونوں ساتھیوں نے اس جام کو غائب کردیا اور اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد جب یہ لوگ مدینہ طیبہ پہنچے تو انہوں نے بُدَیْلْ کا سامان ان کے گھر والوں کے سپرد کردیا، سامان کھولنے پر فہرست ان کے ہاتھ آگئی جس میں تمام سامان کی تفصیل تھی۔ سامان کو اس فہرست کے مطابق کیا لیکن جام نہ ملا۔ اب وہ تمیم اور عدی کے پاس پہنچے اور انہوں نے دریافت کیا کہ کیا بدیل نے کچھ سامان بیچا بھی تھا ؟انہوں نے کہا: نہیں۔ گھر والوں نے پوچھا کہ کیا کوئی تجارتی معاملہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ پھر گھر والوں نے دریافت کیا کہ کیا بُدَیْلْ بہت عرصہ بیمار رہے اور انہوں نے اپنے علاج میں کچھ خرچ کیا تھا؟ انہوں نے کہا’’ نہیں ‘‘۔ وہ تو شہر پہنچتے ہی بیمار ہوگئے اور جلد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ اس پر ان لوگوں نے کہا کہ ان کے سامان میں ایک فہرست ملی ہے اس میں چاندی کا ایک جام سونے سے مُنَقَّش کیا ہوا جس میں تین سو مثقال چاندی ہے یہ بھی لکھا ہے لیکن وہ موجود نہیں ہے۔ تمیم وعدی نے کہا، ہمیں نہیں معلوم، ہمیں تو جو وصیت کی تھی اس کے مطابق سامان ہم نے تمہیں دے دیا، جام کی ہمیں خبر بھی نہیں۔ یہ مقدمہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دربار میں پیش ہوا۔ تمیم وعدی وہاں بھی انکار پر جمے رہے اور قسم کھالی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(( خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۱ / ۵۳۴))
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی روایت میں ہے کہ پھر وہ جام مکہ مکرمہ میں پکڑا گیا، جس شخص کے پاس تھا اُس نے کہا کہ میں نے یہ جام تمیم وعدی سے خریدا ہے۔ جام کے مالک کے گھروالوں میں سے دو شخصوں نے کھڑے ہو کر قسم کھائی کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ قبول کی جانے کی مستحق ہے، یہ جام ہمارے فوت ہونے والے شخص کا ہے اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۴۴، الحدیث: ۳۰۷۱)
آیت میں یہ حکم فرمایا گیا کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آئے اور زندگی کی اُمید نہ رہے، موت کے آثار و علامات ظاہر ہوں تو اپنوں میں سے دو آدمیوں کو وصیت کا گواہ بنالو اور سفر وغیرہ میں ہو اور اپنے آدمی یعنی مسلمان نہ ملیں توغیر مسلموں کوگواہ بنا لو۔
{ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ:تم ان دونوں گواہوں کو نماز کے بعد روک لو۔}اس سے پہلے وصیت پر گواہ بنانے کا طریقہ بتایا گیا اب قرائن اور علامات کی روشنی میں گواہی میں جھوٹ کا عنصر نمایاں ہوتا نظر آئے تو اس صورت میں گواہی لینے کا طریقہ بتایا گیا کہ جب میت کے ورثا کو وصیت کی گواہی میں شک گزرے تو وہ عصر کی نماز کے بعد گواہوں سے اس طرح گواہی لیں : دونوں گواہ یہ اقرار کرتے ہوئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھائیں کہ ہم گواہی کے بدلے کسی سے کوئی مال نہ لیں گے اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور نہ ہم گواہی چھپائیں گے یعنی جھوٹی قسم نہ کھائیں گے اور نہ کسی کی خاطر ایسا کریں گے، اگر ہم ایسا کریں تو اس وقت ہم ضرور گنہگاروں میں سے ہوں گے۔آیت میں نماز سے مراد عصر کی نماز ہے۔ سب لوگ چاہے ان کا تعلق کسی بھی دین اور مذہب سے ہو اس وقت کی تعظیم کرتے تھے اور اس وقت میں جھوٹی قسم کھانے سے بچتے تھے۔( تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۲ / ۶۰-۶۱)
{ فَاِنْ عُثِرَ عَلٰۤى اَنَّهُمَا اسْتَحَقَّاۤ اِثْمًا :پھر اگر پتہ چلے کہ وہ کسی گناہ کے سزاوار ہوئے۔}وصیت کے گواہوں کا جھوٹ ثابت ہو جائے جیسا کہ یہاں تمیم اور عدی کا جھوٹ ثابت ہوا کہ پیالہ مکہ معظمہ میں پکڑا گیا تو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ میت کے وارثوں میں سے دو آدمی قسم کھا کر کہیں کہ یہ دونوں امین جھوٹے ہیں ، ہماری گواہی یعنی قسم ان دونوں کی گواہی سے زیادہ درست ہے اور ہم حد سے نہیں بڑھے ،اگر ہم ایسا کریں گے تواس وقت ہم ظالموں میں ہوں گے۔ چنانچہ بدیل کے واقعہ میں جب اُن کے دونوں ہمراہیوں کی خیانت ظاہر ہوئی تو بدیل کے ورثاء میں سے دو شخص کھڑے ہوئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ یہ جام ہمارے مُورِث کا ہے اور ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ ٹھیک ہے۔اس کے بعد پیالے کا فیصلہ ان کے حق میں کر دیا گیا۔
{ ذٰلِكَ اَدْنٰى:یہ قریب تر ہے۔} عدی اور تمیم کے واقعے میں گواہی اور قسم کا جو قانون بیان ہوا یعنی جن کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا قسمیں کھانے کے بعد ان کا جھوٹ ثابت ہو جائے تو اب میت کے ورثا میں سے دو شخص قسمیں کھائیں ،اس کی حکمت بتائی جا رہی ہے کہ لوگ اس واقعہ سے عبرت پکڑیں اور شہادتوں میں راہِ حق و صواب نہ چھوڑیں اور اس بات سے ڈرتے رہیں کہ جھوٹی گواہی کا انجام شرمندگی و رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔
جھوٹی قسم کھانے اور جھوٹی گواہی دینے کی مذمت:
فی زمانہ لوگوں کی حالت اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ ان کے نزدیک جھوٹی قسم کھانا، جھوٹی گواہی دینا، جھوٹے مقدمات میں پھنسوا کر اپنے مسلمان بھائی کی عزت تار تار کر دینا، لوہے کی سنگین سلاخوں کے پیچھے لاچارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دینا، اپنے مسلمان بھائی کا ناحق مال ہڑپ کر جانا گویا کہ جرائم کی فہرست میں داخل ہی نہیں۔ اس دنیا کی فانی زندگی کو حرف ِآخر سمجھ بیٹھنا عقلمندی نہیں نادانی اور بیوقوفی کی انتہا ہے، انہیں چاہئے کہ اِن قرآنی آیات اور ان احادیث کو بغور پڑھ کر عبرت حاصل کریں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے جھوٹی قسم پر حلف اٹھایا تاکہ اس کے ذریعے اپنے مسلمان بھائی کا مال ہڑپ کرلے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہو گا۔( بخاری، کتاب الایمان والنذور، باب عہد اللہ عزّوجل، ۴ / ۲۹۰، الحدیث: ۶۶۵۹)
حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔( ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، ۳ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۳۷۳)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اُس نے (اپنے اوپر) جہنم کو واجب کر لیا۔(معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۷۲، الحدیث: ۱۱۵۴۱)
{ یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ:جس دن اللہ رسولوں کو جمع فرمائے گا۔} یہاں سے قیامت کے دن کے کچھ معاملات کو بیان فرمایا جارہا ہے ،اس آیت کاخلاصۂ کلام یہ ہے کہ قیامت کے دن تمام انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سوال کیا جائے گا کہ جب تم نے اپنی اُمتوں کو ایمان کی دعوت دی تھی تو اُنہوں نے تمہیں کیا جواب دیا تھا ؟ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جواب دیں گے: ہمیں کچھ علم نہیں۔ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ جواب اُن کے کمالِ ادب کی شان ظاہر کرتا ہے کہ وہ علمِ الٰہی کے حضور اپنے علم کو بالکل نظر میں نہ لائیں گے اور قابلِ ذکر قرار نہ دیں گے اور معاملہ اللہ تعالیٰ کے علم و عدل کے سپرد فرمادیں گے ورنہ حقیقت میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یقینا جانتے ہوں گے کیونکہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی امتوں کی گواہی دیں گے۔
{ اِذْ قَالَ اللّٰهُ : جب اللہ فرمائے گا۔} اس آیت میں بھی قیامت کے دن کا ایک معاملہ بیان فرمایا گیا ،گویا کہ ارشاد فرمایا ’’آپ یاد کریں جس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع فرمائے گا اورجب اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس طرح فرمائے گا۔( قرطبی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۳ / ۲۲۴، الجزء السادس)یاد رہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں جو احسانات ذکر کئے گئے ان کی مفصل تفسیر سورۂ آلِ عمران آیت نمبر 37تا49 میں گزر چکی ہے۔
{ وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ:اور جب میں نے حواریوں کے دل میں یہ بات ڈالی۔} حواری حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مخصوص اور مخلص حضرات کو کہا جاتا ہے۔ ان کے متعلق فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے دلوں میں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے کی بات ڈال دی۔
’’وحی‘‘ کا ایک معنی:
یاد رہے کہ اس آیت میں لفظ ’’وحی‘‘ کی نسبت غیرِ انبیاء کی طرف ہے اورجب وحی کی نسبت غیرِ نبی کی طرف ہو تو اس سے مراد دل میں بات ڈالنا ہوتا ہے جیسے سورۂ قصص کی آیت نمبر 7میں ہے
’’ وَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوْسٰی ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ہم نے موسیٰ کی ماں کے دل میں بات ڈال دی۔
نیز سورۂ نحل کی آیت نمبر68میں ہے
’’ وَ اَوْحٰی رَبُّكَ اِلَی النَّحْلِ ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی۔
{ اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ : جب حواریوں نے کہا۔} حواریوں نے حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی کہ کیا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا رب عَزَّوَجَلَّ ہم پر آسمان سے نعمتوں سے بھرپور دسترخوان اتارے گا۔ ان کی مراد یہ تھی کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بارے میں آپ کی دعا قبول فرمائے گا؟ یہ مراد نہیں تھی کہ کیا آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ایسا کرسکتا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ وہ حضرات اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان رکھتے تھے۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ یہ مراد حاصل ہو جائے۔ بعض مفسرین نے کہا: اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تمام اُمتوں سے نرالا سوال کرنے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو یا یہ معنی ہیں کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کمالِ قدرت پر ایمان رکھتے ہو تو ایسے سوال نہ کرو جن سے تَرَدُّد کا شبہ گزر سکتا ہو۔( تفسیر قرطبی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۳ / ۲۲۶، الجزء السادس، خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۱ / ۵۳۹، ملتقطاً)
{ قَالُوْا:انہوں نے کہا۔}حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے جب انہیں خدا خوفی کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کیا کہ ’’ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ حصولِ برکت کے لئے اس آسمانی دسترخوان سے کچھ کھائیں اور ہمارا یقین قوی ہو جائے اور جیسے ہم نے قدرتِ الٰہی کو دلیل سے جانا ہے اسی طرح مشاہدے سے بھی اس کو پختہ کرلیں یعنی علم ُالیقین سے ترقی کر کے عین ُالیقین حاصل کریں۔ حواریوں کے جواب نے واضح کردیا کہ انہوں نے قدرتِ الٰہی میں شک و شبہ کی وجہ سے سابقہ مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ اس کا مقصد کچھ اور تھا۔ حواریوں کی اِس درخواست پر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں تیس روزے رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا جب تم ان روزوں سے فارغ ہوجاؤ گے تو اللہ تعالیٰ سے جو دعا کرو گے قبول ہوگی۔ انہوں نے روزے رکھ کر دسترخوان اُترنے کی دعا کی۔ اُس وقت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے غسل فرمایا ، موٹا لباس پہنا، دو رکعت نماز ادا کی اور سرِ مبارک جھکایا اور رو کر یہ دعا کی جس کا اگلی آیت میں ذکر ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۱ / ۵۳۹)
{ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ: عیسیٰ بن مریم نے عرض کی۔} حواریوں نے جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرمان کے مطابق عمل کیا تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی: اے اللہ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اُتار دے جو ہمارے موجودہ لوگوں کیلئے اور ہمارے بعد میں آنے والوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کی دلیل ہوجائے اور سب کیلئے عیدہوجائے یعنی ہم اس کے اترنے کے دن کو عید بنائیں ، اس کی تعظیم کریں ،خوشیاں منائیں ،تیری عبادت کریں اورشکر بجالائیں۔
نزولِ رحمت کے دن کو عید بنانا صالحین کا طریقہ ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو اُس دن کو عید بنانا، خوشیاں منانا، عبادتیں کرنا اور شکرِ الٰہی بجالانا صالحین کا طریقہ ہے اور بیشک تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری یقینا قطعاً حتماً اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے۔ اس لئے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادتِ مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکرِ الٰہی بجالانا اور فرحت و سُرور کا اظہار کرنا مستحسَن و محمود اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :جب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا’’ یہ کیا ہے؟ یہودیوں نے عرض کی:یہ اچھا دن ہے۔ اس روز اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی تو حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کا روزہ رکھا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تمہاری نسبت میرا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے تعلق زیادہ ہے چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔( بخاری، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، ۱ / ۶۵۶، الحدیث: ۲۰۰۴)
ترمذی شریف میں ہے، حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ایک یہودی کی موجودگی میں یہ آیت پڑھی
’’ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان:آج میں نے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔‘‘
یہ آیت سن کر اس یہودی نے کہا: اگر یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اسے عید بنالیتے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا : یہ آیت ہماری دو عیدوں کے دن میں اتری یعنی جمعہ اور عرفہ کے دن۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۳، الحدیث: ۳۰۵۵)
اس کی شرح میں مفسرِ شہیر، حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ارشاد فرماتے ہیں : ’’اس سے معلوم ہوا کہ جن تاریخوں میں اللہ کی نعمت ملے انہیں عید بنانا شرعاً اچھا ہے۔(مراٰۃالمناجیح، جمعہ کا باب، تیسری فصل، ۲ / ۳۱۴، تحت الحدیث: ۱۲۸۸)
نوٹ: میلاد شریف کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے علامہ اسماعیل نبہانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’جواہرُ البحار ‘‘ کی تیسری جلد کا مطالعہ فرمائیں۔
{ قَالَ اللّٰهُ : اللہ نے فرمایا۔} حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی درخواست کے بعد اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ میں وہ دسترخوان اتارتا ہوں لیکن اس کے نازل ہونے کے بعدجو کفر کرے گا تو بیشک میں اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں کسی کو نہ دوں گا،چنانچہ آسمان سے خوان نازل ہوا ،اس کے بعد جنہوں نے ان میں سے کفر کیا وہ صورتیں مَسخ کرکے خنزیر بنادیئے گئے اور تین روز میں سب ہلاک ہوگئے۔( تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۲ / ۶۶)
{وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ:اور جب اللہ فرمائے گا۔} یہ بھی قیامت کے واقعے کا بیان ہے کہ بروزِ قیامت عیسائیوں کی سرزنش کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے فرمائے گا کہ’’ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ!کیاتم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو؟ اس خطاب کو سن کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کانپ جائیں گے اورعرض کریں گے: اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ تو تمام نَقائص و عُیوب سے پاک ہے اور اس سے بھی کہ کوئی تیرا شریک ہوسکے ۔ میرے لئے ہرگز جائز نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں یعنی جب کوئی تیرا شریک نہیں ہوسکتا تو میں یہ لوگوں سے کیسے کہہ سکتا تھا؟ اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی توتجھے ضرور معلوم ہوتی۔ تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے۔ بیشک تو ہی سب غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔ یہاں علم کو اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنا اور معاملہ اس کے سپرد کردینا اور عظمت ِالٰہی کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرنا یہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شانِ ادب ہے۔
{ مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖ:میں نے تو ان سے وہی کہا تھا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا۔}حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پہلے تو عرض کریں گے کہ یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو سب جانتا ہے، پھر عرض کریں گے کہ ’’میں نے تو ان سے وہی کہا تھا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ’’ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہا ر ارب ہے اور میں ان پر مطلع رہا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تُو ہی ان پر نگاہ رکھتا تھااور تو ہرشے پر گواہ ہے۔
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات سے متعلق قادیانیوں کے نظریے کا رد:
آیتِ مبارکہ میں ’’ تَوَفَّیْتَنِیْ ‘‘ کے لفظ سے قادیانی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات پر اِستِدلال کرتے ہیں اور یہ استدلال بالکل غلط ہے کیونکہ اوّل تو لفظ ’’تَوَفّٰى‘‘ موت کے لئے خاص نہیں بلکہ کسی شے کو پورے طور پر لینے کو کہتے ہیں خواہ وہ بغیر موت کے ہو جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا:
’’ اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَا ‘‘(الزمر:۴۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے ان کی موت کے وقت اور جو نہ مریں انہیں ان کے سوتے میں۔
دوسرا یہ کہ جب یہ سوال و جواب روزِ قیامت کا ہے تو اگر لفظ ’’تَوَفّٰى‘‘ موت کے معنی میں بھی فرض کرلیا جائے جب بھی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آسمان سے زمین پر تشریف لانے سے پہلے وفات پانا اِس سے ثابت نہ ہوسکے گا۔ اس مسئلے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی15ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی کتاب’’اَلجُرَازُ الدَّیَّانِیْ عَلَی الْمُرْتَدِّالْقَادِیَانِیْ(مرتدقادیانی کے رد پر رسالہ ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ : اگر تو انہیں عذاب دے۔}حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معلوم ہوگا کہ قوم میں بعض لوگ کفر پر مصر رہے، بعض شرفِ ایمان سے مشّرف ہوئے اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں یہ عرض ہے کہ’’ ان میں سے جو کفرپر قائم رہے اُن پر تو عذاب فرمائے تو بالکل حق و بجا اور عدل وانصاف ہے کیونکہ انہوں نے حجت تمام ہونے کے بعد کفراختیار کیا اور جو ایمان لائے انہیں تو بخشے تو تیرا فضل وکرم ہے اور تیرا ہر کام حکمت ہے۔
امتِ مرحوم کے حق میں دعا:
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے بھی اس آیتِ مبارکہ کو پڑھ کراللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنی امت کیلئے دعا فرمائی چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے قرآن پاک میں سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس قول کی تلاوت فرمائی ’’رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْ۔۔۔الآیہ ‘‘ اے میرے رب!ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے، جو شخص میری پیروی کرے گا وہ میرے راستہ پر ہے۔‘‘ اور وہ آیت پڑھی جس میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا یہ قول ہے’’ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ‘‘ اے اللہ! اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تو غالب حکمت والا ہے۔پھر نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دست ِدعا بلند کر دئیے اور روتے ہوئے عرض کرنے لگے :اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! میری امت ، میری امت۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبرئیل! محمد کے پاس جاؤ اور ان سے معلوم کرو (حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے) کہ ان پر اس قدر گریہ کیوں طاری ہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حضرت جبرئیلعَلَیْہِ السَّلَام حاضر ہوئے اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معلوم کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب عرض کردیا (حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے) اللہ تعالیٰ نے جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا:اے جبرائیل! محمد کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ آپ کی امت کی بخشش کے معاملے میں ہم آپ کو راضی کر دیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہیں کریں گے۔( مسلم، کتاب الایمان، باب دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم لامتہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۰، الحدیث: ۳۴۶(۲۰۲))
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہونے والی باتیں :
اس حدیث پاک سے چند باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی امت پر کمال درجے کے شفیق ومہربان تھے اور امت کی بھلائی اور بہتری میں کوشاں رہتے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی امت کے لئے کسی شرط اور قید کے بغیر بخشش کی دعا مانگی۔
(2)…اس امت مرحوم کے لئے عظیم بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت کی بخشش کے معاملے میں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو راضی فرمائے گا ۔
(3)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ا س کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام بہت بلند ہے کہ سب کچھ جاننے والا ہونے کے باوجود حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامکو اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں بھیجا اور اس سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت اور شرف کوظاہر فرمایا۔
(4)…نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبولیت کے اتنے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عظمتوں کو ظاہر فرماتا اور آپ کو راضی فرماتا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الفتن، باب الحوض والشفاعۃ، الفصل الاول، ۹ / ۵۳۰، تحت الحدیث: ۵۵۷۷، ملخصاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں اور انہی کے الفاظ میں ہم بھی عرض گزار ہیں کہ :
ہم ہیں اُن کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے
ان کی امّت میں بنایا انھیں رحمت بھیجا
یوں نہ فرما کہ ترا رحم میں دعویٰ کیا ہے
صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے
{ هٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُهُمْ:یہ (قیامت) وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا۔}اس آیت سے مراد یہ ہے کہ جنہوں نے دنیا میں سچ بولا تھا ان کا سچ قیامت کے دن انہیں کام آئے گا اور انہیں نفع دے گا کیونکہ عمل کا مقام دنیا ہے آخرت نہیں کہ آخرت تو جز املنے کا دن ہے۔
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے معلوم ہو اکہ قیامت کے دن سچ نفع دے گا تو جھوٹ اور ریاکاری کسی صورت نفع نہ دے گی لہٰذا عقلمند انسان کو چاہئے کہ سچائی کے راستے پر چلنے کی خوب کوشش کرے کیونکہ ایمان کے بعد سچائی کو اختیار کرنا بندے کو نیک اعمال کی طرف راغب کرتا ہے۔( روح البیان، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۲ / ۴۶۷-۴۶۸)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’سچائی کو لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فُجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، ص۱۴۰۵، الحدیث: ۱۰۵(۲۶۰۷))
اللہ تعالیٰ ہمیں سچ بولنے ،سچائی کے راستے کو اختیار کرنے اورجھوٹ بولنے سے بچتے رہنے کی توفیق عطاء فرمائے ، اٰمین۔
{ لِلّٰهِ:اللہ ہی کے لئے ہے۔}اس آیت میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو خدا کہنے والے عیسائیوں کا رد بھی ہے کہ جب آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اوریہ دونوں حضرات بھی اللہ تعالیٰ کی مِلک میں اور ا س کے بندے ہیں تو یہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں کیونکہ جو کسی کی ملک میں اور عبد ہو وہ خدا ہر گز نہیں ہو سکتا۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan