READ

Surah al-Insane

اَلدَّهْر
31 Ayaat    مدنیۃ


76:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

76:1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْــٴًـا مَّذْكُوْرًا(۱)
بیشک آدمی پر (ف۲) ایک وقت وہ گزرا کہ کہیں اس کا نام بھی نہ تھا (ف۳)

{هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ: بیشک آدمی پر ایک وقت وہ گزرا۔} اکثر مفسرین کے نزدیک اس آیت میں  انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہے کہ روح پھونکے جانے سے پہلے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر چالیس سال کا وقت ایسا گزرا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھے کیونکہ وہ ایک مٹی کا خمیر تھے،نہ کہیں  ان کا ذکر تھا، نہ ان کو کوئی جانتا تھا اورنہ کسی کو ان کی پیدائش کی حکمتیں  معلوم تھیں ۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہاں  انسان سے اس کی جنس یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد مراد ہے اوروقت سے اس کے حمل میں  رہنے کا زمانہ مراد ہے ، اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہے کہ بے شک ماں  کے پیٹ میں  آدمی پر ایک وقت وہ گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا کیونکہ وہ پہلے نطفے کی شکل میں  تھا،پھر جما ہوا خون بنا، پھر گوشت کا ٹکڑا بنااور اس کی جنس کسی کو معلوم نہ تھی یہاں  تک کہ وہ لوگوں  کے درمیان قابلِ ذکر چیز بن گیا۔( تفسیر کبیر ، الانسان ، تحت الآیۃ : ۱، ۱۰ / ۷۳۹ ، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۳۰۵، جلالین، الانسان، تحت الآیۃ: ۱، ص۴۸۳، خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۳۷-۳۳۸، ملتقطاً)

نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان:

             یہاں  ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ ان کا کہیں  ذکر نہ تھا جبکہ اللّٰہ تعالیٰ نے کائنات وجود میں  آنے سے پہلے ہی اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر جاری فرما دیا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت کوبیان فرما دیا،جیسا کہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: ’’وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ‘‘(ال عمران:۸۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب اللّٰہ نے نبیوں  سے وعدہ لیا کہ میں  تمہیں  کتاب اور حکمت عطا کروں گاپھر تمہارےپاس وہ عظمت والارسول تشریف لائے گا جو تمہاری کتابوں  کی تصدیق فرمانے والا ہو گاتو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ (اللّٰہ نے) فرمایا: (اے انبیاء!) کیا تم نے (اس حکم کا) اقرار کرلیا اور اس (اقرار) پر میرا بھاری ذمہ لے لیا؟ سب نے عرض کی، ’’ہم نے اقرار کرلیا‘‘ (اللّٰہ نے) فرمایا، ’’ تو (اب) ایک دوسرے پر (بھی) گواہ بن جاؤ اور میں  خود (بھی) تمہارے ساتھ گواہوں  میں سے ہوں ۔

            اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی پیدائش کے بعد عرش پر نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نامِ پاک لکھا دیکھا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت کو پہچان گئے،جیساکہ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لغزش سرزَد ہوئی تو انہوں  نے عرش کی طرف اپنا سر اُٹھایا اور عرض کی (اے اللّٰہ!) میں  محمد کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں  کہ تو میری مغفرت فرما دے۔اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی کہ محمد کون ہیں ؟ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی:اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تیرا نام برکت والا ہے،جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں  نے سر اُٹھا کر تیرے عرش کی طرف دیکھا تو اس میں  لکھا ہوا تھا ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رسولُ   اللّٰہ‘‘ تو میں  نے جان لیا کہ تیری بارگاہ میں  اُس شخص سے زیادہ کسی کا مرتبہ اور مقام نہ ہو گا جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی:اے آدم! یہ تیری اولاد میں  سے سب سے آخری نبی ہیں  اور ان کی امت تمہاری اولاد کی امتوں  میں  سے سب سے آخری امت ہے اور اگر وہ نہ ہوتے تو اے آدم! میں  تمہیں  بھی پیدا نہ کرتا۔ (معجم صغیر، باب المیم، من اسمہ: محمد، الجزء الثانی، ص۸۲)

            اور دنیا میں  تشریف آوری سے صدیوں  پہلے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ کی آمد کی بشارت دے دی حتّٰی کہ آپ کا نام تک بتا دیا،جیسا کہ سورۂ صف میں  ہے:

’’وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ‘‘(صف:۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نےفرمایا: اے بنی اسرائیل! میں  تمہاری طرف اللّٰہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں  اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں  جو میرے بعد تشریف لائیں  گے ان کا نام احمد ہے۔

            اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام و مرتبہ سب سے بلند ہے۔

76:2
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ﳓ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(۲)
بیشک ہم نے آدمی کو کیا ملی ہوئی منی سے (ف۴) کہ وہ اسے جانچیں (ف۵) تو اسے سنتا دیکھتا کردیا (ف۶)

{اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ: بیشک ہم نے آدمی کو ملی ہوئی منی سے پیدا کیا۔} آیت کے اس حصے میں  اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں  کی پیدائش سے متعلق اپنے قانون کو بیان فرمایا کہ اس نے آدمی کومردوعورت کی ملی ہوئی منی سے پیدا کیا جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت انسان کی پیدائش کے سلسلے میں  اس ذریعے کی      محتاج نہیں  جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ماں  اور باپ دونوں  کے بغیر پیدا کر دیا،حضرت حوا  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا کو بغیر ماں  کے پیدا کر دیا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بغیر باپ کے پیدا کر دیا۔

{نَبْتَلِیْهِ: تاکہ ہم اس کا امتحان لیں ۔} یعنی جب ہم نے انسان کو پیدا کیا تو ا س وقت یہ ارادہ کیا کہ ہم اسے مُکَلَّف کر کے اپنے اَحکامات اورمَمنوعات سے اس کا امتحان لیں  توہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والا بنا دیا تاکہ وہ دلائل کا مشاہدہ کر سکے اور آیات کو غور سے سن سکے ۔یاد رہے کہ یہاں  انسان سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد مراد ہے۔( مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۳۰۵، روح البیان، الانسان، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۲۶۰، ملتقطاً)

{اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ: بیشک ہم نے اسے راستہ دکھا دیا۔} ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم نے ظاہری اور باطنی حَواس عطا کرنے کے بعد انسان کودلائل قائم کرکے، رسول بھیج کر اور کتابیں  نازل فرما کر ہدایت کا راستہ دکھا دیا، اب چاہے وہ ایمان قبول کر کے شکر گزار بنے یا کفر کر کے ناشکری کرنے والا بنے۔( تفسیر کبیر، الانسان، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۷۴۱)

76:3
اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا(۳)
بیشک ہم نے اسے راہ بتائی (ف۷) یا حق مانتا (ف۸) یا ناشکری کرتا (ف۹)

76:4
اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَلٰسِلَاۡ وَ اَغْلٰلًا وَّ سَعِیْرًا(۴)
بیشک ہم نے کافروں کے لیے تیار کر رکھی ہیں زنجیریں (ف۱۰) اور طوق (ف۱۱) اور بھڑکتی آگ (ف۱۲)

{اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ: بیشک ہم نے کافروں  کے لیے تیار کر رکھی ہیں ۔} اس سے پہلی آیت میں  کافروں  اور ایمان والوں  کا ذکر کیا اور اس آیت میں  وہ چیزیں  بیان کی جارہی ہیں  جو کافروں  کے لئے تیار کی گئی ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے آخرت میں  کافروں  کے لیے زنجیریں  تیار کر رکھی ہیں  جن سے باندھ کر انہیں  دوزخ میں  گھسیٹا جائے گا اور ان کے لئے طَوق تیار کر رکھے ہیں  جوان کے گلوں  میں  ڈالے جائیں  گے اور ان کے لئے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے جس میں  انہیں  جلایا جائے گا۔( مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۳۰۵، جلالین، الانسان، تحت الآیۃ: ۴، ص۴۸۳، ملتقطاً)

76:5
اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًاۚ(۵)
بیشک نیک پئیں گے اس جام میں سے جس کی ملونی کافور ہے وہ کافور کیا ایک چشمہ ہے (ف۱۳)

{اِنَّ الْاَبْرَارَ: بیشک نیک لوگ۔} کفّار کا حال بیان کرنے کے بعد اب اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  ایمان والوں  کا حال بیان کیا جارہا ہے کہ بیشک نیک لوگ جنت میں  اس جام میں  سے پئیں  گے جس میں کافورملاہوا ہوگا، وہ کافور جنت میں  ایک چشمہ ہے جس سے اللّٰہ تعالیٰ کے نہایت خاص بندے پئیں  گے اوروہ اپنے مکانات اور محلوں  میں  اسے آسانی کے ساتھ جہاں  چاہیں بہا کر لے جائیں  گے ،نیز کافور ملا جام پینے سے انہیں  کوئی نقصان نہ ہو گا کیونکہ جنتی لوگ جنت سے جو کچھ کھائیں  پئیں  گے اس سے انہیں  کوئی نقصان نہیں  پہنچے گا ۔( روح البیان، الانسان، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۱۰ / ۲۶۲-۲۶۳، خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۴ / ۳۳۸-۳۳۹، جمل، الانسان، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۸ / ۱۸۵-۱۸۶، ملتقطاً)

76:6
عَیْنًا یَّشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللّٰهِ یُفَجِّرُوْنَهَا تَفْجِیْرًا(۶)
جس میں سے اللہ کے نہایت خاص بندے پئیں گے اپنے محلوں میں اسے جہاں چاہیں بہا کر لے جائیں گے (ف۱۴)

76:7
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا(۷)
اپنی منتیں پوری کرتے ہیں (ف۱۵) اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی (ف۱۶) پھیلی ہوئی ہے (ف۱۷)

{یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ: وہ اپنی منتیں  پوری کرتے ہیں ۔} اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں  کا ثواب بیان فرمانے کے بعداب ان کے وہ اعمال ذکر فرمائے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے انہیں  یہ ثواب حاصل ہوا۔

          پہلا عمل :اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے طاعت و عبادت اور شریعت کے واجبات پر عمل کرتے ہیں  حتّٰی کہ وہ عبادات جو واجب نہیں  لیکن مَنّت مان کر انہیں  اپنے اوپر واجب کر لیا توانہیں  بھی ادا کرتے ہیں ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۳۳۹، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۳۰۶، ملتقطاً)

مَنَّت کی دو صورتیں  :

            یاد رہے ،منت کی ایک صورت یہ ہے کہ جو چیز آدمی پر واجب نہیں  ہے اسے کسی شرط کے ساتھ اپنے اوپر واجب کرلے۔اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ایسے کام کی شرط لگائی جس کے ہو جانے کی خواہش ہے مثلاً یوں  کہا کہ اگر میرا مریض اچھا ہو گیایا میرا مسافر خَیْرِیَّت سے واپس آگیا تو میں  راہِ خدا میں  اس قدر صدقہ دوں  گا یا اتنی رکعت نماز پڑھوں  گا یا اتنے روزے رکھوں  گا،تو اس صورت میں  جب وہ کام ہو گیا تو اتنی مقدار صدقہ کرنا اور اتنی رکعت نماز پڑھنا اور اتنے روزے رکھنا ضروری ہے ،اس میں  ایسانہیں  ہو سکتا کہ وہ کام نہ کرے اورمَنت کا کَفّارہ دیدے، اور اگر منت میں  ایسے کام کی شرط لگائی ہے کہ جس کا ہونا نہیں  چاہتا مثلاً یوں  کہا کہ اگر میں  تم سے بات کروں  یا تمہارے گھر آؤں  تو مجھ پر اتنے روزے ہیں  ،اس صورت میں  اگر شرط پائی گئی یعنی اس سے بات کر لی یا اس کے گھر چلاگیا تو اب اسے اختیار ہے کہ جتنے روزے کہے تھے وہ رکھ لے یا کَفّارہ دیدے۔منت کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شرط کا ذکر کئے بغیر اپنے اوپر وہ چیز واجب کر لے جو واجب نہیں  ہے مثلاً یوں  کہے کہ میں  نے اتنے روزوں  کی منت مانی یا اس طرح کہے میں  اللّٰہ تعالیٰ کے لئے اتنے روزے رکھوں  گا۔اس کا حکم یہ ہے کہ جس چیز کی منت مانی وہ کرنا ضرور ی ہے اس کے بدلے کفارہ نہیں  دے سکتا۔( بہار شریعت، حصہ نہم، منت کا بیان، ۲ / ۳۱۴-۳۱۵، ملخصاً)

          نوٹ: مَنَّت کے مسائل کے بارے میں  تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت، جلد نمبر 2 حصہ 9 سے’’ منت کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

          دوسرا عمل:اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے اس دن سے ڈرتے ہیں  جس کی شدت اور سختی پھیلی ہوئی ہوگی۔

            حضرت قتادہ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  کہ اس دن کی شدت اس قدر پھیلی ہوئی ہو گی کہ آسمان پھٹ جائیں  گے ، ستارے گر پڑیں  گے، چاند سورج بے نور ہوجائیں  گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں  گے اورزمین پر کوئی عمارت باقی نہ رہے گی۔( جمل، الانسان، تحت الآیۃ: ۷، ۸ / ۱۸۷)

76:8
وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸)
اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر (ف۱۸) مسکین اور یتیم اور اسیر کو،

{وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ: اور وہ اللّٰہ کی محبت میں  کھانا کھلاتے ہیں ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے ایسی حالت میں  بھی مسکین ،یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں  جب کہ خود انہیں  کھانے کی حاجت اور خواہش ہوتی ہے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے مسکین ،یتیم اور قیدی کو اللّٰہ تعالیٰ کی محبت میں  اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کھانا کھلاتے ہیں ۔( مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۳۰۶)

مسکین اور یتیم کو کھانا کھلانے کی اہمیت:

            یاد رہے کہ مسکین اسے کہتے ہیں  جس کے پاس کچھ نہ ہو یہاں  تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے اس بات کا     محتاج ہے کہ لوگوں  سے سوال کرے اور یتیم اس نابالغ بچے کو کہتے ہیں  جس کا باپ فوت ہو چکا ہو ۔مسکین اور یتیم کو کھانا کھلانے کی اہمیت کیا ہے ا س کا اندازہ ان آیات سے لگایا جا سکتا ہے،چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱) فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲) وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ ‘‘(ماعون:۱۔۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کوجھٹلاتا ہے۔پھر وہ ایسا ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں  دیتا۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’ فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ رَبُّهٗ فَاَكْرَمَهٗ وَ نَعَّمَهٗ ﳔ فَیَقُوْلُ رَبِّیْۤ اَكْرَمَنِؕ(۱۵) وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ فَقَدَرَ عَلَیْهِ رِزْقَهٗ ﳔ فَیَقُوْلُ رَبِّیْۤ اَهَانَنِۚ(۱۶) كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَۙ(۱۷) وَ لَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ‘‘(فجر:۱۵۔۱۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو بہرحال آدمی کوجب اس کا رب آزمائے کہ اس کوعزت اور نعمت دے تو اس وقت وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دی۔اور بہرحال جب (اللّٰہ) بندے کو آزمائے اور اس کا رزق اس پر تنگ کردے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔ ہرگز نہیں  بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں  کرتے۔ اور تم ایک دوسرے کو مسکین کے کھلانے کی ترغیب نہیں  دیتے۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ٘ۖ(۱۱) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُؕ(۱۲) فَكُّ رَقَبَةٍۙ(۱۳) اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍۙ(۱۴) یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَةٍۙ(۱۵) اَوْ مِسْكِیْنًا ذَا مَتْرَبَةٍ‘‘(بلد:۱۱۔۱۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر بغیر سوچے سمجھے کیوں  نہ گھاٹی میں کود پڑا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟۔ کسی بندے کی گردن چھڑانا۔ یا بھوک کے دن میں کھانا دینا۔ رشتہ دار یتیم کو۔ یا خاک نشین مسکین کو۔

76:9
اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا(۹)
ان سے کہتے ہیں ہم تمہیں خاص اللہ کے لیے کھانا دیتےہیں تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں مانگتے،

{اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ: ہم تمہیں  خاص اللّٰہ کی رضاکے لیے کھانا کھلاتے ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے ان سے کہتے ہیں  کہ ہم تمہیں  خاص اس غرض سے کھانا کھلاتے ہیں  تاکہ ہمیں  اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اور ہم تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں  چاہتے اور اس غرض سے کھانا کھلاتے ہیں  کہ بیشک ہمیں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ایک ایسے دن کا ڈر ہے جس میں  کافروں  کے چہرے نہایت سخت بگڑے ہوئے ہوں  گے لہٰذا ہم اپنے عمل کی جزا یا شکر گزاری تم سے نہیں  چاہتے بلکہ ہم نے یہ عمل اس لئے کیا ہے تا کہ ہم اس دن خوف سے امن میں  رہیں ۔( تفسیر کبیر، الانسان، تحت الآیۃ: ۹، ۱۰ / ۷۴۸، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ص۱۳۰۶، ملتقطاً)

کسی کے ساتھ بھلائی کرنے سے مقصود اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرناہو:

          اس سے معلوم ہوا کہ صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کسی کے ساتھ بھلائی کرنی چاہئے، لوگوں  کو دکھانا،اپنی واہ واہ چاہنا اور جس کے ساتھ بھلائی کی اس پر احسان جتانا یا اس کی طرف سے کوئی بدلہ حاصل کرنا مقصود نہ ہو۔ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ‘‘(بقرہ:۲۶۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کردو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں  کے دکھلاوے کے لئے خرچ کرتا ہے۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ‘‘(روم:۳۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اورجومال تم (لوگوں  کو) دو تاکہ وہ لوگوں  کے مالوں  میں  بڑھتا رہے تو وہ اللّٰہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو تم اللّٰہ کی رضا چاہتے ہوئے زکوٰۃ دیتے ہو تو وہی لوگ (اپنے مال) بڑھانے والے ہیں ۔

76:10
اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا(۱۰)
بیشک ہمیں اپنے رب سے ایک ایسے دن کا ڈر ہے جو بہت ترش نہایت سخت ہے (ف۱۹)

76:11
فَوَقٰىهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ وَ لَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّ سُرُوْرًاۚ(۱۱)
تو انہیں اللہ نے اس دن کے شر سے بچالیا اور انہیں تازگی اور شادمانی دی،

{فَوَقٰىهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ: تو انہیں  اللّٰہ اس دن کے شر سے بچالے گا ۔} ارشاد فرمایا کہ تو ان نیک بندوں  کے خوف کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے بچالے گا جس سے وہ ڈر رہے ہیں  اور ان کے چہروں  میں  تروتازگی اور دلوں  میں  خوشی دے گا ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۳۴۰)

{وَ جَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا: اور ان کے صبرکے سبب انہیں  بدلے میں  دے گا۔} اس آیت اورا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے ان نیک بندوں  کو گناہ نہ کرنے،اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور بھوک پر صبر کرنے کے بدلے جنت میں  داخل کرے گا اور انہیں  ریشمی لباس پہنائے گا اور وہ جنت میں  تختوں  پر تکیہ لگائے ہوں  گے اور دنیا کی طرح وہا ں  انہیں  گرمی یا سردی کی کوئی تکلیف نہ ہوگی اور جنتی درختوں  کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں  گے اور جنت کے درختوں  کے گُچھے جھکا کر نیچے کردئیے گئے ہوں  گے تاکہ وہ کھڑے ،بیٹھے ،لیٹے ہر حال میں  باآسانی گچھے لے سکیں اور جیسے چاہے کھا سکیں  ۔ (خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۴، ۴ / ۳۴۰)

76:12
وَ جَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّةً وَّ حَرِیْرًاۙ(۱۲)
اور ان کے صبر پر انہیں جنت اور ریشمی کپڑے صلہ میں دیے،

76:13
مُّتَّكِـٕیْنَ فِیْهَا عَلَى الْاَرَآىٕكِۚ-لَا یَرَوْنَ فِیْهَا شَمْسًا وَّ لَا زَمْهَرِیْرًاۚ(۱۳)
جنت میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوں گے، نہ اس میں دھوپ دیکھیں گے نہ ٹھٹر (سخت سردی) (ف۲۰)

76:14
وَ دَانِیَةً عَلَیْهِمْ ظِلٰلُهَا وَ ذُلِّلَتْ قُطُوْفُهَا تَذْلِیْلًا(۱۴)
اور اس کے (ف۲۱) سائے ان پر جھکے ہوں گے اور اس کے گچھے جھکا کر نیچے کردیے گئے ہوں گے (ف۲۲)

76:15
وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ كَانَتْ قَؔوَارِیْرَاۡۙ(۱۵)
اور ان پر چاندی کے برتنوں اور کوزوں کا دور ہوگا جو شیشے کے مثل ہورہے ہوں گے،

{وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ: اور ان پر چاندی کے برتنوں  اورگلاسوں  کے دَور ہوں  گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان نیک بندوں  پر چاندی کے برتنوں  اورگلاسوں  میں  جنتی شراب کے دَور ہوں  گے اور وہ برتن چاندی کے رنگ اور اس کے حسن کے ساتھ شیشے کی طرح صاف شفاف ہوں  گے اور ان میں  جو چیز پی جائے گی وہ باہر سے نظر آئے گی اور ان برتنوں  کوپلانے والوں  نے پورے اندازے سے بھر کر رکھا ہوگا کہ پینے والوں کی رغبت کی مقدار نہ اس سے کم ہو گی اور نہ زیادہ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۴ / ۳۴۰، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ص۱۳۰۷، ملتقطاً)

76:16
قَؔوَارِیْرَاۡ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوْهَا تَقْدِیْرًا(۱۶)
کیسے شیشے چاندی کے (ف۲۳) ساقیوں نے انہیں پورے اندازہ پر رکھا ہوگا (ف۲۴)

76:17
وَ یُسْقَوْنَ فِیْهَا كَاْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِیْلًاۚ(۱۷)
اور اس میں وہ جام پلائے جائیں گے (ف۲۵) جس کی ملونی ادرک ہوگی (ف۲۶)

{وَ یُسْقَوْنَ فِیْهَا كَاْسًا: اور جنت میں  انہیں  ایسے جام پلائے جائیں  گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جنت میں  ان نیک بندوں  کو پاکیزہ شراب کے ایسے جام پلائے جائیں  گے جن میں  زنجبیل یعنی ایسا پانی ملا ہوا ہو گا جو ذائقے میں  ادرک کی طرح ہو گا اور اس کے ملنے کی وجہ سے شراب کی لذت اور زیادہ ہوجائے گی اور زنجبیل جنت میں  ایک چشمہ ہے جسے جنتی فرشتے سَلسَبیل کہتے ہیں  کیونکہ اس کاپانی رواں  اور آسانی سے حلق میں  اتر جانے والا ہے۔ یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے مُقَرّب بندے خالص اسی چشمے سے پئیں  گے جبکہ ان سے کم درجے والے نیک بندوں  کی شرابوں  میں  اس چشمے کا پانی ملایا جائے گا اور یہ چشمہ عرش کے نیچے سے جنّتِ عدن سے ہوتا ہوا تمام جنتوں  میں  گزرتا ہے۔( روح البیان،الانسان،تحت الآیۃ:۱۷-۱۸،۱۰ / ۲۷۲، خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۴ / ۳۴۰-۳۴۱، ملتقطاً)

76:18
عَیْنًا فِیْهَا تُسَمّٰى سَلْسَبِیْلًا(۱۸)
وہ ادرک کیا ہے جنت میں ایک چشمہ ہے جسے سلسبیل کہتے ہیں (ف۲۷)

76:19
وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَۚ-اِذَا رَاَیْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا(۱۹)
اور ان کے آس پاس خدمت میں پھریں گے ہمیشہ رہنے والے لڑکے (ف۲۸) جب تو انہیں دیکھے تو انہیں سمجھے کہ موتی ہیں بکھیرے ہوئے (ف۲۹)

{وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ: اور ان کے آس پاس ہمیشہ رہنے والے لڑکے پھریں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ اور ان نیک بندوں  کے آس پاس ہمیشہ رہنے والے لڑکے خدمت کیلئے پھریں  گے ، وہ لڑکے نہ کبھی مریں  گے، نہ بوڑھے ہوں  گے ،نہ اُن میں  کوئی تبدیلی آئے گی اور نہ وہ خدمت کرنے سے اُکتائیں  گے اور ان کے حُسن کا یہ عالَم ہوگا کہ جب تو انہیں  دیکھے گا تو تُوانہیں ایسے سمجھے گا جس طرح صاف شفاف فرش پر چمکیلے موتی بکھرے ہوئے ہوں  ۔ اس حسن اورپاکیزگی کے ساتھ جنتی لڑکے خدمت میں  مشغول ہوں  گے۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۳۴۱، روح البیان، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۹، ۱۰ / ۲۷۳، ملتقطاً)

76:20
وَ اِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّ مُلْكًا كَبِیْرًا(۲۰)
اور جب تو ادھر نظر اٹھائے ایک چین دیکھے (ف۳۰) اور بڑی سلطنت (ف۳۱)

{وَ اِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ: اور جب تووہاں دیکھے گا۔} یعنی اے جنت میں  داخل ہونے والے!جب تو جنت میں  نظر اٹھائے گا تو وہاں ایسی نعمتیں  دیکھے گا جن کا وصف بیان نہیں  کیا جا سکتا اورتو وہاں  بہت بڑی سلطنت دیکھے گا جس کی حد اور انتہا نہیں  ،نہ اسے زوال آئے گا، نہ جنتی کو وہاں  سے منتقل کیاجائے گا اور اس سلطنت کی وُسعت کا یہ عالَم ہے کہ ادنیٰ مرتبے کا جنتی جب اپنے ملک کو دیکھے گا توایک ہزار برس کی راہ تک ایسے ہی دیکھے گا جیسے اپنے قریب کی جگہ دیکھتاہو اور قوت ودبدبے کا یہ حال ہوگا کہ فرشتے بھی اجازت کے بغیر نہیں  آئیں  گے۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۳۴۱، جلالین، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۴۸۴، ملتقطاً)

76:21
عٰلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌ٘-وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍۚ-وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا(۲۱)
ان کے بدن پر ہیں کریب کے سبز کپڑے (ف۳۲) اور قنا ویز کے (ف۳۳) اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے گئے (ف۳۴) اور انہیں ان کے رب نے ستھری شراب پلائی (ف۳۵)

{عٰلِیَهُمْ: ان پر ہیں ۔} یعنی ان جنتیوں  کے بدن پرباریک اور موٹے ریشم کے سبز کپڑے ہوں  گے اور انہیں  چاندی کے (بھی) کنگن پہنائے جائیں  گے اور ان کا رب عَزَّوَجَلَّ انہیں  پاکیزہ شراب پلائے گاجو کہ انتہائی پاک صاف ہو گی، نہ اسے کسی کا ہاتھ لگا ہو گا،نہ کسی نے اسے چھوا ہو گا اور نہ وہ پینے کے بعد دنیا کی شراب کی طرح جسم کے اندر سڑ کر پیشاب بنے گی بلکہ اس شراب کی صفائی کا یہ عالَم ہے کہ جسم کے اندر اتر کر پاکیزہ خوشبو بن کر جسم سے نکلتی ہے اور جنت میں  رہنے والوں  کو کھانے کے بعدشراب پیش کی جائے گی، اسے پینے سے ان کے پیٹ صاف ہوجائیں  گے اور جو کچھ انہوں  نے کھایا ہو گا وہ پاکیزہ خوشبو بن کر ان کے جسموں  سے نکلے گا اور ان کی خواہشیں  اور رغبتیں  پھرتازہ ہوجائیں  گی۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۳۴۱)

76:22
اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَآءً وَّ كَانَ سَعْیُكُمْ مَّشْكُوْرًا۠(۲۲)
ان سے فرمایا جائے گا یہ تمہارا صلہ ہے (ف۳۶) اور تمہاری محنت ٹھکانے لگی (ف۳۷)

{اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَآءً: بیشک یہ تمہارے لیے صلہ ہے۔} جب جنت میں  داخل ہونے کے بعد جنتی اس کی نعمتوں  کا مُشاہدہ کریں  گے تو ان سے فرمایا جائے گا : بیشک یہ نعمتیں  اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری اطاعت اور فرمانبرداری کا صلہ ہے اور تمہاری محنت کی قدر کی گئی ہے کہ تم سے تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا اور اس نے تمہیں  ثواب ِعظیم عطا فرمایا۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۳۴۱، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۱۳۰۸، ملتقطاً)

76:23
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًاۚ(۲۳)
بیشک ہم نے تم پر (ف۳۸) قرآن بتدریج اتارا (ف۳۹)

{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًا: بیشک ہم نے تم پر تھوڑا تھوڑا کرکے قرآن اتارا۔} اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ پر ایک ہی مرتبہ پورا قرآن نازل نہیں  کیا بلکہ آیت آیت کر کے تھوڑا تھوڑا نازل کیا اورا س میں  اللّٰہ تعالیٰ کی بڑی حکمتیں  ہیں ۔اس سے مقصودحضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دل کو تَقْوِیَت دینا ہے ، گویا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کافر اگرچہ قرآن کو کہانَت اور جادو کہتے ہیں  لیکن میں  تاکید کے ساتھ فرماتا ہوں  کہ یہ قرآن میری طرف سے وحی ہے،حق ہے اورہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے لہٰذا آپ کافروں  کی طعنہ زنی سے دِلبرداشتہ نہ ہوں  کیونکہ آپ سچے نبی ہیں ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۳۴۱، روح البیان، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۰ / ۲۷۷، ملتقطاً)

76:24
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًاۚ(۲۴)
تو اپنے رب کے حکم پر صابر رہو (ف۴۰) اور ان میں کسی گنہگار یا ناشکرے کی بات نہ سنو (ف۴۱)

{فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ: تو اپنے رب کے حکم پر ڈٹے رہو۔} شانِ نزول: عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن مغیرہ یہ دونوں  نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر آپ عورتیں  اور مال حاصل کرنے کے لئے اپنے دین کی تبلیغ کر رہے ہیں  تو ا س کام سے باز آئیے اور عتبہ نے کہا کہ اگر آپ ایسا کریں  گے تو میں  اپنی بیٹی سے آپ کی شادی کر دوں  گا اور مہر کے بغیر آپ کی خدمت میں  حاضر کردوں  گا اور ولید نے کہا کہ میں  آپ کو اتنا مال دے دوں  گا کہ آپ راضی ہوجائیں  گے۔ اس پریہ آیت نازل ہوئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا:اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ رسالت کی تبلیغ فرما کر اور اس میں  مشقتیں  اٹھا کر اور دین کے دشمنوں  کی ایذائیں  برداشت کرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم پر ڈٹے رہیں  اور ان میں  کسی گنہگار یا ناشکری کرنے والے کی بات نہ سنیں ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۳۴۲)

76:25
وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًاۖۚ(۲۵)
اور اپنے رب کا نام صبح و شام یاد کرو (ف۴۲)

{وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا: اور صبح و شام اپنے رب کا نام یاد کرو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض مفسرین کے نزدیک یہاں  ذکر سے نماز مراد ہے ،چنانچہ صبح کے ذکر سے نمازِ فجر اور شام کے ذکر سے ظہر اور عصر کی نمازیں  مراد ہیں  جبکہ رات کے کچھ حصے میں  سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ مغرب اور عشاء کی نمازیں  پڑھیں  اورباقی لمبی رات میں  اللّٰہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنے سے مراد یہ ہے کہ فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل پڑھتے رہیں ،یوں  اس میں  تَہَجُّد کی نماز بھی شامل ہو گئی ،اوربعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں  ذکر سے مراد زبان سے ذکر کرنا ہے اور مقصود یہ ہے کہ دن رات کے تمام اَوقات میں  دِل اور زبان سے اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں  مشغول رہیں ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ۴ / ۳۴۲)

76:26
وَ مِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَ سَبِّحْهُ لَیْلًا طَوِیْلًا(۲۶)
اور کچھ میں اسے سجدہ کرو (ف۴۳) اور بڑی رات تک اس کی پاکی بولو (ف۴۴)

76:27
اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَ یَذَرُوْنَ وَرَآءَهُمْ یَوْمًا ثَقِیْلًا(۲۷)
بیشک یہ لوگ (ف۴۵) پاؤں تلے کی (دنیاوی فائدے کو) عزیز رکھتے ہیں (ف۴۶) اور اپنے پیچھے ایک بھاری دن کو چھوڑ بیٹھے ہیں (ف۴۷)

{اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ: بیشک یہ لوگ جلد جانے والی سے محبت کرتے ہیں ۔} رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مُخاطَب ہونے کے بعد اب اللّٰہ تعالیٰ کفّار کے حالات بیان فرما رہا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ان کفارِ مکہ کا حال یہ ہے کہ وہ جلد جانے والی دنیا کی محبت میں  گرفتار ہیں  اورا سے آخرت پر ترجیح دیتے ہیں  اور اپنے آگے قیامت کے اس دن کو چھوڑ بیٹھے ہیں  جس کی شدّتیں  اور سختیاں  کفار پر بھاری ہوں  گی،یہ لوگ نہ اس دن پر ایمان لاتے ہیں  اور نہ اس دن کے لئے عمل کرتے ہیں ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۳۴۲، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۱۳۰۹، ملتقطاً)

دنیا سے محبت کب بری اور کب اچھی ہے؟

             اس سے معلوم ہوا کہ جب دین کو چھوڑ کر دنیا سے محبت کی جائے تو یہ بُری ہے اورکفار کا طریقہ ہے اور اگر دنیا کو دین کے لئے وسیلہ بنایاجائے تو اس سے محبت اچھی ہے۔ہمارے اَسلاف کا حال یہ تھا کہ وہ دنیا کا مال ملنے پر خوش ہونے کی بجائے غمزدہ ہو جایا کرتے تھے اور دین کی خاطر دنیا کا مال حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے ،جیسا کہ ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روزے سے تھے، جب (افطار کے وقت) ان کے سامنے کھانا لایا گیا تو فرمایا’’ حضرت مُصْعَب بن عُمَیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  شہید کئے گئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے،انہیں  ایک چادر کا کفن دیا گیا، اگر ان کے سر کو چھپایا جاتا تو قدم کھل جاتے تھے اور قدموں  کو چھپایا جاتا تو سرکھل جاتا تھا۔ حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید کئے گئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے۔پھر ہمارے لئے دنیا خوب کشادہ کر دی گئی اور ہمیں  دنیا کا مال عطا فرما دیا گیا، میں  اس بات سے ڈرتا ہوں  کہ کہیں  یہ ہماری نیکیوں  کا جلد بدلہ نہ مل رہا ہو،پھر رونے لگے اور کھانا چھوڑ دیا۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب اذا لم یوجد الّا ثوب واحد، ۱ / ۴۳۱، الحدیث: ۱۲۷۵)

            اورحضرت حماد بن زید رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کپڑے کی تجارت کیاکرتے تھے،ایک مرتبہ انہوں  نے فرمایا کہ اگر پانچ افراد نہ ہوتے تو میں  تجارت نہ کرتا۔کسی نے ان سے کہا :اے ابو محمد! وہ پانچ افراد کون ہیں ؟انہوں  نے فرمایا(1)حضرت سفیان ثوری۔(2) حضرت سفیان بن عُیَینہ۔ (3)حضرت فضیل بن عیاض۔(4)حضرت محمد بن سماک۔ اور(5)حضرت ابن عُلَیَّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ۔ حضرت عبداللّٰہ بن مبارک  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ خراسان شہر تک تجارت کے لئے جاتے اور تجارت سے جو نفع ہوتا اس میں  سے اپنے اہلِ خانہ کا اور حج کا خرچ نکال کر باقی جو کچھ بچتا وہ ان پانچ حضرات کی خدمت میں  پیش کر دیتے تھے۔( تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ اسماعیل، ۳۲۷۷-اسماعیل بن ابراہیم بن مقسم۔۔۔ الخ، ۶ / ۲۳۴)

76:28
نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَ شَدَدْنَاۤ اَسْرَهُمْۚ-وَ اِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَاۤ اَمْثَالَهُمْ تَبْدِیْلًا(۲۸)
ہم نے انہیں پیدا کیا اور ان کے جوڑ بند مضبوط کیے اور ہم جب چاہیں (ف۴۸) ان جیسے اور بدل دیں (ف۴۹)

{نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ: ہم نے انہیں  پیدا کیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے انہیں  منی سے پیدا کیا اور ان کے اَعضاء اور جوڑ مضبوط کئے تاکہ ان کے لئے کھڑے ہونا ، بیٹھنا ،پکڑنا اور حرکت کرنا ممکن ہو جائے اور خالق کا حق یہ ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے اور ا س کی ناشکری نہ کی جائے اورہم جب چاہیں  انہیں  ہلاک کردیں  اوران کی بجائے تخلیق میں  ان جیسے اور لوگ لے آئیں  جو کہ اطاعت شِعار ہوں ۔(روح البیان، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۸، ۱۰ / ۲۷۹، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۳۰۸، ملتقطاً)

76:29
اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌۚ-فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا(۲۹)
بیشک یہ نصیحت ہے (ف۵۰) تو جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ لے (ف۵۱)

{اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ: بیشک یہ ایک نصیحت ہے۔} ارشاد فرمایا کہ بے شک یہ سورت مخلوق کے لئے نصیحت ہے تو جو چاہے دنیا میں  اپنی ذات کے لئے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کر کے اور اس کے رسول کی پیروی کرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف راہ اختیار کرے۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۳۴۲، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۳۰۹، ملتقطاً)

{وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ: اورتم کچھ نہیں  چاہتے مگر یہ کہ اللّٰہ  چاہے۔} ارشاد فرمایا کہ تم کچھ نہیں  چاہتے مگر تب ہی کچھ ہوتا ہے جب کہ اللّٰہ تعالیٰ چاہے کیونکہ جو کچھ ہوتا ہے اسی کی مَشِیَّت سے ہوتاہے ،بیشک وہ اپنی مخلوق کے اَحوال جانتا ہے اور انہیں  پیدا کرنے میں  حکمت والا ہے۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۳۴۲)

آیت ’’وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے ،

(1)… انسان پتھر کی طرح بے اختیار نہیں  بلکہ اسے اختیاراور ارادہ ملا ہے ۔

(2)… انسان اپنے ارادے میں  بالکل مُستقل اور اللّٰہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں  بلکہ اس کا ارادہ اللّٰہ تعالیٰ کے ارادے کے ماتحت ہے، لہٰذا انسان مختارِ مُطْلَق نہیں ،اسی عقیدے پر ایمان کا مدار ہے۔

{یُدْخِلُ مَنْ یَّشَآءُ فِیْ رَحْمَتِهٖ: وہ اپنی رحمت میں  جسے چاہتا ہے داخل فرماتا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے اپنے فضل و احسان سے ایمان عطا فرما کر اپنی جنت میں  داخل فرماتا ہے اور کافروں  کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے اور وہ ظالم اس لئے ہیں  کہ انہوں  نے اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے بتوں  وغیرہ کی عبادت کر کے اپنی جانوں  پر ظلم کیا ہے۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۳۱، ۴ / ۳۴۲، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۱۳۰۹، ملتقطاً)

76:30
وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۗۖ(۳۰)
اور تم کیا چاہو مگر یہ کہ اللہ چاہے (ف۵۲) بیشک وہ علم و حکمت والا ہے،

76:31
یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآءُ فِیْ رَحْمَتِهٖؕ-وَ الظّٰلِمِیْنَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا۠(۳۱)
اپنی رحمت میں لیتا ہے (ف۵۳) جسے چاہے (ف۵۴) اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے (ف۵۵)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلدَّهْر
اَلدَّهْر
  00:00



Download

اَلدَّهْر
اَلدَّهْر
  00:00



Download