Surah Al-An'aam
{ وَ كَیْفَ اَخَافُ مَاۤ اَشْرَكْتُمْ: اور میں تمہارے شریکوں سے کیوں ڈروں ؟} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا کہ ’’میں تمہارے شریکوں سے کیوں ڈروں جو بے جان، جمادات اور بالکل عاجز و بے بس ہیں اور مجھے ڈرانے کی بجائے تو تمہیں ڈرنا چاہیے کیونکہ تم نے ان بتوں کواللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرایا جن کے شریک ہونے کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اس بات کو سامنے رکھ کہ غور کرو کہ امن کا مستحق کون ہے وہ مومن جس کے پاس اپنے عقیدے کی حقانیت کے دلائل ہیں یا وہ مشرک امن کا مستحق ہے جس کے پاس اس کے عقیدے کی کوئی معقول و قابلِ قبول دلیل نہیں ہے۔
{ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: وہ جو ایمان لائے۔}اس آیت میں ایمان سے مراد ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ماننا اور ظلم سے مراد شرک ہے۔ البتہ معتزلہ اس آیت میں ’’ظلم‘‘ سے مراد گناہ لیتے ہیں ، یہ صحیح احادیث کے خلاف ہے اس لئے اس کا اعتبار نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی توصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بہت پریشان ہوئے اور انہوں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کی ’’ہم میں سے ایسا کون ہے جو اپنی جان پر ظلم نہیں کرتا۔ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :’’اس سے یہ مراد نہیں بلکہ اس سے مراد شرک ہے۔ کیا تم نے وہ بات نہیں سنی جو حضرت لقمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہی کہ ’’ اے میرے بیٹے !اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کسی کو شریک نہ کرنا، بیشک شرک بڑا ظلم ہے ۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی: ولقد آتینا لقمان الحکمۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۵۱، الحدیث: ۳۴۲۹)
{ وَ تِلْكَ حُجَّتُنَا: اور یہ ہماری مضبوط دلیل ہے۔} اس رکوع میں حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی شان اور دیگر انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عظمت کا بیان ہے اور اس سارے بیان کا مقصد سب انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آقا، امامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکین و تعلیم اور تربیت ہے ،جیسا کہ رکوع کے آخر میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا کثرت سے تذکرہ کرنا اور محفلوں ، مجلسوں کو اُن کے ذِکرپاک سے آراستہ کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّکو نہایت محبوب ہے اور ایمان کی طاقت اور عقیدہ ِ توحید کو مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی قوم کے سامنے سورج، چاند ، ستاروں کے ذریعے اور دیگر جو دلائل بیان فرمائے وہ سب دلائل اللہ عَزَّوَجَلَّنے انہیں عطا فرمائے تھے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا سورج، چاند وغیرہا کو رب کہنا معاذاللہ بطورِ شرک نہیں بلکہ قوم کے سامنے بطورِ دلیل تھا کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ یہ باتیں تو ہم نے انہیں بطور ِ دلیل کے عطا فرمائی تھیں۔
{ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ: ہم درجات بلند کرتے ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ ہم جس کے چاہتے ہیں علم ،عقل ، فہم اور فضیلت کے ساتھ درجات بلند کردیتے ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے دنیا میں علم و حکمت اور نبوت کے ساتھ اور آخرت میں قرب و ثواب کے ساتھ درجے بلند فرمائے۔
{ وَ وَهَبْنَا لَهٗ : اور ہم نے انہیں عطا فرمائے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہدایت کا تذکرہ کیا گیا اور اس کے ساتھ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولادِ مبارک کا تذکرہ کیا ۔ جن کے اسماءِ کریمہ آیت میں بیان ہوئے یہ سب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد میں سے ہیں اور یہ سارے نبی ہوئے۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا مقام:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے یہ مقام اور مرتبہ عطا فرمایا کہ آپ کے بعد جتنے بھی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممبعوث ہوئے سب آپ ہی کی اولاد سے تھے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ‘‘ (عنکبوت:۲۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔
تفسیرِ بغوی اور تفسیرِ خازن میں ہے ’’یُقَالُ اِنَّ اللہَ لَمْ یَبْعَثْ نَبِیًّا بَعْدَ اِبْرَاہِیْمَ اِلَّا مِنْ نَسْلِہٖ‘‘ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد جو نبی مبعوث فرمایا وہ ان کی نسل سے تھا۔ (بغوی، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۳۹۹-۴۰۰، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۴۴۹)
تفسیرِ قرطبی میں ہے ’’لَمْ یَبْعَثِ اللہُ نَبِیًّا مِنْ بَعْدِ اِبْرَاہِیْمَ اِلَّا مِنْ صُلْبِہٖ‘‘ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بعد تمام انبیاء ان کے صلب سے مبعوث فرمائے۔ (قرطبی، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۷ / ۲۵۵، الجزء الثالث عشر)
تفسیرِ جلالین میں ہے ’’فَکُلُّ الْانبیاءِ بَعَدَ اِبْرَاہِیْمَ مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ ‘‘ پس حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام انبیاء ان کی اولاد میں سے تھے۔ (جلالین مع صاوی، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۱۵۶۱)
یاد رہے کہ سورۂ حدید کی آیت نمبر 26میں جو مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دونوں کی اولاد میں نبوت رکھی، اس کی تفسیر میں ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامچونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد میں سے ہیں ا س لئے شرفِ نبوت ان دونوں کی اولاد میں ہونا صادق آیا۔ (البحر المحیط، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۶، ۸ / ۲۲۶)اس سے یہ بھی معلوم ہو اکہ قادیانی نبی ہر گز نہیں کیونکہ اگر قادیانی نبی ہوتا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں ہوتا۔
{ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ:اور اسماعیل اوریَسَع۔} اس آیت اور اس سے اوپر والی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا ذکر فرمایا اور ان کے ذکر میں جو ترتیب آیت میں موجود ہے وہ نہ توزمانہ کے اعتبار سے ہے اور نہ فضیلت کے اعتبار سے لیکن جس شان سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اسماء ذکر فرمائے گئے اس میں ایک عجیب لطیفہ ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی ہر ایک جماعت کو ایک خاص طرح کی کرامت و فضیلت کے ساتھ ممتاز فرمایا ،جیسے حضرت نوح، ابراہیم ، اسحق اور یعقوب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پہلے ذکر کیا کیونکہ یہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اصول ہیں یعنی ان کی اولاد میں بکثرت انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہوئے جن کے نسب انہیں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پھر نبوت کے بعد عظیم مقامات و مراتب میں سے ملک و اختیار اور سلطنت واقتدار ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا بہت بڑا حصہ عطا فرمایا اور اس شعبے کا زیادہ تر تعلق مقامِ شکر سے ہے۔ پھر اس کے بعد حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ مراتبِ رفیعہ (بلند مراتب) میں سے مصیبت و بلاء پر صابر رہنا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس مرتبے کے ساتھ ممتاز فرمایا پھر ملک ا ور صبر کے دونوں مرتبے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو عنایت کئے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے شدت و بلاء پر مدتوں صبر فرمایا، پھر اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ ملک مصر عطا کیا۔ پھرحضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ معجزات کی کثرت اور دلائل و براہین کی قوت بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کے ساتھ مشرف کیا۔ پھرزہد اور ترک ِدنیا بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہے اور حضرت زکریا ،حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت الیاس عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اس کے ساتھ مخصوص فرمایا پھر ان حضرات کے بعداللہ تعالیٰ نے ان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا ذکر فرمایا کہ جن کے نہ پیروکار باقی رہے اورنہ ان کی شریعت جیسے حضرت اسمٰعیل، حضرت یَسع، حضرت یونس اور حضرت لوط عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۶، ۲ / ۳۳)
اس شان سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا ذکر فرمانے میں ان کی کرامتوں اور خصوصیتوں کی ایک عجیب باریکی نظر آتی ہے۔
{ وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ:اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔} اِس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ عالَم یعنی جہان میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا تمام موجودات داخل ہیں تو فرشتے بھی اس میں داخل ہیں اور جب تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو فرشتوں پر بھی فضیلت ثابت ہوگئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۶، ۲ / ۳۳)
{ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ:یہ اللہ کی ہدایت ہے۔}یہاں ہدایت سے مراد ا س چیز کی معرفت ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد ویکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور اس معرفت کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنے دین ، اپنی طاعت اور لوگوں کی طرف سے ٹھہرائے گئے اللہ تعالیٰ کے شریکوں سے بیزاری کا اظہار کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۸، ۲ / ۳۴)
{ وَ لَوْ اَشْرَكُوْا: اور اگر وہ(بھی بالفرض) شرک کرتے۔}اس آیت میں عوام و خواص سب لوگوں کو ڈرایا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف نہ ہوں کیونکہ جب فضیلت اور بلند مقام رکھنے والے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ اگر وہ (بھی بالفرض) شرک کرتے تو ضرور ان کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے۔ تو ان کے مقابلے میں اور لوگوں کا حال کیا ہو گا ۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۶۲)
{ اُولٰٓىٕكَ: یہی وہ ہستیاں ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ جن انبیا ءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر کیا گیا یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں ہم نے کتاب ،حکمت اور نبوت عطا کی ہے تو اگر یہ کفارِ مکہ کتاب، حکمت اور نبوت کا انکار کرتے ہیں تو ہم نے ان تمام چیزوں کے حقوق ادا کرنے کیلئے ایسی قوم مقرر کررکھی ہے جو ان چیزوں کا انکار کرنے والی نہیں۔ اس قوم سے یا انصار مراد ہیں یا مہاجرین یا تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم یاتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے والے وہ تمام مسلمان جنہیں اللہ تعالیٰ خدمت ِدین کی توفیق بخشے جیسے مبلغین، علماء ،اولیاء سلاطین وغیرہا۔ اس آیت میں دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نصرت فرمائے گا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین کو قوت دے گا اور اس کو تمام اَدیان پر غالب کرے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہ غیبی خبر واقع ہو گئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۳۴)
{ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ: تو تم ان کی ہدایت کی پیروی کرو۔}جلیلُ القدر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تذکرے کے بعد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ ان کی اِس ہدایت کی اقتدا کریں۔ علمائے دین نے اس آیت سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہسرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل ہیں کیونکہ جو شرف و کمال اور خصوصیات و اوصاف جدا جدا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمائے گئے تھے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے سب کو جمع فرمادیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو حکم دیا ’’ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ‘‘ تو جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتمام ا نبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے اوصافِ کمالیہ کے جامع ہیں تو بے شک سب سے افضل ہوئے ۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۳۴)
{ ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ: سارے جہان والوں کیلئے نصیحت۔} اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہمارے آقا و مولا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام مخلوق کی طرف مبعوث ہیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی دعوت تمام مخلوق کو عام ہے اور کل جہان آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اُمت ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۳۵)
{ وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ:اور یہودیوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق تھا۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت اپنے حِبْرُالاحْبار یعنی سب سے بڑے عالم مالک ابنِ صیف کو لے کرنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بحث کرنے آئی۔ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا، میں تجھے اُس پر وردگار کی قسم دیتا ہوں جس نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر توریت نازل فرمائی ،کیا توریت میں تو نے یہ دیکھا ہے؟ ’’ اِنَّ اللہَ یُبْغِضُ الْحِبْرَ السَّمِیْنَ‘‘ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّکو موٹا عالم ناپسند ہے۔ وہ کہنے لگا، ’’ہاں ، یہ توریت میں ہے‘‘۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا:’’ تو موٹا عالم ہی تو ہے ۔اس پروہ غضبناک ہو کر کہنے لگاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی آدمی پر کچھ نہیں اُتارا۔اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اس میں فرمایا گیا : وہ کتاب کس نے اُتاری جو موسیٰ لائے تھے؟ تو وہ لاجواب ہوگیا اور یہودی اُس پر برہم ہوگئے اور اس کو جھڑکنے لگے اور اس کو اُس کے عہدے سے معزول کردیا۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۱، ۲ / ۹۴، مدارک، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۳۳۱-۳۳۲، ملتقطاً)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ خیال رہے کہ موٹے پادری سے مراد وہ پادری تھے جو حرام خوری کرکے خوب موٹے تازے ہو جاتے تھے۔
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ویسی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق تھا اور اس کی معرفت سے محروم رہے اور بندوں پر اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کو نہ جانا۔ انہوں نے کہا : اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں نازل کی۔ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم انہیں جواب دو کہ اگراللہ عَزَّوَجَلَّ نے کوئی کتاب نہیں اتاری تو وہ کتاب کس نے اتاری تھی جسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاملے کر آئے تھے؟ جو سراپا نور اور لوگوں کے لیے ہدایت تھی اور جس کے تم نے الگ الگ کاغذ بنالیے تھے اور ان میں سے کچھ کو ظاہر کرتے ہو جس کا اظہار اپنی خواہش کے مطابق سمجھتے ہو جبکہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور ان کے دین کے بارے میں بہت کچھ چھپالیتے ہو اور اے یہودیو! تمہیں محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیم اور قرآنِ کریم کے ذریعے وہ کچھ سکھایا جاتا ہے جو نہ تم کو معلوم تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو۔ مزید فرمایا کہ پھر یہودی اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوال کا جواب نہ دے سکیں توتم خود جواب دے دینا کہ تورات کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نازل کیا تھا اور جیسے تورات کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نازل فرمایا تھا ایسے ہی قرآن کو بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہی نازل فرمایا ہے اوریہ جواب دینے کے بعد انہیں ان کی بیہودگی میں کھیلتے ہوئے چھوڑ دو کیونکہ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حجت قائم کردی اور وعظ و نصیحت کا حق ادا کردیا اور ان کے لئے کسی عذر اور بہانے کی گنجائش نہ چھوڑی اوراس پر بھی وہ باز نہ آئیں تو انہیں ان کی بے ہودگی میں چھوڑ دیں۔یہ کفار کے حق میں وعید و تہدید ہے۔
{ وَ هٰذَا كِتٰبٌ: اور یہ کتاب ہے۔} یہاں قرآنِ پاک کے بارے میں فرمایا کہ یہ قرآنِ پاک برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ۔ یہ پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور ہم نے اسے اس لئے نازل فرمایا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے ذریعے مرکزی شہر مکہ مکرمہ اور اس کے اردگرد والوں کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب کی خبریں دو۔
{ وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ:اور جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں۔}ارشاد فرمایا کہ جو لوگ آخرت اور اس میں موجود انواع و اقسام کے عذابات پر ایمان لاتے ہیں وہی اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں کیونکہ وہ برے انجام سے ڈرتے ہیں اور یہی خوف انہیں غورو فکر کرنے پر ابھارتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ ا س پر ایمان لے آتے ہیں اور قرآنِ مجید پر ایمان لانے والے اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۲، ۳ / ۶۴)
یہاں نماز کو بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ ایمان کے بعد سب سے اعلیٰ عبادت ہے اور جب بندہ تمام ارکان و شرائط کے ساتھ اس کی پابندی کرتا ہے تو دیگر عبادات اور طاعات کی پابندی کرنا بھی شروع کر دیتا ہے۔ا س سے معلوم ہو اکہ قرآنِ مجید پر ایمان لانے کا ایک تقاضا یہ ہے کہ پانچوں نمازیں ان کے تمام ارکان و شرائط کے ساتھ پابندی سے ادا کی جائیں اور ان کی ادائیگی میں کسی طرح کی سستی اور کاہلی سے کام نہ لیا جائے۔اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اس تقاضے پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ [1]
[1] …نماز کے ارکان و شرائط اور اس سے متعلق دیگر معلومات حاصل کرنے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکی کتاب’’نماز کے احکام‘‘ اور ’’اسلامی بہنوں کی نماز‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔}یہ آیت مُسَیْلِمَہ کذّاب کے بارے میں نازل ہوئی جس نے یمن کے علاقے یمامہ میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ قبیلہ بنی حنیفہ کے چند لوگ اس کے فریب میں آگئے تھے ۔یہ کذاب ،سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے زمانۂ خلافت میں حضرت وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ سے قتل ہوا۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۳۷) اس کے بارے میں فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھے یا نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے اور کہے کہ میری طرف وحی کی گئی حالانکہ اس کی طرف کسی شے کی وحی نہیں بھیجی گئی ۔یہ آیت صراحت کے ساتھ مرزا قادیانی کا بھی رد کرتی ہے کیونکہ وہ بھی اس کا مدعی تھا کہ میری طرف وحی نازل کی جاتی ہے۔ آج کل قادیانی لوگوں کو مختلف طریقوں سے دھوکہ دیتے ہیں۔ کچھ یہ کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد نے نبوت کا نہیں بلکہ مجدد ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور ہم اسے صرف مجدد مانتے ہیں جبکہ بعض کہتے ہیں کہ مرزا نے مطلق نبوت و رسالت کا دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت کا دعویٰ کیا تھاحالانکہ مرزا قادیانی کی کتابوں میں بیسیوں جگہ مُطلق نبوت و رسالت کا دعویٰ موجود ہے اور جو ظلی و بروزی نبوت کا دعویٰ ہے وہ بھی نبوت ہی کا دعویٰ ہے اور وہ بھی قطعاً کفر ہے، نیزمرزا کے منکروں کوکافر اور ماننے والوں کو صحابی اور بیویوں کو ازواجِ مطہرات کہنا ان کی کتابوں میں عام ہے لہٰذا کسی بھی مسلمان کو ان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے۔
{ وَمَنْ قَالَ:اور جس نے کہا۔} آیت کا یہ حصہ عبداللہ بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوا جو کاتب ِ وحی تھا۔ جب آیت ’’ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ ‘‘ نازل ہوئی ، اس نے اس کو لکھا اور آخر تک پہنچتے پہنچتے انسانی پیدائش کی تفصیل پر مطلع ہو کر متعجب ہوا اور اس حالت میں آیت کا آخر ی حصہ ’’ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ‘‘ بے اختیار اس کی زبان پر جاری ہوگیا ۔ اس پر اس کو یہ گھمنڈ ہوا کہ مجھ پر وحی آنے لگی اور مرتد ہوگیا، یہ نہ سمجھا کہ نورِ وحی اور قوت و حسنِ کلام کی وجہ سے آیت کا آخری کلمہ خود زبان پر آگیا ہے اور اِس میں اُس کی قابلیت کا کوئی دخل نہ تھا۔ زورِ کلام بعض اوقات خود اپنا آخر بتادیا کرتا ہے جیسے کبھی کوئی شاعر نفیس مضمون پڑھے وہ مضمون خود قافیہ بتا دیتا ہے اور سننے والے شاعر سے پہلے قافیہ پڑھ دیتے ہیں ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہر گز ویسا شعر کہنے پر قادر نہیں تو قافیہ بتانا ان کی قابلیت نہیں ، کلام کی قوت ہے اور یہاں تو نورِوحی اور نورِ نبی سے سینہ میں روشنی آتی تھی چنانچہ مجلس شریف سے جدا ہونے اور مرتد ہوجانے کے بعد پھر وہ ایک جملہ بھی ایسا بنانے پر قادر نہ ہوا جو نظمِ قرآنی سے ملتا جلتا ہو۔ آخر کار زمانہ ِاقدس ہی میں فتحِ مکہ سے پہلے پھر اسلام سے مشرف ہوگیا۔ (تفسیر قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۳، ۴ / ۳۰، الجزء السابع)اس کے بارے میں فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو کہے : عنقریب میں بھی ایسی ہی کتاب اُتار دوں گا جیسی اللہ عَزَّوَجَلَّنے نازل کی ہے۔
{ وَ لَوْ تَرٰى : اور اگر تم دیکھو۔} یہاں سے کافروں کی موت کے وقت کے حالات بیان ہوئے ہیں ، فرمایا کہ اگر تم کافروں کی حالت دیکھو تو بڑی خوفناک حالت دیکھو گے جب ظالم موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے ارواح قبض کرنے کے لئے جھڑکتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اپنی جانیں نکالو۔ آج تمہیں اس کے بدلے میں ذلت کا عذاب دیا جائے گاجو تم نبوت اور وحی کے جھوٹے دعوے کرکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے شریک اور بیوی بچے بتا کر اللہ عَزَّوَجَلَّپر ناحق باتیں کہتے تھے۔
موت کے وقت مسلمان اور کافر کے حالات :
اس آیت میں موت کے وقت کافر کے حالات بیان ہوئے اور حدیثِ پاک میں مسلمان اور کافر دونوں کی موت کے حالات بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب مسلمان کی موت قریب ہوتی ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑے لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں :اے روح! تو راضی خوشی حالت میں اور ا س حال میں نکل کہ اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہے،تُو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے رزق سے اپنے پروردگار کی طرف نکل جو ناراض نہیں ہے۔پھر روح عمدہ خوشبودار مشک کی طرح خارج ہوتی ہے اور فرشتے اسے اسی وقت اٹھا کر آسمان کے دروازے پر لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں :یہ کتنی اچھی خوشبو ہے جو زمین سے آئی ہے۔ اس کے بعد اُسے مسلمانوں کی روحوں کے پاس لے کر آتے ہیں۔وہ روحیں اُس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتی ہیں جو کسی گئے ہوئے شخص کے واپس آنے پر خوش ہوتا ہے اور وہ روحیں ا س سے دریافت کرتی ہیں : دنیا میں پیچھے رہنے والا فلاں شخص کیسے کام کرتا ہے؟ پھر روحیں کہتی ہیں :ابھی ٹھہروا ور اسے چھوڑ دو، یہ دنیا کے غم میں ہے۔ یہ روح کہتی ہے: کیا وہ شخص تمہارے پاس نہیں تھا؟ (یعنی دنیا سے تو وہ آچکا تو کیا تمہارے پاس نہیں ہے؟) روحیں کہتی ہیں :(اگر وہ دنیا سے آچکا اور ہمارے پاس نہیں ہے تو پھر) وہ جہنم میں گیا ہو گا۔اور جب کافر کی موت آتی ہے تو عذاب کے فرشتے بوریے کا ایک ٹکڑا ڈالے آ کر کہتے ہیں : اے روح!تو اللہتعالیٰ کے عذاب کی طرف نکل کیونکہ تو اللہتعالیٰ سے ناراض ہے اوراللہ تعالیٰ تجھ سے ناراض ہے، اس کے بعد وہ جلے ہوئے بدبودار مردار کی طرح نکلتی ہے حتّٰی کہ فرشتے اسے زمین کے دروازے پر لاتے ہیں تو فرشتے پوچھتے ہیں :یہ کیا بدبو ہے، یہاں تک کہ اسے کافروں کی روحوں میں لے جاتے ہیں۔ (سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب ما یلقی بہ المؤمن من الکرامۃ۔۔۔ الخ، ص۳۱۳، الحدیث: ۱۸۳۰)
{ وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى: اور تم ہمارے پاس اکیلے آئے۔} گزشتہ آیت میں کافروں کی موت کے احوال بیان ہوئے تھے اور اس آیت میں قیامت کے احوال کا بیان ہے چنانچہ ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ان کافروں سے کہا جائے گا: بیشک تم ہمارے پاس حساب و جزا کے لئے ایسے اکیلے آئے جیسے ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، نہ تمہارے ساتھ مال ہے ،نہ جاہ، نہ اولاد جن کی محبت میں تم عمر بھر گرفتار رہے اورنہ بت جنہیں پوجتے رہے۔ آج اُن میں سے کوئی تمہارے کام نہ آیابلکہ تم وہ سب مال ومتاع اپنے پیچھے چھوڑ آئے جو ہم نے تمہیں دیا تھا اور آج ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جنہیں تم گمان کرتے تھے کہ وہ تمہارے عبادت کرنے میں ہمارے شریک ہیں۔ بیشک تمہارے درمیان جدائی ہوگئی اور تم سے وہ بت غائب ہوگئے جن کے معبود ہونے کا تم دعویٰ کرتے تھے۔
قبر و حشر کی تنہائی کے ساتھی بنانا عقلمندی ہے:
یاد رہے کہ مرنے کے بعد انسان قبر میں اکیلا ہو گااور دنیا کے مال و متاع،اہل و عیال ،عزیز رشتہ دار اور دوست احباب میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ قبر میں نہ جائے گا بلکہ یہ سب اسے قبر کے تاریک گڑھے میں تنہا اور اکیلا چھوڑ کر چلے جائیں گے، اسی طرح میدانِ حشر میں بھی انسان اس طرح اکیلا ہو گا کہ اس وقت اس کا ساتھ دینے کی بجائے ہر ایک اس سے بے نیا ز ہو کر اپنے انجام کی فکر میں مبتلا ہو گا ، یونہی بارگاہِ الٰہی میں اپنے اعمال کا حساب دینے بھی یہ تنہا حاضر ہو گا لہٰذا دانائی یہی ہے کہ دنیا کی زندگی میں رہتے ہوئے اپنے ایسے ساتھی بنا لئے جائیں جو قبر کی وحشت انگیز تنہائی میں اُنْسِیَّت اور غمخواری کا باعث ہوں اور قیامت کے دن نفسی نفسی کے ہولناک عالم میں تسکین کا سبب بنیں اور یہ ساتھی نیک اعمال ہیں جیسا کہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں ، دو واپس لوٹ آتی ہیں اور ایک ا س کے ساتھ باقی رہتی ہے، اس کے اہل و عیال، اس کا مال اور ا س کا عمل اس کے ساتھ جاتے ہیں اور اس کے اہل و عیال اور ا س کا مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ا س کا عمل باقی رہتا ہے(بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۴)۔[1]
[1]…قبر کے ساتھی بنانے کی اہمیت اور ترغیب سے متعلق کتاب’’قبر میں آنے والا دوست‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
{ فَالِقُ الْحَبِّ : دانے کو چیرنے والا۔} توحیدو نبوت کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے کمالِ قدرت ، علم اور حکمت کے دلائل ذکر فرمائے کیونکہ مقصود ِاعظم اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کی تمام صفات و افعال کی معرفت ہے اور یہ جاننا ہے کہ وہی تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے اور جو ایسا ہو وہی مستحقِ عبادت ہوسکتا ہے نہ کہ وہ بت جنہیں مشرکین پوجتے ہیں۔ خشک دانہ اور گٹھلی کو چیر کر ان سے سبزہ اور درخت پیدا کرنا اور ایسی سنگلاخ زمینوں میں ان کے نرم ریشوں کو جاری کردینا جہاں آہنی میخ بھی کام نہ کرسکے اس کی قدرت کے کیسے عجائبات ہیں۔ وہی اللہ کریم دانے اور گٹھلی کو چیر کر سبزہ اور درخت بنادیتا ہے اور زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے جیسے جاندار سبزہ کو بے جان دانے اور گٹھلی سے اور انسان و حیوان کو نطفہ سے اور پرندے کو انڈے سے۔ یونہی وہی رب ِ عظیمعَزَّوَجَلَّ مردہ کو زندہ سے نکالنے والاہے جیسے جاندار درخت سے بے جان گٹھلی اور دانہ کو اور انسان و حیوان سے نطفہ کو اور پرندے سے انڈے کو ۔یہ سب اس کے عجائبِ قدرت و حکمت ہیں تو اے کافرو! یہ ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ، توتم کہاں اوندھے جاتے ہو؟ اور ایسے دلائل و براہین قائم ہونے کے بعد کیوں ایمان نہیں لاتے اور موت کے بعد اٹھنے کا یقین نہیں کرتے ؟ اور غور کرو کہ جو بے جان نطفہ سے جاندار حیوان کوپیدا کرتا ہے اس کی قدرت سے مردہ کو زندہ کرنا کیا بعید ہے۔
{ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ: تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والا۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنی مزید عظمتیں بیان فرماتا ہے چنانچہ فرمایا کہ وہ تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والا ہے چنانچہ صبح کے وقت مشرق کی طرف روشنی دھاگے کی طرح نمودار ہوتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس خط نے تاریکی چاک کردی، یہ بھی اس کی قدرت ہے۔ نیز اس نے رات کوآرام کا ذریعہ بنایا کہ مخلوق اس میں چین پاتی ہے اور دن کی تھکاوٹ اور ماندگی کو استراحت سے دور کرتی ہے اور شب بیدار زاہد تنہائی میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت سے چین پاتے ہیں۔نیز اس نے سورج اور چاند کو اوقات کے حسا ب کا ذریعہ بنایا کہ اُن کے دورے اور سیر سے عبادات و معاملات کے اوقات معلوم ہوتے ہیں مثلاً چاند سے قَمری مہینے اور سورج سے شمسی مہینے بنتے ہیں۔ چاند سے اسلامی عبادات اور سورج سے موسموں اور نمازوں کا حساب لگتا ہے غرضیکہ ان میں عجیب قدرت کے کرشمے ہیں۔ یہ سب زبردست، علم والے کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے۔ آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ ریاضی ، علمِ نَباتات، علمِ فلکیات اور علم الحیوانات بھی بہت اعلیٰ علوم ہیں کہ ان سے رب تعالیٰ کی قدرت کاملہ ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آسمانی اور زمینی چیزوں کو اپنی قدرت کا نمونہ بنایاہے۔
فقر و محتاجی دور ہونے کی دعا:
حضرت مسلم بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَیہ دعا مانگا کرتے تھے ’’اَللّٰہُمَّ فَالِقَ الْاِصْبَاحِ وَجَاعِلَ اللَّیْلِ سَکَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا، اِقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ وَاغْنِنِی مِنَ الْفَقْرِ وََمَتِّعْنِی بِسَمْعِیْ وَبَصَرِیْ وَقُوَّتِیْ فِیْ سَبِیْلِکَ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، (اے) تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والے اور رات کوآرام (کا ذریعہ) بنانے والے اور سورج و چاند کو (اوقات کے) حساب (کا ذریعہ بنانے والے ) میرے قرض کو پورا فرما دے اور محتاجی سے مجھے غنا عطا فرما اور مجھے میری سماعت، بصار ت اور قوت سے اپنی راہ میں فائدہ اٹھانے والا بنا۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعائ، من کان یدعو بالغنی، ۷ / ۲۷، الحدیث: ۳)
{ وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ: اور وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہی ہے جس نے تم کو ایک جان یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے پیدا کیا پھر ماں کے رحم میں یا زمین کے اوپر تمہارا ٹھکانہ بنایا اور باپ کی پیٹھ یا زمین کے اندرتمہارے لئے امانت رکھے جانے کی جگہ بنائی ہے۔ بیشک ہم نے سمجھنے والوں کے لیے اپنی قدرت کی نشانیاں تفصیل سے بیان کردیں۔
{ وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً: اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اُتارا۔} سُبْحَانَ اللہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی قدرت کی کیسی عظیم دلیل بیان فرمائی کہ دیکھو پانی ایک ہے اور جس زمین سے سب کچھ اگ رہا ہے وہ ایک ہے لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس سے جو چیزیں اگائیں وہ قسم قسم اور رنگارنگ کی ہیں توجو ربِ عظیم عَزَّوَجَلَّ ایک پانی سے اتنی قسم کی سبزیاں پیدا فرمانے پر قادر ہے تو وہ ایک صور کی پھونک سے سارے عالم کو مارنے اور زندہ کرنے پر بھی قادر ہے لہٰذا قیامت بر حق ہے۔
{ وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ: اور لوگوں نے جنوں کواللہ کا شریک گڑھ لیا۔} ارشاد فرمایا کہ سابقہ آیات میں بیان کردہ دلائلِ قدرت اور عجائبِ حکمت اور اِس انعام و اکرام اور اِن نعمتوں کے پیدا کرنے اور عطا فرمانے کاتقاضا یہ تھا کہ اس کریم کار ساز پر ایمان لاتے لیکن اِس کی بجائے بُت پرستوں نے یہ ستم کیا کہ جنوں کو خدا عَزَّوَجَلَّکا شریک قرار دیا کہ ان کی اطاعت کرکے بُت پرست ہوگئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے معاذاللہ بیٹے اور بیٹیاں گھڑلیں حالانکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کی بیان کی ہوئی چیزوں سے پاک اور بلند ہے اور یہ چیزیں اس کی شان کے لائق ہی نہیں۔
{ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:وہ بغیر کسی نمو نے کے آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے۔} اِس آیت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت و شان اور اس کی پاکی کا بیان ہے چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان یہ ہے کہ وہ بغیر کسی نمو نے اور مثال کے آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے۔ اس کی دوسری شان یہ ہے کہ وہ اولاد سے پاک ہے کیونکہ اس کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے؟ حالانکہ اس کی بیوی ہی نہیں ہے اور عورت کے بغیر اولاد نہیں ہوتی اور زوجہ اس کی شان کے لائق نہیں کیونکہ کوئی شے اس کی مثل نہیں اور اولاد نہ ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس نے ہر شے کو پیدا کیا ہے تو جو کچھ ہے وہ سب اُس کی مخلوق ہے اور مخلوق اولاد نہیں ہوسکتی تو کسی مخلوق کو اولاد بتانا باطل ہے اور پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارا رب ہے جس کی صفات ذکر کی گئیں اور جس کی یہ صفات ہوں وہی مستحق عبادت ہے لہٰذا تم صرف اسی کی عبادت کرو۔
{ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ: آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔} اِس آیت کا مفہوم سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ عقائد کے متعلق بہت سے مسائل کا دارومدار اِسی پر ہے۔
آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے متعلق اہلسنّت کا عقیدہ :
یاد رکھیں کہ اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ مومنوں کو آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدارہوگا۔اہلِ سنت کا یہ عقیدہ قرآن و حدیث، اجماعِ صحابہ اور اکابر بزرگانِ دین کے کثیردلائل سے ثابت ہے ۔
دیدارِ الٰہی کے قرآنِ پاک سے تین دلائل:
(1)… ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ(۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ‘‘ (القیامہ:۲۳،۲۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان:کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے۔
(2)…اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:
’’لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌ ‘‘ (یونس :۲۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بھلائی والوں کے لئے بھلائی ہے اور اس سے بھی زائد۔
صحاحِ ستہ کی بہت حدیثیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ اس آیت میں زیادت سے دیدارِ الٰہی مراد ہے ۔
(3)… حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کی’’رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَ‘‘ اے میرے رب مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے دیکھوں۔ اس پر انہیں جواب ملا ’’لَنْ تَرٰىنِیْ‘‘ تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا ۔ (اعراف: ۱۴۳) اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرا دیدار ناممکن ہے کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عارِف باللہ ہیں ، اگر دیدارِ الٰہی ممکن نہ ہوتا تو آپ ہر گز سوال نہ فرماتے، اس سے ثابت ہوا کہ دیدارِ الٰہی ممکن ہے۔
دیدارِ الٰہی کے احادیث سے 3دلائل:
احادیث بھی اس بارے میں بکثرت ہیں ، ان میں سے 3 احادیث درج ذیل ہیں :
(1)… مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’کیا تم چاہتے ہو کہ تم پر اور زیادہ عنایت کروں ؟ وہ عرض کریں گے: یارب! عَزَّوَجَلَّ کیا تو نے ہمارے چہرے سفید نہیں کئے؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا ؟ کیا تو نے ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی ؟ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ پھرپردہ اٹھا دیا جائے گا تو دیدارِ الٰہی انہیں ہر نعمت سے زیادہ پیارا ہوگا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب اثبات رؤیۃ المؤمنین فی الآخرۃ ربہم سبحانہ وتعالی، ص۱۱۰، الحدیث: ۲۹۷(۱۸۱))
(2)…حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ہم سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ رات کے وقت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’عنقریب تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھو گے جیسے اس چاندکو دیکھتے ہو اور اسے دیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہ کرو گے۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر، ۱ / ۲۰۳، الحدیث: ۵۵۴)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھیں گے؟ ارشاد فرمایا: کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تو سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ عرض کی: نہیں۔ ارشاد فرمایا: چودھویں رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمہیں چاند دیکھنے سے کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی: نہیں ، ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھنے میں صرف اتنی تکلیف ہو گی جتنی تکلیف تم کو سورج یا چاند دیکھنے سے ہوتی ہے۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۷، الحدیث: ۱۶(۲۹۶۸))
ان دلائل سے ثابت ہوگیا کہ آخرت میں مؤمنین کے لئے دیدارِ الٰہی شرع میں ثابت ہے اور اس کا انکار گمراہی۔ گمراہ لوگ اِس آیت کے ذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیدار کا انکار کرتے ہیں ، ہم یہاں آیت کا مفہوم بیان کرتے ہیں اس سے سارا معاملہ واضح ہوجائے گا۔آیت کے مفہوم کو کافی آسان کیا ہے لیکن پھر بھی اسے مکمل طور پر علماء ہی سمجھ سکتے ہیں لہٰذا عوام کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ اوپر تک جو بیان ہوا وہی ان کیلئے کافی ہے اور نیچے کی بحث پر زیادہ دماغ نہ لڑائیں اور اگر ضرور ہی سمجھنا ہے تو کسی صحیح العقیدہ ، ماہرسنی عالم سے سمجھیں۔
آیت’’ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ‘‘ کا مفہوم:
اِدراک کے معنیٰ ہیں کہ دیکھی جانے والی چیز کی تمام طرفوں اور حدوں پر واقف ہونا کہ یہ چیز فلاں جگہ سے شروع ہو کر فلاں جگہ ختم ہوگئی جیسے انسان کو ہم کہیں کہ سر سے شروع ہوکر پاؤں پر ختم ہوگیا، اِسی کو اِحاطہ (گھیراؤ) کہتے ہیں۔ اِدراک کی یہی تفسیر حضرت سعید بن مُسیَّبْ اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے منقول ہے اور جمہور مفسرین اِدراک کی تفسیر اِحاطہ سے فرماتے ہیں اور اِحاطہ اسی چیز کا ہوسکتا ہے جس کی حدیں اور جہتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے حد اور جہت محال ہے تو اس کا ادراک واحاطہ بھی ناممکن ۔یہی اہلِ سنت کامذہب ہے۔ خارجی اور معتزلہ وغیرہ گمراہ فرقے اِدراک اور رُویت میں فرق نہیں کرتے، اس لئے وہ اس گمراہی میں مبتلا ہوگئے کہ انہوں نے دیدارِ الٰہی کو محالِ عقلی قرار دے دیا، حالانکہ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا نہیں جاسکتا تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جانا بھی نہیں جاسکتا اور جیسے کائنات میں موجود تمام چیزوں کے برخلاف کیفیت وجہت کے بغیر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جانا جاسکتا ہے ایسے ہی دیکھا بھی جاسکتا ہے کیونکہ اگر دوسری موجودات بغیر کیفیَّت و جہت کے دیکھی نہیں جاسکتیں تو جانی بھی نہیں جاسکتیں۔ اس کلام کی بنیاد یہ ہے کہ دیکھنے کے معنی یہ ہیں کہ بصر (دیکھنے کی قوت) کسی شے کو جیسی وہ ہو ویسا جانے تو جو شے جہت والی ہوگی، اس کا دیکھا جانا جہت میں ہوگا اور جس کے لئے جہت نہ ہوگی اس کا دیکھا جانا بغیر جہت کے ہوگا۔
{ قَدْ جَآءَكُمْ: بیشک تمہارے پاس آگئیں۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ لوگوں سے فرما دیں کہ تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّکی طرف سے توحید ،نبوت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور حساب و جزاء سے متعلق دل کی آنکھیں کھول دینے والی دلیلیں آگئیں تو جس نے دل کی آنکھ سے حق کو دیکھا اور ا س پر ایمان لے آیا تو اس میں اس کا اپنا فائدہ ہے اور جو حق ظاہر ہونے کے باوجود اسے دیکھنے سے اندھا رہا اور ا س پر ایمان نہ لایا تو اس میں نقصان بھی اس کا اپنا ہے اور میں تم پر نگہبان نہیں کہ تمہارے اعمال اور افعال کی نگہبانی کرتا پھروں بلکہ میں تمہاری طرف تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا رسول ہوں تاکہ اس کاپیغام تم تک پہنچا دوں جبکہ اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے ،اس سے تمہارے اعمال اور احوال میں سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے اور وہی تمہیں تمہارے اعمال کی جزاء دے گا۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۳ / ۸۱، خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۴۴، ملتقطاً)
{ وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ:اور ہم اسی طرح بار بار آیتیں بیان کرتے ہیں۔} آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم بار بار اپنی آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں نیزان پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حجت قائم ہوجائے لیکن کافروں کی حالت یہ ہے کہ وہ اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے بلکہ اِن آیات کے نازل ہونے کا نتیجہ کافروں کے حق میں یہ نکلتا ہے کہ وہ بول اٹھتے کہ اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتم نے گزشتہ کتابوں کوپڑھ لیا ہے اور وہی پڑھ کر ہمیں بتار ہے ہو۔
{ اِتَّبِـعْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ:تم اس وحی کی پیروی کرو جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے۔} سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے فرمایا گیا کہ’’ تم اس وحی کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے بھیجی گئی ہے اور کفار کی بے ہودہ گوئیوں کی طرف التفات نہ کرو ۔اس میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکینِ خاطر ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکفّار کی یاوہ گوئیوں سے رنجیدہ نہ ہوں۔ یہ ان کی بدنصیبی ہے کہ وہ ایسی واضح دلیلوں سے فائدہ نہ اُٹھائیں۔
{ وَ لَا تَسُبُّوْا: اور برا نہ کہو۔} حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ مسلمان کفار کے بتوں کی بُرائی کیا کرتے تھے تاکہ کفار کو نصیحت ہو اور وہ بت پرستی کے عیب سے باخبر ہوں مگر ان ناخدا شناس جاہلوں نے بجائے نصیحت حاصل کرنے کے شانِ الہٰی میں بے ادبی کے ساتھ زبان کھولنی شروع کی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۱۰۰)کہ اگرچہ بتوں کو برا کہنا اور ان کی حقیقت کا اظہار طاعت و ثواب ہے لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں کفار کی بدگوئیوں کو روکنے کے لئے اس کو منع فرمایا گیا۔ ابنِ انباری کا قول ہے کہ یہ حکم اول زمانہ میں تھا جب مسلمانوں میں طاقت آگئی کہ کفار کو ربعَزَّوَجَلَّکی شان میں گستاخی سے روک سکیں تو انہیں اس کی اجازت مل گئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۴۶) ورنہ توخود قرآنِ کریم میں شیطان اور بتوں اور سردارانِ قریش کی برائیاں بکثرت بیان کی گئی ہیں۔
آیت ’’وَ لَا تَسُبُّوْا‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ اگر غیر ضروری عبادت ایسے فساد کا ذریعہ بن جائے جو ہم سے مٹ نہ سکے تو اس کو چھوڑ دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ واعظ و عالم اس طریقے سے وعظ نہ کرے جس سے لوگوں میں ضد پیدا ہو جائے اور فساد اور مار پیٹ تک نوبت پہنچے۔ تیسرے یہ کہ اگر کسی کے متعلق یہ قوی اندیشہ ہو کہ اسے نصیحت کرنا اور زیادہ خرابی کا باعث ہو گا تو نہ کرے۔ چوتھے یہ کہ کبھی ضد سے انسان اپنا دین بھی کھو بیٹھتا ہے کیونکہ کفار ِمکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو مانتے تھے پھر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ضد میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان میں بھی بے ادبی کرتے تھے۔(نورالعرفان،الانعام،تحت الآیۃ:۱۰۸،ص:۲۲۴)
{ وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ:اور انہوں نے بڑی تاکید سے اللہکی قسم کھائی۔}کفارِ مکہ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں عرض کیاکہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے معجزات بیان فرماتے ہیں۔ اگر ہم کو ہماری منہ مانگی نشانیاں دکھا دیں تو ہم آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئیں گے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے یا ہمارے بعض مردے جی کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گواہی دے دیں یا فرشتے ہمارے سامنے آجائیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا:’’اگر ان میں سے کچھ دکھا دوں تو ایمان لے آؤ گے ۔ وہ قسمیں کھا کر بولے کہ’’ ضرور۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارادہ فرمایا کہ دعا کریں۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے آکر عرض کیا کہ’’ اے محبوب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَآ پ جو دعا کریں گے قبول ہوگی۔ لیکن اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو ابھی ہلاک کر دئیے جائیں گے اور اگر زندہ رہے تو شاید ان میں کوئی ایمان لے آئے۔ تب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا کا ارادہ چھوڑ دیا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۲ / ۱۰۰-۱۰۱)
{ وَ نُقَلِّبُ: اور ہم پھیر دیں گے۔}ارشاد فرمایا کہ جس طرح پہلے ان لوگوں کے سامنے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ اقدس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیاں ظاہر ہوئی تھیں جیسے چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا اور اسی طرح کے دیگر عظیم معجزات لیکن یہ ان پر ایمان نہیں لائے تھے اسی طرح یہ اب بھی ایمان نہیں لائیں گے اور ان کے ایمان لانے کے سب وعدے جھوٹے ہیں۔
{ وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةَ:اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اُتار دیتے۔}پچھلی آیت میں اجمالی طور پر بیان ہوا تھا کہ نشانیاں طلب کرنے والے کفار کے مطالبات پورے کر دئیے جائیں تو بھی وہ ایمان نہ لائیں گے اور اس آیتِ مبارکہ میں اس اجمال کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ شانِ نزول: کفارِ مکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے مذاق کے طور پر کہا کرتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے مردوں کو زندہ کردیجئے تاکہ ہم ان سے پوچھیں کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو فرماتے ہیں وہ حق ہے یا نہیں اور آپ ہمیں فرشتے دکھائیے جو ہمارے سامنے آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیں یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لائیے۔ ان کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۴۷)
اور فرمایا گیا کہ ’’ اے محبوب! اگر ہم کفارکے مطالبے کے مطابق ان کی طرف فرشتے اُتار دیں جنہیں وہ ان کی اصلی شکل میں دیکھ لیں اور وہ ان سے آپ کی رسالت کی گواہی سن لیں۔ یونہی اگر ہم ان کے مطلوبہ یا عام مردے زندہ کر کے ان کے سامنے کھڑے کر دیں تاکہ یہ ان سے معلوم کر لیں کہ آپ جو پیغام لائے ہیں وہ حق ہے یا نہیں تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے، بلکہ اگر ہم ا ن کے مطالبات سے زائد مخلوقات میں سے ہر خشک و تر، شجرو حجر، نباتات و حیوانات ان کے سامنے جمع کردیں تب بھی یہ لوگ ایمان لائیں گے اور نہ آپ کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی آپ کی پیروی کریں گے البتہ جن کی قسمت میں ایمان لکھا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی مرضی جن کے ایمان کے متعلق ہوگی وہ ایمان لائیں گے۔ (تفسیر طبری، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۵ / ۳۱۱)
اللہ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق دو اہم مسائل:
اس مقام پر دو اہم مسائل ذہن نشین رکھیں :
(1)…اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا فرمایا اور جیسا ہونے والا تھا اور جیسا کوئی کرنے والا تھا وہ سب اللہ تعالیٰ کے علمِ ازلی میں تھا اور اس نے وہی لکھ دیا، تو یہ نہیں کہ جیسا اس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اس نے لکھ دیا، زید کے ذمے برائی لکھی اس لئے کہ زید برائی کرنے والا تھا اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا تووہ اس کے لئے بھلائی لکھتا تو اللہ تعالیٰ کے علم یا اس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔
(2)… یہ درست ہے کہ بندوں کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے ارادہ، اس کی مشیت اور اس کی قضاء سے وجود پذیر ہوتے ہیں لیکن قادر و قدیر رب عَزَّوَجَلَّ نے انسان کو پتھر اور دیگر جمادات کی طرح بے بس، مجبور اور بالکل بے اختیار نہیں بنا یا بلکہ اسے ایک قسم کا اختیار دیا ہے کہ کوئی کام چاہے تو کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ اپنا برا بھلا، نفع و نقصان پہچان سکے، پھر نیکی یا بدی، اچھائی یا برائی میں سے جس کام کو اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قوت اس انسان میں پیدا فرما دیتا ہے اور اسی اختیار کے اعتبار سے وہ جزا و سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر انسان نیکی یا بدی، اچھائی یا برائی پر کوئی اختیار ہی نہیں رکھتا تو انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہدایت کے لئے مبعوث فرمانا، انسان کو احکام کا مُکَلَّف کرنا اور اسے اس کے اعمال کی جزاء و سزا دینا سب بے معنی اور عبث ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کا کوئی کام عبث نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایمان وہی لائیں گے جن کے ایمان کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرمائے گا اور کفر وہی کریں گے جن کے کفر کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے کفر کا اس لئے ارادہ فرماتا ہے کہ وہ کفر کو اختیار کرتے ہیں۔
{ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا:اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن کئے ہیں۔} کفارِ مکہ کی مخالفت اور ایذا رسانیوں کی وجہ سے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت رنجیدہ تھے، اس پر اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دیتے ہوئے فرما رہا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح یہ کفار آپ کی مخالفت اور دشمنی میں سرگرم ہیں اسی طرح آپ سے پہلے جتنے ا نبیاء اور رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گزرے ہیں سب کی قوم کے کافر چاہے انسان ہوں یا جن ان کے دشمن تھے ۔ کفار کی انبیاء ورسل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عداوت اور مخالفت ہماری طرف سے ایک آزمائش ہے تاکہ انبیاء و مرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس پر صبر کر کے اجرِ عظیم حاصل کریں لہٰذا آپ اپنی قوم کی مخالفت اور عداوت سے رنجیدہ خاطرنہ ہوں ، یہ ایک دوسرے کو دھوکے میں رکھنے کیلئے نت نئی باتیں گھڑتے ہیں ، چالیں چلتے ہیں ، فریب کاریاں کرتے ہیں اور وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ دوسروں کو گمراہ کریں اور جو گمراہ ہیں وہ گمراہی سے نکل نہ سکیں۔ نیز یہاں بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو وہ ایسانہ کرتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے نظامِ کائنات چلارہا ہے اور کفر وایمان، خیر و شر دونوں کے مدِّمقابل رہنے میں اس کی حکمتیں ہیں لہٰذا آپ انہیں اور ان کی دھوکے اور فریب کی خوشنما باتوں کو چھوڑ دیں اور صبر کریں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں بدلہ دے گا، رسوا کرے گا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد فرمائے گا۔ آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام نبیوں کے دشمن ضرور ہوئے ہیں ایسے ہی علماء اور اولیاء کے دشمن بھی ضرور ہی ہوتے ہیں۔
{ شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ:انسانوں اور جنوں کے شیطان۔} اس کی تفسیر میں علما ء کے دو قول ہیں (1)جنوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں اور انسانوں میں بھی کیونکہ شیطان ہر سرکش و نافرمان کو کہتے ہیں چاہے وہ انسان ہو یا جن۔ (2) جنوں اور انسانوں کے شیطان سے مراد ابلیس کی اولاد ہے۔ ابلیس نے اپنی اولاد کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک گروہ انسانوں کو وسوسہ ڈالتا ہے اور ایک گروہ جنوں کو وسوسہ ڈالتا ہے۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۲ / ۴۸) خفیہ بات سے مراد وسوسے اور فریب کی باتیں ہیں۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ انسانی شیطانوں سے بچیں :
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جو گمراہ کن شخص کسی کو شریعت کے خلاف کام کی ترغیب دے وہ انسانی شیطان ہے اگرچہ وہ اپنے عزیزوں میں سے ہو یا عالم کے لباس میں ہو، نیز اس میں وہ تمام لوگ داخل ہیں جو آزاد خیالی یا روشن خیالی کے نام پر شرعی کاموں کے خلاف پلاننگ کرتے اور منصوبے بناتے اور اس کیلئے تنظیمیں بناتے ہیں۔ سب مسلمانوں پر لاز م ہے کہ وہ ایسے انسانی شیطانوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ یہاں ایک نہایت اہم چیز کے بارے میں عرض کرنی ہے کہ ہمارے دور میں یہ وبا عام ہوتی جارہی ہے کہ بھائی ہر ایک کی سنو اور تحقیق کرو خواہ کہنے والا قرآن کے خلاف کہے یا حدیث کے یا اسلام کے۔ گویا معاذاللہ، تحقیق، مطالعہ کے نام پر ہر گمراہی سننے ، پڑھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور اس چیز کو باہمی رواداری، ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش، ایک دوسرے کے نکتہ نظر پر مطلع ہونا، اپنے اپنے خیالات دوسروں سے شیئر کرنا وغیرہ وغیرہ کے بڑے دلچسپ نام دئیے جاتے ہیں لیکن کیا قرآن، حدیث، دین، ایمان، اسلام میں بھی اس چیز کی گنجائش ہے یا نہیں ، اس کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔ لہٰذا یہاں پر ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسی باطل تحقیق و مطالعہ کا حکمِ شرعی بیان کرتے ہیں اور ہمیں اُن جاہلوں کی کوئی پرواہ نہیں جو قرآن و حدیث کے ان احکام کو اپنی جہالت و کوتاہ نظر سے تنگ نظری اور نجانے کیا کیا نام دیں گے۔ چنانچہ کفار و اسلام دشمن لوگوں کے لیکچرز سننے کے حوالے سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے سوال ہوا تو آپ نے بڑے احسن انداز میں جواب ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ’’ آج کل ہمارے عوام بھائیوں کی سخت جہالت یہ ہے کہ کسی آریہ نے اشتہار دیا کہ اسلام کے فلاں مضمون کے رَد میں فلاں وقت لیکچر دیا جائے گا، یہ سننے کیلئے دوڑ ے جاتے ہیں۔ کسی پادری نے اعلان کیا کہ نصرانیت کے فلاں مضمون کے ثبوت میں فلاں وقت ندا ہوگی، یہ سننے کیلئے دوڑے جاتے ہیں۔ بھائیو! تم اپنے نفع نقصان کو زیادہ جانتے ہو یا تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ اور تمہارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اُن کا حکم تو یہ ہے کہ شیطان تمہارے پاس وسوسہ ڈالنے آئے تو سیدھا جواب یہ دے دو کہ تو جھوٹا ہے نہ یہ کہ تم آپ دوڑ دوڑ کے اُن کے پاس جاؤ اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ، اپنے قرآن اور اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں ملعون کلمات سنو۔ تم قرآنِ مجید کی اسی آیت کا آخری حصہ اور ا س کے مُتَّصل کی آیاتِ کریمہ تلاوت کرتے جاؤ اور دیکھو کہ قرآنِ عظیم تمہاری اس حرکت کی کیسی کیسی شناعتیں بتاتا اور اُن ناپاک لکچروں نداؤں کی نسبت تمہیں کیا کیا ہدایت فرماتا ہے، چنانچہ اس آیت کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے:
’’ وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ‘‘ (الانعام:۱۱۲)
اور تیرا رب چاہتا تو وہ یہ دھوکے بناوٹ کی باتیں نہ بناتے پھرتے تو تو انہیں اور اُن کے بہتانوں کو یک لخت چھوڑ دے۔
دیکھو! اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اور اُن کی باتوں کو چھوڑنے کا حکم فرمایا یا اُن کے پاس سننے کے لئے دوڑنے کا۔ اور سنئے، اس کے بعد کی آیت میں فرماتا ہے:
’’وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْـٕدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِیَرْضَوْهُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ‘‘(الانعام:۱۱۳)
اور اس لئے کہ ایسے لوگوں کے دل اس کی طرف کان لگائیں جنہیں آخرت پر ایمان نہیں اور اُسے پسند کریں اور جو کچھ ناپاکیاں وہ کر رہے ہیں یہ بھی کرنے لگیں۔
دیکھو اُن (کفار و نافرمان لوگوں ) کی باتوں کی طرف کان لگانا اُن (لوگوں ) کا کام بتایا جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کا نتیجہ یہ فرمایا کہ وہ ملعون باتیں ان پر اثر کر جائیں اور یہ بھی اُن جیسے ہوجائیں۔ لوگ اپنی جہالت سے گمان کرتے ہیں کہ ہم اپنے دل سے مسلمان ہیں ہم پر اُن کا کیا اثر ہوگا حالانکہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں ’’جو دجال کی خبر سنے اُس پر واجب ہے کہ اُس سے دور بھاگے کہ خدا کی قسم آدمی اس کے پاس جائے گا اور یہ خیال کرے گا کہ میں تومسلمان ہوں یعنی مجھے اس سے کیا نقصان پہنچے گا وہاں اس کے دھوکوں میں پڑکر اس کا پیرو ہو جائے گا۔ (ابو داؤد، اول کتاب الملاحم، باب ذکر خروج الدجال، ۴ / ۱۵۷، الحدیث: ۴۳۱۹)
کیا دجال ایک اُسی اخبث دجال کو سمجھتے ہو جو آنے والا ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ تمام گمراہوں کے داعی منادی سب دجال ہیں اور سب سے دُور بھاگنے ہی کا حکم فرمایا اور اُس میں یہی اندیشہ بتایا ہے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں ’’آخر زمانے میں دجال کذاب لوگ ہوں گے کہ وہ باتیں تمہارے پاس لائیں گے جو نہ تم نے سنیں نہ تمہارے باپ دادا نے، توان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور رکھو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔(مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۷(۷))
اور سنئے، اس کے بعد کی آیات میں فرماتا ہے:
’’ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِیْ حَكَمًا وَّ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ اِلَیْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًاؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ(۱۱۴)وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًاؕ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖۚ- وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۱۵)وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ(۱۱۶)اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ مَنْ یَّضِلُّ عَنْ سَبِیْلِهٖۚ-وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ‘‘ (الانعام:۱۱۴-۱۱۷)
تو کیا اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا ڈھونڈوں حالانکہ اُس نے مفصل کتاب تمہاری طرف اُتاری اور اہلِ کتاب خوب جانتے ہیں کہ وہ تیرے رب کے پاس سے حق کے ساتھ اُتری تو خبردار تو شک نہ کرنا اور تیرے رب کی بات سچ اور انصاف میں کامل ہے کوئی اُس کی باتوں کا بدلنے والا نہیں اور وہ شنوا و دانا ہے اور زمین والوں میں زیادہ وہ ہیں کہ تو ان کی پیروی کرے تو وہ تجھے خدا کی راہ سے بہکا دیں وہ تو گمان کے پیرو ہیں اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں بیشک تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بہکے گا اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔‘‘
یہ تمام آیاتِ کریمہ انہیں مطالب کے سلسلہ بیان میں ہیں گویا ارشاد ہوتا ہے تم جو اُن شیطان آدمیوں کی باتیں سننے جاؤ کیا تمہیں یہ تلاش ہے کہ دیکھیں اس مذہبی اختلاف میں یہ لکچرار یا یہ منادی کیا فیصلہ کرتا ہے، ارے خدا سے بہتر فیصلہ کس کا! اُس نے مفصل کتاب قرآنِ عظیم تمہیں عطا فرما دی اُس کے بعد تم کو کسی لکچر، ندا کی کیا حاجت ہے لکچر والے جو کسی دینی کتاب کا نام نہیں لیتے کس گنتی شمار میں ہیں ! یہ کتاب والے دل میں خوب جانتے ہیں کہ قرآن حق ہے (مگر) تَعَصُّب کی پٹی (ان کی) آنکھوں پر بندھی ہے کہ ہٹ دھرمی سے مکرے جاتے ہیں تو تجھے کیوں شک پیدا ہو کہ اُن کی سننا چاہے، تیرے رب کا کلام صدق وعدل میں بھرپور ہے کل تک جو اُس پر تجھے کامل یقین تھا آج کیا اُس میں فرق آیا کہ اُس پر اعتراض سننا چاہتا ہے کیا خدا کی باتیں کوئی بدل سکتا ہے، یہ نہ سمجھنا کہ میرا کوئی مقال (یعنی قول)، کوئی خیال خدا سے چھپ رہے گا، وہ سنتا جانتا ہے، دیکھ اگر تونے اُن کی سنی تو وہ تجھے خدا کی راہ سے بہکا دیں گے، (اے نادان!تو) کیا یہ خیال کرتا ہے کہ ان (گمراہ لوگوں ) کا علم دیکھوں (کہ) کہاں تک ہے، یہ کیا کہتے ہیں ارے اُن کے پاس علم کہاں وہ تو اپنے اوہام کے پیچھے لگے ہوئے اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں جن کا تھل نہ بیڑا ،جب اللہ واحد قہار کی گواہی ہے کہ اُن کے پاس نری مہمل اٹکلوں کے سوا کچھ نہیں تو اُن کو سننے کے کیا معنی؟ سننے سے پہلے وہی کہہ دے جو تیرے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تعلیم فرمایا کہ ’’شیطان تو جھوٹا ہے‘‘ اور اس گھمنڈ میں نہ رہنا کہ مجھ کو کیا گمراہ کریں گے میں تو راہ پر ہوں تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بہکے گا اور کون راہ پر ہے، (اگر) تُو پورا راہ پرہوتا ہے تو بے راہوں کی سننے ہی کیوں جاتا حالانکہ تیرا رب فرما چکا ’’چھوڑ دے اُنہیں اور اُن کے بہتانوں کو۔ تیرے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرما چکے ’’اُن سے دُور رہو اور ان کو اپنے سے دور کرو کہیں وہ تم کو بہکانہ دیں کہیں وہ تم کو فتنے میں نہ ڈال دیں۔(مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۷(۷))
بھائیو! ایک سہل بات ہے اس پر غور فرمالو۔ تم اپنے ربعَزَّوَجَلَّ، اپنے قرآن اور اپنے نبیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر سچا ایمان رکھتے ہو یا مَعَاذَاللہ اس میں کچھ شک ہے! اور جسے شک ہوا سے اسلام سے کیا علاقہ(یعنی تعلق) وہ ناحق اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر مسلمانوں کو کیوں بدنام کرے اور اگر سچا ایمان ہے تو اب یہ فرمائیے کہ ان کے لکچروں نداؤں میں آپ کے ربعَزَّوَجَلَّ، قرآن، نبیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور ایمان کی تعریف ہوگی یا مذمت۔ ظاہر ہے کہ دوسری ہی صورت ہوگی اور اسی لئے تم کو بلاتے ہیں کہ تمہارے منہ پر تمہارے خدا، نبی، قرآن اور دین کی توہین وتکذیب کریں۔ اب ذرا غور کرلیجئے کہ ایک شریر نے زید کے نام اشتہار دیا کہ فلاں وقت فلاں مقام پر میں بیان کروں گا کہ تیرا باپ حرامی بچہ اور تیری ماں زانیہ تھی، خدا کے لئے انصاف، کیا کوئی غیرت والا، حمیت والا اور انسانیت والا جبکہ اُسے اس بیان سے روک دینے، باز رکھنے پر قادر نہ ہو اسے سننے جائے گا۔ خدا کی قسم !ہر گز نہیں ، کسی بھنگی چمار سے بھی یہ نہ ہوسکے گا پھر ایمان کے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھو کہ اللہ،رسول اور قرآنِ عظیم کی توہین، تکذیب اور مذمت سخت تر ہے یا ماں باپ کی گالی۔ ایمان رکھتے ہو تو اُسے اِس سے کچھ نسبت نہ جانو گے۔ پھر کون سے کلیجے سے اُن جگر شگاف ، ناپاک، ملعون بہتانوں ، افتراؤں ، شیطانی اٹکلوں اور ڈھکوسلوں کو سننے جاتے ہو، بلکہ حقیقت اور انصاف کی بات تو یہ ہے کہ وہ جو کچھ بکتے اور اللہ، رسول اور قرآنِ عظیم کی تحقیر کرتے ہیں ان سب کاباعث یہ سننے والے ہیں ، اگر مسلمان اپنا ایمان سنبھالیں ، اپنے رب، قرآن اور رسول کی عزت عظمت پیشِ نظر رکھیں اور ایکا کرلیں کہ وہ خبیث لکچر ،گندی ندائیں سننے کوئی نہ جائے گا جو وہاں موجود ہو وہ بھی فوراً وہی مبارک ارشاد کا کلمہ کہہ کر کہ ’’تو جھوٹا ہے‘‘ چلا جائے گا تو کیا وہ دیواروں پتھروں سے اپنا سر پھوڑیں گے؟ تو تم سن سن کر کہلواتے ہو ،نہ تم سنو نہ وہ کہیں ، پھر انصاف کیجئے کہ اُس کہنے کا وبال کس پر ہوا۔علماء فرماتے ہیں ’’ہٹے کٹے جوان تندرست جو بھیک مانگنے کے عادی ہوتے اور اسی کو اپنا پیشہ بنالیتے ہیں اُنہیں دینا ناجائز ہے کہ اس میں گناہ پر شَہ دینی ہے، لوگ نہ دیں تو جھک ماریں اور محنت مزدوری کریں۔ بھائیو! جب اِس میں گناہ کی امداد ہے تو اُس میں تو کفر کی مدد ہے۔ قرآنِ عظیم کی نصِ قطعی نے ایسی جگہ سے فوراً ہٹ جانا فرض کردیا اور وہاں ٹھہرنا فقط حرام ہی نہ فرمایا بلکہ سنو تو کیا ارشاد کیا۔ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖۤ ﳲ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْكٰفِرِیْنَ فِیْ جَهَنَّمَ جَمِیْعًا ‘‘(النساء:۱۴۰)
یعنی بے شک اللہ تم پر قرآن میں حکم اتار چکا کہ جب تم سنو کہ خدا کی آیتو ں سے انکار ہوتا اور اُن کی ہنسی کی جاتی ہے تو ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھو جب تک وہ اور باتوں میں مشغول نہ ہوں اور تم نے نہ مانا اور جس وقت وہ اللہ کی آیات پر اعتراض کر رہے ہیں وہاں بیٹھے تو جب تم بھی انہیں جیسے ہو، بیشک اللہ تعالیٰ منافقوں اور کافروں سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا۔
دیکھو قرآن فرماتا ہے ،ہاں تمہارا رب رحمٰن فرماتا ہے جو ایسے جلسوں میں جائے ایسی جگہ کھڑا ہو وہ بھی انہیں کافروں آریوں پادریوں کی مثل ہے۔
آہ آہ حرام تو ہر گناہ ہے یہاں تو اللہ واحد قہار یہ فرما رہا ہے کہ وہاں ٹھہرے تو تم بھی انہیں جیسے ہو۔ مسلمانو! کیا قرآنِ عظیم کی یہ آیات تم نے منسوخ کردیں یا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اس سخت وعید کو سچا نہ سمجھے یا کافروں جیسا ہونا قبول کرلیا۔ اور جب کچھ نہیں تو اُن جمگھٹوں کے کیا معنی ہیں جو آریوں پادریوں کے لکچروں نداؤں پر ہوتے ہیں اُن جلسوں میں شرکت کیوں ہے جو خدا، رسول اور قرآن پر اعتراضوں کیلئے کئے جاتے ہیں۔ بھائیو! میں نہیں کہتا قرآن فرماتا ہے کہ ’’ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ‘‘ تم بھی ان ہی جیسے ہو۔‘‘ اُن لکچروں پر جمگھٹ والے اُن جلسوں میں شرکت والے سب اُنہیں کافروں کے مثل ہیں ، وہ علانیہ بک کر کافر ہوئے یہ زبان سے کلمہ پڑھیں اور دل میں خدا، رسول اورقرآن کی اتنی عزت نہیں کہ جہاں اُن کی توہین ہوتی ہو وہاں سے بچیں تو یہ منافق ہوئے جب تو فرمایا کہ اللہ اُنہیں اور اِنہیں سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا کہ یہاں تم لکچر دو اور تم سنو۔
مسلمان اگر قرآنِ عظیم کی اس نصیحت پر عمل کریں تو ابھی ابھی دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے سب بازار ٹھنڈے ہوئے جاتے ہیں ، ملک میں ان کے شور وشر کا نشان نہ رہے گا ،جہنم کے کندے شیطان کے بندے آپس ہی میں ٹکرا ٹکرا کر سر پھوڑیں گے، اللہ، رسول اور قرآنِ عظیم کی توہینوں سے مسلمانوں کا کلیجا پکانا چھوڑیں گے، اور اپنے گھر بیٹھ کر بکے بھی تو مسلمانوں کے کان تو ٹھنڈے رہیں گے۔(فتاوی رضویہ، ۱ / ۷۸۱-۷۸۵، ملخصاً)
{ وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْـٕدَةُ:اور اس لیے کہ اس کی طرف دل جھکیں۔}اس سے پہلی آیت میں بیان ہوا کہ انسانوں اور جنوں میں سے جو مردود ہیں وہ ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لئے بناوٹی باتوں کے وسوسے ڈالتے ہیں ، اب اس کی مزید وجوہات بیان فرمائی جا رہی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو بناوٹی باتوں کے وسوسے اس لئے ڈالتے ہیں تاکہ آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے دل ان بناوٹی باتوں کی طرف مائل ہوجائیں ، وہ ان کی بناوٹی باتوں کو پسند کر لیں اور اسی گناہ کا ارتکاب کریں جس کے یہ خود مرتکب ہوئے ہیں۔
دل اپنے ہم جنس کی طرف جھکتا ہے:
ا س سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کادل اپنے ہم جنس کی طرف جھکتا ہے، لہٰذا اگر کسی آدمی کا دل گناہگاروں ، گمراہوں کی طرف زیادہ جھکتا ہے تو اسے غور کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے دل میں بھی گمراہی اور برائی کی محبت بیٹھی ہوئی ہے۔
{ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِیْ حَكَمًا: توکیا میں اللہ کے سوا کسی کوحاکم بنالوں؟} شانِ نزول: کفارِ مکہ نے سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سیعرض کیا تھا کہ یہود و نصاریٰ کے پوپ پادریوں کو ہم اور آپ پنچ بنا لیں جو یہ فیصلہ کریں کہ ہم حق پر ہیں یا آپ۔ تب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۳ / ۹۰)
اس آیتِ مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کفار کے بارے میں بیان ہو اکہ انہوں نے قسمیں کھا کر کہا کہ اگر ان کی مطلوبہ نشانیاں انہیں دکھا دی جائیں تو وہ ایمان لے آئیں گے، اس پرانہیں جواب دیا گیا کہ ان نشانیوں کو ظاہر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اگر ان کی مطلوبہ نشانیاں ظاہر کر دے تو بھی وہ لوگ اپنے کفر پر قائم ہی رہیں گے۔ اب اس آیتِ مبارکہ میں بیان فرمایا جا رہا ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پرد لالت کرنے والی نشانیاں تو مکمل طور پر ظاہر ہو چکی ہیں ، ایک نشانی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر مفصل کتاب اتاری جس میں امرونہی ،وعدہ و وعید اور حق و باطل کا فیصلہ اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدق کی شہادت اور کفار کے افتراء کا بیان ہے اور دوسری نشانی یہ ہے کہ تورات و انجیل میں رسولِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رسولِ برحق ہونے اور قرآن پاک کے اللہ تعالیٰ کی کتاب ہونے پر دلالت کرنے والی نشانیاں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنہیں آسمانی کتاب کی سچی سمجھ نصیب کی جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ نیزعام علماء اہلِ کتاب ان دلائل کی وجہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حق جانتے ہیں اگرچہ کسی دنیاوی وجہ سے اس کا اقرار نہ کریں۔ لہٰذا اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان مشرکین سے فرما دوکہ کیا میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی اور کو حاکمو قاضی بنالوں جو میرے اور تمہارے درمیان فصلہ کرے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے میری نبوت کے حق ہونے کا فیصلہ فرما دیا ہے کہ جب اس نے عاجز کر دینے والی کتاب یعنی قرآنِ پاک مجھ پر نازل فرما دیا تو میری نبوت کے درست ہونے کا فیصلہ بھی ہو گیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فیصلے سے بڑھ کر اور کسی کا فیصلہ نہیں ، لہٰذا اب میری نبوت کا اقرار کرنا ضروری ہے۔( تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۵ / ۱۲۳-۱۲۴)
{ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ:تو اے سننے والے تو ہر گز شک والوں میں نہ ہو۔} ایک قول یہ ہے کہ یہاں خطاب نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے، اس صورت میں معنی یہ ہوا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس بات پر شک کرنے والوں میں نہ ہونا کہ اہلِ کتاب کے علماء جانتے ہیں کہ یہ قرآن حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس بات پر شک کرنے والوں میں نہ ہو نا کہ ہم نے آپ کو جو بیان کیا ہے وہ حق ہے یا نہیں۔ یاد رہے کہ اس کا تعلق ان باتوں سے ہے جو کسی کوا بھارنے کے لئے کی جاتی ہیں ورنہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو شک کر ہی نہیں سکتے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ بظاہر اگرچہ خطاب سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن مراد ان کا غیر ہے۔ اب معنی یہ ہوا کہ’’ اے قرآنِ پاک کوسننے والے انسان! تو اس بات میں شک نہ کرنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے کیونکہ یہ ایسا عاجز کر دینے والا کلام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور اس جیسا کلام پیش کرنے پر قادر ہی نہیں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۲ / ۴۹)
{ وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ:اور پوری ہے تیرے رب کی بات۔} رب کی بات سے مراد وہ فیصلۂ الٰہی ہے جو کفار ومومن کے متعلق ہو چکایا اس سے تمام آسمانی کتابیں مراد ہیں یا قرآن شریف ، الغرض جو کچھ بھی مراد ہو مقصود بالکل ظاہر ہے۔
قرآنِ مجید کی 4شانیں :
اس آیتِ کریمہ میں قرآنِ پاک کی چار شانیں بیان کی گئی ہیں :
(1)…قرآنِ پاک مکمل ہے اس کا کوئی پہلو ناتمام نہیں۔
(2)…قرآنِ پاک میں بتائی گئی تمام باتیں حق اور سچائی پر مَبنی ہیں۔
(3)…جو شرعی احکام قرآنِ پاک میں ہیں وہ ہر اعتبار سے عدل وانصاف پر مشتمل ہیں۔
(4)…قرآنِ پاک ہمیشہ کیلئے ہر طرح کی تبدیلی اور تحریف سے محفوظ ہے۔
مخلوق کے شر سے بچنے کے لئے 3 وظائف:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کا ذکر ہوا،ا س کی مناسبت سے ہم یہاں مخلوق کے شر سے بچنے کے تین وہ وظائف ذکر کرتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کا ذکر ہے۔
(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت حسن اور حضرت حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاپر چند کلمات پڑھ کر پھونکا کرتے اور فرماتے ’’ تمہارے جدِ امجد بھی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر انہیں پڑھ کر دم کیا کرتے تھے ۔ (وہ کلمات یہ ہیں ) ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّہَامَّۃٍ ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ‘‘۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۱۱-باب، ۲ / ۴۲۹، الحدیث: ۳۳۷۱)
شیطان کے شر اور نظر بد سے محفوظ رہنے کے لئے یہ وظیفہ انتہائی مفید ہے۔
(2)…حضرت خولہ بنتِ حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص (سفر کے دوران) کسی جگہ اترے اور یہ کلمات کہے ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘ تو اس مقام سے کوچ کرنے تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء مایقول اذا نزل منزلًا، ۵ / ۲۷۵، الحدیث: ۳۴۴۸)
(3)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمفرماتے ہیں : رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسونے سے پہلے یہ کہا کرتے تھے ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِوَجْہِکَ الْکَرِیْمِ وَکَلِمَاتِکَ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّ مَا اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ اَللّٰہُمَّ اَنْتَ تَکْشِفُ الْمَغْرَمَ وَالْمَاْثَمَ اَللّٰہُمَّ لاَ یُہْزَمُ جُنْدُکَ وَلاَ یُخْلَفُ وَعْدُکَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ‘‘اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تیری بزرگ ذات اور تیرے مکمل کلمات کی پناہ پکڑتا ہوں اس کے شر سے جسے تو پیشانی سے پکڑنے والاہے ۔اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو ہی قرض ادا کرواتا اور گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تیرے لشکر کو شکست نہیں ہو گی اور تیرا وعدہ غلط نہیں ہو گا، تیرے سامنے کسی زور آور کا زور نہیں چلتا۔ تو پاک ہے اور سب تعریفیں تیرے لئے ہیں۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب مایقول عند النوم، ۴ / ۴۰۶، الحدیث: ۵۰۵۲)
{ وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ: اگر تو زمین میں موجود اکثر لوگوں کی اطاعت کرے۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے شبہات کا جواب دیا پھر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے درست ہونے کودلائل کے ساتھ بیان کیا اور اب بیان فرمایا جا رہا ہے کہ جب شبہات زائل ہو گئے اور دلائل بھی واضح ہو چکے تو اب کسی عقلمند کے لئے جائز نہیں کہ وہ جاہلوں کی گفتگو کی طرف توجہ کرے اور نہ ہی ان کے فاسد کلمات کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہو، لہٰذا اے سننے والے! اگر تو زمین میں موجود اکثر لوگوں یعنی کافروں کی غلط باتوں یعنی حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے میں ان کی پیروی کرے گا تو یہ تجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۵ / ۱۲۶)
ایک قول یہ ہے کہ اس سے جاہل اور نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے والے لوگوں کی پیروی مراد ہے۔(بیضاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۲ / ۴۴۶)
اسلامی لبادے میں ملبوس اسلام دشمنوں سے بچا جائے:
اس آیت میں یہ پہلو بھی داخل ہے کہ عوام ایسے لوگوں سے بھی محتاط رہیں جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ،اسلامی تعلیمات کی اشاعت کو اپنی ڈھال بنا کر اسلام ہی کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں ان کے بارے میں علمائے حق سے معلومات حاصل کر کے ان سے بچنے کی کوشش کریں ، دین کے مُسَلَّمہ امور میں ان کی قیاس آرائیاں ، حق کو باطل اور باطل کو حق ظاہر کرنے میں ان کی صرف کی ہوئی توانائیاں کسی کام کی نہیں ، ان کی پیروی دنیا و آخرت کے عظیم خسارے کا سبب بن سکتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ دینی امور میں صر ف اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی پیروی کریں ، ان کے مقابلے میں کسی کی بھی پیروی نہ کریں۔ اہلِ حق علماء اور مجتہدین کی پیروی درحقیقت اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہی پیروی ہے کہ یہ حضرات ان ہی کے احکام سناتے ہیں۔
{ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ: یہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں۔} یعنی یہ کفار جو آپ سے آپ کے دین اور مذہب کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں انہیں تو اپنے مذہب کے درست ہونے کا بھی یقین نہیں۔ اپنے مذہب کو درست ثابت کرنے کیلئے ان کے پاس دلیل صرف اپنے جاہل اور گمراہ باپ دادا کی تقلید کرنا ہے، یہ لو گ بصیرت و حق شناسی سے محروم ہیں اور دین کے بارے میں غلط اندازے لگا رہے ہیں کہ یہ حلال ہے یہ حرام۔ اٹکل سے کوئی چیز حلال یاحرام نہیں ہوتی جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حلال کیا وہ حلال ہے اور جسے حرام کیا وہ حرام ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’ظن ‘‘سے مراد کفار کا اپنے مذہب کو ثابت کرنے میں اپنے اسلاف کی تقلید کرنا ہے، مجتہد کے قیاس سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۵ / ۱۲۷)
قرآن وحدیث کے مقابلے میں آباؤ اجداد کی پیروی مشرکوں کا طریقہ ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے مقابل اپنے باپ دادوں کی پیروی کرنا مشرکوں کا طریقہ ہے۔ فی زمانہ حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ اگر کوئی کسی غلط بات پر عمل پیرا ہو اور اسے سمجھایا جائے تو جواب یہی ملتا ہے کہ ہم تو عرصۂ دراز سے یونہی کرتے چلے آ رہے ہیں ،ہم نے تو آج تک کسی کو اس بارے میں کوئی کلام کرتے نہیں سنا، ہمارے بڑے بوڑھے بھی تو یہی کرتے آئے ہیں تم نے دو لفظ کیا پڑھ لئے اب ہمیں بھی سمجھانے لگ گئے، ایسے حضرات کو چاہئے کہ اس آیتِ کریمہ کو سامنے رکھ کر خودغور کرلیں کہ وہ کن کی رَوِش اختیار کئے ہوئے ہیں۔
{ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ:بیشک تیرا رب خوب جانتا ہے ۔} یعنی کفار جو دوسروں سے فیصلہ کروانے کی بات کرتے ہیں یہ انتہائی نادان ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ لوگوں میں سے گمراہ کون ہے اور حق پر کون ہے اور یہ بھی وہی بہتر جانتا ہے کہ کفار اور مومنین میں سے گمراہی اور ہدایت پر کون ہے اور وہی ان میں سے ہر ایک کو وہ جزا دے گا جس کا وہ مستحق ہے۔ (بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۲ / ۱۰۳، روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۳ / ۹۲، ملتقتاً) یعنی مومن حق و ہدایت پر ہیں اور کفار باطل و ضلالت پر۔
{ فَكُلُوْا:تو کھاؤ۔} یعنی جو جانور اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کیا گیا اسے کھاؤ اور جو اپنی موت مرا یا بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا وہ حرام ہے۔ جانور کے حلال ہونے کا تعلق اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر ذبح ہونے سے ہے ۔ شانِ نزول: مشرکین مسلمانوں پر اعتراض کرتے تھے کہ تم اپنا قتل کیا ہوا تو کھاتے ہو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مارا ہوا یعنی جو اپنی موت مرے اس کو حرام جانتے ہو۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۲ / ۵۰) جس میں فرمایا گیا کہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر ذبح کیا گیا وہ حلال ہے اور جو اس کے نام پر ذبح نہ ہوا وہ حرام ہے۔ اور کافروں کا اعتراض کہ ذبیحہ کو ہم مارتے ہیں اور جو خود مرے اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ مارتا ہے تو جو اللہ عَزَّوَجَلَّکا مارا ہوا ہو وہ حرام کیوں ؟ اس اعتراض کی بنیاد ہی غلط ہے کیونکہ جس جانور کو کوئی شخص مارے اور جو جانور خود مرے بہرحال دونوں کو موت دینے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے لہٰذا دونوں صورتوں میں یوں فرق کرنا ہی باطل ہے کہ ایک کو ہم نے مارا اور دوسرے کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے۔ اب رہا یہ کہ ایک حلال اور دوسرا حرام کیوں تو یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا حکم ہے اور وہ خالق و مالک ہے جو چاہے حکم فرمائے اور یہ اس کے نام کی تعظیم کی ایک صورت ہے کہ اس کے نام پر ذبح کردہ جانور حلال ہے اور اس کے علاوہ حرام ہے۔
قرآنِ مجید پر ایمان لانے کا تقاضا:
اس سے معلوم ہو اکہ قرآنِ مجید کی آیات پر ایمان لانا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حلال فرمایا اسے حلال سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور جسے حرام فرمایا اسے حرام مانا جائے اور ا س سے بچا جائے اور اللہ تعالیٰ کے حلال کئے ہوئے کو حرام قرار دینا یا حرام کئے ہوئے کو حلال سمجھنا دونوں قرآن پر ایمان کے منافی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ قرآنِ کریم (اجمالی طور پر کلام کی) پانچ قسموں پر اترا: حلال، حرام، مُحکم، مُتَشابہ اور مثالیں لہٰذا حلال کو حلال جانو، حرام کو حرام مانو، محکم پر عمل کرو ، متشابہ پر ایمان لاؤ اور مثالوں سے عبرت پکڑو۔(مشکاۃ المصابیح، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الثانی، ۱ / ۵۶، الحدیث: ۱۸۲)
حضرت صہیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اس شخص کا قرآن پر ایمان نہیں جو اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال سمجھے۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۲۰-باب، ۴ / ۴۲۱، الحدیث: ۲۹۲۷)
{ وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا:اور تمہیں کیا ہے کہ تم نہ کھاؤ۔}یعنی اس جانور کو کھانے سے کیا چیز تمہیں روک رہی ہے جسے اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کیا گیا ہے حالانکہ جوچیزیں حرام تھیں وہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں تفصیل سے بیان فرما دی ہیں اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام نہیں فرمایا اسے حرام سمجھنا کیسی حماقت ہے۔
حرام چیزوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ قانون یہ ہے کہ حرام چیزوں کا مفصل ذکر ہوتا ہے اور جس چیز کو حرام نہ فرمایا گیا ہو وہ حلال ہے۔ حرام چیزوں کا تفصیلی بیان متعدد سورتوں میں اور سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرامین میں موجود ہے۔ یونہی مجبوری کی حالت میں حرام چیز کھانے کا بیان قرآنِ پاک میں کئی جگہ موجود ہے۔
{ وَ اِنَّ كَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ:اور بیشک بہت سے لوگ گمراہ کرتے ہیں۔} کفار بحیرہ اور سائبہ بتوں پر چھوٹے ہوئے جانوروں کو تو حرام جانتے ہیں اور جو جانور غیرِ خدا کے نام پر ذبح ہوں یا خود مر جائیں انہیں حلال جانتے ہیں حالانکہ معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے لہٰذا ان جاہلوں کی بات نہ مانو۔
حلال چیزیں حرام قرار دینے والوں کو نصیحت:
اس آیتِ کریمہ کو پڑھ کر وہ لوگ غور کریں جواپنی نفسانی خواہشات کی وجہ سے چیزوں کو حرام یا حلال قرار دے کر گمراہ کرتے ہیں ، شریعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اسی طرح ان حضرات کو بھی غور کرنے کی حاجت ہے جو اس جانورکو حرام کی صف میں داخل کر دیتے ہیں کہ جسے ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کیا گیا اور اس سے مقصود کسی ولی یا بزرگ کو ثواب پہنچانا تھا۔
{ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ:بیشک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جنہوں نے اس چیز کو حرام قرار دے دیا جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حلال کیا اور جسے اس نے حرام کیا اسے حلا ل کہہ دیا،اللہ تعالیٰ انہیں ان کی حرکتوں کی سزا دے گا۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۲ / ۵۰-۵۱)
اس آیتِ مبارکہ سے ان لوگوں کو بھی ڈرنا چاہیے جو بغیر علم محض اپنی رائے سے حرام و حلال کا غلط فتویٰ دیتے ہیں۔
{ وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗ:اور ظاہری اور باطنی سب گناہ چھوڑ دو۔} ظاہری اور باطنی گناہ کی تفسیر میں دو قول ہیں : (1)ظاہری گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں کہ جن کا ارتکاب اعلانیہ اور مجمعِ عام میں ہو اور باطنی گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو چھپ کر کئے جائیں۔ (2)ظاہری گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو ظاہری اعضاء سے کئے جائیں اور باطنی گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو دل سے کئے جائیں جیسے حسد، تکبر، ریاکاری ، بغض و کینہ ،بدگمانی اور برے کاموں کو پسند کرنا وغیرہ۔( صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۶۲۳)اس کے علاوہ بھی کئی اقوال ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں ہر طرح کے گناہوں سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے چاہے گناہ کا تعلق جسم سے ہو یا دل سے یا نیت و ارادہ سے، علانیہ گناہ ہو یا چھپ کر۔([1])
{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ: بیشک جو لوگ گناہ کماتے ہیں۔} یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے منع کئے ہوئے کام کرتے ہیں اور ان گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حرام کئے ہیں تو انہیں عنقریب آخرت میں دنیا میں کئے ہوئے گناہوں کی سز ادی جائے گی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۵۱)
توبہ کرنے کی اہمیت اور اس کی ترغیب:
یاد رہے کہ جس مسلمان نے مرنے سے پہلے پہلے اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لی تو اسے آخرت میں سزا نہ ہو گی البتہ جس مسلمان نے اپنے گناہوں سے توبہ نہ کی تو ا س کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے ، وہ چاہے تو اسے اس کے گناہوں کی سزا دے دے اور چاہے تو اپنے فضل و کرم سے اس کے گناہ معاف کر دے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہونے کی امید باندھ کر گناہوں میں مصروف رہنا انتہائی نادانی ہے کیونکہ گناہگاروں کی ایک تعداد ضرور جہنم میں جائے گی اور کوئی گناہگار یہ نہیں جانتا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کویقینی طور پر معاف کر دے گا ۔ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ بے شک سب گناہ گار مشیت کے خطرے میں ہیں بلکہ اطاعت گزار بھی نہیں جانتے کہ ان کا خاتمہ کیساہو گا تواے گناہگارو! تم دھوکے میں مت رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہر گناہگار کو حاصل نہ ہو گی اور نہ ہی تمہیں یہ معلوم ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جنہیں معاف کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے۔(روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۳ / ۹۴)
امام محمد غزالیرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’جو انسان یہ آس لگائے بیٹھا ہے کہ میں مومن ہوں اور اللہ تعالیٰ مومنوں کے گناہ معاف کر دے گا تواسے یہ تصور کرنا چاہئے کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف نہ کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب انسان اطاعت نہ کرے تو ا س کا ایمانی درخت کمزو ر و ناتواں ہو جائے اور نزع کے وقت موت کی سختیوں کے تند جھونکوں سے اکھڑ جائے کیونکہ ایمان ایک ایسا درخت ہے جس کی پرورش عبادت کے پانی سے ہوتی ہے اور جب اسے یہ پانی نہ ملا اور ا س نے قوت نہ پکڑی تو اس کے اکھڑ جانے کے خطرات ہر وقت ا س پر منڈلاتے رہیں گے۔ اگر وہ اپناایمان سلامت لے گیا تو یہ بھی امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بخش دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے عذاب میں مبتلاء کر دے، لہٰذا اس آسرے میں بیٹھے رہنا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے گا بہت بڑی حماقت ہے اور اِس شخص کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جو اپنے مال و اسباب کو تباہ کر کے اور بال بچوں کو بھوکا چھوڑ کر یہ خیال کرے کہ شاید ویرانے میں خزانہ مل جائے یا اِس شخص کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جو کسی ایسے شہر میں رہ رہا ہو جسے لوٹا جا رہا ہو اور وہ اپنے خزانے ا س امید پر نہ چھپائے کہ ہو سکتا ہے جب لوٹنے والا ہمارے گھر میں آئے تو وہ آتے ہی مر جائے گا یا اندھا ہو جائے گا یا وہ میرے گھر کو دیکھ نہ سکے گا، یہ سب باتیں اگرچہ ممکن ہیں لیکن ان پر اعتماد کرنا اور احتیاط سے ہاتھ اٹھا لینا حماقت ہے۔( کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل اول در توبہ، ۲ / ۷۷۳-۷۷۴)
آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں ’’گنا ہ ایمان کے لیے اس طرح ( نقصا ن دہ) ہیں جیسے مضرِ صحت کھانے جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں ، وہ معدے میں جمع ہو تے رہتے ہیں حتّٰی کہ اَخلاط (یعنی صفراء ،بلغم وغیر ہ) مزاج کو بدل دیتے ہیں اور اس کو پتہ بھی نہیں چلتا یہاں تک کہ اس کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور وہ اچانک بیمار ہو جا تا ہے اور پھر اچانک مر جاتا ہے تو گنا ہو ں کا معاملہ بھی یہی ہے، چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ جب اس فا نی دنیا میں ہلاکت کے خوف سے وہ زہر سے بچتا ہے اور ان کھا نو ں سے فوری طور پر بھی اور ہر حال میں بچتا ہے جو نقصان دہ ہو تے ہیں تو ابد ی ہلاکت سے ڈرنے والے پر بدرجہ اولیٰ گنا ہوں سے اجتنا ب ضروری ہے اور جب زہر کھانے والے پرلازم ہے کہ جو ں ہی نادم ہو قے کرے اور اس کھا نے سے رجوع کرے اور اسے معدے سے نکال دے اور یہ عمل فوری طور پر کرے تاکہ اس کا جسم ہلاکت سے بچ جا ئے حالانکہ اس کا نقصان صرف دنیوی ہے جبکہ دین کے معاملے میں گناہوں کی صورت میں زہر کھانا بدر جہ اَولیٰ نقصان دہ ہے تو اسے اس سے رجو ع کرنا چا ہیے اور جس قدر ممکن ہو تَدارُک کرے جب تک اس کے لیے مہلت ہے اور وہ اس کی زند گی ہے کیوں کہ جس کو اس زہر کا خوف اس لیے ہے کہ باقی رہنے والی آخرت سے محروم ہو جا ئے گا جس میں ہمیشہ کی نعمتیں اور بہت بڑی سلطنت ہے اور اس کے فوت ہو نے سے جہنم کی آگ اور ہمیشہ کے عذاب کا سامنا ہوگا اور دنیوی زندگی اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کیوں کہ اُس کی کو ئی انتہا نہیں تو اس کے لئے گناہوں سے تو بہ کرنے میں جلدی کرنا ضروری ہے تاکہ گنا ہو ں کا زہر روح ایمان پر اثر انداز نہ ہو اور (اگر یہ روح ایمان پر اثرانداز ہو گیاتو) یہ ایسا اثر ہوگا جس کا ڈاکٹروں کے پاس بھی کو ئی علا ج نہیں اور نہ ہی اس کے بعد کوئی پرہیز اثر کرے گی، اس کے بعد نصیحت کرنے والوں کی نصیحت اور واعظین کا وعظ بھی فائد ہ نہیں دے گا اور اس پر یہ بات ثابت ہو جا ئے گی کہ وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہے (احیاء علوم الدین، کتاب التوبۃ، بیان انّ وجوب التوبۃ علی الفور، ۴ / ۱۰-۱۱)۔([2])
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan