READ

Surah al-Fajr

اَلْفَجْر
30 Ayaat    مکیۃ


89:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

89:1
وَ الْفَجْرِۙ(۱)
اس صبح کی قسم (ف۲)

{وَ الْفَجْرِ: صبح کی قسم۔} اِس صبح سے مراد یا تویکم محرم کی صبح ہے جس سے سال شروع ہوتا ہے ،یا یکم ذی الحجہ کی جس سے دس راتیں  ملی ہوئی ہیں  جن میں  بطورِ خاص حج کے اَیّام آتے ہیں ،یا عیدالاضحی کی صبح مراد ہے کہ یہ وہ صبح ہے جس میں  حج کے اہم رکن طوافِ زیارت کا وقت شروع ہوتا ہے، اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے مراد ہر دن کی صبح ہے کیونکہ وہ رات کے گزرنے ، روشنی کے ظاہر ہونے اور تمام جانداروں  کے رزق کی طلب کے لئے مُنتشر ہونے کا وقت ہے اور یہ وقت مُردوں  کے قبروں  سے اُٹھنے کے وقت کے ساتھ مشابہت و مناسبت رکھتا ہے۔(خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۷۴، ملتقطاً)

{وَ لَیَالٍ عَشْرٍ: اور دس راتوں  کی۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ ان سے مراد ذی الحجہ کی پہلی دس راتیں  ہیں  کیونکہ یہ زمانہ حج کے اعمال میں  مشغول ہونے کا زمانہ ہے۔( خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۷۴)

ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں  کے فضائل  :

             حدیث شریف میں  اس عشرہ کی بہت فضیلتیں  وارد ہوئی ہیں ،یہاں  ان میں  سے دو فضائل ملاحظہ ہوں  چنانچہ

(1)… حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ان دس دنوں  کے مقابلے میں  کسی دن کا عمل زیادہ محبوب نہیں ۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، کیا اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں  جہاد بھی نہیں ؟ارشاد فرمایا:ہاں  جہاد بھی نہیں ، البتہ وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں  نکلا،پھر ان میں  سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہوگیا تو اس کا یہ عمل افضل ہے)۔(ترمذی، کتاب الصوم، باب ما جاء فی العمل فی ایام العشر، ۲ / ۱۹۱، الحدیث: ۷۵۷)

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جن دنوں  میں  اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے ان میں  سے کوئی دن ذی الحجہ کے دس دنوں  سے زیادہ پسندیدہ نہیں ، ان میں  سے (ممنوع دنوں  کے علاوہ) ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں  اور ہر رات کا قیام لیلۃُ القدر کے قیام کے برابر ہے۔( ترمذی، کتاب الصوم، باب ما جاء فی العمل فی ایام العشر، ۲ / ۱۹۱، الحدیث: ۷۵۸)

             حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے یہ بھی مروی ہے کہ آیت میں  مذکور ان راتوں  سے رمضان کے آخری عشرے کی راتیں  مراد ہیں  کیونکہ ان میں ( اعتکاف مسنون ہے اور انہی راتوں  میں ) لیلۃُ القدر آتی ہے۔(خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۳۷۴)

رمضان کے آخری عشرے کی اہمیت:

            تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ رمضان کے آخری عشرے میں  خاص طور پر اِعتکاف فرماتے، اس کی طاق راتوں  میں  شب ِقدر تلاش کرنے کی ترغیب دیتے اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں  خوب جدو جہد فرماتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا  فرماتی ہیں :حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ رمضان کے آخری عشرے میں  اعتکاف فرماتے اور فرمایا کرتے کہ شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں  تلاش کرو۔(بخاری، کتاب فضل لیلۃ القدر، باب تحرّی لیلۃ القدر فی الوتر۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۶۲، الحدیث: ۲۰۲۰)

            نیزحضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا  فرماتی ہیں :حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ رمضان کے آخری عشرے میں  باقی دنوں  کی بہ نسبت عبادت میں  زیادہ جدو جہد کرتے تھے۔(مسلم، کتاب الاعتکاف، باب الاجتہاد فی العشر الاواخر فی شہر رمضان، ص۵۹۹، الحدیث: ۸(۱۱۷۵))

            بعض مفسرین نے فرمایا کہ آیت میں  مذکور ان راتوں  سے مراد محرمُ الحرام کے پہلے عشرے کی دس راتیں  ہیں  (کہ ان دس دنوں  میں  انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے) اور اس عشرے میں  عاشوراء کا دن بھی ہے۔(خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۳۷۴)

عاشوراء کے فضائل:

            یہاں  عاشوراء کے دو فضائل بھی ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  :جب رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں  کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھے ہوئے ہیں  ،آپ نے ارشاد فرمایا’’یہ کیا ہے؟ انہوں  نے عرض کی:یہ ایک عظمت والا دن ہے اور یہ وہ دن ہے جس میں  اللّٰہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تو ا س دن (شکرانے کے طور پر) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے روزہ رکھا۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مُوافقت کرنے میں  تم سے زیادہ حقدار ہوں ،چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اوراس دن روزہ رکھنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا۔(بخاری، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، ۱ / ۶۵۶، الحدیث: ۲۰۰۴)

(2)…حضرت ابوقتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ر وایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے اللّٰہ تعالیٰ پر گمان ہے کہ عاشورا ء کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹادیتاہے۔(مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب ثلاثۃ ایام من کل شہر... الخ، ص۵۸۹، الحدیث: ۱۹۶(۱۱۶۲))

            نوٹ:یاد رہے کہ جو عاشوراء کے دن روزہ رکھنا چاہے تواسے چاہئے کہ وہ 9محرم یا 11محرم کا روزہ بھی رکھے تاکہ یہودیوں  کی مخالفت ہو سکے، جیسا کہ حدیث پاک میں  ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عاشوراء کے دن کا روزہ رکھو اور اِس میں  یہودیوں  کی (اس طرح) مخالفت کرو کہ اس سے پہلے یا بعد میں  بھی ایک دن کا روزہ رکھو۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن العباس... الخ، ۱ / ۵۱۸، الحدیث: ۲۱۵۴)

89:2
وَ لَیَالٍ عَشْرٍۙ(۲)
اور دس راتوں کی (ف۳)

89:3
وَّ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِۙ(۳)
اور جفت اور طاق کی (ف۴)

{وَ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِ: اور جفت اور طاق کی۔} جفت اور طاق سے کیا مراد ہے اس بارے میں  مفسرین کے متعدد اَقوال ہیں ،ان میں  سے چار اَقوال درج ذیل ہیں ،

 (1)…جفت سے مراد ذوالحجہ کی10 تاریخ جس دن حج کے اہم اَفعال سرانجام دئیے جاتے ہیں  اور طاق سے مراد 9تاریخ جس دن میدانِ عرفات میں  حج ہوتا ہے۔اس دن کی فضیلت کے بارے میں  حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’اللّٰہ تعالیٰ یومِ عرفہ سے زیادہ کسی دن بندوں  کو جہنم سے آزاد نہیں  کرتا،اللّٰہ (اپنے بندوں  سے) قریب ہوتا ہے،پھر فرشتوں  کے سامنے اپنے بندوں  پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے یہ بندے کس ارادے سے آئے ہیں ۔( مسلم، کتاب الحج، باب فی فضل الحج والعمرۃ ویوم عرفۃ، ص۷۰۳، الحدیث: ۴۳۶(۱۳۴۸))

(2)…جفت سے مراد مخلوق اور طاق سے مراد اللّٰہ تعالیٰ کی ذات ہے جیسے حدیثِ مبارک میں  ہے : بیشک اللّٰہ تعالیٰ وِتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔( مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، ص۱۴۳۹، الحدیث: ۵(۲۶۷۷))

(3)…ہر چیز کے جفت اور طاق کی قسم ہے گویا جملہ مخلوقات ِ الٰہی کی قسم ہے۔

(4)…جفت سے مراد 2اور 4رکعت والی نمازیں  اور طاق سے مراد 3رکعت والی نماز یعنی مغرب ہے۔( خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۳۷۴، مدارک، الفجر، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۳۴۵، ملتقطاً)

{وَ الَّیْلِ اِذَا یَسْرِ: اور رات کی جب وہ چل پڑے۔} رات کے چلنے سے مراد ہے کہ گزرنے لگے۔ اس رات سے مراد کیا ہے؟ اس بارے میں  مفسرین فرماتے ہیں  کہ اس سے خاص مُزدلفہ کی رات مراد ہے جس میں  بندگانِ خدا طاعت ِالٰہی کے لئے جمع ہوتے ہیں بلکہ اس رات اور مقامِ مزدلفہ کی فضیلت میں  قرآن مجیدکی آیت موجود ہے ،چنانچہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتاہے: ’’فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۪-وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْۚ-وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ‘‘(بقرہ:۱۹۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو جب تم عرفات سے واپس لوٹو تو مشعر ِحرام کے پاس اللّٰہ کو یاد کرو اور اس کا ذکر کروکیونکہ اس  نے تمہیں  ہدایت دی ہے اگرچہ اس سے پہلے تم یقینابھٹکے ہوئے تھے۔

             نیز حدیث ِمبارک میں  حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ عرفات سے مُزدلفہ میں  تشریف لائے ،یہاں  مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی ،پھر لیٹے یہاں  تک کہ فجر طلوع ہوئی ،جب صبح ہوئی تو اُس وقت اذان و اِقامت کے ساتھ نمازِ فجر پڑھی ، پھر قَصْواء اونٹنی پر سوار ہو کر مَشْعَرِ حرام میں  آئے اورقبلہ کی جانب منہ کرکے دعا ، تکبیر و تہلیل اور اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیَّت بیان کرنے میں  مشغول رہے اور وقوف کیا یہاں  تک کہ خوب اُجالا ہو گیا اور طلوعِ آفتاب سے قبل یہاں  سے روانہ ہوئے ۔( مسلم، کتاب الحج، باب حجّۃ النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۶۳۴، الحدیث: ۱۴۷(۱۲۱۸))

             بعض علماء کے بقول یہ رات حاجیوں  کیلئے شب ِ قدر سے بھی افضل ہے۔

            آیت میں  مذکور رات کے بارے میں  ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے شبِ قدر مراد ہے جس میں  رحمت کا نزول ہوتا ہے اور جو ثواب کی کثرت کے لئے مخصوص ہے اور جس کے بارے میں  خود قرآنِ پاک کی پوری سورت موجود ہے۔نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے عام رات یعنی ہر رات مراد ہے کہ رات بذاتِ خود بہت سے عجائبات و اَسرار پر مشتمل ہے۔

89:4
وَ الَّیْلِ اِذَا یَسْرِۚ(۴)
اور رات کی جب چل دے (ف۵)

89:5
هَلْ فِیْ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍؕ(۵)
کیوں اس میں عقلمند کے لیے قسم ہوئی (ف۶)

{هَلْ فِیْ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ: کیا اس قسم میں  عقلمند کے لیے قسم ہے؟} گزشتہ آیات میں  پانچ قَسمیں  ارشاد ہوئیں  اور ان کے بارے میں  فرمایا کہ بیشک یہ مذکورہ بالا چیزیں  عقل والوں کے نزدیک ایسی عظمت رکھتی ہیں  کہ خبروں  کواُن کے ساتھ مُؤکَّد کرنا بہت مناسب ہے ۔ اِن ساری قَسموں  کا جواب یہ ہے کہ کافر کوضرور عذاب دیا جائے گا۔اِس جواب ِ قسم پر اگلی آیتیں  دلالت کرتی ہیں ۔

89:6
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍﭪ(۶)
کیا تم نے نہ دیکھا (ف۷) تمہارے رب نے عاد کے ساتھ کیسا کیا،

{اَلَمْ تَرَ: کیا تم نے نہ دیکھا۔} متعدد قَسموں  کے بعد جواب ِ قسم یہ تھاکہ کافروں  کو عذاب دیا جائے گا۔ کافروں  کا آخرت کا عذاب تو قطعی ہے البتہ بارہا دنیا میں  انہیں  عذاب دیا گیا چنانچہ اسی کی مثالوں  کے طورپر یہاں  سے متعدد قوموں  کے عذابات کا تذکرہ کیا گیا ہے جس سے اصلِ مقصود اہلِ مکہ اور دیگر کفار کو خوف دلانا ہے۔چنانچہ فرمایا گیا کہ کیا تم نے قومِ عاد کو نہیں  دیکھا ۔قومِ عاد کی دو قسمیں  ہیں : (1)عاد ِ اُولیٰ، (2)عادِ اُخریٰ۔ یہاں  عادِ اُولیٰ مراد ہے جن کے قد بہت دراز تھے ،انہیں  عادِ اِرم بھی کہتے ہیں ۔ کفار کو سمجھایا گیا کہ عادِ اُولیٰ جن کی عمریں  بہت زیادہ اور قد بہت طویل تھے اور وہ خود نہایت قوی و توانا تھے، انہیں  اللّٰہ تعالیٰ نے ہلاک کردیا تو یہ کافر اپنے آ پ کو کیا سمجھتے ہیں  اور عذابِ الٰہی سے کیوں  بے خوف ہیں ۔

89:7
اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِﭪ(۷)
وہ اِرم حد سے زیادہ طول والے (ف۸)

89:8
الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِﭪ(۸)
کہ اس جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا (ف۹)

{اَلَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِ: کہ ان جیسا شہروں  میں  پیدا نہ ہوا۔} قومِ عاد کی قوت و طاقت اور قد و قامت کے بارے میں  بہت کچھ مروی ہے جس میں  بہت کچھ اسرائیلی روایات میں  سے ہے لیکن یہ بات قطعی ہے جو قرآن میں  بیان کی گئی کہ وہ غیر معمولی قوت و طاقت اور قد کاٹھ والے تھے۔

شداد کا بنایاہوا شہر:

            زور وقوت اور طویل قامت میں  عاد کے بیٹوں  میں  سے شداد بھی ہے جس نے دنیا پر بادشاہت کی اور تمام بادشاہ اس کے مطیع ہوگئے اور اُس نے جنت کا ذکر سن کر سرکشی کے طور پردنیا میں  جنت بنانی چاہی اور اس ارادے سے ایک شہرِ عظیم بنایا جس کے محل سونے چاندی کی اینٹوں  سے تعمیر کئے گئے اور زَبَرجَد اور یاقوت کے ستون اس کی عمارتوں  میں  نَصب ہوئے اور ایسے ہی فرش مکانوں  اور رستوں  میں  بنائے گئے، سنگریزوں کی جگہ آبدار موتی بچھائے گئے ،ہر محل کے گرد جواہرات پر نہریں  جاری کی گئیں ‘ قسم قسم کے درخت حُسنِ تزئین کے ساتھ لگائے گئے، جب یہ شہر مکمل ہوا تو شداد بادشاہ اپنے اَعیانِ سلطنت کے ساتھ اس کی طرف روانہ ہوا، جب ایک منزل فاصلہ باقی رہا تو آسمان سے ایک ہَولناک آواز آئی جس سے اللّٰہ تعالیٰ نے ان سب کو ہلاک کردیا۔

            حضرتِ امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عہد میں  حضرت عبداللّٰہ بن قلابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  صحرائے عدن میں  اپنے گمے ہوئے اونٹ کو تلاش کرتے ہوئے اس شہر میں  پہنچے اور اس کی تمام زیب و زینت دیکھی اور کوئی رہنے بسنے والا نہ پایا، تھوڑے سے جواہرات وہاں  سے لے کر چلے آئے ،یہ خبر حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معلوم ہوئی تو اُنہوں  نے انہیں  بلا کر حال دریافت کیا، اُنہوں  نے تمام قصہ سنایا تو حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت کعب احبا ر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بلاکر دریافت کیا کہ کیا دنیا میں  کوئی ایسا شہر ہے؟ اُنہوں نے فرمایا ہاں  جس کا ذکر قرآن پاک میں  بھی آیا ہے ،یہ شہر شداد بن عاد نے بنایا تھا اور وہ سب عذابِ الٰہی سے ہلاک ہوگئے ان میں  سے کوئی باقی نہ رہا اور آپ کے زمانہ میں  ایک مسلمان سرخ رنگ والا، نیلی آنکھوں  والا ، چھوٹے قد کا جس کی اَبرو پر ایک تل ہوگا اپنے اونٹ کی تلاش میں  اس شہر میں  داخل ہوگا، پھر حضرت عبداللّٰہ بن قلابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کو دیکھ کر فرمایا بخدا وہ شخص یہی ہے۔( خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۳۷۵، ۳۷۶)

89:9
وَ ثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِﭪ(۹)
اور ثمود جنہوں نے وادی میں (ف۱۰) پتھر کی چٹانیں کاٹیں (ف۱۱)

{وَ ثَمُوْدَ: اور ثمود۔} یعنی کیا تم نے نہ دیکھا کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے قومِ ثمود کے ساتھ کیا کیا جنہوں  نے اپنی قوت و طاقت سے پہاڑ کاٹ کرمضبوط مکانات تعمیرکئے مگر اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  بھی ہلاک کردیا ۔قومِ ثمود قومِ عادکے چچا زاد تھے، حجاز و شام کے در میان آباد تھے ، حِجر سے وادیٔ قُریٰ تک بہت سے بڑے بڑے بڑے شہر آباد کئے تھے ، سنگتراشی میں  استاذتھے ،بہت قد آوراور مالدار تھے ۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان میں  نبی ہو کر تشریف لائے اورآپ کی مخالفت کی وجہ سے کفار ِثمود ہلاک ہوئے ۔

{وَ فِرْعَوْنَ: اور فرعون۔} یعنی کیا تم نے نہ دیکھا کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے فرعون کے ساتھ کیاکیاجو میخوں میں  گاڑکرسزائیں  دینے والا تھا۔فرعون نے جس کوسزا دینا ہوتی اس کے ہاتھ پاؤں  میخوں  سے باندھ دیتا یا ہاتھ پاؤں  میں  ہی میخیں  گاڑ دیتا تھا۔

89:10
وَ فِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِﭪ(۱۰)
اور فرعون کہ چومیخا کرتا (سخت سزائیں دیتا) (ف۱۲)

89:11
الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِﭪ(۱۱)
جنہوں نے شہروں میں سرکشی کی (ف۱۳)

{اَلَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ: جنہوں  نے شہروں  میں  سرکشی کی} اب اوپر بیان کردہ قومِ عاد،قومِ ثمود، فرعون کے بارے میں  فرمایا کہ انہوں  نے شہروں  میں  سرکشی کی اور مَعصِیَت و گمراہی میں  انتہا کو پہنچے اور عَبْدِیَّت کی حد سے گذر گئے کہ فرعون نے توبندگی کی حد سے گزر کر خدائی کا دعویٰ کردیا نیز انہوں  نے کفر ،قتل اور ظلم کے ذریعے زمین میں  فساد برپا کیا تو ان کا جوانجام ہوا وہ اگلی آیت میں  مذکور ہوا کہ ان پر اللّٰہ تعالیٰ نے عذاب کا کوڑا برسایا اور مختلف طرح کے عذابوں  میں  مبتلا کیا جنہوں نے انہیں  ہلاک کردیا ۔

89:12
فَاَكْثَرُوْا فِیْهَا الْفَسَادَﭪ(۱۲)
پھر ان میں بہت فساد پھیلایا (ف۱۴)

89:13
فَصَبَّ عَلَیْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍۚۙ(۱۳)
تو ان پر تمہارے رب نے عذاب کا کوڑا بقوت مارا،

89:14
اِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِؕ(۱۴)
بیشک تمہارے رب کی نظر سے کچھ غائب نہیں،

{اِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ: بیشک تمہارا رب یقینا دیکھ رہا ہے۔} اس آیت میں  گزشتہ قوموں  کا اَحوال ہوسکتا ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہ تھے بلکہ ان کا ہر حال اللّٰہ تعالیٰ پرکھلا ہوا تھااور انہیں  ان کی حرکات کی وجہ سے ہی عذاب دیا گیا اور یونہی موجودہ اور آئندہ کے سارے لوگ بھی اللّٰہ تعالیٰ کی نگہبانی میں  ہیں  کہ ان میں  سے کوئی اللّٰہ تعالیٰ پر پوشیدہ نہیں  اور ہر ایک کا ہر عمل، ہر حال، ہر حرکت اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے ہے۔

89:15
فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ رَبُّهٗ فَاَكْرَمَهٗ وَ نَعَّمَهٗ ﳔ فَیَقُوْلُ رَبِّیْۤ اَكْرَمَنِؕ(۱۵)
لیکن آدمی تو جب اسے اس کا رب آزمائے کہ اس کو جاہ اور نعمت دے، جب تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے عزت دی،

{فَاَمَّا الْاِنْسَانُ: تو بہرحال آدمی۔} یہاں  سے انسان کی آزمائش کا بیان کیا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ بندوں  کو مال و دولت اور نعمت و عزت دے کر بھی آزماتا ہے اورواپس لے کر بھی آزماتا ہے ۔ اس میں  مومن و مخلص اور مطیع و فرمانبردار تو ہر حال میں  اللّٰہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتا ہے کہ نعمت پر شکر کرتا ہے اور مصیبت پر صبر ،لیکن غافل اورجاہل کا طرز ِ عمل اس کے برخلاف ہوتا ہے کہ اگر اسے نعمت و عزت کے ذریعے آزمایا جائے تو وہ خودپسندی کا شکار ہوجاتاہے اور اس نعمت پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور اُسے اللّٰہ تعالیٰ کا فضل و احسان قرار دینے کی بجائے اپنا حق سمجھتا ہے اور اپنا کمال قرار دیتا ہے اور اِس دُنْیَوی مال و دولت کو اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں  مقبولیت کی دلیل قرار دیتا ہے ۔ اس کے برعکس جب اللّٰہ تعالیٰ اُسے رزق کی تنگی میں  مبتلا کرکے یا دوسری تکالیف کے ذریعے آزماتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ سے شکوہ و شکایت کرتا ہے اور ہر ایک کے سامنے جا کر واویلا کرتا ہے اور مال و دولت کی اِس کمی کو اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں  مَردُوْدِیَّت کی علامت سمجھتا ہے۔ یہ تمام کا تمام طرز ِ عمل حقیقی مسلمان کی شان کے برخلاف ہے کہ سچے مسلمان کو اگر مال و دولت اور عزت ملتی ہے تو وہ اسے اپنا ذاتی اِستحقاق قرار دینے کی بجائے خالصتاً اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کا فضل قرار دیتا ہے اور اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو اسے اپنے گناہوں  کا نتیجہ یا خدائی آزمائش قرار دے کر اللّٰہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتا ہے۔ یونہی سچے مسلمان مال و دولت کی کثرت کو اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں مقبولیت اور قِلت کو مَردُوْدِیَّت کی دلیل نہیں  سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک مقبولیت کا معیار تقویٰ ہے اور مردودیت کا سبب نافرمانی ہے۔

             ان آیاتِ مبارکہ میں  جو طرز ِ عمل بیان کیا گیا ہے یہ حقیقتاً کفار کا ہے لیکن افسوس کہ آج کل کے بہت سے نام نہاد مسلمان بھی غیر مسلموں  کی دُنْیَوی ترقی سے مرعوب ہوکرایسی سوچ بنالیتے ہیں  کہ اگر کفار مردود ہیں  تو اتنی نعمت و ترقی میں  کیوں  ہیں  اور اگر مسلمان مقبول ہیں  تو اتنی ذلت و پستی میں  کیوں  ہیں  حالانکہ بات بالکل واضح ہے کہ مسلمان کی موجودہ پستی اسلام کی وجہ سے نہیں  بلکہ ترک ِ اسلام کی وجہ سے ہے یعنی اسلامی تعلیمات چھوڑنے کی وجہ سے ہے اور کفار کی ترقی ان کے کفر کی وجہ سے نہیں  بلکہ زندگی گزارنے کی جو حقیقی اسلامی تعلیمات ہیں  ان میں  بہت ساری چیزوں  پر عمل کی وجہ سے ہے۔

89:16
وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ فَقَدَرَ عَلَیْهِ رِزْقَهٗ ﳔ فَیَقُوْلُ رَبِّیْۤ اَهَانَنِۚ(۱۶)
اور اگر آزمائے اور اس کا رزق اس پر تنگ کرے، تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے خوار کیا،

89:17
كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَۙ(۱۷)
یوں نہیں (ف۱۵) بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے (ف۱۶)

{كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ: ہرگزنہیں  بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں  کرتے۔} ارشادفرمایا کہ عزت و ذلت کا معیاروہ ہرگزنہیں  جو تم نے سمجھ رکھا ہے کہ عزت ،دولت کی وجہ سے اور ذلت، غربت کی وجہ سے ہوتی ہے ، مال ودولت کی یہ تقسیم تو اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ کبھی کسی حکمت سے دشمن کو دولت دے دیتا ہے اورکبھی مخلص بندے کو فقر و فاقہ میں  مبتلا کردیتا ہے۔ اصل عزت و ذلت کا معیار طاعت و مَعصِیَت پر ہے لیکن کفار اس حقیقت کو نہیں  سمجھتے اور یونہی ان کے جاہل مُقَلِّد بھی اس حقیقت کو نہیں  سمجھتے۔ تم میں  سے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  جو ذلیل ہے وہ وہ نہیں  جو مال کی کمی کا شکار ہے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں  تمہاری ذلت کا سبب یہ ہے کہ تم یتیم کی عزت نہیں  کرتے اور دولت مند ہونے کے باوجوداُن کے ساتھ اچھے سلوک نہیں  کرتے اور انہیں  اُن کے حقوق نہیں  دیتے جن کے وہ وارث ہیں ۔ مقاتل نے کہا کہ امیہ بن خلف کے پاس قد امہ بن مظعون یتیم تھے وہ انہیں  ان کا حق نہیں  دیتا تھا، اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔( خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۳۷۷-۳۷۸)

{وَ لَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ: اور تم ایک دوسرے کو مسکین کے کھلانے کی ترغیب نہیں  دیتے۔} یعنی تمہاری ذلت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ تم خود بھی کھانے کی خیرات نہیں  کرتے اوردوسروں  کو بھی اس کی رغبت نہیں  دیتے بلکہ اس سے روکتے ہو۔

89:18
وَ لَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِۙ(۱۸)
اور آپس میں ایک دوسرے کو مسکین کے کھلانے کی رغبت نہیں دیتے،

89:19
وَ تَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّاۙ(۱۹)
اور میراث کا مال ہپ ہپ کھاتے ہو (ف۱۷)

{وَ تَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا: اور میراث کا سارا مال جمع کرکے کھاجاتے ہو۔} یہاں  کفار کی تیسری خرابی اور ذلت کا بیان ہے کہ تم میراث کا مال کھاجاتے ہو اور حلال و حرام میں  تمیز نہیں  کرتے اور عورتوں  اور بچوں  کو وراثت کا حصہ نہیں  دیتے بلکہ اُن کے حصے خود کھا جاتے ہو، جاہلیَّت میں  یہی دستور تھا۔

            اس بیان کردہ ظلم میں  بہت سی صورتیں  داخل ہیں  اور فی زمانہ جو چچا تایا قسم کے لوگ یتیم بھتیجوں  کے مال پر قبضہ کرلیتے ہیں  یا روٹین میں  جو بہنوں ، بیٹیوں  یا پوتیوں  کو وراثت نہیں  دی جاتی وہ بھی اسی میں  داخل ہے کہ شدید حرام ہے۔

{وَ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا: اور مال سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہو۔} یہاں  کفار کی ذلت اور چوتھی خصلت بیان کی گئی ہے اور یہ حقیقت میں  بقیہ جملہ اَمراض کی جڑ اور بنیاد ہے اور وہ ہے مال اور دنیا کی محبت۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ تم مال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو کہ اس کو خرچ کرنا ہی نہیں  چاہتے اور اسی سبب سے یتیموں  کی عزت نہیں  کرتے، مسکینوں  کو کھانا نہیں  کھلاتے، دوسروں  کو صدقہ و خیرات کی ترغیب نہیں  دیتے بلکہ دوسروں  کا مال کھاجاتے ہو، ان کی زمین، جائیداد، مال، وراثت اور ملکیت پر قبضے کرتے ہو بلکہ اسی سبب سے قتل و غارَتگَری کرتے ہو ۔ الغرض فساد کی جڑ یعنی مال کی محبت کی وجہ سے ہر طرح کا بگاڑ پیدا کرتے ہو۔

مال کی محبت انتہائی تباہ ُکن ہے:

مال کی محبت نہایت تباہ کن ہے، اسی لئے قرآن و حدیث میں  اس کی بکثرت مذمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ‘‘(ال عمران:۱۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: لوگوں  کے لئے ان کی خواہشات کیمحبت کو آراستہ کردیا گیا یعنی عورتوں  اور بیٹوں  اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیروں  اور نشان لگائے گئے گھوڑوں  اورمویشیوں  اور کھیتیوں  کو (ان کے لئے آراستہ کردیا  گیا۔) یہ سب دنیوی زندگی کا سازوسامان ہے اور صرفاللّٰہ کے پاس اچھا ٹھکاناہے۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ‘‘(ہود:۱۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینتچاہتا ہو توہم دنیا میں  انہیں  ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں  گے اورانہیں  دنیا میں  کچھ کم نہ دیا جائے گا۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِیْ حَرْثِهٖۚ-وَ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ‘‘(شوریٰ:۲۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: جو آخرت کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں  اضافہ کردیتے ہیں  اور جو دنیا کی کھیتی چاہتاہے توہم اسے اس میں  سے کچھ دیدیتے ہیں  اور آخرت میں  اس کا کچھ حصہ نہیں ۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲) كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ(۳) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَؕ(۴) كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِؕ(۵) لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَۙ(۶) ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِیْۙنِ(۷) ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ‘‘(تکاثر:۱۔۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نےتمہیں  غافل کردیا ۔یہاں  تک کہ تم نے قبروں  کا منہ دیکھا۔ہاں  ہاں  اب جلد جان جاؤ گے۔پھر یقینا تم جلد جان جاؤ گے۔یقینا اگر تم یقینی علم کے ساتھ جانتے(تو مال سے محبت نہ رکھتے)۔ بیشک تم ضرور جہنم کو دیکھو گے۔پھر بیشک تم ضرور اسے یقین کی آنکھ سے دیکھو گے۔پھر بیشک ضرور اس دن تم  سے نعمتوں  کے متعلق پوچھا جائے گا۔

اوراُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اگر ابن ِآدم کے پاس سونے کی دو وادیاں  ہوں  تو (اس کے باوجود) وہ یہ پسند کرے گا کہ ا س کے پاس تیسری سونے کی وادی (بھی) ہو،ابن ِآدم کا پیٹ مٹی ہی بھر سکتی ہےاور جو توبہ کرے اللّٰہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔( مسند ابو یعلی، مسند عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا، ۴ / ۸۲، الحدیث: ۴۴۴۳)

حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اگر آدمی کے پاس اتنا مال ہو جس سے میدا ن بھر جائے تو وہ ضرور چاہے گا کہ اُس کے پاس اور مال ہو اورا ٓدمی کی آنکھ کو مٹی ہی بھر سکتی ہے۔( بخاری، کتاب الرّقاق، باب ما یتّقی من فتنۃ المال، ۴ / ۲۲۹، الحدیث: ۶۴۳۷)

 حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دینار و درہم کے بندے نیز ریشمی چادروں  اور اونی کپڑوں  کے بندے ہلاک ہوئے کیونکہ اگر یہ چیزیں  انہیں  دے دی جائیں  تو وہ راضی ہو گئے اور اگر نہ دی جائیں  تو وہ راضی نہیں  ہوتے۔( بخاری، کتاب الرّقاق، باب ما یتّقی من فتنۃ المال، ۴ / ۲۲۸، الحدیث: ۶۴۳۵)

البتہ یہاں  یہ یاد رہے کہ آیت میں  فرمایا گیا کہ تم مال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو ۔اس سے معلوم ہوا کہ مال کی محبت مُطلَقاً بری نہیں  بلکہ بہت گہری محبت بری ہے۔ گہر ی محبت کی کئی صورتیں  ہیں : جہاں  خرچ کرنا ضروری ہے وہاں  بھی خرچ نہ کرے،حلال و حرام میں  تمیز باقی نہ رکھے، سوتے جاگتے مال حاصل کرنے کی فکر میں  رہے، مال کی طلب میں  آخرت سے بے پرواہ اور اللّٰہ و رسول سے غافل ہو جائے، مال طلبی میں  فرائض و واجبات ترک کردے ، وغیرہا۔

89:20
وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاؕ(۲۰)
اور مال کی نہایت محبت رکھتے ہو (ف۱۸)

89:21
كَلَّاۤ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّاۙ(۲۱)
ہاں ہاں جب زمین ٹکرا کر پاش پاش کردی جائے (ف۱۹)

{كَلَّاۤ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّا: ہاں  ہاں  جب زمین ٹکرا کر ریزہ ریزہ کردی جائے گی۔} یہاں  سے قیامت آنے پر جو ہولناک واقعات رونما ہوں  گے ان کا بیان کیا گیا ہے چنانچہ وہاں  کے تفصیلی واقعات کتب ِ اَحادیث بلکہ خود قرآنِ پاک میں  موجود ہیں  جیسے سورۂ تکویر، سورۂ انفطار، سورۃ القیامہ ، سورۂ زلزال وغیرہ میں  وہ اَحوال موجود ہیں ۔ یہاں  فرمایا گیا کہ زمین ٹکرا کرپاش پاش کردی جائے گی اور اس پر پہاڑ اور عمارت کسی چیز کا نام و نشان نہ رہے گا، نہ کوئی پہاڑ، نہ غار، نہ عمارت، نہ پلازے، نہ پل نہ کچھ اور یہ سب کچھ پہلے نَفخے کے وقت ہو گاجبکہ دوسرے نَفخہ پر زمین لوہے کی طرح سخت اور میدہ کی روٹی کی طرح چکنی و صاف ہوجائے گی۔

89:22
وَّ جَآءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّاۚ(۲۲)
اور تمہارے رب کا حکم آئے اور فرشتے قطار قطار،

{وَ جَآءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا: اور تمہارے رب کا حکم آئے گااور فرشتے قطاردر قطار۔} یہاں  قیامت کا دوسرا منظر بیان فرمایا گیا کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا حکم آئے گا اور فرشتے قطار در قطار آئیں  گے۔ اللّٰہ تعالیٰ کیلئے آنے کا بیان مُتشابہات میں  سے ہے کہ ا س کے لغوی معنی معلوم ہیں لیکن حقیقی مراد اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے اور علمائِ تاویل کے اعتبار سے رب عَزَّوَجَلَّ کے آنے سے مراد اس کے اَحکام کاآنا ہے، کیونکہ یہ قطعی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ آنے جانے اور اس جیسے تمام عَوارض سے پاک ہے، وہ مکان سے مُنَزّہ ہے۔ اور حکمِ الٰہی آنے سے مراد حساب و کتاب کا حکم ، اور لوگوں  کا فیصلہ ہے یعنی قیامت کے دن یہ احکام آئیں  گے اور جہاں  تک فرشتوں  کے آنے کا تعلق ہے تو میدانِ محشر میں ہر آسمان کے فرشتوں  کی علیحدہ قطار یا دوز خ کے ہر طبقہ اور جنت کے تمام طبقوں  کی علیحدہ قطاریں یا مُقَرّب فرشتوں  یا اور اَقسام کے فرشتوں  کی علیحدہ علیحدہ قطاریں  ہوں  گی ۔

89:23
وَ جِایْٓءَ یَوْمَىٕذٍۭ بِجَهَنَّمَ ﳔ یَوْمَىٕذٍ یَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَ اَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰىؕ(۲۳)
اور اس دن جہنم لائے جائے (ف۲۰) اس دن آدمی سوچے گا (ف۲۱) اور اب اسے سوچنے کا وقت کہاں (ف۲۲)

{وَ جِایْٓءَ یَوْمَىٕذٍۭ بِجَهَنَّمَ: اور اس دن جہنم لائی جائے گی۔} قیامت کے دن جہنم کو لائے جانے کا منظر بڑا ہَولْناک ہے چنانچہ مفسرین فرماتے ہیں  کہ جہنم کی ستر ہزار باگیں  ہوں  گی ہر باگ پر ستر ہزار فرشتے جمع ہو کر اس کو کھینچیں  گے اور وہ جوش و غضب میں  ہوگی یہاں  تک کہ فرشتے اس کو عرش کے بائیں  جانب لائیں  گے، اس روز سب نفسی نفسی کہتے ہوں  گے ،سوائے حضور پُرنور، حبیب ِخدا، سیّد ِانبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے کہ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ’’یَارَبِّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ‘‘ فرماتے ہوں  گے ،جہنم حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے عرض کرے گی کہ اے سیّد ِعالَم! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ کا میرا کیا واسطہ! اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو مجھ پر حرام کر دیا ہے۔ (قرطبی، الفجر، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۰ / ۳۹، الجزء العشرون)اس دن انسان سوچے گا اور اپنی غلطیوں ، لغزشوں ، خطاؤں  اور گناہوں  کو سمجھے گالیکن وہ وقت سوچنے کا نہیں  ہوگا اور اس وقت کا سوچنا سمجھنا کچھ بھی فائدہ نہ دے گااور اس سوچنے سے صرف حسرت حاصل ہوگی اور اسی وجہ سے قیامت کا ایک نام یَوْمُ الْحَسْرَۃِ یعنی حسرت کا دن بھی ہے۔

{یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ: وہ کہے گا: اے کاش کہ میں  نے اپنی زندگی میں  (کوئی نیکی) آگے بھیجی ہوتی۔} ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن آدمی کہے گا کہ اے کاش! میں  نے اپنی زندگی میں  کوئی نیکی آگے بھیجی ہوتی ۔یہاں  زندگی سے مراد یا دنیوی زندگی ہے یا اُخروی زندگی، پہلی صورت میں  آیت کا مطلب یہ ہے کہ کاش میں  دُنْیَوی زندگی میں  کچھ نیکیاں  کما کر آگے بھیج دیتا۔ دوسری صورت میں  مطلب یہ ہے کہ کاش میں  نے اس دائمی زندگی کے لئے کچھ بھیج دیا ہو تا، ساری عمر فانی زندگی کے لئے کمائی کی اور خدا کو یاد نہ کیا۔ کفار کے لئے یہ پچھتانا بھی عذاب ہو گا، دنیا میں  نیکو کار مومن کا نادم ہونا درجات کی ترقی کا سبب ہے اورگنہگار مومن کا پچھتانا توبہ ہے مگر کافر کا قیامت میں  پچھتانا محض عذاب ہے۔

89:24
یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْۚ(۲۴)
کہے گا ہائے کسی طرح میں نے جیتے جی نیکی آگے بھیجی ہوتی،

89:25
فَیَوْمَىٕذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَهٗۤ اَحَدٌۙ(۲۵)
تو اس دن اس کا سا عذاب (ف۲۳) کوئی نہیں کرتا،

{فَیَوْمَىٕذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَهٗۤ اَحَدٌ: تو اس دن اللّٰہ کے عذاب کی طرح کوئی عذاب نہیں  دے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب جیسا شدید اور سخت عذاب کوئی نہ دے سکے گا اور نہ ہی اللّٰہ تعالیٰ کی گرفت اور قید کی طرح کوئی باندھ سکے گا کہ اللّٰہ تعالیٰ آگ کی بیڑیوں  میں  باندھ کر،آگ کے گھر میں ، آگ کے کوڑوں  اور دیگر چیزوں  کا عذاب دے گا۔

89:26
وَّ لَا یُوْثِقُ وَ ثَاقَهٗۤ اَحَدٌؕ(۲۶)
اور اس کا سا باندھنا کوئی نہیں باندھتا،

89:27
یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُۗۖ(۲۷)
اے اطمینان والی جان (ف۲۴)

{یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ: اے اطمینان والی جان۔} کفار کے عذاب اور انجام کو بیان کرنے کے بعد اب ان لوگوں  کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جن کی زندگی اللّٰہ تعالیٰ پر سچے ایمان اور اطاعت و عبادت میں  گزری، یادِ الٰہی جن کے دلوں  کا قرار تھا اور ذکر ِ خدا سے جن کے دلوں  کو سکون ملتا تھا، جو ایمان اوریقین پر ثابت قدم رہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرِتسلیم و اطاعت خَم کرتے رہے۔ ان حضرات سے موت کے وقت کہا جائے گا:اے اطمینان والی جان! اور ایک قول کے مطابق یہ کلام آخرت میں  ہوگا۔

{اِرْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ: اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔} مخلص مومن سے کہا جائے گا کہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف اس حال میں  واپس آ کہ تو اس سے راضی ہووہ تجھ سے راضی ہو،پھر میرے خاص بندوں  میں  داخل ہوجااور میری جنت میں  داخل ہوجا۔ رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹنے سے مراد اس کی رحمت ، قرب اورحضور ی میں  حاضر ہونا ہے۔

 انسانی نفس کے تین درجے:

            یاد رہے کہ نفسِ انسانی کے تین درجے ہیں : نفسِ اَمّارہ: جو انسان کو برائی کی رغبت دیتا ہے ۔نفسِ لَوّامہ: جو گنہگار کو گناہ کے بعد ملامت کر کے توبہ کی طرف راغب کرتا ہے۔ نفسِ مُطْمَئِنّہ: جو بندگانِ خدا کو ذکر ِ خدا سے سکون پہنچاتا ہے ۔ چونکہ یہ لوگ دنیا میں  اللّٰہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی مصیبتوں  پر صابراور راحتوں  پر شاکر رہ کر راضی برضا رہے اور ہر حال میں  اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے طلبگار رہے تو اللّٰہ تعالیٰ بھی ان کے تھوڑے عمل پر ان سے راضی ہوتا ہے اور اپنے انعامات سے ان کو راضی کرتا ہے۔

89:28
ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ(۲۸)
اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی،

89:29
فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ(۲۹)
پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہو،

{فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ: پھر میرے خاص بندوں  میں  داخل ہوجا۔} نفس ِمُطْمَئِنّہ کو خاص بندگانِ خدا کے گروہ میں  شامل ہوکر جنت میں  داخل ہونے کا فرمایا جائے گا۔ اس آیت میں  نیک لوگوں  کی مَعِیَّت و قرب کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے اسے نیک بندوں  کی مَعِیَّت میں  جانے کا فرمایا اور پھر جنت میں  داخل ہونے کا فرمایا اور یہ حقیقت ہے کہ نیکوں  کی صحبت اصلاحِ قلب اوردخولِ جنت کا ذریعہ ہے۔

89:30
وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۠(۳۰)
اور میری جنت میں آ،

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْفَجْر
اَلْفَجْر
  00:00



Download

اَلْفَجْر
اَلْفَجْر
  00:00



Download