READ

Surah al-Jathiyah

اَلْجَاثِيَة
37 Ayaat    مکیۃ


45:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

45:1
حٰمٓۚ(۱)
حٰمٓ

{حٰمٓ} یہ حروف مقطّعات میں  سے ایک حرف ہے ،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ: کتاب کا اتارنا۔} یعنی بندوں  میں  سب سے عظیم ہستی پر سب سے اعلیٰ کتاب قرآنِ پاک کو نازل کرنا ا س اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے جو عزت و حکمت والا ہے اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن حق اور سچ ہے، یہ اپنی مثل لانے سے عاجز کر دینے والا اور غالب ہے،کامل حکمتوں  پر مشتمل ہے، شعر، کہانت اور رستم و اسفندیار کے قصوں  کی طرح نہیں  ہے ، کیونکہ اسے نازل فرمانے والا تمام ممکنات پر قادر ہے،تمام معلومات کا علم رکھنے والا ہے ،تمام حاجتوں  سے بے پروا ہ اور بے نیاز ہے اور جس کی یہ شان ہو اس سے کسی بے کار اور باطل فعل کا صادر ہونا ناممکن اور محال ہے۔( صاوی، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۱۹۲۰، روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۸ / ۴۳۴، تفسیرکبیر، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۹ / ۶۶۸، ملتقطاً)

45:2
تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ(۲)
کتاب کا اتارنا ہے اللہ عزت و حکمت والے کی طرف سے،

45:3
اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِیْنَؕ(۳)
بیشک آسمانوں اور زمین میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے (ف۲)

{اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ: بیشک آسمانوں  اور زمین میں  نشانیاں  ہیں ۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے کائنات میں  موجود اپنی وحدانیت اور قدرت پر دلالت کرنے والی مختلف نشانیاں  بیان فرمائی ہیں  اور ان لوگوں  کے بارے میں  بتایا ہے جو ان نشانیوں  سے حقیقی طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں  اور جنہیں  یہ نشانیاں  مفید ہو سکتی ہیں  ،چنانچہ یہاں  ارشاد فرمایا کہ بیشک آسمانوں  اور زمین کی تخلیق میں  اور ان میں  جو قدرت کے آثار پیدا کئے گئے ہیں  جیسے ستارے، پہاڑ اور دریا وغیرہ،ان میں  ایمان والوں  کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں  موجود ہیں ۔ یاد رہے کہ آسمان ، زمین اور ان میں  موجود چیزیں  اگرچہ تمام لوگوں  کے لئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت کی نشانیاں  ہیں  لیکن چونکہ ان نشانیوں  سے نفع صرف مومن اٹھاتے ہیں  کہ وہ مخلوق سے اس کے خالق اور بنی ہوئی چیزوں  سے اس کے بنانے والے پر استدلال کرتے اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاتے ہیں ،اس لئے یہاں  خصوصیت کے ساتھ صرف انہیں  کا ذکر فرمایا گیا۔(روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۸ / ۴۳۵، جلالین، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳، ص۴۱۳، ملتقطاً)

45:4
وَ فِیْ خَلْقِكُمْ وَ مَا یَبُثُّ مِنْ دَآبَّةٍ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَۙ(۴)
اور تمہاری پیدائش میں (ف۳) اور جو جو جانور وہ پھیلاتا ہے ان میں نشانیاں ہیں یقین والوں کے لیے،

{وَ فِیْ خَلْقِكُمْ: اور تمہاری پیدائش میں ۔} یعنی اے لوگو! جس طرح تمہیں  پیدا کیا گیا کہ پہلے تم نطفہ کی صورت میں  تھے،پھر اسے خون بنایا گیا،پھر اس خون کو جما دیا گیا،پھر جمے ہوئے خون کو گوشت کا ٹکڑا بنا دیا گیا یہاں  تک کہ اسی ٹکڑے سے ذات اور بشری صفات میں  کامل انسان بنا دیا گیا، یونہی زمین کے مختلف حصوں  میں  پھیلائے گئے جانور جو کہ جدا جدا شکل و صورت والے ،الگ الگ اوصاف اور مزاج رکھنے والے ہیں  اور ان کی جنسیں  بھی مختلف ہیں  ،ان سب میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں  ہیں  کیونکہ انسانوں  اور جانوروں  میں  مُعَیَّن شکل، مُعَیَّن وصف اور مُعَیَّن اعضاء کا ہونا،یونہی ان کا عمر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں  اور ایک حال سے دوسرے حال میں  داخل ہونا کسی قادر ، مختار اور واحد ہستی کے وجود اور تصرّف کے بغیر ممکن نہیں  اور یہ نشانیاں ان لوگوں  کے لئے ہیں  جو یقین کرنے والے ہیں ۔(تفسیرکبیر، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۹ / ۶۷۰، روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۸ / ۴۳۵، ملتقطاً)

45:5
وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ رِّزْقٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۵)
اور رات اور دن کی تبدیلیوں میں (ف۴) اور اس میں کہ اللہ نے آسمان سے روزی کا سبب مینہ اتارا تو اس سے زمین کو اس کے مَرے پیچھے زندہ کیا اور ہواؤں کی گردش میں (ف۵) نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے،

{وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ: اور رات اور دن کی تبدیلیوں  میں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ رات اور دن کی تبدیلیوں  میں  کہ ان میں  سے ایک جاتا ہے تو دوسرا آ جاتا ہے، کبھی رات چھوٹی ہوتی ہے اور دن بڑا اور کبھی دن چھوٹا ہوتا ہے تو رات بڑی، کبھی یہ گرم ہوتے ہیں  اور کبھی سرد،رات اندھیری ہوتی ہے اور دن روشن،اسی طرح آسمان کی جانب سے اللہ تعالیٰ جو بندوں  کی روزی کاسبب یعنی بارش کا پانی نازل فرماتا ہے اور ا س سے خشک اور بنجر زمین کو سیراب کر کے اسے سرسبز و شاداب بنا دیتا ہے ،یونہی ہواؤں  کی جو گردش ہے کہ کبھی جنوب کی طرف چلتی ہیں  اور کبھی شمال کی طرف، کبھی مشرق اور کبھی مغرب کی طرف چلتی ہیں ، کبھی گرم چلتی ہیں کبھی سرد ،کبھی نفع پہنچاتی ہیں  تو کبھی نقصان،ان سب چیزوں  اور ان کے احوال میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں  ہیں  کیونکہ یہ سب کسی قادر، مختار، واحد، حکمت والی اور مہربان ہستی کے وجود اور تصرف کے بغیر ممکن نہیں  اور یہ نشانیاں ان لوگوں  کے لئے ہیں  جو عقل مند ہیں ۔( تفسیرکبیر، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۹ / ۶۷۰، روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۸ / ۴۳۶، ملتقطاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعا لیٰ کی قدرت کے دلائل جاننے کی نیت سے سائنس اورریاضی کا علم حاصل کرنا عبادت ہے۔

قدرت کی نشانیوں  سے فائدہ اٹھانے والے لوگ:

            یہاں کائنات میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت پردلالت کرنے والی مختلف نشانیاں  بیان فرمانے کے بعد ایک جگہ فرمایا’’ایمان والوں  کے لیے نشانیاں  ہیں ‘‘ دوسری جگہ ارشاد فرمایا’’یقین کرنے والوں  کے لیے نشانیاں  ہیں ‘‘ اور تیسری جگہ ارشاد فرمایا’’عقل مندوں  کے لئے نشانیاں  ہیں  ‘‘ اس کے بارے میں  امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میرے گما ن کے مطابق اس ترتیب کا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ اگر تم ایمان والے ہو تو ان دلائل کو سمجھ جاؤ گے اور اگر تم فی الحال مومن نہیں  بلکہ حق اور یقین کے طلبگار ہو تو ان دلائل کو سمجھو اور اگر تم نہ ایمان والے ہو اور نہ یقین کرنے والے ، لیکن کم از کم عقلِ سلیم رکھنے والوں  میں  سے ہو تو ان دلائل کی معرفت حاصل کرنے کی خوب کوشش کرو۔( تفسیرکبیر، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۹ / ۶۷۱)

 

45:6
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّۚ-فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۭ بَعْدَ اللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ یُؤْمِنُوْنَ(۶)
یہ اللہ کی آیتیں ہیں کہ ہم تم پر حق کے ساتھ پڑھتے ہیں، پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی بات پر ایمان لائیں گے،

{تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ: یہ اللہ کی آیتیں  ہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ نے لوگوں  کے سامنے اپنی قدرت کے یہ دلائل بیان فرمائے ہیں  اور یہ دلائل جھوٹ اور باطل پر مشتمل نہیں  بلکہ ہم آپ کو حق کے ساتھ ان کی خبر دیتے ہیں  تو پھر اللہ تعالیٰ اور اس کے بیان کئے ہو ئے دلائل کو جھٹلاکر مشرکین کونسی بات پر ایمان لائیں  گے ۔

            یاد رہے کہ یہ آیت ِمبارکہ حدیثِ پاک کا انکار کرنے والوں  کی دلیل ہر گز نہیں  بن سکتی کیونکہ یہاں  ’’حدیث‘‘ سے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان مراد نہیں  بلکہ کفار کی اپنی باتیں  مراد ہیں ،اگر یہاں  ’’حدیث‘‘ سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان مراد لیا جائے تو یہ آیت اُن تمام آیات کے خلاف ہو گی جن میں  رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دیاگیا ہے ، نیز یہ ویسے بھی جہالت ہوگی کہ حدیث کا لفظ یہاں  اپنے لغوی معنٰی کے اعتبار سے بیان ہوا تو اسے فنِّ حدیث کی اصطلاح پر کیسے مُنْطَبِقْ کیا جاسکتاہے۔
45:7
وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷)
خرابی ہے ہر بڑے بہتان ہائے گنہگار کے لیے (ف۶)

{وَیْلٌ: خرابی ہے۔} اس سے پہلی آیت میں  بیان فرمایاگیا کہ کافر اللہ تعالیٰ اور اس کی آیتوں  کو چھوڑ کر کو ن سی بات پر ایمان لائیں  گے ، اور جب وہ ایمان نہ لائے تو اس آیت سے ان کے لئے بہت بڑی وعید بیان کی جا رہی ہے،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر بڑے بہتان باندھنے والے، گناہگار کے لئے خرابی ہے اور یہ وہ شخص ہے جس کے سامنے قرآن کی آیتیں  پڑھی جاتی ہیں  تو وہ انہیں  سن کر ایمان لانے سے تکبر کرتے ہوئے اپنے کفر پراصرار کرتا ہے اور وہ ایسا بن جاتا ہے گویااس نے ان آیتوں  کو سنا ہی نہیں  ،تو اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ایسے شخص کو قیامت کے دن جہنم کے درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔

            مفسّرین نے اس آیتِ مبارکہ کا شان نزول یہ بھی بیان کیاہے کہ نَضْر بن حارِث عجمی لوگوں  (جیسے رستم اور اسفندیار) کے قصے کہانیاں  سنا کر لوگوں  کو قرآنِ پاک سننے سے روکتا تھا ،اس کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی ۔

            یاد رہے کہ اس آیت کا نزول اگرچہ نَضْر بن حارِث کے لئے ہے لیکن اس وعید میں  ہر وہ شخص داخل ہے جو دین کو نقصان پہنچائے اور ایمان لانے اور قرآن سننے سے تکبر کرے۔( تفسیرطبری، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۱۱ / ۲۵۴، مدارک، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۱۱۱۷، ملتقطاً)

45:8
یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸)
اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر ہٹ پر جمتا ہے (ف۷) غرور کرتا (ف۸) گویا انہیں سنا ہی نہیں تو اسے خوشخبری سناؤ درد ناک عذاب کی،

45:9
وَ اِذَا عَلِمَ مِنْ اٰیٰتِنَا شَیْــٴَـاﰳ اتَّخَذَهَا هُزُوًاؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌؕ(۹)
اور جب ہماری آیتوں میں سے کسی پر اطلاع پائے اس کی ہنسی بناتا ہے ان کے لیے خواری کا عذاب،

{وَ اِذَا عَلِمَ مِنْ اٰیٰتِنَا شَیْــٴًـا: اور جب اسے ہماری آیتوں  میں  سے کسی کاعلم ہوتا ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس بڑے بہتان باندھنے والے، گنہگار کا حال یہ ہے کہ جب ا س تک ہماری کوئی آیت پہنچے اور اسے پتا چل جائے کہ یہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہونے والی آیت ہے تو وہ اس کا مذاق اڑانے لگتا ہے اور صرف اس آیت کا مذاق اڑانے تک ہی محدود نہیں  رہتا بلکہ پورے قرآن کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے ذلیل و رسواکردینے والا عذاب ہے اور اس کا انجام موت کے بعد بالآخر جہنم ہے اور ان کا کمایا ہوا وہ مال انہیں  کچھ کام نہ دے گا جس پر وہ بہت نازاں ہیں  اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جن بتوں  کی پوجا کرتے ہیں  وہ بھی انہیں  کچھ کام نہ دیں  گے اور ان کے لیے ایسا بڑا عذاب ہے جس کی حقیقت انہیں  معلوم نہیں ۔( جمل، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ۷ / ۱۳۹، روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ۸ / ۴۳۸-۴۳۹، ملتقطاً)

{هٰذَا هُدًى: یہ عظیم ہدایت ہے۔} یعنی یہ قرآن ہدایت میں  کمال کو پہنچا ہوا ہے تو گویا کہ یہ عظیم ہدایت ہے اور وہ لوگ جنہوں  نے اپنے رب کی آیتوں  کو نہ مانا تو ان کے لیے سخت تر عذاب میں  سے دردناک عذاب ہے۔( روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۸ / ۴۳۹)

45:10
مِنْ وَّرَآىٕهِمْ جَهَنَّمُۚ-وَ لَا یُغْنِیْ عَنْهُمْ مَّا كَسَبُوْا شَیْــٴًـا وَّ لَا مَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌؕ(۱۰)
ان کے پیچھے جہنم ہے (ف۹) اور انہیں کچھ کام نہ دے گا ان کا کمایا ہوا (ف۱۰) اور نہ وہ جو اللہ کے سوا حمایتی ٹھہرا رکھے تھے (ف۱۱) اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے،

45:11
هٰذَا هُدًىۚ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَهُمْ عَذَابٌ مِّنْ رِّجْزٍ اَلِیْمٌ۠(۱۱)
یہ (ف۱۲) راہ دکھانا ہے اور جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کو نہ مانا ان کے لیے دردناک عذاب میں سے سخت تر عذاب ہے،

45:12
اَللّٰهُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْكُ فِیْهِ بِاَمْرِهٖ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَۚ(۱۲)
اللہ ہے جس نے تمہارے بس میں دریا کردیا کہ اس میں اس کے حکم سے کشتیاں چلیں اور اس لیے کہ اس کا فضل تلاش کرو (ف۱۳) اور اس لیے کہ حق مانو (ف۱۴)

{اَللّٰهُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ: اللہ وہی ہے جس نے دریا کوتمہارے تابع کردیا۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے دریاؤں  کی تسخیر کے ذریعے اپنی وحدانیت اور قدرت پر استدلال فرمایا،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! معبود ہونا اسی کے لائق اور شایانِ شان ہے جس نے دریا کوتمہارے تابع کردیا اور اس تابع کرنے میں  حکمتیں  یہ ہیں  کہ اس کے حکم سے دریا میں  کشتیاں  چلیں  اور تم دریائی سفر کے ذریعے تجارت کر کے اور دریاؤں  میں  غوطہ زنی کے ذریعے موتی وغیرہ نکال کراس کا فضل تلاش کرو اور تم اللہ تعالیٰ کی نعمت و کرم اور فضل و احسان کاشکر ادا کر کے اس کا حق مانو ،لہٰذا تم صرف اسی کی عبادت کرو اور جس کام کا اس نے تمہیں  حکم دیا ہے وہ کرو اور جس سے منع کیا ہے ا س سے باز آجاؤ۔( تفسیرطبری، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۱ / ۲۵۵، روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۸ / ۴۳۹-۴۴۰، ملتقطاً)
45:13
وَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۱۳)
اور تمہارے لیے کام میں لگائے جو کچھ آسمان میں ہیں (ف۱۵) اور جو کچھ زمین میں (ف۱۶) اپنے حکم سے بے شک اس میں نشا نیاں ہیں سوچنے والوں کے لئے،

{وَ سَخَّرَ لَكُمْ: اور تمہارے کام میں  لگادیا۔} یعنی اے لوگو! جو کچھ آسمان میں  ہے جیسے سورج چاند اور ستارے اور جو کچھ زمین میں ہے جیسے جانور،درخت، پہاڑ اور کشتیاں  وغیرہ سب کا سب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت سے تمہارے فائدے اور مصلحت کے لئے کام میں  لگادیا ہے،لہٰذا تم اسی کی حمد کرو،اسی کی عبادت کرو اور صرف اسے ہی معبود مانو کیونکہ تمہیں  یہ نعمتیں  دینے میں  ا س کا کوئی شریک نہیں  بلکہ تم پر اتنے سارے انعامات کرنے میں  وہ یکتا ہے۔ بے شک اِس میں  اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت پر ان لوگوں  کے لئے عظیم الشّان نشانیاں  ہیں  جو اللہ تعالیٰ کی صنعتوں  میں  غور و فکر کرتے ہیں  اور ان دلائل میں  غور کر کے نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔( تفسیرطبری، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۱ / ۲۵۵-۲۵۶، روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۸ / ۴۴۰، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کی ذات میں  نہیں  بلکہ اس کی تخلیق میں  غوروفکر کرنا چاہئے:

             یہاں  ایک بات ذہن نشین رکھیں  کہ غور و فکر اللہ تعالیٰ کی ذات میں  نہیں  کرنا چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں  میں  کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں  غورو فکر کرنابعض اوقات کفر تک پہنچا دیتا ہے کیونکہ وہ انسانی عقل سے ماوراء ہے جبکہ اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں  میں  غورو فکر کرنا ایمان کی سعادتوں  سے سرفراز کر دیتا ہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  میں  غوروفکر کرو اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں  غوروفکر نہ کرو۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۴ / ۳۸۳، الحدیث: ۶۳۱۹)

            اور حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’شیطان تم میں  سے کسی ایک کے پاس آ کر کہتا ہے: آسمان کو کس نے پیدا کیا؟زمین کو کس نے پیدا کیا؟ وہ جواب دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔پھر شیطان سوال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟جب تم میں  سے کوئی ایک ایسا سوال سنے تو کہہ دے کہ میں  اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول پر ایمان لایا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۵۱۴، الحدیث: ۱۸۹۶)

 

45:14
قُلْ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَغْفِرُوْا لِلَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ اَیَّامَ اللّٰهِ لِیَجْزِیَ قَوْمًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۱۴)
ایمان وا لوں سے فرماؤ درگزریں ان سے جو اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے (ف۱۷) تاکہ اللہ ایک قوم کو اس کی کمائی کا بدلہ دے (ف۱۸)

{قُلْ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: تم ایمان وا لوں  سے فرماؤ۔} اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت ،قدرت اور حکمت کے دلائل بیان فرمانے کے بعد اس آیت سے مسلمانوں  کی اخلاقی تربیت فرمائی ہے۔اس آیت میں  اللہ تعالیٰ کے دنوں  سے مراد وہ دن ہیں  جو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں  کی مدد کے لئے مقرر فرمائے ہیں  یا ان دنوں  سے وہ واقعات مراد ہیں  جن میں  وہ اپنے دشمنوں  کی پکڑ فرماتا ہے اوران دنوں  کی امید نہ رکھنے والوں  سے مراد کفار ہیں  ۔

            آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ کفار سے جو ایذا پہنچے اور ان کے کلمات جو تکلیف پہنچائیں  مسلمان ان سے در گزر کریں  اور ان سے جھگڑا نہ کریں  تاکہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو ان کے احسانات کا بدلہ دے جنہوں  نے دشمنوں  کی طرف سے ملنے والی اذیتوں  پر صبر کیا۔

            اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  کئی قول ہیں ،ان میں  سے 3درج ذیل ہیں ۔

(1)… غزوۂ بنی مُصْطَلَقْ میں  مسلمان بِیر مُرَیْسِیعْ پر اُترے، یہ ایک کنواں  تھا، عبداللہ بن اُبَیْ منافق نے اپنے غلام کو پانی کے لئے بھیجا اوروہ دیر سے واپس آیا تو اس نے غلام سے سبب دریافت کیا ۔ اس نے کہا کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کنوئیں  کے کنارے پر بیٹھے تھے ،جب تک نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اور حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی مَشکیں  نہ بھر گئیں  اس وقت تک انہوں نے کسی کو پانی بھرنے نہ دیا۔ یہ سن کر اس بدبخت نے ان حضرات کی شان میں  گستاخانہ کلمے کہے۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ تلوار لے کر تیار ہوئے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔اس شانِ نزول کے مطابق یہ آیت مدنی ہوگی۔

 (2)…مقاتل کا قول ہے کہ قبیلہ ٔبنی غِفار کے ایک شخص نے مکہ مکرمہ میں  حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو گالی دی تو آپ نے اسے پکڑنے کا ارادہ کیا ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔

(3)…جب آیت ’’مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا‘‘ نازل ہوئی تو فِنْحَاص یہودی نے کہا کہ محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کا رب        محتاج ہوگیا۔ (مَعَاذَاللہ تَعَالٰی ) اس کی یہ بات سن کر حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے تلوار کھینچی اور اس کی تلاش میں  نکلے ، لیکن حضور پر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آدمی بھیج کر انہیں  واپس بلوالیا۔(تفسیرکبیر،الجاثیۃ،تحت الآیۃ: ۱۴،  ۹ / ۶۷۳-۶۷۴، مدارک، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۱۱۱۸، جلالین، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۴۱۳، ملتقطاً)

 

45:15
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْهَا٘-ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ(۱۵)
جو بھلا کام کرے تو اپنے لیے اور برا کرے تو اپنے برے کو (ف۱۹) پھر اپنے رب کی طرف پھیرے جاؤ گے (ف۲۰)

{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ: جو نیک کام کرے تو اپنی ذات کیلئے۔} یعنی جو شخص ایسے نیک کام کرے جن سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا مقصود ہو تو وہ اپنی ذات کیلئے ہی کرتا ہے کہ ان نیک اعمال کا فائدہ اور ثواب اسے ہی ملے گااور جوبرے کام کرے تو اس کا وبال بھی اسی پر ہے کہ وہی اپنے برے کاموں  کا نقصان اورعذاب برداشت کرے گا ،پھر تم مرنے کے بعد اپنے اس رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہی لوٹائے جاؤ گے جو تمہارے تمام اُمور کا مالک ہے، وہ نیکوں  اور بدوں  کو اُن کے اعمال کی جزا دے گا لہٰذا تم اس ملاقات کی تیاری کرو۔( روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ۸ / ۴۴۲)

ہر شخص اپنے اعمال اور انجام پرغور کرے:

اس آیت میں  نیک اعمال کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے اور برے اعمال کرنے سے ڈرایا بھی گیا ہے لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اپنے اعمال اور ان کے انجام پر غور کرے ،اگر کوئی نفس و شیطان کے بہکاوے میں  آ کر برے اعمال میں  مصروف  ہو تو اسے چاہئے کہ برے اعمال سے سچی توبہ کر کے نیک اعمال شروع کر دے تاکہ ان کی سزا سے بچ سکے اور جو برے اعمال سے بچتے ہوئے نیک اعمال میں  مشغول ہو تو اسے چاہئے کہ مزید نیک اعمال کرے تاکہ آخرت کا توشہ زیادہ سے زیادہ جمع ہو جائے۔نیکی کا فائدہ اور گناہ کا نقصان نیکی اور گناہ کرنے والے کو ہونے کے بارے میں  ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ- وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا‘‘(بنی اسرائیل:۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر تم بھلائی کرو گے تو تم اپنے لئے ہی بہتر کرو گے اور اگر تم برا کرو گے تو تمہاری جانوں  کیلئے ہی ہوگا۔

            اور ارشاد فرماتاہے:

’’ مَنْ كَفَرَ فَعَلَیْهِ كُفْرُهٗۚ-وَ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِهِمْ یَمْهَدُوْنَ‘‘(روم:۴۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس نے کفر کیا تو اس کے کفر کا وبال اسی پرہے اور جو اچھا کام کریں  وہ اپنے ہی کے لئے تیاری کر رہے ہیں ۔

45:16
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۱۶)
اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب (ف۲۱) اور حکومت اور نبوت عطا فرمائی (ف۲۲) اور ہم نے انہیں ستھری روزیاں دیں (ف۲۳) اور انہیں ان کے زمانے والوں پر فضیلت بخشی،

{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْكِتٰبَ: اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب عطا فرمائی۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے کفر پر غمزدہ نہ ہوں  اور(اپنی تسلی کے لئے بنی اسرائیل کے حالات میں  غور فرمائیں  کہ)ہم نے بنی اسرائیل کو تورات عطا فرمائی ،انہیں حکومت دی اور ان میں  بکثرت انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا کر کے نبوت کی عظیم نعمت سے سرفراز کیا،ہم نے انہیں  فرعون اور اس کی قوم کے مال و دولت اور شہروں  کا مالک کر کے اور ان پر منّ و سلویٰ نازل فرما کر وُسعت کے ساتھ حلال رز ق عطا فرمایا اور انہیں  ان کے زمانے میں  جہان والوں  پر فضیلت بخشی لیکن انہوں  نے ان نعمتوں  کا شکر ادا نہیں  کیا ۔( صاوی، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۵ / ۱۹۲۳-۱۹۲۴، خازن، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۱۱۹، ملتقطاً)
45:17
وَ اٰتَیْنٰهُمْ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِۚ-فَمَا اخْتَلَفُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُۙ-بَغْیًۢا بَیْنَهُمْؕ-اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(۱۷)
اور ہم نے انہیں اس کام کی (ف۲۴) روشن دلیلیں دیں تو انہوں نے اختلاف نہ کیا (ف۲۵) مگر بعد اس کے کہ علم ان کے پاس آچکا (ف۲۶) آپس کے حسد سے (ف۲۷) بیشک تمہارا رب قیامت کے دن ان میں فیصلہ کردے گا جس بات میں اختلاف کرتے یں،

{وَ اٰتَیْنٰهُمْ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِ: اور ہم نے انہیں  اس معاملے کی روشن دلیلیں  دیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تورات میں  دین اور حلال و حرام کے بیان نیزتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے معاملے کی روشن دلیلیں  دیں  لیکن انہوں  نے سیِّدُالمرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جلوہ افروزی کے بعد اپنے منصب اور ریاست ختم ہوجانے کے اندیشے کی وجہ سے آپ کے ساتھ حسد کیا اور دشمنی مول لی اور اپنے پاس علم آجانے کے بعد رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت پر پہلے سے متفق ہونے کے باوجود آپ کی بعثت کے بارے میں  اختلاف کیا حالانکہ علم اختلاف زائل کرنے کا سبب ہوتا ہے اور یہاں  ان لوگوں  کے لئے اختلاف کا سبب ہوا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مقصود علم نہ تھا بلکہ اُن کا مقصود منصب و ریاست کی طلب تھی اسی لئے انہوں نے اختلاف کیا۔ آخر میں  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا رب قیامت کے دن بنی اسرائیل کے درمیان اس بات کا فیصلہ کردے گا جس میں  وہ اختلاف کرتے ہیں ۔( خازن، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۱۱۹، جلالین مع صاوی، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۵ / ۱۹۲۴، ملتقطاً)

علماء میں  حسد پیدا ہونے کا نقصان:

             اس آیت سے معلوم ہوا کہ علم اختلافات کو زائل کرنے والا اور جھگڑے مٹانے والا ہے لیکن جب عالِم میں  حسد پیدا ہو جائے تو علم اختلافات کو زائل کرنے اور جھگڑے مٹانے کی بجائے بڑھا دیتا ہے۔افسوس!ہمارے زمانے میں  بھی علماء کی ایک تعداد ایسی ہے جو باطنی گناہوں  کا یا تو علم ہی نہیں  رکھتے اور یا پھر علم رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے اختلافات اور آپس میں  انتشار کا شکار ہیں  اور ا س کا بنیادی سبب ایک دوسرے سے حسد کرنا ہے۔علماء کے باہمی حسد کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ایک عالم دوسرے عالم سے تو حسد کرتا ہے لیکن کسی عبادت گزار سے حسد نہیں  کرتا اسی طرح ایک عبادت گزار دوسرے عبادت گزار سے تو حسد کرتا ہے لیکن عالم سے حسد نہیں  کرتا۔مزید فرماتے ہیں ’’وعظ کرنے والا جتنا کسی دوسرے وعظ کرنے والے سے حسد کرتا ہے اتناکسی فقیہ یا حکیم سے حسد نہیں  کرتا کیونکہ ان دونوں  کے درمیان ایک مقصد پر جھگڑا ہوتا ہے تو ان حسدوں  کی اصل وجہ اور دشمنی کی بنیاد کسی ایک غرض پر اکٹھاہونا ہے اور ایک غرض پر وہ دو آدمی جمع نہیں  ہوتے جو ایک دوسرے سے دور ہوں  بلکہ ان کے درمیان کسی قسم کی مناسبت ضروری ہے اسی لئے ان دو آدمیوں  کے درمیان حسد ہوتا ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الغضب والحقد والحسد، القول فی ذمّ الحسد۔۔۔ الخ، بیان السبب فی کثرۃ الحسد۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۰)

            اور حسد کی وجہ سے فی زمانہ علماء کا باہمی حال یہ نظر آتا ہے جس کی نشاندہی اس حدیث پاک میں  کی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری امت پر ایک زمانہ ایساآئے گا کہ فقہاء ایک دوسرے سے حسد کریں  گے اور ایک دوسرے سے اس طرح لڑائی کیا کریں  گے جیسے جنگلی بکرے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں ۔( تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ عبد الرحمٰن، ۵۴۴۷-عبد الرحمٰن بن ابراہیم بن محمد بن یحی۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۳۰۱)

            اللہ تعالیٰ اہلِ علم حضرات کو اپنا اصلی مقصد سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

 

45:18
ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰى شَرِیْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَ لَا تَتَّبِـعْ اَهْوَآءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۸)
پھر ہم نے اس کام کے (ف۲۸) عمدہ راستہ پر تمہیں کیا (ف۲۹) تو اسی راہ پر چلو اور نادانوں کی خواہشوں کا ساتھ نہ دو (ف۳۰)

{ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰى شَرِیْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ: پھر ہم نے آپ کو(دین کے)معاملے میں عمدہ راستے پررکھا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے بنی اسرائیل کے بعد آپ کو دین کے معاملے میں  عمدہ راستے(یعنی اسلام) پر رکھا لہٰذا آپ اسی راستے پر چلیں  اور اس کے احکامات نافذ کریں  اور قریش کے نادان سردار جو آپ کو اپنے دین کی دعوت دیتے ہیں  ان کی خواہشوں  کے پیچھے نہ چلناکیونکہ وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں  کچھ کام نہ دیں  گے اور بے شک کافر صرف دنیا میں  ایک دوسرے کے دوست ہیں  جبکہ آخرت میں  ان کا کوئی دوست نہیں  اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے مومنین کا دنیا میں  بھی اللہ تعالیٰ دوست ہے اور آخرت میں  بھی وہی دوست ہے۔(روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۸-۱۹، ۸ / ۴۴۴، خازن، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۸-۱۹، ۴ / ۱۱۹، ملتقطاً)
45:19
اِنَّهُمْ لَنْ یُّغْنُوْا عَنْكَ مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۚ-وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ(۱۹)
بیشک وہ اللہ کے مقابل تمہیں کچھ کام نہ دیں گے، اور بیشک ظالم ایک دوسرے کے دوست ہیں (ف۳۱) اور ڈر والوں کا دوست اللہ (ف۳۲)

45:20
هٰذَا بَصَآىٕرُ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ(۲۰)
یہ لوگوں کی آنکھیں کھولنا ہے (ف۳۳) اور ایمان والوں کے لیے ہدایت و رحمت،

{هٰذَا بَصَآىٕرُ لِلنَّاسِ: یہ لوگوں  کیلئے آنکھیں  کھول دینے والی نشانیاں  ہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف جو کتاب نازل فرمائی یہ اللہ تعالیٰ کے ان احکامات پر مشتمل ہے جو قیامت تک رہیں  گے اور اس میں  تمام لوگوں  کے لئے وہ دلائل اور نشانیاں  موجود ہیں  جن کی انہیں  دین کے احکام میں  ضرورت ہے ،جو شخص اس کے احکامات پر عمل کرتا ہے تو یہ اسے جنت کی طرف ہدایت دیتا ہے اور جو اس پر صحیح طریقے سے ایمان لاتا ہے یہ اس کے لئے رحمت ہے اور دنیاو آخرت میں  اسے عذاب سے بچاتا ہے۔( تفسیر منیر، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۰، ۱۳ / ۲۷۱، الجزء الخامس والعشرون)
45:21
اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-سَوَآءً مَّحْیَاهُمْ وَ مَمَاتُهُمْؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ۠(۲۱)
کیا جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا (ف۳۴) یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں ان جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ان کی ان کی زندگی اور موت برابر ہوجائے (ف۳۵) کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں،

{اَلَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ: کیا جن لوگوں  نے برائیوں  کا ارتکاب کیا۔} مکہ کے مشرکین کی ایک جماعت نے مسلمانوں  سے کہا تھا کہ اگر تمہاری بات حق ہو اور مرنے کے بعد اٹھنا ہو تو بھی ہم ہی افضل رہیں  گے جیسا کہ دنیا میں  ہم تم سے بہتر رہے۔ ان کے رد میں  یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جولوگ کفر اور گناہوں  میں  مصروف ہیں  کیا وہ یہ سمجھتے ہیں  کہ ہم انہیں  ان جیسا کردیں  گے جو ایمان لائے اورجنہوں  نے اچھے کام کئے،کیا ایمانداروں  اور کافروں  کی موت اور زندگی برابر ہوجائے گی؟ ایسا ہر گز نہیں  ہوگا کیونکہ ایماندار زندگی میں  نیکیوں پر قائم رہے اور کافر بدیوں  میں  ڈوبے رہے تو ان دونوں  کی زندگی برابر نہ ہوئی اور ایسے ہی ان کی موت بھی یکساں  نہیں  کیونکہ مومن کی موت بشارت اور رحمت و کرامت پر ہوتی ہے جبکہ کافر کی موت رحمت سے مایوسی اور ندامت پر ہوتی ہے اور کافراپنے آپ کو مومنین کے برابر سمجھ کر کتنا برا حکم لگا رہے ہیں  حالانکہ مومنین تو قیامت کے دن اعلیٰ جنتوں  میں  عزت و کرامت اور عیش و راحت پائیں  گے اور کفار جہنم کے سب سے نچلے طبقوں  میں  ذلّت و اِہانت کے ساتھ سخت ترین عذاب میں  مبتلا ہوں  گے۔( خازن، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۱۱۹-۱۲۰، مدارک، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۱۱۱۹-۱۱۲۰، ملتقطاً)

مومن اور کافر کی زندگی ایک جیسی نہیں :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ مومن اور کافر کی زندگی ایک جیسی نہیں  اسی طرح دونوں  کی موت میں  بھی فرق ہے، ا س سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو نہ صرف خود اپنی صورت، سیرت اورزندگی کافروں  کی طرح بنائے ہوئے ہیں  بلکہ دوسروں  کو بھی صورت و سیرت میں  کفار کی طرح ہونے کی دعوت دینے میں  مصروف ہیں  ،حالانکہ کسی مسلمان کی یہ شان نہیں  کہ وہ صورت اور سیرت میں  کفار کی طرح بنے بلکہ مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ صورت اور سیرت میں  کفار سے ممتاز رہے ۔اسی مناسبت سے یہاں  ہم چند وہ اعمال بیان کرتے ہیں  جن سے مسلمانوں  اور کفار میں  فرق کیا جاتا ہے۔

(1)…نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا مسلمانوں  کا کام ہے جبکہ برائی کی دعوت دینا اور نیکی سے منع کرنا کافروں  اور منافقوں کا کام ہے،جیسا کہ منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ ‘‘(توبہ:۶۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: منافق مرد اور منافق عورتیں  سب ایک  ہی ہیں ،برائی کا حکم دیتے ہیں  اور بھلائی سے منع کرتے ہیں ۔

            اورمسلمانوں  کے بارے میں  ارشاد فرمایا :’’وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ‘‘(توبہ:۷۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیںایک دوسرے کے رفیق ہیں ،بھلائی کا حکم دیتے ہیں  اور برائی سے منع کرتے ہیں۔

(2)…نماز ادا کرنا مسلمانوں  کا کا م ہے اور نماز ترک کرنا مشرکوں  کا سا کام ہے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ‘‘(روم:۳۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور نماز قائم رکھو اور مشرکوں  میں سے نہ ہونا۔

             اور حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انسان اور اس کے کفر و شرک کے درمیان فرق نماز نہ پڑھنا ہے۔( مسلم، کتاب الایمان، باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ، ص۵۷، الحدیث: ۱۳۴(۸۲))

(3)…مسلمان داڑھیاں  بڑھاتے اور مونچھیں  پَست رکھتے ہیں  جبکہ مشرکین اس کے برعکس کرتے تھے ۔حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مشرکین کی مخالفت کرو اور داڑھیاں  بڑھاؤ اور مونچھیں  کم کر دو۔( بخاری، کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار، ۴ / ۷۵، الحدیث: ۵۸۹۲)

            اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مونچھیں  کم کراؤ اور داڑھیاں  چھوڑ دو اور مجوسیوں  کی مخالفت کرو۔( مسلم، کتاب الطہارۃ، باب خصال الفطرۃ، ص۱۵۴، الحدیث: ۵۵(۲۶۰))

            اللہ تعالیٰ ہمیں  صورت ا ور سیرت میں  کفار سے ممتاز رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

 

45:22
وَ خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَ لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۲۲)
اور اللہ نے آسمان اور (ف۳۶) زمین کو حق کے ساتھ بنایا (ف۳۷) اور اس لیے کہ ہر جان اپنے کیے کا بدلہ پائے (ف۳۸) اور ان پر ظلم نہ ہوگا،

{وَ خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ: اور اللہ نے آسمانوں  اور زمین کو حق کے ساتھ بنایا۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ بامقصد بنایا تاکہ یہ تخلیق اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت کرے اورتاکہ ہر جان کواس کی نیکی اور بدی کا بدلہ دیا جائے اور ان پرثواب کی کمی یا عذاب کی زیادتی کے ساتھ ظلم نہیں  ہوگا۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اِس عالَم کی پیدائش سے عدل اور رحمت کا اظہار کرنامقصود ہے اور یہ پوری طرح قیامت ہی میں  ہوسکتا ہے کہ اہلِ حق اور اہلِ باطل میں  امتیاز کامل ہو، مخلص مومن جنت کے درجات میں  ہوں  اور نافرمان کافر جہنم کے دَرَکات میں  ہوں ۔(جلالین، الجاثیۃ ، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۴۱۴ ، روح البیان ، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۲، ۸ / ۴۴۷، خازن، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۱۲۰، ملتقطاً)

یاد رہے کہ قیامت کے دن بعض مجرموں  کو معافی دے دینا اور اطاعت گزاروں  کو ان کے عمل سے زیادہ ثواب عطا فرما دینا اللہ تعالیٰ کا رحم و کرم ہے، جبکہ بعض لوگوں  کے اعمال ضبط ہوجانا ان کے اپنے قصور کی وجہ سے ہوگا نہ کہ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کاظلم ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے سے پاک ہے۔

45:23
اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ وَ اَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰى سَمْعِهٖ وَ قَلْبِهٖ وَ جَعَلَ عَلٰى بَصَرِهٖ غِشٰوَةًؕ-فَمَنْ یَّهْدِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(۲۳)
بھلا دیکھو تو وہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا ٹھہرالیا (ف۳۹) اور اللہ نے اسے با وصف علم کے گمراہ کیا (ف۴۰) اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈالا (ف۴۱) تو اللہ کے بعد اسے کون راہ دکھائے، تو کیا تم دھیان نہیں کرتے،

{اَفَرَءَیْتَ: بھلا دیکھو تو۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے کفار کے احوال اور ان کے گروہوں  کے برے افعال بیان فرمائے ہیں ۔مشرکین کا یہ حال تھا کہ وہ پتھر ، سونے اور چاندی وغیرہ کو پوجتے تھے ،جب کوئی چیز انہیں  پہلی چیز سے اچھی معلوم ہوتی تھی تو پہلی کو توڑ کر پھینک دیتے اور دوسری چیز کو پوجنے لگتے۔چنانچہ کفار کی اسی حرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ذرا اس شخص کا حال تودیکھو جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنالیا اور اپنی خواہش کے تابع ہوگیا کہ جسے نفس نے چاہا اسے پوجنے لگا اور اللہ تعالیٰ نے اسے علم کے باوجودگمراہ کردیا کہ اس گمراہ نے حق کو جان پہچان کر بے راہ روی اختیار کی۔

            مفسّرین نے علم کے باوجود گمراہ کرنے کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے انجامِ کار اور اس کے شقی ہونے کو جانتے ہوئے اُسے گمراہ کیا، یعنی اللہ تعالیٰ پہلے سے جانتا تھا کہ یہ اپنے اختیار سے حق کے راستے سے ہٹے ہوگا اور گمراہی اختیار کرے گا اس لئے اسے گمراہ کر دیا۔

             اور ارشاد فرمایا کہ نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والے کے کان اور دل پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں  پر پردہ ڈال دیاتو اس کی وجہ سے اس نے ہدایت و نصیحت کو نہ سنا ، نہ سمجھا اور نہ ہی راہِ حق کو دیکھا،تو اللہ تعالیٰ کے گمراہ کرنے کے بعد اب اسے کوئی راہ نہیں  دکھا سکتا،تواے لوگو!کیا تم اس سے نصیحت حاصل نہیں  کرتے؟(خازن، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۱۲۰، مدارک، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۱۱۲۰، ملتقطاً)

 نفسانی خواہشات کی پیروی دنیا اور آخرت کے لئے بہت نقصان دہ ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ نفسانی خواہشات کی پیروی دنیا اور آخرت دونوں  کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔ نفسانی خواہشات کی پیروی کی مذمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ‘‘(قصص:۵۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو اللہ کی طرف سے ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ‘‘(ص:۲۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور نفس کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے گی بیشک وہ جو اللہ کی راہ سے بہکتے ہیں  ان کے لیے سخت عذاب ہے اس بنا پر کہ انہوں  نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا‘‘(کہف:۲۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اس کی بات نہ مان جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا۔

            کثیراحادیث میں  بھی نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے ،ان میں سے یہاں  5احادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکار ِدو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’تین چیزیں  ہلاکت میں  ڈالنے والی ہیں ۔(1)وہ بخل جس کی اطاعت کی جائے۔ (2)وہ نفسانی خواہشات جن کی پیروی کی جائے۔(3)آدمی کا اپنے آپ کو اچھا سمجھنا۔ (شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۷۱، الحدیث: ۷۴۵)

(2)…حضرت عبداللہ بن عمر و رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں  سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں  ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے (دین) کے تابع نہ ہوجائے۔(شرح السنہ، کتاب الایمان، باب ردّ البدع والاہواء، ۱ / ۱۸۵، الحدیث: ۱۰۴)

(3)…حضرت شَدَّاد بن اَوس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے جبکہ عاجز وہ ہے جو اپنی خواہشات کے پیچھے لگا رہے اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۷)

(4)…حضرت ابوثَعْلَبَہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرورِ عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم پر اچھی باتوں  کا حکم دینا اور بری باتوں  سے روکنا بھی ضرور ی ہے یہاں  تک کہ جب تم بخل کرنے والے کی اطاعت، نفسانی خواہشات کی پیروی،دنیا سے پیار اور ہر صاحبِ رائے کو اپنی رائے اچھی سمجھنے والا دیکھو تو تم پر اپنی فکر کرنا لازم ہے۔(ابو داؤد، کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، ۴ / ۱۶۴، الحدیث: ۴۳۴۱)

 (5)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا کی تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا’’ جاؤ اسے دیکھو ۔وہ گئے، اسے اور جو نعمتیں  اس میں  جنتیوں  کے لیے اللہ تعالیٰ نے تیار کی ہیں  انہیں  دیکھا ،پھر آئے اورعرض کی: یا رب! تیری عزت کی قسم،جو(اس کے بارے میں ) سنے گا وہ اس میں  داخل ہوگا۔پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مَشَقَّتوں  سے گھیر دیا اور فرمایا’’ اے جبریل !جاؤ اسے دیکھ کر آؤ۔ وہ گئے اور اسے دیکھا،پھر آئے اورعرض کی:یارب !تیری عزت کی قسم، مجھے خطرہ ہے کہ جنت میں  کوئی داخل نہ ہوسکے گا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آگ پیدا کی تو فرمایا’’ اے جبریل! جاؤ اور اسے دیکھو۔ وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر آئے اورعرض کی: یارب! تیری عزت کی قسم،جو اس کے بارے میں  سنے گاوہ اس میں  داخل نہ ہو گا۔اللہ تعالیٰ نے اسے لذّتوں  سے گھیر دیا ،پھر فرمایا’’ اے جبریل! اسے دیکھو۔ وہ گئے اور اسے دیکھ کرعرض کی: یارب! تیری عزت کی قسم مجھے خطرہ ہے کہ اس میں  داخل ہوئے بغیر کوئی نہ بچے گا۔(ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب فی خلق الجنّۃ والنار، ۴ / ۳۱۲، الحدیث: ۴۷۴۴)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  نفسانی خواہشات کی پیروی سے بچنے اور قرآن و حدیث کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

45:24
وَ قَالُوْا مَا هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا یُهْلِكُنَاۤ اِلَّا الدَّهْرُۚ-وَ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍۚ-اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ(۲۴)
اور بولے (ف۴۲) وہ تو نہیں مگر یہی ہماری دنیا کی زندگی (ف۴۳) مرتے ہیں اور جیتے ہیں (ف۴۴) اور ہمیں ہلاک نہیں کرتا مگر زمانہ (ف۴۵) اور انہیں اس کا علم نہیں (ف۴۶) وہ تو نرے گمان دوڑاتے ہیں (ف۴۷)

{وَ قَالُوْا: اورانہوں  نے کہا۔} مرنے کے بعد زندہ ہونے کا انکار کرنے والوں  کوجب دوسری مرتبہ زندہ کئے جانے کا وعدہ سنایا گیا تو انہوں  نے اپنی انتہائی سرکشی اور گمراہی کی بنا پر کہا کہ دنیا کی جو زندگی ہم گزار رہے ہیں  اس کے علاوہ اور کوئی زندگی نہیں ،ہم میں  سے بعض مرتے ہیں  اور بعض پیدا ہوتے ہیں  اور ہمیں  صرف دن اور رات کا آنا جانا ہی ہلاک کرتا ہے۔مشرکین مرنے کے معاملے میں زمانے کو ہی مؤثِّر مانتے تھے جبکہ ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے روحیں  قبض کئے جانے کا انکار کرتے تھے اور ہر مصیبت کو دَہْر اور زمانے کی طرف منسوب کرتے تھے ، اس لئے انہوں  نے یہ کہا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ وہ یہ بات علم اور یقین کی بنا پر نہیں  کہتے بلکہ واقع کے برخلاف صرف گمان دوڑاتے ہیں ۔( روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۸ / ۴۴۹، مدارک، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۱۱۲۰، ملتقطاً)

 زمانے کو برا کہنا ممنوع ہے:

            یہاں  ایک مسئلہ یاد رکھیں  کہ مصیبتوں  اور تکلیفوں  کو زمانے کی طرف منسوب کرنا اور ناگوار مصیبتیں  آنے پر زمانے کو برا کہنا ممنوع ہے کیونکہ احادیث میں  اس کی ممانعت آئی ہے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’آدم کی اولاد زمانے کو گالیاں  دیتی ہے جبکہ زمانہ (کا خالق)میں  ہوں ،رات اور دن میرے قبضے میں  ہیں ۔( بخاری، کتاب الادب، باب لا تسبّوا الدہر، ۴ / ۱۵۰، الحدیث: ۶۱۸۱)

            یہی آج کل کے دہریوں  کی حالت ہے جو دَہْر یعنی زمانے کی طرف ہی سب کچھ منسوب کرتے ہیں  اور خدا کا انکار کرتے ہیں ، اگرچہ انہیں  آج تک اس بات کی کوئی دلیل نہیں  ملی کہ اگر کوئی خالق نہیں  ہے تو مخلوق کیسے وجود میں  آگئی؟ دہریے ابھی تک بے معنیٰ و فضول تھیوریاں  پیش کرنے میں  لگے ہوئے ہیں  اورحقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت تک دنیا کے وجود میں  آنے کی کوئی توجیہ نہیں  کرسکتے جب تک کہ خالقِ حقیقی کے وُجود کو تسلیم نہیں  کریں  گے۔

 

45:25
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ مَّا كَانَ حُجَّتَهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتُوْا بِاٰبَآىٕنَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۲۵)
اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں پڑھی جائیں (ف۴۸) تو بس ان کی حجت یہی ہوتی ہے کہ کہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کو لے آؤ (ف۴۹) اگر تم سچے ہو (ف۵۰)

{وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ: اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں  پڑھی جاتی ہیں ۔} یعنی جب ان مشرکین کے سامنے قرآنِ پاک کی وہ آیتیں  پڑھی جاتی ہیں  جن میں  اس بات کی دلیلیں  مذکور ہیں  کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو ان کی موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے اور وہ کفار اُن دلیلوں  کا جواب دینے سے عاجز ہو جاتے ہیں  تو ان کی جوابی دلیل صرف یہ ہوتی ہے کہ اگر تم مُردوں  کو دوبارہ زندہ کئے جانے کی بات میں سچے ہوتوہمارے باپ دادا کوزندہ کرکے لے آؤتاکہ ہم دوبارہ زندہ ہونے پر یقین کر لیں ۔(مدارک، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۱۱۲۰، خازن، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ۴ / ۱۲۰-۱۲۱، ملتقطاً)
45:26
قُلِ اللّٰهُ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یَجْمَعُكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۠(۲۶)
تم فرماؤ اللہ تمہیں جِلاتا ہے (ف۵۱) پھر تم کو مارے گا (ف۵۲) پھر تم سب کو اکٹھا کریگا (ف۵۳) قیامت کے دن جس میں کوئی شک نہیں لیکن بہت آدمی نہیں جانتے (ف۵۴)

{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان لوگوں  سے فرما دیں  کہ تم پہلے بے جان نطفہ تھے ،اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں  زندگی دی، پھروہ تمہاری عمریں  پوری ہونے کے وقت تمہیں  مارے گا، پھر تم سب کو زندہ کرکے قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس میں  کوئی شک نہیں ، تو جو پروردگار عَزَّوَجَلَّ ایسی قدرت والا ہے وہ تمہارے باپ دادا کو زندہ کرنے پر بھی یقینا قادر ہے، وہ سب کو زندہ کرے گا، لیکن بہت سے آدمی ا س بات کو نہیں  جانتے کہ اللہ تعالیٰ مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے اور ان کا نہ جاننا اس وجہ سے ہے کہ وہ زندہ کئے جانے کے دلائل کی طرف مائل نہیں  ہوتے اور نہ ہی ان میں  غور کرتے ہیں ۔( مدارک، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۱۱۲۱، جلالین، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۴۱۵، ملتقطاً)
45:27
وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یَوْمَىٕذٍ یَّخْسَرُ الْمُبْطِلُوْنَ(۲۷)
اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت، اور جس دن قیامت قائم ہوگی باطل والوں کی اس دن ہار ہے (ف۵۵)

{وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اور آسمانوں  اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لیے ہے۔} اس سے پہلی آیت میں  اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ وہ پہلی بار زندہ کرنے پر قادر ہے اور دوسری بار بھی زندہ کرنے پر قادر ہے، اور ا س آیت میں  زندہ کرنے کی قدرت ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ایک عام فہم دلیل بیان فرمائی کہ آسمانوں  اور زمین کی تمام ممکن چیزوں  پر اللہ تعالیٰ قادر ہے اور جب تمام ممکن چیزوں  میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت ثابت ہے اوریہ بات بھی ثابت ہے کہ مرنے کے بعد زندگی مل جانا ممکن ہے کیونکہ اگر زندگی ملنا ممکن نہ ہو تو پہلی بار بھی زندگی نہ ملتی تو ا س سے ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔( تفسیرکبیر، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۶۸۰)

{وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ: اور جس دن قیامت قائم ہوگی۔} حشر و نشر کے ممکن ہونے کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آیت کے اس حصے سے قیامت کے احوال کی تفصیل بیان فرمائی ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن جہنمی ہونے کی صورت میں  کافروں  کا نقصان میں  ہونا ظاہر ہو جائے گا۔ (تفسیرکبیر، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۶۸۰، جلالین، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۴۱۵، ملتقطاً)
45:28
وَ تَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِیَةً- كُلُّ اُمَّةٍ تُدْعٰۤى اِلٰى كِتٰبِهَاؕ-اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۲۸)
اور تم ہر گرو ه (ف۵۶) کو دیکھو گے زانو کے بل گرے ہوئے ہر گروہ اپنے نامہٴ اعمال کی طرف بلایا جائے گا (ف۵۷) آج تمہیں تمہارے کیے کا بدلہ دیا جائے گا،

{وَ تَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِیَةً: اور تم ہر گروہ کو زانو کے بل گرے ہوئے دیکھو گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم قیامت کے دن یہ منظر بھی دیکھو گے کہ ہر دین والے زانو کے بل گرے ہوئے ہوں گے کیونکہ وہ خوفزدہ ہوں  گے اور اپنے اعمال کے بارے میں  سوالات کئے جانے اور حساب لئے جانے کی وجہ سے بے چین ہوں  گے ، ہردین والا اپنے اعمال نامے کی طرف بلایا جائے گا اور ا ن سے کہا جائے گا کہ آج تمہیں  تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ،یہ وہ (اعمال نامہ) ہے جسے لکھنے کا ہم نے فرشتوں  کو حکم دیا تھا، یہ کسی کمی زیادتی کے بغیر تمہارے خلاف تمہارے عملوں  کی گواہی دے گا،بیشک ہم نے فرشتوں کو تمہارے عمل لکھنے کا حکم دیا تھا تو گویا کہ تمہارے اعمال ہم ہی لکھ رہے تھے۔( جلالین، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۸-۲۹، ص۴۱۵، روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۸-۲۹، ۸ / ۴۵۳-۴۵۴،  تفسیر کبیر، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۲۸-۲۹، ۹ / ۶۸۱، ملتقطاً)
45:29
هٰذَا كِتٰبُنَا یَنْطِقُ عَلَیْكُمْ بِالْحَقِّؕ-اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۲۹)
ہمارا یہ نوشتہ تم پر حق بولتا ہے، ہم لکھتے رہے تھے (ف۵۸) جو تم نے کیا،

45:30
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِیْ رَحْمَتِهٖؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ(۳۰)
تو وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کا رب انہیں اپنی رحمت میں لے گا (ف۵۹) یہی کھلی کامیابی ہے،

{فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: تو وہ جو ایمان لائے اور انہوں  نے اچھے کام کئے۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اطاعت گزاروں  کاانجام بیان فرمایا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جو دنیا میں  ایمان لائے اور انہوں  نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا اور کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں  ٹھہرایا اور جن کاموں  کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا وہ کام کئے اور جن کاموں  سے منع کیا ان سے رک گئے تو اللہ تعالیٰ انہیں  اپنی رحمت کے صدقے جنت میں  داخل فرمائے گا اور قیامت کے دن یہی بڑی کامیابی ہے۔( تفسیرکبیر، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۹ / ۶۸۱، تفسیر طبری، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۱۱ / ۲۶۷، ملتقطاً)

اُخروی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش زیادہ کی جائے:

            اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن جہنم سے نجات مل جانا اور جنت میں  داخلہ نصیب ہو جانا ہی حقیقی طور پر بڑی کامیابی ہے، لہٰذا ہر شخص کوچاہئے کہ وہ دنیا کی ناپائیدار کامیابی حاصل کرنے کے مقابلے میں  آخرت کی ہمیشہ رہنے والی کامیابی حاصل کرنے کی زیادہ کوشش کرے ،جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ

’’ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۶۰)لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ‘‘(صافات:۶۰،۶۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک یہی بڑی کامیابی ہے۔ ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں  کو عمل کرنا چاہیے۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں  آخرت میں  کامیابی حاصل کرنے کے لئے بھر پور کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

آیت ’’فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1)…جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کسی شخص کی دستگیری نہ کرے اس وقت تک کوئی شخص محض اپنی نیکیوں  کی وجہ سے جنتی نہیں  ہو سکتا ۔

(2)… ایمان کے ساتھ تقویٰ بھی ضروری ہے اور کوئی شخص نیک اعمال سے بے پرواہ نہیں  ہوسکتا ۔

 

45:31
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا- اَفَلَمْ تَكُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاسْتَكْبَرْتُمْ وَ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۳۱)
اور جو کافر ہوئے ان سے فرمایا جائے گا، کیا نہ تھا کہ میری آیتیں تم پر پڑھی جاتی تھیں تو تم تکبر کرتے تھے (ف۶۰) اور تم مجرم لوگ تھے،

{وَ اَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور جو کافر ہوئے۔} ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں  نے دنیا میں  اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا انکار کیا اور اسے یکتامعبود نہ مانا ان سے قیامت کے دن فرمایا جائے گا ’’کیا دنیا میں تمہارے سامنے میری آیتیں  نہ پڑھی جاتی تھیں ؟ (ضرور پڑھی جاتی تھیں ) لیکن تم انہیں  سننے،ان پر ایمان لانے اور حق بات قبول کرنے سے تکبر کرتے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والے،گناہوں  میں  مشغول رہنے والے،قیامت کی تصدیق نہ کرنے والے ،ثواب اور سزا پر ایمان نہ لانے والے لوگ تھے۔( تفسیر طبری، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۱۱ / ۲۶۸، تفسیرکبیر، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۹ / ۶۸۱، ملتقطاً)

             مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں  ان کفار کا ذکر ہے جن تک نبی کی تعلیم پہنچی اور انہوں  نے قبول نہ کی لیکن وہ لوگ جو فَتْرَتْ کے زمانہ میں  گزر گئے اگر مُوَحِّد (یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے والے) تھے تو نجات پائیں  گے ،اگر مشرک تھے تو پکڑے جائیں  گے مگر ان سے یہ سوا ل نہ ہوگا کیونکہ ان تک آیاتِ الٰہیہ پہنچی ہی نہیں۔( نور العرفان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۸۰۰)
45:32
وَ اِذَا قِیْلَ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ السَّاعَةُ لَا رَیْبَ فِیْهَا قُلْتُمْ مَّا نَدْرِیْ مَا السَّاعَةُۙ-اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّ مَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ(۳۲)
اور جب کہا جاتا بیشک اللہ کا وعدہ (ف۶۱) سچا ہے اور قیامت میں شک نہیں (ف۶۲) تم کہتے ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے ہمیں تو یونہی کچھ گمان سا ہوتا ہے اور ہمیں (ف۶۳) یقین نہیں،

{وَ اِذَا قِیْلَ: اور جب کہا جاتا۔} یعنی اس وقت ان کفار سے یہ بھی کہا جائے گا ’’ جب تم سے کہا جاتا کہ بیشک اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ سچا ہے جو ا س نے اپنے بندوں  سے کیا کہ وہ مرنے کے بعد زندہ کئے جائیں  اور اپنی قبروں  سے اٹھائے جائیں  گے اور قیامت ،جس کے بارے میں  انہیں  خبر دی گئی کہ اللہ تعالیٰ اسے بندوں  کے حشر کے لئے قائم فرمائے گا اور اس دن انہیں  حساب کے لئے جمع کرے گا ،اس کے آنے میں  کوئی شک نہیں  توتم اللہ تعالیٰ کے وعدے کو جھٹلاتے ہوئے اور اس کی قدرت کا انکار کرتے ہوئے کہتے تھے: ہم نہیں  جانتے ،قیامت کیا چیز ہے؟اور کہتے تھے کہ ہمیں  تو یونہی قیامت آنے کاکچھ گمان سا ہوتا ہے لیکن ہمیں  اس کے آنے کا یقین نہیں  ہے۔( تفسیر طبری، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۱۱ / ۲۶۸) اس سے معلوم ہوا کہ عقائد کے معاملے میں  بے یقینی کی کیفیت تباہ ُکن ہوتی ہے۔

{وَ بَدَا لَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا: اور ان کیلئے ان کے اعمال کی برائیاں کھل گئیں ۔} اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ آخرت میں  کفار کے سامنے ان کے دنیا میں  کئے ہوئے برے اعمال انتہائی بری شکلوں  میں ظاہر ہو ں گے اور ان پروہی عذاب اتر پڑے گا اور انہیں  گھیر لے گا جس کی دنیا میں  ہنسی اڑاتے تھے۔ (روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۳، ۸ / ۴۵۸، جلالین، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۴۱۵، ملتقطاً)
45:33
وَ بَدَا لَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(۳۳)
اور ان پر کھل گئیں (ف۶۴) ان کے کاموں کی برائیاں (ف۶۵) اور انہیں گھیرلیا اس عذاب نے جس کی ہنسی بناتے تھے،

45:34
وَ قِیْلَ الْیَوْمَ نَنْسٰىكُمْ كَمَا نَسِیْتُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَا وَ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(۳۴)
اور فرمایا جائے گا آج ہم تمہیں چھوڑدیں گے (ف۶۶) جیسے تم اپنے اس دن کے ملنے کو بھولے ہوئے تھے (ف۶۷) اور تمہارا ٹھکانا آ گ ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں (ف۶۸)

{وَ قِیْلَ: اور فرمایا جائے گا۔} ارشاد فرمایا کہ ان کافروں  سے قیامت کے دن فرمایا جائے گا :آج ہم تمہیں  جہنم کے عذاب میں  اسی طرح چھوڑ دیں  گے جس طرح تم نے دنیا میں  ایمان قبول کرنے اور ا س دن کی ملاقات کے لئے عمل کرنے کو چھوڑا ہوا تھا ، تمہارا ٹھکانہ جہنم کی آ گ ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں  جو تمہیں  اس عذاب سے بچاسکے۔( خازن، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۴ / ۱۲۱، جلالین، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۴۱۵، ملتقطاً)
45:35
ذٰلِكُمْ بِاَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ هُزُوًا وَّ غَرَّتْكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۚ-فَالْیَوْمَ لَا یُخْرَجُوْنَ مِنْهَا وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ(۳۵)
یہ اس لیے کہ تم نے اللہ کی آیتوں کا ٹھٹھا (مذاق) بنایا اور دنیا کی زندگی نے تمہیں فریب دیا (ف۶۹) تو آج نہ وہ آگ سے نکالے جائیں اور نہ ان سے کوئی منانا چاہے (ف۷۰)

{ذٰلِكُمْ بِاَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ هُزُوًا: یہ اس لیے ہے کہ تم نے اللہ کی آیتوں  کا ٹھٹھا مذاق بنایا۔} یعنی تمہیں  یہ سزااس لیے دی گئی ہے کہ تم نے دنیا میں  اللہ تعالیٰ کی آیتوں  کا ٹَھٹّھا مذاق بنایا اور دنیا کی زندگی نے تمہیں  فریب دیا کہ تم اس کے عاشق ہوگئے اور تم نے مرنے کے بعد اٹھنے اور حساب ہونے کا انکار کردیاتو آج نہ وہ آگ سے نکالے جائیں  گے اور نہ ہی اب ان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ توبہ کرکے اور ایمان و طاعت اختیار کرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو راضی کریں  کیونکہ اس دن کوئی عذر اور توبہ قبول نہیں ۔(خازن، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۴ / ۱۲۱، مدارک، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۱۱۲۲، ملتقطاً)
45:36
فَلِلّٰهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ رَبِّ الْاَرْضِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۳۶)
تو اللہ ہی کے لیے سب خوبیاں ہیں آسمانوں کا رب اور زمین کا رب اور سارے جہاں کا رب،

{فَلِلّٰهِ الْحَمْدُ: تو اللہ ہی کے لئے سب خوبیاں  ہیں ۔} اس کا معنی یہ ہے کہ تم اس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد بیان کرو جو تمہارا رب ہے،آسمانوں  اور زمینوں  میں  موجود تمام چیزوں  کا اور سارے جہاں  کا رب ہے کیونکہ جس کی ربوبیت ایسی عام ہو تو اس کی حمد و ثنا کرنا ہر اس چیز پر لازم ہے جس کا وہ رب ہے۔( مدارک، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۱۱۲۲)

{وَ لَهُ الْكِبْرِیَآءُ: اسی کے لئے بڑائی ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو کیونکہ آسمانوں  اور زمین میں  ا س کی عظمت، قدرت،سلطنت اور بڑائی کے آثار ظاہر ہیں  اور وہی عزت والا،حکمت والا ہے۔( مدارک، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۱۱۲۲، روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۳۷، ۸ / ۴۵۹، ملتقطاً)

 

45:37
وَ لَهُ الْكِبْرِیَآءُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠(۳۷)
اور اسی کے لیے بڑائی ہے آسمانوں اور زمین میں، اور وہی عزت و حکمت والا ہے،

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْجَاثِيَة
اَلْجَاثِيَة
  00:00



Download

اَلْجَاثِيَة
اَلْجَاثِيَة
  00:00



Download