READ

Surah Al-Aa'raaf

اَلْاَعْرَاف
206 Ayaat    مکیۃ


7:201
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ(۲۰۱)
بیشک وہ جو ڈر والے ہیں جب انہیں کسی شیطانی خیال کی ٹھیس لگتی ہے ہوشیار ہوجاتے ہیں اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں(ف۳۸۷)

{اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا:بیشک وہ جو ڈر والے ہیں۔} آیت میں مذکور لفظ’’طٰٓىٕفٌ‘‘ کے بارے میں علامہ راغب اصفہانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ انسا ن کو ورغلانے کیلئے انسان کے گرد گردش کرنے والے شیطان کوطائف کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الطاء، ص۵۳۱، تحت اللفظ: طوف) اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو متقی اور پرہیز گار ہیں جب شیطان کی طرف سے انہیں گناہ کرنے یا اللہ تعالیٰ کی اطاعت چھوڑنے کا کوئی وسوسہ آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ  کی قدرت اورا س کے انعامات میں غور کرتے ہیں اور ا س کے عذاب اور ثواب کو یاد کرتے ہیں اور اسی وقت گناہ کرنے سے رک جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے گناہ سے رکنے کا حکم دیا اور گناہ کرنے سے منع کیا ہے۔ (قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۲، ۴ / ۲۵۰، الجزء السابع، صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۱، ۲ / ۷۳۸، ملتقطاً)

شیطان کے وسوسے سے بچنے کا ایک طریقہ:

اس سے معلوم ہو اکہ جب شیطان دل میں گناہ کرنے کا وسوسہ ڈالے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے انعامات میں غور کرنا اور اللہ تعالیٰ کی سزا اور ا س کے ثواب کو یاد کرنا ا س وسوسے کو دور کرنے اور گناہ سے رکنے میں معاون و مددگار ہے لہٰذا جب بھی شیطان گناہ کرنے پر اکسائے تو اس وقت بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی قدرت اوراس کے انعامات و احسانات کو یاد کرے اور نافرمانی کرنے پر اس کی طرف سے ملنے والی سزا اور اطاعت کرنے کی صورت میں ا س کی طرف سے ملنے والے ثواب کویاد کرے تواِنْ شَآءَ اللہ شیطان کاوسوسہ دور ہو جائے گا اور وہ گناہ کرنے سے بچ جائے گا اور اگر شامتِ نفس سے گناہ سرزد ہو جائے تو فوراً اللہ تعالیٰ کو یاد کر کے اپنے گناہ کی معافی مانگ لے ، جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ  الَّذِیْنَ  اِذَا  فَعَلُوْا  فَاحِشَةً  اَوْ  ظَلَمُوْۤا  اَنْفُسَهُمْ  ذَكَرُوا  اللّٰهَ  فَاسْتَغْفَرُوْا  لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ  مَنْ  یَّغْفِرُ  الذُّنُوْبَ  اِلَّا  اللّٰهُ  ﳑ  وَ  لَمْ  یُصِرُّوْا  عَلٰى  مَا  فَعَلُوْا  وَ  هُمْ  یَعْلَمُوْنَ‘‘(ال عمران:۱۳۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب کسی بے حیائی کا اِرتکاب کرلیں یا اپنی جانوں پر ظلم کرلیں تواللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اوراللہ کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور یہ لوگ جان بوجھ کر اپنے برے اعمال پر اصرار نہ کریں۔

امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانہ ٔمبارک میں ایک نوجوان بہت متقی و پرہیز گار وعبادت گزار تھا، حتّٰی کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی اس کی عبادت پر تعجب کیا کرتے تھے ۔وہ نوجوان نمازِ عشاء مسجد میں ادا کرنے کے بعداپنے بوڑھے باپ کی خدمت کرنے کے لئے جایا کرتا تھا ۔ راستے میں ایک خوبرو عورت اسے اپنی طرف بلاتی اور چھیڑتی تھی، لیکن یہ نوجوان اس پر توجہ دئیے بغیر نگاہیں جھکائے گزر جایا کرتا تھا ۔ آخر کار ایک دن وہ نوجوان شیطان کے ورغلانے اور اس عورت کی دعوت پر برائی کے ارادے سے اس کی جانب بڑھا، لیکن جب دروازے پر پہنچا تو اسے اللہ تعالیٰ کا یہی فرمانِ عالیشان یاد آ گیا:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَ‘‘ (اعراف:۲۰۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک جب شیطان کی طرف سے پرہیزگاروں کو کوئی خیال آتا ہے تو وہ فوراًحکمِ خدا یاد کرتے ہیں پھراسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔

اس آیتِ پاک کے یاد آتے ہی اس کے دل پر اللہ تعالیٰ کا خوف اس قدر غالب ہوا کہ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا ۔جب یہ بہت دیر تک گھر نہ پہنچا تو اس کا بوڑھا باپ اسے تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا اور لوگوں کی مدد سے اسے اٹھوا کر گھر لے آیا۔ ہوش آنے پر باپ نے تمام واقعہ دریافت کیا ،نوجوان نے پورا واقعہ بیان کر کے جب اس آیت ِ پاک کا ذکر کیا، تو ایک مرتبہ پھر اس پراللہ تعالیٰ کا شدید خوف غالب ہوا ،اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور اس کا دم نکل گیا۔ راتوں رات ہی اس کے غسل و کفن ودفن کا انتظام کر دیاگیا۔ صبح جب یہ واقعہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ اُس کے باپ کے پاس تعزیت کے لئے تشریف لے گئے اور اس سے فرمایا کہ ’’ آپ نے ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی ؟(تا کہ ہم بھی جنازے میں شریک ہو جاتے)۔اس نے عرض کی ’’امیر المومنین!اس کاانتقال رات میں ہوا تھا (اور آپ کے آرام کا خیال کرتے ہوئے بتانامناسب معلوم نہ ہوا)۔ آپ نے فرمایا کہ ’’مجھے اس کی قبر پر لے چلو۔‘‘ وہاں پہنچ کر آپ نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی

’’وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ‘‘(الرحمٰن:۴۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔

            تو قبر میں سے اس نوجوان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یا امیرَالمومنین!بیشک میرے رب نے مجھے دو جنتیں عطا فرمائی ہیں۔‘‘(ابن عساکر، ذکر من اسمہ عمرو، عمرو بن جامع بن عمرو بن محمد۔۔۔ الخ، ۴۵ / ۴۵۰، ذمّ الہوی، الباب الثانی والثلاثون فی فضل من ذکر ربّہ فترک ذنبہ، ص۱۹۰-۱۹۱)

7:202
وَ اِخْوَانُهُمْ یَمُدُّوْنَهُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ(۲۰۲)
اور وہ جو شیطانوں کے بھائی ہیں (ف۳۸۸) شیطان انہیں گمراہی میں کھینچتے ہیں پھر کمی نہیں کرتے،

{وَ اِخْوَانُهُمْ:اور وہ جو شیطانوں کے بھائی ہیں۔ } ارشاد فرمایا کہ شیطانوں کے بھائی یعنی مشرکوں کو شیطان گمراہی میں کھینچتے ہیں یہاں تک کہ وہ گمراہی پر پکے ہو جاتے ہیں ،پھر وہ نہ توگمراہی سے رکتے ہیں اور نہ گمراہی چھوڑتے ہیں۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۲، ۲ / ۱۷۱)

متقی مسلمان اور کافر کا حال:

            اس سے متقی مسلمان اور کافر کا حال واضح ہوا کہ مسلمان کو جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا حکم یاد کرتا ہے اور پہچان جاتا ہے کہ یہ شیطان کاوار ہے،پھر وہ ا س سے رک جاتا ہے اور توبہ استغفار کرتا ہے جبکہ کافر اپنی گمراہی میں ہی پختہ ہوتا چلا جاتا ہے ، نہ وہ اللہ تعالیٰ کا حکم یادکرتا ہے اور نہ ہی اپنی گمراہی سے رجوع کرتا ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۲، ۲ / ۱۷۱)

7:203
وَ اِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰیَةٍ قَالُوْا لَوْ لَا اجْتَبَیْتَهَاؕ-قُلْ اِنَّمَاۤ اَتَّبِـعُ مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْۚ-هٰذَا بَصَآىٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۲۰۳)
اور اے محبوب! جب تم ان کے پاس کوئی آیت نہ لاؤ تو کہتے ہیں تم نے دل سے کیوں نہ بنائی تم فرما ؤ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف میرے رب سے وحی ہوتی ہے یہ تمہارے رب کی طرف سے آنکھیں کھولنا ہے اور ہدایت اور رحمت مسلمانوں کے لیے،

{وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ:اور جب قرآن پڑھا جائے۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی عظمت بیان فرمائی تھی کہ قرآنِ پاک کی آیات تو تمہارے رب کی طرف سے آنکھیں کھول دینے والے دلائل ہیں اور ایمان لانے والے لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے اورا س آیت میں بتایا ہے کہ اس کی عظمت وشان کا تقاضا یہ ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنا جائے اور خاموش رہا جائے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۵ / ۴۳۹)

            علامہ عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس وقت قرآنِ کریم پڑھا جائے خواہ نماز میں یا خارجِ نماز اُس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ص۴۰۱)

امام کے پیچھے قرآن پڑھنے کی ممانعت:

            یاد رہے کہ اس آیتِ مبارکہ کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں خطبہ کو بغور سننے اور خاموش رہنے کا حکم ہے۔اور ایک قول یہ ہے کہ اس آیت سے نماز و خطبہ دونوں میں بغور سننے اور خاموش رہنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے ۔ جبکہ جمہور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اس طرف ہیں کہ یہ آیت مقتدی کے سننے اور خاموش رہنے کے باب میں ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۲ / ۱۷۲، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ص۴۰۱، ملتقطاً)

            خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے امام کے پیچھے قرآنِ پاک پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور کثیر احادیث میں بھی یہی حکم فرمایا گیا ہے کہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کی جائے۔ چنانچہ

(1)… حضرت بشیر بن جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے نماز پڑھائی تو آپ نے کچھ لوگوں کو سنا کہ وہ نماز میں امام کے ساتھ قراء ت کررہے ہیں۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ’’ کیا ابھی تمہارے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ تم اس آیت کے معنی سمجھو۔ (تفسیر ابن جریر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۶ / ۱۶۱)

(2)…حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنی صفوں کو درست کرلو، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کروائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو۔ ایک روایت میں اتنا زائد ہے کہ اور جب وہ قراء ت کرے تو تم خاموش رہو۔ (مسلم، کتاب الصلاۃ، باب التشہد فی الصلاۃ، ص۲۱۴-۲۱۵، الحدیث: ۶۲-۶۳(۴۰۴))

(3)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں ، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’امام اسی لئے ہوتا ہے کہ اس کی اِقتداء کی جائے پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قراء ت کرے تو خاموش رہو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب اذا قرأ الامام فانصتوا، ۱ / ۴۶۱، الحدیث: ۸۴۶)

(4)… حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جس نے ایک رکعت بھی بغیر سورۂ فاتحہ کے پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی مگر یہ کہ امام کے پیچھے ہو۔ (ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی ترک القراء ۃ خلف الامام۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۳۸، الحدیث: ۳۱۳)

            نوٹ:یہاں ایک اور مسئلہ بھی یاد رکھیں کہ بعض لوگ ختم شریف میں مل کر زور سے تلاوت کرتے ہیں یہ بھی ممنوع ہے۔

7:204
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴)
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو(ف۳۸۹)

7:205
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ(۲۰۵)
اور اپنے رب کو اپن ے دل میں یاد کرو (ف۳۹۰) زاری اور ڈر سے اور بے آواز نکلے زبان سے صبح اور شام (ف۳۹۱) اور غافلوں میں نہ ہونا،

{وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا:اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو گڑگڑاتے ہوئے۔} اس آیت میں خطاب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ہے اور اس خطاب میں امتِ مصطفٰی بھی داخل ہے کہ یہ حکم تمام مُکَلَّفِین کو عام ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ اس آیت میں ذکر سے مراد نماز میں قراء ت کرنا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ذکر میں تلاوت ِقرآن، دعا اور تسبیح و تہلیل وغیرہ تمام اَذکار شامل ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۵، ۲ / ۱۷۳، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۵، ص۴۰۲، ملتقطاً)

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر دل میں کیا جائے یا درمیانی آواز میں ، حد سے زیادہ بلند آواز میں چیختے ہوئے نہ کیا جائے، نیز اللہ تعالیٰ کا ذکر عاجزی اورخوف کے ساتھ ہو۔ نیز ذِکْرُ اللہصبح و شام کیا جائے۔ بلند آواز سے اور آہستہ آواز سے ذکر کرنا دونوں کے بارے میں احادیث موجود ہیں ، اگر ذکر کرنے والے کو ریاکاری کا اندیشہ ہو یا نمازیوں اور آرام کرنے والوں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو تو آہستہ ذکر کیا جائے ورنہ بلند آواز سے کرنے میں حرج نہیں۔

{بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ:صبح اور شام۔} ان دونوں اوقات میں ذکر کرنا افضل ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ صبح کے وقت انسان نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اس وقت ذکر کرنے سے اس کے نامۂ اعمال میں سب سے پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر کرنا لکھا جائے گا اور شام کے وقت انسان سوتا ہے اور نیند ایک طرح کی موت ہے، لہٰذا اس وقت بھی ذکر کرنا مناسب ہے کہ ممکن ہے سوتے میں ہی انتقال ہو جائے، اگر ایساہوا تو قیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر کرتا ہوا اٹھے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ طلوعِ فجرکے بعد طلوعِ آفتاب تک اور اسی طرح نمازِ عصر کے بعد غروب تک نفل نماز ممنوع ہے، اس لئے ان وقتوں میں ذکر کرنا مستحب ہے تاکہ بندے کے تمام اوقات قربت و طاعت میں مشغول رہیں۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۵، ۲ / ۷۴۰)

            نوٹ:ذکرِ جلی اور خفی سے متعلق مزید معلومات کیلئے کتاب’’جاء الحق‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

7:206
اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یُسَبِّحُوْنَهٗ وَ لَهٗ یَسْجُدُوْنَ۠۩(۲۰۶)
بیشک وہ جو تیرے رب کے پاس ہیں (ف۳۹۲) اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بولتے اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں (ف۳۹۳) السجدة ۔۵

{اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ:بیشک وہ جو تیرے رب کے پاس ہیں۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب فرشتے اپنے بے انتہا شرف، پاک اور معصوم ہونے، شہوت اور غضب سے بری ہونے، کینہ اور حسد سے مُنَزّہ ہونے کے باوجود ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور خشوع و خضوع کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیں تو انسان جو کہ جسمانی ظلمتوں، بشری کثافتوں اور شہوت و غضب کی آماجگاہ ہے، وہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت زیادہ کرے۔(تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۶، ۵ / ۴۴۵)

سجدۂ تلاوت کے چند احکام:

یہ آیت آیاتِ سجدہ میں سب سے پہلی آیت ہے، اس مناسبت سے ہم یہاں سجدۂ تلاوت کے چند احکام بیان کرتے ہیں:

(1)…آیتِ سجدہ پڑھنے یا سننے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے پڑھنے میں یہ شرط ہے کہ اتنی آواز سے ہو کہ اگر کوئی عذرنہ ہو تو خود سن سکے ، سننے والے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ بِالقصد سنی ہو بلکہ بلا قصد سننے سے بھی سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔ (ہدایہ، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۱ / ۷۸، در مختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲ / ۶۹۵-۶۹۶)

(2)…سجدہ واجب ہونے کے لیے ایک قول کے مطابق پوری آیت پڑھنا ضروری ہے اور ایک قول کے مطابق پوری آیت پڑھنا ضروری نہیں بلکہ وہ لفظ جس میں سجدہ کا مادہ پایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ پہلے یا بعد کا کوئی لفظ ملا کر پڑھنا کافی ہے۔ (رد المحتار علی الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲ / ۶۹۴، تحت قول الدر: ای اکثرہا۔۔۔ الخ)

(3)…اگر اتنی آواز سے آیت پڑھی کہ سن سکتا تھا مگر شور و غل یا بہرے ہونے کی وجہ سے نہ سنی تو سجدہ واجب ہوگیا اور اگر محض ہونٹ ہلے آواز پیدا نہ ہوئی تو واجب نہ ہوا۔ (عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث عشر فی سجود التلاوۃ، ۱ / ۱۳۲ ، ۱۳۳)

(4)…فارسی یا کسی اور زبان میں آیت کا ترجمہ پڑھا تو پڑھنے والے اور سننے والے پر سجدہ واجب ہوگیا۔

سجدۂ تلاوت کی فضیلت:

سجدۂ تلاوت کی فضیلت کے بارے میں حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جب آدمی آیت ِسجدہ پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان ہٹ جاتا ہے اور رو کر کہتا ہے: ہائے میری بربادی ! ابنِ آدم کو سجدہ کا حکم ہوا تو اس نے سجدہ کیا، اس کے لئے جنت ہے اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کیا میرے لیے دوزخ ہے۔‘‘( مسلم، کتاب الایمان، باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ، ص۵۶، الحدیث: ۱۳۳ (۸۱))

سجدۂ تلاوت کا طریقہ:

سجدہ ِ تلاوت کا مَسنون طریقہ یہ ہے کہ کھڑا ہو کر اللہُ اَکْبَرْ کہتا ہوا سجدہ میں جائے اور کم سے کم تین بار سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہے، پھر اللہُ اَکْبَرْ کہتاہوا کھڑا ہو جائے، پہلے پیچھے دونوں بار اللہُ اَکْبَرْ کہنا سنت ہے اور کھڑے ہو کر سجدہ میں جانا اور سجدہ کے بعد کھڑا ہونا یہ دونوں قیام مستحب۔(عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث عشر فی سجود التلاوۃ، ۱ / ۱۳۵، در مختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲ / ۶۹۹-۷۰۰)

یاد رہے کہ سجدۂ تلاوت کے لیے اَللہُ اَکْبَرْ کہتے وقت نہ ہاتھ اٹھانا ہے اور نہ اس میں تشہد ہے نہ سلام۔(تنویر الابصار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲ / ۷۰۰)

نوٹ :سجدۂ تلاوت کے مزید مسائل جاننے کے لئے بہار شریعت حصہ 4سے’’سجدۂ تلاوت کا بیان‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْاَعْرَاف
اَلْاَعْرَاف
  00:00



Download

اَلْاَعْرَاف
اَلْاَعْرَاف
  00:00



Download