READ

Surah Al-Maa'idah

اَلْمَـآئِدَة
120 Ayaat    مدنیۃ


5:41
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْۚۛ-وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْاۚۛ-سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَۙ-لَمْ یَاْتُوْكَؕ-یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖۚ-یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْاؕ-وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـاؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْؕ-لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ۚۖ-وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۴۱)
اے رسول! تمہیں غمگین نہ کریں وہ جو کفر پڑ دوڑتے ہیں (ف۱۰۲) جو کچھ وہ اپنے منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور ان کے دل مسلمان نہیں (ف۱۰۳) اور کچھ یہودی جھوٹ خوب سنتے ہیں (ف۱۰۴) اور لوگوں کی خوب سنتے ہیں (ف۱۰۵) جو تمہارے پاس حاضر نہ ہوئے اللہ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں کے بعد بدل دیتے ہیں، کہتے ہیں یہ حکم تمہیں ملے تو مانو اور یہ نہ ملے تو بچو (ف۱۰۶) اور جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے تو ہرگز تو اللہ سے اس کا کچھ بنا نہ سکے گا، وہ ہیں کہ اللہ نے ان کا دل پاک کرنا نہ چاہا، انہیں دنیا میں رسوائی ہے، اور انہیں آخرت میں بڑا عذاب،

{لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ:جو کفر میں دوڑے جاتے ہیں تمہیں غمگین نہ کریں۔} یہاں سے منافقین کی حرکتوں کا بیان ہے ۔سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو ’’یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ‘‘ کے مبارک خطاب سے عزت عطا فرمائی اور حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکینِ قلب کا سامان مہیا فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں آپ کا ناصر و معین (یعنی مددگار) ہوں۔ منافقین کے کفر میں جلدی کرنے یعنی اُن کے کفر ظاہر کرنے اور کفار کے ساتھ دوستیاں کرلینے سے آپ رنجیدہ نہ ہوں۔پھر منافقین کی منافقت کا بیان فرمایا کہ صرف زبان سے کلمہ پڑھتے ہیں اور دل سے ایمان نہیں لاتے۔

{وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْاۚۛ-سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ:اور کچھ یہودی بہت جھوٹ سنتے ہیں۔} یہاں سے یہودیوں کا کردار بیان کیا گیا کہ وہ اپنے سرداروں کا جھوٹ خوب سنتے ہیں اور ان کے اِفتراؤں کو قبول کرتے ہیں اور اس کے ساتھ دوسرے لوگوں یعنی خیبر کے یہودیوں کی باتوں کو بھی خوب مانتے ہیں جن کے حالات آیت میں آگے بیان ہورہے ہیں۔

{یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ: یہ اللہ کے کلام کو اس کے مقامات کے بعد بدل دیتے ہیں۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ خیبر کے معزز شمار کئے جانے والے یہودیوں میں سے ایک شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت نے زنا کیا۔ اس کی سزا توریت میں سنگسار کرنا تھی، یہ انہیں گوارا نہ تھا اس لئے انہوں نے چاہا کہ اس مقدمے کا فیصلہ سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کرائیں ، چنانچہ اُن دونوں مجرموں کو ایک جماعت کے ساتھ مدینہ طیبہ بھیجا اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ اگر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَحد یعنی کوڑے مارنے کا حکم دیں تو مان لینا اور سنگسار کرنے کا حکم دیں تو نہ ماننا۔ وہ لوگ بنی قریظہ اور بنی نضیرکے یہودیوں کے پاس آئے اور سمجھے کہ یہ حضورِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہم وطن ہیں اور اُن کے ساتھ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی صلح بھی ہے لہٰذا اُن کی سفارش سے کام بن جائے گا، چنانچہ یہود ی سرداروں میں سے کعب بن اشرف ، کعب بن اسد ،سعید بن عمرو، مالک بن صیف اور کنانہ بن ابی الحقیق وغیرہا انہیں لے کر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسئلہ دریافت کیا۔ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’کیا میرا فیصلہ مانو گے؟ ‘‘انہوں نے اقرار کیا۔  رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رجم یعنی سنگسار کرنے کا حکم دیدیا۔ یہودیوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا تو حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ تم میں ایک نوجوان اِبنِ صوریا ہے، کیاتم اس کو جانتے ہو؟ کہنے لگے، ہاں۔ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ وہ کیسا آدمی ہے؟ یہودی کہنے لگے کہ آج روئے زمین پریہودیوں میں اس کے پائے کا کوئی عالم نہیں ، توریت کایکتا ماہر ہے۔ ارشاد فرمایا ’’ اس کو بلاؤ۔ چنانچہ اسے بلایا گیا۔ جب وہ حاضر ہوا تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا، کیا تو ابن صوریا ہے؟ اس نے عرض کی: جی ہاں۔ ارشاد فرمایا، کیا یہودیوں میں سب سے بڑا عالم تو ہی ہے؟ اس نے عر ض کی: لوگ تو ایسا ہی کہتے ہیں۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہودیوں سے فرمایا ’’کیا اس معاملہ میں تم اس کی بات مانو گے؟ سب نے اقرار کیا۔ تب   سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ابنِ صوریا سے فرمایا ’’ میں تجھے اُس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم دیتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،جس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر توریت نازل فرمائی اور تم لوگوں کو مصر سے نکالا اور تمہارے لئے دریامیں راہیں بنائیں اور تمہیں نجات دی، فرعونیوں کو غرق کیا اور تمہارے لئے بادل کو سائبان بنایا ،’’ منّ و سلوٰی ‘‘ نازل فرمایا اور اپنی کتاب نازل فرمائی جس میں حلال و حرام کا بیان ہے، کیا تمہاری کتاب میں شادی شدہ مرد و عورت کے لیے سنگسار کرنے کا حکم ہے؟ ابنِ صوریا نے عرض کی: بے شک یہ حکم توریت میں ہے، اسی کی قسم جس کا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ذکر کیا۔ اگر مجھے عذاب نازل ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اقرار نہ کرتا اور جھوٹ بول دیتا ،مگر یہ فرمائیے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کتاب میں اس کا کیا حکم ہے؟ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب چار عادل اور معتبر گواہوں کی گواہی سے زنا صراحت کے ساتھ ثابت ہوجائے تو سنگسار کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ ابنِ صوریا نے عرض کی: خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم، بالکل ایسا ہی توریت میں ہے۔ پھر حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ابنِ صوریا سے دریافت فرمایا کہ: حکمِ الٰہی میں تبدیلی کس طرح واقع ہوئی؟ اس نے عرض کیا کہ’’ ہمارا دستور یہ تھا کہ ہم کسی امیر کو پکڑتے تو چھوڑ دیتے اور غریب آدمی پر حد قائم کرتے ،اس طرزِ عمل سے امراء میں زنا کی بہت کثرت ہوگئی یہاں تک کہ ایک مرتبہ بادشاہ کے چچازاد بھائی نے زنا کیا تو ہم نے اس کو سنگسار نہ کیا، پھر ایک دوسرے شخص نے اپنی قوم کی عورت سے زنا کیا تو بادشاہ نے اس کو سنگسار کرنا چاہا، اس کی قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور انہوں نے کہا جب تک بادشاہ کے بھائی کو سنگسار نہ کیا جائے اس وقت تک اس کو ہر گز سنگسار نہ کیا جائے گا۔ تب ہم نے جمع ہو کر غریب اورامیر سب کے لیے بجائے سنگسار کرنے کے یہ سزا نکالی کہ چالیس کوڑے مارے جائیں اور منہ کالا کرکے گدھے پر الٹا بٹھا کر شہر میں گشت کرایا جائے ۔ یہ سن کر یہودی بہت بگڑے اور ابنِ صوریا سے کہنے لگے’’ تو نے انہیں یعنی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بڑی جلدی خبر دیدی اور ہم نے جتنی تیری تعریف کی تھی تو اس کا مستحق نہیں۔ ابنِ صوریا نے کہا کہ’’ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھے توریت کی قسم دلائی، اگر مجھے عذاب کے نازل ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو خبر نہ دیتا ۔ اس کے بعد رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے حکم سے ان دونوں زنا کاروں کو سنگسار کیا گیا اور یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۱ / ۴۹۴-۴۹۵)

5:42
سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِؕ-فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْۚ-وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْكَ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ(۴۲)
بڑے جھوٹ سننے والے بڑے حرام خور (ف۱۰۷) تو اگر تمہارے حضور حاضر ہوں (ف۱۰۸) تو ان میں فیصلہ فرماؤ یا ان سے منہ پھیرلو (ف۱۰۹) اور اگر تم ان سے منہ پھیرلو گے تو وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑیں گے (ف۱۱۰) اور اگر ان میں فیصلہ فرماؤ تو انصاف سے فیصلہ کرو، بیشک انصاف والے اللہ کو پسند ہیں،

{سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ:بہت جھوٹ سننے والے۔}سابقہ آیت میں جھوٹ سننے والوں سے مراد یہودی عوام تھی جو پادریوں اور سرداروں کے جھوٹ سن کر اس پر عمل کرتے تھے اور اِس آیت میں جھوٹ سننے والوں سے مراد یہودی حکمران اور پادری ہیں جو رشوتیں لے کر حرام کو حلال کرتے اور شریعت کے احکام کو بدل دیتے تھے۔

 رشوت کا شرعی حکم اور ا س کی وعیدیں :

رشوت کا لینا دینا دونوں حرام ہیں اور لینے دینے والے دونوں جہنمی ہیں ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’رشوت لینا مطلقًا حرام ہے ،جو پرایا حق دبانے کے لئے دیا جائے (وہ) رشوت ہے یونہی جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے لیکن اپنے اوپر سے دفعِ ظلم (یعنی ظلم دور کرنے) کے لئے جو کچھ دیاجائے (وہ) دینے والے کے حق میں رشوت نہیں ،یہ دے سکتا ہے، لینے والے کے حق میں وہ بھی رشوت ہے اور اسے لینا حرام۔(فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۵۹۷)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’رشوت لینا مطلقاً گناہِ کبیرہ ہے ،لینے والا حرام خوار ہے، مستحقِ سخت عذابِ نار ہے، دینا اگر بمجبوری اپنے اوپر سے دفعِ ظلم کو ہو تو حرج نہیں اور اپنا آتا وصول کرنے کو ہو تو حرام ہے اور لینے دینے والا دونوں جہنمی ہیں اور دوسرے کا حق دبانے یا اور کسی طرح ظلم کرنے کے لئے دے تو سخت تر حرام اور مستحق اَشَد غضب و اِنتقام ہے۔(فتاوی رضویہ، ۱۸ / ۴۶۹)

اَحادیث میں رشوت لینے ،دینے والے کے لئے شدید وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت ابوحمید ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ایک شخص کو بنی سُلَیم سے زکوٰۃ وصول کرنے پر عامل مقرر کیا جسے اِبْنِ لُتْبِیَہ کہا جاتا تھا۔ جب اس نے آ کر حساب دیا تو کہا : یہ آپ کا مال ہے اور یہ میرا تحفہ ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اچھا! تم اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھے رہتے اور دیکھتے کہ تمہارے لئے (وہاں سے) کتنے تحفے آتے ہیں اور تم اپنے بیان میں کتنے سچے ہو۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم سے خطاب کیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا ’’جب میں تم میں سے کسی کو کسی جگہ کا عامل بناتا ہوں جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے تو وہ میرے پاس ا ٓکر کہتا ہے :یہ آپ کا مال ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے تحفۃً دیا گیا ہے۔ یہ کیوں نہ کیا کہ وہ اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا رہتا یہاں تک کہ ا س کے پاس تحفے آتے۔ خدا کی قسم! تم میں سے جو کوئی بغیر حق کے کسی چیز کو لے گا وہ اسے اٹھا ئے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا۔ میں اچھی طرح پہچانتا ہوں کہ جب تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا تو ا س نے اونٹ اٹھایا ہو ا ہو گا جو بلبلاتا ہو گا یا گائے جو ڈگراتی ہو گی یا بکری جو ممیاتی ہو گی۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا دستِ مبارک بلند فرمایا یہاں تک کہ بغل کی سفیدی نظر آنے لگی اور کہنے لگے :اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، کیا میں نے (تیرا حکم) پہنچا دیا ؟ (بخاری، کتاب الحیل، باب احتیال العامل لیہدی لہ، ۴ / ۳۹۸، الحدیث: ۶۹۷۹)

(2)… حضرت عبداللہ بن عمر و رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۵۵۰، الحدیث: ۲۰۲۶)

(3)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو گوشت سُحت سے پلا بڑھا تو آگ اس کی زیادہ حق دار ہے۔ عرض کی گئی :سُحت سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا: فیصلہ کرنے میں رشوت لینا۔ (جمع الجوامع، قسم الاقوال، حرف الکاف، ۵ / ۳۹۱، الحدیث: ۱۵۹۰۴)

رشوت سے حاصل کئے ہوئے مال کا شرعی حکم:

            جس نے کوئی مال رشوت سے حاصل کیا ہو تو اس پر فرض ہے کہ جس جس سے وہ مال لیا انہیں واپس کر دے، اگر وہ لوگ زندہ نہ رہے ہوں توان کے وارثوں کو وہ مال دیدے، اگر دینے والوں کا یا ان کے وارثوں کا پتا نہ چلے تو وہ مال فقیروں پر صدقہ کر دے ۔ خرید و فروخت وغیرہ میں ا س مال کو لگانا حرامِ قطعی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ مالِ رشوت کے وبال سے سبکدوش ہونے کانہیں ہے۔(فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۵۵۱، ملخصاً)

یہاں چونکہ رشوت پر کچھ تفصیلی کلام کیا ہے لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے  کچھ مزید فقہی وضاحت کردی جائے چونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ رشوت شاید وہی ہے جو سرکاری محکموں میں دی جاتی ہے یا جو غلط کام کروانے کیلئے دی جاتی ہے یا جو رشوت کا نام لے کر دی جائے حالانکہ مذکورہ بالا صورتیں اور ان کے علاوہ بھی بہت سی صورتیں رشوت میں ہی داخل ہیں خواہ رشوت کا نام لیا جائے یا نہیں۔ ایک آدھ صورت مُسْتَثنیٰ ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ رشوت کے بارے میں اسی طرح کی غلط فہمیوں کے ازالے کیلئے یہاں فتاویٰ رضویہ سے ایک اہم فتویٰ نقل کیا جاتا ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو شخص بذاتِ خود خواہ از جانب حاکم کسی طرح کا قَہر وتَسلُّط (دوسروں پر اختیار) رکھتا ہو جس کے سبب لوگوں پر اس کا کچھ بھی دباؤ ہواگرچہ وہ فی نَفسہ ان پر جَبر وتعدی نہ کرے دباؤ نہ ڈالے اگرچہ وہ کسی فیصلہ قطعی بلکہ غیر قطعی کا بھی مجاز نہ ہو جیسے کو توال، تھانہ دار، جمعدار یا دہقانیوں کے لئے زمیندار مقدم پٹواری یہاں تک کہ پنچایتی قوموں یا پیشوں کے لئے ان کا چودھری، ان سب کو کسی قسم کے تحفہ لینے یا دعوتِ خاصہ (یعنی وہ دعوت کہ خاص اسی کی غرض سے کی گئی ہو کہ اگر یہ شریک نہ ہو تو دعوت ہی نہ ہو) قبول کرنے کی اصلاً اجازت نہیں مگر تین صورتوں میں ، اول اپنے افسر سے جس پر اس کا دباؤ نہیں ، نہ وہاں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی طرف سے یہ ہدیہ ودعوت اپنے معاملات میں رعایت کرانے کے لئے ہے۔ دوم ایسے شخص سے جو اس کے اس منصب سے پہلے بھی اسے ہدیہ دیتا یا دعوت کرتا تھا بشرطیکہ اب سے اسی مقدار پر ہے ورنہ زیادت روا (جائز) نہ ہوگی مثلاً پہلے ہدیہ ودعوت میں جس قیمت کی چیز ہوتی تھی اب اس سے گراں قیمت (زیادہ قیمتی)، پر تکلف ہوتی ہے یا تعداد میں بڑھ گئی یا جلد جلد ہونے لگی کہ ان سب صورتوں میں زیادت موجود اور جواز مفقود، مگر جبکہ اس شخص کا مال پہلے سے اس زیادت کے مناسب زائد ہوگیا ہو جس سے سمجھا جائے کہ یہ زیادت اس شخص کے منصب کے سبب نہیں بلکہ اپنی ثروت بڑھنے کے باعث ہے۔ سوم اپنے قریب محارم سے،جیسے ماں باپ اولاد بہن بھائی نہ چچا ماموں خالہ پھوپھی کے بیٹے کہ یہ محارم نہیں اگرچہ عرفاً انہیں بھی بھائی کہیں۔ محارم سے مطلقاً اجازت ظاہر عبارت قدوری پر ہے ورنہ امام سغناقی نے نہایہ پھر امام محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں اسے بھی صورت دوم ہی میں داخل فرمایا کہ محارم سے بھی ہدیہ ودعوت کا قبول اسی شرط سے مشروط کہ پیش از حصولِ منصب بھی وہ ا س کے ساتھ یہ برتاؤ برتتے ہوں مگر یہ کہ اسے یہ منصب ملنے سے پہلے وہ فقراتھے اب صاحبِ مال ہوگئے کہ اس تقدیر پر پیش ازمنصب عدمِ ہدیہ ودعوت بربنائے فقر سمجھا جائے گا اور فی الواقع اظہر من حیث الدلیل یہی نظر آتا ہے کہ جب باوصف قدرت پیش از منصب عدم یا قلت وبعد منصب شروع باکثرت بربنائے منصب ہی سمجھی جائے گی اس تقدیر پر صرف دو ہی صورتیں مستثنیٰ رہیں پھر بہرحال جو صورت مستثنیٰ ہوگی وہ اسی حال میں حکم جوا ز پاسکتی ہے جب اس وقت اس شخص کا کوئی کام اس سے متعلق نہیں ورنہ خاص کام پڑنے غرض متعلق ہونے کے وقت اصلاً اجازت نہیں خواہ وہ افسر ہو یا بھائی یا پہلے سے ہدیہ وغیرہا دینے والا بلکہ ایسے وقت عام دعوت میں شریک ہونا بھی نہ چاہئے نہ کہ خاص، پھر جہاں جہاں ممانعت ہے اس کی بنا صرف تہمت و اندیشہ رعایت پر ہے حقیقۃً وجود رعایت ضرور نہیں کہ اس کاا پنے عمل میں کچھ تغیر نہ کرنا یا اس کا اس کی عادت بے لوثی سے آگاہ ہونا مفید جواز ہوسکے۔ دنیا کے کام امید ہی پر چلتے ہیں ، جب یہ دعوت و ہدایا قبول کیا کرے گا تو ضرور خیال جائے گا کہ شاید اب کی بار کچھ اثر پڑے کہ مفت مال دینے کی تاثیر مجرب ومشاہد ہے اس بار نہ ہوئی اس بار ہوگی، اس بار نہ ہوئی پھر کبھی ہوگی، اور یہ حیلہ کہ اس کا ہدیہ و دعوت بربنائے اخلاق انسانیت ہے نہ بلحاظ منصب، اس کا رد خود حضورِ اقدس سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَفرماچکے ہیں ، جب ایک صاحب کو تحصیل زکوٰۃ پر مقرر فرما کر بھیجا تھا انہوں نے اموالِ زکوٰۃ حاضر کئے اور کچھ مال جدا رکھے کہ یہ مجھے ملے ہیں فرمایا اپنی ماں کے گھر بیٹھ کر دیکھا ہوتا کہ اب کتنے تحفے ملتے ہیں یعنی یہ ہدایا صرف اسی منصب کی بنا پر ہیں اگر گھر بیٹھا ہوتا تو کون آکر دے جاتا، اس مسئلہ کی تفاصیل میں اگرچہ کلام بہت طویل ہے مگر یہاں جو کچھ مذکور ہوابعونہ تعالیٰ خلاصہ تنقیح وصالح تحویل ہے۔(فتاوی رضویہ، ۱۸ / ۱۷۰-۱۷۱)

{فَاِنْ جَآءُوْكَ: تو اگر وہ تمہارے پاس آئیں۔} یہاں سرکارِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کواختیار دیا گیا کہ اہلِ کتاب آپ کے پاس کوئی مقدمہ لائیں تو آپ کو اختیار ہے فیصلہ فرمائیں یا نہ فرمائیں۔

5:43
وَ كَیْفَ یُحَكِّمُوْنَكَ وَ عِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِیْهَا حُكْمُ اللّٰهِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَؕ-وَ مَاۤ اُولٰٓىٕكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ۠(۴۳)
اور وہ تم سے کیونکر فیصلہ چاہیں گے، حالانکہ ان کے پاس توریت ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے (ف۱۱۱) بایں ہمہ اسی سے منہ پھیرتے ہیں (ف۱۱۲) اور وہ ایمان لانے والے نہیں،

{وَ كَیْفَ یُحَكِّمُوْنَكَ: اور یہ آپ کو کیسے حاکم بنائیں گے۔} ارشاد فرمایا گیا کہ شادی شدہ مرد اورشادی شدہ عورت کے زنا کی سزا رجم یعنی سنگسار کرنا ہے اور یہ حکم تورات میں موجود ہے اور یہ لوگ توریت پر ایمان لانے کے دعوے دار بھی ہیں اور اُنہیں یہ بھی معلوم ہے کہ توریت میں رجم کا حکم ہے اُس حکم کو نہ ماننا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے منکر ہوتے ہوئے بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فیصلہ چاہنا نہایت تعجب کی بات ہے۔

5:44
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌۚ-یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَۚ-فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًاؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ(۴۴)
بیشک ہم نے توریت اتاری اس میں ہدایت اور نور ہے، اس کے مطابق یہود کو حکم دیتے تھے ہمارے فرمانبردار نبی اور عالم اور فقیہہ کہ ان سے کتاب اللہ کی حفاظت چاہی گئی تھی (ف۱۱۳) اور وہ اس پر گواہ تھے تو (ف۱۱۴) لوگوں سے خوف نہ کرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے ذلیل قیمت نہ لو (ف۱۱۵) اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے (ف۱۱۶) وہی لوگ کافر ہیں،

{اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ: بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی۔} اس آیت ِمبارکہ میں توریت شریف کی عظمت اور اس کے مطابق انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا فیصلہ فرمانا اور اسی کے مطابق سچے علماء و فقہاء کا فیصلہ کرنا بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد دورِ رسالت اور اس کے بعد کے یہودیوں کو اصلی توریت پر عمل کرتے ہوئے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، چنانچہ فرمایا گیا کہ بیشک ہم نے توریت کو نازل فرمایا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بعد کے کثیر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور علماء و فقہاء توریت کے مطابق ہی فیصلے کرتے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان سے تورات کے متعلق یہ عہد لیا گیا تھا کہ وہ اسے اپنے سینوں میں محفوظ رکھیں اور اس کے درس میں مشغول رہیں تاکہ وہ کتاب فراموش نہ ہو اور اس کے احکام ضائع نہ ہوں۔(ابو سعود،  المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۲ / ۴۵، خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱ / ۴۹۸، ملتقطاً)

            تو اے یہودیو! تم تورات میں مذکور حضور سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت اور رجم کا حکم ظاہر کرنے میں لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ مراد یہ ہے کہ احکامِ الٰہیہ کی تبدیلی بہر صورت ممنوع ہے خواہ لوگوں کے خوف اور اُن کی ناراضی کے اندیشہ سے ہو یا مال و جاہ اور رشوت کی لالچ میں ہو۔ اس آیت میں علماء کیلئے بھی ایک حکم موجود ہے کہ وہ اللہ کی کتاب کی حفاظت کریں اور اس کی آیات کے بدلے دنیا کی ذلیل دولت حاصل نہ کریں اور لوگوں سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔

 پہلی شریعتوں کے بیان کئے گئے احکام سے متعلق اہم مسئلہ:

            توریت کے مطابق انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا حکم دینا جو اس آیت میں مذکور ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم سے پہلی شریعتوں کے جو احکام اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے بیان فرمائے ہوں اور ان کے ترک کا حکم ہمیں نہ دیا ہو اور نہ وہ منسوخ کئے گئے ہوں وہ ہم پر لازم ہوتے ہیں۔(ابو سعود،  المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۲ / ۴۵، ملخصاً)

 

5:45
وَ كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِۙ-وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّۙ-وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌؕ-فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۴۵)
اور ہم نے توریت میں ان پر واجب کیا (ف۱۱۷) کہ جان کے بدلے جان (ف۱۱۸) اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے (ف۱۱۹) پھر جو دل کی خوشی سے بدلہ کراوے تو وہ اس کا گناہ اتار دے گا (ف۱۲۰) اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں،

{وَ كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ: اور ہم نے ان پر لازم کردیا تھا۔} اس آیت میں اگرچہ یہ بیان ہے کہ توریت میں یہودیوں پر قصاص کے یہ احکام تھے لیکن چونکہ ہمیں اُن کے ترک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا اس لئے ہم پر بھی یہ احکام لازم رہیں گے کیونکہ سابقہ شریعتوں کے جو احکام اللہ تعالیٰ ا و رسولِ کریم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بیان سے ہم تک پہنچے اور مَنسوخ نہ ہوئے ہوں وہ ہم پر لازم ہوا کرتے ہیں جیسا کہ اُوپر کی آیت سے ثابت ہوا۔ آیت میں زخموں کے، اعضاء کے اور جان کے قصاص کا حکم بیان فرمایا گیا،اَعضاء اور زخموں کے قصاص میں کافی تفصیل ہے جس کیلئے فقہی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے اور جان کے قصاص کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی نے کسی کو قتل کیا تو اس کی جان مقتول کے بدلے میں لی جائے گی خواہ وہ مقتول مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، مسلم ہو یا ذمّی۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ لوگ مرد کو عورت کے بدلے قتل نہ کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۲۸۷)

{فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ: تو جو خود کوقصاص کے لئے پیش کردے۔} یعنی جو قاتل یا جرم کرنے والا اپنے جرم پر نادم ہو کر گناہ کے وبال سے بچنے کے لئے بخوشی اپنے اوپر حکم شرعی جاری کرائے تو قصاص اس کے جرم کا کفارہ ہوجائے گا اور آخرت میں اُس پر عذاب نہ ہوگا۔(جمل مع جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۲ / ۲۲۸)

           بعض مفسرین نے اس کے معنیٰ یہ بیان کئے ہیں کہ جو صاحبِ حق قصاص کومعاف کردے تو یہ معافی اس کے لئے کفارہ ہے۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۲۸۷)

          دونوں تفسیروں کے اعتبار سے ترجمہ مختلف ہوجائے گا۔ تفسیراحمدی میں ہے یہ تمام قصاص جب ہی واجب ہونگے جب کہ صاحبِ حق معاف نہ کرے اگروہ معاف کردے تو قصاص ساقط ہو جائے گا۔(تفسیر احمدی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۳۵۹)

5:46
وَ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ۪-وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ فِیْهِ هُدًى وَّ نُوْرٌۙ-وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَؕ(۴۶)
اور ہم ان نبیوں کے پیچھے ان کے نشانِ قدم پر عیسیٰ بن مریم کو لائے تصدیق کرتا ہوا توریت کی جو اس سے پہلے تھی (ف۱۲۱) اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تصدیق فرماتی ہے توریت کی کہ اس سے پہلی تھی اور ہدایت (ف۱۲۲) اور نصیحت پرہیزگاروں کو،

{وَ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ: اور ہم نے ان نبیوں کے پیچھے ان کے نقشِ قدم پر بھیجا ۔} توریت کے احکام بیان کرنے کے بعد انجیل کے احکام کا ذکر شروع ہوا اور بتایا گیا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام توریت کی تصدیق فرمانے والے تھے کہ تورات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نازل کردہ کتاب ہے اور توریت کے منسوخ ہونے سے پہلے اس پر عمل واجب تھا، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت میں توریت کے بعض احکام منسوخ کردئیے گئے۔ اس کے بعد انجیل کی شان بیان فرمائی گئی کہ اس میں ہدایت اور نور تھا اور ہدایت اور نصیحت تھی ۔ پہلی جگہ ہدایت سے مراد ضلالت و جہالت سے بچانے کے لیے رہنمائی کرنا ہے اور دوسری جگہ ہدایت سے سیدُ الانبیاء، حبیب کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کی بشارت مراد ہے جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کی طرف لوگوں کی رہنمائی کا سبب ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۶، ۱ / ۵۰۰)

5:47
وَ لْیَحْكُمْ اَهْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فِیْهِؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۴۷)
اور چاہئے کہ انجیل والے حکم کریں اس پر جو اللہ نے اس میں اتارا (ف۱۲۳) اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کریں تو وہی لوگ فاسق ہیں،

{وَ لْیَحْكُمْ اَهْلُ الْاِنْجِیْلِ: اور انجیل والوں کو حکم کرنا چاہیے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ انجیل والوں کو بھی اسی کے مطابق حکم کرنا چاہیے جواللہ عَزَّوَجَلَّ  نے انجیل میں نازل فرمایا ہے یعنی سیدُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پر ایمان لانا چاہیے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی نبوت کی تصدیق کرنی چاہیے کیونکہ انجیل میں اسی کا حکم دیا گیا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جب ہم نے عیسائیوں کو انجیل عطا کی تواس وقت ان کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ان احکام پر عمل کریں جو انجیل میں مذکور ہیں۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۷، ۱ / ۵۰۰، ملخصاً)

انجیل پر عمل کرنے سے متعلق ایک اعتراض کا جواب:

            اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ قرآنِ مجید کے نزول کے بعد انجیل پر عمل کرنے کے حکم کی کیا تَوجِیہ ہو گی؟ تواس کے چند جوابات ہیں :

(1)…انجیل میں تاجدارِ رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی نبوت کے جو دلائل موجود ہیں اہلِ انجیل کو چاہئے کہ وہ ان دلائل کے مطابق ایمان لے آئیں۔

(2)…اہلِ انجیل ان احکام پر عمل کریں جن کوقرآن نے منسوخ نہیں کیا۔

(3)…انجیل کے احکام پر عمل کرنے سے مراد یہ ہے کہ انجیل میں تحریف نہ کریں جس طرح یہود یوں نے تورات میں تحریف کر دی تھی۔(تفسیر کبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۳۷۱)

            لیکن تحقیق یہی ہے کہ یہ حکم اس وقت دیا گیا تھا جب   اللہ تعالیٰ نے انجیل کو نازل کیا تھا اور نزولِ قرآن کے بعد قرآنِ مجید کے علاوہ کسی آسمانی کتاب پر عمل جائز نہیں ہے،اور اسلام کے علاوہ کوئی اور دین مقبول نہیں ہے۔

5:48
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مُهَیْمِنًا عَلَیْهِ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِـعْ اَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّؕ-لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًاؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِؕ-اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَۙ(۴۸)
اور اے محبوب ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتی (ف۱۲۴) اور ان پر محافظ و گواہ تو ان میں فیصلہ کرو اللہ کے اتارے سے (ف۱۲۵) اور اسے سننے والے ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اپنے پاس آیا ہوا حق چھوڑ کر، ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ رکھا (ف۱۲۶) اور اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کردیتا مگر منظور یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں دیا اس میں تمہیں آزمائے (ف۱۲۷) تو بھلائیوں کی طرف سبقت چاہو، تم سب کا پھرنا اللہ ہی کی طرف ہے تو وہ تمہیں بتادے گا جس بات میں تم جھگڑتے تھے

{وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ: اور ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل فرمائی۔} تورات و انجیل کا تذکرہ کرنے کے بعد اب قرآنِ عظیم کا تذکرہ ہورہا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری جوسابقہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر نازل ہونے والی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان پر نگہبان ہے تو جب اہلِ کتاب اپنے مُقَدَّمات میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف رجوع کریں تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَقرآنِ پاک کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ فرمادیں۔

{لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا:ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ بنایا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ بنایا ہے یعنی فروعی اعمال ہر ایک کے خاص اور جدا جدا ہیں جیسے نمازوں ، روزوں کی تعداد اور اس طرح کے احکام جدا جدا ہیں لیکن اصل دین سب کا ایک ہے یعنی توحید و رسالت، عقیدہ آخرت، یونہی بنیادی اَخلاقیات سب کی مشترک ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ ایمان حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ سے یہی ہے کہ ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ‘‘ کی شہادت اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے آیا اس کا اقرار کرنا جبکہ شریعت ہر اُمت کی خاص ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۸، ۱ / ۵۰۱)

{وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً: اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنادیتا۔} ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنادیتا مگر اس نے ایسا نہیں کیاتا کہ جو شریعتیں اس نے تمہیں دی ہیں ان میں تمہیں آزمائے اور امتحان میں ڈالے تاکہ ظاہر ہوجائے کہ ہر زمانہ کے مناسب جو احکام دیئے کیا تم اُن پر اس یقین و اعتقاد کے ساتھ عمل کرتے ہو کہ ان کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت(مرضی) سے ہے اور اس میں بہت سی حکمتیں اور دنیاوی اور اُخروی فوائد و منافع ہیں اور یا تم حق کو چھوڑ کر نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہو۔ (ابو سعود،  المائدۃ، تحت الآیۃ: ۴۸، ۲ / ۵۱)

{فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ: تو نیکیوں کی طرف دوسروں سے آگے بڑھ جاؤ۔} قرآنِ پاک کا حکیمانہ طریقہ یہ ہے کہ جن معاملات سے انسان کی دنیا و آخرت کا کوئی قابلِ قبول فائدہ متعلق نہیں ہے ان میں بحث و مقابلہ کرنے کی بجائے انہیں رضائے الٰہی اور بھلائی کے کاموں میں مقابلہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی اسی انداز کی ایک جھلک ہے کہ شریعتوں کے اختلاف کی وجوہات میں فلسفیانہ بحثیں کرنے اور بال کی کھال اتارنے کی بجائے نیکیوں کی طرف آنے کی دعوت دی۔ اس میں ہماری بہت سی چیزوں کی اصلاح ہے۔ آج کل حالت یہ ہے کہ ہر محاذ اور میدان میں فضولیات پر بحث و مباحثہ اور پانی سے مکھن نکالنے کی کوششیں جاری رہتی ہیں اور کرنے کے کاموں کی طرف توجہ کم ہی ہوتی ہے۔ خواہ مخواہ کی باریکیاں نکالنے کو مہارت اور قابلیت شمار کیا جاتا ہے اگرچہ عملی طور پر ایسے آدمی کی حالت نہایت گری ہوئی ہو۔ بحث وہاں کی جائے جہاں اس سے کوئی فائدہ نظر آئے، صرف وقت گزاری، لوگوں کو متوجہ رکھنے، طلب ِ شہرت اور قابلیت دکھانے کیلئے اپنا اور لوگوں کا وقت ضائع کرنااور عملی دنیا میں تنکا تک نہ توڑنا عقل، دین اور اسلام سب کے منافی ہے۔ اس نصیحت کی روشنی میں بہت سے لوگوں کو اپنے طرزِ عمل پر نظر کرنے کی حاجت ہے۔ سمجھنے کیلئے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک فرمان ہی کافی ہے’’مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَالَایَعْنِیْہِ‘‘  آدمی کے اسلام کے حسن سے ہے کہ وہ فضول چیزوں کو چھوڑ دے۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۱۱-باب، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۲۳۲۴)

5:49
وَ اَنِ احْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِـعْ اَهْوَآءَهُمْ وَ احْذَرْهُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكَؕ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّصِیْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْؕ-وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ(۴۹)
اور یہ کہ اے مسلمان! اللہ کے اتارے پر حکم کر اور ان کی خواہشوں پر نہ چل اور ان سے بچتا رہ کہ کہیں تجھے لغزش نہ دے دیں کسی حکم میں جو تیری طرف اترا پھر اگر وہ منہ پھیریں (ف۱۲۸) تو جان لو کہ اللہ ان کے بعض گناہوں کی (ف۱۲۹) سزا ان کو پہنچایا چاہتا ہے (ف۱۳۰) اور بیشک بہت آدمی بے حکم ہیں،

{وَ اَنِ احْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ: اور یہ کہ اے مسلمان ان (لوگوں ) کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل فرمایا ہے۔} یہاں مسلمان فیصلہ کرنے والوں کو فرمایا کہ اہلِ کتاب کے درمیا ن اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نازل فرمائے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ کرو اور اس بات سے بچتے رہو کہ یہ لوگ تمہیں کسی غلطی کے مُرْتَکِب نہ کروادیں اور اگر یہ اہلِ کتاب لوگ قرآن سے اِعراض کریں تو سمجھ جاؤ کہ اللہ  تعالیٰ انہیں ان کے گناہوں کی سزا دینا چاہتا ہے جو دنیا میں قتل و گرفتاری اور جلاوطنی کے ساتھ ہوگی۔ جبکہ ویسے تمام گناہوں کی سزا آخرت میں دے گا۔

5:50
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۠(۵۰)
تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں (ف۱۳۱) اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے لیے،

{اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ: تو کیا یہ لوگ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں۔} اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ بنی نَضِیْر اور بنی قریظہ یہودیوں کے دو قبیلے تھے، ان میں آپس میں قتل و غارتگری جاری رہتی تھی ۔ جب نبی کریم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  مدینہ طیبہ میں رونق افروز ہوئے تو یہ لوگ اپنا مقدمہ حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت میں لائے اور بنی قریظہ نے کہا کہ’’ بنی نَضِیْر ہمارے بھائی ہیں ہم وہ ایک نسل سے ہیں ، ایک دین رکھتے ہیں اور ایک کتاب (توریت کو) مانتے ہیں لیکن اگر بنی نضیر ہم میں سے کسی کو قتل کریں تو وہ اس کے خون بہا میں ہمیں ستر وَسْق (ایک بڑا وزن) کھجوریں دیتے ہیں اور اگر ہم میں سے کوئی اُن کے کسی آدمی کو قتل کرے تو ہم سے اس کے خون بہا میں ایک سو چالیس وسق لیتے ہیں ، آپ   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اس کا فیصلہ فرما دیں۔تاجدارِ رسالت   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ میں حکم دیتا ہوں کہ دونوں قبیلوں کے افراد کا خون برابر ہے ،کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں۔ اس پر بنی نضیر بہت برہم ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلہ سے راضی نہیں ، آپ   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ہمارے دشمن ہیں ، ہمیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۰، ۱ / ۵۰۲)

             اور فرمایا گیا کہ کیا جاہلیت کی گمراہی اور ظلم کا حکم چاہتے ہیں۔ جو حکم حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے بڑھ کر کس کا حکم اچھا ہوسکتا ہے۔

5:51
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ ﳕ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۵۱)
اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ (ف۱۳۲) وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں (ف۱۳۳) اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے (ف۱۳۴) بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا (ف۱۳۵)

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ:اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔} یہ آیت مشہور صحابی حضرت عبادہ بن صامت  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور مشہور منافق عبداللہ بن اُبی کے بارے میں نازل ہوئی جو منافقین کا سردار تھا۔ حضرت عبادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ یہودیوں میں میرے بہت بڑی تعداد میں دوست ہیں جو بڑی شوکت و قوت والے ہیں،اب میں اُن کی دوستی سے بیزار ہوں اور اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا میرے دل میں اور کسی کی محبت کی کوئی گنجائش نہیں۔اِس پر عبداللہ بن اُبی نے کہا کہ میں تو یہودیوں کی دوستی سے بیزار نہیں ہوسکتا، مجھے آئندہ پیش آنے والے واقعات کا اندیشہ ہے اور مجھے اُن کے ساتھ تعلقات رکھنا ضروری ہے۔ حضورِ اقدس   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا کہ’’ یہ یہودیوں کی دوستی کا دم بھرنا تیرا ہی کام ہے ،عبادہ کا یہ کام نہیں۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۵۰۳)

کفار سے دوستی و موالات کا شرعی حکم :

           اس آیت میں یہود و نصارٰی کے ساتھ دوستی و موالات یعنی اُن کی مدد کرنا، اُن سے مدد چاہنااور اُن کے ساتھ محبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا ۔ یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو ۔ چنانچہ یہاں یہ حکم بغیر کسی قید کے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ، یہ مسلمانوں کے مقابلے میں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تمہارے دوست نہیں کیونکہ کافر کوئی بھی ہوں اور ان میں باہم کتنے ہی اختلاف ہوں ، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں ’’ اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدۃٌ‘‘ کفر ایک ملت ہے۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۲۸۹)

                لہٰذا مسلمانوں کو کافروں کی دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے، اس بیان میں بہت شدت اور تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود ونصاریٰ اور دینِ اسلام کے ہرمخالف سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۲۸۹، خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۵۰۳، ملتقطاً)

            اور جو کافروں سے دوستی کرتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت میں کفار کو کلیدی آسامیاں نہ دی جائیں۔ یہ آیتِ مبارکہ مسلمانوں کی ہزاروں معاملات میں رہنمائی کرتی ہے اور اس کی حقانیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت و دشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر غیر مسلموں کو اپنا خیرخواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انہیں اپنوں پر ترجیح دی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے۔

5:52
فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْهِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰۤى اَنْ تُصِیْبَنَا دَآىٕرَةٌؕ-فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰى مَاۤ اَسَرُّوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِیْنَؕ(۵۲)
اب تم انہیں دیکھو گے جن کے دلوں میں آزار ہے (ف۱۳۶) کہ یہود و نصاریٰ کی طرف دوڑتے ہیں کہتے ہیں ہم ڈرتے ہیں کہ ہم پر کوئی گردش آجائے (ف۱۳۷) تو نزدیک ہے کہ اللہ فتح لائے (ف۱۳۸) یا اپنی طرف سے کوئی حکم (ف۱۳۹) پھر اس پر جو اپنے دلوں میں چھپایا تھا (ف۱۴۰) پچھتائے رہ جائیں

{فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ: تو جن کے دلوں میں مرض ہے تم انہیں دیکھو گے۔} مسلمانوں کو تو فرمادیا گیا کہ یہودونصاریٰ سے دوستی نہ کرو لیکن منافقین کے بارے میں فرما دیا کہ ان کی یہودونصاریٰ سے دوستیاں بڑی مستحکم ہیں کیونکہ یہ دل کے مریض ہیں اور تم انہیں دیکھو گے کہ یہود و نصاریٰ سے دوستی کرنے میں دوڑے جاتے ہیں اور ان لوگوں کی نظر میں اُن سے دوستی کرنے کا فائدہ یہ ہے اور اپنی زبان سے بھی یہ کہتے ہیں کہ اگر کبھی حالات بدل جائیں ، مسلمان مغلوب اور کافر غالب ہوجائیں تو کفار سے دوستی لگانا انہیں اس وقت فائدہ دے گا۔ لیکن یہ سب منافقت کی وجہ سے تھا کیونکہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسلام کے غلبے کی جو باتیں فرماتے تھے انہیں اس پر یقین نہیں تھا ورنہ اگر ان باتوں پر یقین ہوتا تو ڈٹ کر اسلام کی حمایت کرتے۔ اللہ تعالیٰ بشارت دیتا ہے کہ قریب ہے کہ وہ مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے اور اپنے رسول، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کامیاب و کامران فرمائے اور اُن کے دین کو تمام دینوں پر غالب کردے اور مسلمانوں کو اُن کے دشمن یہود و نصاریٰ و غیرہ کفار پر غلبہ دیدے چنانچہ یہ خبر سچ ثابت ہوئی اور اللہ  تعالیٰ کے کرم سے مکہ مکرمہ اور یہودیوں کے علاقے فتح ہوئے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۱ / ۵۰۳)

اس آیت میں پہلی بات تو یہ ارشاد فرمائی تھی کہ اللہ  تعالیٰ فتح لے آئے اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی خاص حکم لے آئے جیسے سرزمینِ حجاز کو یہود یوں سے پاک کرنا اور وہاں اُن کا نام و نشان باقی نہ رکھنا یا منافقین کے راز کھول کر انہیں رسوا کرنا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۱ / ۵۰۳-۵۰۴،  جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۱۰۲، ملتقطاً)

تو جب اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا اس وقت منافقین اپنی منافقت پر یا اس خیال پر نادم ہوجائیں گے کہ سرورِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کفار کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہوں گے۔

5:53
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْۙ-اِنَّهُمْ لَمَعَكُمْؕ-حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ(۵۳)
اور (ف۱۴۱) ایمان والے کہتے ہیں کیا یہی ہیں جنہوں نے اللہ کی قسم کھائی تھی اپنے حلف میں پوری کوشش سے کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں ان کا کیا دھرا سب اکارت گیا تو رہ گئے نقصان میں (ف۱۴۲)

{ وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اور ایمان والے کہیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ جب منافقین کا پردہ کھل جائے گا اور ان کی منافقت آشکار ہوجائے گی تو اس وقت مسلمان تعجب کرتے ہوئے کہیں گے کہ کیا یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بڑی پکی قسمیں کھائی تھیں کہ وہ دل سے مسلمانوں کے ساتھ ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا۔

{حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ:تو ان کے تمام اعمال برباد ہوگئے۔} یعنی ان کے نفاق اور یہودیوں سے دوستی کی وجہ سے ان کے تمام نیک اعمال برباد ہو گئے اور انہوں نے دنیا میں اپنی ذلت و رسوائی کی وجہ سے نقصان اٹھایا اور آخرت میں اپنے اعمال کے ثواب سے محروم ہونے اور جہنم کا دائمی عذاب پانے کے سبب نقصان اٹھائیں گے۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۳، ۱ / ۵۰۴)

5:54
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ-اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ٘-یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۵۴)
اے ایمان والو! تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا (ف۱۴۳) تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے (ف۱۴۴) یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے، اور اللہ وسعت والا علم والا ہے،

{مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ:تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا۔} کفار کے ساتھ دوستی یاری اورمحبت و قلبی تعلق چونکہ بعض اوقات بے دینی اور اِرتِداد کا سبب بن جاتا ہے ، اس لئے کفار سے دوستی کی ممانعت کے بعد مُرتَدّین کا ذکر فرمایا اور مرتد ہونے سے پہلے لوگوں کے مرتد ہونے کی خبر دی چنانچہ یہ خبرسچ ثابت ہوئی اور بہت سے لوگ مرتد ہوئے۔

{فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ: تو عنقریب اللہ ایسی قوم لے آئے گا جن سے اللہ محبت فرماتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! تم میں سے اگر کچھ لوگ مرتد بھی ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ صفت بندے پھر بھی موجود ہوں گے اوروہ عظیم صفات کے حامل ہوں گے۔ اس آیت میں ان کی چند صفات بیان فرمائی گئیں :

(1)…وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔

(2)…وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرتے ہیں۔

(3)…مسلمانوں کے ساتھ نرمی و شفقت کا سلوک کرنے والے ہیں۔

(4)…کافروں سے سختی سے پیش آنے والے ہیں۔

(5)…راہِ خدا کے مجاہد ہیں۔

(6)…حق بیان کرنے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ حق گو اور حق گوئی میں بیباک ہیں۔

             یہ صفات جن حضرات کی ہیں وہ کون ہیں ، اس میں کئی اقوال ہیں۔

(1)…حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم، امام حسن بصری اور حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے کہا کہ یہ حضرات سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اور ان کے وہ ساتھی ہیں جنہوں نے نبی کریم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے بعد مرتد ہونے والوں اور زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا۔

(2)… حضرت عیاض بن غنم اشعری   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سرکارِ دو عالم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے حضرت ابو موسیٰ اَشْعری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی نسبت فرمایا کہ یہ اُن کی قوم ہے۔

(3)… ایک قول یہ ہے کہ یہ لوگ اہلِ یمن ہیں جن کی تعریف بخاری و مسلم کی حدیثوں میں آئی ہے۔

(4)… مفسر سدی کا قول ہے کہ یہ لوگ انصار ہیں جنہوں نے تاجدارِ رسالت   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت کی۔ ان تمام اقوال میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ بیان کردہ سب حضرات کا ان صفات کے ساتھ متصف ہونا صحیح ہے۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۴، ۱ / ۵۰۴-۵۰۵)

کامل مسلمان کا نمونہ:

            اس آیت میں مسلمانوں کے سامنے ایک کامل مسلمان کا نمونہ بھی پیش کردیا گیا کہ کامل مسلمان کیسا ہوتا ہے؟ ہمیں بھی اوپر بیان کردہ صفات کی روشنی میں اپنے اوپر غور کرلینا چاہیے۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کے حوالے سے یہ واقعہ ایک عظیم مثال ہے:

            حضرت شیخ ابو عبداللہ خیاط رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس ایک آتَش پرست کپڑے سلواتا اور ہر بار اجرت میں ایک کھوٹا سکہ دے جاتا، آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کو لے لیتے۔ ایک بار آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی غیر موجودگی میں شاگرد نے آتَش پرست سے کھوٹا سکہ نہ لیا۔ جب حضرت شیخ ابو عبداللہ خیاط رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ واپس تشریف لائے اور ان کو یہ معلوم ہوا تو شاگرد سے فرمایا: تو نے کھوٹا درہم کیوں نہیں لیا؟ کئی سال سے وہ مجھے کھوٹا سکہ ہی دیتا رہا ہے اور میں بھی چپ چاپ لے لیتا ہوں تاکہ یہ کسی دوسرے مسلمان کو نہ دے آئے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس وتہذیب الاخلاق۔۔۔ الخ، بیان علامات حسن الخلق، ۳ / ۸۷-۸۸)

            یہ مسلمانوں پر نرمی ہے۔ اور حدیثِ مبارک ہے، حضرت عبداللہبن عمرو   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہیں جو اپنے ہمراہیوں کے لیے بہتر ہوں اور  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھے ہوں۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی حق الجوار، ۳ / ۳۷۹، الحدیث: ۱۹۵۱)

            اور حق گوئی میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے کے متعلق یہ حکایت ملاحظہ فرمائیں : قاضی ابو حَازِم   رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ انصاف کے معاملہ میں بہت سخت تھے۔ آپ ہمیشہ حق بات کہتے اوردرست فیصلے فرماتے۔ ایک مرتبہ خلیفۂ وقت ’’مُعْتَضِد باللہ‘‘ نے آپ  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کی طرف پیغام بھیجا: فلاں تاجر نے ہم سے مال خریدا ہے اور نقد رقم ادا نہیں کی ۔وہ میرے علاوہ دوسروں کا بھی مقروض ہے، مجھے خبر پہنچی ہے کہ دوسرے قرضخواہوں نے آپ کے پاس گواہ پیش کئے تو آپ نے اس تاجر کا مال ان میں تقسیم کر دیا ہے ۔ مجھے اس مال سے کچھ بھی نہیں ملا حالانکہ جس طر ح وہ دوسروں کا مقروض تھا اسی طرح میرا بھی تھا، لہٰذامیرا حصہ بھی دیا جائے ۔پیغام پاکر قاضی ابو حَازِم   رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے قاصد سے کہا: خلیفہ سے کہنا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز فرمائے، وہ وقت یاد کرو جب آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں نے فیصلوں کی ذمہ داری کا بوجھ اپنی گردن سے اُتار کر تمہارے گلے میں ڈال دیا ہے ۔ اے خلیفہ! اب میں فیصلہ کرنے کا مختار ہوں اور میرے لئے جائز نہیں کہ گواہوں کے بغیر کسی مُدَّعی کے حق میں فیصلہ کروں۔ قاصد نے قاضی صاحب کاپیغام سنایا توخلیفہ نے کہا: جاؤ ! قاضی صاحب سے کہوکہ میرے پاس بہت معتبر اور معزز گواہ موجود ہیں۔ جب قاضی صاحب کو یہ پیغام ملا تو فرمایا: گواہ میرے سامنے آکر گواہی دیں ،میں ان سے پوچھ گچھ کروں گا، شہادت کے تقاضوں پر پورے اُتر ے تو ان کی گواہی قبول کرلوں گا ورنہ وہی فیصلہ قابلِ عمل رہے گا جو میں کر چکا ہوں۔ جب گواہوں کو قاضی صاحب کا یہ پیغام پہنچا تو انہوں نےآپ   رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  سے خوف کھاتے ہوئے عدالت آنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا قاضی صاحب نے خلیفہ مُعْتَضِد باللہ  کا دعویٰ رد کرتے ہوئے اسے کچھ بھی نہ بھجوایا۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ السادسۃ والثمانون بعد المائتین، ص۲۶۱-۲۶۲)

5:55
اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ(۵۵)
تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے (ف۱۴۵) کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں (ف۱۴۶)

اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: تمہارے دوست صرف اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں۔} گزشتہ آیات میں ان لوگوں کا بیان ہوا جن کے ساتھ دلی دوستیاں لگانا حرام ہے، ان کا ذکر فرمانے کے بعد اب ان کا بیان فرمایا جن کے ساتھ مُوالات واجب ہے۔ اس آیتِ مبارکہ کے متعلق حضرت جابر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئی، انہوں نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی ،یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، ہماری قوم نے ہمیں چھوڑ دیا اور قسمیں کھالیں کہ وہ ہمارے پاس نہیں بیٹھا کریں گے اور دوری کی وجہ سے ہم آپ   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے اصحاب کی صحبت میں بھی نہیں بیٹھ سکتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ  تعالیٰ اور اس کا رسول اور ایمان والے تمہارے دوست ہیں تو حضرت عبداللہ بن سلام   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا ’’ اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر اور مؤمنین کے دوست ہونے پر ہم راضی ہیں۔(قرطبی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۱۳۱، الجزء السادس)

            آیتِ مبارکہ میں بیان کردہ حکم تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے سب ایک دوسرے کے دوست اور محب ہیں۔

{وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ: اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔} عربی گرامر کے اعتبار سے آیتِ مبارکہ کے اس جملے کے چار معنی بیان کئے گئے ہیں :

(1)…پہلا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکا ہوا ہونا مومنوں کی ایک مزید صفت ہے۔(جمل، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۵،۲ / ۲۴۲)

(2)…دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ مومنین نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کے دونوں کام خشوع اور تواضع کے ساتھ کرتے ہیں۔(ابو سعود، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۵۹)

(3)…تیسرا معنی یہ ہے کہ وہ تواضع اور عاجزی کے ساتھ زکوٰۃ دیتے ہیں۔(جمل، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۲۴۲)

(4)… چوتھا معنیٰ یہ ہے کہ وہ حالت ِ رکوع میں راہِ خدا میں دیتے ہیں۔

            پہلا معنیٰ سب سے قوی اور چوتھا معنیٰ سب سے کمزور ہے بلکہ امام فخر الدین رازی   رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے تفسیر کبیر میں اس کا بہت شدو مد سے رد کیا ہے اور اس کے بطلان پر بہت سے دلائل قائم کئے ہیں۔

5:56
وَ مَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ۠(۵۶)
اور جو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کو اپنا دوست بنائے تو بیشک اللہ ہی کا گروہ غالب ہے،

5:57
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۵۷)
اے ایمان والو! جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنالیا ہے (ف۱۴۷) وہ جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے اور کافر (ف۱۴۸) ان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر ایمان رکھتے ہو(ف۱۴۹)

} اَلَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا :وہ لوگ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اورکھیل بنالیا ہے۔{ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ رفاعہ بن زید اور سُوَید بن حار ث نامی دو آدمی اظہار ِاسلام کے بعد منافق ہوگئے ۔بعض مسلمان اُن سے محبت رکھتے تھے۔    اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور بتایا کہ زبان سے اسلام کا اظہار کرنا اور دل میں کفر چھپائے رکھنا دین کو ہنسی اور کھیل بنانا ہے اور ایسے لوگوں اور ان کے علاوہ مشرکوں کافروں کو دوست بنانے سے بھی منع کردیا گیا کیونکہ خدا عَزَّوَجَلَّ کے دشمنوں سے دوستی کرنا ایمان دار کا کام نہیں۔اس پر مزید تفصیل اگلی آیت کے تحت موجود ہے۔

5:58
وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّ لَعِبًاؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ(۵۸)
اور جب تم نماز کے لئے اذان دو تو اسے ہنسی کھیل بناتے ہیں (ف۱۵۰) یہ اس لئے کہ وہ نرے بے عقل لوگ ہیں (ف۱۵۱)

{وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ: اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو۔} اس آیت کے بارے میں کلبی کا قول ہے کہ جب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مُؤذن نماز کے لئے اذان کہتا اور مسلمان اٹھتے تو یہود ی ہنستے اور تمسخر کرتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مفسر سدی نے بیان کیا کہ مدینہ طیبہ میں جب مؤذن اذان میں اَشْہَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللہُ ‘‘ اور’’اَشْہَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ ‘‘کہتا تو ایک نصرانی یہ کہا کرتا کہ ’’جل جائے جھوٹا ‘‘ایک رات اس کا خادم آگ لایا وہ اور اس کے گھر کے لوگ سورہے تھے آگ سے ایک شرارہ اُڑا اور وہ نصرانی اور اس کے گھر کے لوگ اور تمام گھر جل گیا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۸، ۱ / ۵۰۷)

آیت’’وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

اس آیت سے 3 مسئلے معلوم ہوئے :

(1)… نماز پنج گانہ کے لئے اذان ہونی چاہیے، اذان کا ثبوت اس آیت سے بھی ہے۔

(2)… دین کی کسی چیز کا مذاق اڑانا کفر ہے جیسا کہ اللہ  تعالیٰ نے اذان کا مذاق اڑانے والوں کو کافر قرار دیاہے۔ ایسے ہی عالم ، مسجد، خانہ کعبہ، نماز، روزہ وغیرہا میں سے کسی کا مذاق اڑانا کفر ہے۔

(3) دینی چیزوں کا مذاق اڑانے والے احمق و بے عقل ہیں جو ایسے سَفِیہانہ اور جاہلانہ حرکات کرتے ہیں۔

دینی چیزوں کا مذاق اڑانے والوں کا رد:

اس آیت میں دینی چیزوں کا مذاق اڑانے والوں کا کتنا شدید رد ہے ۔ افسوس کہ جو کام یہودی اور منافق کیا کرتے تھے وہی کام مسلمان کہلانے والوں میں آتے جارہے ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، فرشتے، جنت، حوریں ، دوزخ، اس کے عذاب، قرآنی آیات، احادیث ِ نَبوی، دینی کتابوں ، دینی شَعائر، عمامہ، داڑھی، مسجد، مدرسے، دیندار آدمی، دینی لباس، دینی جملے، مقدس کلمات الغرض وہ کونسی مذہبی چیز ہے کہ جس کا اِس زمانے میں کھلے عام فلموں ، ڈراموں ، خصوصاً مزاحیہ ڈراموں ، عام بول چال، دوستوں کی مجلسوں ، دنیاوی تقریروں ، ہنسی مذاق کی نشستوں اور باہمی گپ شپ میں مذاق نہیں اُڑایا جاتا۔ افسوس کہ مسلمان کہلانے والے اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مسلمان کہلانے والوں کو داڑھی، عمامہ، مذہبی حُلیے سے نفرت ہے۔ مسلمان کہلانے والے کو اذان سن کر تکلیف ہوتی ہے۔ قرآن وحدیث کی باتیں اسے پرانی باتیں لگتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ دینی شَعائِر کا مذاق اڑانا کفر ہے اوردین کا مذاق اڑانے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ اِذَا عَلِمَ مِنْ اٰیٰتِنَا شَیْــٴَـاﰳ اتَّخَذَهَا هُزُوًاؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ(الجاثیہ :۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب ہماری آیتوں میں سے کسی پر اطلاع پائے تواسے مذاق بناتا ہے ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔

اور فرماتا ہے:

وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُؕ-قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ(۶۵)لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ(التوبہ:۶۵، ۶۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو ۔بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر۔

اور فرماتا ہے:

وَ ذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا( انعام:۷۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور چھوڑ دے ان کو جنہوں نے اپنا دین ہنسی کھیل بنالیا اور انہیں دنیا کی زندگی نے فریب دیا۔

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور ان آیات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی حالت پر غور کرنے اور اپنی اس روش کو تبدیل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین۔

5:59
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُۙ-وَ اَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ(۵۹)
تم فرماؤ اے کتابیوں تمہیں ہمارا کیا برا لگا یہی نہ کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اترا اور اس پر جو پہلے اترا (ف۱۵۲) اور یہ کہ تم میں اکثر بے حکم ہیں،

{قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ:تم فرماؤ : اے اہلِ کتاب!۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت فرمایا کہ آپ انبیاء  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممیں سے کس کس کو مانتے ہیں ؟ اس سوال سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ مانیں تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئیں لیکن حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہوں اور جو اُس نے ہم پر نازل فرمایا اور جو حضرت ابراہیم ،حضرت اسمٰعیل ،حضرت اسحٰق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی اولاد پر نازل فرمایا اور جو حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو دیا گیا یعنی توریت و انجیل اور جواور نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے دیا گیا سب کو مانتا ہوں۔ہم انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممیں فرق نہیں کرتے کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں۔جب یہودیوں کو معلوم ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کو بھی مانتے ہیں تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے منکر ہوگئے اور کہنے لگے جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مانے ہم اس پر ایمان نہ لائیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۹،۲ / ۳۹)

            اور فرمایا گیا کہ اے کتابیو! ہم تمہارے تمام پیغمبروں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور تمہاری تمام کتابوں کو حق مانتے ہیں تو کیا تمہیں یہی برا لگ رہا ہے ۔ اس چیز کی وجہ سے تو تمہیں ہمارے ساتھ ہونا چاہیے نہ کہ ہمارے خلاف۔

5:60
قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ غَضِبَ عَلَیْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَؕ-اُولٰٓىٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ(۶۰)
تم فرماؤ کیا میں بتادوں جو اللہ کے یہاں اس سے بدتر درجہ میں ہیں (ف۱۵۳) وہ جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر غضب فرمایا اور ان میں سے کردیے بندر اور سور (ف۱۵۴) اور شیطان کے پجاری ان کا ٹھکانا زیادہ برا ہے (ف۱۵۵) اور یہ سیدھی راہ سے زیادہ بہکے،

{قُلْ: اے محبوب! تم فرماؤ۔} یہودیوں نے مسلمانوں سے کہا کہ تمہارے دین سے بدتر کوئی دین ہم نہیں جانتے۔ اس پر فرمایا گیا کہ مسلمانوں کو تو تم صرف اپنے بغض و کینہ اور دشمنی کی وجہ سے ہی برا کہتے ہو جبکہ حقیقت میں اصل بدتر تو تم لوگ ہو اور ذرا اپنے حالات دیکھ کر خود فیصلہ کر لو کہ تم اللہ تعالیٰ کے محبوب ہو یا مردود؟ پچھلے زمانہ میں صورتیں تمہاری مَسخ ہوئیں ، سور، بندر تم بنائے گئے ،بچھڑے کوتم نے پوجا ، اللہ تعالیٰ کی لعنت تم پر ہوئی، غضب ِ الٰہی کے مستحق تم ہوئے تو حقیقی بدنصیب اور بدتر تو تم ہواور تم ہی بدترین مقام یعنی جہنم میں جاؤ گے۔

5:61
وَ اِذَا جَآءُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ قَدْ دَّخَلُوْا بِالْكُفْرِ وَ هُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِهٖؕ-وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا یَكْتُمُوْنَ(۶۱)
اور جب تمہارے پاس آئیں (ف۱۵۶) ہم مسلمان ہیں اور وہ آتے وقت بھی کافر تھے اور جاتے وقت بھی کافر، اور اللہ خوب جانتا ہے جو چھپا رہے ہیں

{وَ اِذَا جَآءُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا: اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں۔} یہ آیت یہودیوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے سرورِ دو عالم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے ایمان و اخلاص کا اظہار کیا اور کفر و گمراہی کو چھپائے رکھا ۔اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر اپنے حبیب   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو اُن کے حال کی خبر دی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۱، ۱ / ۵۰۸)

            منافق بداعتقادی کے ساتھ آتے تھے تو جیسے آتے ویسے ہی جاتے اور صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عقیدت و محبت کے ساتھ آتے تو فیض کے دریا سمیٹ کر جاتے تھے۔اس سے معلوم ہو اکہ بداعتقادی کے ساتھ کسی کے پاس جانے والا کبھی اس سے فیض نہیں اٹھا سکتا۔

5:62
وَ تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۶۲)
اور ان (ف۱۵۷) میں تم بہتوں کو دیکھو گے کہ گناہ اور زیادتی اور حرام خوری پر دوڑتے ہیں (ف۱۵۸) بیشک بہت ہی برے کام کرتے ہیں،

{وَ تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ:اور تم ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے۔} یہاں یہودیوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ تم اِن یہودیوں کو دیکھو گے کہ گناہ اور زیادتی اور حرام خوری کے کاموں میں دوڑے جاتے ہیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہاں گناہ سے مراد توریت کی وہ آیات چھپانا ہے جن میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کا بیان تھا اور زیادتی سے مراد توریت میں اپنی طرف سے بڑھا دینا ہے اورحرام خوری سے مراد وہ رشوتیں ہیں جو یہ لے کر توریت کے احکام بدل دیتے تھے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۲، ۱ / ۵۰۸)

یہودیوں کی صفات اور مسلمانوں کی حالت زار:

ویسے ’’اِثْم‘‘ہر گناہ اور نافرمانی کوشامل ہے اور یہاں یہودیوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان پر غور کرنے کی حاجت ہے کہ ظاہری لفظی معنیٰ کے اعتبار سے گناہ ، زیادتی اور حرام خوری کے کاموں میں بھاگ کر جانا ان کی صفت بیان کی گئی ہے لیکن اب ہمارے ہاں کتنے ایسے لوگ ہیں کہ نیکی کے کام میں تو تاخیر بلکہ ترک کریں گے لیکن گناہ کے کام میں جلدی کریں گے۔ کسی کی مدد کرنے اور اسے ظلم سے بچانے میں کَنی کترا کر گزر جائیں گے لیکن ظلم و زیادتی میں اپنی قوم یا علاقے یا تحریک کے جھنڈے نیچے تَعَصُّب کے ساتھ موجود ہوں گے۔ حلال تو ان کے گلے میں اَٹکے گا لیکن جہاں حرام کی توقع ہوگی، رشوت ملے گی، سود ملے گا، خوب ناجائز تجارت کا فائدہ نظر آئے گا وہاں بھاگ کر جائیں گے۔

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تَمَدُّن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں ! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

اور اپنی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے غور کرو کہ

کون ہے تارکِ آئینِ رسولِ مختار؟

مَصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟

 ہوگئی کس کی نِگہ طرزِ سَلف سے بیزار؟

اوراب تمہارا حال یہ ہے کہ

قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں پاس نہیں

5:63
لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۶۳)
انہیں کیوں نہیں منع کرتے ان کے پادری اور درویش گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے، بیشک بہت ہی برے کام کررہے ہیں (ف۱۵۹)

{لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ: انہیں کیوں نہ روکاان کے پادریوں نے؟} حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اس آیت میں ’’اَلرَّبّٰنِیُّوْنَ ‘‘سے عیسائیوں کے علماء مراد ہیں اور’’اَلْاَحْبَارُ‘‘سے یہودیوں کے علماء مراد ہیں ،اور ایک قول یہ ہے کہ یہ دونوں الفاظ یہودیوں کے بارے میں ہیں کیونکہ یہ آیات یہودیوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔(تفسیر کبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۳، ۴ / ۳۹۳)

             اورایک لفظ سے یہودیوں کے درویش مراد ہیں اور دوسرے لفظ سے یہودیوں کے علماء مراد ہیں۔

علماء پر برائی سے منع کرنا ضروری ہے:

            یہاں یہودی درویشوں اور علماء کے متعلق فرمایا گیا کہ انہوں نے اپنی قوم کو گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے کیوں نہ روکا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عالمِ دین کی اس بات پر بھی پکڑ ہوگی کہ وہ گناہ ہوتے ہوئے دیکھیں اور قدرت کے باوجود منع نہ کریں کیونکہ ایسا عالم گناہ کرنے والے کی طرح ہے۔ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’گناہ روحانی مرض ہے اور ا س کا علاج اللہ تعالیٰ کی، اس کی صفات کی اور ا س کے احکام کی معرفت ہے اور یہ علم حاصل ہونے کے باوجود گناہ ختم نہ ہوں تو یہ اس مرض کی طرح ہے جو کسی شخص کو ہو اور دوائی کھانے کے باوجود وہ مرض ختم نہ ہو اور عالم کا گناہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا یہ قلبی مرض انتہائی شدید ہے۔(تفسیر کبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۳، ۴ / ۳۹۳)

            عالم پر واجب ہے کہ خود بھی سنبھلے اور دوسروں کو بھی سنبھالے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : قرآنِ پاک میں (علماء کے لئے) اس آیت سے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ والی کوئی آیت نہیں۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۳، ۱ / ۵۰۹)

            اور فرماتے ہیں : قرآنِ پاک میں یہ آیت (علماء کے بارے میں ) بہت سخت ہے کیونکہ اللہ  تعالیٰ نے برائی سے منع کرنا چھوڑ دینے والے کو برائی کرنے والے کی وعید میں داخل فرمایا ہے۔(مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۲۹۲-۲۹۳)

            امام ضحاک  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میرے نزدیک اس آیت سے زیادہ خوف دلانے والی قرآنِ پاک میں کوئی آیت نہیں، افسوس کہ ہم برائیوں سے نہیں روکتے ۔ (تفسیر طبری، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۳، ۴ / ۶۳۸)

5:64
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ یَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌؕ-غُلَّتْ اَیْدِیْهِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْاۘ-بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِۙ-یُنْفِقُ كَیْفَ یَشَآءُؕ-وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّ كُفْرًاؕ-وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِؕ-كُلَّمَاۤ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللّٰهُۙ-وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًاؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(۶۴)
اور یہودی بولے اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے (ف۱۶۰) ان کے ہاتھ باندھے جائیں (ف۱۶۱) اور ان پر اس کہنے سے لعنت ہے بلکہ اس کے ہاتھ کشادہ ہیں (ف۱۶۲) عطا فرماتا ہے جیسے چاہے (ف۱۶۳) اور اے محبوب! یہ (ف۱۶۴) جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا اس سے ان میں بہتوں کو شرارت اور کفر میں ترقی ہوگی (ف۱۶۵) اور ان میں ہم نے قیامت تک آپس میں دشمنی اور بیر ڈال دیا (ف۱۶۶) جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اسے بجھا دیتا ہے (ف۱۶۷) اور زمین میں فساد کے لیے دوڑتے پھرتے ہیں، اور اللہ فسادیوں کو نہیں چاہتا،

{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ: اور یہودیوں نے کہا۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ یہودی بہت خوش حال اور نہایت دولت مند تھے۔ جب انہوں نے رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب و مخالفت کی تو اُن کی روزی کم ہوگئی۔ اس وقت فنحاص یہودی نے کہا کہ اللہ  تعالیٰ کا ہاتھ بندھا ہے یعنی مَعَاذَاللہ وہ رزق دینے اور خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے ۔اُس کے اِس قول پر کسی یہودی نے منع نہ کیا بلکہ راضی رہے، اسی لئے یہ سب کا مَقولہ قرار دیا گیا اور یہ آیت اُن کے بارے میں نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۵۰۹، مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۲۹۳)

            اور فرمایا گیا کہ اللہ  تعالیٰ تو جواد و کریم ہے ، ہاں ان یہودیوں کے ہاتھ باندھے جائیں۔اِس ارشاد کا یہ اثر ہوا کہ یہودی دنیا میں سب سے زیادہ بخیل ہوگئے یا اِس جملے کا یہ معنیٰ ہے کہ اُن کی اس بے ہودہ گوئی اور گستاخی کی سزا میں اُن کے ہاتھ جہنم میں باندھے جائیں اور اس طرح انہیں آتش دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کشادہ ہونے سے مراد بے حد کرم اور مہربانی ہے کہ دوستوں کو بھی نوازے اور دشمنوں کو بھی محروم نہ کرے ورنہ اللہ  تعالیٰ جسمانی ہاتھ اور ہاتھ کے کھلنے سے پاک ہے۔ اور فرمایا کہ اللہتعالیٰ اپنی حکمت کے موافق جیسے اور جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اس میں کسی کواعتراض کرنے کی مجال نہیں۔ وہ کسی کو امیر اور کسی کو غریب کرتا ہے لیکن اس وجہ سے نہیں کہ اس کے خزانے میں کچھ کمی یا کرم میں کچھ نقصان ہے بلکہ بندوں کے حالات کا تقاضا ہی یہ ہے اور اس میں ہزارہا مصلحتیں ہیں۔

{وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ: اورضرور ان میں سے بہت سے لوگوں (کی سرکشی اور کفر) میں اضافہ کرے گا۔} ارشاد فرمایا کہ جتنا قرآنِ پاک اُترتا جائے گا اتنا ہی یہودیوں کا حسد و عِناد بڑھتا جائے گا اور وہ اس کے ساتھ کفرو سرکشی میں بڑھتے رہیں گے جیسے مُقَوِّی غذا کمزور معدے والے کو بیمار کر دیتی ہے، اس میں غذا کا قصور نہیں بلکہ مریض کے معدے کا قصور ہے یا جیسے سورج کی روشنی چمگادڑ کو اندھا کر دیتی ہے تو اس میں سورج کا نہیں بلکہ چمگادڑ کی آنکھ کا قصور ہے۔

آیت ’’وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

             اس سے دو چیزیں معلوم ہوئیں :

(1)… جس کے دل میں سرورِکائنات   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت نہ ہو اس کے لئے قرآن و حدیث کفر کی زیادتی کا سبب ہیں جیسے آج کل بہت سے بے دینوں کو دیکھا جارہا ہے۔یاد رہے کہ دین کی عظمت ،دین لانے والے محبوب   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت سے ہے۔

(2)… کفر میں زیادتی کمی ہوتی ہے یعنی کوئی کم شدید کافر ہوتا ہے اور کوئی زیادہ شدید۔ کمی زیادتی کسی مقدار کے اعتبار سے نہیں ہوتی، یہ ایسے ہی ہے جیسے ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے یعنی کوئی زیادہ مضبوط ایمان والا اور کوئی کمزور ایمان والا ہوتا ہے۔

{وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ: اور ہم نے قیامت تک ان میں دشمنی اور بغض ڈال دیا ۔} یعنی وہ ہمیشہ باہم مختلف رہیں گے اور اُن کے دِل کبھی نہ ملیں گے اگرچہ اوپر سے کبھی کبھار مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجائیں۔

{كُلَّمَاۤ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ: جب کبھی یہ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں۔} جب بھی یہودیوں نے فساد ،شر انگیزی اور اللہتعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی ایسے شخص کو ان پر مُسَلَّط کر دیا جس نے انہیں ہلاکت اور بربادی سے دوچار کردیا، پہلے جب انہوں نے فتنہ و فساد شروع کیا اور تورات کے احکام کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے بخت نصر کو ان کی طرف بھیج دیا جس نے ان کو تباہ کر کے رکھ دیا، کچھ عرصے بعد پھر جب انہوں نے سر اٹھایا تو طیطوس رومی نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب انہوں شر انگیزی شروع کی تو فارسی مجوسیوں نے ان کا حشر نشر کردیا، پھر کچھ عرصے بعد جب فساد کا بازار گرم کیا تو  اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان پر تَسلُّط اور غلبہ عطا فرمادیا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۵۱۰-۵۱۱)

ایک قول یہ ہے کہ جب بھی یہودی نبی اکرم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے خلاف جنگ کاا رادہ کرتے ہوئے اس کے اسباب تیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے منصوبے ناکام بنا دے گا۔ (ابوسعود، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۶۶)

5:65
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(۶۵)
اور اگر کتاب والے ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ضرور ہم ان کے گناہ اتار دیتے اور ضرور انہیں چین کے باغوں میں لے جاتے

{وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا:اور اگر اہلِ کتاب ایمان لاتے۔} اہلِ کتاب کے متعلق فرمایا کہ اگر یہ ایمان لے آتے تو ان کے گناہ بخش دئیے جاتے اور یہ جنت کے مستحق قرار پاتے۔ اِس آیت میں ایمان لانے کی اُخروی جزا کا بیان ہے اور اگلی آیت میں ایمان لانے کی دنیوی جزا کا بیان کیا گیا ہے۔

5:66
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْؕ-مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌؕ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ۠(۶۶)
اور اگر وہ قائم رکھتے توریت اور انجیل (ف۱۶۸) اور جو کچھ ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے اترا (ف۱۶۹) تو انہیں رزق ملتا اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے (ف۱۷۰) ان میں کوئی گروہ اگر اعتدال پر ہے (ف۱۷۱) اور ان میں اکثر بہت ہی برے کام کررہے ہیں(ف۱۷۲)

{وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ:اور اگر وہ تورات اور انجیل کوقائم کرلیتے۔} ارشاد فرمایا کہ اور اگر وہ تورات اور انجیل اور دیگر کتابوں پر عمل کرتے اس طرح کہ نبیٔ   کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاتے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع کرتے کیونکہ توریت و انجیل میں اسی کا حکم دیا گیاہے اور دیگر تمام کتابیں جو اللہ  تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائیں سب میں امامُ الانبیاءصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ذکر اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کا حکم ہے تو اگر وہ اس حکم پر عمل کرلیتے تو انہیں ان کے اوپر سے اور ان کے قدموں کے نیچے سے رزق ملتا یعنی رزق کی کثرت ہوتی اور ہر طرف سے انہیں رزق پہنچتا۔

دین کی پابندی اوراللہ تعالیٰ کی اطاعت وُسْعَت رزق کا ذریعہ ہے:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین کی پابندی اور اللہ  تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری سے رزق میں وُسعت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت ابو اسحاق ہمدانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے، نبیٔ   کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جسے عمر میں اضافہ ہونا اور رزق میں زیادتی ہونا پسند ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔(شعب الایمان ، السادس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۲۱۹، الحدیث: ۷۹۴۷)

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے لوگو! جو چیز تمہیں جنت کے قریب اور جہنم سے دور کر سکتی ہے ا س کا میں نے تمہیں حکم دے دیا اور جو چیز تمہیں جہنم کے قریب اور جنت سے دور کر سکتی ہے اس سے میں نے تمہیں منع کر دیا۔بے شک رُوْحُ الْاَمین عَلَیْہِ السَّلَام نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ کوئی جان اس وقت تک مرے گی نہیں جب تک وہ اپنا رزق پورا نہ کر لے لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے رزق طلب کرو۔ رزق کا آہستہ پانا تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ذریعے رزق طلب کرنے لگو کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ اس کی اطاعت کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔(شرح السنہ، کتاب الرقاق، باب التوکل علی اللہ عزوجل، ۷ / ۳۲۹، الحدیث: ۴۰۰۶)

{مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ: ان میں ایک گروہ اعتدال کی راہ والا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ سارے اہلِ کتاب یکساں نہیں ہیں بلکہ بعض اعتدال پسند ہیں اور وہ حد سے تجاوز نہیں کرتے ،یہ یہودیوں میں سے وہ لوگ ہیں جو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ جبکہ بقیہ اکثریت نافرمان ہے جو کفرپر جمے ہوئے ہیں۔

5:67
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗؕ-وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۶۷)
اے رسول پہنچا دو جو کچھ اترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے (ف۱۷۳) اور ایسا نہ ہو تو تم نے اس کا کوئی پیام نہ پہنچایا اور اللہ تمہاری نگہبانی کرے گا لوگوں سے (ف۱۷۴) بیشک اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا،

{یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ:اے رسول۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رسول کے لقب سے خطاب فرمایا، یہ سرکارِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خصوصیت ہے ورنہ دیگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے اسماءِ مبارکہ سے خطاب فرمایا گیا ہے۔ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا گیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے پیغامات لوگوں تک پہنچائیں اور کسی قسم کا کوئی اندیشہ نہ فرمائیں ، اللہ تعالیٰ ان کفار سے آپ  کی حفاظت فرمائے گا جو آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس خطرے کی وجہ سے دورانِ سفر رات کے وقت سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حفاظت کیلئے پہرہ دیا جاتا تھا، جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی توپہرہ ہٹا دیا گیا اور حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پہرے داروں سے فرمایا کہ تم لوگ چلے جاؤ، اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا فرمادیا ہے ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۵، الحدیث: ۳۰۵۷)

            حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی حفاظت کے لئے پہرہ دینے کا شرف جنہیں سب سے پہلے حاصل ہو اوہ حضرت سعد بن ابی وقا ص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُتھے ،چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا   فرماتی ہیں ’’ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ آتے وقت ایک رات بے خواب رہے ،پھر فرمایا کاش کوئی نیک شخص ہماری حفاظت کرتا۔ اچانک ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی تو ارشاد فرمایا ’’یہ کون ہے؟ انہوں نے عرض کی: میں سعد ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’ تمہیں کیا چیز یہاں لائی ہے؟ عرض کی: میرے دل میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر خطرہ گزرا تو میں ان کی حفاظت کرنے آیا ۔ ان کے لیے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دعا کی، پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سوگئے۔(مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، باب فی فضل سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، ص۱۳۱۴، الحدیث: ۴۰(۲۴۱۰))

 

5:68
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰى شَیْءٍ حَتّٰى تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّ كُفْرًاۚ-فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ(۶۸)
تم فرمادو، اے کتابیو! تم کچھ بھی نہیں ہو (ف۱۷۵) جب تک نہ قائم کرو توریت اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا (ف۱۷۶) اور بیشک اے محبوب! وہ جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا اس میں بہتوں کو شرارت اور کفر کی اور ترقی ہوگی (ف۱۷۷) تو تم کافروں کا کچھ غم نہ کھاؤ،

{قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ:تم فرمادو اے کتابیو!} اہلِ کتاب سے فرمایا گیا کہ جب تک تم نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہیں لے آتے تب تک تم کسی دین و ملت پر نہیں ہو کیونکہ اگر حقیقی طور پر تم تورات و انجیل پرعمل کرو تو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بھی ایمان لے آؤ کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کا حکم تورات و انجیل میں موجود ہے۔

{مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ: اے حبیب! یہ جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو قرآن آپ کی طرف آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، یہ اہلِ کتاب کے علماء اور سرداروں کی پرانی سرکشی اور کفر میں اضافہ کرے گا کیونکہ آپ پر جب قرآنِ مجید کی کوئی آیت نازل ہوتی ہے تو یہ اس کا انکار کر دیتے ہیں اور اس طرح یہ اپنے کفروسرکشی میں اور زیادہ سخت ہوجاتے ہیں اس لئے اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو یہودی آپ کی نبوت کاانکار کر رہے اور آپ پر ایمان نہیں لا رہے ان کی وجہ سے آپ غمزدہ نہ ہوں کیونکہ ان کے اس کفرکا وبال انہی پر پڑے گا۔(روح البیان، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۸، ۲ / ۴۱۹، خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۸، ۱ / ۵۱۱-۵۱۳، ملتقطاً)

5:69
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِــٴُـوْنَ وَ النَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۶۹)
بیشک وہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں (ف۱۷۸) اور اسی طرح یہودی اور ستارہ پرت اور نصرانی ان میں جو کوئی سچے دل سے اللہ اور قیامت پر ایمان لائے اور اچھے کام کرے توان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ کچھ غم،

{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک وہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اہلِ کتاب اس وقت تک کسی دین و ملت پر نہیں جب تک وہ ایمان نہیں لاتے اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ یہ حکم صرف اہلِ کتاب کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر ملت والا ا س حکم میں داخل ہے اور کسی کو بھی تب تک کوئی فضیلت اور منقبت حاصل نہیں جب تک وہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ پراور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتا اور ایسے نیک اعمال نہیں کرتا جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور نیک عمل میں سے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانا بھی ہے کیونکہ جب تک کوئی تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ایمان نہیں لاتا توا س کا ایمان مکمل نہیں ہو گا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱ / ۵۱۳)

            اس آیت کی تفسیر کے بارے میں مزید معلومات کے لئے سورہ ٔبقرہ کی آیت نمبر 62کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔

5:70
لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمْ رُسُلًاؕ-كُلَّمَا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُهُمْۙ-فَرِیْقًا كَذَّبُوْا وَ فَرِیْقًا یَّقْتُلُوْنَۗ(۷۰)
بیشک ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (ف۱۷۹) اور ان کی طرف رسول بھیجے، جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول وہ بات لے کر آیا جو ان کے نفس کی خواہش نہ تھی (ف۱۸۰) ایک گروہ کو جھٹلایا اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہیں(ف۱۸۱)

{لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:بیشک ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا۔} اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے توریت میں یہ عہد لیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں اور حکمِ الٰہی کے مطابق عمل کریں لیکن انہوں نے یہ کیا کہ جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول ان کی خواہشات کے برخلاف حکم لے کر آتے توانبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کسی گروہ کو تو یہ جھٹلاتے اور کسی کو شہید کردیتے ۔ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب میں تو یہودو نصارٰی سب شریک ہیں مگر قتل کرنا یہ خاص یہودیوں کا کام ہے، اُنہوں نے بہت سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو شہید کیا جن میں سے حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی ہیں۔ یہ خیال رہے کہ کوئی نبی عَلَیْہِ السَّلَام جہاد میں کافروں کے ہاتھوں شہید نہیں ہوئے۔

5:71
وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَ صَمُّوْا كَثِیْرٌ مِّنْهُمْؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ(۷۱)
اور اس گمان میں ہیں کہ کوئی سزا نہ ہوگی (ف۱۸۲) تو اندھے اور بہرے ہوگئے (ف۱۸۳) پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی (ف۱۸۴) پھر ان میں بہتیرے اندھے اور بہرے ہوگئے اور اللہ ان کے کام دیکھ رہا ہے،

{وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ: اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ (انہیں اس پر) کوئی سزا نہ ہوگی۔} یہودو نصاریٰ اتنے سنگین جَرائم کیمُرتَکِب ہوئے کہ دونوں نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو جھٹلایا اور بطورِ خاص یہودیوں نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو شہید بھی کیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے یہ گمان کیا کہ ایسے شدید جرموں پر بھی انہیں عذاب نہیں دیا جائے گا تو یہ اندھے اور بہرے ہوگئے یعنی حق دیکھنے سے اندھے اور حق سننے سے بہرے ہوگئے اور ویسے بھی وہ عقل و شعور سے اندھے بہرے تھے کہ ایسے جرائم کے باوجود بھی خود کو سزا سے محفوظ سمجھتے رہے۔ پھر جب اُنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد توبہ کی تواللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی لیکن پھر ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہوگئے اور اسی سابقہ روش پر چل پڑے۔ دو مرتبہ اندھاا ور بہرہ ہونے سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے چند اقوال ہیں :

(1)…یہودی حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے زمانے میں عقل کے اعتبار سے اندھے اور بہرے ہوگئے پھر ان میں سے بعض کی توبہ اللہ  تعالیٰ نے قبول فرمائی کہ انہیں انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے کی توفیق دی ۔پھر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانہ ٔمبارکہ میں ان کی نبوت و رسالت کا انکار کر کے بہت سے یہودی دل کے اندھے اور بہرے ہو گئے۔

(2)… پہلی مرتبہ تب دل کے اندھے اور بہرے ہوئے جب انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی پھر اس سے انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی پھر دوسری مرتبہ ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے تب ہوئے جب انہوں نے فرشتوں کے نزول اور رویَتِ باری تعالیٰ کا مطالبہ کیا۔

(3)…  دو مرتبہ بصیرت کے اندھے اور بہرے ہونے کی تفسیر سورۂ بنی اسرائیل کی 4سے لے کر7تک وہ آیات ہیں جن میں یہ خبر دی گئی کہ یہودی دو مرتبہ زمین میں فساد کریں گے۔      (تفسیر کبیر، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷۱، ۴ / ۴۰۷)

5:72
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَؕ-وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(۷۲)
بیشک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ وہی مسیح مریم کا بیٹا ہے (ف۱۸۵) اور مسیح نے تو یہ کہا تھا، اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب (ف۱۸۶) اور تمہارا رب، بیشک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں،

{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا:بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا۔} عیسائیوں کے بہت سے فرقے ہیں :ان میں سے یعقوبیہ اور ملکانیہ کہتے تھے کہ مریم نے اِلٰہ یعنی معبود کوجنا اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ الٰہ یعنی معبود نے عیسیٰ کی ذات میں حُلول کرلیا اور وہ اُن کے ساتھ مُتَّحِد ہوگیا تو عیسٰیالٰہ (معبود) ہو گئے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۱ / ۵۱۴)

مَعَاذَ اللہ ثُمَّ مَعَاذَاللہ۔ عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بھی توہین کی کہ وہ تو اپنے کو رب عَزَّوَجَلَّکا بندہ کہتے تھے اور یہ انہیں جھٹلا کر انہی کو رب کہنے لگے۔

5:73
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍۘ-وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-وَ اِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۳)
بیشک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں اللہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے (ف۱۸۷) اور خدا تو نہیں مگر ایک خدا (ف۱۸۸) اور اگر اپنی بات سے باز نہ آئے (ف۱۸۹) تو جو ان میں کافر مریں گے ان کو ضرور دردناک عذاب پہنچے گا،

{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا: بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا۔} عیسائیوں میں فرقہ مرقوسیہ اور نسطوریہ کا عقیدہ یہ ہے کہ الٰہ تین ہیں ،باپ بیٹا روحُ القدس، اللہ تعالیٰ کو باپ اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا بیٹا اور حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو رُوْحُ الْقُدُس کہتے ہیں۔علم کلام کے ماہر علماء فرماتے ہیں کہ نصاریٰ کہتے ہیں کہ باپ بیٹا روح ُالقدس یہ تینوں ایک الٰہ ہیں۔ مَعَاذَاللہ۔ ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ  تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ اس کا کوئی ثانی ہے نہ ثالِث۔ وہ وحدانیت کے ساتھ مَوصوف ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں ، باپ بیٹے بیوی سب سے پاک ہے۔ اگر یہ کفار اس عقیدے سے باز نہ آئے اور تثلیث (تین خدا ماننے) کے معتقدر ہے اور توحید اختیار نہ کی تو آخرت میں دردناک عذاب سے دوچار ہوں گے۔

5:74
اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَهٗؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۷۴)
تو کیوں نہیں رجوع کرتے اللہ کی طرف اور اس سے بخشش مانگتے، اور اللہ بخشنے والا مہربان،

5:75
مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌۚ-قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ-وَ اُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌؕ-كَانَا یَاْكُلٰنِ الطَّعَامَؕ-اُنْظُرْ كَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۷۵)
مسیح بن مریم نہیں مگر ایک رسول (ف۱۹۰) اس سے پہلے بہت رسول ہو گزرے (ف۱۹۱) اور اس کی ماں صدیقہ ہے (ف۱۹۲) دونوں کھانا کھاتے تھے (ف۱۹۳) دیکھو تو ہم کیسی صاف نشانیاں ان کے لئے بیان کرتے ہیں پھر دیکھو وہ کیسے اوندھے جاتے ہیں،

{مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ: مَسیح بن مریم تو صرف ایک رسول ہیں۔} یہاں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خدا نہ ہونے کی دلیل بیان کی ہے چنانچہ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک رسول ہے۔خدا نہیں ہے لہٰذا اُن کو خدا ماننا غلط ،باطل اور کفرہے۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں اور وہ رسول بھی معجزات رکھتے تھے، یہ معجزات اُن کی نبوت کی صداقت کی دلیل تھے نہ کہ خدا ہونے کی، اِسی طرح حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی رسول ہیں اُن کے معجزات بھی ان کی نبوت کی دلیل ہیں نہ کہ خدا ہونے کی، لہٰذا اُنہیں رسول ہی ماننا چاہئے اور جب دیگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو معجزات کی بنا پر خدا نہیں مانتے تواِن کو بھی خدا نہ مانو۔

{وَ اُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌ: اور اس کی ماں صدیقہ ہے ۔} یعنی حضرت مریم رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا بہت سچی ہیں جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہیں تو تم بھی ان کی پیروی کرو۔ نیز حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی والدہ دونوں کھانا کھاتے تھے جبکہ معبود کھانے سے پاک ہوتا ہے اور کھانا کھانا بھی معبود نہ ہونے کی دلیل ہے کیونکہ معبود غذا کا محتاج نہیں ہوسکتا تو جو غذا کھائے، جسم رکھے اوراُس جسم میں تَحلیل واقع ہو ،غذا اس کا بدل بنے وہ کیسے معبود ہوسکتا ہے؟

5:76
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًاؕ-وَ اللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۷۶)
تم فرماؤ کیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو تمہارے نقصان کا مالک نہ نفع کا (ف۱۹۴) اور اللہ ہی سنتا جانتا ہے،

{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس آیت میں شرک کو باطل کرنے کی ایک اور دلیل بیان کی گئی ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مستحق عبادت وہی ہوسکتا ہے جو نفع نقصان وغیرہ ہر چیز پر ذاتی قدرت و اختیار رکھتا ہو اورجو ایسا نہ ہو وہ مستحق عبادت نہیں ہوسکتا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نفع و ضَرَر کے بِالذّات مالک نہ تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے مالک کرنے سے مالک ہوئے تو اُن کی نسبت اُلُوہِیَّت کا اعتقاد باطل ہے۔(ابو سعود،  المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷۶، ۲ / ۷۶)

             اسی لئے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاں مردے زندہ کرنے، بیماروں کو شفایاب کرنے، اندھوں کو بینا کرنے اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں ہر جگہ یہ فرمایا کہ میں یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اِذن یعنی اجازت سے کرتا ہوں۔
5:77
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ۠(۷۷)
تم فرماؤ اے کتاب والو! اپنے دین میں ناحق زیادتی نہ کرو (ف۱۹۵) اور ایسے لوگوں کی خواہش پر نہ چلو (ف۱۹۶) جو پہلے گمراہ ہوچکے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بہک گئے

{قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ: تم فرماؤ، اے کتاب والو!} یہاں تمام اہلِ کتاب کو ناحق زیادتی کرنے سے منع فرمایا ۔ یہودیوں کی زیادتی تو یہ تھی کہ وہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت ہی نہیں مانتے تھے اور نصاریٰ کی زیادتی یہ تھی کہ وہ انہیں معبود ٹھہراتے ہیں۔ ان سب سے فرمایا گیا کہ دین میں زیادتی نہ کرو اور گمراہ لوگوں کی پیروی نہ کرو یعنی اپنے بددین باپ دادا وغیرہ کے پیچھے نہ چلو بلکہ حق کی پیروی کرو۔

اولیاءِ کرام اور ان کے مزارات کے حوالے سے غُلُوّ:

            اولیاء کرام کی تعظیم کرنا اور فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے ان کے مزارات پر حاضری دینا جائز اور پسندیدہ عمل ہے کیونکہ اولیاءِ کرام اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے ہیں اور ان کے مزارات رحمتِ الٰہی اترنے کے مقامات ہیں لیکن فی زمانہ اولیاءِ کرام اور ان کے مزارات کے حوالے سے انتہائی غلو سے کام لیاجاتا ہے کہ بعض حضرات ان کی جائز تعظیم کو ناجائز و حرام کہتے اور ان کے مزارات پر حاضری کو شرک و بت پرستی سے تعبیر کرتے ہیں اور بعض نادان ان کی تعظیم کرنے میں شرعی حد پار کر جاتے اوران کے مزارات پر ایسے امور سر انجام دیتے ہیں جو شرعاً ناجائز و حرام ہیں جیسے تعظیم کے طور پر مزار کاطواف کرنا اور صاحبِ مزار کو سجدہ تعظیمی کرنا، مزارات پر مزامیر کے ساتھ قوالیاں پڑھنا، عورتوں کا مزارات پر مخلوط حاضر ہونا اور عرس وغیرہ کے موقع پر لہوو لعب کا اہتمام کرنا وغیرہ۔ تعظیمِ اولیاء کو ناجائز و حرام کہنے والوں اور مزارات پر حاضری کو شرک و بت پرستی سمجھنے والوں کو چاہئے کہ وہ ا س آیت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی حالت پر غور کریں اور شرعاً جائز عمل کو اپنی طرف سے ناجائز و حرام کہہ کر دین میں زیادتی نہ کریں بلکہ حق کی پیروی کریں اور مزارات پر ناجائز و حرام کام کرنے والوں کو چاہئے وہ بھی اپنے ان افعال سے باز آ جائیں تاکہ دشمنانِ اولیاء ان کی نادانیوں کی وجہ سے لوگوں کو اللہ  تعالیٰ کے مقبول بندوں سے دور کرنے کی سعی نہ کر سکیں۔

5:78
لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ(۷۸)
لعنت کیے گئے وہ جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان پر (ف۱۹۷)یہ بدلہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کا،

{لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:کفر کرنے والوں پر لعنت کی گئی۔} ایلہ کے رہنے والوں کو ہفتہ کے دن شکار کرنا منع تھا، انہوں نے جب اس حکم کی مخالفت کی اور شکار کرنے سے باز نہ آئے تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن پر لعنت کی اور اُن کے خلاف دعا فرمائی چنانچہ ان سب کو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مَسخ کردیا گیا ۔سورہ ٔاعراف میں اس قصے کی تفصیل مذکور ہے اور اصحابِ مائدہ نے جب نازل شدہ دسترخوان کی نعمتیں کھانے کے بعد ممانعت کے باوجود انہیں ذخیرہ کیا اور ایمان نہ لائے تو حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن کے خلاف دعا فرمائی تو وہ خنزیر اور بندر بن گئے، ا س وقت اُن کی تعداد پانچ ہزار تھی۔(جمل، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷۸، ۲ / ۲۶۰-۲۶۱)

             بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہود ی اپنے آباء واَجداد پر فخر کیا کرتے تھے اور کہتے تھے ہم انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہیں۔ اس آیت میں انہیں بتا دیا گیا کہ اُن انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے توان پر لعنت کی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جلوہ افروزی کی بشارت دی اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لانے اور کفر کرنے والوں پر لعنت کی تھی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷۸، ۱ / ۵۱۶)

            اس سے معلوم ہوا کہ اللہ  تعالیٰ کے نیک بندوں کے منہ سے نکلی ہوئی نقصان کی دعا دنیا و آخرت میں رسوائی اور بربادی کا سبب بن سکتی ہے،لہٰذا ایسے کاموں سے بچتے رہنا چاہئے جو ان کی ناراضی کا سبب بنیں۔

{ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ:یہ (لعنت) ان کی نافرمانی اور سرکشی کا بدلہ ہے۔} اس میں رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان یہودیوں کی سرکشی سے غمزدہ نہ ہوں ، یہ لوگ تو عادی مجرم اور پرانے سرکش ہیں ، حتّٰی کہ اس سر کشی کی سزا میں بندر اور سور بھی بن چکے ہیں ، اس وقت ان کا امن میں رہنا صرف اس وجہ سے ہے کہ تم تمام عالَمین کے لئے رحمت ہو، تمہاری موجودگی میں عذاب نہ آئے گا۔

 

5:79
كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹)
جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے(ف۱۹۹)

{كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ:وہ ایک دوسرے کو کسی برے کام سے منع نہ کرتے تھے ۔}یہودیوں کی ایک سر کشی یہ تھی کہ انہوں نے برائی ہوتی دیکھ کر ایک دوسرے کو اس سے منع کرنا چھوڑ دیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو اُن کے علماء نے پہلے تو انہیں منع کیا، جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ علماء بھی اُن سے مل گئے اور کھانے پینے اُٹھنے بیٹھنے میں اُن کے ساتھ شامل ہوگئے اُن کی اسی نافرمانی اور سرکشی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ  تعالیٰ نے حضرت داؤد اورحضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی زبان سے اُن پر لعنت اُتاری۔   (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۵، الحدیث: ۳۰۵۸)

گناہ سے روکنا واجب اور منع کرنے سے باز رہنا گناہ ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ برائی سے لوگوں کو روکنا واجب ہے اور گناہ سے منع کرنے سے باز رہنا سخت گناہ ہے۔ اس سے ان علماء کو اور بطورِ خاص ان پیروں کواپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی حاجت ہے کہ جواپنے ماننے والوں میں یا مریدین و معتقدین میں اِعلانِیَہ گناہ ہوتے دیکھ کر اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے منع کرنے سے لوگ گناہ سے باز آ جائیں گے پھر بھی ’’یا شیخ اپنی اپنی دیکھ ‘‘کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں۔

            حضرت ابراہیم بن عبدالرحمٰن عذری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اس علم کو ہر پچھلی جماعت میں سے پرہیز گار لوگ اٹھاتے رہیں گے اور وہ غُلُوّ کرنے والوں کی تحریفیں ، اہلِ باطل کے جھوٹے دعوؤں اور جاہلوں کی غلط تاویل و تشریح کو دین سے دور کرتے رہیں گے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الشہادات، باب الرجل من اہل الفقہ۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۲۵۳، الحدیث: ۲۰۹۱۱)

            مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ اس میں غیبی بشارت ہے کہ تاقیامت میرے دین میں علماءے خیر پیدا ہوتے رہیں گے ۔ جو علمِ دین کو پڑھتے پڑھاتے اور تبلیغ کرتے رہیں گے۔ خیال رہے کہ گزشتہ صالحین کو سَلف اور پچھلوں کو خَلف کہا جاتا ہے لہٰذا ہر جماعت ِصالحین اگلوں کے لحاظ سے خلف اور پچھلوں کے لحاظ سے سلف ہے۔ حدیثِ پاک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’یعنی مسلمانوں میں بعض جاہل علماء کی شکل میں نمودار ہو کر قرآن و حدیث کی غلط تاویلیں اور مَعنوی تحریفیں کردیں گے ،وہ مقبول جماعت ان تمام چیزوں کو دفع کرے گی ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ !آج تک ایسا ہورہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوگا ،دیکھ لو علماءے دین کی سرپرستی نہ حکومت کرتی ہے نہ قوم لیکن پھر بھی یہ جماعت پیدا ہو رہی ہے اور خدمتِ دین برابر کررہی ہے۔(مراٰۃ المناجیح، کتاب العلم، الفصل الثانی، ۱ / ۲۰۱، تحت الحدیث: ۲۳۰)

5:80
تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ(۸۰)
ان میں تم بہت کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں، کیا ہی بری چیز اپنے لیے خود آگے بھیجی یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے (ف۲۰۰)

{یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:کافروں سے دوستی کرتے ہیں۔} پچھلی آیات میں گزشتہ زمانے کے یہودیوں کی مذموم صفات اور ان کے عُیوب و نَقائص کا بیان تھا اب حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے زمانۂ مبارکہ کے یہودیوں کی برائیوں اور سازشوں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ شانِ نزول: کعب بن اشرف یہودی اور اس کے ساتھی سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَسے بغض و عناد کی وجہ سے مشرکینِ مکہ کے پاس پہنچے اور انہیں تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنگ کرنے پر ابھارا، لیکن یہ لوگ اپنی اس کوشش میں ناکام و نامراد ہوئے، اس واقعے سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :اس کا معنی یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منافقین میں سے بہت سوں کو دیکھیں گے کہ وہ یہودیوں سے دوستی کرتے ہیں۔              (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۱ / ۵۱۷)

کفار سے دوستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہوااور آخرت میں دائمی عذاب کے مستحق ٹھہرے۔

کفار سے دوستی کا دم بھرنے والے مسلمانوں کے لئے تازیانۂ عبرت:

            معلوم ہوا کے کفار سے دوستی اور مُوالا ت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ یہ آیتِ مبارکہ ان مسلمانوں کے لئے تازیانۂ عبرت ہے جو کفار کی مسلمانوں سے کھلی دشمنی اپنی روشن آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود ، صرف اپنے منصب کی بَقا کی خاطران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے،ان کی ہاں میں ہاں ملاتے اور ان کی ناراضی سے خوف کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْمَـآئِدَة
اَلْمَـآئِدَة
  00:00



Download

اَلْمَـآئِدَة
اَلْمَـآئِدَة
  00:00



Download