READ

Surah al-Asr

اَلْعَصْر
3 Ayaat    مکیۃ


103:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

103:1
وَ الْعَصْرِۙ(۱)
اس زمانہ محبوب کی قسم (ف۲)

{وَالْعَصْرِ: زمانے کی قسم۔} اس آیت میں  مذکور لفظ’’ عصر‘‘ کے  بارے میں  مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے زمانہ مراد ہے اور زمانہ چونکہ عجائبات پر مشتمل ہے اور اس میں  احوال کا تبدیل ہونا دیکھنے والے کے لئے عبرت کا سبب ہوتا ہے اور یہ چیزیں  اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت اور اس کی وحدانیّت پر دلالت کرتی ہیں  اس لئے ہوسکتا ہے کہ یہاں  آیت میں زمانے کی قسم مراد ہو۔دوسرا قول یہ ہے کہ ’’ عصر‘‘ اس وقت کو بھی کہتے ہیں  جو سورج غروب سے پہلے ہوتا ہے، اس لئے ہوسکتا ہے کہ نقصان اٹھانے والے کے بارے میں  اس وقت کی قسم یاد فرمائی گئی ہو جیسا کہ نفع اٹھانے والے کے بارے میں ’’ ضُحٰی‘‘ یعنی چاشت کے وقت کی قسم ذکر فرمائی گئی ۔  تیسرا قول یہ ہے کہ’’ عصر ‘‘سے نمازِ عصر مراد ہوسکتی ہے جو کہ دن کی عبادتوں  میں  سب سے آخری عبادت ہے اور اس کی فضیلت کی وجہ سے یہاں  اس کی قسم ارشاد فرمائی گئی ہو۔چوتھا قول یہ ہے اور اسی کی طرف دل جھکتا ہے کہ یہاں  زمانے سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا مخصوص زمانہ مراد ہے جو کہ بڑی خیر و برکت کا زمانہ ہے،تو جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے ’’لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ‘‘ میں  حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے مَسکن و مکان کی قسم یاد فرمائی ہے اور جس طرح ’’لَعَمْرُكَ‘‘فرما کر آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی عمر شریف کی قسم یاد فرمائی تو اسی طرح یہاں ’’وَالْعَصْرِ ‘‘ فرما کر اپنے حبیب صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے مقدس زمانے کی قسم ارشاد فرمائی۔اس سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ  سَلَّمَ کا زمانہ سب زمانوں  سے افضل ،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا شہر سب شہروں  سے افضل اور آپ صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی عمر مبارک سب کی عمروں  سے افضل ہے۔( خازن، العصر، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۰۵، صاوی، والعصر، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۲۴۱۹، ملتقطاً)

            اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :

وہ خدانے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا          کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم

{اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ: بیشک آدمی ضرور خسارے میں  ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے قسم ذکر کرکے فرمایا کہ بیشک آدمی ضرور نقصان میں  ہے کہ اس کی عمر جو اس کا سرمایہ اور اصل پُونجی ہے وہ ہر دم کم ہو رہی ہے مگر جو ایمان لائے اور انہوں  نے اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو ایمان اور نیک عمل کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو ان تکلیفوں  اور مشقتوں  پر صبر کرنے کی وصیت کی جو دین کی راہ میں  انہیں  پیش آئیں  تو یہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے خسارے میں  نہیں  بلکہ نفع پانے والے ہیں  کیونکہ ان کی جتنی عمر گزری وہ نیکی اور طاعت میں  گزری ہے۔( روح البیان، العصر، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۱۰ / ۵۰۵-۵۰۶، خازن، العصر، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۴ / ۴۰۵، ملتقطاً)

             اسی طرح ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ(۲۹) لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ‘‘(فاطر:۲۹،۳۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو اللّٰہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں  اور نماز قائم رکھتے ہیں  اور ہمارے دئیےہوئے رزق میں  سے پوشیدہ اوراعلانیہ کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں  وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں  جو ہرگز تباہنہیں  ہوگی ۔تاکہ اللّٰہ انہیں  ان کے ثواب بھرپور دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ عطا کرے بیشک وہ بخشنے والا، قدرفرمانے والا ہے۔

سورہِ عصر کی آیت نمبر2اور 3سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ان آیات سے3 باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…انسان کی زندگی ا س کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور اس سرمائے سے وہ اُسی صورت میں  نفع اٹھا سکتا ہے جب وہ اِسے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں  خرچ کرے اوراگر وہ یہ سرمایہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے ، اس کی نافرمانی کرنے اور گناہوں  میں  خرچ کرتا رہا تو اسے کوئی نفع نہ ہو گا بلکہ بہت بڑا نقصان اٹھا ئے گا ،لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت میں  مصروف ہوجائے ۔

(2)…انسان کی زندگی کا جو حصہ اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت میں  گزرے وہ سب سے بہتر ہے۔

(3)…دنیا سے اِعراض کرنا اور آخرت کی طلب میں  اور ا س سے محبت کرنے میں  مشغول ہونا انسان کے لئے سعادت کا باعث ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئےایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہوتو یہی وہ لوگ ہیں  جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔

سورہِ عصر کی آیت نمبر3سے معلوم ہونے والے مسائل:

            نور العرفان میں  ہے کہ اس آیت سے کئی مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ پہلے خود نیک بنے، پھر دوسروں  کو ہدایت کرے جیسا کہ آیت میں  ترتیب سے بیان کیا گیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ ہمیشہ تبلیغ کرے جیسا کہ وَ تَوَاصَوْاکے اِطلاق سے معلوم ہوا ۔ تیسرے یہ کہ ہر مسلمان کو مُبَلِّغ ہونا چاہیے، جسے جو مسئلہ صحیح طور پر معلوم ہو،وہ لوگوں  کو بتا دے، صرف علما پر تبلیغ نہیں ، جیسا کہ وَ تَوَاصَوْا کے فاعل کے عموم سے پتہ لگا ۔چوتھے یہ کہ ہر حال میں  تبلیغ کرے، صرف جلسہ یا اسٹیج پر مَوقوف نہ ہو ۔ پانچویں  یہ کہ نماز روزے کی طرح تبلیغ بھی ضروری ہے ۔چھٹے یہ کہ عوام دل و زبان سے اورعلماء زبان و قلم سے جبکہ حُکّام زورو طاقت سے تبلیغ کریں  اور اصل یہ کہ ہر کوئی اپنی حسب ِ اِستطاعت نیکی کی دعوت عام کرنے کی کوشش کرے۔

103:2
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ(۲)
بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے (ف۳)

103:3
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ﳔ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۠(۳)
مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور ایک دورے کو حق کی تاکید کی (ف۴) اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی (ف۵)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْعَصْر
اَلْعَصْر
  00:00



Download

اَلْعَصْر
اَلْعَصْر
  00:00



Download