Surah Al-An'aam
{ وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ:اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ۔} جس جانور پر ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا اس کا کھانا حلال ہے، یہ بیان فرمانے کے بعد اب اس جانور کو کھانے سے منع کیا جا رہا ہے کہ جسے ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔ لہٰذا حکم یہ ہے کہ جس جانور پر مسلمان یا کتابی نے جان بوجھ کراللہ تعالیٰ کا نام ذکر نہ کیا وہ حرام ہے اور اگر بھول کر نام لینا رہ گیا تو حلال ہے اور مسلمان و کتابی کے علاوہ کسی دوسرے کا ذبح کیا ہوا مُطْلَقاً حرام ہے۔ یاد رہے کہ یہاں کتابی سے مراد وہ اہلِ کتاب ہیں جو اپنے نبی اور کتاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ محض نام کے عیسائی اور حقیقت میں دَہریہ مراد نہیں ہیں۔
{ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓـٕهِمْ:اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں۔} اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ شیطان اپنے دوستوں یعنی مشرکوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ مردار کھانے کے معاملے میں تم سے جھگڑا کریں جیسا کہ اوپر کافروں کا ایک اعتراض نقل کیا گیا ہے۔ مزید فرمایا گیا کہ اے مسلمانو! اگر تم نے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کو حلال کہنے میں ان کافروں کی بات مانی تو اس وقت تم بھی یقینا مشرک ہوگے کیونکہ دین میں حکمِ الٰہی کو چھوڑنا اور دوسرے کے حکم کو ماننا اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔
علم کے بغیر دینی مسائل میں جھگڑنا شیطانی لوگوں کا کام ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ’’ بغیر علم دینی مسائل میں جھگڑنا یا محض جھگڑے کی نیت سے مناظرہ کرنا شیطانی لوگوں کا کام ہے لیکن تحقیقِ حق کے لئے مناظرہ کرنا عبادت ہے۔
{ اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا:اور کیا وہ جو مردہ تھا۔} اس آیت میں مردہ سے کافر اور زندہ سے مومن مراد ہے کیونکہ کفر دلوں کے لئے موت جبکہ ایمان زندگی ہے اور نور سے ایمان مراد ہے جس کی بدولت آدمی کفر کی تاریکیوں سے نجات پاتا ہے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نور سے کتابُ اللہ یعنی قرآن مراد ہے۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۱۰۵)
کفر اور جہالت کی مثال
اس آیتِ کریمہ میں کفر اور جہالت کی مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ مومن اور کافر کا حال یہ ہے کہ ہدایت پانے والا مومن اُس مردہ کی طرح ہے جس نے زندگی پائی اور اس کو نور ملا جس سے وہ مقصود کی طرف راہ پاتا ہے اور کافر اس کی مثل ہے جو طرح طرح کی اندھیریوں میں گرفتار ہوا اور اُن سے نکل نہ سکے، ہمیشہ حیرت میں ہی مبتلا رہے۔ یہ دونوں مثالیں ہر مومن و کافر کے لئے عام ہیں اگرچہ اس کے شانِ نزول کے بارے میں روایتیں مختلف ہیں ، ان میں سے تین روایتیں درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے قول کے مطابق اس آیت کا شا نِ نزول یہ ہے کہ’’ ابوجہل نے ایک روز سیّدِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کوئی نجس چیز پھینکی ۔ اس دن حضرت امیر حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شکار کو گئے ہوئے تھے، جس وقت وہ ہاتھ میں کمان لئے ہوئے شکار سے واپس آئے تو انہیں اِس واقعہ کی خبر دی گئی، گو ابھی تک وہ دولتِ ایمان سے مشرف نہ ہوئے تھے لیکن یہ خبر سنتے ہی طیش میں آگئے اور ابوجہل کے پاس پہنچ کر اسے کمان سے مارنے لگے ۔ ابوجہل عاجزی اور خوشامد کرتے ہوئے کہنے لگا: اے ابویعلیٰ! کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیسا دین لائے اور اُنہوں نے ہمارے معبودوں کو برا کہا اور ہمارے باپ دادا کی مخالفت کی اور ہمیں بدعقل بتایا ہے۔ اس پر حضرت امیر حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’تم جیسا بدعقل کون ہے کہ تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کو چھوڑ کر پتھروں کو پوجتے پھر رہے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفٰے (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اللہ کے رسول ہیں۔اسی وقت حضرت امیر حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسلام لے آئے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
(2)…حضرت ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’یہ آیت حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاور ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی۔
(3)… حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’یہ آیت حضرت عمار بن یاسررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۵۲)
تو حضرت امیر حمزہ یا حضرت عمر یا حضرت عمار بن یاسررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور یونہی ہر ایمان لانے والے کا حال اس کے مشابہ ہے جو مردہ تھا ایمان نہ رکھتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کو روحِ ایمان عطا فرما کر زندہ کر دیا اور باطنی نور عطا فرمایا کہ جس کی روشنی میں وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے اور ابوجہل اور اس جیسوں کی حالت یہی ہے کہ وہ کفر وجہل کی تاریکیوں میں گرفتار ہے اور وہ ان تاریکیوں سے نکلنے والا بھی نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ گنہگار مومن اپنے گناہ کو اچھا نہیں سمجھتا اس لئے وہ مومن رہتا ہے لیکن کافر اپنی بد کرداریوں کو اچھا جانتا ہے اور ان پر ناز کرتا ہے اس لئے وہ لائقِ مغفرت نہیں۔
نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کی برکت:
حضرت امیر حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ والے واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت اور تائید و نصرت بہت خیروخوبی کا ذریعہ بنتی ہے جیسے یہاں ان کے لئے ایمان کی دولت حاصل کرنے کا ذریعہ بن گئی۔ اسی طرح حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :کسی آدمی نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں عرض کی: قیامت کب آئے گی؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’تم نے ا س کے لئے کیا تیار کر رکھا ہے؟ اس نے عرض کی: میرے پاس تو کوئی عمل نہیں سوائے ا س کے کہ میں اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے محبت رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’تم ان کے ساتھ ہو جن سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہمیں اتنا کسی چیزنے خوش نہیں کیا جتنا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اس فرمان نے کیا کہ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اور حضرت ابو بکر، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے محبت کرتا ہوں لہٰذا میں امیدوار ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں ان کے ساتھ رہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب مناقب عمر بن الخطاب۔۔۔ الخ، ۲ / ۵۲۷، الحدیث: ۳۶۸۸)
{ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا:اور اسی طرح ہم نے بنا دئیے۔} ارشاد فرمایا کہ جیسے کفارِ مکہ دیگر کافروں کے سردار ہیں ویسے ہی ہم نے ہر بستی میں اس بستی کے مجرموں کو ان کا سردار بنا دیا تاکہ اس بستی میں وہ اپنی سازشیں کریں اور طرح طرح کے حیلوں ، فریبوں اور مکاریوں سے لوگوں کو بہکانے اور باطل کو رواج دینے کی کوشش کریں۔ ان سے یہ افعال اس لئے سرزد ہوئے کہ یہ رئیس تھے اور اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ رہا ہے کہ’’ ا س نے ہر بستی میں غریب لوگوں کو رسولوں کی پیروی کرنے والا اور نافرمانوں کو بستی کا سردار بنایا۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۲ / ۵۳)
پیشواؤں کے بگڑنے کا نقصان اور سنبھلنے کا فائدہ:
ا س سے معلوم ہوا کہ قوم کے سرداروں کا بگڑنا قوم کو ہلاک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا‘‘ (بنی اسرائیل:۱۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں توہم اس کے خوشحال لوگوں کو (اپنے رسولوں کے ذریعے اپنی اطاعت کا)حکم دیتے ہیں پھر وہ لوگ اس بستی میں نافرمانی کرتے ہیں تو اس بستی پر (عذابِ الٰہی کی) بات پکی ہوجاتی ہے تو ہم اسے تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔
اسی طرح پیشواؤں کا سنبھل جانا قوم کو سنبھالا دینا ہے۔
{ لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا:تاکہ اس میں وہ اپنی سازشیں کریں۔} مکہ مکرمہ آنے والے ہر راستے پر کفارِ مکہ نے چار چار افراد بٹھا دئیے تاکہ وہ لوگوں کو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ایمان لانے سے روکیں ، چنانچہ جو شخص بھی مکہ میں حاضر ہوتا یہ لوگ اس سے کہتے کہ ’’تم اس شخص سے بچنا یہ کاہن، ساحر اور کذاب ہے۔ ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ درحقیقت یہ صرف اپنے خلاف سازشیں کررہے ہیں ، ان سازشوں کا وبال انہی پر پڑے گا اور انہیں اس کا شعور نہیں۔ (بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۲ / ۱۰۶)
اس آیت میں سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ سردارانِ مکہ کی دشمنی سے پریشاننہ ہوں، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے پہلے جو انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامگزرے وہ جس شہر میں مبعوث ہوئے وہاں کے سرداروں نے ان کی اسی طرح مخالفت کی تھی۔ (البحر المحیط، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۴ / ۲۱۷)
{ وَ اِذَا جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ:اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آئے۔} شانِ نزول: ولید بن مغیرہ نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے کہا: ’’ اگر نبوت حق ہے تو میں آپ سے زیادہ اس کا مستحق ہوں کیونکہ میں عمر میں بڑا ہوں اور آپ سے زیادہ مالدار ہوں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ،ابو جہل نے کہا کہ’’ہم نے عبدِ مناف کی اولاد سے سرداری میں مزاحمت کی۔ اور اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی ہے جس کی طرف وحی نازل ہوتی ہے۔ اللہ کی قسم! ہم اس پر ایمان لائیں گے نہ کبھی اس کی پیروی کریں گے یہاں تک کہ ہمارے پاس بھی ویسے ہی وحی آئے جیسے اس کے پاس آتی ہے۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۲ / ۱۰۶)
عقیدۂ نبوت کے بارے میں چند اہم باتیں :
اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کا چناؤ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے ۔ اعمال، قومیت یا مال کی وجہ سے نبوت نہیں ملتی۔ عقیدۂ نبوت سے متعلق چند اہم باتیں یاد رکھنے کی ہیں :
(1)…نبوت کسبی نہیں کہ آدمی عبادت و ریاضت کے ذریعے کوشش کر کے اسے حاصل کر سکے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے کہ جسے چاہتا ہے اسے اپنے فضل سے نبوت عطا فرماتا ہے، ہاں دیتا اسی کو ہے جسے اس عظیم منصب کے قابل بناتا ہے، جو نبوت کا منصب ملنے سے پہلے ہر طرح کے برے اور مذموم اخلاق سے پاک اور اچھے اور قابلِ تعریف تمام اخلاق سے مزین ہو کر ولایت کے جملہ مَدارج طے کر چکتا ہے، اور اپنے نسب و جسم، قول وفعل، حرکات و سکنات میں ہرایسی بات سے پاک و صاف ہوتا ہے جو باعثِ نفرت ہو، اُسے عقلِ کامل عطا کی جاتی ہے، جو اوروں کی عقل سے بدرجہا زائد ہے، کسی حکیم اور کسی فلسفی کی عقل اُس کے لاکھویں حصہ تک نہیں پہنچ سکتی۔ اور جو اِسے کسبی مانے کہ آدمی اپنے کسب و ریاضت سے منصب ِنبوت تک پہنچ سکتا ہے، کافر ہے۔
(2)… جو شخص نبی سے نبوت کا زوال ممکن مانے وہ کافر ہے۔
(3)… نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور فرشتے کا خاصہ ہے کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ اماموں کو انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے۔عصمتِ انبیاء کے یہ معنی ہیں کہ اُن کے لیے اللہتعالیٰ کی طرف سے حفاظت کا وعدہ ہو چکا، جس کے سبب اُن سے گناہ کاصادر ہونا شرعاً محال ہے، جبکہ ائمہ و اکابر اولیا کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کا کوئی وعدہ نہیں ، ہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ اُنھیں محفوظ رکھتا ہے کہ اُن سے گناہ ہوتا نہیں اور اگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں۔
(4) انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شرک و کفر اور ہر ایسے کام سے جو لوگوں کے لیے باعثِ نفرت ہو، جیسے جھوٹ ، خیانت اور جہل وغیرہ مذموم صفات سے، نیز ایسے افعال سے جو وجاہت اور مُروّت کے خلاف ہیں ، نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد بالاجماع معصوم ہیں اور کبیرہ گناہوں سے بھی مطلقاً معصوم ہیں اور حق یہ ہے کہ جان بوجھ کر صغیرہ گناہ کرنے سے بھی نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد معصوم ہیں۔(بہار شریعت، حصہ اول، عقائد متعلقۂ نبوت، ۱ / ۳۶-۳۹، ملخصاً)
نوٹ:مزید تفصیل کے لئے بہار شریعت جلد 1کے پہلے حصے کا مطالعہ کیجئے۔
{ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ:اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے۔}یعنی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ رسالت کا مستحق کون ہے کہ اسے یہ شرفِ عظیم عطا فرمائے اور اسے بھی خوب جانتا ہے جو اس کا مستحق نہیں ،اور اے کفارِ مکہ! تم ا س لائق ہی نہیں کہ تمہیں نبوت جیسے عظیم مرتبہ سے نوازا جائے اور نہ ہی نبوت مطالبہ کرنے پر ملتی ہے خصوصاً وہ شخص کہ جو حسد، دھوکہ، بدعہدی وغیرہ برے افعال اور گھٹیا اوصاف میں مبتلا ہو، نبوت جیسے منصبِ عالی کے لائق کیسے ہو سکتا ہے۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۲ / ۵۳)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں نظر فرمائی تو سب کے دلوں سے بہتر محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دل کو پایا تو انہیں اپنے لئے چن لیا اور اپنی رسالت کے ساتھ انہیں مبعوث فرمایا۔محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں میں نظر فرمائی تو ان کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دلوں کو دیگر لوگوں کے دلوں سے بہتر پایا تو انہیں اپنے نبی کا وزیر بنادیا، یہ لوگ ان کے دین کی حمایت میں جنگ کرتے ہیں۔ پس جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جسے مسلمان برا سمجھیں تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بھی بری ہے۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ، ۲ / ۱۶، الحدیث: ۳۶۰۰)
{ فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ:اور جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے۔} اللہ تعالیٰ نے ازل سے ہی اپنی مخلوق کی دو قسمیں بنائیں (1) شقی(2) سعید، اور ہر ایک کیلئے نشانی بنائی کہ جس سے اس کی پہچان ہو۔ سعادت کی نشانی اسلام کے لئے سینہ کھلنا اور ایمان قبول کرنا جبکہ شقاوت کی نشانی سینہ کی تنگی اور اسلام قبول نہ کرناہے۔ اور ہر گروہ کے لئے آخرت میں ایک گھر بنایا جس میں وہ لوگ رہیں گے۔ سعادت مند جنت اور اس کی نعمتوں میں رہیں گے اور شقاوت والوں کو جہنم کی آگ میں رہنا اور اس کا عذاب سہنا پڑے گا۔ حدیث میں ہے ’’اللہ تعالیٰ نے ایک مخلوق کو پیدا فرمایا اور ارشاد فرمایا: یہ جنت کے لئے ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ، اور ایک مخلوق کو پید افرمایا اور فرمایا: یہ جہنم کے لئے ہیں اور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی مخلوق کی نشانی بیان فرمائی ہے،لہٰذا جب اللہ تعالیٰ بندے کو شرحِ صدر کی توفیق دے اور اسے حلاوتِ ایمان سے بھر دے تو وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے عظیم نعمت عطا فرمائی ہے۔ (صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۲ / ۶۲۷)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جسے جنت کے لیے پیدا کیا گیا اس کے لیے عبادت کے اسباب آسان کردیئے جاتے ہیں اور جسے جہنم کے لیے پیدا کیا گیا اس کے لیے گناہ کے اسباب آسان کردیئے جاتے ہیں اور اس کے دل میں شیطان کا حکم مُسلَّط کیا جاتا ہے کیونکہ وہ طرح طرح کی باتوں سے بیوقوف لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمت والا ہے لہٰذا تمہیں کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، تمام لوگ اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے لہٰذا تم ان کی مخالفت نہ کرو، زندگی بہت طویل ہے لہٰذا انتظار کرو کل توبہ کرلینا، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْؕ-وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا ‘‘(نساء :۱۲۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان:شیطان انہیں وعدے دیتا ہے اور آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انہیں صرف فریب کے وعدے دیتا ہے۔
یعنی وہ ان کو توبہ کا وعدہ دیتا اور مغفرت کی تمنا دلاتا ہے اور ان حیلوں سے اِذنِ خداوندی سے ان کوہلاک کردیتا ہے، اس کے دل کو دھوکے کی قبولیت کے لیے کشادہ اور قبولِ حق سے تنگ کردیتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قضا اور تقدیر سے ہوتا ہے۔ ہدایت و گمراہی کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، وہ جو چاہے کرتا ہے اور جو ارادہ فرمائے حکم دیتا ہے اس کے حکم کو کوئی رد نہیں کرسکتا اور نہ کوئی اس کے فیصلے کو مؤخر کرسکتا ہے اس نے جنت اور اہلِ جنت کو پیدا کیا اور ان کو عبادت پر لگایا نیز جہنم اور اہلِ جہنم کو پید اکیا اور ان کو گناہوں پر لگادیا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب شرح عجائب القلب، بیان سرعۃ تقلب القلب۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۹)
سینہ کھلنے سے کیا مراد ہے؟
شرح کا اصلی معنی ہے ’’وسیع کرنا‘‘ جبکہ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے دل میں روشنی پیدا فرماتا ہے یہاں تک کہ اس کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو جاتا ہے۔ (صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۲ / ۶۲۷)
جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: اس کھولنے سے کیا مراد ہے؟ا رشاد فرمایا: ’’ اس سے مراد وہ نور ہے جو مومن کے دل میں ڈالا جاتا ہے جس سے اس کا دل کھل جاتا ہے۔ عرض کی گئی: کیا اس کی کوئی نشانی ہے جس سے اس کی پہچان ہو سکے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہاں ، (اس کی تین علامتیں ہیں ) (1)آخرت کی طرف رغبت(2) دنیا سے نفرت ، اور (3) موت سے پہلے اس کی تیاری۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، ما ذکر عن نبینا صلی اللہ علیہ وسلم فی الزہد، ۸ / ۱۲۶، الحدیث: ۱۴)
{ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ:اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے۔} جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا سینہ تنگ، بہت ہی تنگ کردیتا ہے کہ اس میں علم اور دلائلِ توحید و ایمان کی گنجائش نہ رہے، تو اس کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ جب اس کو ایمان کی دعوت دی جاتی ہے اور اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اس پر نہایت شاق ہوتا ہے اور اس کو بہت دشوار معلوم ہوتا ہیگویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔
سینے کی تنگی کی علامت:
اس سے معلوم ہوا کہ دینی کام بھاری معلوم ہونا اور دنیاوی کام آسان محسوس ہونا، سینے کی تنگی کی علامت ہے اور سینے کی تنگی یہ ہے کہ اسباب ِ کفرجمع ہو جائیں اور اسلام کے اسباب نہ مہیا ہو سکیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے محفوظ فرمائے۔ بعض پر ایمان بھاری ہوتا ہے، بعض پر نیک اعمال بھاری اور بعض پر عشق اور وجدان بھاری ہے۔ خیال رہے کہ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بندہ کفر کرنے پر مجبور ہے بلکہ وہ جو کفر و سرکشی کرتا ہے وہ اپنے اختیار سے کرتا ہے اور آدمی کی بد کرداریوں سے دل میں یہ حال پیدا ہوتا ہے جیسے لوہا زنگ لگ کر بیکار ہو جاتا ہے اسی طرح گناہوں کی وجہ سے دل زنگ آلود ہو کر حق قبول کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔
{ وَ هٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیْمًا:اور یہ تمہارے رب کی سیدھی راہ ہے۔} یعنی قرآنِ کریم یاحضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیم وہ راستہ ہے جو بلا تَکَلُّف رب عَزَّوَجَلَّ تک پہنچا دیتا ہے جیسے سیدھا راستہ منزلِ مقصود تک پہنچاتا ہے اس لئے اسے’’شریعت ‘‘کہتے ہیں یعنی وسیع اور سیدھا راستہ جس پر ہر شخص آسانی سے چل سکے۔ طریقت بھی رب عَزَّوَجَلَّ کا راستہ ہے مگر وہ ایسا تنگ اور پیچ دار ہے جس پر صرف واقف آدمی ہی چل سکتا ہے۔
{ لَهُمْ دَارُ السَّلٰمِ:ان کیلئے سلامتی کا گھر ہے۔} دارُالسلام کے دو معنی ہیں (1) سلام اللہ تعالی کا نام ہے، تو ’’دار السلام‘‘ کا معنی ہوا وہ گھر جس کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور یہ اضافت تشریف اور عزت افزائی کے لئے ہے جیسے بَیْتُ اللہ اور نَاقَۃُ اللہ میں ہے۔ (2) اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ’’ سلام‘‘ دار کی صفت ہے یعنی یہ سلامتی کا گھر ہے اور جنت کو ’’ دارُالسلام‘‘ اس لئے فرمایا ہے کہ جنت میں ہر قسم کے عیوب، تکلیفوں اور مشقتوں سے سلامتی ہے۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۵ / ۱۴۶) جنت کو دارُ السلام کہنے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ جنتیوں کو جنت میں دخول کے وقت سلام کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے، فرشتوں کی طرف سے اور اہلِ اعراف کی طرف سے ان کو سلام پیش کیا جائے گا اور جنتی بھی ایک دوسرے کو سلام کریں گے ۔ (بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۲ / ۱۰۷)
{ وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًاۚ-یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ:اور جس دن وہ اُن سب کواٹھائے گا اور فرمائے گا اے جنوں کے گروہ!۔} قیامت میں اولاً سب اکٹھے ہوں گے اس لئے اسے’’ حشر‘‘ کہتے ہیں ، بعد میں اچھے بروں کی چھانٹ ہو جائے گی اس لئے اسے’’ یَوْمُ الْفَصْل‘‘ کہا جاتا ہے۔ سب کو اٹھانے سے مراد یا یہ ہے کہ مومن و کافر کو اکٹھا اٹھائے گایا انسان و جن کو اکٹھااٹھائے گایا سعید و شقی کو اکٹھا اٹھائے گا۔ اس آیت میں ان سرکش جِنّات سے خطاب ہے جنہوں نے بہت سے انسانوں کو بہکایا جبکہ مومن جنات تو اللہ تعالی ٰکی رحمت میں ہوں گے۔
{ وَ قَالَ اَوْلِیٰٓؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ:اور انسانوں میں سے ان کے دوست کہیں گے۔} انسانوں میں سے جو جنات کے دوست ہوں گے اور دونوں نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا ہو گا اس طرح کہ’’ جنات نے انسانوں کوبرے راستے دکھائے اور بدعملیوں کو ان کے لئے آسان کیا اور جنات نے انسانوں سے اس طرح فائدہ اٹھایا کہ’’ انسانوں نے ان کی پوجا کی اور ان کے مطیع و فرماں بردار بنے۔ وہ حسرت سے کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا اور افسوس کہ آج ہم اپنی اس مدت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر فرمائی تھی۔ ہائے وقت گزر گیا اور قیامت کا دن آگیا اب صرف حسرت و ندامت ہی باقی رہ گئی ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرشتوں کی زبانی ان سے فرمائے گا: آگ تمہارا ٹھکانا ہے، تم ہمیشہ اس میں رہو گے۔
{ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ:مگر جسے خدا چاہے۔} اِس استثناء کے دو معنی ہیں (1) وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے لیکن قبر سے حشر تک کے زمانے اور میدانِ حشر میں حساب کتاب سے لے کر جہنم میں داخل ہونے تک جہنم میں نہ رہیں گے۔ (2) اس سے مراد وہ اوقات ہیں جن میں انہیں ایک عذاب سے دوسرے عذاب میں منتقل کیا جائے گا، جہنمی جب دوزخ کی آگ کی شدت سے فریاد کریں گے تو انہیں زَمْھَرِیرْ یعنی سخت ٹھنڈے اور برفانی طبقے میں ڈال دیا جائے گا اور جب زَمْھَرِیرْ کی ٹھنڈک سے گھبرا کر فریاد کریں گے تو انہیں پھر نارِ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ جمہور مفسرین نے حضرت عبدُاللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ بھی نقل کی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں رب تعالیٰ کے علم میں ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا اور نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تصدیق کی، تو انہیں آگ سے نکال لیا جائے گا۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۲ / ۵۶)
{ وَ كَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًا:اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں۔} یعنی جس طرح ہم نے جنوں اور انسانو ں کو رسوا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا اسی طرح ہم ظالموں میں سے ایک کو دوسرے پر ان کے اعمال کی وجہ سے مسلط کردیتے ہیں اور ظالم کی ظالم کے ذریعے پکڑ فرماتے ہیں۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۳ / ۱۰۴)
ظلم کرنے والوں کو عبرت انگیز نصیحت:
اس آیتِ مبارکہ میں ظلم کرنے والوں کے لئے بڑی نصیحت ہے، چنانچہ حضرت ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت میں ظلم کرنے والوں کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر وہ اپنے ظلم سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ ان پر دوسرا ظالم مسلط کر دے گا جو انہیں ذلیل و خوار اور تباہ و برباد کر دے گا۔ اس آیت میں ہر قسم کے ظالم داخل ہیں ، وہ شخص جو گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کرتا ہے، جو حاکم یا افسر اپنی رعایا اور ماتحت لوگوں پر ظلم کرتا ہے، جو تاجر جعلی اشیاء اور ملاوٹ والی چیزیں فروخت کر کے خریداروں پر ظلم کرتا ہے، اسی طرح جو چور اور ڈاکو مسافروں اور شہریوں سے لوٹ مار کر کے ان پر ظلم کرتے ہیں یہ سب ظالم کی صف میں شامل ہیں ، ان تمام پر اللہ تعالیٰ کوئی ان سے بڑا ظالم مسلط کر دیتا ہے۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۴ / ۶۲، الجزء السابع)
حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی قوم کی بھلائی چاہتا ہے تو اچھوں کو ان پر مقرر کرتا ہے اور کسی سے برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو بروں کو ان پر مقرر فرماتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جو قوم ظالم ہوتی ہے اس پر ظالم بادشاہ مقرر کیا جاتا ہے تو جو اس ظالم کے پنجۂ ظلم سے رہائی چاہیں انہیں چاہئے کہ ظلم چھوڑ دیں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۲ / ۵۶)
لہٰذاایسے حضرات کو چاہئے کہ درج ذیل روایات اور ایک قول کا بغور مطالعہ کر کے عبرت حاصل کریں اوراللہ ربُّ العالمین کی بارگاہ میں اپنے ظلم سے سچی توبہ کر کے مظلوموں سے معافی کی کوئی صورت بنائیں۔
(1)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، خدا کی قسم! جو مومن دوسرے مومن پر ظلم کرے گا توقیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ اس ظالم سے انتقام لے گا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الظلم والغضب، ۲ / ۲۰۲، الحدیث: ۷۶۲۱، الجزء الثالث)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’جس نے کسی ظالم کی اس کے ظلم پر مدد کی وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔( مسند الفردوس، باب المیم، ۳ / ۵۸۳، الحدیث: ۵۸۲۳)
(3)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حقدار کو اس کے حق سے منع نہیں کرتا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الظلم والغضب، ۲ / ۲۰۰، الحدیث: ۷۵۹۴، الجزء الثالث)
(4)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو ظالم کی مدد کرے گا اللہ تعالیٰ اسی ظالم کو اس پر مسلط کر دے گا۔ (ابن عساکر، حرف البائ، ذکر من اسمہ عبد الباقی،۳۴ / ۴)
(5)… حضرت فضیل بن عیاض رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب تو ایک ظالم کودوسرے ظالم سے انتقام لیتا ہوا دیکھے تو پھر ٹھہر جا اور تعجب سے یہ تماشا دیکھ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۴ / ۶۲، الجزء السابع)۔ [1]
[1] …ظلم سے متعلق نصیحت انگیز معلومات حاصل کرنے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’ظلم کا انجام‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا بہت مفید ہے۔
{ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ:اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ!۔} اس آیتِ مبارکہ میں جنات اور انسان دونوں سے خطاب ہوا کہ اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تمہیں میری آیتیں پڑھ پڑھ کے سناتے تھے اور تمہیں اس دن یعنی روزِ قیامت کی حاضری اور عذابِ الٰہی سے ڈراتے تھے؟ کافر جن اور انسان اقرار کریں گے کہ رسول اُن کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے زبانی پیام پہنچایا اور اس دن کے پیش آنے والے حالات کا خوف دلایا لیکن کافروں نے اُن کی تکذیب کی اور اُن پر ایمان نہ لائے، انہیں در اصل دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا۔ کفار کا یہ اقرار اس وقت ہوگا جب کہ اُن کے اعضاء و جوارح ان کے شرک و کفر کی گواہی دیں گے۔
رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے متعلق اہم مسئلہ:
رسول صرف انسانوں میں سے ہوتے ہیں جنات سے نہیں۔ چونکہ یہاں جن و انس دونوں سے خطاب ہے اس لئے تَغْلِیْبًا یعنی جنوں کو انسانوں کے ماتحت شمار کرتے ہوئے مِنْکُمْ فرمایا گیا۔ بہرحال اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جنات میں نبی آئے، ہاں جنات کے لئے نبی آئے مگر وہ انسان تھے۔
{ وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ:اوروہ خود اپنی جانوں کے خلاف گواہی دیں گے۔}قیامت کا دن بہت طویل ہوگا اور اس میں حالات بہت مختلف پیش آئیں گے جب کفار مومنین کے انعام و اکرام اور عزت و منزلت کو دیکھیں گے تو اپنے کفرو شرک سے انکار کر دیں گے اور اس خیال سے کہ شاید مکر جانے سے کچھ کام بن جائے ، یہ کہیں گے ’’ وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ‘‘ یعنی خدا کی قسم !ہم مشرک نہ تھے۔ اس وقت ان کے مونہوں پر مہریں لگادی جائیں گی اور اُن کے اعضاء ان کے کفر و شرک کی گواہی دیں گے، اسی کی نسبت اس آیت میں ارشاد ہوا۔ ’’ وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ‘‘ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۲ / ۵۷)
{ ذٰلِكَ:یہ۔} تفسیرِ خازن، بغوی، تفسیرِ کبیر، بیضاوی،البحر المحیط،تفسیرِ طبری، مدارک، جلالین، روح البیان، روح المعانی وغیرہ کتبِ تفسیر میں ’’ذٰلِكَ‘‘کا مشارالیہ’’ رسولوں کا بھیجنا اور ان کا کفار کو عذابِ الٰہی سے ڈرانا ‘‘مذکور ہے۔ تفسیرِ خازن میں اسے جمہور مفسرین کا قول قرار دیا گیا اورا سے ہی اصح کہا گیا۔ تفسیر البحر المحیط میں اس کے علاوہ دو قول اور مذکور ہیں (1) مشار الیہ پچھلی آیت میں مذکور سوال ہے۔ (2) کفار کا جھٹلانا اور گناہوں میں مبتلا ہونا۔ ان دونوں اقوال کو صاحب تفسیر البحر المحیط نے درست قرار نہیں دیا البتہ تفسیر ابو سعود میں اس کا مشار الیہ کفار کا اعتراف و اقرار مذکور ہے اور صاحب روح المعانی نے پہلے جمہور مفسرین والا قول ذکر کیا اس کے بعد قیل کہہ کے کفار کے اعتراف والا قول ذکر کیا ہے، تفسیرِ سمرقندی میں بھی یہ قول مذکور ہے۔
{ ذٰلِكَ:یہ۔} یعنی یہ اس لیے ہے کہ رب تعالیٰ بستیوں کوان کی معصیت اور ظلم کی وجہ سے تباہ نہیں کرتا جبکہ ان کے لوگ بے خبر ہوں بلکہ عذاب سے پہلے رسول بھیجے جاتے ہیں جو انہیں ہدایت فرماتے اور ان پر حجت قائم کرتے ہیں ، اس پر بھی وہ سرکشی کریں تو ہلاک کر دئیے جاتے ہیں۔ لہٰذا قیامت میں حساب کتاب، سوال جواب رب تعالیٰ کی بے علمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ جیسے دنیا میں بے خبروں پر عذاب نہیں ایسے ہی آخرت میں بھی نہیں، مجرموں کو بتا کر، اعمال نامہ دکھا کر عذاب دیا جائے گا۔اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ بد عملی کے بغیر عذاب نہیں بھیجتا ۔ دوسرا یہ کہ نبی کی تبلیغ پہنچے بغیر کسی کو بد عملیوں کی سزا نہیں مل سکتی۔
{ وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ:اور ہر ایک کے لیے درجے ہیں۔} ہر ایک کے لیے چاہے وہ نیک ہو یا گنہگار اس کے اچھے اور برے اعمال کے اعتبار سے درجے ہیں اور انہی کے مطابق ثواب ا ور عذاب ہوگا۔ جنتیوں کو جنت میں ان کے نیک اعمال کے مطابق درجے دئیے جائیں گے، ایسے ہی جہنمیوں کو جہنم میں ان کے برے اعمال کے مطابق مختلف درجوں میں سزا دی جائے گی یا یہ مطلب ہے کہ نیک اعمال کے درجے مختلف ہیں۔ ایک ہی عمل ایک شخص کے لئے زیادہ ثواب کا باعث ہے اوردوسرے کے لئے کم ثواب کا۔ حدیث شریف میں ہے کہ’’ قیامت میں اعمال کا بدلہ عقل کے بَقدر ملے گا۔ (معجم الاوسط، باب الباء، من اسمہ بشر، ۲ / ۲۱۵، الحدیث: ۳۰۵۷)
لہٰذا اس آیت سے ہزارہا مسائل مُسْتَنْبَط ہو سکتے ہیں۔ عمل کا صلہ جگہ، وقت، موقعہ اور ضرورت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے، جیسے جہاں مسجدیں بہت زیادہ ہوں اور کنوئیں کم ہوں وہاں مسجد کی بجائے کنواں بنوانا زیادہ اچھا ہے۔ اس آیت سے علماء نے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ جنات بھی جنت میں جائیں گے کیونکہ یہاں سب کیلئے ’’دَرَجٰتٌ‘‘ فرمایا گیا ہے اور ’’كُل‘‘میں جنات بھی داخل ہیں۔(تفسیر قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۴ / ۶۳، الجزء السابع)
{ وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ:اور اے حبیب! تمہارا رب بے پروا ہے، رحمت والا ہے۔} اس آیت سے یہ درس بھی ہوسکتا ہے کہ اے لوگو! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں جو ایمان اور اعمالِ صالحہ کی دعوت دیتا ہے اور کفر و شرک اور بد اعمالیوں سے منع فرماتا ہے تو یہ نہ سمجھو کہ اِس میں اُس کا کوئی فائدہ ہے بلکہ وہ تو غنی ہے، اسے کسی کی کوئی حاجت نہیں البتہ چونکہ وہ رحمت والا ہے اس لئے وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے اور تمہیں تمہارے بھلے کی باتیں بتاتا ہے ورنہ اگروہ چاہے تو تم سب کو فنا کردے اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے جیسے بہت سی قوموں کو اس نے فنا کردیا یا جیسے تم دوسروں کے بعد اس دنیا میں آئے اسی طرح تمہارے بعد دوسرے آجائیں گے تو اس دنیوی زندگی اور مال و متاع پر غرور نہ کرو۔
{ اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ:بیشک جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے چاہے وہ قیامت ہو یا مرنے کے بعد اُٹھنا یا حساب یا ثواب و عذاب۔ یہ سب چیزیں ضرور آئیں گی مگر اپنے وقت پر، تم دیر سے دھوکہ مت کھاؤ بلکہ اس سے بچنے کے اسباب جمع کرو کیونکہ نہ ہم مجبور ہیں نہ جھوٹی خبر دینے والے اور نہ تم طاقت ور کہ ہم سے مقابلہ کر کے بچ سکو لہٰذا مقابلہ نہ کرو بلکہ خوف کرو۔
موت سے غافل رہنے والوں کو نصیحت:
اس آیتِ کریمہ میں موت سے غافل رہنے والوں کے لئے بھی بہت عبرت ہے کیونکہ ہر انسان سے موت کا وعدہ بھی کیا گیا ہے اور یہ بہر صورت آکر ہی رہے گی۔ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور دیگر بزرگانِ دین رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ موت کو بکثرت یاد کیا کرتے اور لوگوں کو اس کی یاد دلایا کرتے تھے ، چنانچہ
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جب میں اپنی آنکھیں جھپکتا ہوں تو مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ میری پلکیں ملنے سے پہلے میری روح قبض کر لی جائے گی۔ میں جب نظر اٹھاتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ نظر نیچی کرنے سے پہلے میرا وصال ہو جائے گا،میں جب کوئی لقمہ منہ میں ڈالتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ لقمہ گلے سے اترتے وقت میرے لئے موت کا سبب بن جائے گا۔اے آدم کی اولاد!اگر تم عقل رکھتے ہو تو اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کرو۔ اس ذات کی قسم !جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ’’اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍۙ-وَّ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ‘‘بیشک جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور آنے والی ہے اور تم (اللہ عَزَّوَجَلَّ) کو عاجز نہیں کرسکتے۔(در منثور، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۴،۳ / ۳۶۱-۳۶۲، شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۵۵، الحدیث: ۱۰۵۶۴)
حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے ’’کہاں گئے وہ لوگ جن کے چہرے خوبصورت تھے اور چمکتے تھے اور وہ اپنی جوانیوں پر فخر کرتے تھے؟ کہاں ہیں وہ بادشاہ جنہوں نے شہر تعمیر کئے اور ان کے گرد دیواریں بنا کر ان کو محفوظ کیا؟ کہاں ہیں وہ جو لڑائی کے میدان میں غالب آتے تھے؟ زمانے نے انہیں کمزور اور ذلیل کردیا اور وہ قبروں کی تاریکیوں میں چلے گئے، جلدی جلدی کرو اور نجات تلاش کرو ،نجات تلاش کرو۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل وفضیلۃ قصر الامل۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۱)
حضرت سمیط رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’اے اپنی طویل صحت پر دھوکے میں مبتلا شخص! کیا تونے کسی کو بیماری کے بغیر مرتے ہوئے نہیں دیکھا؟ اے وہ شخص! جو طویل مہلت کی وجہ سے دھوکے میں ہے! کیا تو نے کسی کو سامان کے بغیر گرفتار نہیں دیکھا؟ اگر تو اپنی عمر کی طوالت کے بارے میں سوچے تو سابقہ لذتیں بھول جائے، تم لوگ صحت کے دھوکے میں ہو یا عافیت کے دھوکے میں ، زیادہ دن گزارنے پر اکڑتے ہو یا موت سے بے خوف ہو یا موت کے فرشتے پر تمہیں جرأت ہے، بے شک جب موت کا فرشتہ آئے گا تو تمہاری مالی ثَروت اور تمہاری جماعت تمہیں نہیں بچاسکے گی، کیا تم نہیں جانتے کہ موت کی گھڑی سختیوں اور ندامت کی گھڑی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو موت کے بعد کے لیے عمل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو موت کے آنے سے پہلے اپنے نفس کو ترس کی نگاہ سے دیکھے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل وفضیلۃ قصر الامل۔۔۔ الخ، ۵ / ۱۹۹)
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی موت کو یاد رکھے اور موت کے بعد کے لئے تیاری کرتا رہے۔ اٰمین([1])
[1] …اپنے دل میں موت کی یاد مضبوط کرنے کے لئے کتاب’’موت کا تصور‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا فائدہ مند ہے۔
{ اِعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ:تم اپنی جگہ پر عمل کرتے رہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ سے فرما دیں کہ تم اپنی مرضی سے وہی اعمال کرتے رہو جو کر رہے ہو اور اپنے کفر و سرکشی پر قائم رہو جبکہ میں تمہاری طرف سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کر کے، اسلام پر قائم رہ کر اور نیک اعمال پر ہمیشگی اختیار کر کے اپنا کام کرتا ہوں تو عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ آخرت کے گھر کا اچھا انجام کس کے لئے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر و شرک کرنے والے فلاح نہیں پاتے۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۵، ۳ / ۱۰۸)
یاد رہے کہ اس آیت میں جو فرمایا گیا کہ ’’تم اپنی جگہ پر عمل کرتے رہو‘‘ اس میں کفر یا گناہ کی اجازت نہیں بلکہ اظہارِ غضب کے لئے ا س طرح فرمایا گیا، جیسے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْ‘‘ (الکہف:۲۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔
اور یہ جو فرمایا گیا کہ’’ عنقریب تم جان لو گے کہ آخرت کے گھر کا اچھاانجام کس کے لئے ہے؟‘‘ ا س سے مراد یہ ہے کہ اگرچہ آج بھی فیصلہ ہو چکا کہ مومن جنتی ہے اور کافر دوزخی لیکن چشم دید فیصلہ قیامت میں ہو گا یا عذاب آتے وقت ہوگا۔
{ وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ:اور اللہ کے لئے قرار دیتے ہیں۔} کفارِ عرب اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بڑا معبود اور بتوں کو چھوٹا معبود سمجھ کر دونوں کی بدنی اور مالی پوجا کیا کرتے تھے۔ یہاں ان کی مالی پوجا کا ذکر ہو رہا ہے چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں مشرکین کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی کھیتیوں اور درختوں کے پھلوں اور چوپایوں اور تمام مالوں میں سے ایک حِصّہ تواللہ عَزَّوَجَلَّ کا مقرر کرتے تھے اور ایک حصہ بتوں کا، تو جو حصہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے لئے مقرر کرتے اسے مہمانوں اور مسکینوں پر صرف کردیتے تھے اور جو بتوں کے لئے مقرر کرتے تھے وہ خاص بتوں پر اور ان کے خادموں پر صرف کرتے اور جو حصّہاللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے مقرر کرتے اس میں سے اگرکچھ بتوں والے حصہ میں مل جاتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر بتوں والے حصہ میں سے کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے مقرر کردہ حصے میں ملتا تو اس کو نکال کر پھر بتوں ہی کے حصہ میں شامل کردیتے ۔ اس آیت میں ان کی اس جہالت اور بدعقلی کا ذکر فرماکر اس پر تنبیہ فرمائی گئی۔
{ سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ:کتنا برا یہ فیصلہ کرتے ہیں۔} یعنی کفار انتہا درجے کی جہالت میں گرفتار ہیں کہ خالقِ حقیقی اور مُنْعِمِ حقیقی کے عزت و جلال کی انہیں ذرا بھی معرفت نہیں جبکہ ان کی عقل کا فساد اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اُنہوں نے بے جان بتوں اور پتھروں کی تصویروں کو کار سازِ عالم کے برابر کردیا اور جیسا اس خالق و مالک عَزَّوَجَلَّکے لئے حصہ مقرر کیا ایسا ہی بتوں کے لئے بھی کیا۔ بے شک یہ بہت ہی برا فعل اور انتہا کا جہل اور عظیم خطا و ضلال ہے۔ اگلی آیت میں اُن کے جہل اور ضلالت کی ایک اور حالت ذکر فرمائی گئی ہے ۔
{ وَ كَذٰلِكَ زَیَّنَ:یوں ہی عمدہ کر دکھایا۔} اس آیت میں کفار کی دوسری جہالت بیان ہوئی چنانچہ فرمایا کہ یوں ہی بہت سے مشرکوں کی نگاہ میں ان کے شریکوں نے اولاد کا قتل عمدہ کر دکھایا ہے۔ یہاں شریکوں سے مراد وہ شیاطین ہیں جن کی اطاعت کے شوق میں مشرکین اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی معصیت گوارا کرتے تھے اور ایسے قبیح اور جاہلانہ اَفعال کے مُرتکب ہوتے تھے کہ جن کو عقلِ صحیح کبھی گوار انہ کرسکے اور جن کی قباحت میں ادنیٰ سمجھ کے آدمی کو بھی تَرَدُّد نہ ہو۔ بت پرستی کی شامت سے وہ ایسے فسادِ عقل میں مبتلا ہوئے کہ حیوانوں سے بدتر ہوگئے اور اولاد جس کے ساتھ ہر جاندار کو فطرۃً محبت ہوتی ہے شیاطین کے اتباع میں اس کا بے گناہ خون کرنا اُنہوں نے گوارا کیا اور اس کو اچھا سمجھنے لگے۔ خلاصہ یہ کہ انہوں نے اولاد میں بھی ایسی ہی تقسیم کر رکھی تھی کہ لڑکے کو زندہ رکھتے اور لڑکی کو قتل کر دیتے۔ شیطانوں نے یہ سب اس لئے کیا تاکہ وہ انہیں ہلاک کریں اور ان کا دین اُن پر مشتبہ کردیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ یہ لوگ پہلے حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے دین پر تھے شیاطین نے اُن کو اغوا کرکے ان گمراہیوں میں ڈالا تاکہ انہیں دینِ اسماعیلی سے مُنْحَرِف کریں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ۲ / ۶۰)
اہلِ عرب میں شرک و بت پرستی کی ابتداء کب ہوئی؟
علامہ برہان الدین حلبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ اہلِ عرب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے زمانہ سے لے کر عمرو بن لُحَیّ کے زمانہ تک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عقائد پر ہی ثابت قدم رہے، یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے دینِ ابراہیمی کو تبدیل کیا اور اہلِ عرب کے لئے طرح طرح کی گمراہیاں شروع کیں۔ (سیرت حلبیہ، باب نسبہ الشریف صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۱۸)
شرک کے بانی عمرو بن لُحَیّ نے اہلِ عرب میں شرک اس طرح پھیلایا کہ مقامِ بلقاء سے بت لا کر مکہ میں نصب کئے اور لوگوں کو ان کی پوجا اور تعظیم کرنے کی دعوت دی۔ قبیلہ ثقیف کا ایک شخص ’’لات‘‘ جب مر گیا تو عمرو نے اس کے قبیلے والوں سے کہا: یہ مرا نہیں بلکہ اس پتھر میں چلا گیا ہے پھر انہیں اس پتھر کی پوجا کرنے کی دعوت دی۔ (عمدۃ القاری، کتاب المناقب، باب قصۃ خزاعۃ، ۱۱ / ۲۶۹-۲۷۰، تحت الحدیث: ۳۵۲۱)
اِسی عَمرو نے سائبہ اور بحیرہ کی بدعت ایجاد کی اورتَلْبِیَہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ بتوں کو بھی شریک کیا۔ (سیرت حلبیہ، باب نسبہ الشریف صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۱۸)
یہ شخص دین میں جس نئی بات کا آغاز کرتا لوگ اسے دین سمجھ لیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ موسمِ حج میں لوگوں کو کھانا کھلایا کرتا اور انہیں لباس پہنایا کرتا تھا اور بسااوقات وہ موسمِ حج میں دس ہزار اونٹ ذبح کرتا اور دس ہزار ناداروں کو لباس پہناتا۔ (الروض الانف، اول ما کانت عبادۃ الحجر، اصل عبادۃ الاوثان، ۱ / ۱۶۶)
مرنے کے بعد اس کا انجام بہت دردناک ہوا، حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: میں نے عمرو بن عامر بن لحیّ خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں کھینچ رہا ہے۔ (بخاری،کتاب المناقب، باب قصۃ خزاعۃ، ۲ / ۴۸۰، الحدیث: ۳۵۲۱)
{ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ:اوراگر اللہ چاہتا ۔} یہاں چاہنا، بمعنی ارادہ کرنا ہے نہ کہ بمعنی پسند کرنا۔ پسند کرنے کو رضا کہا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اللہکے ارادے سے ہو رہا ہے یعنی جو کچھ بندہ اپنے اختیار سے کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس فعل کوپیدا فرما دیتا ہے تو یوں فعل آدمی کے اختیار سے ہوتا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ صرف نیکیوں سے راضی ہوتا ہے نہ کہ برائیوں سے لہٰذا آیت پر کوئی اعتراض نہیں۔
{ وَ قَالُوْا:اور مشرک کہتے ہیں۔} مشرکین اپنے بعض مویشیوں اور کھیتیوں کو اپنے باطل معبودوں کے ساتھ نامزد کرکے اپنے زعم میں کہنے لگے کہ ان مویشیوں اور کھیتیوں سے فائدہ اٹھانا ممنوع ہے اسے وہی کھائے گا جسے ہم چاہیں گے چنانچہ وہ بتوں کے نام پر چھوڑی ہوئی پیداوار اور اپنے باطل معبودوں کے ساتھ نامزد کئے ہوئے جانوروں میں سے بت خانوں کے پجاریوں اور بتوں کے خدام کو دیتے تھے۔
{ وَ اَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا:اور کچھ مویشی ایسے ہیں جن پر چڑھنا حرام ٹھہرایا۔} اس آیت میں کفار کی چند بد عملیوں کا ذکر ہے۔ ایک تو اپنے بعض کھیتوں کو بتوں کے نام پر یوں وقف کرنا کہ اس کی پیداوار صرف مرد کھائیں عورتیں نہ کھائیں اور وہ آمدنی صرف وہ کھائیں جو ان بتوں کے خدام ہیں۔ دوسری یہ کہ بتوں کے نام پر جانور چھوڑ دینا جیسے بحیرہ، سائبہ وغیرہ جن سے کوئی کام نہ لیا جائے نہ کسی کھیت سے انہیں ہٹایا جائے یہ دونوں کام تو شرک ہیں مگر ان چیزوں کا کھانا حرام نہیں۔ اس لئے جہاد میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ان تمام چیزوں پر قبضہ کر کے استعمال فرماتے تھے۔ تیسری یہ کہ بتوں کے نام پر ذبح کرنا۔ یہ کام بھی شرک ہے اور اس کا کھانا بھی حرام ہے اور یہ ’’مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ ‘‘ میں داخل ہے۔
{ وَ قَالُوْا:اور کہتے ہیں۔}کفارِ عرب کا عقیدہ تھا کہ بحیرہ، سائبہ، اونٹنی کا بچہ اگرزندہ پیدا ہو تو صرف مرد کھا سکتے ہیں اور عورتیں نہیں کھا سکتیں اور اگر مردہ پیدا ہو تو عورت مرد سب کھا سکتے ہیں۔ اس آیت میں ان کے اس عقیدے کا ذکر ہے اور اس پر سخت وعید ہے۔
{ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ:بیشک وہ لوگ تباہ ہوگئے جواپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں۔} شا نِ نزول: یہ آیت زمانۂ جاہلیت کے اُن لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی لڑکیوں کو نہایت سنگ دلی اور بے رحمی کے ساتھ زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ قبیلہ ربیعہ اور مُضَر وغیرہ قبائل میں اس کا بہت رواج تھا اور جاہلیت کے بعض لوگ لڑکوں کو بھی قتل کرتے تھے اور بے رحمی کا یہ عالم تھا کہ کتّوں کی پرورش کرتے اور اولاد کو قتل کرتے تھے۔ اُن کی نسبت یہ ارشاد ہوا کہ ’’ وہ تباہ ہوئے‘‘ اس میں شک نہیں کہ اولا د اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کی ہلاکت سے اپنی تعداد کم ہوتی ہے، اپنی نسل مٹتی ہے، یہ دنیا کا خسارہ ہے، گھر کی تباہی ہے اور آخرت میں اس پر عذابِ عظیم ہے، تو یہ عمل دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہوا اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ کرلینا اور اولاد جیسی عزیز اور پیاری چیز کے ساتھ اس قسم کی سفاکی اور بے دردی گوارا کرنا انتہا درجہ کی حماقت اور جہالت ہے۔
دورِ جاہلیت میں اولاد کو قتل کرنے کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ انہیں تنگدستی کا خوف لاحق ہوتا اور وہ اس ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کر دیتے تھے کہ انہیں کھلائیں پلائیں گے کہا ں سے اور ان کے لباس اور دیگر ضروریات کا انتظام کیسے کریں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس حرکت سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا‘‘ (بنی اسرائیل:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور غربت کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی، بیشک انہیں قتل کرناکبیرہ گناہ ہے۔
افسوس! فی زمانہ بہت سے مسلمان بھی دورِ جاہلیت کے کفار کا طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور وہ بھی اس ڈر سے دنیا میں آتے ہی یا ماں کے پیٹ میں ہی بچے کوقتل کروا دیتے ہیں کہ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے اور یہ عمل خاص طور پر اس وقت کرتے ہیں جب انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں پلنے والی جان بچی ہے۔ افسوس کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو رازق ماننے والے بھی اس فعلِ قبیح کا اِرتِکاب کررہے ہیں۔
یہاں ایک مسئلہ یاد رہے کہ ’’ جب حمل میں جان پڑجائے جس کی مدت علماء نے چار مہینے بیان کی ہے توحمل گرانا حرام ہے کہ یہ بھی اولاد کا قتل ہے اور اس سے پہلے اگر شرعی ضرورت ہو تو اِسقاطِ حمل جائز ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۲۴ / ۲۰۱،۲۰۷)
{ وَحَرَّمُوْا:حرام قرار دیتے ہیں۔} یعنی مشرکینِ عرب بحیرہ ،سائبہ اور حامی وغیرہ جن جانوروں کا اوپر ذکر ہوا انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھتے ہوئے حرام قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ایسے مذموم افعال کا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے ان کا یہ خیال اللہ عَزَّوَجَلَّ پرافتراء ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز میں اصل اباحت ہے، کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہر چیز ہمارے رزق کے لئے پیدا فرمائی، ان میں سے جسے حرام فرما دیا وہ حرام ہے اور جسے حلال فرمایا یا جس سے سکوت فرمایا وہ حلال ہے۔ قرآنِ پاک میں ہے:
’’ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا‘‘(بقرہ:۲۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لئے بنایا۔
حضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے خاموشی فرمائی تو وہ اس میں سے ہے جس سے معافی دی۔ (ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفراء، ۳ / ۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲) حضرت علامہ ملا علی قاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے۔ ( یعنی جس چیز کی حلت و حرمت سے متعلق قرآن و حدیث میں خاموشی ہو وہ حلال ہے۔) (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الاطعمۃ، الفصل الثانی،۸ / ۵۷، تحت الحدیث: ۴۲۲۸)
{ وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ:اور وہی ہے جس نے باغ پیدا کیے۔} اللہ تعالیٰ نے کچھ باغات ایسے پیدا فرمائے جو زمین پر پھیلے ہوئے ہیں جیسے خربوزہ، تربوز اور دیگر بیل بوٹے وغیرہ اور کچھ ایسے پیدا فرمائے جو زمین پر پھیلے ہوئے نہیں بلکہ تنے والے ہیں جیسے آم، امرود اور مالٹا وغیرہ کے باغات، اسی طرح کھجور اور کھیتی، انار اور زیتون کوپیدا فرمایا اور اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عجیب قدرت ہے کہ ان پھلوں میں تاثیر اور ذائقے کے اعتبار سے تو فرق ہوتا ہے لیکن رنگ اور پتوں کے اعتبار سے بہت مشابہت ہوتی ہے۔
{ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ:اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق دو۔} یہاں فصلوں کا حق ادا کرنے کا حکم ہے، اس میں سب سے اول تو عشر یعنی پیدا وار کا دسواں حصہ یا نصف عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ داخل ہے اور اس کے علاوہ مساکین کو کچھ پھل وغیرہ دینا بھی پیداوار کے حقوق میں آتا ہے۔
زمین کی ہر پیداوار میں زکوٰۃ ہے:
اِس آیت میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ ہر پیداوار میں زکوٰۃ ہے، چاہے پیداوار کم ہو یا زیادہ، اس کے پھل سال تک رہیں یا نہ رہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کسی قید کے بغیر فرمایا ’’ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ‘ ‘ اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق دو۔ اور حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو زمین بارش، نہر اور چشموں سے سیراب ہو اس میں عشر ہے اور جو پانی کھینچ کر سیراب کی جائے اس میں نصف عشر ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الزروع والثمار، ۲ / ۳۸۹، الحدیث: ۱۸۱۷)
{ وَ لَا تُسْرِفُوْا:اورفضول خرچی نہ کرو۔} مفسرین نے فضول خرچی کے مختلف مَحْمَل بیان فرمائے ہیں ، چنانچہ مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ اگر کل مال خرچ کر ڈالا اور اپنے گھروالوں کو کچھ نہ دیا اور خود فقیر بن بیٹھا تو یہ خرچ بے جا ہے اور اگر صدقہ دینے ہی سے ہاتھ روک لیا تو یہ بھی بے جا اور داخلِ اسراف ہے ۔ حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بھی ایسا ہی قول ہے۔ حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کے سوا اور کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ قلیل بھی ہو تو اسراف ہے۔ امام زہری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا قول ہے کہ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ معصیت میں خرچ نہ کرو۔ امام مجاہدرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا کہ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حق میں کوتاہی کرنا اسراف ہے اور اگر ابو قبیس پہاڑ سونا ہو اور اس تمام کو راہِ خدا میں خرچ کر دو تو اسراف نہ ہوگا اور ایک درہم معصیت میں خرچ کرو تو وہ اسراف ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴۱، ۲ / ۶۲-۶۳)
{ وَ مِنَ الْاَنْعَامِ:اور مویشی میں سے کچھ ۔} چوپائے دو طرح کے ہوتے ہیں کچھ بڑے جو بو جھ لادنے اور بار برداری کے کام میں آتے ہیں جیسے اونٹ، خچر اور گھوڑے وغیرہ اور کچھ چھوٹے جیسے بکری وغیرہ کہ جو اس قابل نہیں۔ ان میں سے جواللہ تعالیٰ نے حلال کئے انہیں کھاؤ اور اہلِ جاہلیت کی طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حلال فرمائی ہوئی چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ۔
{ ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ:آٹھ نر و مادہ۔} اس آیت میں جانوروں کے آٹھ جوڑے بیان کئے گئے یعنی نرومادہ اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری کے جوڑے۔ جانور تو اس کے علاوہ بھی ہیں لیکن چونکہ اہلِ عرب کے سامنے زیادہ تریہی جانور ہوتے تھے اور حرام و حلال کے جو انہوں نے قاعدے بنائے تھے وہ بھی انہی جانوروں کے بارے میں تھے اس لئے بطورِ خاص انہی جوڑوں کا بیان کیا گیا چنانچہ فرمایا کہ کیا ان جانوروں کے صرف نر حرام ہیں یا صرف مادے یا نرومادہ دونوں ؟ اللہ تعالیٰ نے نہ تو بھیڑ بکری کے نَر حرام کئے اور نہ اُن کی مادائیں حرام کیں اور نہ اُن کی اولاد ۔ تمہارا یہ فعل کہ کبھی نر حرام ٹھہراؤ کبھی مادہ کبھی اُن کے بچّے یہ سب تمہاری اپنی اِختراع ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔
{ نَبِّـٴُـوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ:اگر تم سچے ہو تو علم کے ساتھ بتاؤ۔}یعنی ان جانوروں کو تم حرام مانتے ہو،اگر اس میں تم سچے ہو تو اس حرمت کی قطعی یقینی دلیل لاؤ۔
دلیل دینا حرمت کا دعویٰ کرنے والے پر لازم ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ حلت کا دعویٰ کرنے والے سے دلیل نہ مانگی جائے گی بلکہ حرمت کا دعویٰ کرنے والے پر دلیل لانا لازم ہے۔ آج کل بدمذہب ہم سے ہر چیز کی حلت پر دلیل مانگتے ہیں اور خود حرمت کی دلیل نہیں پیش کرتے۔ یہ اصول قرآن کے صریح خلاف ہے۔ خود غور کر لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کے حرام ماننے والوں سے دلیل مانگی ہے یا حلال سمجھنے والوں سے۔
{ وَ مِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ:اور ایک جوڑا اونٹ کا۔}اس آیتِ کریمہ میں دور ِجاہلیت کے ان لوگوں کا رد ہے جو اپنی طرف سے حلال چیزوں کوحرام ٹھہرا لیا کرتے تھے جن کا ذکر اُوپر کی آیات میں آچکا ہے۔ شانِ نزول جب اسلام میں احکام کا بیان ہوا تو انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جھگڑا کیا اور ان کا خطیب مالک بن عوف حشمی سیّد ِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ’’ یا محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہم نے سُنا ہے آپ اُن چیزوں کو حرام کرتے ہیں جو ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں۔ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تم نے بغیر کسی اصل کے چوپایوں کی چند قسمیں حرام کرلیں جبکہاللہ تعالیٰ نے آٹھ نرو مادہ اپنے بندوں کے کھانے اور ان کے نفع اٹھانے کے لئے پیدا کئے۔ تم نے کہاں سے انہیں حرام کیا؟ ان میں حرمت نر کی طرف سے آئی یا مادہ کی طرف سے۔ مالک بن عوف یہ سن کر ساکِت اور مُتَحیر رہ گیا اور کچھ نہ بول سکا۔ نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’ بولتے کیوں نہیں ؟ کہنے لگا :آپ فرمائیے میں سنوں گا۔ سُبْحَانَ اللہ، قرآنِ پاک کی دلیل کی قوت اور زور نے اہلِ جاہلیت کے خطیب کو ساکت و حیران کردیا اور وہ بول ہی کیا سکتا تھا ؟اگر کہتا کہ نر کی طرف سے حرمت آئی تو لازم ہوتا کہ تمام نر حرام ہوں ، اگر کہتا کہ مادہ کی طرف سے تو ضروری ہوتا کہ ہر ایک مادہ حرام ہو اور اگر کہتا جو پیٹ میں ہے وہ حرام ہے تو پھر سب ہی حرام ہوجاتے کیونکہ جو پیٹ میں رہتا ہے وہ نر ہوتا ہے یا مادہ ۔ وہ جو تخصیص قائم کرتے تھے اور بعض کو حلال اور بعض کو حرام قرار دیتے تھے اس حجت نے ان کے اس دعویٔ تحریم کو باطل کردیا۔
{ اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ:کیا تم موجود تھے۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے تم سے براہ ِراست تو بیان فرمایا نہیں اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ذریعے ان جانوروں کی حرمت آئی نہیں تو اب ان جانوروں کے حرام ہونے کی کیا صورت باقی رہی۔ لہٰذا جب یہ بات نہیں ہے تو حرمت کے ان احکام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا جھوٹ، باطل اور خالص بہتان ہے اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر بہتان باندھے وہ سب سے بڑا ظالم ہے ، لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ ظالموں کو جب تک وہ اپنے ظلم پر قائم رہیں ہدایت نہیں دیتا۔
{ قُلْ لَّاۤ اَجِدُ:تم فرماؤ میں نہیں پاتا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان جاہل مشرکوں سے جو حلال چیزوں کو اپنی من مرضی سے حرام کرلیتے ہیں فرما دو کہ’’ جو میری طرف وحی کی جاتی ہے میں اس میں کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام نہیں پاتا سوائے ان چار کے (1) مردار۔ (2) رگوں میں بہنے والا خون۔ (3) سور کا گوشت اور (4) نافرمانی کا جانور یعنی جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ لہٰذا تمہارا اُن دیگر چیزوں کو حرام کہنا باطل ہے جن کی حرمت اللہ کی طرف سے نہ آئی۔
{ فَمَنِ اضْطُرَّ:تو جو مجبور ہوجائے۔} یعنی مذکورہ بالا چیزیں کھانا حرام ہے لیکن اگر کوئی مجبور ہو اور ضرورت اُسے ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر مجبور کر دے اور وہ اس حال میں کھائے کہ نہ خواہش سے کھانے والا ہو اور نہ ضرورت سے بڑھنے والاتو بے شک رب کریمعَزَّوَجَلَّ بخشنے والا، مہربان ہے اور وہ اِس پر کوئی مؤاخذہ نہ فرمائے گا۔
حرام جانوروں کے بیان پر مشتمل آیت سے متعلق چند احکام:
مجموعی طور پر اس آیت کے متعلق چند احکام ہیں :
(1)… حرمت شریعت کی جانب سے ثابت ہوتی ہے نہ کہ ہوائے نفس سے ۔
(2)… جما ہوا خون یعنی تلی کلیجی حلال ہے کیونکہ یہ بہتا ہوا خون نہیں لیکن بہتا ہوا خون نکل کر جم جائے وہ بھی حرام ہے کہ وہ بہتا ہوا ہی ہے اگرچہ عارضی طور پر جم گیا۔
(3)… ہر نجس چیز حرام ہے مگر ہر حرام چیز نجس نہیں۔
(4)… سور کی ہر چیز کھال وغیرہ سب حرام ہے کیونکہ وہ نجسُ العین ہے ۔
(5)… سور کی کوئی چیز ذبح کرنے یا پکانے سے پاک نہیں ہو سکتی ۔
(6)… جانو رکی زندگی میں اس پر کسی کے نام پکارنے کا اعتبار نہیں ، ذبح کے وقت کا اعتبار ہے۔
(7)… بتوں کے نام پر جانور ذبح کرنا فسقِ اعتقادی یعنی کفر ہے اس لئے یہاں فِسْقًا ارشاد ہوا۔
(8)… مجبوری کی حالت میں مردار وغیرہ چیزیں بقدرِ ضرورت حلال ہوں گی اور مجبوری سے مراد جان جانے یا عُضْو ضائع ہوجانے کا ظنِ غالب ہونا ہے۔
(9)… اگر اندازے میں غلطی کر کے ضرورت سے زیادہ ایک آدھ لقمہ کھالیا تو پکڑ نہ ہوگی۔
{ وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا:اور یہودیوں پر ہم نے حرام کیا۔} یہودی اپنی سرکشی کے باعث ان چیزوں سے محروم کئے گئے:
(1)…ہر ناخن والا جانور۔ یہاں ناخن سے مراد انگلی ہے خواہ انگلیاں بیچ سے پھٹی ہوں جیسے کتا اور درندے یا نہ پھٹی ہوں بلکہ کھر کی صورت میں ہوں جیسے اونٹ، شترمرغ اور بطخ وغیرہ۔بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہاں بطورِ خاص شتر مرغ ، بطخ اور اُونٹ مراد ہیں۔
(2)…گائے اور بکری کی چربی۔ یہودیوں پر گائے، بکری کا گوشت وغیرہ حلال تھا لیکن ان کی چربی حرام تھی البتہ جو چربی گائے بکری کی پیٹھ میں لگی ہو یاآنت یا ہڈی سے ملی ہو وہ ان کے لئے حلا ل تھی۔ یہودی چونکہ اپنی سرکشی کے باعث ان چیزوں سے محروم کئے گئے تھے لہٰذا یہ چیزیں اُن پر حرام رہیں اور ہماری شریعت میں گائے بکری کی چربی اور اونٹ، بطخ اور شتر مرغ حلال ہیں ، اسی پر صحابۂ کرام اور تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکا اجماع ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ص۴۰۴-۴۰۵)
سابقہ شریعتوں کے سخت احکام ہم پر جاری نہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ گزشتہ شریعتوں کے وہ احکام جو بطورِ سزا جاری کئے گئے تھے وہ ہمارے لئے لائقِ عمل نہیں اگرچہ نص میں مذکور ہو جائیں کیونکہ یہ امتِ مرحومہ ہے، پچھلی امتوں کے سخت احکام ہم پر جاری نہیں۔
{ فَاِنْ كَذَّبُوْكَ:پھر اگر وہ تمہیں جھٹلائیں۔} یعنی اے محبوب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے یہودیوں پر جن چیزوں کے حلال و حرام ہونے کی تمہیں خبر دی، اگریہودی اسے جھٹلائیں تو آپ فرما دو کہ’’ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ وسیع رحمت والا ہے اسی لئے وہ جھٹلانے والوں کو مہلت دیتا ہے اور عذاب میں جلدی نہیں فرماتا تاکہ انہیں ایمان لانے کا موقع ملے ورنہ بہرحال جن پر عذابِ الٰہی کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو ان سے ٹالا نہیں جاتا اور پھر عذاب اپنے وقت پر آہی جاتا ہے۔
{ سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا:اب مشرک کہیں گے۔} اس میں غیبی خبر ہے کہ مشرک جو آئندہ کہنے والے تھے ، اس سے پہلے ہی خبردار کر دیا۔ مشرکین پر جب حجت تمام ہو گئی اور ان سے کوئی دلیل نہ بن پڑی تو کہنے لگے: اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہی ہم کسی چیز بحیرہ و سائبہ وغیرہ کو حرام قرار دیتے۔ ہم نے جو کچھ کیا اور کرتے ہیں یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مرضی سے ہوا یہ اس کی دلیل ہے کہ وہ اس سے راضی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا رد اس طرح فرمایا کہ اگر تمہاری یہ بات درست ہوتی کہ تمہارا شرک اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہنے کا یہ رواج سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا و خوشی سے ہے تو ہونا یوں چاہئے تھا کہ ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا لطف و عنایت اور بڑی کرم نوازیاں ہوتیں حالانکہ تم سے پہلے جن لوگوں نے اس گمراہی کو اپنایا توان پراللہ عَزَّوَجَلَّ کا غضب نازل ہوا اور انہیں بعد والوں کے لئے نشانِ عبرت بنا دیا گیا، اب تم خودغور کرو کہ ایسی سنگین سزا مجرم اور نافرمان لوگوں کو دی جاتی ہے یا اطاعت گزار اور فرماں بردار افراد کو۔
{ قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ:تم فرماؤ تو اللہ ہی کی حجت پوری ہے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ایسی دلیل جو تمام تر شکوک و شبہات کو جڑ سے اکھاڑ دے وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پا س ہے، اس آیت میں یہ تنبیہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّواحد ہے اس نے رسولوں کو دلائل اور معجزات دے کر بھیجا اور ہر مُکَلَّف پر اپنے احکام کو لازم کیا ہے اور ان کو مکلف کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کام کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیاہے یعنی انہیں بااختیار بنایا ہے۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴۹، ۴ / ۹۳-۹۴، الجزء السابع)
اور اللہ تعالیٰ کی حکمت یہی ہے کہ بندے اپنے اختیار سے ایمان لائیں اور اس کے احکام کی تعمیل کریں ورنہ اگر وہ چاہتا تو جبرا ًسب انسانوں کو مومن بنا دیتا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت میں نہیں ہے ا س لئے ان کا یہ کہنا بالکل لَغْو ہے کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّچاہتا تو ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا، نہ وہ بحیرہ وغیرہ کو حرام قرار دیتے کیونکہ ا س قسم کا جَبری ایمان اللہ تعالیٰ کا مطلوب نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ لوگ اپنی عقل سے کام لیں ، حق اور باطل کو جانچیں ، کھرے کھوٹے کو پرکھیں ، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعلیمات اور شیطان کے وسوسوں میں فرق محسوس کریں اور اپنے اختیار سے برے کاموں اور بری باتوں کو ترک کریں اور شیطان کا انکار کر کے اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے کو اختیار کریں ، وہ جس چیز کو اختیار کریں گے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسی چیز کو پیدا کر دے گا، ان آیتوں میں یہ دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مجبورِ محض نہیں بنایا، مختار بنایا ہے اور اس میں جبریہ کا بھی رد ہے۔
{ قُلْ هَلُمَّ شُهَدَآءَكُمْ:تم فرماؤ، اپنے گواہ لے آؤ۔} جب اللہ تعالیٰ نے کفار کی تمام حجتیں باطل فرما دیں تو اب بیان فرمایا کہ ان کے پاس اپنی بات پر کوئی گواہ بھی نہیں چنانچہ فرمایا: اے محبوب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیجئے کہ اپنے وہ گواہ لے آؤ جو اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُسے حرام کیا جسے تم اپنے لئے حرام قرار دیتے ہو اور کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ یہ گواہی اس لئے طلب کی گئی کہ ظاہر ہوجائے کہ کفار کے پاس کوئی شاہد نہیں ہے اور جو وہ کہتے ہیں وہ ان کی اپنی تَراشیدہ باتیں ہیں۔
{ فَاِنْ شَهِدُوْا:پھر اگر وہ گواہی دے بیٹھیں۔} یعنی مشرکین اگر اپنی جھوٹی بات پر کوئی گواہ لے ہی آئیں تو اے سننے والے! توان کے ساتھ گواہی نہ دینا اور ان لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور وہ بتوں کواپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے برابر ٹھہراتے ہیں یعنی بتوں کو معبود مانتے ہیں اور شرک میں گرفتار ہیں۔ اس میں تنبیہ ہے کہ اگر کوئی ایسی شہادت دے بھی دے تو وہ محض خواہش کی اتباع اور کذب و باطل ہوگی۔
جھوٹی گواہی اور ا س کی تصدیق حرام ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی بھی حرام ہے اور اس کی تصدیق و تائید بھی اور جھوٹے آدمی کی وکالت بھی کیونکہ گناہ کے کام میں مدد کرنا بھی گنا ہ ہے اور احادیث میں اس کی سخت وعیدیں بھی بیان ہوئی ہیں ، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی ظالم کے باطل کام پر اس کی مدد کی تاکہ وہ اس کے باطل کام کے اِرتِکاب کی وجہ سے حق کو باطل کر دے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذمہ سے بری ہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ ابراہیم، ۲ / ۱۸۰، الحدیث: ۲۹۴۴)
حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جس نے کسی جھگڑے پر ناحق مدد کی تو وہ تب تک اللہ تعالیٰ کے شدید غضب میں رہے گا جب تک (اس مدد کو) چھوڑ نہیں دیتا۔ (مستدرک، کتاب الاحکام، لا تجوز شہادۃ بدوی علی صاحب قریۃ، ۵ / ۱۳۵، الحدیث: ۷۱۳۳)
{ قُلْ تَعَالَوْا:تم فرماؤ آؤ۔} یہاں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وہ حقیقی حلت و حرمت کے متعدد احکام بیان فرمائے ہیں جو خود اُس خالقِ کائنات نے عطا فرمائے ہیں۔ اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے 9چیزوں کی حرمت بیان فرمائی ہے (1) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا۔ (2) ماں باپ کے ساتھ بھلائی نہ کرنا۔ (3) مفلسی کے باعث اپنی اولاد قتل کرنا۔ (4) بے حیائی کے کام کرنا چاہے ظاہری ہوں یا باطنی۔ (5) ناحق قتل کرنا۔ (6) یتیم کے مال میں بے جا تَصَرُّف کرنا۔ (7) ناپ تول میں کمی کرنا۔ (8) ناحق بات کہنا۔ (9)اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کئے ہوئے عہد کو پورا نہ کرنا۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ کیونکہ یہ کائنات کا بدترین جھوٹ اور صریح ناشکری و احسان فراموشی ہے۔ ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو کیونکہ تم پر ان کے بہت سے حقوق ہیں ، اُنہوں نے تمہاری پرورش کی، تمہارے ساتھ شفقت اور مہربانی کا سلوک کیا، تمہاری ہر خطرے سے نگہبانی کی، اُن کے حقوق کا لحاظ نہ کرنا اور اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کا ترک کرنا حرام ہے۔ معلوم ہوا کہ ماں باپ اگرچہ کافر ہوں ان کے ماں باپ ہونے کی حیثیت سے جو حقوق ہیں انہیں ادا کرنا ضروری ہے۔ اس احسان میں والدین کے ساتھ تمام قسم کے اچھے سلوک داخل ہیں۔ ان کا ادب، لحاظ، ان پر ضرورت کے وقت مال خرچ کرنا، مسلمان ہونے کی صورت میں بعدِ وفات ان کیلئے ایصالِ ثواب سب داخل ہیں۔
{ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ:اپنی اولاد قتل نہ کرو۔} اس میں اولاد کو زندہ درگور کرنے اور مار ڈالنے کی حرمت بیان فرمائی گئی جس کا اہلِ جاہلیت میں دستور تھا کہ وہ بارہا فقر و تنگدستی کے اندیشے سے اولاد کومار ڈالتے تھے، انہیں بتایا گیا کہ روزی دینے والا تواللہ عَزَّوَجَلَّ ہے جو تمہیں اور انہیں سب کو روزی دے گا تو پھر تم کیوں قتل جیسے شدید جُرم کا ارتکاب کرتے ہو۔
عورتوں کے حقوق سے متعلق اسلام کی حسین تعلیمات:
اس آیت میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو غریبی کی وجہ سے لڑکے لڑکیوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور جو مالدار شرم و عار کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کو قتل کرتے تھے ان کا ذکر دوسری آیات میں ہے۔ ان کے مقابلے میں اسلام کی تعلیمات کس قدر حسین ہیں اور اسلام نے بچیوں اور عورتوں کوکیسے حقوق عطا فرمائے اس کیلئے صرف درج ذیل 3 حدیثوں کا مطالعہ فرمالیں۔
(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس شخص کی بیٹی ہو تو وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، اُسے ذلیل نہ سمجھے اور اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی فضل من عال یتیماً، ۴ / ۴۳۵، الحدیث: ۵۱۴۶)
(2)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس کی تین بیٹیا ں یا تین بہنیں ہوں ، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے تو اس کے لئے جنت ہے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات والاخوات، ۳ / ۳۶۷، الحدیث: ۱۹۲۳)
(3)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص تین بیٹیوں یا بہنوں کی اس طرح پرورش کرے کہ ان کو ادب سکھائے اور ان سے مہربانی کا برتاؤ کرے یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں بے نیاز کردے (مثلاً ان کا نکاح ہو جائے ) تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت واجب فرما دیتا ہے۔ یہ ارشادِ نبوی سن کر ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: ’’اگر کوئی شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرے ؟ تو ارشاد فرمایا: اس کے لئے بھی یہی اجر و ثواب ہے۔ ‘‘(راوی فرماتے ہیں ) یہاں تک کہ اگر لوگ ایک کا ذکر کرتے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاس کے بارے میں بھی یہی فرماتے۔( شرح السنہ، کتاب البر والصلۃ، باب ثواب کافل الیتیم، ۶ / ۴۵۲، الحدیث: ۳۳۵۱)
{ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ:اوربے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ۔} اس آیت میں ظاہری وباطنی بے حیائیوں کے پاس جانے سے منع کیا گیا کیونکہ انسان جب کھلے اور ظاہری گناہوں سے بچے اور پوشیدہ گناہوں سے پرہیز نہ کرے تو اس کا ظاہری گناہوں سے بچنا بھی لِلّٰہیت سے نہیں بلکہ لوگوں کے دکھانے اور ان کی بدگوئی سے بچنے کے لئے ہے جبکہ گناہوں سے بچنے کا اصل سبب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی کا ڈر ہونا چاہیے نیز اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا و ثواب کا مستحق ہوتا بھی وہی ہے جو اس کے خوف سے گناہ ترک کرے۔
بظاہر نیک رہنا اور چھپ کر گناہ کرنا تقویٰ نہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ ظاہر میں نیک رہنا اور چھپ کر گناہ کرنا تقویٰ نہیں بلکہ ریا کاری ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ ظاہر و باطن ہر حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خوف دامن گیر ہو۔ لوگوں کے سامنے نیک اعمال کرتے نظر آنے والوں اور تنہائی میں گناہوں پر بیباک ہونے والوں کا حشر میں بہت برا حال ہو گا، چنانچہ حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنت کی طرف لے جانے کا حکم ہو گا، یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچ کر اس کی خوشبو سونگھیں گے، اس کے محلات اور اس میں اہلِ جنت کے لئے اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ نعمتیں دیکھ لیں گے، تو ندا دی جائے گی :انہیں جنت سے لوٹا دو کیونکہ ان کا جنت میں کوئی حصہ نہیں۔ (یہ ندا سن کر) وہ ایسی حسرت کے ساتھ لوٹیں گے کہ اس جیسی حسرت کے ساتھ ان سے پہلے لوگ نہ لوٹیں ہوں گے، پھر وہ عرض کریں گے :’’یارب! عَزَّوَجَلَّ،اگر تو اپنا ثواب اور اپنے اولیاء کے لئے تیار کردہ نعمتیں دکھانے سے پہلے ہی ہمیں جہنم میں داخل کر دیتا تو یہ ہم پر زیادہ آسان ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’ میں نے ارادۃً تمہارے ساتھ ایسا کیا ہے (اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ ) جب تم تنہائی میں ہوتے تو بڑے بڑے گناہ کر کے میرے ساتھ اعلانِ جنگ کرتے اور جب لوگوں سے ملتے تو عاجزی و انکساری کے ساتھ ملتے تھے، تم لوگوں کو اپنی وہ حالت دکھاتے تھے جو تمہارے دلوں میں میرے لئے نہیں ہوتی تھی، تم لوگوں سے ڈرتے اور مجھ سے نہیں ڈرتے تھے، تم لوگوں کی عزت کرتے اور میری عزت نہ کرتے تھے، تم لوگوں کی وجہ سے برا کام کرنا چھوڑ دیتے لیکن میری وجہ سے برائی نہ چھوڑتے تھے، آج میں تمہیں اپنے ثواب سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عذاب کا مزہ بھی چکھاؤں گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۳۵، الحدیث: ۵۴۷۸)
اللہ تعالیٰ کے خوف سے گناہ چھوڑنے کے 3 فضائل:
(1)…حضر ت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص کسی حرام کام پر قادر ہو پھر اسے صرف اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ آخرت سے پہلے دنیا ہی میں جلد اس کا ایسا بدل عطا فرماتا ہے جو اس حرام کام سے بہتر ہو۔‘‘ (جامع الاحادیث، ۹ / ۴۳، الحدیث: ۲۷۰۵۲)
(2)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص کو کسی عورت نے برائی کی دعوت دی اور وہ محض اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے اس سے باز رہا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔ ‘‘(معجم الکبیر، بشر بن نمیر عن القاسم، ۸ / ۲۴۰، الحدیث: ۷۹۳۵)
(3)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے’’ جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے اورا س کی رضا حاصل کرنے کی خاطر گناہ چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ اسے راضی فرمائے گا۔ ‘‘(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۶۳، الحدیث: ۵۹۱۱، الجزء الثالث)
ظاہری و باطنی گناہوں سے محفوظ رہنے کی دعا:
حدیث پاک میں ظاہری و باطنی گناہوں سے بچنے کے لئے ایک بہترین دعا تعلیم فرمائی گئی ہے، ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس دعا کو اپنے معمولات میں شامل کر لے اور بکثرت یہ دعا مانگا کرے ،چنانچہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں مجھے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے یہ دعا سکھائی، ارشا فرمایا: ’’ کہو ’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ سَرِیْرَتِیْ خَیْرًا مِنْ عَلَانِیَتِیْ، وَاجْعَلْ عَلَانِیَتِیْ صَالِحَۃً، اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِی النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالْاَہْلِ، وَالْوَلَدِ غَیْرِ الضَّالِّ وَلَا الْمُضِلِّ‘‘اے اللہ! میرا باطن میرے ظاہر سے اچھا کر دے اور میرے ظاہر کو نیک و صالح بنادے، اے اللہ! میں تجھ سے لوگوں کو عطا کی جانے والی بہترین چیزیں یعنی مال،اچھا گھر بار اور وہ اولاد مانگتا ہوں جو نہ گمراہ ہو اور نہ گمراہ گرہو (ترمذی، احادیث شتی، ۱۲۳-باب، ۵ / ۳۳۹، الحدیث: ۳۵۹۷)۔ ([1])
{ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ:اور جس جان کی اللہ نے حرمت رکھی اسے ناحق نہ مارو۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کسی کو ناحق قتل کرنے کی حرمت بیان فرمائی ہے۔
ناحق قتل کرنے یا قتل کا حکم دینے کی3 وعیدیں:
ناحق قتل کرنے والے یا قتل کا حکم دینے والے کے بارے میں احادیث میں سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے 3وعیدیں درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن مقتول قاتل کو لے کراس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی اور سر اس کے ہاتھ میں ہوں گے اور گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ عرض کرے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، حتّٰی کہ قاتل کو عرش کے قریب کھڑا کردے گا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ النسائ، ۵ / ۲۳، الحدیث: ۳۰۴۰)
(2)…نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: آگ کو ستر حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے 69 حصے قتل کا حکم دینے والے کیلئے اور ایک حصہ قاتل کیلئے ہے۔ (شعب الایمان، السادس والثلاثون من شعب الایمان، ۴ / ۳۴۹، الحدیث: ۵۳۶۰)
(3)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’قیامت کے دن مقتول بیٹھا ہو گا، جب اس کا قاتل گزرے گا تو وہ اسے پکڑ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرے گا: ’’اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ تعالیٰ قاتل سے فرمائے گا: ’’تو نے اسے کیوں قتل کیا: قاتل عرض کرے گا: مجھے فلاں شخص نے حکم دیا تھا، چنانچہ قاتل اور قتل کا حکم دینے والے دونوں کو عذاب دیا جائے گا۔ (شعب الایمان، السادس والثلاثون من شعب الایمان، ۴ / ۳۴۱، الحدیث: ۵۳۲۹)
قتلِ برحق کی صورتیں اور ایک اہم تنبیہ:
چند صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں حاکمِ اسلام کیلئے مجرم کو قتل کرنے کی اجازت ہے جیسے قاتل کو قصاص میں ، شادی شدہ زانی کو رجم میں اور مرتد کو سزا کے طور پر قتل کرنا البتہ یہ یاد رہے کہ قتلِ برحق کی جو صورتیں بیان ہوئیں ان پر عام لوگ عمل نہیں کر سکتے بلکہ اس کی اجازت صرف حاکمِ اسلام کو ہے۔
[1]… ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچنے اور گناہوں سے متعلق اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرنے کے لئے دعوت اسلامی کے ساتھ وابستگی بہت مفید ہے۔
{ وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ:اور یتیموں کے مال کے پاس نہ جاؤ۔} یعنی یتیم کے مال کے پاس اس طریقے سے جاؤ جس سے اس کا فائدہ ہو اور جب وہ اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ جائے اس وقت اس کا مال اس کے سپرد کردو۔ اس حکم کی تفصیل اور یتیموں سے متعلق مزید احکام سورۂ نساء کی ابتدائی چند آیات میں گزر چکے ہیں۔
{ وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ:اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو۔} یعنی ناپ تول میں کمی نہ کرو کیونکہ یہ حرام ہے ۔
ناپ تول میں کمی کرنے کی 2وَعِیدیں :
ناپ تول میں کمی کرنے پر احادیث میں سخت وعید یں بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے 2 وعیدیں درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اے تاجروں کے گروہ! دو ایسے کام تمہارے سپرد کئے گئے ہیں کہ جن کی وجہ سے تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے، یہ ناپنا اور تولنا ہے۔( شعب الایمان، الخامس والثلاثون من شعب الایمان، ۴ / ۳۲۸، الحدیث: ۵۲۸۸)
(2)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے مہاجرین کے گروہ! جب تم پانچ باتوں میں مبتلا کر دئیے جاؤ (تو اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی) اور میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ تم انہیں پاؤ۔
(۱)… جب کسی قوم میں اعلانیہ فحاشی عام ہو جائے گی تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں ظاہر ہو جائیں گی جو ان سے پہلوں میں کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں (جیسے آجکل ایڈز، Aids وغیرہ)
(۲)…جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جائیں گے تو قحط سالی، شدید تنگی اور بادشاہ کے ظلم کا شکار ہوجائیں گے۔
(۳)… جب زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ دیں گے تو آسمان سے بارش روک دی جائے گی اور اگر چوپائے نہ ہوتے تو ان پر کبھی بارش نہ برستی۔
(۴)… جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑنے لگیں گے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پر دشمن مسلَّط کر دے گا جو ان کا مال وغیرہ سب کچھ چھین لے گا ۔
(۵)… جب حکمران اللہ عَزَّوَجَلَّکے قانون کو چھوڑ کر دوسرا قانون اور اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے لگ جائیں گے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ڈال دے گا۔‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، ۴ / ۳۶۷، الحدیث: ۴۰۱۹)
اس روایت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے موجودہ حالات پر غور کریں کہ آج ہم میں خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کا پھیلاؤ ، قحط سالی، شدید تنگی اور حکمرانوں کے ظلم کاسامنا، دشمن کا تَسَلُّط اور مال واسباب کا لٹ جانا، تَعَصُّب اور ہمارے لسانی،قومی اختلافات یہ سب ہمارے کن اعمال کا نتیجہ ہیں۔
دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت
شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت سے گلا ہے
جو کچھ بھی ہے سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت
سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے
اللہ تعالیٰ کے خوف سے حرام کام چھوڑنے کی فضیلت:
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص حرام پر قادر ہو پھر اسے اللہ تعالیٰ کے خوف سے چھوڑ دے تواللہ تعالیٰ آخرت سے پہلے دنیا میں ہی بہت جلد اُس کا ایسا بدل عطا فرماتا ہے جو حرام سے کہیں بہتر ہو۔ (تفسیر طبری، الاسرائ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۸ / ۷۹)
{ وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا:اور جب بات کہو تو انصاف کی کہو۔} یعنی خوا ہ گواہی دو یا فتویٰ دویا حاکم بن کر فیصلہ کر و کچھ بھی ہو انصاف سے ہو اس میں قرابت یا وجاہت کا لحاظ نہ ہو کیونکہ اس سے مقصود شرعی حکم کی پیروی اور اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرنا ہوتا ہے اور اس میں اجنبی اور قرابت دار کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۳ / ۱۱۹)
{ وَ بِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا:اور اللہ ہی کا عہد پورا کرو۔} یعنی صرف اللہ عَزَّوَجَلَّکے عہد پورے کرو اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کے عہد پورے نہ کرو، اگر تم نے غلطی سے کسی سے ناجائز عہد کر لیا تو فوراً توڑ دو، مثلاً اگرکسی سے وعدہ کیا بلکہ قسم کھائی کہ اس کے ساتھ شراب پئیں گے یا چوری کریں گے تو یہ وعدہ توڑ دو اور قسم کا کفارہ دے دو۔ آیت میں ’’عَہْد اللہ‘‘ سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے بندوں پر لازم فرمایا یعنی وہ احکام جو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ذریعے ملے یا وہ عہد مراد ہے جو انسان اپنے اوپر لازم کر لے جیسے منت وغیرہ، ان سب کو پورا کرنے کا حکم ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۲ / ۶۹)
عہد شکنی پر وعید :
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ،حضورپر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن جب اللہتعالیٰ اَوّلین و آخِرین کو جمع فرمائے گاتو عہد توڑنے والے ہر شخص کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی کا جھنڈا ہے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب ما یدعی الناس بآبائہم، ۴ / ۱۴۹، الحدیث: ۶۱۷۷،مسلم کتاب الجہاد والسیر، باب تحریم الغدر، ص۹۵۵، الحدیث: ۹(۱۷۳۵))
بندوں کے ساتھ کئے گئے جائز عہدوں کو پورا کرنے کا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے لہٰذا ان کا پورا کرنا بھی عہد ِ الٰہی کو پورا کرنے میں داخل ہوگا۔
{ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا:اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے۔} یعنی یہاں مذکور آیتوں میں جو احکام تمہیں بیان کئے گئے ہیں یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو۔ احادیث میں ایک مثال کے ذریعے سیدھے راستے کے بارے میں سمجھایا گیا ہے، چنانچہ
حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے ایک خط کھینچا، دو اس کے دائیں اور دو بائیں جانب کھینچے، پھر اپنا ہاتھ درمیانے خط پر رکھ کر فرمایا ’’یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے۔پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی
’’ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ راہیں تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی ۔‘‘ (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب اتباع سنّۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۱۵، الحدیث: ۱۱)
حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک دن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمارے سامنے ایک خط کھینچا ،پھر فرمایا ’’ یہ اللہ کا راستہ ہے ۔ پھر اس کے دائیں بائیں کچھ لکیریں کھینچیں اور فرمایا ’’ یہ مختلف راستے ہیں جن میں سے ہر راستے پر شیطان ہے جو اُدھر بلا رہا ہے۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی
’’ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ راہیں تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی ۔‘‘ (سنن دارمی، باب فی کراہیۃ اخذ الرأی، ۱ / ۷۸، الحدیث: ۲۰۲)
سیدھا راستہ :
اس سے معلوم ہوا کہ عقائد کی درستی، عبادت کی ادائیگی، معاملات کی صفائی اور حقوق کا ادا کرنا سیدھا راستہ ہے۔ جو ان میں سے کسی میں کوتاہی کرتاہے وہ سیدھے راستے پر نہیں۔ عقائد، عبادات اور معاملات جسم اوردو بازوؤں کی طرح ہیں جن میں سے ایک کے بغیر اڑنا ناممکن ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ دفتر تین قسم کے ہیں۔ ایک دفتر وہ ہے کہ جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نہ بخشے گا۔ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرانا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ‘‘(النساء:۴۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ نہ بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے۔
اور ایک دفتر وہ ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ چھوڑے گا نہیں ، وہ بندوں کے آپس کے ظلم ہیں حتّٰی کہ ان کے بعض کا بعض سے بدلہ لے گا اور ایک دفتر وہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ پروا نہیں کرتا، وہ بندوں کا اپنے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے درمیان حق تلفی ہے، تو یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد ہے، اگر چاہے اسے سزا دے اور اگر چاہے تو اس سے در گزر فرمائے۔ (شعب الایمان، التاسع والاربعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۵۲، الحدیث: ۷۴۷۳)
{ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ:اور دوسری راہوں پر نہ چلو۔} یہاں دوسرے راستوں سے مرادوہ راستے ہیں جو اسلام کے خلاف ہوں یہودیت ہو یا نصرانیت یا اور کوئی ملت۔ لہٰذا اگر تم اسلام کے خلاف راستے پر چلے تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے الگ ہوجاؤ گے ۔صوفیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ فرماتے ہیں کہ معاملات کی خرابی عبادات کی خرابی تک پہنچا دیتی ہے اور عبادات کی خرابی کبھی عقائد کی خرابی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ترکِ مستحب ترکِ سنت کا اور ترکِ سنت ترکِ فرض کا ذریعہ ہے چور کو پہلے دروازے پر ہی روکو۔
{ ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ:پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔}یہاں کتاب سے مراد توریت شریف ہے۔ سب سے پہلے کتابِ الہٰی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہی عطا ہوئی۔ اس سے پہلے پیغمبروں کو صحیفے ملتے تھے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ’’تاکہ نیک آدمی پر احسان پورا ہو‘‘ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’بنی اسرائیل میں محسن (یعنی نیک) اور غیر محسن بھی تھے تو اللہ تعالیٰ نے محسنین یعنی نیک لوگوں پر اپنی نعمت پوری کرنے کے لئے یہ کتاب نازل فرمائی۔ اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے علم کے مطابق نیک کام کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر نعمت پوری کرنے کے لئے ان کو کتاب (یعنی تورات) دی۔(قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۴ / ۱۰۴، الجزء السابع)
پھر اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اُس نے تورات میں دین کی کیا نعمتیں رکھی ہیں ؟ چنانچہ فرمایا کہ’’ا س میں ہر چیز کی تفصیل ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس میں دین کے تمام احکام عقائد اور مسائل کی تفصیل ہے، لہٰذا اس میں ہمارے نبی سیدنا محمد مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت اور رسالت کا بیان اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے تمام دلائل ہیں اور یہ ہدایت اور رحمت ہے تاکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی ملاقات پر ایمان لے آئیں۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۵ / ۱۸۶)
{ وَ هٰذَا كِتٰبٌ:اور یہ کتاب۔} یعنی قرآن شریف جو کثیر خیر والا، کثیر نفع والا اور کثیر برکت والا ہے اور قیامت تک رہے گا اور تحریف و تبدیل و نَسخ سے محفوظ رہے گا۔ قرآن اس لئے مبارک ہے کہ مبارک فرشتہ اسے لایا، مبارک مہینے رمضان میں لایا، مبارک ذات پر اترا، خالق و مخلوق کے درمیان وسیلہ ہے، جس کام پر اس کی آیات پڑھ دی جائیں اس میں برکت ہو جائے اور سب سے بڑھ کر اس کی تعلیمات اور ہدایت برکت والی ہیں۔
{ فَاتَّبِعُوْهُ:تو تم اس کی پیروی کرو۔} یعنی قرآنِ کریم میں مذکور احکامات پر عمل کرو، ممنوعات سے باز آجاؤ اور اس کی مخالفت کرنے سے بچو تاکہ اس اتباع اور عمل کی برکت سے تم پر رحم کیا جائے۔
امت پر قرآنِ مجید کا حق:
اس سے معلوم ہو اکہ امت پر قرآنِ مجید کا ایک حق یہ ہے کہ وہ ا س مبارک کتاب کی پیروی کریں اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے بچیں۔ افسوس! فی زمانہ قرآنِ کریم پر عمل کے اعتبار سے مسلمانوں کا حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے، آج مسلمانوں نے ا س کتاب کی روزانہ تلاوت کرنے کی بجائے اسے گھروں میں جزدان و غلاف کی زینت بنا کر اور دکانوں پر کاروبار میں برکت کے لئے رکھا ہوا ہے اور تلاوت کرنے والے بھی صحیح طریقے سے تلاوت کرتے ہیں اور نہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے رب عَزَّوَجَلَّنے اس کتاب میں ان کے لئے کیا فرمایا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اس مقدس کتاب کو سینے سے لگا کر حِرْزِ جاں بنائے رکھا اور اس کے دستور و قوانین اور احکامات پر سختی سے عمل پیرا رہے تب تک دنیا بھر میں ان کی شوکت کا ڈنکا بجتا رہا اور غیروں کے دل مسلمانوں کا نام سن کر دہلتے رہے اور جب سے مسلمانوں نے قرآنِ عظیم کے احکام پر عمل چھوڑ رکھا ہے تب سے وہ دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہو رہے اور اغیار کے دست نگر بن کر رہ گئے ہیں۔
وہ ز مانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
قرآنِ کریم کے احکام پر عمل نہ کرنے کا دنیوی نقصان تو اپنی جگہ، اخروی نقصان بھی انتہائی شدید ہے، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ قرآن شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت مقبول ہے، جس نے (اس کے احکامات پر عمل کر کے) اسے اپنے سامنے رکھا تو یہ اسے پکڑ کر جنت کی طرف لے جائے گا اور جس نے (اس کے احکامات کی خلاف ورزی کر کے) اسے اپنے پیچھے رکھا تو یہ اسے ہانک کر جہنم کی طرف لے جائے گا۔(معجم الکبیر، ومن مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، ۱۰ / ۱۹۸، الحدیث: ۱۰۴۵۰، ملتقطاً)
{ اَنْ تَقُوْلُوْا:کبھی کہو۔} یعنی یہ قرآن اس لئے نازل کیا ہے تاکہ تمہیں یہ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتابیں جیسے تورات و انجیل تو ہم سے پہلے کے دوگروہوں پریعنی یہودیوں اور عیسائیوں پر اُتری تھیں، ہماری عرب کی سرزمین میں تونہ کوئی رسول آیا اور نہ کوئی کتاب۔ پھر جو کتابیں توریت و انجیل آئیں وہ ہماری زبان میں نہ تھیں اور نہ ہی ہمیں کسی نے ان کے معنی بتائے پھر ہم ہدایت پر کیسے آتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم نازل فرما کر بتادیا کہ اب تمہارا کوئی عذر باقی نہ رہا اور تم یہودو نصاریٰ کے محتاج نہ رہے۔
{ اَوْ تَقُوْلُوْا:یا کہو۔} شانِ نزول: کفارِ عرب کی ایک جماعت نے کہا تھا کہ یہود و نصارٰی پر توریت و انجیل نازل ہوئیں مگر وہ بے عقل ان کتابوں سے ہدایت حاصل نہ کر سکے ہم اُن کی طرح خفیفُ العقل اور نادان نہیں ہیں ہماری عقلیں صحیح ہیں اور ہماری عقل وذہانت اور فہم و فراست تو ایسی ہے کہ اگر ہم پر کتاب اُترتی تو ہم ان سے زیادہ سیدھے راہ پر ہوتے۔ ان کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ اور اس طرح ان کا یہ عذر بھی ختم فرما دیا گیا۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۷۱)
صرف عقل پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے:
اس سے معلوم ہوا کہ صرف اپنی عقل پر اعتماد نہ کرنا چاہیے بلکہ رب تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ شیخی مارنے والے بھی کافر ہی رہے ایمان نہ لائے اس لئے کہ انہوں نے عقل پر بھروسہ کیا۔
{ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ:تو اس سے زیادہ ظالم کون جو۔} یعنی جو نبی کے معجزات اور ان کی کتابوں کا انکار کرتا ہے وہ سب سے بڑا ظالم ہے کیونکہ وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہے کہ اسے دائمی عذاب کا مستحق بناتا ہے۔
{ هَلْ یَنْظُرُوْنَ:کس کے انتظار میں ہیں۔} یعنی جب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت پردلائل قائم کردئیے گئے اور کفریہ اور گمراہ کُن عقائد کا باطل ہونا بھی ظاہر کردیا گیا تو اب ایمان لانے میں کیا انتظار باقی ہے؟ اب تو یہی ہے کہ وہ کفار اس چیز کا انتظار کررہے ہیں کہ ان کے پاس ان کی روح قبض کرنے کے لئے موت کے فرشتے آجائیں یا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا عذاب آجائے یا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی قیامت کی خبر دینے والی ایک نشانی آجائے اور یوں مشاہدے کے طور پر ہرچیز ان کیلئے ظاہر ہوجائے، لیکن ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ جس دن غیب کے معاملات ظاہر ہوجائیں گے یا عذاب آنکھوں کے سامنے آچکا ہوگا تواس دن کافر کو ایمان لانا نفع نہ دے گا۔ جمہور مفسرین نے فرمایا کہ آیت میں جو فرمایا گیا کہ’’ جس دن تیرے رب کی ایک نشانی آئے گی‘‘ اس نشانی سے مراد آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا ہے چنانچہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو اور جب وہ مغرب سے طلوع ہو گا اور اُسے لوگ دیکھیں گے تو سب ایمان لائیں گے اور یہ ایمان نفع نہ دے گا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب لا ینفع نفساً ایمانہا۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۲۳، الحدیث: ۴۶۳۵، مسلم، کتاب الایمان، باب بیان زمن الذی لا یقبل فیہ الایمان، ص۹۲، الحدیث: ۲۴۸(۱۵۷))
{ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًا:یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی (نہ) حاصل کی ہوگی۔} اس کے معنی یہ ہیں کہ مغرب کی جانب سے سورج طلوع ہونے سے پہلے جس گنہگار مومن نے توبہ نہ کی توا ب اُس کی توبہ مقبول نہیں۔ (تفسیر طبری، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۵ / ۴۰۷، ملخصاً)
امام ضحاک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’اس نشانی کے ظاہر ہونے سے پہلے جو مومن نیک اعمال کرتا تھا نشانی ظاہر ہونے کے بعد بھی اسی طرح اس کے نیک اعمال اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا البتہ جب یہ نشانی ظاہر ہوئی تو ا س وقت نہ کافر کا ایمان مقبول ہے نہ گنہگار کی توبہ کیونکہ یہ ایسی حالت ہے جس نے انہیں ایمان لانے اور گناہوں سے توبہ کرنے پر مجبور کر دیا لہٰذا جس طرح عذابِ الٰہی دیکھ کر کفار کا ایمان لانا بے فائدہ ہے اسی طرح قربِ قیامت کے ہولناک مناظر دیکھ کر بھی ایمان اور توبہ قبول نہیں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۲ / ۷۳)
توبہ اور نیک اعمال میں سبقت کرنے کی ترغیب:
اس آیت میں ہر مسلمان کے لئے نصیحت ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر کے نیک اعمال میں مصروف ہو جائے۔ نیک اعمال میں سبقت کرنے کی ترغیب حدیثِ پاک میں بھی دی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ چھ چیزوں کے ظاہر ہونے سے پہلے نیک عمل کرنے میں سبقت کرو، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے، دھوئیں ، دجال، دابۃُ الارض، تم میں سے کسی ایک کی موت یا سب کی موت (یعنی قیامت ) سے پہلے۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی بقیۃ من احادیث الدجال، ص۱۵۷۹، الحدیث: ۱۲۸(۲۹۴۷))
اور امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ توبہ میں تاخیر کرنا سخت نقصان دہ ہے، کیونکہ گناہ سے ابتداء ً قَساوتِ قلبی پیدا ہوتی ہے، پھر رفتہ رفتہ گناہ کا انجام یہ ہوتا ہے کہ انسان کفرو گمراہی اور بد بختی میں مبتلا ہو جاتا ہے ، کیا تم ابلیس اور بلعم بن باعوراء کا واقعہ بھول گئے، ان سے ابتدا میں ایک ہی گناہ صادر ہوا تھا، آخر نتیجہ یہ ہو اکہ وہ کفر میں مبتلا ہو گئے اور ہمیشہ کے لیے تباہ حال لوگوں میں شامل ہوگئے۔ ان کے انجام کو مد نظر رکھتے ہوئے تم ڈرتے رہو اور تم پر لازم ہے کہ توبہ کے بارے میں اپنے اندر بیداری اور جانْفشانی پیدا کرو،( اگر تم نے جلد توبہ کر لی) تو عنقریب تمہارے دل سے گناہوں کے اصرار کی بیماری کا قَلع قَمع ہو جائے گا اور گناہوں کے بوجھ سے تمہاری گردن آزاد ہو جائے گی اور گناہوں کی وجہ سے دل میں جو قساوت اور سختی پیدا ہوتی ہے ا س سے ہر گز بے خوف نہ ہو بلکہ ہر وقت اپنے حال پر نظر رکھو، اپنے نفس کو گناہوں پر ٹوکتے رہو اور اس کا محاسبہ کرتے رہو اور توبہ و استغفار کی طرف سبقت و جلدی کرو اور ا س میں کسی قسم کی سستی اور کوتاہی نہ کرو کیونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں اور دنیا کی زندگی محض دھوکہ اور فریب ہے۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثانیۃ، ص۳۵-۳۶)
{ قُلِ انْتَظِرُوْا:تم فرمادو: تم انتظار کرو ۔} یعنی اے کافرو! تم موت کے فرشتوں کی آمد یا عذاب یا نشانی، ان میں سے کسی ایک کے آنے کا انتظار کرو اور ہم بھی تم پر عذاب آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کس کا انتظار درست تھا چنانچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے کافر ہلاک اور مغلوب ہوئے جبکہ مسلمانوں کو غلبہ عطا ہوا اور قیامت کے دن بھی کفار ہلاک ہوں گے اور مومن کامیاب و کامران ہو کر سُرخرو ہوں گے۔
{ اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ:بیشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔} اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں سے کون لوگ مراد ہیں ، اس بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ، ان میں سے دو قول درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’ان لوگوں سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بعثت سے پہلے وہ ایک دوسرے سے ا ختلاف کرتے تھے اور بعد میں مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۵ / ۱۴۳۰)
(2)… حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ان سے تمام مشرکین مراد ہیں کیونکہ ان میں سے بعض نے بتوں کی پوجا کی اور کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری سفارش کریں گے۔ بعض نے فرشتوں کی عبادت کی اور کہا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور بعض نے ستاروں کی پرستش کی، تو یہ ان کی دین میں تفریق ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۲ / ۷۲)
فرقہ بندی کا سبب اور حق پر کون؟
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے کا حکم دیا ہے اور انہیں اختلاف اور فرقہ بندی سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ ان سے پہلے لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّکے دین میں جھگڑنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۵ / ۱۴۳۰)
خلاصہ یہ کہ اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نظریے پر متفق ہونے، دین میں فرقہ بندی اور بِدعات اختیار کرنے سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ فی زمانہ بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اسلام میں فرقہ بندی کیوں ہے اور ان میں حق پر کون ہے؟ اس سلسلے میں چند باتیں ذہن نشین کر لیجئے،اِنْ شَآءَ اللہ! آپ پر خود ہی واضح ہو جائے گا کہ فرقہ بندی کا اصل سبب کیا ہے اور مختلف فرقوں میں سے حق پر کونسا فرقہ ہے
پہلی بات : یہ امت کبھی گمراہی پر جمع نہ ہو گی۔حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ اُمَّتِیْ لَا تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ فَاِذَارَاَیْتُمْ اِخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ‘‘میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی، جب تم اختلاف دیکھو تو سب سے بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم،۴ / ۳۲۷، الحدیث:۳۹۵۰)
دوسری بات: حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صدیوں پہلے ہی اس اختلاف اور فرقہ بندی کے بارے میں پیشین گوئی فرما دی تھی، چنانچہ حضرت عوف بن مالک سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَتَفْتَرِقَنَّ اُمَّتِیْ عَلٰی ثَلَا ثٍ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً، وَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَثِنْتَانِ وَسَبْعُوْنَ فِی النَّارِ، قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللہِ مَنْ ہُمْ قَالَ اَلْجَمَاعَۃُ‘‘اس ذات کی قسم !جس کے دستِ قدرت میں محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی جان ہے، میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی (ان میں سے) ایک جنت میں جائے گا اور 72جہنم میں جائیں گے۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ ! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) وہ جنتی کون ہوں گے ؟ارشاد فرمایا :وہ جماعت ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب افتراق الامم،۴ / ۳۵۲، الحدیث: ۳۹۹۲)
واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اختلافِ امت کے بارے میں جو کچھ فرمایا وہ عین حق اور صواب پر مبنی تھا۔
تیسری بات:یہ بات انتہائی قابلِ غور ہے کہ اس دورِ اختلاف میں حق پسند اور نجات پانے والے گروہ کا پتا کیسے چلے گا، کس طرح معلوم ہو گا کہ موجودہ فرقوں میں حق پر کون ہے۔ اس کی رہنمائی بھی حدیث پاک میں کر دی گئی ہے کہ ’’اِذَا رَاَیْتُمْ اِخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمْ‘‘جب تم اختلاف دیکھو تو سب سے بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم،۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)
اس روایت میں اختلاف سے مراد اصولی اختلاف ہیں جس میں ’’کفر و ایمان‘‘ اور ’’ہدایت وضلالت ‘‘ کا فرق پایا جائے، فروعی اختلاف ہر گز مراد نہیں کیونکہ وہ تو رحمت ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے ’’اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ‘‘ میری امت کا (فروعی) اختلاف رحمت ہے۔( کنز العمال، کتاب العلم، قسم الاقوال، ۵ / ۵۹، الحدیث: ۲۸۶۸۲، الجزء العاشر)
اس تفصیل کو ذہن میں رکھ کر موجودہ اسلامی فرقوں میں اس بڑے فرقے کو تلاش کیجئے جو باہم اصولوں میں مختلف نہ ہوں اور جس قدر اسلامی فرقے اس کے ساتھ اصولی اختلاف رکھتے ہوں وہ ان سب میں بڑا ہو۔ آپ کو اہلسنّت و جماعت کے سوا کوئی نہ ملے گا جس میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، چشتی، سہروردی، نقشبندی، اشعری ، ماتریدی سب شامل ہیں یہ سب اہلسنّت ہیں اور ان کے مابین کوئی ایسا اصولی اختلاف نہیں جس میں کفر و ایمان یا ہدایت و ضَلال کا فرق پایا جائے لہٰذا اس پر فتن دور میں حدیثِ مذکور کی رُو سے سوادِ اعظم اہلسنّت و جماعت ہے اور اس کا حق پر ہونا بھی ثابت ہوا۔
{ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ:جو ایک نیکی لائے۔} یعنی ایک نیکی کرنے والے کو دس نیکیوں کی جزا اور یہ کوئی انتہائی مقدار نہیں بلکہ یہ تو فضل الہٰی کی ابتدا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کے لئے جتنا چاہے اس کی نیکیوں کو بڑھائے ایک کے سات سو کرے یا بے حساب عطا فرمائے۔
ثواب کے درجات:
اس آیت سے متعلق علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت میں جس اضافے کا وعدہ کیا ہے یہ اس کا کم ازکم حصہ ہے۔ (فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۲ / ۳۱۳، تحت الحدیث: ۱۷۶۳)
ایک اورمقام پرارشاد فرماتے ہیں : آیت سے مرادکہ ’’جو ایک نیکی لائے‘‘ کے مقابلے میں ثواب کے مراتب میں سے اَقَل مرتبے کا بیان ہے اور اس کے اکثر مرتبے کی کوئی انتہا نہیں۔ (فیض القدیر، حرف المیم، ۶ / ۱۸۸، تحت الحدیث: ۸۷۳۱)
حضرت ملا علی قاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ظاہر یہ ہے کہ یہ اقل (یعنی کم از کم) اضافہ ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفضلہا، الفصل الاول، ۳ / ۱۰، تحت الحدیث: ۹۲۱)
ایک اور مقام پر فرمایا ’’اور وہ زیادتی کا قلیل مرتبہ ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں کیا گیا ہے’’ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ‘‘جو ایک نیکی لائے تو اس کے لئے اس جیسی دس ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب فضائل القرآن، الفصل الثانی، ۴ / ۶۴۷، تحت الحدیث: ۲۱۳۷)
حضرت علامہ عبد الرحمٰن بن شہاب الدین بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’ نیکی کا دس گنا اضافہ تمام نیکیوں کے لئے لازم ہے، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانِ عالیشان ہے’’ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ‘‘ جو ایک نیکی لائے تو اس کے لئے اس جیسی دس ہیں۔‘‘(جامع العلوم والحکم، الحدیث السابع والثلاثون، ص۴۳۶)
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں جو جزا بیان ہوئی یہ اس کے لئے ہے جو نیکی یا گناہ کرے البتہ جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور اسے کر نہ سکا تو اس کے لئے ایک نیکی لکھی جائے گی اور جس نے گناہ کا ارادہ کیا لیکن گناہ کیا نہیں ، اب اگر اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف کی وجہ سے گناہ چھوڑا ہو گا تو اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی ورنہ کچھ نہ لکھا جائے گا۔ (تفسیر صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۰، ۲ / ۶۵۲)
یاد رہے کہ ثواب کے اکثر درجات کی کوئی حد نہیں ، قرآنِ پاک میں سات سو گنا کا ذکر فرمانے کے بعد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّجس کیلئے چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھا دے اور قرآنِ پاک میں صبر پر بے حساب اجر کا وعدہ ہے اور حدیث میں مکہ سے پیدل حج کرنے پر ہر قدم پر سات کروڑ نیکیوں کی بشارت ہے۔
{ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ:اور ان پر ظلم نہیں کیاجائے گا۔} ارشاد فرمایا کہ ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا خواہ اس طرح کہ اطاعت گزار اور نیک اعمال کرنے والے کے ثواب میں کمی کر دی جائے اور نافرمان اور گنہگار کو اس کے جرم سے زیادہ سزا دے دی جائے یااس طرح کہ انہیں جرم کئے بغیر عذاب دیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفار کے چھوٹے بچے جو بچپن میں فوت ہو جائیں وہ دوزخی نہیں کیونکہ انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔
ظلم کے معنی:
ظلم کے دو معنی ہیں :
(1)… کسی غیر کی چیز میں بلا اجازت تصرف کرنا۔ (صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۰، ۲ / ۶۵۲)
(2)… بے قصور کو سزا دے دینا یا کام لے کر اس کی اجرت نہ دینا۔ (جامع العلوم والحکم، الحدیث الرابع والعشرون، ص۲۸۱، التیسیر شرح جامع صغیر، حرف العین، ۲ / ۱۳۵)
ان جیسی آیات میں ظلم کے دوسرے معنی مراد ہیں اور حدیثِ پاک کہ اگر خدا تمام دنیا کو دوزخ میں بھیج دے تو ظالم نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر چیز اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مِلکیت ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّاپنی ملکیت میں جیسے چاہے تصرف فرمائے۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan