READ

Surah al-Adiyat

اَلْعٰدِيٰت
11 Ayaat    مکیۃ


100:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

100:1
وَ الْعٰدِیٰتِ ضَبْحًاۙ(۱)
قسم ان کی جو دوڑتے ہیں سینے سے آواز نکلتی ہوئی (ف۲)

{وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا: ان گھوڑوں  کی قسم جوہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں ۔} اس آیت میں  جن گھوڑوں  کی قسم ارشاد فرمائی گئی ان سے مراد غازیوں  کے گھوڑے ہیں  جو جہاد میں  دوڑتے ہیں  تو ان کے سینوں  سے آوازیں  نکلتی ہیں ۔( ابو سعود، العادیات، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۸۹۶)

آیت’’ وَ الْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

             مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کیا پیارے نکتے بیان فرمائے کہ آیت سے معلوم ہوا ،

(1)… غازیوں  کی شان بہت اعلیٰ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے گھوڑوں  کی قَسم ارشاد فرمائی۔

(2)… جب غازی کے گھوڑے نے اپنی پشت پر غازی کو لیا تو اس گھوڑے کی شان اونچی ہو گئی، تو جب حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہجرت کی رات سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو اپنے کندھے پر لیا ، حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو صہباء کے مقام میں  اپنے زانو پر سلایا اور حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے وصال کے وقت آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا سر مبارک اپنے سینہ پر لیا بلکہ وہ آمنہ خاتون اور حلیمہ دائی جنہوں  نے حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنی گودوں  میں  کھلایا ان کی کیا شان ہو گی۔

(3)…یہ کہ جب غازی کے گھوڑے کی سانس برکت والی ہے، کہ اس کی قَسم ارشاد ہوئی ، تو ذاکر کی سانس بھی برکت والی ہے، جس سے شفا ہوتی ہے۔

{فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًا: پھر سم مارکرپتھروں  سے چنگاریاں  نکالنے والوں  کی ۔} حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’اس سے مراد وہ گھوڑے ہیں  جو پتھریلی زمین پر چلتے ہیں  تو ان کے سُموں  کی رگڑ سے آگ کی چنگاریاں  نکلتی ہیں۔( تفسیر کبیر، العادیات، تحت الآیۃ: ۲، ۱۱ / ۲۵۹)

مقبولوں  سے دور کی نسبت بھی عزت کا سبب ہے:

            یہاں  ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ غازی کے گھوڑے کے سم سے اس پتھر اور شعلے کو نسبت ہوئی تویہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اتنا پیارا ہو گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا بھی قسم میں  ذکر فرمایا ،اس سے معلوم ہو اکہ مقبولوں  سے دور کی نسبت بھی عزت کا سبب ہے۔

100:2
فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًاۙ(۲)
پھر پتھروں سے آگ نکالتے ہیں سم مارکر (ف۳)

100:3
فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًاۙ(۳)
پھر صبح ہوتے تاراج کرتے ہیں (ف۴)

{فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًا: پھر صبح کے وقت غارت کردینے والوں  کی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان گھوڑوں  کی قسم جو صبح کے وقت اسلام کے دشمنوں  پر حملہ کردیتے ہیں  ،پھر اس وقت دوڑتے ہوئے غبار اڑاتے ہیں ،پھراسی وقت دشمن کے لشکر میں  بے خوف گھس جاتے ہیں ۔

            مجاہدین جب اسلام کے کسی دشمن پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتے تو رات بھر سفر کرتے اور صبح کے وقت حملہ کر دیتے اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ رات کے وقت اندھیرے میں  ہونے کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں  دیتے تھے اورجس وقت وہ حملہ کرتے اس وقت لوگ غافل اور جنگ کے لئے تیار نہیں  ہوتے تھے۔( تفسیرکبیر،العادیات،تحت الآیۃ:۳،۱۱ / ۲۶۰، قرطبی،العادیات،تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۱۱۴، الجزء العشرون، ملتقطاً)

سورہِ عادِیات کی آیت نمبر3تا 5سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ان آیات سے چند باتیں  معلوم ہوئیں

(1)صبح کے وقت عموماً جہاد با برکت ہے بلکہ اس وقت کئے جانے والے ہر دینی اور دُنْیَوی کام میں  برکت ہوتی ہے۔

(2)…جہاد کے وقت گھوڑوں  کے دوڑنے سے جوغبار اڑتا ہے وہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کو پیارا ہے کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں  اڑنے والا غبار ہے۔

(3)…دشمن کے لشکر میں  بے خوف گھس جانا بھی اللّٰہ تعالیٰ کو پیارا ہے۔

100:4
فَاَثَرْنَ بِهٖ نَقْعًاۙ(۴)
پھر اس وقت غبار اڑاتے ہیں،

100:5
فَوَسَطْنَ بِهٖ جَمْعًاۙ(۵)
پھر دشمن کے بیچ لشکر میں جاتے ہیں،

100:6
اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌۚ(۶)
بیشک آدمی اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے (ف۵)

{اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ: بیشک انسان ضرور اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔} اللّٰہ تعالیٰ نے غازیوں  کے گھوڑوں  کی قَسمیں  ذکر کر کے فرمایا : بیشک انسان اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا بڑا ناشکرا ہے ۔حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  ’’ناشکرے سے مراد وہ انسان ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں  سے مکر جاتا ہے اوربعض مفسرین نے فرمایا کہ ناشکرے سے مراد گناہگار انسان ہے اور بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ انسان ہے جو مصیبتوں  کو یاد رکھے اور نعمتوں  کو بھول جائے۔( خازن، العادیات، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۴۰۲)

{وَ اِنَّهٗ عَلٰى ذٰلِكَ لَشَهِیْدٌ: اور بیشک وہ اس بات پر ضرور خود گواہ ہے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ بیشک وہ انسان ناشکرا ہونے پر خود اپنے عمل سے گواہ ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ  تعالیٰ انسان کے ناشکرے ہو نے پر خود گواہ ہے۔( خازن، العادیات، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۴۰۲)

100:7
وَ اِنَّهٗ عَلٰى ذٰلِكَ لَشَهِیْدٌۚ(۷)
اور بیشک وہ اس پر خود گواہ ہے،

100:8
وَ اِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌؕ(۸)
اور بیشک وہ مال کی چاہت میں ضرور کرّا (تیز) ہے (ف۷)

{وَ اِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ: اور بیشک وہ مال کی محبت میں  ضرور بہت شدید ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ بیشک انسان مال کی محبت اورا س کی طلب میں  توبہت مضبوط اور طاقتور ہے جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس کی نعمتوں  کا شکر ادا کرنے کیلئے کمزور ہے تو کیا مال کی محبت میں  مبتلا وہ انسان نہیں  جانتا کہ جب وہ مردے اٹھائے جائیں  گے جو قبروں  میں  ہیں  اور انہیں  اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پیش کیا جائے گا اور جو حقیقت سینوں  میں  ہے وہ کھول دی جائے گی تو اس وقت اللّٰہ تعالیٰ انہیں  ان کے نیک اور برے اعمال کا بدلہ دے گا ، بے شک ان کا رب  عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن جو کہ فیصلے کا دن ہے ان کے اعمال،ان کی نیتوں  اوران کی اطاعت ونافرمانی کی خوب خبر رکھنے والا ہے جیسا کہ ہمیشہ سے ہے ۔(تفسیر کبیر، العادیات، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱ / ۲۶۲، سمرقندی، العادیات، تحت الآیۃ: ۸-۱۱، ۳ / ۵۰۳-۵۰۴، مدارک، العادیات، تحت الآیۃ: ۸-۱۱، ص۱۳۶۹، ملتقطاً)

            نور العرفان میں  ہے:غافل انسان مال کی محبت کی وجہ سے سخت دل ہے کیونکہ مال کی محبت سختیِ دل کا باعث ہے، جیسے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی محبت نرمیِ دل کا سبب ہے دیکھو یزید، فرعون، شداد، جانوروں  سے زیادہ سخت دل تھے، محض محبت مال سے یا غافل انسان مال کی محبت میں  سخت دل ہے، دین میں  نرم(یعنی دین میں  سختی برداشت نہیں  کرتے) ،اسی لئے عام طور پر لوگ دنیا کے لئے وہ مشقتیں  جھیل لیتے ہیں  جو دین کے لئے نہیں  جھیلتے۔

مال سے محبت کی چار صورتیں :

            خیال رہے کہ محبت ِمال چار طرح کی ہے:(1)حُبِّ ایمانی جیسے حج وغیر ہ کے لئے مال کی چاہت ،(2) حُبِّ نفسانی جیسے اپنے آرام و راحت کے لئے مال سے رغبت،(3) حُبِّ طُغیانی جیسے محض جمع کرنے اور چھوڑ جانے کے لئے مال سے محبت،(4)حُبِّ شیطانی یعنی گناہ وسرکشی کے لئے مال کی محبت۔ یہاں  آخری دو محبتیں  مراد ہیں ، پہلی قسم کی محبت عبادت ہے، حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  نے فرمایا تھا: ’’اِنِّیْۤ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ ‘‘ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو جہاد کے گھوڑوں  سے بڑی محبت تھی، چونکہ مال بہت خیر کا ذریعہ ہے، اسی لئے اسے خیر فرمایا گیا۔ صوفیاء کے نزدیک نعمت سے ایسی محبت بری ہے جو دل کو بھر دے کہ مُنعِم کی محبت کی جگہ نہ رہے، وہی یہاں  مراد ہے، اندرونِ دل صرف یار کی محبت ہو، وہاں  اَغیار نہ ہوں ، باقی محبتیں  دل کے باہر رہیں ، کشتی پانی میں  رہے سلامت ہے، اگر پانی کشتی میں  آجائے تو ڈوب جائے گی۔

100:9
اَفَلَا یَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِۙ(۹)
تو کیا نہیں جانتا جب اٹھائے جائیں گے (ف۸) جو قبروں میں ہیں،

100:10
وَ حُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِۙ(۱۰)
اور کھول دی جائے گی (ف۹) جو سینوں میں ہے،

100:11
اِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ یَوْمَىٕذٍ لَّخَبِیْرٌ۠(۱۱)
بیشک ان کے رب کو اس دن (ف۱۰) ان کی سب خبر ہے (ف۱۱)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْعٰدِيٰت
اَلْعٰدِيٰت
  00:00



Download

اَلْعٰدِيٰت
اَلْعٰدِيٰت
  00:00



Download