READ

Surah Al-An'aam

اَلْاَ نْعَام
165 Ayaat    مکیۃ


6:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

6:1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ۬ؕ-ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ(۱)
سب خوبیاں اللہ کو جس نے آسمان اور زمین بنائے (ف۲) اور اندھیریاں اور روشنی پیدا کی (ف۳) اس پر (ف۴) کافر لوگ اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں(ف۵)

{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ:تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔} اس آیت میں بندوں کو اللہ تعالیٰ کی حمد کی تعلیم فرمائی گئی کہ وہ جب حمد کرنے لگیں تو ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ‘‘ کہیں ،ا ور آسمان وزمین کی پیدائش کا ذکر اس لئے ہے کہ اِن میں دیکھنے والوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّکی حکمت وقدرت کے بہت سے عجائبات ، عبرتیں اور منافع ہیں۔ حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ تو ریت میں سب سے پہلی یہی آیت ہے۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱، ۲ / ۲)

{ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ:اور اندھیروں اور نور کو پیدا کیا۔}یعنی ہر اندھیرا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی نے پیدا فرمایا ہے خواہ وہ اندھیرا رات کا ہو، کفر کا ہو، جہالت کا ہو یا جہنم کا ہو ۔ یونہی ہر ایک روشنی اسی نے پیدا فرمائی خواہ وہ روشنی دن کی ہو ، ایمان و ہدایت کی ہو، علم کی ہو یا جنت کی ہو۔

برا کام کر کے اللہ  تعالیٰ کی مشیت کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہئے:

            یہاں ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ اگرچہ ہر اچھی بری چیز کو پیدا فرمانے والا رب تعالیٰ ہے لیکن برا کام کر کے تقدیر کی طرف نسبت کرنا اور مشیتِ الٰہی کے حوالے کرنا بری بات ہے، بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے کہے اور جو برائی سرزد ہو اسے اپنے نفس کی شامت تصور کرے۔

            نیز اس آیت میں ظُلُمات یعنی تاریکیوں کو جمع اور نور کو واحد کے صیغہ سے ذکر فرمانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ باطل کی راہیں بہت زیادہ ہیں اور راہِ حق صرف ایک دینِ اسلام ہے۔

{ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ:پھر (بھی) کافر لوگ اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں۔}قدرت ِ الٰہی کے ان دلائل کے بعد فرمایا کہ ایسے دلائل پر مطلع ہونے اور قدرت کی ایسی نشانیاں دیکھنے کے باوجود کفار اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو حتّٰی کہ پتھروں کو پوجتے ہیں حالانکہ کفار اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ یہاں کفار کے شرک کا ذکر ہوا اس مناسبت سے شرک کی تعریف درج ذیل ہے۔

شرک کی تعریف :

          شرک کی تعریف یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی غیر کو واجبُ الوجود یا لائقِ عبادت سمجھاجائے ۔ حضرت علامہ سعدُ الدین تفتازانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شرک کی حقیقت ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :’’اَ لْاِشْتِرَا کُ ھُوَاِثْبَاتُ الشَّرِیْکِ فِی الْاُلُوْہِیَّۃِبِمَعْنٰی وُجُوْبِ الْوُجُوْدِکَمَا لِلْمَجُوْسِ اَوْ بِمَعْنٰی اِسْتِحْقَاقِ الْعِبَادَۃِ کَمَا لِعَبَدَۃِ الْاَصْنَامِ‘‘ یعنی ’’شرک یہ ہے کہ خدا کی اُلوہیت (یعنی معبود ہونے) میں کسی کو شریک کرنا اس طرح کہ کسی کو واجبُ الوجود مان لینا جیسا کہ مجوسیوں کا عقیدہ ہے یا خدا کے سوا کسی کو عبادت کا حقدار مان لینا جیسا کہ بت پرستوں کا خیا ل ہے۔(شرح عقائد نسفیہ، مبحث الافعال کلہا بخلق اللہ تعالی والدلیل علیہا، ص ۷۸)

             اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ ارشاد فرماتے ہیں : ’’ آدمی حقیقۃً کسی بات سے مشرک نہیں ہوتا جب تک غیرِخدا کو معبود یا مستقل بالذّات و واجبُ الوجود نہ جانے ۔(فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۱۳۱)

            صدرُالشریعہ بدرُالطریقہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’شرک کے معنی غیرِ خدا کو واجبُ الوجود یا مستحقِ عبادت جاننا یعنی الوہیت میں دوسرے کو شریک کرنا اور یہ کفر کی سب سے بد تر قسم ہے اس کے سوا کوئی بات کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقۃً شرک نہیں۔(بہار شریعت، حصہ اول، ایمان وکفر کا بیان،۱ / ۱۸۳)

6:2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًاؕ-وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ(۲)
وہی ہے جس نے تمہیں (ف۶) مٹی سے پیدا کیا پھر ایک میعاد کا حکم رکھا (ف۷) اور ایک مقررہ وعدہ اس کے یہاں ہے (ف۸) پھر تم لوگ شک کرتے ہو،

{ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ:وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔} اس آیت میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو کہتے تھے کہ ہم جب گل کر مٹی ہو جائیں گے توپھر کیسے زندہ کئے جائیں گے؟ انہیں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہی تمہارے باپ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مٹی سے پیدا فرمایا اور ان کی نسل سے لوگ پیدا ہوئے ،پھر ا س نے ایک مدت کا فیصلہ فرمایا جس کے پورا ہوجانے پر تم مرجاؤ گے اور مرنے کے بعد اُٹھانے کی ایک مقررہ مدت بھی اسی کے پاس ہے ،پھر اے کافرو! تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے میں شک کرتے ہو حالانکہ تمہیں علم ہے کہ تمہاری تخلیق کی ابتدا کرنے والا اللہ تعالٰی ہے اور جو پہلی بار پیدا کرنے پر قادر ہے تو وہ دوبارہ زندہ کرنے پر بدرجہ اَولیٰ قادر ہے۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۳، جلالین، الانعام، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۱۲، ملتقطاً)

6:3
وَ هُوَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِؕ-یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ(۳)
اور وہی اللہ ہے آسمانوں اور زمین کا (ف۹) اسے تمہارا چھپا اور ظاہر سب معلوم ہے اور تمہارے کام جانتا ہے،

{ وَ هُوَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ: اور وہی اللہ آسمانوں میں اور زمین میں( لائقِ عبادت) ہے۔}اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا ذکر کیاگیا اور اس آیت سے اللہتعالیٰ کے کامل علم کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ آسمانوں اور زمینوں میں رہتا ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ ہر جگہ اس کی عبادت ہو رہی ہے  اور ہر جگہ وہی معبود حقیقی ہے اور ہر جگہ اسی کی سلطنت و حکومت ہے، جیساکہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

 وَ هُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآءِ اِلٰهٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلٰهٌؕ-وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ (زخرف:۸۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور وہی آسمان والوں کامعبود ہے اور زمین والوں کامعبود ہے اور وہی حکمت والا، علم والا ہے۔

{یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ:وہ تمہاری ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جانتا ہے۔}امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ تمام معلومات کا عالم ہے، زمین کی تہ سے لے کر آسمانوں کی بلندی تک جو کچھ جاری ہے سب کا احاطہ فرمانے والا ہے، وہ ایسا عالم ہے کہ اس کے علم سے زمین و آسمان کا کوئی ذرہ باہر نہیں جا سکتا بلکہ وہ سخت اندھیری رات میں صاف چٹان پر چلنے والی سیاہ چیونٹی کے چلنے کی آواز کو بھی جانتا ہے، وہ فضا میں ایک ذرے کی حرکت بھی جانتا ہے، وہ پوشیدہ امور سے واقف اور دلوں کے وسوسوں ،خیالات اور پوشیدہ باتوں کا علم رکھتا ہے،اس کا علم قدیم ،ازلی ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اس علم کے ساتھ موصوف رہا ہے،اس کا علم جدید نہیں اور نہ ہی وہ اس کی ذات میں آنے کی وجہ سے حاصل ہو اہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب قواعد العقائد، الفصل الاول فی ترجمۃ عقیدۃ اہل السنّۃ فی کلمتی الشہادۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۲۶)

6:4
وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ(۴)
اور ان کے پاس کوئی بھی نشانی اپنے رب کی نشانیوں سے نہیں آتی مگر اس سے منہ پھیرلیتے ہیں،

{ وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ:اور ان کے پاس کوئی بھی نشانی نہیں آتی۔} اس سے پہلی آیات میں مشرکین کے اس کفر کو بیان کیاگیا جو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتے تھے اور اس آیت سے مشرکین کے ا س کفر کو بیان کیا گیا ہے جو وہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کرتے تھے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ کا کفر وسرکشی میں حال یہ ہے کہ ان کے پاس جب بھی قرآنِ مجید کی آیات آتی ہیں یا وہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات دیکھتے ہیں تو وہ ا س سے منہ پھیر لیتے ہیں۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۴، ملتقطاً)

6:5
فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْؕ-فَسَوْفَ یَاْتِیْهِمْ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(۵)
تو بیشک انہوں نے حق کو جھٹلایا (ف۱۰) جب ان کے پاس آیا، تو اب انہیں خبر ہوا چاہتی ہے اس چیز کی جس پر ہنس رہے تھے (ف۱۱)

{ فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ: تو بیشک انہوں نے حق کو جھٹلایا۔}یہاں حق سے یا قرآنِ مجیدکی آیات مراد ہیں یاتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات کہ جب بھی قرآن کی آیتیں یا نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات کفارِ مکہ کے سامنے آتے یا حضورِ  اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں کچھ سمجھاتے تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلاتے۔ اس پر فرمایا کہ  عنقریب ان کے پاس خبریں آنے والی ہیں اس چیز کی جس کا یہ مذاق اڑاتے تھے اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ  وہ کیسی عظیم الشان خبر ہے اور اس کی ہنسی بنانے کا انجام کیسا خوفناک ہے ۔

6:6
اَلَمْ یَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَّكُمْ وَ اَرْسَلْنَا السَّمَآءَ عَلَیْهِمْ مِّدْرَارًا۪-وَّ جَعَلْنَا الْاَنْهٰرَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمْ فَاَهْلَكْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ وَ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَ(۶)
کیا انہوں نے نہ د یکھا کہ ہم نے ان سے پہلے (ف۱۲) کتنی سنگتیں کھپا دیں انہیں ہم نے زمین میں وہ جماؤ دیا (ف۱۳) جو تم کو نہ دیا اور ان پر موسلا دھار پانی بھیجا (ف۱۴) اور ان کے نیچے نہریں بہائیں (ف۱۵) تو انہیں ہم نے ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کیا (ف۱۶) اور ان کے بعد اور سنگت اٹھائی (ف۱۷)

{ اَلَمْ یَرَوْا:کیا انہوں نے نہ دیکھا۔} اس سے پہلی آیات میں سرزنش اور وعید کے ذریعے کفارِ مکہ کواللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے منہ پھیرنے، حق کو جھٹلانے اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مذاق اڑانے سے منع کیا گیا اور ا س آیت میں سابقہ قوموں کا عبرت ناک انجام بیان کر کے انہیں نصیحت کی جا رہی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کیا شام اور دیگر ملکوں کی طرف سفر کرنے کے دوران کفارِ مکہ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا۔ اے اہلِ مکہ! ہم نے انہیں زمین میں وہ قوت و طاقت عطا فرمائی تھی جو تمہیں نہیں دی اور جب انہیں ضرورت پیش آئی تو ہم نے ان پر موسلا دھار بارش بھیجی  جس سے ان کی کھیتیاں شاداب ہوئیں اور ان کے درختوں ، رہائش گاہوں اور محلات کے قریب نہریں بہا دیں جس سے باغ پرورش پائے ،پھلوں کی کثرت ہوئی اور دنیا کی زندگانی کے لئے عیش و راحت کے اسباب بَہم پہنچے لیکن جب انہوں نے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور ان کے احکامات کو جھٹلایا تو پھر ہم نے ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں ہلاک کردیا اور  ان کی یہ جاہ و حشمت اور سازو سامان انہیں ہلاکت سے نہ بچاسکا اور ان کے بعد دوسری قومیں پیدا کردیں اور دوسرے لوگوں کو ان کا جانشین بنا دیا۔ ان کاعبرت ناک انجام دیکھ کر تم بھی نصیحت حاصل کرو اور سابقہ کفار والی روش اختیار نہ کرو ورنہ تم پر بھی ویسا ہی عذاب آ سکتا ہے۔

سابقہ امتوں کے انجام سے عبرت حاصل کریں :

            اس آیت میں گزری ہوئی اُمتوں کا جو حال اور انجام بیان کیا گیا کہ وہ لوگ قوت ، دولت اور مال و عیال کی کثرت کے باوجود کفر و سرکشی اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے احکام کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ہلاک کردیئے گئے، اس میں بطورِ خاص کفار اور عمومی طور پر ہر مسلمان کے لئے عبرت اور نصیحت ہے ،ا س لئے سب کو چاہئے کہ اُن کے حال سے عبرت حاصل کرکے خواب ِغفلت سے بیدار ہوں اور کفر و سرکشی اور گناہوں کو چھوڑ کر ایمان، اطاعت، عبادت اور نیک کاموں میں مصروف ہو جائیں۔

کفار کی دنیوی ترقی بار گاہِ الٰہی میں مقبولیت کی دلیل نہیں :

            اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دنیوی خوشحالی ، مال و دولت اور سہولیات کی کثرت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا مندی کی علامت نہیں ورنہ قارون تو بہت بڑا مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہوتا۔ یہاں سے ان لوگوں کو درس حاصل کرنا چاہیے جو مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی دنیوی ترقی، سائنسی مہارت، سہولیات کی کثرت، ایجادات کی بہتات، مال و دولت کی فراوانی دیکھ کر انہیں بارگاہِ الٰہی میں مقبول اور مسلمانوں کو مردود سمجھتے ہیں اور اخلاق و کردار میں مسلمانوں کو کفار کی تقلید کامشورہ دیتے ہیں۔ کفار کی یہ دنیوی کامیابی مقبولیت کی نہیں بلکہ مہلت کی دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ کافروں کی جلد پکڑ نہیں فرماتا بلکہ انہیں مہلت دیتا اور آسائشیں عطا فرماتا ہے،پھر انہیں اپنے عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ نیز نام نہاد دانشور، مسلمانوں کو یورپ کی اندھی تقلید کا نہ ہی فرمائیں تو بہتر ہے اور وہ اپنی قارونی سوچ اپنے پاس ہی رکھیں۔

6:7
وَ لَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ كِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَیْدِیْهِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۷)
اور اگر ہم تم پر کاغذ میں کچھ لکھا ہوا اتارتے (ف۱۸) کہ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھوتے جب بھی کافر کہتے کہ یہ نہیں مگر کھلا جادو،

{ وَ لَوْ نَزَّلْنَا: اور اگرہم اتار دیتے۔} یہ آیت نضربن حارث ، عبداللہ بن اُمیّہ اور نوفل بن خویلد کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے کہا تھا کہ اے محمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہم تم پر ہر گز ایمان نہ لائیں گے جب تک تم ہمارے پاس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے کتاب نہ لاؤ جس کے ساتھ چار فرشتے ہوں ، وہ گواہی دیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور تم اس کے رسول ہو۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی(تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۷۰) اور بتایا گیا کہ یہ سب حیلے بہانے ہیں کیونکہ اگر کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب بھی اتار دی جاتی اور وہ اُسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر اور ٹٹول کر دیکھ لیتے تو بھی یہی کہتے کہ ان کی نظر بندی کردی گئی تھی اورکتاب اُترتی نظر توآئی تھی لیکن حقیقت میں کچھ بھی نہیں تھا جیسے انہوں نے معجزہ شقُّ القمر یعنی چاند کے دوٹکڑے ہونے کے معجزے کو جادو بتایا اور اس معجزہ کو دیکھ کربھی ایمان نہ لائے، اسی طرح اِس پر بھی ایمان نہ لاتے کیونکہ جو لوگ عنادا ً انکار کرتے ہیں وہ آیات و معجزات سے نفع نہیں اٹھاسکتے۔

6:8
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌؕ-وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ(۸)
اور بولے (ف۱۹) ان پر (ف۲۰) کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا، اور اگر ہم فرشتہ اتارتے (ف۲۱) تو کام تمام ہوگیا ہوتا (ف۲۲) پھر انہیں مہلت نہ دی جاتی (ف۲۳)

{ وَ قَالُوْا:اور انہوں نے کہا۔}یعنی مشرکین نے مزید یہ کہا کہ  نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر آسمان سے کوئی فرشتہ کیوں نہ اتار دیا گیا جسے وہ دیکھتے ۔ اس پر فرمایا گیا کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ  فرشتہ اتار دیتااور کافر پھر بھی ایمان نہ لاتے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب ان پر لازم ہوجاتا کیونکہ یہ سنتِ الٰہیہ ہے کہ جب کفار اجتماعی طورپر کوئی نشانی طلب کریں اور اس نشانی کے ظاہر ہوجانے کے بعد بھی ایمان نہ لائیں تو عذاب واجب ہوجاتا ہے اور وہ ہلاک کردیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ اگر کافروں کا مطالبہ پورا کردیا جاتا اور یہ پھر بھی ایمان نہ لاتے تو انہیں ایک لمحے کی بھی مہلت نہ ملتی اور ان سے عذاب مُؤخر نہ کیا جاتا۔

نشانیاں پوری ہونے کے باوجود کفارِ مکہ پر عذاب نازل کیوں نہ ہوا؟

             یاد رہے کہ کافروں نے ایسے فرشتے کے اترنے کا مطالبہ کیا تھا جو اُن کافروں کو بھی نظر آئے اور اسی کا رد کیا گیاتھا ورنہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایک کیا بہت سے فرشتے نازل ہوتے تھے اور بسا اوقات انسانی شکل میں حاضر ہوتے تھے جنہیں صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمبھی دیکھتے تھے۔ ان کفار کا مطالبہ یہ تھا کہ فرشتہ اپنی اصلی صورت میں آئے اور ہم اسے اسی صورت میں دیکھیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ کفار نے بہت سی نشانیاں طلب کیں جو پوری بھی ہوئیں جیسے چاند کے دو ٹکڑے ہونا وغیرہ اور اس کے بعد وہ ایمان بھی نہیں لائے تو ایسی صورت میں آیت میں بیان کردہ حکم کے مطابق تو سب کو ہلاک کردیا جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا تو آیت کا مطلب کیا ہے یا پھر ان معجزات کے دکھائے جانے کا مطلب کیا ہوا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نبوت پر دلالت کرنے والی نشانی دو طرح کی ہے (1) عام نشانی۔ (2) خاص نشانی۔ عام نشانی وہ ہے کہ جس کا تمام لوگ مطالبہ کریں یا سب مطالبہ تو نہ کریں لیکن اس کا مشاہدہ سب کر لیں۔ خاص نشانی وہ ہے کہ جس کا مطالبہ مخصوص لوگ کریں اور تمام ا فراد اس کا مشاہدہ نہ کر سکیں۔گزشتہ امتوں میں نشانی دیکھ لینے کے بعد ایمان نہ لانے کی صورت میں عذاب نازل کرنے میں اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ رہا کہ عام نشانی یعنی جس میں سب عام و خاص شریک ہو جائیں اسے پورا کرنے کے بعد ایمان نہ لانے کی صورت میں عذاب نازل فرماتا جبکہ خاص نشانی کے پورا ہونے کے بعد ایمان نہ لانے کی صورت میں عذاب نازل نہیں فرماتا۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا مطالبہ مخصوص لوگوں نے کیا جو پورا ہوا لیکن یہ عام نشانی نہ تھی بلکہ خاص تھی کہ جب چاند دو ٹکڑے ہوا اس وقت اکثر لوگ سو رہے تھے، اور کئی مقامات پر اختلافِ مَطالع یا بادل حائل ہونے کی وجہ سے چاند دو ٹکڑے ہوتا نظر نہ آیا، اس لئے مطالبہ کرنے والوں پر عذاب نازل نہ ہوا۔(شرح السنہ للبغوی، کتاب الفضائل، باب علامات النبوۃ، ۷ / ۶۶، تحت الحدیث: ۳۶۰۵، ملخصاً)

             مرقاۃُ المفاتیح میں یہی عبارت شرحُ السنہ سے منقول ہے۔ ا س کی روشنی میں ابو جہل یا دیگر کفار کے مطالبات کو دیکھا جائے تو وہ خاص مطالبے خاص فرد کے لئے پورے ہوئے تھے اس لئے اس پر عذاب نازل نہ ہوا۔

6:9
وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ(۹)
اور اگر ہم نبی کو فرشتہ کرتے (ف۲۴) جب بھی اسے مرد ہی بناتے (ف۲۵) اور ان پر وہی شبہ رکھتے جس میں اب پڑے ہیں،

{ وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا:اور اگر ہم نبی کو فرشتہ بنادیتے۔} یہ ان کفار کا جواب ہے جو نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو کہا کرتے تھے ، ’’یہ ہماری طرح بشر ہیں ‘‘اور اسی پاگل پن میں وہ ایمان سے محروم رہتے تھے۔ انہیں انسانوں میں سے رسول مبعوث فرمانے کی حکمت بتائی جارہی ہے کہ اُن سے نفع حاصل کرنے اور تعلیمِ نبی سے فیض اُٹھانے کی یہی صورت ہے کہ نبی صورتِ بشری میں جلوہ گر ہو کیونکہ فرشتے کو اس کی اصلی صورت میں دیکھنے کی تو یہ لوگ تاب نہ لاسکتے، دیکھتے ہی ہیبت سے بے ہوش ہو جاتے یا مرجاتے اس لئے اگر بالفرض رسول فرشتہ ہی بنایا جاتا تو بھی اسے مرد ہی بنایا جاتا اور صورتِ انسانی ہی میں بھیجا جاتا تاکہ یہ لوگ اس کو دیکھ سکیں اور اس کا کلام سن سکیں اور اس سے دین کے احکام معلوم کرسکیں لیکن اگر فرشتہ صورتِ بشری میں آتا تو انہیں پھر وہی کہنے کا موقع رہتا کہ یہ بشر ہے تو فرشتہ کو نبی بنانے کا کیا فائدہ ہوتا؟( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۹، ۲ / ۵)

6:10
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠(۱۰)
اور ضرور اے محبوب تم سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ٹھٹھا کیا گیا تو وہ جو ان سے ہنستے تھے ان کی ہنسی انہیں کو لے بیٹھی (ف۲۶)

{ وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ : اور اے محبوب ! بیشک تم سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی مذاق کیا گیا۔} کفار نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مذاق اڑاتے جس سے حضورِ اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَرنجیدہ ہوتے۔ اس پر سرکارِ دوعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا گیا کہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے رسولوں کا بھی مذاق اڑایا گیا تو جو مذاق اڑاتے تھے ان کا نہایت بھیانک انجام ہوا اور وہ مبتلائے عذاب ہوئے ۔اس میں نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی و تسکینِ خاطر ہے کہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَرنجیدہ و مَلُوْل نہ ہوں ، کفار کا پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ بھی یہی دستور رہا ہے اور اس کا وبال ان کفار کو اٹھانا پڑا ہے ۔نیز اس میں مشرکین کو بھی تنبیہ ہے کہ وہ پچھلی اُمتوں کے حال سے عبرت حاصل کریں اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ادب کا طریقہ ملحوظ رکھیں تاکہ پہلوں کی طرح مبتلائے عذاب نہ ہوں۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا مذاق اڑانے والوں کا انجام:

            کفارِ قریش کے پانچ سردار (1) عاص بن وائل سہمی (2) اسود بن مُطَّلِب (3) اسود بن عبدیغوث (4) حارث  بن قیس اور ان سب کا افسر (5)ولید بن مغیرہ مخزومی ،یہ لوگ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت ایذاء دیتے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا مذاق اڑایا کرتے تھے، اسود بن مُطَّلِب کے خلاف حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دُعا کی تھی کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، اس کو اندھا کردے۔ ایک روزتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجدِ حرام میں تشریف فرما تھے کہ یہ پانچوں آئے اور انہوں نے حسبِ دستور طعن اور مذاق کے کلمات کہے اور طواف میں مشغول ہوگئے۔ اسی حال میں حضرت جبریلِ امینعَلَیْہِ السَّلَام حضورِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں پہنچے اور انہوں نے ولیدبن مغیرہ کی پنڈلی کی طرف اور عاص کے قدموں کی طرف اور اسود بن مطلب کی آنکھوں کی طرف اور اسود بن عبدیغوث کے پیٹ کی طرف اور حارث بن قیس کے سر کی طرف اشارہ کیا اور کہا میں ان کا شر دفع کروں گا۔ چنانچہ تھوڑے عرصہ میں یہ ہلاک ہوگئے ،ولید بن مغیرہ تیر فروش کی دوکان کے پاس سے گزرا تو اس کے تہہ بند میں ایک تیر کی نوک چبھ گئی، لیکن اُس نے تکبر کی وجہ سے اس کو نکالنے کے لئے سر نیچا نہ کیا، اس سے اس کی پنڈلی میں زخم آیا اور اسی میں مرگیا۔ عاص بن وائل کے پاؤں میں کانٹا لگا اور نظر نہ آیا، اس سے پاؤں ورم کرگیا اور یہ شخص بھی مرگیا ۔اسود بن مطلب کی آنکھوں میں ایسا درد ہوا کہ دیوار میں سر مارتا تھا اسی میں مرگیا اور یہ کہتا مرا کہ مجھ کو محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے قتل کیا، اور اسود بن عبدیغوث کو ایک بیماری اِسْتِسْقَاء لگ گئی، کلبی کی روایت میں ہے کہ اس کو لُولگی اور اس کا منہ اس قدر کالا ہوگیا کہ گھر والوں نے نہ پہچانا اور نکال دیا اسی حال میں یہ کہتا مرگیا کہ مجھ کو محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے رب عَزَّوَجَلَّ نے قتل کیا اور حارث بن قیس کی ناک سے خون اور پیپ جاری ہوا ، وہ اسی میں ہلاک ہوگیا۔( خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۵، ۳ / ۱۱۱، ملخصاً)

6:11
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ(۱۱)
تم فرمادو (ف۲۷) زمین میں سیر کرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا(ف۲۸)

{ قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ:تم فرمادو:زمین میں سیر کرو ۔} یہاں سرکارِ دو عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا گیا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عذاب کا مذاق اڑانے والوں سے فرما دیں کہ جاؤ اور زمین میں سیر کرکے دیکھو کہ  جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟ اور انہوں نے کفرو تکذیب کا کیا ثمرہ پایا؟ یہاں زمین سے مراد وہ زمین ہے جہاں پچھلی قوموں پر عذاب آیا اور اب تک وہاں اُن اُجڑی بستیوں کے آثار موجود ہیں اور سیر کا یہ حکم ترغیب کے لئے ہے نہ کہ وجوب کے لئے۔

اللہ تعالیٰ کا خوف اور ا س محبت پیدا کرنے کا ذریعہ:

            اس سے معلوم ہوا کہ خوفِ الٰہی پیدا کرنے کے لئے عذاب والی جگہ جا کر دیکھنا بہتر ہے کیونکہ خبر کے مقابلے میں مشاہداتی چیز کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ نیز جیسے عذاب کی جگہ دیکھنے سے خوف پیدا ہوتا ہے اسی طرح رحمت کی جگہ دیکھنے سے عبادت کی رغبت اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت پیدا ہوتی ہے، لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت دیکھنے کے لئے بزرگوں کے آستانے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں برستی ہیں ، جا کر سفر کر کے دیکھنا بھی بہتر ہے تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کا شوق پیدا ہو۔

سفر کر کے مزاراتِ اولیاء پر جانا جائز ہے:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمانی قوت حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا باعثِ رحمت ہے اور اس آیت سے ان لوگوں کا بھی رد ہوتا ہے جو صرف تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور طرف سفرکو مطلقاًناجائز کہتے ہیں اور ا س کی دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کرتے ہیں ،حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ ان تین مسجدوں کے سوا کسی کی طرف کجاوے نہ باندھے جائیں (1) مسجدِ حرام۔ (2) رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مسجد۔ (3) مسجدِ اقصٰی۔( بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، باب مسجد بیت المقدس، ۱ / ۴۰۳، الحدیث: ۱۱۹۷)

            اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ ان مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف اس لئے سفر کر کے جانا کہ وہاں نماز کا ثواب زیادہ ہے ممنوع ہے کیونکہ ان کے علاوہ سب مسجدوں میں نماز پڑھنے کاثواب برابر ہے۔ اگر اس حدیث کے یہ معنی کئے جائیں کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنا حرام ہے یا ان تین مسجدوں کے علاوہ کہیں اور سفر کرنا جائز نہیں تو یہ حدیث قرآنِ مجید کی اس آیت اور دیگر احادیث کے بھی خلاف ہو گی ،نیز اس معنی کے حساب سے کہیں کا کوئی سفر کسی مقصد کے لئے جائز نہ ہو گا مثلاً جہاد، طلبِ علم، تبلیغِ دین،تجارت، سیاحت وغیرہ کسی کام کے لئے سفر جائز نہ ہو گا اور یہ امت کے اجماع کے خلاف ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ سفر کر کے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کے مزارات پر جانا ممنوع و حرام نہیں بلکہ جائز اور مستحسن ہے ۔

6:12
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-قُلْ لِّلّٰهِؕ-كَتَبَ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَؕ-لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِؕ-اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۱۲)
تم فرماؤ کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں (ف۲۹) تم فرماؤ اللہ کا ہے (ف۳۰) اس نے اپنے کرم کے ذمہ پر رحمت لکھ لی ہے (ف ۳۱) بیشک ضرور تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا (ف۳۲) اس میں کچھ شک نہیں، وہ جنہوں نے اپنی جان نقصان میں ڈالی (ف۳۳) ایمان نہیں لاتے،

{قُلْ:تم فرماؤ۔} مزید فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَآپ  ان سے پوچھیں کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، اس کا مالک کون ہے؟ اولاً تو وہ خود ہی کہیں گے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے کیونکہ وہ اس کے معتقد ہیں اوراگر وہ یہ نہ کہیں تو تم خود یہ جواب دو کہ سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ اس کے سوا اور کوئی جواب ہوہی نہیں سکتا اور وہ اِس جواب کی مخالفت کرہی نہیں سکتے کیونکہ بت جن کو یہ مشرکین پوجتے ہیں وہ بے جان ہیں ، کسی چیز کے مالک ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے ،خود دوسروں کے مَملوک ہیں جبکہ آسمان و زمین کا وہی مالک ہوسکتا ہے جو حَیّ و قَیُّوم، اَزلی و اَبدی ، قادرِ مطلق، ہر شے پر مُتَصَرِّف اور حکمران ہو، تمام چیزیں اس کے پیدا کرنے سے وجود میں آئی ہوں ، ایسا سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں ، اس لئے تمام آسمانی و زمینی کائنات کا مالک اس کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔

{ كَتَبَ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ: اس نے اپنے ذمۂ کرم پر رحمت لکھ لی ہے۔} یعنی اس نے رحمت کا وعدہ فرمالیا ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّکا وعدہ خلافی کرنا اور معاذاللہ جھوٹ بولنا محال ہے۔ اس نے رحمت کا وعدہ فرمالیا اور رحمت عام ہے دینی ہو یا دُنیوی، اپنی معرفت اور توحید اور علم کی طرف ہدایت فرمانا بھی اسی رحمت فرمانے میں داخل ہے، یونہی کفار کو مہلت دینا اورسزا دینے میں جلدی نہ فرمانا بھی رحمت میں داخل ہے کیونکہ اس سے انہیں توبہ اوررجوع کا موقع ملتا ہے۔( جمل، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۳۲۲-۳۲۳)

 اللہ تعالیٰ کی رحمت دیکھ کر گناہوں پر بے باک نہیں ہو نا چاہئے:

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ رحیم اور سب سے بڑھ کر کریم ہے ،اس کے رحم و کرم کے خزانوں کی کوئی انتہاء نہیں ،وہ چاہے تو عمر بھر کے گناہ گار کو پل بھر میں بخش دے اور ا س کی ساری خطائیں معاف فرما دے لیکن اس کی وسیع رحمت کو دیکھ کر ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ بندہ گناہوں پر بے باک ہو جائے اور ا س کی نافرمانی کی پرواہ نہ کرے ۔ امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، جس کا خلاصہ ہے کہ’’گناہ گار مومن ا س طرح دھوکے میں مبتلا ہیں کہ وہ یہ کہتے ہیں :اللہ تعالیٰ کریم ہے اور مجھے اس کے عفو و درگزر کی امید ہے،پھر اس بات پر بھروسہ کر کے اعمال سے غافل ہوجاتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت وسیع اور رحمت و کرم عام ہے، اس کی رحمت کے سمندر کے مقابلے میں بندوں کے گناہوں کی کیا حیثیت ہے، ہم توحید کو ماننے والے اور مومن ہیں اور ایمان کے وسیلے سے اس کی رحمت کے امید وار ہیں۔ بعض اوقات ان کے پاس اس امید کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ہمارے باپ دادا نیک لوگ تھے اور ان کا درجہ بلند تھا جیسے کئی لوگ اپنے نسب کی وجہ سے دھوکے کا شکار ہیں حالانکہ وہ خوفِ خدا، تقویٰ اور پرہیز گاری وغیرہ کے سلسلے میں اپنے آباؤ اَجداد کی سیرت کے خلاف چلتے ہیں تو گویا اِن کا گمان یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے باپ دادا سے بھی زیادہ معزز ہیں کیونکہ وہ باپ دادا توانتہائی درجہ کے تقویٰ کے باوجود خوف زدہ رہتے تھے اوریہ لوگ انتہائی درجہ کے فسق وفجور کے باوجودبے خوف ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بہت بڑ ادھوکہ ہے، اسی طرح شیطان اعلیٰ نسب والوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتا ہے کہ جو کسی انسان سے محبت کرتا ہے وہ اس کی اولاد سے بھی محبت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے چونکہ تمہارے آباؤ اجداد سے محبت کی ہے لہٰذا وہ تم سے بھی محبت کرتا ہے،اس لئے تمہیں عبادت کرنے کی ضرورت نہیں۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات پر دھوکہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اطاعت گزار کو پسند فرماتا اور گناہگار کو نا پسند فرماتا ہے تو جس طرح گناہگار بیٹے کو برا جاننے کی وجہ سے ا س کے فرمانبردار باپ کو برا نہیں جانتا اسی طرح فرمانبردار باپ کی اطاعت گزاری کی وجہ سے اس کے گناہگار بیٹے سے محبت بھی نہیں کرتا، اگر محبت باپ سے بیٹے کی طرف چلی جاتی تو قریب تھا کہ نفرت بھی سرایت کرتی جبکہ حق بات یہ ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا اور جس شخص کا یہ خیال ہو کہ وہ اپنے باپ کی پرہیز گاری کی وجہ سے نجات پائے گا تو وہ اس آدمی کی طرح ہے جو یہ گمان کرتا ہو کہ باپ کے کھانے سے وہ بھی سیر ہو جائے گا، باپ پئے تو بیٹا بھی سیراب ہو جائے گا، باپ کے سیکھنے سے بیٹا بھی عالم ہو جائے گا اور باپ کعبہ شریف میں پہنچ جائے تو اس کے وہاں پہنچنے سے یہ بھی وہاں پہنچ جائے گا اور کعبہ شریف کو دیکھ لے گا۔ (یاد رکھیں کہ ) تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرناہر ایک پر لازم ہے ،اس میں والد اپنے بیٹے کی طرف سے کفایت نہیں کرتا اور اس کے برعکس بھی یہی حکم ہے(احیاء علوم الدین، کتاب ذم الغرور، بیان ذم الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۱-۴۷۲، ملخصاً)۔[1]


[1] ۔۔۔۔ فی زمانہ اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرنے اور گناہوں پر بے باکی سے بچنے کے لئے دعوت اسلامی کے ساتھ وابستگی بہت مفید ہے۔

6:13
وَ لَهٗ مَا سَكَنَ فِی الَّیْلِ وَ النَّهَارِؕ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۳)
اور اسی کا ہے جو بستا ہے رات اور دن میں (ف۳۴) اور وہی ہے سنتا جانتا(ف۳۵)

{ وَ لَهٗ:اور اسی کا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ رات اور دن میں کائنات میں بسنے والی یا سکون حاصل کرنے والی ہر چیز یعنی تمام موجودات اسی کی مِلک ہے اور وہ سب کا خالق، مالک اور رب ہے ۔( جلالین مع جمل، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳، ۲ / ۳۲۳)

6:14
قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ هُوَ یُطْعِمُ وَ لَا یُطْعَمُؕ-قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۱۴)
تم فرماؤ کیا اللہ کے سوا کسی اور کو والی بناؤں (ف۳۶) وہ اللہ جس نے آسمان اور زمین پیدا کیے اور وہ کھلاتا ہے اور کھانے سے پاک ہے (ف۳۷) تم فرماؤ مجھے حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے گردن رکھوں (ف۳۸) اور ہرگز شرک والوں میں سے نہ ہونا،

{ قُلْ: تم فرماؤ۔} کفارِ عرب نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کہا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے ملک والوں کے دین کی طرف آجائیں اور توحید کا ذکر چھوڑ دیں۔ اس کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی(تفسیر قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۲۴۵، الجزء السادس) اور فرمایا گیا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انہیں جواب دو کہ کیا میں اُس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی اور کو اپنا والی بنالوں جو آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمانے والا ہے نیز وہ سب کو کھلاتا ہے اور وہ خود کھانے سے پاک ہے، ساری مخلوق اُس کی محتاج ہے اوروہ سب سے بے نیاز ہے۔لہٰذا ایسے خالق و مالک، رحیم و کریم کو میں ہر گز نہیں چھوڑ سکتا۔ اس نے تومجھے یہ حکم دیا ہے  کہ میں سب سے پہلے فرمانبرداری کے لئے گردن جھکاؤں  کیونکہ نبی اپنی اُمت سے دین میں آگے ہوتے ہیں اور اس نے یہ حکم دیا ہے کہ میں شرک سے پاک رہوں۔

{ مَنْ یُّصْرَفْ عَنْهُ یَوْمَىٕذٍ:اس دن جس سے عذاب پھیر دیا گیا۔}اس آیت سے معلوم ہو اکہ قیامت کے دن عذاب سے بچنا اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے ہو گا صرف اپنے اعمال اس کے لئے کافی نہیں کیونکہ اعمال سبب ہیں۔

6:15
قُلْ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۱۵)
تم فرماؤ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن (ف۳۹) کے عذاب کا ڈر ہے،

6:16
مَنْ یُّصْرَفْ عَنْهُ یَوْمَىٕذٍ فَقَدْ رَحِمَهٗؕ-وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ(۱۶)
اس دن جس سے عذاب پھیر دیا جائے (ف۴۰) ضرور اس پر اللہ کی مہر ہوئی، اور یہی کھلی کامیابی ہے،

6:17
وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَؕ-وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۱۷)
اور اگر تجھے اللہ کوئی برائی (ف۴۱) پہنچائے تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں، اور اگر تجھے بھلائی پہنچائے (ف۴۲) تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے(ف۴۳)

{ وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ:اور اگر اللہ تجھے کوئی برائی پہنچائے۔} ارشاد فرمایا کہ  اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے کوئی برائی مثلاً بیماری یا تنگ دستی یا اور کوئی بلا پہنچائے تو اس کے سوا اس برائی کو کوئی دور کرنے والا نہیں یعنی اس کی مرضی کے خلاف اس کا بھیجا ہوا عذاب کوئی نہیں دفع کر سکتا۔ اور جہاں تک نیک اعمال اور بزرگوں کی دعا سے عذاب اٹھ جانے کا تعلق ہے تو اسے بھی رب کریم عَزَّوَجَلَّہی اپنے فضل و کرم سے ،اِن اسباب کے وسیلہ سے اٹھاتا ہے اور جیسے برائی کا پہنچنا اور دور ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، ایسے ہی بھلائی جیسے صحت و دولت وغیرہ کاپہنچنا بھی اسی خداوند ِ کریم کی قدرت سے ہے کیونکہ وہ ہر شے پر قادر ہے، کوئی اس کی مَشِیَّت کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا تو اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے؟ کیونکہ معبود وہ ہے جو قدر تِ کاملہ رکھتا ہو اور کسی کا حاجت مند نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ ایسا کوئی نہیں ، لہٰذا صرف اسی کو رب مانواسی کی عبادت کرو۔یہ ردِ شرک کی دل میں اثر کرنے والی دلیل ہے۔

6:18
وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖؕ-وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْخَبِیْرُ(۱۸)
اور وہی غالب ہے اپنے بندوں پر، اور وہی ہے حکمت والا خبردار،

6:19
قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةًؕ-قُلِ اللّٰهُ- شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ- وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْۢ بَلَغَؕ-اَىٕنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰىؕ-قُلْ لَّاۤ اَشْهَدُۚ-قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَۘ(۱۹)
تم فرماؤ سب سے بڑی گواہی کس کی (ف۴۴) تم فرماؤ کہ اللہ گواہ ہے مجھ میں اور تم میں (ف۴۵) اور میر ی طر ف اس قر آ ن کی وحی ہوئی ہے کہ میں اس سے تمھیں ڈراؤ ں (ف۴۶) اورجن جن کو پہنچے (ف۴۷) تو کیا تم (ف۴۸)یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور خدا ہیں، تم فرماؤ (ف۴۹) کہ میں یہ گواہی نہیں دیتا (ف۵۰) تم فرماؤ کہ وہ تو ایک ہی معبود ہے (ف۵۱) اور میں بیزار ہوں ان سے جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو(ف۵۲)

{ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً:سب سے بڑی گواہی کس کی ہے؟ }اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ اہلِ مکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہنے لگے کہ اے محمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہمیں کوئی ایسا دکھائیے جو آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کی گواہی دیتا ہو ۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا کہ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ میرا گواہ ہے اور سب سے بڑا گواہ وہی ہے۔( صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۵۶۷)

نبی کریمصَلَّی اللہُ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گواہی دینا سنتِ خدا ہے:

اللہتعالیٰ نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گواہی کئی طرح دی: ایک یہ کہ اپنے خاص بندوں سے گواہی دلوا دی۔ دوسرے یہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جو کلام اتارا، اس میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا اعلان فرمایا۔ تیسرے یہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت سے معجزات عطا فرمائے۔ یہ سب رب تعالیٰ کی گواہیاں ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی گواہی دینا سنت ِرسولُ اللہ ہے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گواہی دینا سنتِ خدا ہے، ہمارے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا گواہ خود ربُّ العالمین عَزَّوَجَلَّہے اور کلمۂ شہادت میں دونوں گواہیاں جمع فرما دی گئیں ،سُبْحَانَ اللہ۔

{ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ: اور میر ی طر ف اس قرآن کی وحی ہوئی ہے۔}یعنی اللہ تعالیٰ میری نبوت کی گواہی دیتا ہے اس لئے کہ اُس نے میری طرف اس قرآن کی وحی فرمائی اور یہ ایسا عظیم معجزہ ہے کہ تم فصیح وبلیغ اور صاحبِ زبان ہونے کے باوجود اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز رہے،اس سے ثابت ہوا کہ قرآنِ پاک عاجز کرنے والا ہے اور جب یہ عاجز کرنے والا ہے تو اس کتاب کا مجھ پر نازل ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے رسول ہونے کی یقینی شہادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان’’لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ‘‘سے یہی مراد ہے یعنی میری طرف اس قرآن کی وحی فرمائی گئی تا کہ میں اس کے ذریعے تمہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرنے سے ڈراؤں۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۸)

{ وَ مَنْۢ بَلَغَ:اور جن تک یہ پہنچے۔} یعنی میرے بعد قیامت تک آنے والے جن افراد تک یہ قرآنِ پاک پہنچے خواہ وہ انسان ہوں یا جن ان سب کو میں حکمِ الٰہی کی مخالفت سے ڈراؤں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس شخص کو قرآنِ پاک پہنچا یہاں تک کہ اس نے قرآن سمجھ لیاتو گویا کہ اس نے نبیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کلام مبارک سنا۔ (در منثور، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۲۵۷)

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسریٰ اور قَیصر و غیرہ سَلاطین کو دعوتِ اسلام کے مکتوب بھیجے۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۸)

اس کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ’’مَنْۢ بَلَغَ ‘‘ بھی فاعل کے معنیٰ میں ہے  اور معنیٰ یہ ہیں کہ اس قرآن سے میں تمہیں ڈراؤں اور وہ ڈرائیں جنہیں یہ قرآن پہنچے ۔(جمل، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۳۲۷)

ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ترو تازہ کرے اس کو جس نے ہمارا کلام سنا اور جیسا سنا ویسا پہنچایا، بہت سے لوگ جنہیں کلام پہنچایا جائے وہ سننے والے سے زیادہ اہل ہوتے ہیں۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی الحث علی تبلیغ السماع، ۴ / ۲۹۹، الحدیث:۲۶۶۶)

            اور ایک روایت میں ہے’’ سننے والے سے زیادہ افقہ ہوتے ہیں۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی الحث علی تبلیغ السماع، ۴ / ۲۹۸، الحدیث:۲۶۶۵)

اس سے فقہا کی قدرومنزلت معلوم ہوتی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت اور قرآن کی ہدایت کسی زمان و مکان اور کسی قوم کے ساتھ خاص نہیں۔

{ اَىٕنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ: کیا تم گواہی دیتے ہو؟}یہاں مشرکوں سے خطاب ہے یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں سے فرمائیں کہ اے مشرکو! کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہیں ؟ اے حبیب ِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! تم فرماؤ کہ میں یہ گواہی نہیں دیتا بلکہ تم فرماؤ کہ وہ تو ایک ہی معبود ہے اور میں ان جھوٹے خداؤں سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ عَزَّوَجَلَّکاشریک ٹھہراتے ہو ۔

اسلام قبول کرنے والے کو کیا کرنا چاہئے؟

اس آیت سے ثابت ہوا کہ جو شخص اسلام لائے اس کو چاہئے کہ توحید و رسالت کی شہادت کے ساتھ اسلام کے ہر مخالف عقیدہ و دین سے بیزاری کا اظہار کرے بلکہ تمام بے دینوں سے دور رہے اور کفر و شرک و گناہ سے بیزار رہے بلکہ مومن کو چاہیے کہ اپنی صورت، سیرت، رفتار و گفتار سے اپنے ایمان کا اعلان کرے۔[1]


[1] ۔۔۔ نئے مسلمانوں میں سے جو انگلش زبان جانتے ہیں ،انہیں کتاب(WELCOME T0 ISLAM)(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا چاہئے۔

6:20
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْۘ-اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۠(۲۰)
جن کو ہم نے کتاب دی (ف۵۳) اس نبی کو پہچانتے ہیں (ف۵۴) جیسا اپنے بیٹے کو پہچانتے ہیں (ف۵۵) جنہوں نے اپنی جان نقصان میں ڈالی وہ ایمان نہیں لاتے،

{ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ:جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی۔} یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کے علماء جنہوں نے توریت و انجیل پائی وہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حلیہ مبارک اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے نعت و صفت سے جوان کتابوں میں مذکور ہے تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں یعنی جیسے اولاد کے اولاد ہونے میں شبہ نہیں اسی طرح حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے میں انہیں شبہ نہیں۔ چنانچہ اس کا ثبوت اس روایت سے بھی ملتا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہی آیت حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے پڑھ کرحضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو پہچاننے کی صورت پوچھی تو انہوں نے فرمایا: میں نے جیسے ہی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دیدار کیا تو انہیں پہچان گیا بلکہ اپنے بیٹے کے مقابلے میں انہیں زیادہ جلدی پہچان گیا، میں اس بات کی گواہی تو دے سکتا ہوں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سچے رسول ہیں لیکن عورتوں نے کیا کیا وہ میں نہیں جانتایعنی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے میرے پیچھے کوئی خیانت کر لی ہو اور یہ بیٹا میرا نہ ہولیکن رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچے رسول ہونے میں مجھے کسی قسم کا شبہ نہیں ہوسکتا۔

             تفسیر بغوی میں پہچاننے کی یہ صورت لکھی ہے ’’جیسے اپنے بیٹے کو دیگر بچوں کے درمیان پہچان لیتے ہیں کہ آدمی ہزاروں میں اپنے بیٹے کو بلا تَرَدُّد پہچان لیتا ہے ایسے ہی یہ لوگ  سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہچانتے ہیں لیکن ان میں جو اپنی جانوں کو خسارے میں ڈالنے والے ہیں تو وہ ایمان نہیں لاتے۔ یہودیوں کا ایمان نہ لانا حسد کی وجہ سے تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسد کے ہوتے ہوئے کسی کی خوبی تسلیم کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔اس آیت سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ   سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جاننا پہچاننا ایمان نہیں بلکہ انہیں ماننا ایمان ہے۔

 

6:21
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۱)
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے (ف۵۶) یا اس کی آیتیں جھٹلائے، بیشک ظالم فلاح نہ پائیں گے،

{ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ:اور اس سے بڑھ کر ظالم کون؟}جو کسی کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرائے یا جو بات اس کی شان کے لائق نہ ہو اس کی طرف نسبت کرے وہ سب سے بڑا ظالم ہے کیونکہ ظلم کہتے ہیں کسی شے کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دینا تو جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے شایانِ شان نہیں ہے اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف منسوب کرنا یقینا سب سے بڑا ظلم ہوگا۔

ظالم کی وعید میں داخل افراد:

            اس وعید میں مشرک بھی داخل کہ وہ توحید کو اس کی جگہ سے ہٹاتے ہیں اور دیگرکفار بھی داخل ہیں۔ یونہی اس میں فلموں ، ڈراموں یا کسی بھی ذریعے سے کفریات سیکھ کر بولنے یا خوشی سے سننے والے بھی داخل ہیں کہ وہ بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف وہ چیزیں منسوب کرتے ہیں جو اس کی شایانِ شان نہیں اور اس میں زمانۂ ماضی اور خصوصاً زمانۂ حال کے وہ اسکالرز ،دانشور اور مفکر بھی شامل ہیں جو دیدہ دانستہ قرآن کی غلط تفسیریں کرتے ہیں یا نااہل ہوتے ہوئے قرآن کی تفسیر کرتے ہیں کیونکہ یہ بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔

6:22
وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَیْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ(۲۲)
اور جس دن ہم سب کو اٹھائیں گے پھر مشرکوں سے فرمائیں گے کہاں ہیں تمہارے وہ شریک جن کا تم دعویٰ کرتے تھے،

{ ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ :پھر ان کی کوئی معذرت نہ ہوگی۔} قیامت کے دن کافروں کے پاس اپنے کفر و شرک سے معذرت کی کوئی صورت نہ ہوگی سوائے اس کے کہ شرک سے صاف انکار کردیں گے کہ ہم تو مشرک تھے ہی نہیں۔ ان کے متعلق اگلی آیت میں فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، دیکھو اپنے اوپر انہوں نے کیسا جھوٹ باندھا کہ عمر بھر کے شرک ہی سے مکر گئے۔ مشرکین شروع میں تو اپنے جرموں کا انکار کریں گے پھر دوسرے وقت اقرار کریں گے اور پھر ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں گے کہ ہمیں تو ہمارے بڑوں نے گمراہ کیا تھا۔

6:23
ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ(۲۳)
پھر ان کی کچھ بناوٹ نہ رہی (ف۵۷) مگر یہ کہ بولے ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم مشرک نہ تھے،

6:24
اُنْظُرْ كَیْفَ كَذَبُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(۲۴)
دیکھو کیسا جھوٹ باندھا خود اپنے اوپر (ف۵۸) اور گم گئیں ان سے جو باتیں بناتے تھے،

6:25
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْكَۚ-وَ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًاؕ-وَ اِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْكَ یُجَادِلُوْنَكَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(۲۵)
اور ان میں کوئی وہ ہے جو تمہاری طرف کان لگاتا ہے (ف۵۹) اور ہم نے ان کے دلوں پر غلاف کردیے ہیں کہ اسے نہ سمجھیں اور ان کے کانٹ میں ٹینٹ (روئی) اور اگر ساری نشانیاں دیکھیں تو ان پر ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ جب تمہارے حضور تم سے جھگڑتے حاضر ہوں تو کافر کہیں یہ تو نہیں مگر اگلوں کی داستانیں (ف۶۰)

{ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْكَ:اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو تمہاری طرف کان لگاکر سنتا ہے۔}ایک مرتبہ ابوسفیان، ولید، نضر اور ابوجہل وغیرہ جمع ہو کر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تلاوتِ قرآن پاک سننے لگے تو نضرسے اس کے ساتھیوں نے کہا کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیا کہتے ہیں ؟ کہنے لگا: میں نہیں جانتا ،زبان کو حرکت دیتے ہیں اور پہلوں کے قصے کہہ رہے ہیں جیسے میں تمہیں سنایا کرتا ہوں۔ ابوسفیان نے کہا کہ ان کی باتیں مجھے حق معلوم ہوتی ہیں۔ ابوجہل نے کہا کہ اس کا اِقرار کرنے سے مرجانا بہتر ہے۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۱۰) کافروں  کے قرآنِ پاک کو پرانے قصے کہنے سے مقصد کلامِ پاک کا وحیِ الٰہی ہونے کا انکار کرنا ہے۔

6:26
وَ هُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَ یَنْــٴَـوْنَ عَنْهُۚ-وَ اِنْ یُّهْلِكُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ(۲۶)
اور وہ اس سے روکتے (ف۶۱) اور اس سے دور بھاگتے ہیں اور بلاک نہیں کرتے مگر اپنی جانیں (ف۶۲) اور انہیں شعور نہیں،

{ وَ هُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ:اور وہ (دوسروں کو) اس سے روکتے ہیں۔}یعنی مشرکین لوگوں کو قرآن شریف سے یارسولِ کریم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع کرنے سے دوسروں کوروکتے ہیں اور خود بھی دور رہتے ہیں۔ یہ آیت کفارِ مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جو لوگوں کوسرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مجلس میں حاضر ہونے اور قرآنِ کریم سننے سے روکتے تھے اور خود بھی دور رہتے تھے کہ کہیں کلامِ مبارک اُن کے دل میں اثر نہ کرجائے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۱۰۔)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ یہ آیت تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا ابوطالب کے حق میں نازل ہوئی جو مشرکین کو تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایذا رسانی سے روکتے تھے اور خود ایمان لانے سے بچتے تھے۔( قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۲۵۱، الجزء السادس۔)  لیکن بظاہر پہلا قول ہی صحیح ہے کیونکہ یہاں جمع کا صیغہ بیان ہوا ہے۔

6:27
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۲۷)
اور کبھی تم دیکھو جب وہ آگ پر کھڑے کئے جائیں گے تو کہیں گے کاش کسی طرح ہم واپس بھیجے جائیں (ف۶۳) اور اپنے رب کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہوجائیں،

{ وَ لَوْ تَرٰى: اور اگر آپ دیکھیں۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافروں کی حالت دیکھیں جب انہیں آگ پر کھڑا کیا جائے گا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بڑی خوفناک حالت دیکھیں گے اور اس وقت کافر کہیں گے کہ اے کاش کہ کسی طرح ہمیں واپس دنیا میں بھیج دیا جائے اور ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہو جائیں تاکہ اس ہولناک عذاب سے بچ سکیں۔

6:28
بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُؕ-وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(۲۸)
بلکہ ان پر کھل گیا جو پہلے چھپاتے تھے (ف۶۴) اور اگر واپس بھیجے جائیں تو پھر وہی کریں جس سے منع کیے گئے تھے اور بیشک وہ ضرور جھوٹے ہیں،

{ بَلْ بَدَا لَهُمْ: بلکہ ان پر ظاہر ہوگیا۔} جیسا کہ اُوپر اسی رکوع میں مذکور ہوچکا کہ مشرکین سے جب فرمایا جائے گا کہ تمہارے شریک کہاں ہیں تو وہ اپنے کفر کو چھپا جائیں گے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم مشرک نہ تھے ،اس آیت میں بتایا گیا کہ پھر جب انہیں ظاہر ہوجائے گا جو وہ چھپاتے تھے یعنی ان کا کفر اس طرح ظاہر ہوگا کہ ان کے اَعضاو جَوارح ان کے کفر و شرک کی گواہیاں دیں گے تب وہ دُنیا میں واپس جانے کی تمنا کریں گے ۔اسی کافرمایا جارہا ہے کہ کافر اگرچہ دنیا میں لوٹائے جانے اورایمان لانے کی تمنا ظاہر کررہے ہیں لیکن ان کے ایمان لانے کی تمنا سچی نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ پہلے جو یہ اپنا مشرک ہوناچھپا رہے تھے وہ ان پر کھل گیا ہے اور اگر انہیں دنیا میں لوٹا دیا جائے تو پھر وہی کریں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور بیشک یہ ضرور جھوٹے ہیں۔

6:29
وَ قَالُوْۤا اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ(۲۹)
اور بولے (ف۶۵) وہ تو یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے اور ہمیں اٹھنا نہیں(ف۶۶)

{ وَ قَالُوْا: اور انہوں نے کہاتھا۔} یہ ان کافروں کا مقولہ ہے جو قیامت کے منکر ہیں اور اس کا واقعہ یہ تھا کہ جب سرورِ کائناتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کو قیامت کے احوال اور آخرت کی زندگی، ایمانداروں اور فرمانبرداروں کے ثواب، کافروں اور نافرمانوں پر عذاب کا ذکر فرمایا تو کافر کہنے لگے کہ زندگی تو بس دنیا ہی کی ہے اور جب ہم مرنے کے بعد اس دنیا سے چلے جائیں گے تو ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۱۱) کافروں کا تو عقیدہ ہی یہ تھا کہ زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہے اور مرنے کے بعد کوئی اٹھایا نہیں جائے گااور اسی اعتقادکی بنا پر ان کی زندگی غفلت کا شکار تھی لیکن مسلمانوں پر بھی افسوس ہے کہ ان کا تو قطعی عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد لوگوں کو اٹھایا جائے گا، اعمال کا جواب دینا پڑے گا لیکن اس کے باوجود وہ غفلت میں پڑے ہیں ، یہ بڑی افسوس ناک صورت ہے چنانچہ اسی مفہوم میں بزرگوں نے بہت سی باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔حضرت ابو جعفررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اس شخص پر بڑی حیرت ہے جو ہمیشگی کے گھر (جنت) کی تصدیق تو کرتا ہے لیکن کوشش دھوکے کے گھر (دنیا کو پانے اور اسے سنوارنے) کے لئے کرتا ہے۔ (کتاب الزہد لابن ابی الدنیا، ص۲۸، رقم: ۱۴)

            امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ایک بزرگ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ’’اس شخص پر تعجب ہے جو احسان کرنے والے کی معرفت کے بعد اس کی نافرمانی کرتا ہے اور شیطان لعین کی سرکشی کو جاننے کے بعد اس کی اطاعت کرتا ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب شرح عجائب القلب، بیان تفصیل مداخل الشیطان الی القلب، ۳ / ۴۷۔)

حضرت فضیل رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مجھے اس شخص پر تعجب نہیں ہوتا جو عمارت بنا کر چھوڑ جاتا ہے بلکہ اس پر تعجب ہوتا ہے جو اس عمارت کو دیکھ کر عبرت حاصل نہیں کرتا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفصیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۹۲)

            حضرت وہیب مکی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’کسی شخص کے لئے یہ بات کیسے مناسب ہے کہ وہ دنیا میں ہنسے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے سامنے قیامت کے دن کی فریادیں ، گردشیں اور خوفناک مَناظر ہیں ، قریب ہے کہ سخت رعب اور خوف سے اس کے جسم کے جوڑ کٹ جائیں۔(تنبیہ المغترین، الباب الثانی فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم ظنہم بنفسہم الہلاک۔۔۔ الخ، ص۱۰۹)

6:30
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلٰى رَبِّهِمْؕ-قَالَ اَلَیْسَ هٰذَا بِالْحَقِّؕ-قَالُوْا بَلٰى وَ رَبِّنَاؕ-قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۠(۳۰)
اور کبھی تم دیکھو جب اپنے رب کے حضور کھڑے کیے جائیں گے، فرمائے گا کیا یہ حق نہیں (ف۶۷) کہیں گے کیوں نہیں، ہمیں اپنے رب کی قسم، فرمائے گا تو اب عذاب چکھو بدلہ اپنے کفر کا،

6:31
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطْنَا فِیْهَاۙ-وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰى ظُهُوْرِهِمْؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ(۳۱)
بیشک ہار میں رہے وہ جنہوں نے اپنے رب سے ملنے کا انکار کیا، یہاں تک کہ جب ان پر قیامت اچانک آگئی بولے ہائے افسوس ہمارا اس پر کہ اس کے ماننے میں ہم نے تقصیر کی، اور وہ اپنے (ف۶۸) بوجھ اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہیں ارے کتنا برُا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں (ف۶۹)

{ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ:بیشک ان لوگوں نے نقصان اٹھایا جنہوں نے اپنے رب سے ملنے کو جھٹلایا ۔} یعنی جن کافروں نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کے دن اعمال کے حساب کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کو جھٹلایا تو انہوں نے اپنی جانوں کا ہی نقصان کیا کہ وہ لازوال نعمتوں کے گھر جنت سے محروم ہو جائیں گے اور جہنم کے دَرکات میں دردناک عذاب میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ جب قیامت کے دن ان منکروں پر اچانک قیامت آئے گی اور یہ اپنی ذلت و رسوائی کو دیکھیں گے تو کہیں گے : ہائے افسوس !ہمیں اس پر بہت ندامت ہے جو ہم نے دنیا میں قیامت کو ماننے میں کوتاہی کی اور اس دن پر ایمان لا کر اس لئے تیاری نہ کی اور نیک اعمال کرنے سے دور رہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۱۲، روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۲۲، ملتقطاً۔)

{ وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ:اور وہ اپنے گناہوں کے بوجھ اٹھائے ہوں گے۔}حدیث شریف میں ہے کہ کافر جب اپنی قبر سے نکلے گا تو اس کے سامنے نہایت قبیح بھیانک اور بہت بدبودار صورت آئے گی وہ کافر سے کہے گی: تو مجھے پہچانتا ہے؟ کافر کہے گا،نہیں،تو وہ کافر سے کہے گی :میں تیرا خبیث عمل ہوں ، دنیا میں تو مجھ پر سوار رہا تھا اور آج میں تجھ پر سوار ہوں گا اور تجھے تمام مخلوق میں رسوا کروں گا پھر وہ اس پر سوار ہوجائے گا۔ (تفسیر طبری، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۱، ۵ / ۱۷۸، خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۱۲۔)

مسلمان کے اخروی خسارے کا سبب:

             قیامت کے دن کافر کا تویہ حال ہو گاجبکہ دنیا میں کئے گئے برے اعمال مسلمان کے لئے بھی اُخروی خسارے کا سبب بن سکتے ہیں چنانچہ حدیث میں ہے ،رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’چار آدمی ایسے ہیں کہ وہ جہنمیوں کی تکلیف میں اضافے کا سبب بنیں گے اوروہ کھولتے پانی اور آگ کے درمیان دوڑتے ہوئے ہلاکت وتباہی مانگتے ہوں گے۔ اُن میں سے ایک پر انگاروں کاصندوق لٹک رہا ہوگا، دوسرا اپنی آنتیں کھینچ رہا ہو گا، تیسرے کے منہ سے پیپ اور خون بہہ رہے ہوں گے اور چوتھا اپنا گوشت کھا رہا ہو گا۔ صندوق والے کے بارے میں جہنمی ایک دوسرے سے کہیں گے: ’’اس بدبخت کو کیا ہوا؟ اس نے تو ہماری تکلیف میں اور اضافہ کر دیا۔ صندوق والا یہ جواب دے گا ’’میں اس حال میں مرا کہ میری گردن پر لوگوں کے اموال کا بوجھ (یعنی قرض) تھا۔ پھر اپنی انتڑیاں  کھینچنے والے کے متعلق کہیں گے: اس بدبخت شخص کا معاملہ کیسا ہے جس نے ہماری تکلیف کو اور بڑھا دیا؟ تو وہ جواب دے گا ’’ میں کپڑوں کو پیشاب سے بچانے کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔ پھر جس کے منہ سے خون اور پیپ بہہ رہی ہو گی،اس کے بارے میں کہیں گے: اس بدنصیب کا معاملہ کیا ہے جس نے ہماری تکلیف کو اور زیادہ کر دیا؟ وہ کہے گا’’میں بدنصیب بری بات کی طرف متوجہ ہوکر اس طرح لذت اُٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ پھر جو شخص اپنا گوشت کھا رہا ہوگا اس کے متعلق جہنمی کہیں گے: اس مردود کو کیا ہوا جس نے ہماری تکلیف میں مزید اضافہ کر دیا؟ تو وہ جواب دے گا ’’ میں بد بخت غیبت کر کے لوگوں کا گوشت کھاتا اور چغلی کرتا تھا۔ (رسائل ابن ابی الدنیا، الصمت وآداب اللسان، باب الغیبۃ وذمہا، ۷ / ۱۳۲، رقم: ۱۸۷، حلیۃ الاولیاء، شفی بن ماتع الاصبحی، ۵ / ۱۹۰، رقم: ۶۷۸۶، الزواجر عن اقتراف الکبائر، الباب الثانی فی الکبائر الظاہرۃ، الکبیرۃ الثامنۃ والتاسعۃ بعد المائتین، ۲ / ۱۸-۱۹)

نفس یہ کیا ظلم ہے جب دیکھو تازہ جرم ہے

ناتواں کے سر پر اتنا بوجھ بھاری واہ واہ

6:32
وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌؕ-وَ لَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۳۲)
اور دنیا کی زندگی نہیں مگر کھیل کود (ف۷۰) اور بیشک پچھلا گھر بھلا ان کے لئے جو ڈرتے ہیں (ف۷۱) تو کیا تمہیں سمجھ نہیں،

{ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ:اور دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے۔} ارشاد فرمایا کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے جسے بقا نہیں ، بہت جلد گزر جاتی ہے جبکہ نیکیاں اور طاعتیں اگرچہ مومنین سے دنیا ہی میں واقع ہوں لیکن وہ امور آخرت میں سے ہیں۔

            مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی ، چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ’’ دنیا کی زندگی وہ ہے جو نفس کی خواہشات میں گزر جائے اور جو زندگی آخرت کے لئے توشہ جمع کرنے میں صَرف ہو، وہ دنیا میں زندگی تو ہے مگر دنیا کی زندگی نہیں لہٰذا انبیاء و صالحین کی زندگی دنیا کی نہیں بلکہ دین کی ہے۔ غرضیکہ غافل اور عاقل کی زندگیوں میں بڑا فرق ہے۔ (نور العرفان، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۲۰۸)

آخرت کو بھلا دینے والے دنیا داروں کی مثال:

            امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس بات کو بڑے پیارے انداز میں سمجھایا ہے چنانچہ کیمیائے سعادت میں ارشاد فرماتے ہیں:دنیا داروں کا دنیوی کاروبار میں مشغول ہو کر آخرت کو بھلا دینے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی گروہ کشتی میں سوار ہوا اور وہ کشتی کسی جزیرے پر جا کر رُکی، لوگوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ضروری حاجات سے فارغ ہونےکے لئے جزیرے پر اتر گئے۔ ملاح نے اعلان کیا: یہاں زیادہ دیر نہیں رکیں گے لہٰذا وقت ضائع کئے بغیر صرف طہارت وغیرہ سے فارغ ہو کر جلدی واپس پلٹیں۔ جزیرے میں اترنے کے بعد لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے:

(1)…کچھ لوگ جزیر ے میں سیر و سیاحت اور اس کے عجائبات دیکھنے میں ایسے مشغول ہوئے کہ انہیں کشتی میں واپس آنا یاد نہ رہا حتّٰی کے وہیں بھوک پیاس سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے اور درندوں کی غذا بنے۔

(2)…عقلمند لوگ اپنی حاجات سے جلدی فارغ ہو کر کشتی میں اپنی من پسند جگہ پر آکر بیٹھ گئے۔

(3)…کچھ لوگ جزیرے کے انوار اور عجیب و غریب قسم کے پھولوں ، غنچوں ، شگوفوں ، وہاں کے پرندوں کے اچھے نغمات سنتے اور وہاں کے قیمتی پتھروں کو دیکھتے رہ گئے اور ان میں سے بعض ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے صرف دیکھنے پر ہی اِکتفا نہ کیا بلکہ وہاں سے بہت سی چیزیں اپنے ساتھ ا ٹھا لائے۔ اب کشتی میں مزید جگہ تنگ ہوئی تو اپنے ساتھ لانے والی اشیاء کو کشتی میں رکھنے کی جگہ نہ پا سکے تو مجبوراً انہیں سروں پر اٹھانا پڑا۔ ابھی دو دن ہی گزرے تھے کہ ان اشیاء کی رنگت میں تبدیلی شروع ہو گئی اور خوشبو کی بجائے اب بدبو آنے لگی ،اب انہیں کہیں پھینکنے کی جگہ بھی نہ تھی نادم و پشیمان اسی طرح اپنے سروں پر اٹھانے پر مجبور تھے۔

            پہلے گروہ کی مثال کفار و مشرکین اور بد عقیدہ لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے آپ کو کلی طور پر دنیا کے سپرد کر دیا اور اسی کے ہو کر رہ گئے ،اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت کوفراموش کر دیا، انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں محبوب رکھا۔

          دوسرا گروہ ان عقلمندوں کا تھا جسے مومنین سے تعبیر کیا گیا، وہ طہارت سے فارغ ہوتے ہی کشتی میں سوار ہوئے اور عمدہ سیٹوں کو پا لیا( یعنی جنت کے مستحق ہوئے۔)تیسرے گروہ کی مثال خطاکاروں کی ہے کہ انہوں نے ایمان کو تو محفوظ رکھا مگر دنیا میں ملوث ہونے سے بچ نہ سکے۔(کیمیائے سعادت، عنوان سوم: معرفت دنیا، فصل چہارم، ۱ / ۹۵-۹۶، ملخصاً)

6:33
قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ(۳۳)
ہمیں معلوم ہے کہ تمہیں رنج دیتی ہے وہ بات جو یہ کہہ رہے ہیں (ف۷۲) تو وہ تمہیں نہیں جھٹلاتے (ف۷۳) بلکہ ظالم اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں (ف۷۴)

{ قَدْ نَعْلَمُ:ہم جانتے ہیں۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ اخنس بن شریق او ر ابوجہل کی آپس میں ملاقات ہوئی تو اخنس نے ابوجہل سے کہا، اے اَبُوالْحَکَمْ! (کفار ابوجہل کو اَبُوالْحَکَمْ کہتے تھے) یہ تنہائی کی جگہ ہے اور یہاں کوئی ایسا نہیں جو میری تیری بات پر مطلع ہوسکے، اب تو مجھے ٹھیک ٹھیک بتا کہ محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سچّے ہیں یا نہیں ؟ ابوجہل نے کہا کہ ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بے شک سچّے ہیں ، کبھی کوئی جھوٹا حرف اُن کی زبان پر نہیں آیا مگر بات یہ ہے کہ یہ قُصَیْ (حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباؤاجداد میں سے ایک بزرگ ہیں ) کی اولاد ہیں اور حج اور خانہ کعبہ کے متعلق تو سارے اعزاز انہیں حاصل ہی ہیں ،اب نبوت بھی انہیں میں ہوجائے تو باقی قریشیوں کے لئے اعزاز کیا رہ گیا۔( تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۷۷۔)

            ترمذی شریف میں حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے روایت ہے کہ’’ ابوجہل نے سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے کہا، ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب نہیں کرتے ہم تو اس کتاب کی تکذیب کرتے ہیں جوآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لائے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانعام، ۵ / ۴۵، الحدیث: ۳۰۷۵۔) اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم جانتے ہیں کہ ان کافروں کی باتیں آپ کو رنجیدہ کرتی ہیں لیکن آپ تسلی رکھیں کیونکہ  قوم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی صداقت کا اعتقاد رکھتی ہے ا سی لئے پوشیدہ طور پر یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے البتہ حسد اور عناد کی وجہ سے یہ ظالم لوگ علانیہ طور پر اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۱۳۔)

            اس آیت کے ایک معنیٰ یہ بھی ہوتے ہیں کہ’’ اے حبیب اکرم !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَآپ کی تکذیب آیاتِ الٰہیہ کی تکذیب ہے اور تکذیب کرنے والے ظالم ہیں یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو جھٹلانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جھٹلانا ہے۔

6:34
وَ لَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰى مَا كُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰۤى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَاۚ-وَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِۚ-وَ لَقَدْ جَآءَكَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ(۳۴)
اور تم سے پہلے رسول جھٹلائے گئے تو انہوں نے صبر کیا اس جھٹلانے اور ایذائیں پانے پر یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد آئی (ف۷۵) اور اللہ کی باتیں بدلنے والا کوئی نہیں (ف۷۶) اور تمہارے پاس رسولوں کی خبریں آ ہی چکیں ہیں(ف۷۷)

{ وَ لَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ: اورآپ سے پہلے رسولوں کو جھٹلایا گیا۔} رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب ِ اطہر کی تسلی کیلئے فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ سے پہلے رسولوں کو جھٹلایا گیا تو انہوں نے جھٹلائے جانے اور تکلیف دئیے جانے پر صبر کیایہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی اور تکذیب کرنے والے ہلاک کئے گئے۔لہٰذا اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَآپ بھی صبر کریں۔ کوئی اللہ عَزَّوَجَلَّکی باتوں کو بدلنے والا نہیں اور اس کے حکم کو کوئی پلٹ نہیں سکتا۔ رسولوں کی نصرت اور ان کی تکذیب کرنے والوں کا ہلاک ہونا اس نے جس وقت مقدر فرمایا ہے اس وقت ضرور ہوگا۔اور بیشک تمہارے دل کے سکون کے لئے تمہارے پاس رسولوں کی خبریں آچکی ہیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جانتے ہیں کہ انہیں کفار سے کیسی ایذائیں پہنچیں۔ یہ پیشِ نظر رکھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دل مطمئن رکھیں۔ اس آیت میں مبلغین کیلئے بھی تسلی ہے کہ اگر انہیں راہِ تبلیغ میں مشقتیں پیش آئیں تو وہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکالیف کو یاد کرکے صبر اختیار کریں۔

6:35
وَ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَهُمْ بِاٰیَةٍؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدٰى فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(۳۵)
اور اگر ان کا منہ پھیرنا تم پر شاق گزرا ہے (ف۷۸) تو اگر تم سے ہوسکے تو زمین میں کوئی سرنگ تلاش کرلو یا آسمان میں زینہ پھر ان کے لیے نشانی لے آؤ (ف۷۹) اور اللہ چاہتا تو انہیں ہدایت پر اکٹھا کردیتا تو اے سننے والے تو ہرگز نادان نہ بن،

{ وَ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكَ:اور اگر تم پر شاق گزرتا ہے۔}سرکارِ مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو بہت خواہش تھی کہ سب لوگ اسلام لے آئیں۔جو اسلام سے محروم رہتے ہیں ان کی محرومی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بہت شاق رہتی تھی ۔ اس پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رنج و تکلیف سے بچانے کیلئے اس انداز میں فرمایا گیا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب لوگوں کے ایمان لانے کی طرف سے امید منقطع فرمالیں اور یوں رنج و غم سے نجات پائیں ، چنانچہ اس پر جو فرمایا گیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اگر ان کافروں کا منہ پھیرنا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بے پناہ رحمت اور شفقت کی وجہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر شاق گزرتا ہے تو اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے ایمان لانے کی خاطرزمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی تلاش کرکے ان کافروں کے پاس ان کی کوئی مطلوبہ نشانی لاسکتے ہیں تو لا کر دیکھ لیں۔ یہ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے لہٰذا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتسلیم و رضا کے مقام پر رہ کر اس معاملے کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حوالے کردیں اور اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو انہیں ہدایت پر اکٹھا کردیتا لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ایسا نہیں کیا۔

6:36
اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ ﳳ-وَ الْمَوْتٰى یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَؐ(۳۶)
مانتے تو وہی ہیں جو سنتے ہیں (ف۸۰) اور ان مردہ دلوں (ف۸۱) کو اللہ اٹھائے گا(ف۸۲) پھر اس کی طرف ہانکے جائیں گے(ف۸۳)

{ اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ: صرف وہ لوگ مانتے ہیں جو سنتے ہیں۔}ارشاد فرمایا کہ صرف وہ لوگ مانتے ہیں جو توجہ اور غور وفکر کے ساتھ دل لگا کر سمجھنے کیلئے سنتے ہیں جبکہ یہ کفار تو مردہ دل ہیں یہ کیا مانیں گے ۔آخرت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ ان دل کے مردوں کو اٹھائے گا اورپھر اسی کی طرف انہیں لوٹایا جائے گا اوریہ اپنے اعمال کی جزا پائیں گے۔ وعظ و نصیحت کا اثر بھی تبھی ہوتا ہے جب آدمی ماننے اور عمل کرنے کے جذبے کے ساتھ توجہ کے ساتھ سنے ورنہ بے توجہی سے سننے کا نتیجہ عام طور پر کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔

6:37
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قُلْ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یُّنَزِّلَ اٰیَةً وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۳۷)
اور بولے (ف۸۴) ان پر کوئی نشانی کیوں نہ اتری ان کے رب کی طرف سے (ف۸۵) تم فرماؤ کہ اللہ قادر ہے کہ کوئی نشانی اتارے لیکن ان میں بہت نرے (بالکل) جاہل ہیں(ف۸۶)

{ وَ قَالُوْا: اور انہوں نے کہا۔} کفارِ مکہ نے کہا تھا کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایسی کوئی نشانی کیوں نہیں اترتی جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں۔ اس پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا گیا کہ ان کے جواب میں اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتم فرمادو کہ بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّہر قسم کی نشانی اتارنے پر قادر ہے لیکن اکثر لوگ اس بات سے بے علم ہیں کہ اگر کوئی نشانی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اتار دی تو نہ ماننے کی صورت میں فوری طور پر ہلاک کردیے جائیں گے۔ کفار کی گمراہی اور ان کی سرکشی اس حد تک پہنچ گئی کہ وہ کثیر آیات و معجزات جو انہوں نے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مشاہدہ کئے تھے اُن پر قناعت نہ کی اور سب سے مکر گئے اور ایسی نشانی طلب کرنے لگے جس کے ساتھ عذابِ الٰہی ہو جیسا کہ انہوں نے کہا تھا  ’’ اَللّٰہُمَّ اِنۡ کَانَ ہٰذَا ہُوَالْحَقَّ مِنْ عِنۡدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیۡنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ‘‘ یارب اگر یہ حق ہے تیرے پاس سے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔ (ابو سعود، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۷، ۲ / ۱۴۶۔) اس پر انہیں فرمایا گیا کہ یہ جاہل ہیں اور جانتے نہیں کہ اس طرح کی نشانی کا اترنا ان کے لئے بلا و مصیبت ہے کہ انکار کرتے ہی ہلاک کردیئے جائیں گے اور اپنی موت خود اپنے منہ سے مانگ رہے ہیں۔ ان معجزات کا نہ اتارنا بھی حضورپرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت کی وجہ سے ہے۔

6:38
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓىٕرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْؕ-مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ(۳۸)
اور نہیں کوئی زمین میں چلنے والا اور نہ کوئی پرند کہ اپنے پروں پر اڑتا ہے مگر تم جیسی اُمتیں (ف۸۷) ہم نے اس کتاب میں کچھ اٹھا نہ رکھا (ف۸۸) پھر اپنے رب کی طرف اٹھائے جائیں گے (ف۸۹)

{ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ:مگر وہ تمہاری جیسی امتیں ہیں۔} یعنی تمام جاندار خواہ وہ چوپائے ہوں یا درندےیا پرندے، سب تمہاری طرح اُمتیں ہیں۔ یہ مُماثَلَت تمام اعتبارات سے نہیں بلکہ بعض اعتبار سے ہے اور ان وجوہ کے بیان میں بعض مفسرین نے فرمایا کہ حیوانات تمہاری طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پہچانتے اور اسے واحدو یکتا جانتے، اس کی تسبیح پڑھتے اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ وہ مخلوق ہونے میں تمہاری مثل ہیں۔ بعض نے کہا کہ وہ انسان کی طرح باہمی الفت رکھتے اور ایک دوسرے سے سمجھتے سمجھاتے ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ روزی طلب کرنے ،ہلاکت سے بچنے، نرمادہ کی امتیاز رکھنے میں تمہاری مثل ہیں۔ بعض نے کہا کہ پیدا ہونے ،مرنے، مرنے کے بعد حساب کے لئے اُٹھنے میں تمہاری مثل ہیں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۱۵۔)

{ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ:ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کمی نہیں چھوڑی۔} یعنی جملہ علوم اور تمام ’’ مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ ‘‘ کا اس میں بیان ہے اور جمیع اشیاء کا علم اس میں ہے ۔اس کتاب سے یہ قرآنِ کریم مراد ہے یا لوحِ محفوظ۔ (جمل، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۳۴۵۔) اس سے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا علمِ کلی ثابت ہوا کیونکہ سارے علوم لوحِ محفوظ یا قرآن میں ہیں اور یہ کتابیں حضورِاقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم میں ہیں۔

{ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ: پھر یہ اپنے رب کی طرف اٹھائے جائیں گے۔} تمام انسان، جانور، پرندے قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے ۔ انسان تو جنت یا جہنم میں جائیں گے جبکہ جانور اور پرندوں کا حساب ہوگا اس کے بعد وہ خاک کردیئے جائیں گے۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۷۸۔)

قیامت کے دن جانوروں کا بھی حساب ہو گا:

            اس سے معلوم ہو اکہ قیامت کے دن انسانوں اور جنوں کے علاوہ جانوروں اور پرندوں کا بھی حساب ہو گا۔ بعض احادیث میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے ،چنانچہ

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’  قیامت کے دن تم لوگ ضرور حق داروں کو ان کے حقوق سپرد کرو گے حتّٰی کہ بے سینگ بکری کا سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۴، الحدیث: ۶۰(۲۵۸۲))

             حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’قیامت کے دن زمین کھچ کر چمڑے کی طرح دراز ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ انسانوں ،جنوں ، چوپایوں اور وحشی جانوروں الغرض تمام مخلوق کوجمع فرمائے گا، اس دن اللہ تعالیٰ جانوروں کے درمیان بھی قصاص رکھے گا یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری کا سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا، پھر انہیں کہا جائے گا کہ تم سب مٹی ہو جاؤ۔ اس وقت کافر یہ تمنا کرے گا کہ کاش میں بھی مٹی ہو جاتا۔( مستدرک، کتاب الاہوال، جعل اللہ القصاص بین الدواب، ۵ / ۷۹۴، الحدیث: ۸۷۵۶)

6:39
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّ بُكْمٌ فِی الظُّلُمٰتِؕ-مَنْ یَّشَاِ اللّٰهُ یُضْلِلْهُؕ-وَ مَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْهُ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۳۹)
اور جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں بہرے اور گونگے ہیں (ف۹۰) اندھیروں میں (ف۹۱) اللہ جسے چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے سیدھے راستہ ڈال دے(ف۹۲)

{ وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا:اور جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں۔} ارشاد فرمایا کہ جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں وہ بہرے اور گونگے ہیں کیونکہ حق ماننا اور حق بولنا انہیں مُیَسَّر نہیں اوروہ  جہالت، حیرت اور کفر کے اندھیروں میں پڑے ہوئے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ جسے چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے سیدھے راستہ پر ڈال دے اور اسلام کی توفیق عطا فرمائے۔

6:40
قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَۚ-اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۴۰)
تم فرماؤ بھلا بتاؤ تو اگر تم پر اللہ کا عذاب آئے یا قیامت قائم ہو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے (ف۹۳) اگر سچے ہو (ف۹۴)

{ قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں فرمایا گیا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ ان مشرکوں سے فرمائیں کہ بھلا بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب آجائے یا تم پر قیامت آجائے توکیا اس وقت بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اور جن کو دنیا میں معبود مانتے تھے اُن سے حاجت روائی چاہو گے ؟اگر تم  اپنے اس دعویٰ میں کہ معاذ اللہ بت معبود ہیں ، سچے ہو تو اس وقت انہیں پکارو مگر ایسا نہ کرو گے بلکہ تمام ہولناکیوں اور تکلیفوں میں تم اللہ عَزَّوَجَلَّہی کو پکارو گے تو اگراللہ عَزَّوَجَلَّچاہے تو تم سے وہ مصیبت ہٹادے جس کو دور کرنے کی طرف تم اسے پکارو گے اور اگر وہ چاہے تو اس مصیبت کو دور نہ کرے اور اس وقت تم ان بتوں کو بھول جاؤ گے جنہیں تم خدا عَزَّوَجَلَّ کا شریک قرار دیتے تھے اور  جنہیں اپنے اعتقاد ِباطل میں تم معبود جانتے تھے اور اُن کی طرف التفات بھی نہ کرو گے کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ وہ تمہارے کام نہیں آسکتے۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْاَ نْعَام
اَلْاَ نْعَام
  00:00



Download

اَلْاَ نْعَام
اَلْاَ نْعَام
  00:00



Download