READ

Surah al-Buruj

اَلْبُرُوْج
22 Ayaat    مکیۃ


85:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

85:1
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِۙ(۱)
قسم آسمان کی، جس میں برج ہیں (ف۲)

{وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ: برجوں  والے آسمان کی قسم۔} آسمان میں  موجود برجوں کی تعداد بارہ ہے اور ان کی قسم اس لئے ارشاد فرمائی گئی کہ ان میں  اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت کے عجائبات نمودار ہیں  جیسے سورج،چاند اور ستاروں  کاان بُروج میں  ایک مُعَیَّن اندازے پر چلنااور اس چال میں  اِختلاف نہ ہونا وغیرہ۔( خازن، البروج، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۶۴)

          نوٹ: ان بُروج کی تفصیل سورۂ فرقان کی آیت نمبر61میں  بیان ہو چکی ہے۔امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی  عَلَیْہِ اپنے لکھے ہوئے مشہور کلام ’’قصیدۂ نور‘‘ میں  انہی بارہ برجوں  کا ذکر کر کے اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی شان اس طرح بیان کرتے ہیں :

بارہویں  کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا

بارہ برجوں  سے جھکا ایک اک ستارہ نور کا

85:2
وَ الْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِۙ(۲)
اور اس دن کی جس کا وعدہ ہے (ف۳)

{وَ الْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ: اور اس دن کی جس کا وعدہ ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  جن دِنوں  کی قسم ارشاد فرمائی گئی ،اس کے بارے میں  حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’وعدے کے دن سے قیامت کا دن،حاضر ہونے کے دن سے عرفہ کا دن اور گواہ دن سے جمعہ کا دن مراد ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ البروج، ۵ / ۲۲۲، الحدیث: ۳۳۵۰)

            چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اور قیامت کے اس دن کی قسم !جس میں  تمام زمین اور آسمان والوں  کو جمع کرنے کا وعدہ ہے اورجمعہ کے اس دن کی قسم !جو کہ بندوں  کے اعمال کا گواہ ہے اورعرفہ کے اس دن کی قسم! جس میں  آدمی اور فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔( قرطبی، البروج،تحت الآیۃ:۲-۳،۱۰ / ۲۰۰،الجزء التاسع عشر، جلالین، البروج،تحت الآیۃ:۲-۳،ص۴۹۵، ملتقطاً)

{وَ شَاهِدٍ وَّ مَشْهُوْدٍ: اور گواہ دن کی اور اس دن کی جس میں  (لوگ) حاضر ہوتے ہیں ۔} جیساکہ اوپر بیان ہوا کہ یہاں  گواہ دن سے مراد جمعہ کا دن اور جس دن میں  لوگ اور فرشتے حاضر ہوتے ہیں  اس سے عرفہ کا دن مراد ہے ،اسی مناسبت سے ہم یہاں  جمعہ اور عرفہ کے دن کے چند فضائل بیان کرتے ہیں ۔

جمعہ اور عرفہ کے دن کے6 فضائل:

(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بہتر دن کہ جس پر سورج طلوع ہوا، جمعہ کا دن ہے، اسی دن میں  حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا کیے گئے اور اسی دن جنت میں  داخل کیے گئے اور اسی دن جنت سے اترنے کا انہیں  حکم ہوا اور قیامت جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص۴۲۵، الحدیث: ۱۸(۸۵۴))

(2)…حضرت ابو لبابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جمعہ کا دن تمام دنوں  کا سردار ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور وہ دن اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک عیدالاضحی اورعید الفطر سے بڑا ہے، اس میں  پانچ خصلتیں  ہیں ۔ (1) اللّٰہ تعالیٰ نے اسی دن میں  حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کیا۔ (2) اور اسی دن میں زمین پر انہیں  اتارا۔ (3) اور اسی دن میں  انہیں  وفات دی۔ (4) اور اس دن میں  ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اس وقت جس چیز کا سوال کرے اللّٰہ تعالیٰ اسے دے گا، جب تک حرام کا سوال نہ کرے۔ (5) اور اسی دن میں  قیامت قائم ہوگی، کوئی مُقَرّب فرشتہ ، آسمان ، زمین ، ہوا ، پہاڑ اور دریا ایسا نہیں  ہے کہ وہ جمعہ کے دن سے ڈرتے نہ ہوں۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب فی فضل الجمعۃ، ۲ / ۸، الحدیث: ۱۰۸۴)

(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جمعہ کے دن اور رات میں  چوبیس گھنٹے ہیں  اورکوئی گھنٹہ ایسا نہیں  جس میں  اللّٰہ تعالیٰ جہنم سے چھ لاکھ ایسے افراد کو آزاد نہ کرتا ہو جن پر جہنم واجب ہوگیا تھا۔( مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ثابت البنانی عن انس، ۳ / ۲۳۵، الحدیث: ۳۴۷۱)

(4)… حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں  مرے گا، اللّٰہ تعالیٰ اسے فتنۂ قبر سے بچالے گا۔( ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فیمن مات یوم الجمعۃ، ۲ / ۳۳۹، الحدیث: ۱۰۷۶)

(5)… اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عرفہ سے زیادہ کسی دن میں  اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں  کو جہنم سے آزاد نہیں  کرتا پھر ان کے ساتھ ملائکہ پر مُباہات فرماتا ہے۔( مسلم، کتاب الحج، باب فی فضل الحج والعمرۃ ویوم عرفۃ، ص۷۰۳، الحدیث: ۴۳۶(۱۳۴۸))

(6)…حضرت ابو قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر گمان ہے کہ عرفہ کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ مٹادیتا ہے۔( مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب ثلاثۃ ایام من کل شہر... الخ، ص۵۸۹، الحدیث: ۱۹۶(۱۱۶۲))

85:3
وَ شَاهِدٍ وَّ مَشْهُوْدٍؕ(۳)
اور اس دن کی جو گواہ ہے (ف۴) اور اس دن کی جس میں حاضر ہوتے ہیں (ف۵)

85:4
قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِۙ(۴)
کھائی والوں پر لعنت ہو (ف۶)

{قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ: کھائی والوں  پر لعنت ہو۔} اس سے اوپر والی آیات میں  اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان،قیامت کے دن،جمعہ اور عرفہ کے دن کی قَسمیں  ارشاد فرما کراس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات میں  فرمایا کہ کفارِ قریش بھی اسی طرح ملعون ہیں  جس طرح بھڑکتی آ گ والی کھائی والوں  پر اس وقت لعنت کی گئی جب وہ اس کھائی کے کناروں  پر کرسیاں  بچھائے بیٹھے ہوئے تھے اور مسلمانوں  کو آگ میں  ڈال رہے تھے اورشاہی لوگ بادشاہ کے پاس آکر ایک دوسرے کے لئے گواہی دیتے تھے کہ انہوں  نے حکم کی تعمیل کرنے میں  کوتاہی نہیں  کی اورایمانداروں  کو آگ میں  ڈال دیا۔( مدارک، البروج، تحت الآیۃ: ۴-۷، ص۱۳۳۵-۱۳۳۶)

کھائی والوں  کا واقعہ:ـ

            یہاں  کھائی والوں  کاجو واقعہ ذکر کیا گیا ا س کے بارے میں حضرت صہیب رومی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم سے پہلے زمانے میں  ایک بادشاہ تھا اور اس کا ایک جادو گر تھا، جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا :اب میں  بوڑھا ہو گیا ہوں ،آپ میرے پاس ایک لڑکا بھیج دیں تاکہ میں  اسے جادو سکھادوں  ۔بادشاہ نے ا س کے پاس جادو سیکھنے کے لئے ایک لڑکابھیج دیا،وہ لڑکا جس راستے سے گزر کرجادو گر کے پاس جاتا اس راستے میں  ایک راہب رہتا تھا،وہ لڑکا (روزانہ) اس راہب کے پاس بیٹھ کر اس کی باتیں  سننے لگا اوراُس راہب کا کلام اِس لڑکے کے دل میں  اترتاجا رہا تھا ۔جب وہ لڑکا جادو گر کے پاس پہنچتا تو (دیر سے آنے پر) جادو گر اسے مارتا۔لڑکے نے راہب سے ا س کی شکایت کی تو راہب نے کہا:جب تمہیں  جا دو گر سے خوف ہو تو کہہ دینا:گھر والوں  نے روک لیا تھا اور جب گھر والوں  سے خوف ہو تو ان سے کہہ دینا کہ جادو گر نے مجھے روک لیا تھا۔ یہ سلسلہ یونہی جاری تھا کہ اسی دوران ایک بڑے درندے نے لوگوں  کا راستہ بند کر دیا، لڑکے نے سوچا :آج میں  آزماؤں  گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب؟چنانچہ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور کہا:اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تجھے راہب کے کام جادو گر سے زیادہ پسند ہیں  تو اس پتھر سے جانور کو ہلاک کر دے تاکہ لوگ راستے سے گزر سکیں ۔ چنانچہ جب لڑکے نے پتھر مارا تو وہ جانور اس کے پتھر سے مر گیا۔پھر اس نے راہب کے پاس جا کراسے اس واقعے کی خبر دی تو اس نے کہا:اے بیٹے! آج تم مجھ سے افضل ہو گئے ہو،تمہارا مرتبہ وہاں  تک پہنچ گیا ہے جسے میں  دیکھ رہا ہوں ۔ عنقریب تم مصیبت میں  گرفتار ہو گے اور جب تم مصیبت میں  گرفتار ہو تو کسی کو میرا پتا نہ دینا۔ (اس کے بعد اس لڑکے کی دعائیں  قبول ہونے لگیں ) اور اس کی دعا سے مادر زاد اندھے اور برص کے مریض اچھے ہونے لگ گئے اور وہ تمام بیماریوں  کا علاج کرنے لگا ۔ بادشاہ کا ایک ساتھی نابینا ہوگیا تھا ،اس نے جب یہ خبر سنی تو وہ اس لڑکے کے پاس بہت سے تحائف لے کر آیااور اس سے کہا:اگر تم نے مجھے شفا دے دی تو میں  یہ سب چیزیں  تمہیں  دے دوں  گا۔لڑکے نے کہا:میں  کسی کو شفا نہیں  دیتا بلکہ شفاتو اللّٰہ تعالیٰ دیتا ہے،اگر تم اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ تو میں  اللّٰہ تعالیٰ سے دعاکروں  گا اور وہ تمہیں  شفا عطا کرد ے گا۔ چنانچہ وہ اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لے آیاتو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے شفا دے دی۔جب وہ بادشاہ کے پاس گیا اور پہلے کی طرح ا س کے پاس بیٹھا تو بادشاہ نے پوچھا:تمہاری بینائی کس نے لوٹائی ہے؟اس نے کہا: میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے ۔بادشاہ نے کہا:کیا میرے سوا تیرا کوئی رب ہے؟ اس نے کہا :ہاں  ! میرا اور تمہارا رب اللّٰہ تعالیٰ ہے۔یہ سن کر بادشاہ نے اسے گرفتار کر لیا اور اس وقت تک اسے اَذِیَّت دیتا رہا جب تک ا س نے لڑکے کا پتا نہ بتا دیا۔پھر اس لڑکے کو لایا گیا اور بادشاہ نے اس سے کہا: اے بیٹے!تمہارا جادو یہاں  تک پہنچ گیا ہے کہ تم مادر زاد اندھوں  کو ٹھیک کر دیتے ہو،برص کے مریضوں  کو تندرست کر دیتے ہو اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کرتے ہو۔اس لڑکے نے کہا:میں  کسی کو شفا نہیں  دیتا بلکہ شفا تو میرا اللّٰہ تعالیٰ دیتا ہے۔ بادشاہ نے اسے گرفتار کر لیا اور اس وقت تک اسے اَذِیَّت دیتا رہا جب تک ا س نے راہب کا پتا نہ بتا دیا۔پھر راہب کو لایا گیا اورا س سے کہا گیا کہ اپنے دین سے پھر جاؤ۔راہب نے انکار کیا تو بادشاہ نے آرا منگوا کر ا س کے سر کے درمیان رکھا اور اسے آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا۔ پھراس نے اپنے ساتھی کو بلایا اور اس سے کہا کہ اپنے دین سے پھر جاؤ۔ اس نے انکار کیا تو بادشاہ نے اسے بھی آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا۔پھر اس لڑکے کو بلایا اور اس سے کہا کہ اپنے دین سے پھر جاؤ۔اس لڑکے نے انکار کیا تو بادشاہ نے اپنے چند ساتھیوں  سے کہا:اس لڑکے کو فلاں  پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاؤ،اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو ٹھیک ورنہ اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا۔وہ لوگ اس لڑکے کو لے کر گئے اور پہاڑ پر چڑھ گئے۔اس لڑکے نے دعا کی! اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے۔اسی وقت ایک زلزلہ آیا اور وہ سب لوگ پہاڑ سے نیچے گر گئے۔اس کے بعد وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا گیا تو بادشاہ نے اس سے پوچھا! جو لوگ تمہارے ساتھ گئے تھے ان کا کیا ہوا؟لڑکے نے جواب دیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا۔بادشاہ نے پھر اسے اپنے چند ساتھیوں  کے حوالے کیا اور کہا کہ اسے ایک کشتی میں  سوار کر کے سمندر کے وسط میں  لے جاؤ،اگر یہ اپنا دین چھوڑ دے تو ٹھیک ورنہ اسے سمندر میں  پھینک دینا۔وہ لوگ اسے سمندر میں  لے گئے تو ا س نے دعا کی:اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے۔وہ کشتی فوراً الٹ گئی اور اس لڑکے کے علاوہ سب لوگ غرق ہو گئے۔وہ لڑکا پھر بادشاہ کے پاس چلا گیا تو بادشاہ نے پوچھا:جو لوگ تمہارے ساتھ گئے تھے ان کا کیا ہوا؟اس نے کہا:اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا۔پھر اس نے بادشاہ سے کہا: تم مجھے اس وقت تک قتل نہیں  کر سکو گے جب تک میرے کہنے کے مطابق عمل نہ کرو۔بادشاہ نے وہ عمل پوچھا تو لڑکے نے کہا: تم ایک میدان میں  سب لوگوں کو جمع کرو اورمجھے کھجور کے تنے پر سولی دو، پھر میرے تَرکَش سے ایک تیر نکال کر بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامْ  کہہ کر مجھے مارو،اگر تم نے ایساکیا تووہ تیرمجھے قتل کر دے گا۔چنانچہ بادشاہ نے تمام لوگوں  کو ایک میدان میں  جمع کیا اور اس لڑکے کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کر کے تیر چھوڑدیا، وہ تیر لڑکے کی کنپٹی میں  پَیْوَسْت ہو گیا،لڑکے نے تیر لگنے کی جگہ پر اپنا ہاتھ رکھا اورانتقال کرگیا۔ یہ دیکھ کر تمام لوگوں  نے کہا کہ ہم ا س لڑکے کے رب پر ایمان لائے،ہم ا س لڑکے کے رب پر ایمان لائے،ہم ا س لڑکے کے رب پر ایمان لائے۔ بادشاہ کو اس واقعے کی خبردی گئی اور ا س سے کہا گیا کہ کیا تم نے دیکھا کہ جس سے تم ڈرتے تھے اللّٰہ تعالیٰ نے وہی کچھ تمہارے ساتھ کر دیا اور تمام لوگ ایمان لے آئے۔ اس نے گلیوں  کے دہانوں  پر خندقیں  کھودنے کا حکم دیا،جب ان کی کھدائی مکمل ہوئی تو ان میں  آگ جلوائی گئی،پھر بادشاہ نے حکم دیا کہ جو اپنے دین سے نہ پھرے اسے آگ میں  ڈال دو۔چنانچہ لوگ اس آگ میں  ڈالے جانے لگے یہاں  تک کہ ایک عورت آئی اور اس کی گود میں  بچہ تھا ،وہ ذرا جھجکی توبچے نے کہا: اے ماں  صبر کر! اور جھجک نہیں  تو سچے دین پر ہے (اوروہ بچہ اور ماں  بھی آگ میں  ڈال دیئے گئے)۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب قصۃ اصحاب الاخدود... الخ، ص۱۶۰۰، الحدیث: ۷۳(۳۰۰۵))

            اور حضرت ربیع بن انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ جو مومن آگ میں  ڈالے گئے اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کے آگ میں  پڑنے سے پہلے ہی اُن کی رُوحیں  قبض فرما کر انہیں  نجات دی اور آگ نے خندق کے کناروں  سے باہر نکل کر کنارے پر بیٹھے ہوئے کفار کو جلا دیا۔( خازن، البروج، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۶۶)

کھائی والوں  کے واقعے سے حاصل ہونے والی معلومات:

          اس واقعہ سے 6 باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…امام عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’ اس واقعہ میں  اہلِ ایمان کو صبر کرنے اور کفارِ مکہ کی ایذا رسانیوں  پر تَحَمُّل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔( مدارک، البروج، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۳۳۶)

(2)…اللّٰہ تعالیٰ کے اولیاء کی کرامات برحق ہیں ۔

(3) …ولایت عمل اور عمر پر مَوقوف نہیں  بلکہ چھوٹے بچوں  کو بھی ولایت مل جاتی ہے،حضرت مریم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا مادر زاد وَلِیَّہ تھیں ۔

(4)… بزرگوں  کی صحبت کا فیض عبادات سے زیادہ ہے۔

(5)… جس دین میں  اولیاء موجود ہوں  وہ اس دین کی حقّانِیَّت کی دلیل ہے۔

 (6)…اللّٰہ والوں  سے ان کی وفات کے بعد بھی ہدایت ملتی ہے۔

85:5
النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِۙ(۵)
اس بھڑکتی آ گ والے،

85:6
اِذْ هُمْ عَلَیْهَا قُعُوْدٌۙ(۶)
جب وہ اس کے کناروں پر بیٹھے تھے (ف۷)

85:7
وَّ هُمْ عَلٰى مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُهُوْدٌؕ(۷)
اور وه خد گواه ہیں جو کہ مسلما نوں کے ساتھ کر رہے تھے (ف۸)

85:8
وَ مَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ(۸)
اور انھیں مسلمانوں کا کیا برا لگا یہی نہ کے وہ ایمان لا ئے اللہ والے سب خو بیوں سرا ہے پر،

{وَ مَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ: اور انھیں  مسلمانوں  کی طرف سے صرف یہی بات بری لگی کہ وہ اللّٰہ پر ایمان لے آئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ بادشاہ اور مسلمانوں  کو آگ میں  جلانے والے اس کے ساتھیوں  کو مسلمانوں  کی طرف سے صرف یہی بات بری لگی کہ وہ اس اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لے آئے جو عزت والا اور ہر حال میں  تعریف کے لائق ہے اور اسی کے لئے آسمانوں  اور زمین کی سلطنت ہے اور اس سلطنت میں  اس کا کوئی شریک نہیں  اور اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے اور اس سے مخلوق کا کوئی عمل چھپا ہوا نہیں  بلکہ وہ ان کے تمام اعمال کو جانتا ہے۔( تفسیر قرطبی، البروج، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۱۰ / ۲۰۸، الجزء التاسع عشر)

            علامہ ابو سعودمحمد بن محمد عمادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’ آیت (نمبر9) میں  کھائی میں  گرنے والے مسلمانوں  کے لئے (جنت کا) وعدہ اور کھائی میں  گرانے والے کافروں  کے لئے (جہنم کے عذاب کی) وعید ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اور اسی میں  کفار اور مسلمانوں  کے عمل بھی داخل ہیں  اور ان کے اعمال کو جاننا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دونوں  کو ان کے اعمال کے مطابق جزا دی جائے۔( ابو سعود، البروج، تحت الآیۃ: ۹، ۵ / ۸۵۵)

کافر مومن کے کس عمل کی وجہ سے ا س کا دشمن ہے؟

            آیت نمبر8سے معلوم ہو اکہ کافر مومن کے ایمان کی وجہ سے اس کا دشمن ہے اور کوئی مومن، مومن رہتے ہوئے کفار کو خوش نہیں  کرسکتا۔یہی چیز قرآن مجید میں  اور مقامات پر بھی بیان کی گئی ہے ،چنانچہ ایک مقام پر اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُۙ-وَ اَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ‘‘(مائدہ:۵۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ : اے اہلِ کتاب! تمہیں ہماری طرف سے یہی برالگا ہے کہ ہم اللّٰہ پر اور جو ہماریطرف نازل کیا گیا اس پر اور جو پہلے نازل کیا گیا اس پر ایمان لائے ہیں  اور بیشک تمہارے اکثر لوگ فاسق ہیں ۔

            اورارشاد فرمایا: ’’وَ لَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْیَهُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِـعَ مِلَّتَهُمْؕ-قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰىؕ-وَ لَىٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِۙ-مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ‘‘(بقرہ:۱۲۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہودی اور عیسائی ہرگز آپ سے راضی نہ ہوں  گے جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرلیں ۔ تم فرمادو: اللّٰہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے اور (اے مخاطَب!)اگر تیرے پاس علم آجانے کے بعد بھی تو ان کی خواہشات کی پیروی کرے گا تو تجھے اللّٰہ سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا او ر نہ کوئی مددگارہوگا۔

 مسلمانوں  کے اَخلاق کیسے ہونے چاہئیں :

            یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں  کے اخلاق ایسے بلند ہونے چاہئیں  کہ کفار کومسلمانوں  میں  اخلاقی عیب نکالنے کا کوئی موقع نہ ملے بلکہ وہ مخالف رہیں  توصرف ایما ن کی وجہ سے مسلمانوں  کے مخالف رہیں ۔ اس سے موجودہ زمانے کے ان مسلمانوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جن کے برے اخلاق کو پیش کر کے دنیا بھر میں  مسلمانوں  کو اخلاق اور انسانیت سے عاری ثابت کر کے دین ِاسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے۔

مومن کی علامت :

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کی علامت یہ ہے کہ کافر اس سے ناخوش رہیں  اور مومن خوش رہیں ، لہٰذا جو کفار کو خوش کرنے کی کوشش میں  مصروف ہو وہ دین میں  مُداہَنَت کرنے والا ہے۔اس سے ان لوگوں  کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا چاہئے جو کفار کی خوشی کے لئے ان کی مذہبی تقریبات منعقد کرتے یا ان میں  شرکت کرتے ہیں  ،کفار کی خوشی کے لئے اسلام کے احکامات پر عمل کرنا چھوڑتے ہیں  اور کفار کی خوشی کے لئے مسلمانوں  کو اَذِیَّتیں  دیتے ہیں ۔

85:9
الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌؕ(۹)
کے اس کے لئے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے اور اللہ ہر چیز پر گواه ہے،

85:10
اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَ لَهُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِؕ(۱۰)
بے شک جنھو ں نے ایذا دی مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو پھر تو بہ نہ کی ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے (ف۱۱) اور ان کے لئے آگ کا عذاب (ف۱۲)

{اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ: بے شک جنہو ں  نے مسلمان مردوں  اور مسلمان عورتوں  کوآزمائش میں  مبتلا کیا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ بے شک وہ لوگ جنہوں  نے مسلمان مردوں  اور مسلمان عورتوں  کو آگ میں  جلا کرآزمائش میں  مبتلا کیا ،پھراس سے تو بہ نہ کی اور اپنے کفر سے باز نہ آئے تو ان کے لئے ان کے کفر کے بدلے آخرت میں  جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے دنیا میں  آگ کا عذاب ہے کہ اسی آگ نے انہیں  جلا ڈالا اور یہ مسلمانوں  کو آگ میں  ڈالنے کابدلہ ہے ۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ بے شک وہ لوگ جنہو ں  نے مسلمان مردوں  اور مسلمان عورتوں  کو اَذِیَّتیں  دے کرآزمائش میں  مبتلا کیا ، پھر اپنے ا س عمل سے تو بہ نہ کی تو ان کے لئے آخرت میں  جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے (قبر میں  بھی) آگ کا عذاب ہے۔( مدارک، البروج، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۳۳۶-۱۳۳۷، خازن، البروج، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۳۶۷، ملتقطاً)

85:11
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ﲜ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِیْرُؕ(۱۱)
بے شک جو ایما ن لائے اور اچھے کام کئے ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں یہی بڑی کامیابی ہے،

85:12
اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِیْدٌؕ(۱۲)
بے شک تیرے رب کی گرفت بہت سخت ہے (ف۱۳)

{اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِیْدٌ: بے شک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، بے شک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ جب ظالموں  کو اپنے عذاب میں  پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے اگرچہ یہ پکڑ کچھ عرصہ ظالموں  کو مہلت دینے کے بعد ہو کیونکہ انہیں  مہلت دینا عاجز ہونے کی وجہ سے نہیں  بلکہ حکمت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ (روح البیان، البروج، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۳۹۱-۳۹۲)

ظالموں  کے لئے نصیحت:

            اس آیت میں  ہر اس شخص کے لئے نصیحت ہے جو لوگوں  پر ظلم کرتا ہے کہ اگرچہ ابھی اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی پکڑ نہیں  فرمائی لیکن جب بھی اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے ظلم کی وجہ سے اس کی گرفت فرمائی تو وہ بہت سخت ہو گی اور یہ گرفت دنیا میں  بھی ہو سکتی ہے اور آخرت میں  بھی۔ جیساکہ

           حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اے لوگو! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو،خدا کی قسم! جو مومن دوسرے مومن پر ظلم کرے گا توقیامت کے دن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس ظالم سے انتقام لے گا۔( کنز العمال ، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال ، الباب الثانی فی الاخلاق و الافعال المذمومۃ ، الفصل الثانی ، ۲ / ۲۰۲، الجزء الثالث، الحدیث: ۷۶۲۱)

          اور حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت، رسولِ اکرم ،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے کسی ظالم کی اس کے ظلم پر مدد کی وہ قیامت کے دن اس حال میں  آئے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا یہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (مسند الفردوس، باب المیم، ۳ / ۵۸۳، الحدیث: ۵۸۲۳)

          اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کسی حقدار کو اس کے حق سے منع نہیں  کرتا۔( کنز العمال ، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال ، الباب الثانی فی الاخلاق و الافعال المذمومۃ ، الفصل الثانی ، ۲ / ۲۰۰، الجزء الثالث، الحدیث: ۷۵۹۴)

            اللّٰہ تعالیٰ ظالموں  کو اپنے ظلم سے باز آنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں  ظالموں  کے ظلم اور شریروں  کے شر سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔

85:13
اِنَّهٗ هُوَ یُبْدِئُ وَ یُعِیْدُۚ(۱۳)
بے شک وه پہلے اور پھر کرے (ف۱۴)

{اِنَّهٗ هُوَ یُبْدِئُ: بیشک وہی پہلے پیدا کرتا ہے۔} یعنی بے شک اللّٰہ تعالیٰ بندوں  کوپہلے دنیا میں  پیدا کرتا ہے پھران کی موت کے بعد قیامت کے دن انہیں  دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ انہیں  ان کے اعمال کی جزا دے اور جو پہلی بار پیدا کرنے اور دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے جب وہ کسی کی پکڑ فرمائے گا تو وہ پکڑ بھی انتہائی سخت ہو گی۔( خازن، البروج، تحت الآیۃ: ۱۳، ۴ / ۳۶۷، جمل، البروج، تحت الآیۃ: ۱۳، ۸ / ۲۸۸، ملتقطاً)

{وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ: اور وہی بہت بخشنے والاہے، نہایت محبت فرمانے والا ہے۔} یعنی جو کافر اپنے کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آئے ،اسی طرح جو گناہگار مسلمان اپنے گناہوں  سے توبہ کر لے تو اسے اللّٰہ تعالیٰ ہی بخشنے والاہے بلکہ اگر اللّٰہ تعالیٰ چاہے تو گناہگار مسلمان کو توبہ کے بغیر ہی بخش سکتا ہے اور وہی اپنے نیک بندوں  سے محبت فرمانے والا ہے۔( روح البیان، البروج، تحت الآیۃ: ۱۴، ۱۰ / ۳۹۲، جلالین، البروج، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۴۹۶، ملتقطاً)

85:14
وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُۙ(۱۴)
اور وہی ہے بخشنے والا اپنے نیک بندوں پر پیارا،

85:15
ذُو الْعَرْشِ الْمَجِیْدُۙ(۱۵)
عزت والے عرش کا مالک،

85:16
فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ(۱۶)
ہمیشہ جو چاہے کہ لینے والا،

85:17
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْجُنُوْدِۙ(۱۷)
کیا تمھارے پاس لشکروں کے بات آئی (ف۱۵)

{هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْجُنُوْدِ: کیا تمہارے پاس لشکروں  کی بات آئی۔} اس سے پہلی آیات میں  کفار کی طرف سے اہل ایمان کو اَذِیَّتیں  پہنچنے کے حوالے سے اصحابُ الاُخْدود کا حال بیان کر کے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور ان کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو تسلی دی گئی اور اب یہاں  سے اصحابُ الاُخْدود سے بھی پہلے کے کفار کا حال بیان کر کے تسلی دی جا رہی ہے چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک آپ کے پاس فرعون اورا س کی قوم اور ثمود کے ان لشکروں  کی خبر آئی ہے جنہیں  کافر لوگ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقابلے میں  لائے تھے اور آپ کو ان کے انجام کے بارے میں  معلوم بھی ہے کہ وہ لشکر اپنے کفر کے سبب ہلاک کر دئیے گئے ،لہٰذا آپ اپنی قوم کو اللّٰہ تعالیٰ کی سخت پکڑ کے بارے میں  بتائیں  اور انہیں  سابقہ کفار کے حالات اور ان کا انجام سنا کر ڈرائیں  کہ اگر تم اپنی حرکتوں  سے باز نہ آئے تو تمہارا انجام بھی انہی جیسا ہوگا۔( تفسیرکبیر ، البروج ، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸ ، ۱۱ / ۱۱۵ ، ابو سعود، البروج، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۵ / ۸۵۶، جلالین، البروج، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ص۴۹۶، ملتقطاً)

آیت ’’هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْجُنُوْدِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

           اس سے دو باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1) …عبرت حاصل کرنے کے لئے کفار کے عذاب سے متعلق سچی تاریخی خبریں  معلوم کرنا جائز بلکہ ثواب کا کام ہے۔

(2)… جب عبرت حاصل کرنے کے لئے کفار کے عذاب کی سچی خبریں  معلوم کرنا ثواب کا کام ہے تو انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اللّٰہ تعالیٰ کے اولیاء کی سیرت و حالات سے متعلق سچی تاریخی خبریں  پڑھنا اورپڑھانا، سننا اورسنانا تاکہ ان کی پیروی اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا شوق پیدا ہو،یہ بھی ثواب کا کام ہے اوربزرگانِ دین کا عرس منانے اور گیارہویں  شریف کی محافل سجانے سے اصل مقصود یہی ہوتا ہے کہ لوگوں  کو جمع کر کے ان بزرگوں  کے سچے حالات ِزندگی سنائے جائیں  تاکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کا نتیجہ دنیا میں  اپنی آنکھوں  سے دیکھ لیں  کہ جس نے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت میں  زندگی گزاری اور دنیا میں  رہ کر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو راضی کر لیا تو دنیا سے چلے جانے کے بعد اسے کتنی عزت ملی اور اللّٰہ تعالیٰ نے ا س کی شان کو کتنا بلند کیا اور یوں  ان میں  اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرنے کا ذوق و شوق پیدا ہو،گناہوں  سے توبہ کرنے اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کی رغبت پیدا ہو اور لوگ اپنے ظاہر کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے باطن کی اصلاح کرنے کی طرف بھی مائل ہوں  البتہ یہ بات خاص طور پر یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے اولیاء کا عرس منانا جائز ہے اور منانا بھی چاہئے کہ اس سے لوگوں  کو اپنی اصلاح کرنے کا موقع ملتا ہے لیکن ان کا عرس منانے میں  کوئی ایسا کام کرنے کی ہر گز اجازت نہیں  ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہو ،مثلاً عرس کے موقع پر ڈھول بجانا،گانے بجانے کے آلات کے ساتھ قوالی کرنا،آتش بازی کرنا،عورتوں  کا ڈانس کرنا اور دیگر وہ تمام چیزیں  جنہیں  کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے، لہٰذا بزرگانِ دین کا عرس اس طرح منائیں  کہ اس میں  کوئی بھی غیر شرعی کام نہ ہو تاکہ ا س کی برکات حاصل ہوں ۔ ہمارے زمانے میں  شریعت کے دائرے میں  رہ کر جو فاتحہ ، سوم ، چہلم ، برسی اور عرس وغیرہ کئے جاتے ہیں ، ان کی شرعی حیثیت کے بارے میں  معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ، جلد نمبر 9 سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کا رسالہ ’’اَلْحُجَّۃُ الْفَائِحَہْ لِطِیْبِ التَّعْیِیْنِ وَ الْفَاتِحَہْ‘‘ (دن مُتَعَیَّن کرنے اور مُرَوَّجہ فاتحہ،سوئم وغیرہ کا ثبوت) مطالعہ فرمائیں ۔

85:18
فِرْعَوْنَ وَ ثَمُوْدَؕ(۱۸)
وه لشکر کون فرعون اور ثمود (ف۱۶)

85:19
بَلِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ تَكْذِیْبٍۙ(۱۹)
بلکہ (ف۱۷) کافر جھٹلا نے میں ہیں (ف۱۸)

{بَلِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ تَكْذِیْبٍ: بلکہ کافر جھٹلا نے میں  لگے ہوئے ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، کفار کا جرم صرف یہ ہی نہیں  کہ انہوں  نے سابقہ امتوں  کے کفار کے حالات سن کر نصیحت حاصل نہ کی بلکہ وہ اِس کے ساتھ ساتھ اُسی طرح آپ کو اور قرآنِ پاک کو بھی جھٹلانے میں  لگے ہوئے ہیں  جس طرح ان سے پہلی امتوں  نے اپنے رسولوں  اور ان پر نازل ہونے والی کتابوں  کو جھٹلایا حالانکہ قرآنِ پاک کا اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا معاملہ واضح ہے اور ا س کا یہ وصف روشن اور قطعی دلیلوں  سے ظاہر ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اِن کافروں  کو جانتا ہے اور اِن کا کوئی عمل اللّٰہ تعالیٰ سے چھپا ہوا نہیں  اور اللّٰہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ اِن کفار پر بھی ویسا ہی عذاب نازل کر دے جیسا اِن سے پہلے کفار پر نازل کیا گیا تھا۔( ابو سعود، البروج، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ۵ / ۸۵۶، خازن، البروج، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ۴ / ۳۶۷-۳۶۸، ملتقطاً)

85:20
وَّ اللّٰهُ مِنْ وَّرَآىٕهِمْ مُّحِیْطٌۚ(۲۰)
اور اللہ ان کے پیچھے سے انھیں گھیرے ہوئے ہے (ف۱۹)

85:21
بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌۙ(۲۱)
بلکہ وه کمال شرف والا قران ہے،

{بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ: بلکہ وہ بہت بزرگی والا قرآن ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ مجیدکے بارے میں  کفار کا جو گمان ہے کہ یہ شعر اور کہانَت ہے ،ایسا ہر گز نہیں  ہے بلکہ وہ تو بہت بزرگی والا قرآن ہے اور اس کا مرتبہ اللّٰہ تعالیٰ کی نازل کردہ تمام کتابوں  سے بڑا ہے اور وہ لو حِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔( خازن، البروج، تحت الآیۃ: ۲۱-۲۲، ۴ / ۳۶۸، ابو سعود، البروج، تحت الآیۃ: ۲۱-۲۲، ۵ / ۸۵۶-۸۵۷، ملتقطاً)

قرآنِ کریم کی عظمت و شان:

            یاد رہے کہ قرآنِ پاک خود ایسا عظمت والا ہے کہ جس پر غسل فرض ہو اُسے پاک ہوئے بغیر قرآنِ پاک کو پڑھنا حرام ہے، وضو کے بغیر اسے چھونا منع ہے، اس کی طرف پیٹھ اور جوتے کرنا منع ہے اور قرآنِ پاک دوسروں  کو ایسی عزت دیتا ہے کہ اس کو لانے والا فرشتہ سب فرشتوں  سے افضل ہے، جس مہینے میں  آیا وہ مہینہ سب مہینوں  سے افضل ہے، جس رات میں  نازل ہوا وہ رات سب راتوں  سے افضل ہے، جس جگہ آیا وہ جگہ سب جگہوں  سے افضل ہے، جس زبان میں  آیا وہ زبان تمام زبانوں  سے افضل ہے اور جس محترم نبی پر نازل ہوا وہ نبی تمام نبیوں  اوررسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا سردار ہے۔

85:22
فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۠(۲۲)
لو ح محفوظ میں،

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْبُرُوْج
اَلْبُرُوْج
  00:00



Download

اَلْبُرُوْج
اَلْبُرُوْج
  00:00



Download