Surah Al-Aa'raaf
{وَ اِذْ قِیْلَ لَهُمُ: اور یادکرو جب ان سے فرمایا گیا۔} اس کی تفسیر سورۂ بقرہ آیت نمبر58کے تحت گزر چکی ہے۔
{فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا:تو ان میں سے ظالموں نے بات بدل دی۔} اس کی تفسیر سورۂ بقرہ آیت نمبر 59 کے تحت گزر چکی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہیں حکم تو تھا کہ حِطَّۃُ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں ، حِطَّۃُ توبہ اور اِستغفار کا کلمہ ہے لیکن وہ بجائے اس کے براہ ِتَمَسْخُر حِنْطَۃٌ فِیْ شَعِیْرَۃٍ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔ اس بنا پر ان پر عذاب نازل ہوا اوروہ عذاب طاعون کی وبا تھی جس سے ایک ساعت میں چوبیس ہزار اسرائیلی فوت ہو گئے۔
{وَ سْــٴَـلْهُمْ:اور ان سے پوچھو۔} شانِ نزول:سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ میں رہنے والے یہودیوں کو ان کے کفر پر سرزنش کرتے اور ان سے فرمایا کرتے کہ تم لوگ اپنے باپ دادا کے نقشِ قدم پر ہو کہ انہوں نے ہمیشہ پچھلے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کی ۔ (اور تم میری مخالفت کر رہے ہو۔) اس پر یہودی بولے ’’ہمارے باپ دادا اپنے رب عَزَّوَجَلَّکے فرمانبردار اور اپنے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اطاعت گزار تھے، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ واقعی ان کے باپ دادا اپنے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کرتے رہے ہیں مگر ان کا خیال تھا کہ ان واقعات کی کسی کو خبر نہیں ، اس لئے اپنے باپ دادوں کی معصومیت کے ڈھنڈورے پیٹتے تھے ۔تب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی جس میں ان کے پول کھول دئیے گئے اور وہ لوگ حیران رہ گئے۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۷۱۹)
اس آیت میں خطاب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے کہ آپ اپنے قریب رہنے والے یہودیوں سے سرزنش کے طور پر اس بستی والوں کا حال دریافت فرمائیں۔اس سوال سے مقصود کفار پر یہ ظاہر کرنا تھاکہ سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت اور تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات کا انکار کرنا یہ اُن کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ کفر و معصیت تو ان کا پرانا دستور ہے کہ ان کے آباؤ اَجداد بھی کفر پر قائم رہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۱۵۰)
{عَنِ الْقَرْیَةِ: بستی کا حال۔} اس بستی کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کون سی تھی۔ حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ وہ مصر و مدینہ کے درمیان ایک قریہ ہے۔ ایک قول ہے کہ مدین وطور کے درمیان ایک بستی ہے۔ امام زہری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایاکہ وہ قریہ، طبریۂ شام ہے۔ اور حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے ایک روایت یہ ہے کہ وہ بستی مَدین ہے۔ بعض کے نزدیک وہ بستی اِیلہ ہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۱۵۱، بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۳ / ۶۷، ملتقطاً)
{اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ:جب وہ ہفتے کے بارے میں حد سے بڑھنے لگے ۔} اس آیت اور اس سے بعد والی 3 آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اُس بستی میں رہنے والے بنی اسرائیل کواللہ تعالیٰ نے ہفتے کا دن عبادت کے لیے خاص کرنے اور اس دن تمام دنیاوی مشاغل ترک کرنے کا حکم دیا نیز ان پر ہفتے کے دن شکار حرام فرما دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی آزمائش کا ارادہ فرمایا تو ہوا یوں کہ ہفتے کے دن دریا میں خوب مچھلیا ں آتیں اوریہ لوگ پانی کی سطح پر انہیں دیکھتے تھے، جب اتوار کا دن آتا تو مچھلیا ں نہ آتیں۔ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ تمہیں مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا گیا ہے لہٰذا تم ایسا کرو کہ دریا کے کنارے بڑے بڑے حوض بنالو اور ہفتے کے دن دریا سے ان حوضوں کی طرف نالیاں نکال لو، یوں ہفتے کو مچھلیاں حوض میں آ جائیں گی اور تم اتوار کے دن انہیں پکڑ لینا، چنانچہ ان کے ایک گروہ نے یہ کیا کہ جمعہ کو دریا کے کنارے کنارے بہت سے گڑھے کھودے اور ہفتے کی صبح کو دریا سے ان گڑھوں تک نالیاں بنائیں جن کے ذریعے پانی کے ساتھ آکر مچھلیاں گڑھوں میں قید ہو گئیں اور اتوار کے دن انہیں نکال لیا اور یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے دی کہ ہم نے ہفتے کے دن تو مچھلی پانی سے نہیں نکالی ۔ ایک عرصے تک یہ لوگ اس فعل میں مبتلا رہے ۔ ان کے اس عمل کی وجہ سے اس بستی میں بسنے والے افراد تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔
(1)…ان میں ایک تہائی ایسے لوگ تھے جوہفتے کے دن مچھلی کا شکار کرنے سے باز رہے اور شکار کرنے والوں کو منع کرتے تھے۔
(2)… ایک تہائی ایسے افراد تھے جو خودخاموش رہتے اوردوسروں کو منع نہ کرتے تھے جبکہ منع کرنے والوں سے کہتے تھے کہ ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّہلاک کرنے والا یاانہیں سخت عذاب دینے والا ہے ۔
(3)… اورایک گروہ وہ خطاکار لوگ تھے جنہوں نے حکمِ الٰہی کی مخالفت کی اور ہفتے کے دن شکار کیا، اسے کھایا اور بیچا۔
جب مچھلی کا شکار کرنے والے لوگ اس معصیت سے باز نہ آئے تو منع کرنے والے گروہ نے ان سے کہا کہ’’ ہم تمہارے ساتھ میل برتاؤ نہ رکھیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے گاؤں کو تقسیم کرکے درمیان میں ایک دیوار کھینچ دی۔ منع کرنے والوں کا ایک دروازہ الگ تھا جس سے آتے جاتے تھے اور خطا کاروں کا دروازہ جدا تھا۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان خطا کاروں پر لعنت کی تو ایک روز منع کرنے والوں نے دیکھا کہ خطاکاروں میں سے کوئی باہر نہیں نکلا، تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید آج شراب کے نشہ میں مدہوش ہوگئے ہوں گے، چنانچہ اُنہیں دیکھنے کے لئے دیوار پر چڑھے تو دیکھا کہ وہ بندروں کی صورتوں میں مسخ ہوگئے تھے۔ اب یہ لوگ دروازہ کھول کراندر داخل ہوئے تو وہ بندر اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے اور ان کے پاس آکر اُن کے کپڑے سونگھتے تھے اور یہ لوگ ان بندر ہوجانے والوں کو نہیں پہچانتے تھے۔ اِن لوگوں نے بندر ہوجانے والوں سے کہا:’’ کیا ہم لوگوں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا؟ اُنہوں نے سرکے اشارے سے کہا: ہاں۔ اس کے تین دن بعد وہ سب ہلاک ہوگئے اور منع کرنے والے سلامت رہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے امی ہونے اور پچھلی کتابں پڑھی ہوئی نہ ہونے کے باوجود بھی اِن واقعات کی خبر دینا ایک معجزہ ہے کہ آپ نے یہودیوں کے سامنے ان کے آباء واَجداد کے اعمال اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی وجہ سے ان کا بندر و خنزیر کی شکلوں میں تبدیل ہو جانا سب بیان فرما دیا۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳ و۱۶۶، ۲ / ۱۵۱-۱۵۲)
شرعی احکام باطل کرنے کے لئے حیلہ کرنے والوں کو نصیحت:
اس واقعے میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے کہ جو شرعی احکام کو باطل کرنے اورا نہیں اپنی خواہش کے مطابق ڈھالنے کیلئے طرح طرح کے غیر شرعی حیلوں کا سہارا لیتے ہیں ، انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں ا س کی پاداش میں ان کی شکلیں بھی نہ بگاڑ دی جائیں۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جیسا یہودیوں نے کیا تم ا س طرح نہ کرنا کہ تم اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو طرح طرح کے حیلے کر کے حلال سمجھنے لگو ۔ (در منثور، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۳ / ۵۹۲)
یاد رہے کہ حکمِ شرعی کو باطل کرنے کیلئے حیلہ کرنا حرام ہے جیسا کہ یہاں مذکور ہوا البتہ حکمِ شرعی کو کسی دوسرے شرعی طریقے سے حاصل کرنے کیلئے حیلہ کرنا جائز ہے جیسا کہ قرآنِ پاک میں حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اس طرح کا عمل سورۂ ص آیت44میں مذکور ہے۔ عوامُ الناس کو چاہئے کہ پہلے حیلے سے متعلق شرعی رہنمائی حاصل کریں اس کے بعد حیلہ کریں تاکہ معلومات میں کمی کی وجہ سے گناہ میں پڑنے کا اندیشہ باقی نہ رہے۔
نوٹ: اس واقعے کی بعض تفصیلات سورۂ بقرہ آیت65 میں گزر چکی ہیں۔
{وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ:اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا۔} اس آیت میں تیسرے گروہ کا ذکر ہے کہ جنہوں نے خاموشی اختیار کی تھی۔ اس سے معلو م ہوا کہ یہ لوگ مچھلی کے شکار پر بالکل راضی نہ تھے بلکہ ان سے مُتَنَفِّر تھے جبکہ انہیں سمجھاتے اس لئے نہیں تھے کہ ان کے ماننے کی امید نہ تھی۔ اس سے بظاہر یہ سمجھ آتا ہے کہ یہ لوگ بھی نجات پا گئے تھے کیونکہ جب کسی کے ماننے کی امید نہ ہو تو امر بالمعروف کرنا فرض نہیں رہتا ، ہاں افضل ضرور ہوتا ہے نیز امر بالمعروف فرضِ کفایہ ہے لہٰذا جب ایک گروہ یہ کرہی رہا تھا تو ان پر بِعَیْنِہٖ فرض نہ رہا۔
{كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِىٕیْنَ: دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔} حدیث شریف میں ہے،ــحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ایک شخص نے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا بندر اور خنزیر مَسخ شدہ لوگ ہیں ؟ رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو ہلاک کر کے یا کسی قوم کو عذاب دے کر ا س کی نسل نہیں چلائی اور بندر اور خنزیر تو ان سے پہلے بھی ہوتے تھے۔ (مسلم، کتاب القدر، باب بیان انّ الآجال والارزاق وغیرہا۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۲، الحدیث: ۳۳ (۲۶۶۳)) لہٰذا موجودہ بندر اس قوم کی اولاد میں سے نہیں کیونکہ وہ تو فنا کر دی گئی۔
{وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ:اور جب تمہارے رب نے اعلان کردیا ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی سرکشی، گناہ پر دیدہ دلیری اورا س کی سزا میں مسخ کر کے بندر بنا دینے کا ذکر فرمایا اورا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا ہے کہ قیامت تک یہودیوں کے لئے ذلت اور غلامی مقدر کر دی گئی ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۷، ۵ / ۳۹۳)
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ کے رب عَزَّوَجَلَّنے یہودیوں کے آباء واَجداد کو ان کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی زبان سے یہ خبر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک یہودیوں پر ایسے افراد مُسلَّط کرتا رہے گا جو انہیں ذلت اور غلامی کا مزہ چکھاتے رہیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر بخت نصر، سنجاریب، اور رومی عیسائی بادشاہوں کو مسلط فرمایا جو اپنے اپنے زمانوں میں یہودیوں کو سخت ایذائیں پہنچاتے رہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۷، ۲ / ۱۵۲) پھر مسلمان سَلاطین ان پر مقرر ہوئے، پھر انگریزوں کی غلامی میں رہے،قریب کے دور میں جرمنی میں ہٹلر نے انہیں چن چن کر قتل کیا اور اپنے ملک سے نکال دیا۔ یہودیوں کی حرکتیں ہی ایسی ہیں کہ کوئی سلطنت انہیں اپنے ملک میں رکھنے پر آمادہ نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں بھی کسی سلطنت نے اجتماعی طور پر انہیں اپنے ملک میں نہ رکھا بلکہ انہیں فلسطین میں آباد کیا اور یہیں سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کی بڑی تباہی کا آغاز ہوگا۔
{وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا:اور ہم نے انہیں زمین میں مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے یہودیوں کی جمعیت کو مُنْتَشِر کر دیا اور ان کا شیرازہ بکھیر دیا اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، موجودہ یہودیوں میں کچھ نیک بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور رسُول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ا یمان لائے اور دین پر ثابت رہے اور ان کے علاوہ کچھ ایسے ہیں کہجنہوں نے نافرمانی کی ، کفر کیا اور دین کو بدل ڈالا ۔ اور ہم نے انہیں خوشحالیوں اور بدحالیوں سے آزمایا اس طرح کہ کبھی ان پر اَرزانی ، تندرستی اور دنیوی عزت کے دروازے کھول دئیے اور کبھی ان پر قحط ، بیماریوں ، مصیبتوں اور ذلتوں کو مُسلَّط کر دیا تا کہ وہ اپنی نافرمانیوں سے لوٹ آئیں کیونکہ بعض تو مصیبت میں رب عَزَّوَجَلَّکی طرف رجوع کر تے ہیں اور بعض راحتوں میں۔
{ فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ:پھر ان کے بعد ایسے برے جانشین آئے۔} اس آیت میں بنی اسرائیل کے ناخلف جانشینوں کے چند عیب بیان کئے گئے ہیں :
(1)… وہ رشوت لے کر توریت کے احکام بدل دیتے۔
(2)… نافرمانی کے باوجود یہ کہتے کہ ہمارا یہ گناہ بخش دیا جائے گا ا س پر ہماری پکڑ نہ ہو گی۔
(3)… اس جرم پر قائم رہے کہ جب رشوت ملی اسے لے کر شرعی حکم بدل دیا۔
(4)…یہ سارے جرم نادانی میں نہیں بلکہ دیدہ و دانستہ کرتے رہے۔
نافرمانیوں کے باوجود بخشش کی تمنا رکھنا کیسا ہے؟
اس آیت میں یہودیوں کی ایک سرکشی یہ بیان ہوئی کہ ’’ نافرمانیوں کے باوجود وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اورا س پر ان کی پکڑ نہ ہو گی‘‘ یہودیوں کی ا س سر کشی کی بنیاد یہ تھی کہ یہ لوگ اس زعم میں مبتلا تھے کہ ہم انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد ہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے ہیں اس لئے ان گناہوں پر ہم سے کچھ مُؤاخذہ نہ ہوگا۔ فی زمانہ بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں کہ جو اپنی بد اعمالیوں کے باوجود خود کوآخرت کے اجرو ثواب کا حق دار سمجھتے ہیں یونہی بعض سمجھدار قسم کے لوگ شیطان کے اس دھوکے میں پھنس کر گناہوں میں پڑے رہتے ہیں کہ ہم اگرچہ گناہگار ہیں لیکن فلاں کامل پیر صاحب کے مرید ہیں لہٰذا ہم بخشے جائیں گے اور گناہوں پرہماری پکڑ نہ ہو گی۔ ایسے حضرات خود ہی غور کر لیں کہ ان کا یہ طرزِ عمل کن کی عکاسی کر رہا ہے، شائد یہ وہی دور ہے کہ جس کی خبر اس روایت میں دی گئی ہے، حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’ عنقریب لوگوں کے سینوں میں قرآن اس طرح بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑا بوسیدہ ہو کر جھڑنے لگتا ہے، وہ کسی شوق اور لذت کے بغیر قرآنِ پاک کی تلاوت کریں گے، ان کے اعمال صرف طمع اور حرص ہوں گے۔وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف کی وجہ سے گناہوں میں کمی نہیں کریں گے۔ وہ برے کام کرنے کے باوجود تبلیغ کریں گے اور کہیں گے کہ عنقریب ہماری بخشش کر دی جائے گی کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔ (دارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فی تعاہد القرآن، ۲ / ۵۳۱، الحدیث: ۳۳۴۶)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں’’ہر وہ تَوَقُّع جو تو بہ یا عبادت میں سُرُور کی رغبت پیدا کرے وہ رَجاء (یعنی امید) ہے اور ہر وہ امید جو عبادت میں فُتور اور باطل کی طرف جھکاؤ پیدا کرے تو وہ دھوکہ ہے جیسے کسی شخص کے دل میں خیال پیدا ہو کہ وہ گناہ کو ترک کردے اور عمل میں مشغول ہوجائے اور شیطان اس سے کہے کہ تم اپنے آپ کو کیوں عذاب اور تکلیف میں ڈالتے ہو، تمہارا رب کریم ہے، غفور ہے، رحیم ہے اور وہ (اس وجہ سے) توبہ اور عبادت میں سستی کرنے لگے تو ایسا شخص دھوکے میں مبتلا ہے، اس صورت میں بندے پر لازم ہے کہ وہ نیک اعمال کرے اور اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے بہت بڑے عذاب سے ڈرائے اور کہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہونے کے ساتھ ساتھ سخت عذاب دینے والا بھی ہے، وہ اگرچہ کریم ہے لیکن وہ کفار کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈالے گا حالانکہ ان کا کفر اس کاکچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا بلکہ وہ عذاب، مشقت، بیماریا ں ، فقر اور بھوک وغیرہ جس طرح دنیا میں بندوں پر مُسلَّط کرتا ہے اسی طرح وہ اِن چیزوں کو اُن سے دور بھی کرسکتا ہے تو جس کا اپنے بندوں کے ساتھ یہ طریقہ ہے اور اس نے مجھے اپنے عذاب سے ڈرایا ہے تو میں اس سے کیسے نہ ڈروں اور میں کس طرح اس سے دھوکے میں رہوں۔
پس خوف اور امید دوراہنما ہیں جو لوگوں کو عمل کی ترغیب دیتے ہیں اور جو بات عمل کی رغبت پیدا نہ کرے وہ تمنا اور دھوکہ ہے اور اکثر لوگ جو امید لگائے بیٹھے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ عمل میں کوتاہی کرتے ہیں ، دنیا کی طرف متوجہ رہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ سے منہ پھیر تے ہیں اور آخرت کے لئے عمل نہیں کرتے تووہ دھو کے میں ہیں۔ نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس بات کی خبردی اور بیان فرمایا کہ’’ عنقریب اس امت کے پچھلے لوگوں کے دلوں پر دھوکہ غالب ہوجائے گا۔ آپ نے جو فرمایا وہ ہو کررہا ،جیسا کہ پہلے زمانے کے لوگ دن رات عبادت اور نیک اعمال کرتے رہتے تھے اس کے باوجود اُن کے دلوں میں یہ خوف رہتا تھا کہ انہوں نے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے، وہ رات دن عبادت میں گزارنے کے باوجود اپنے نفسوں کے بارے میں خوفزدہ رہتے تھے، وہ بہت زیادہ تقویٰ اختیار کرنے، خواہشات اور شُبہات سے بچنے کے باوجود تنہائی میں اپنے نفسوں کے لئے روتے تھے۔ لیکن اب حالت یہ ہے کہ تم لوگوں کو مطمئن، خوش اور بے خوف دیکھو گے حالانکہ وہ گناہوں پر اوندھے گرتے ہیں ، دنیا میں پوری توجہ رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے منہ پھیر رکھا ہے،ان کا خیال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر کامل یقین رکھتے ہیں ، اس کے عفو و درگزر اور مغفرت کی امید رکھتے ہیں گویا ان کاگمان یہ ہے کہ انہوں نے جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی معرفت حاصل کی ہے اس طرح انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور پہلے بزرگوں کو حاصل نہ تھی، اگر یہ بات (یعنی عَفْو و مغفرت) محض تمنا اور آسانی سے حاصل ہو جاتی تو (نیک اعمال کے باوجود) ان بزرگوں کے رونے، خوف کھانے اور غمگین ہونے کا کیا مطلب تھا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۳-۴۷۴)
اس کے علاوہ ان علماء کو بھی اپنے طرزِ عمل پر غور کی حاجت ہے کہ جو خود تو عوام میں مُقتداء کی حیثیت رکھتے ہیں اور اپنی اولاد کی اچھی دینی تعلیم وتربیت سے غفلت کا شکار ہیں ، جب ان کی اولاد جانشینی کی مسند پر جلوہ افروز ہو گی تو کہیں یہ بھی انہی خرابیوں کا شکار نہ ہو جائے جن کا بنی اسرائیل کے جانشین ہوئے۔
{وَ الَّذِیْنَ یُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ:اور وہ جو کتاب کو مضبوطی سے تھامتے ہیں۔} کتاب کو مضبوطی سے تھامنے سے مراد اس کے مطابق عمل کرنا، اس کے تمام احکام کو ماننا اور اس میں کسی طرح کی تبدیلی روا ،نہ رکھنا ہے، اور اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ یہ آیت اہلِ کتاب میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ ایسے اصحاب کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے پہلی کتاب کی اتباع کی اور اس میں کوئی تحریف کی نہ اس کے مضامین کو چھپایا اور اس کتاب کے اتباع کی بدولت اُنہیں قرآنِ پاک پر ا یمان نصیب ہوا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۰، ۲ / ۱۵۴)
{وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ:اور انہوں نے نماز قائم کررکھی ہے۔} نماز اگرچہ کتاب کو مضبوطی سے تھامنے میں داخل ہے البتہ اسے جداگانہ ذکر کرنے سے مقصود ا س کی عظمت کا اظہار اور یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بعد سب سے اہم عبادت نماز ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۰، ۲ / ۱۵۴)
نماز کی اہمیت و فضیلت:
کثیر احادیث میں نماز پڑھنے کی بہت اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے، ترغیب کے لئے ان میں سے 3 احادیث درجِ ذیل ہیں:
(1)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک صاحب نے عرض کی، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اسلام میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا ’’وقت میں نماز پڑھنا اور جس نے نماز چھوڑی اس کا کوئی دین نہیں ، نماز دین کا ستون ہے۔ (شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۹، الحدیث: ۲۸۰۷)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’سب سے پہلے قیامت کے دن بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر یہ درست ہوئی تو باقی اعمال بھی ٹھیک رہیں گے اور یہ بگڑی تو سبھی بگڑے۔( معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، ۳ / ۳۲، الحدیث: ۳۷۸۲)
(3)…حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کیں ، جس نے اچھی طرح وضو کیا اور وقت میں پڑھیں اور رکوع و خُشوع کو پورا کیا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر عہد کر لیا ہے کہ اسے بخش دے ،اور جس نے نہ کیا اس کے لیے عہد نہیں ، چاہے بخش دے، چاہے عذاب کرے (ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب المحافظۃ علی وقت الصلوات، ۱ / ۱۸۶، الحدیث: ۴۲۵)۔ ([1])
قرآنِ مجید کے احکام پر عمل کے معاملے میں ہماری حالت:
اس آیت میں کتاب کو مضبوطی سے تھامنے والوں کی فضیلت بیان ہوئی اسے سامنے رکھتے ہوئے قرآنِ مجید کے احکام پر عمل کے سلسلے میں ہم اپنے اَسلاف کے حال اور اپنے حال کا مُوازنہ کریں تو موجودہ دور میں مسلمانوں کی مجموعی صورتِ حال انتہائی تشویشناک نظر آتی ہے کہ فی زمانہ مسلمان قرآنِ مجید پر عمل سے انتہائی دور ہو چکے اور دنیا کی نعمتوں اور رنگینیوں پر مطمئن بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے 70 بدری صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو دیکھا وہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں سے (تقویٰ و وَرع کی وجہ سے) اس قدر اِجتناب کرتے تھے جس قدر تم حرام چیزوں سے پرہیز نہیں کرتے۔ جس قدر تم فراخی کی حالت پر خوش ہوتے ہو ا س سے زیادہ وہ آزمائشوں پر خوش ہوتے تھے۔اگر تم انہیں دیکھ لیتے تو کہتے کہ یہ مجنون ہیں اور اگر وہ تمہارے بہترین لوگوں کو دیکھتے تو کہتے کہ ان لوگوں کا (آخرت میں )کوئی حصہ نہیں اور اگروہ تمہارے برے لوگوں کو دیکھتے تو کہتے:ان لوگوں کا حساب کے دن پر ایمان نہیں۔ اُن میں سے کسی کے سامنے حلال مال پیش کیا جاتا تو وہ یہ کہہ کرلینے سے انکار کردیتے کہ مجھے اپنا دل خراب ہو جانے کا ڈر ہے (جبکہ تم حرام مال لینے میں بھی ذراپرواہ نہیں کرتے) ۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفضیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۹۷)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم اور قرآنِ کریم پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
[1] …نماز سے متعلق ضروری احکام اورمسائل جاننے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب’’نماز کے احکام‘‘اور’’اسلامی بہنوں کی نماز‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ اِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ:اور یاد کرو، جب ہم نے پہاڑ ان کے اوپر بلند کردیا۔} جب بنی اسرائیل نے تکالیفِ شاقّہ کی وجہ سے توریت کے احکام قبول کرنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامنے ایک پہاڑ جس کی مقدار ان کے لشکر کے برابر تھی یعنی تین میل لمبا اور تین میل چوڑا پہاڑ اُٹھا کر سائبان کی طرح اُن کے سروں کے قریب کردیا اور اُن سے کہا گیا کہ توریت کے احکام قبول کرو ورنہ یہ تم پر گرا دیا جائے گا۔ پہاڑ کو سروں پر دیکھ کر سب کے سب سجدے میں گر گئے۔مگر اس طرح کہ بایاں رخسارا ورابرو تو انہوں نے سجدے میں رکھ دی ا ور دائیں آنکھ سے پہاڑ کو دیکھتے رہے کہ کہیں گر ہی نہ پڑے، چنانچہ اب تک یہودیوں کے سجدے کی یہی شان ہے ۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۱، ۲ / ۷۲۳)
قرآنِ کریم کا آہستہ آہستہ نزول اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کا 23 سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ اتر نا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خاص رحمت ہے کہ اس طرح مسلمانوں کو تمام احکامات پر عمل آسان ہو گیا۔ آزاد طبیعت ایک دم سارے احکام کی پابندی میں دِقت محسوس کرتی ہے ۔
{وَ اِذْ:اور اے محبوب! یاد کرو ۔} اس آیت میں فرمایا گیا کہ ’’اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یاد کرو جب تمہارے رب نے اولادِ آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی‘‘ جبکہ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پشت سے ان کی ذُرِّیَّت نکالی۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الاعراف ، ۵۱:۵ ، الحدیث : ۳۰۸۶)
آیت و حدیث دونوں پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذریت نکالنا اسی ترتیب کے ساتھ ہواجس طرح دنیا میں انہوں نے ایک دوسرے سے پیدا ہونا تھا یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پشت سے ان کی اولاد اور اولاد کی پشت سے ان کی اولاد اسی طرح قیامت تک پیداہونے والے لوگ ۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کیلئے رَبوبیت اور وحدانیت کے دلائل قائم فرما کر اور عقل دے کر اُن سے اپنی ربوبیت کی شہادت طلب فرمائی تو سب نے کہا:کیوں نہیں ، ہم نے اپنے اوپر گواہی دی اور تیری ربوبیت اور وحدانیت کا اقرار کیا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ۲ / ۱۵۶)
{اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ:کہ تم قیامت کے دن کہو۔} اس آیت اور بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرنے والو! یہ گواہ بنانا اس لئے تھا تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! ہم جو شرک و کفر میں مبتلا رہے ہیں اس میں ہمارا قصورنہیں ،کیونکہ ہمیں خبر تھی ہی نہیں کہ تو ہی ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ہے اور تیرے سوا کوئی بھی رب نہیں اور اے ربِّ کریم !تو بے خبر کو نہیں پکڑتا ،لہٰذا ہمیں چھوڑ دے اور عذاب نہ دے اور نہ ہی یہ کہہ سکو کہ ’’ہم کفر و شرک میں اس لئے بے قصور ہیں کہ ہمارے باپ دادا مشرک تھے ہم تو ان کی وجہ سے شرک میں مبتلاہوئے، قصور ان کاہے نہ کہ ہمارا۔ انہیں یہ باتیں کہنے کا حق اس لئے نہ ہوگاکہ جب اُن سے عہدِ میثاق لے لیا گیا اور یہ بات ان کے دلوں کی تہہ میں رکھ دی گئی اوراس عہد کی یاددہانی کیلئے اُن کے پاس رسول آئے اور انہوں نے اس عہد کو یاد دلایا، کتابیں اتریں اور ان کے سامنے حق بیان کردیا گیا تو اب یہ عذر کرنے کا ان کے پاس موقع نہ رہا۔(بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ۲ / ۱۷۸)
سورہِ اعراف کی آیت نمبر172اور173سے معلوم ہونے و الے احکام:
ان آیات سے 3احکام معلوم ہوئے
(1)… عمومی طور پرشرعی احکام میں بے خبری معتبر نہیں ، کوئی یہ عذر پیش کر کے کہ مجھے معلوم نہیں تھا اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں چھوٹ سکتا۔ ہر شخص پر فرض ہے کہ ضرورت کے مطابق دینی مسائل سیکھے ۔
(2)… عقائد میں باپ دادوں کی تقلید درست نہیں ، اللہتعالیٰ نے عقل دی ہے لہٰذا خود تحقیق کر کے درست عقیدے اختیار کرنے چاہئیں۔
(3)… گناہ کی بنیاد ڈالنااگرچہ سخت تر جرم ہے مگر بعد میں دوسرے لوگ یہ گناہ کرنے والے بھی مجرم ہوں گے ،وہ یہ عذر نہیں کر سکتے کہ ہم چونکہ اس گناہ کو ایجاد کرنے والے نہیں اس لئے قصور وار بھی نہیں۔
{وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ:اور ہم اسی طرح تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح آپ کی قوم کے سامنے ہم نے اس سورت کی آیات تفصیل سے بیان کی ہیں ہم ان کے علاوہ آیات بھی اسی طرح تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ بندے تَدَبُّرو تفکر کرکے حق و ا یمان قبول کریں اور اس لیے تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں تا کہ وہ شرک و کفر سے توحید و ا یمان کی طرف رجوع کر لیں اور صاحبِ معجزات نبی کے بتانے سے اپنے عہدِ میثاق کو یاد کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ (تفسیر طبری، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۴، ۶ / ۱۱۸، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۴، ۲ / ۱۵۸، ملتقطاً)
چونکہ قرآنِ کریم تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے آیا ہے اور لوگوں میں سے بعض ڈر سے ، بعض لالچ سے اور بعض دلائل سے مانتے ہیں ، اس لئے قرآنِ کریم میں ہر طرح کی آیات مذکور ہیں کہ جو جس چیز سے مان سکے مان لے۔
{وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا:اور اے محبوب!انہیں اس آدمی کا حال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیات عطا فرمائیں۔} شانِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن مسعود اور امام مجاہد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم فرماتے ہیں ’’یہ آیت بلعم بن باعوراء کے بارے میں نازل ہوئی۔ (تفسیرکبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۵ / ۴۰۳)
حضر ت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں یہ آیت امیہ بن ابو صلت کے بارے میں نازل ہوئی۔( سنن الکبری للنسائی، کتاب التفسیر، سورۃ الاعراف، ۶ / ۳۴۸، الحدیث: ۱۱۱۹۴)
حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں یہ آیت ابو عامر بن صیفی کے بارے میں نازل ہوئی۔ (تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۴ / ۲۲۹، الجزء السابع)
بلعم بن باعوراء کا واقعہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جَبّارین سے جنگ کا ارادہ کیا اور سرزمینِ شام میں نزول فرمایا تو بلعم بن باعوراء کی قوم اس کے پاس آئی اور اس سے کہنے لگی کہ’’ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت تیز مزاج ہیں اور اُن کے ساتھ بہت بڑا لشکر ہے ،وہ یہاں ا س لئے آئے ہیں تاکہ ہم سے جنگ کریں اور ہمیں ہمارے شہروں سے نکال کر ہماری بجائے بنی اسرائیل کو اس سرزمین میں آباد کریں ، تیرے پاس اسمِ اعظم ہے اور تم ایسے شخص ہو کہ تمہاری ہر دعا قبول ہوتی ہے، تم نکلو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ اُنہیں یہاں سے بھگا دے ۔قوم کی بات سن کربلعم نے کہا :افسوس ہے تم پر! حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں ، اُن کے ساتھ فرشتے اور ا یمان دار لوگ ہیں ،اس لئے میں اُن کے خلاف کیسے بد دعا کر سکتا ہوں ! مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم ملا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر میں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خلاف ایسا کیا تو میری دنیا و آخرت برباد ہوجائے گی ۔ قوم نے جب گریہ و زاری کے ساتھ مسلسل اصرار کیا تو بلعم نے کہا :اچھا! میں پہلے اپنے رب کی مرضی معلوم کرلوں۔ بلعم کا یہی طریقہ تھا کہ جب کبھی کوئی دعا کرتا توپہلے مرضی ٔالٰہی معلوم کرلیتا اور خواب میں اس کا جواب مل جاتا، چنانچہ اس مرتبہ اس کو یہ جواب ملا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور اُن کے ساتھیوں کے خلاف دعا نہ کرنا۔ چنانچہ اُس نے قوم سے کہہ دیا کہ ’’میں نے اپنے رب سے اجازت چاہی تھی مگر میرے رب نے اُن کے خلاف بد دعا کرنے کی ممانعت فرما دی ہے۔ پھراس کی قوم نے اسے ہدیئے اور نذرانے دیئے جنہیں اُس نے قبول کر لیا ۔اس کے بعد قوم نے دوبارہ اس سے بددعا کرنے کی درخواست کی تو دوسری مرتبہ بلعم نے رب تبارک وتعالیٰ سے اجازت چاہی۔ اب کی بار اس کا کچھ جواب نہ ملا تو اُس نے قوم سے کہہ دیا کہ’’ مجھے اس مرتبہ کچھ جواب ہی نہیں ملا۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ ’’اگر اللہ تعالیٰ کو منظور نہ ہوتا تو وہ پہلے کی طرح دوبارہ بھی صاف منع فرما دیتا، پھر قوم نے اور بھی زیادہ اصرار کیا حتّٰی کہ وہ ان کی باتوں میں آ گیا۔ چنانچہ بلعم بن باعوراء اپنی گدھی پر سوار ہو کر ایک پہاڑ کی طرف روانہ ہوا۔ گدھی نے اسے کئی مرتبہ گرایا اور وہ پھر سوار ہو جاتا حتّٰی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے گدھی نے اس سے کلام کیا اور کہا: افسوس! اے بلعم! کہاں جا رہے ہو؟ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ فرشتے مجھے جانے سے روک رہے ہیں۔ (شرم کرو) کیا تم اللہ تعالیٰ کے نبی اور فرشتوں کے خلاف بد دعا کرنے جا رہے ہو؟بلعم پھر بھی باز نہ آیا اور آخر کار وہ بددعا کرنے کے لئے اپنی قوم کے ساتھ پہاڑ پر چڑھا۔ اب بلعم جو بددعا کرتا اللہتعالیٰ اس کی زبان کو اس کی قوم کی طرف پھیر دیتا تھا اور اپنی قوم کے لئے جو دعائے خیر کرتا تھا توبجائے قوم کے بنی اسرائیل کا نام اُس کی زبان پر آتا تھا۔ یہ دیکھ کراس کی قوم نے کہا: اے بلعم!تو یہ کیا کررہا ہے؟ بنی اسرائیل کیلئے دعا اور ہمارے لئے بددعا کیو ں کر رہا ہے؟ بلعم نے کہا:’’ یہ میرے اختیار کی بات نہیں ،میری زبان میرے قبضہ میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت مجھ پر غالب آ گئی ہے۔ اتنا کہنے کے بعد اس کی زبان نکل کر اس کے سینے پر لٹک گئی ۔ اس نے اپنی قوم سے کہا :میری تو دنیا و آخرت دونوں برباد ہوگئیں ،اب میں تمہیں ان کے خلاف ایک تدبیر بتاتا ہوں ’’تم حسین و جمیل عورتوں کو بنا سنوار کر ان کے لشکر میں بھیج دو، اگر ان میں سے ایک شخص نے بھی بدکاری کر لی تو تمہارا کام بن جائے گا کیونکہ جو قوم زنا کرے اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہوتا ہے اور اسے کامیاب نہیں ہونے دیتا، چنانچہ بلعم کی قوم نے اسی طرح کیا، جب عورتیں بن سنور کر لشکر میں پہنچیں تو ایک کنعانی عورت بنی اسرائیل کے ایک سردار کے پا س سے گزری تو وہ اپنے حسن و جمال کی وجہ سے اسے پسند آ گئی۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے منع کرنے کے باوجود اس سردار نے اس عورت کے ساتھ بدکاری کی، اس کی پاداش میں اسی وقت بنی اسرائیل پر طاعون مُسلَّط کر دیا گیا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مُشیر اس وقت وہاں موجود نہ تھا جب وہ آیا تو اس نے بدکاری کا قصہ معلوم ہونے کے بعد مردوعورت دونوں کو قتل کر دیا۔ تب طاعون کا عذاب ان سے اٹھا لیا گیا ، لیکن اس دوران ستر ہزار اسرائیلی طاعون سے ہلاک ہو چکے تھے۔اس آیت میں اس کا بیان ہے۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۲ / ۱۷۹-۱۸۰)
{وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا:اوراگر ہم چاہتے تو آیتوں کے سبب اسے بلند مرتبہ کردیتے۔} یعنی اگر ہم چاہتے تو نافرمانی کرنے سے پہلے ہی اسے روک دیتے پھران آیات پر عمل کی وجہ سے اسے بلند مرتبہ عطا فرما کر اَبرار کی منازل میں پہنچا دیتے ، لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہو گیا اور اس نے دنیا اور اس کی لذتوں کو آخرت اور اس کی نعمتوں پر ترجیح دینے میں اپنی خواہش کی پیروی کی۔ (قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ۴ / ۲۳۰، الجزء السابع، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ص۳۹۵، ملتقطاً)
لالچی اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والے علماء کے لئے نصیحت:
اس آیت میں بلعم بن باعوراء کا حال بیان ہوا ،یہ شخص فضل و کمال کی اس منزل پر فائز تھا کہ گزشتہ کتابوں کا عالم تھا، اللہتعالیٰ کا اسمِ اعظم اسے معلوم تھا، جو دعا مانگتا وہ قبول ہوتی تھی، اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے عرش کو دیکھ لیتا تھا، بارہ ہزار طلباء اس کے درس میں شریک ہو کر اس کی باتیں لکھا کرتے تھے۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۲ / ۷۲۷.)
فضل و کمال کاا تنا بڑا مرتبہ پانے والا شخص جب اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا، دنیا کے مال اور اس کی نعمتوں کی طرف راغب ہو گیا، آخرت اور اس کی نعمتوں کو پسِ پشت ڈال دیا تو انجامِ کار جو کچھ اسے عطا ہوا تھا سب چھین لیا گیا،اس کا ایمان برباد ہو گیا اور دنیا و آخرت میں خائب و خاسِر ہوا۔ اس واقعے میں ان علماء کے لئے بڑی نصیحت ہے کہ جو اپنے علم کے ذریعے (یا اپنے علم کے باوجود) اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے اور دنیا کا مال اور اس کی نعمتیں طلب کرتے ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ۲ / ۱۶۰)
یاد رہے کہ مال اور مرتبے کی حرص دین کے لئے انتہائی نقصان دِہ ہے اور قلبی لالچ کی وجہ سے لئے گئے مال میں برکت نہیں دی جاتی ،چنانچہ حضرت کعب بن مالک انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: دو بھوکے بھیڑئے بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور مرتبے کی حرص کرنے والا اپنے دین کیلئے نقصان دہ ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۴۳-باب، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۳۸۳)
اور حضرت حکیم بن حزام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھ سے ارشاد فرمایا:’’ اے حکیم! یہ مال تروتازہ اور میٹھا ہے، جو اسے اچھی نیت سے لے تو اس میں اسے برکت دی جاتی ہے اور جو اسے قلبی لالچ سے لے گا تو اس میں ا سے برکت نہیں دی جاتی اور وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے جو کھائے اور شکم سیر نہ ہو اور (یاد رکھو) اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ہذا المال خضرۃ حلوۃ، ۴ / ۲۳۰، الحدیث: ۶۴۴۱)
{فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِ:تو اس کا حال کتے کی طرح ہے۔} اس آیت میں دنیا کے مال و متاع کی وجہ سے دین کے احکام پسِ پشت ڈالنے والے عالم کو کتے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ کتا ایک ذلیل جانور ہے اور ذلیل تر کتا وہ ہے جو تھکاوٹ، شدت کی گرمی اور پیاس ہونے یا نہ ہونے کے باوجود ہر وقت زبان باہر نکال کر ہانپتا رہتا ہو۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ علمِ دین کی عزت و کرامت سے سرفراز فرمائے اور اسے لوگوں کے مال سے بے نیاز کر دے ، پھر وہ کسی حاجت و ضرورت کے بغیر صرف اپنی قلبی خساست اور کمینہ پن کی وجہ سے دین کے واضح احکام سے اعراض کر کے دنیا کے مال دولت اور منصب ومرتبے کی طرف جھکے اور اس خبیث عمل پر قائم رہے تو وہ ہانپنے والے کتے کی طرح ہے کہ ہر وقت ہانپنے والا کتا کسی حاجت کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی فطرت کی وجہ سے ہانپتا رہتا ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ۵ / ۴۰۵.)
درباری علماء کے لئے عبرت:
اس آیت میں ان درباری علماء کیلئے بڑی عبرت ہے جو منصب و مرتبے، مُراعات و وظائف کے حصول کی خاطر حکام کی طبیعت کے مطابق فتوے اور ان کے موافق بیان دیتے ہیں۔ اگر یہ فتوے قرآن و حدیث کی صریح نصوص سے ٹکراتے ہوں تو انہیں ڈر جانا چاہئے کہ کہیں ان کا انجام بھی بلعم کی طرح نہ ہو جائے۔ آیت سے معلوم ہوا کہ نبی کا گستاخ عالم اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتے کی طرح ہے کہ نہ دنیا میں عزت نصیب ہو اور نہ آخرت میں کیونکہ بلعماللہ عَزَّوَجَلَّ کا منکر نہ تھا ، وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مخالف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسے کتے کی بدترین حالت سے تشبیہ دی ۔
{مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ:جسے اللہ ہدایت دے ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہدایت اور گمراہی دونوں کو پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جبکہ ان میں سے کسی کو اختیار کرنا بندے کی طرف سے ہے ،لہٰذا بندہ اگر ہدایت اختیار کرتا ہے تو اللہتعالیٰ اس میں ہدایت پیدا فرما دیتا ہے اور اگر وہ گمراہی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں گمراہی پیدا فرما دیتا ہے۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۸، ۳ / ۲۷۹)
}وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ:اور بیشک ہم نے جہنم کے لیے پیدا کئے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ بہت سے جِنّات اور انسانوں کا انجام جہنم میں داخلہ ہوگا۔ جنوں اور انسانوں کو پیدا کرنے کا اصل مقصد تواللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت ہے جیسا کہ اِس آیت میں ہے :
’’ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘ (الذاریات:۵۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔
لیکن ان میں سے بہت کا انجامِ کار جہنم ہے۔اس آیت کے لفظ ’’ لِجَہَنَّمَ‘‘ کی ابتداء میں مذکور لام’’ لامِ عاقبت‘‘ ہے۔ عربی سے واقف حضرات اسے آسانی سے سمجھ لیں گے۔
{لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا: ان کے ایسے دل ہیں جن کے ذریعے وہ سمجھتے نہیں۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے ہولناک انجام کی وجہ بیان فرمائی کہ یہ جہنم کا ایندھن اس لئے بنے کہ ان کے ایسے دل ہیں جن کے ذریعے وہ حق سے اِعراض کرکے آیاتِ اِلٰہیہ میں تَدَبُّر کرنے سے محروم ہوگئے حالانکہ یہی دل کا خاص کام تھا۔ ان کی ایسی آنکھیں ہیں کہ جن کے ساتھ وہ حق و ہدایت کا راستہ، اللہتعالیٰ کی روشن نشانیاں اور توحید کے دلائل نہیں دیکھتے۔ ان کے ایسے کان ہیں جن کے ذریعے وہ قرآن کی آیات اور اس کی نصیحتیں قبول کرنے کیلئے نہیں سنتے اور قلب و حواس رکھنے کے باوجود وہ اُمورِ ِدین میں اُن سے نفع نہیں اٹھاتے لہٰذا یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۲ / ۱۶۲)
کافروں کو جانوروں سے بد تر فرمائے جانے کی وجوہات:
کفار کو جانوروں سے بد تر فرمانے کی متعدد وُجوہات ہیں :
(1)…جانوروں میں اللہ تعالیٰ کی آیات سمجھنے، دیکھنے اور سننے کی قوت ہی نہیں لہٰذا اگر وہ نہ سمجھیں تو معذور ہیں لیکن کفار کے اعضا میں یہ قوت ہے، پھر بھی وہ اس سے کام نہیں لیتے لہٰذا وہ جانوروں سے بد تر ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۲ / ۱۶۲)
(2)…چوپایہ بھی اپنے نفع کی طرف بڑھتا ہے اور ضَرر سے بچتا اور اس سے پیچھے ہٹتا ہے لیکن کافر جہنم کی راہ پر چل کر اپنا ضرر اختیار کرتا ہے تو اس سے بدتر ہوا۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ص۳۹۶)
(3)…جانور اپنے مالک کے کہنے پر چلتے ہیں جبکہ کافر نافرمان ہیں کہ اپنے مالک ِ حقیقی خداوند ِ قُدوس کے احکام کی مخالفت کرتے ہیں ا س لئے جانوروں سے بد تر ہیں۔ امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’آدمی روحانی ، شَہوانی، سَماوی، اَرضی ہے جب اس کی روح شہوت پر غالب ہوجاتی ہے تو ملائکہ سے فائق ہوجاتا ہے اور جب شہوات روح پر غلبہ پاجاتی ہیں تو زمین کے جانوروں سے بدتر ہوجاتا ہے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ص۳۹۶)
{وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى:اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں۔} شانِ نزول: ابوجہل نے کہا تھا کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اور ان کے اصحاب (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ )کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ ایک پروردگار کی عبادت کرتے ہیں پھر وہ اللہ اور رحمٰن دو کو کیوں پکارتے ہیں ؟ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۰، ۲ / ۱۶۲)
اور اس جاہل بے خِرَد کو بتایا گیا کہ معبود تو ایک ہی ہے نام اس کے بہت ہیں۔
اَحادیث میں اسماءِ حسنیٰ کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ترغیب کے لئے دو احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں یعنی ایک کم سو، جس نے انہیں یاد کر لیا وہ جنت میں داخل ہوا۔ (بخاری، کتاب الشروط، باب ما یجوز من الاشتراط والثّنیا فی الاقرار۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۲۹، الحدیث: ۲۷۳۶)
حضرت علامہ یحیٰ بن شرف نووی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اسمائے الہٰیہ ننانوے میں مُنْحَصِر نہیں ہیں ، حدیث کا مقصود صرف یہ ہے کہ اتنے ناموں کے یاد کرنے سے انسان جنتی ہو جاتا ہے۔ (نووی علی المسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ۔۔۔ الخ، باب فی اسماء اللہ تعالٰی وفضل من احصاہا، ۹ / ۵، الجزء السابع عشر)
(2)…ایک روایت میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جس نے ان کے ذریعے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کوقبول فرمائے گا۔ (جامع صغیر، حرف الہمزۃ، ص۱۴۳، الحدیث: ۲۳۷۰)
اللہ تعالیٰ کے ننانوے اَسماء :
حدیثِ پاک میں اللہ تعالیٰ کے یہ ننانوے اسماء بیان کئے گئے ہیں : ’’ہُوَ اللہُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ الْخَالِقُ الْبَارِءُ الْمُصَوِّرُ الْغَفَّارُ الْقَہَّارُ الْوَہَّابُ الرَّزَّاقُ الْفَتَّاحُ الْعَلِیمُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الْخَافِضُ الرَّافِعُ الْمُعِزُّ الْمُذِلُّ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ الْحَکَمُ الْعَدْلُ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ الْحَلِیْمُ الْعَظِیْمُ الْغَفُوْرُ الشَّکُوْرُ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ الْحَفِیْظُ الْمُقِیْتُ الْحَسِیْبُ الْجَلِیْلُ الْکَرِیْمُ الرَّقِیْبُ الْمُجِیبُ الْوَاسِعُ الْحَکِیْمُ الْوَدُوْدُ الْمَجِیْدُ الْبَاعِثُ الشَّہِیْدُ الْحَقُّ الْوَکِیْلُ الْقَوِیُّ الْمَتِیْنُ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ الْمُحْصِیْ الْمُبْدِئُ الْمُعِیْدُ الْمُحْیِیْ الْمُمِیْتُ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ الْوَاجِدُ الْمَاجِدُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ الْقَادِرُ الْمُقْتَدِرُ الْمُقَدِّمُ الْمُؤَخِّرُ الْاَوَّلُ الْاٰخِرُ الظَّاہِرُ الْبَاطِنُ الْوَالِی الْمُتَعَالِی الْبَرُّ التَّوَّابُ الْمُنْتَقِمُ الْعَفُوُّ الرَّءُوْفُ مَالِکُ الْمُلْکِ ذُو الْجَلاَلِ وَالْاِکْرَامِ الْمُقْسِطُ الْجَامِعُ الْغَنِیُّ الْمُغْنِیُ الْمَانِعُ الضَّارُّ النَّافِعُ النُّورُ الْہَادِی الْبَدِیْعُ الْبَاقِی الْوَارِثُ الرَّشِیْدُ الصَّبُوْرُ‘‘(ترمذی، کتاب الدعوات، ۸۲-باب، ۵ / ۳۰۳، الحدیث: ۳۵۱۸)
اسماءِ حسنیٰ پڑھ کر دعا مانگنے کابہترین طریقہ:
اس موقع پراسمائے باری تعالیٰ پڑھ کر دعا مانگنے کا ایک بہترین طریقہ حاضرِ خدمت ہے’’ بزرگ فرماتے ہیں : جو شخص اس طرح دعا مانگے کہ پہلے کہے ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ یَارَحْمٰنُ، یَارَحِیْمُ ‘‘ پھر ’’رحیم‘‘ کے بعد سے تمام اسمائے مبارکہ حرفِ ندا کے ساتھ پڑھے (یعنی یِامَلِکُ، یَاقُدُّوْسُ، یَاسَلَام…یونہی آخر تک) جب اسماء مکمل ہو جائیں تو یوں کہے ’’اَنْ تُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ وَاَنْ تَرْزُقَنِیْ وَجَمِیْعَ مَنْ یَّتَعَلَّقُ بِیْ بِتَمَامِ نِعْمَتِکَ وَدَوَامِ عَافِیَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن‘‘پھر دعا مانگے، ان شاءَاللہ عَزَّوَجَلَّ مراد پوری ہوگی اور کبھی دعا رد نہ ہو گی۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۰، ۳ / ۲۸۲)
{اَلَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖ:جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں۔} اللہ تعالیٰ کے ناموں میں حق و اِستقامت سے دور ہونا کئی طرح سے ہے ایک تو یہ ہے کہ اس کے ناموں کو کچھ بگاڑ کر غیروں پر اِطلاق کرنا جیسا کہ مشرکین نے اِلٰہ کا’’ لات‘‘ اور عزیز کا’’ عُزّیٰ‘‘ اور منان کا ’’مَنات‘‘ کرکے اپنے بتوں کے نام رکھے تھے، یہ ناموں میں حق سے تَجاوُز اور ناجائز ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ایسا نام مقرر کیا جائے جو قرآن و حدیث میں نہ آیا ہو یہ بھی جائز نہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ کو سخی کہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اَسماء تَوقِیفیہ ہیں۔ تیسرا یہ کہ حسنِ ادب کی رعایت نہ کرنا ۔ چوتھا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی ایسا نام مقرر کیا جائے جس کے معنی فاسد ہوں یہ بھی بہت سخت ناجائز ہے ،جیسے کہ لفظ رام اور پرماتما وغیرہ۔ پانچواں یہ کہ ایسے اسماء کا اطلاق کرنا جن کے معنی معلوم نہیں ہیں اور یہ نہیں جانا جاسکتا کہ وہ جلالِ الہٰی کے لائق ہیں یا نہیں۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۰، ۲ / ۱۶۴)
اِلْحاد فی الاسماء کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ غیرُاللہ پر اللہ تعالیٰ کے ان ناموں کا اِطلاق کیا جائے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ خاص ہیں۔ جیسے کسی کا نام رحمٰن، قدوس، خالق، قدیر رکھنا یا کہہ کر پکارنا، ہمارے زمانے میں یہ بلا بہت عام ہے کہ عبدالرحمٰن کو رحمٰن ، عبدالخالق کو خالق اور عبد القدیر کو قدیر وغیرہ کہہ کر پکارتے ہیں یہ حرام ہے، اس سے بچنا لازم ہے۔
{وَ مِمَّنْ خَلَقْنَاۤ اُمَّةٌ:اور ہماری مخلوق میں سے ایک گروہ۔} یہ گروہ اہلِ حق علماء اور ہادیانِ دین کا ہے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۱، ص۳۹۷)
کوئی زمانہ اہلِ حق سے خالی نہ ہو گا:
اس آیت سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ ہر زمانہ کے اہلِ حق کا اِجماع حجت ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی زمانہ حق پرستوں اور دین کے ہادیوں سے خالی نہ ہوگا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے، حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایتہے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ میری اُمت کا ایک گروہ تاقیامت دینِ حق پر قائم رہے گا اس کو کسی کی عداوت و مخالفت ضَرر نہ پہنچا سکے گی۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا تزال طائفۃ من امتی۔۔۔ الخ، ص ۱۰۶۱، الحدیث: ۱۷۰(۱۹۲۰))
{ وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا:اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ’’ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہم انہیں اس طرح ہلاکت وعذاب کے قریب کر دیں گے کہ انہیں پتا بھی نہ چل سکے گا کیونکہ یہ لوگ جب کوئی جرم یا گناہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ دنیا میں ان پر نعمت اور بھلائی کے دروازے کھول دیتا ہے، دُنیَوی نعمتوں کی فراوانی دیکھ کر یہ بہت خوش ہوتے ہیں اور سرکشی و گمراہی، گناہ اور مَعاصی کا بازار مزید گرم کر دیتے ہیں حتّٰی کہ جتنا نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اتنا ہی گناہ زیادہ کرتے ہیں ، پھر اچانک عین غفلت کی حالت میں اللہ تعالیٰ انہیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۲، ۵ / ۴۱۸)
گناہوں کے باوجود نعمتیں ملنا کہیں اللہ تعالیٰ کی ڈھیل نہ ہو :
اس آیت میں ان مسلمانوں کے لئے بھی بڑی عبرت ہے جو دن رات گناہوں میں مصروف رہنے کے باجود عیش و فراوانی کی زندگی گزار رہے ہیں اور آئے دن ان کی عیش و عشرت اور مال دولت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، انہیں بھی اس بات سے ڈر جانا چاہئے کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کیلئے ڈھیل نہ ہو اور عین غفلت کی حالت اللہ تعالیٰ ان کی گرفت نہ فرما لے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ‘‘ (انعام:۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیاجو انہیں کی گئی تھیں توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیاپس اب وہ مایوس ہیں۔
حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب تم یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے گناہوں کے باوجود ان کے سوالوں کے مطابق عطا فرما رہاہے تو یہ ان کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِستِدراج اور ڈھیل ہے ۔ (مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث عقبۃ بن عامر الجہنی، ۶ / ۱۲۲، الحدیث: ۱۷۳۱۳)
حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں جب کسریٰ کے خزانے لائے گئے تو اس وقت انہوں نے دعا کی ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں ڈھیل دئیے جانے والوں سے ہوں کیونکہ میں نے تیرا یہ ارشاد سنا ہے:
’’سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:عنقریب ہم انہیں آہستہ آہستہ (عذاب کی طرف) لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ (سنن الکبری للبیہقی، کتاب قسم الفیء والغنیمۃ، باب الاختیار فی التعجیل بقسمۃ مال الفیء اذا اجتمع، ۶ / ۵۸۱، الحدیث: ۱۳۰۳۳)
[وَ اُمْلِیْ لَهُمْ:اور میں انہیں ڈھیل دوں گا ۔] یعنی میں ان کی عمر لمبی کر دوں گا تاکہ یہ کفر اور گناہوں میں مزید آگے بڑھ جائیں اور گناہوں کی وجہ سے ان پر جلدی عذاب نازل نہیں کروں گا تاکہ ان کی توبہ اور رجوع کی کوئی صورت نہ رہے، بیشک میری خفیہ تدبیر بہت مضبوط اور میری گرفت سخت ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۳، ۵ / ۴۱۸، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۳، ۳ / ۲۸۸، ملتقطاً)
گناہوں کے باوجود عمر لمبی ہو تو اسے بہتر نہ سمجھا جائے:
یاد رہے کہ کفر اور گناہوں کے باوجود لمبی عمر ملنا، فوری عذاب نہ ہونا اور مَصائب و آلا م کانہ آنا ایسی چیز نہیں کہ جسے اپنے حق میں بہتر سمجھا جائے بلکہ توبہ نہ کرنے کی صورت میں یہی مہلت گناہوں میں اضافے اور تباہی و بربادی کا سبب بن جاتی ہے، ارشادِ رَبّانی ہے: ’’وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِهِمْؕ-اِنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ لِیَزْدَادُوْۤا اِثْمًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ‘‘ (آل عمران:۱۷۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور کافر ہرگز یہ گمان نہ رکھیں کہ ہم انہیں جومہلت دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہتر ہے ، ہم توصرف اس لئے انہیں مہلت دے رہے ہیں کہ ان کے گناہ اور زیادہ ہوجائیں اور ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔
حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک شخص نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہوں۔ اس نے عرض کی:لوگوں میں سب سے بد تر کون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برے ہوں۔(ترمذی، کتاب الفتن، ۲۲-باب منہ، ۴ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۳۷)
{مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ:ان کے صاحب کے ساتھ جُنون کا کوئی تعلق نہیں۔} کفارِ مکہ میں سے بعض جاہل قسم کے لوگ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جنون کی نسبت کرتے تھے، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ سیدُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے افعال کفار کے افعال سے جدا تھے کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا اور اس کی لذتوں سے منہ پھیر کر آخرت کی طرف متوجہ تھے ۔ اللہتعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور اس کا خوف دلانے میں شب و روز مشغول تھے، یوں نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمل ان کے طریقے کے مخالف ہوا تو انہوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو مجنون سمجھا۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رات کے وقت کوہِ صفا پر چڑھ کر قبیلے قبیلے کو پکارتے ہوئے فرماتے ’’اے بنی فلاں ! اے بنی فلاں ! اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے ڈراتے تو کفار میں سے کوئی کہتا کہ تمہارے صاحب مجنون ہیں ،رات سے لے کر صبح تک چلاتے رہتے ہیں اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے معمولات میں انہیں غورو تَفکر کرنے کی دعوت دی تا کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی جنون کی وجہ سے نہیں بلکہ انہیں عذابِ الٰہی سے ڈرانے کے لئے پکارتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وحی نازل ہوتے وقت رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر عجیب حالت طاری ہوتی، چہرہ مُتَغَیّر ہوجاتا، رنگ پیلا پڑ جاتا اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آپ پر غشی طاری ہو۔ یہ دیکھ کر جاہل لوگ آپ کی طرف جنون کی نسبت کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان جاہلوں کا رد کرتے ہوئے اس آیت میں فرمایا کہ میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر کسی قسم کا جنون نہیں یہ تو انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف بلاتے ہیں اور اپنے فصیح الفاظ کے ساتھ قطعی دلائل پیش کرتے ہیں ،ان کی فصاحت کا مقابلہ کرنے سے پوری دنیائے عرب عاجز آ چکی ہے۔ میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاق بہت عمدہ اور مُعاشرت بڑی پاکیزہ ہے،ان کی ہر عادت و خصلت انتہائی نیک ہے ہمیشہ اچھے کام کرتے ہیں اور اسی وجہ سے تمام عقلمندوں کے مُقتدا و پیشوا ہیں اور یہ بالکل بدیہی بات ہے کہ جو انسان عمدہ اور پاکیزہ شخصیت کا حامل ہو اسے مجنون قرار دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۴، ۲ / ۱۶۵، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۴، ۵ / ۴۲۰)
{اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا:کیا انہو ں نے غور نہیں کیا ؟} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا ان کفار نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور جو جو چیز اللہ عَزَّوَجَلَّنے پیدا کی ہے اس میں غور نہیں کیا تاکہ وہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت پر اِستدلال کرتے کیونکہ ان سب میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حکمت و قدرت کے کمال کی بے شمار روشن دلیلیں موجود ہیں اور کیا انہوں نے اس بات میں غور نہیں کیا کہ شاید ان کی موت کی مدت نزدیک آگئی ہو اور وہ کفر کی حالت میں مرنے کے بعد ہمیشہ کے لئے جہنمی ہوجائیں ؟ ایسے حال میں عقل مند پر لازم ہے کہ وہ سوچے، سمجھے اور دلائل پر نظر کرے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رسالت اور قرآنِ عظیم کے کتابِ الٰہی ہونے پر ایمان لائے کیونکہ قرآنِ پاک کے بعد اور کوئی کتاب اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بعد اور کوئی رسول آنے والا نہیں جس کا انتظار ہو کہ قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آخری نبی ہیں ،اگر ان پر ایمان نہیں لایا تو پھر کس پر ایمان لائے گا۔
{مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗ:جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔}اس آیت کا یہ معنی نہیں ہے کہ کفار کو اللہ تعالیٰ نے گمراہ کیا ہے کیونکہ اگر یہ معنیٰ ہو تو کفار قیامت کے دن حجت پیش کریں گے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں گمراہ کر دیا تھا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟کس قانون کی بنا پر ہمیں ہماری گمراہی کی سزا دی جا رہی ہے؟ بلکہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب مسلسل کفریہ عقائد پر جمے رہنے کی وجہ سے کفار کے دلوں میں گمراہی راسخ ہو گئی اور وہ اپنی سر کشی میں حد سے بڑھ گئے حتّٰی کہ انہوں نے اپنے اختیار سے اس چیز کو ضائع کر دیا جو انہیں ہدایت اور ایمان کی دعوت دیتی تو پھر ان کے دل و دماغ سے دعوت ِحق قبول کرنے کی اِستِعداد جاتی رہی اور وہ اس طرح ہو گئے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں گمراہی پر پیدا کیا ہے۔
گناہ پر جلدی پکڑ نہ ہونا عذاب ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے کو چھوڑے رکھنا اور اس کی گرفت نہ کرنا عذاب ہے یعنی یوں کہ بندہ کفر و شرک اور گناہ کرتا رہے لیکن کوئی پکڑ نہ ہو جبکہ اس کے برعکس بندے کی معمولی بات پر گرفت ہو جانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہے۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے جلد ہی دنیا میں سز ادیتا ہے اور اگر کسی بندے سے برائی کا ارادہ کرتا ہے تو گناہ کے سبب اس کا بدلہ روک رکھتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پورا بدلہ دے گا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۸، الحدیث: ۲۴۰۴)
{یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ:آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں۔} شانِ نزول: حضرتِ عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ یہودیوں نے نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ اگر آپ نبی ہیں تو ہمیں بتائیے کہ قیامت کب قائم ہوگی کیونکہ ہمیں اس کا وقت معلوم ہے۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۷، ۲ / ۱۶۵) اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
{قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ:تم فرماؤ: اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے۔} اس آیت میں بتادیا گیا کہ قیامت کے مُعَیَّن وقت کی خبر دینا رسول کی کوئی ذمہ داری نہیں کیونکہ یہ علمِ شریعت نہیں جس کی اشاعت کی جائے بلکہ قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کے اَسرار میں سے ہے جس کا چھپانا ضروری ہے ،لہٰذا اگر اس سربستہ راز کو ہر طرح سے ظاہر کر دیا جائے تو پھر قیامت کااچانک آناباقی نہ رہے گا حالانکہ اسی آیت میں تصریح ہے کہ ’’لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً‘‘ تم پر وہ اچانک ہی آجائے گی۔ عوام سے قیامت کا علم مخفی رکھنے کی وجہ سے متعلق علماء فرماتے ہیں ’’ بندوں سے قیامت کا علم اور اس کے وقوع کا وقت مخفی رکھنے کا سبب یہ ہے کہ لوگ قیامت سے خوف زدہ اور ڈرتے رہیں کیونکہ جب انہیں معلوم نہیں ہو گا کہ قیامت کس وقت آئے گی تو وہ ا س سے بہت زیادہ ڈریں گے اور ہر وقت گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کوشاں رہیں گے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ گناہوں میں مشغول ہوں اور قیامت آجائے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۷، ۲ / ۱۶۶)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو قیامت کا علم عطا کیا گیا ہے:
سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے بڑی تفصیل کے ساتھ قیامت سے پہلے اور اس کے قریب ترین اوقات کے بارے میں تفصیلات بیان فرمائی ہیں جو اس بات کی علامت ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قیامت کا علم تھا۔ ان میں سے 8اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی حتّٰی کہ زمانہ جلد جلد گزرنے لگے گا۔ سال ایک ماہ کی طرح گزرے گا۔مہینہ ہفتہ کی طرح گزرے گا۔ ہفتہ ایک دن کی طرح، ایک دن ایک گھنٹے کی طرح اور ایک گھنٹہ آگ کی چنگاری کی طرح گزر جائے گا۔ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی تقارب الزمن وقصر الامل، ۴ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۳۹)
(2)…حضرت سلامہ بنت حر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ اہلِ مسجد امامت کرنے کیلئے ایک دوسرے سے کہیں گے اور انہیں نماز پڑھنے کے لئے کوئی امام نہ ملے گا۔( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی کراہیۃ التدافع عن الامامۃ، ۱ / ۲۳۹، الحدیث: ۵۸۱)
(3)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھایا جائے گا اور جہل کا ظہور ہو گا، زنا عام ہو گا اور شراب پی جائے گی، مرد کم ہو جائیں گے اور عورتیں زیادہ ہوں گی حتّٰی کہ پچاس عورتوں کا کفیل ایک مرد ہو گا۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب یقلّ الرجال ویکثر النسائ، ۳ / ۴۷۲، الحدیث: ۵۲۳۱)
(4)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے روایت ہے ،نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جب میری امت پندرہ کاموں کو کرے گی تو اس پر مَصائب کا آنا حلال ہو جائے گا۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ ! وہ کیا کام ہیں ؟ ارشاد فرمایا:’’ جب مالِ غنیمت کو ذاتی دولت بنا لیا جائے گا، امانت کو مالِ غنیمت بنالیا جائے گا، زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھ لیا جائے گا، جب لوگ اپنی بیوی کی اطاعت کریں گے اور اپنی ماں کی نافرمانی کریں گے، جب دوست کے ساتھ نیکی کریں گے اور باپ کے ساتھ برائی کریں گے، جب مسجدوں میں آوازیں بلند کی جائیں گی، ذلیل ترین شخص کو قوم کا سردار بنا دیا جائے گا، جب کسی شخص کے شر کے ڈر سے اس کی عزت کی جائے گی، شراب پی جائے گی، ریشم پہنا جائے گا، گانے والیاں اور ساز رکھے جائیں گے اور اس امت کے آخری لوگ پہلوں کو برا کہیں گے۔ اس وقت تم سرخ آندھیوں ، زمین کے دھنسنے اور مَسخ کا انتظار کرنا۔ (جامع الاصول، حرف القاف، الکتاب التاسع، الباب الاول، الفصل الحادی عشر، ۱۰ / ۳۸۴، الحدیث: ۷۹۲۵)
(5) …حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت ہر گز اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو،پھر آپ نے دھویں ،دجّال، دابَّۃُ الارض، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے، حضرت عیسیٰ بن مریم کے نزول، یاجوج ماجوج کا اور تین مرتبہ زمین دھنسنے کا ذکر فرمایا، ایک مرتبہ مشرق میں ،ایک مرتبہ مغرب میں ، ایک مرتبہ جزیرۂ عرب میں اور سب کے آخر میں ایک آگ ظاہر ہو گی جو لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی الآیات التی تکون قبل الساعۃ، ص۱۵۵۱، الحدیث: ۳۹ (۲۹۰۱))
(6)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے منقول ایک طویل روایت کے آخر میں ہے کہ قیامت یومِ عاشوراء یعنی محرم کے مہینہ کی دس تاریخ کو ہو گی۔ (فضائل الاوقات للبیہقی، باب تخصیص یوم عاشوراء بالذکر، ص۱۱۹، الحدیث: ۲۸۲)
(7)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے بہتر دن جس میں سورج طلوع ہو تا ہے وہ جمعہ کا ہے ،اسی دن حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا کئے گئے، اسی دن جنت میں داخل کئے گئے اورا سی دن جنت سے باہر لائے گئے اور قیامت بھی جمعہ کے دن قائم ہو گی۔ (مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص۴۲۵، الحدیث: ۱۸ (۸۵۴))
(8)…حضرت عبداللہبن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی آخری ساعت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پید اکیا اور اسی ساعت میں قیامت قائم ہو گی۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی، باب بدء الخلق، ۲ / ۲۵۰، رقم: ۸۱۱)
حضور سید المرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قیامت کی اس قدر تفصیلی علامات بیان فرمائی ہیں کہ دیگر نشانیوں کے ساتھ ساتھ قیامت کا مہینہ، دن ،تاریخ اور وہ گھڑی بھی بتا دی کہ جس میں قیامت واقع ہو گی البتہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ نہیں بتایا کہ کس سن میں قیامت واقع ہو گی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرسن بھی بتا دیتے تو ہمیں معلوم ہوجاتا کہ قیامت آنے میں اب کتنے سال، کتنے دن اور کتنی گھڑیاں باقی رہ گئی ہیں یوں قیامت کے اچانک آنے کا جو ذکر قرآنِ پاک میں ہے وہ ثابت نہ ہوتا لہٰذاسال نہ بتانا قرآنِ پاک کے صِدق کو قائم رکھنے کیلئے اورا س کے علاوہ بہت کچھ بتا دینا اپنا علم ظاہر کرنے کیلئے ہے۔
{قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ:تم فرماؤ، میں اپنی جان کے نفع اور نقصان کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا اللہ چاہے ۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کمال درجے کی عاجزی، عظمت ِ الہٰی اور عقیدہ ِ توحید کے اظہار کا حکم فرمایا گیا کہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جو قدرت و اختیار اور علم ہے خواہ اپنی ذات کے متعلق یا دوسروں کے بارے میں ، یونہی دنیاوی چیزوں کے بارے میں یا قیامت، آخرت اور جنت کے بارے میں وہ تمام کا تمام اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے ہے لہٰذا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اَوّلِین و آخرین سے افضل ہونا، دنیا و آخرت کے اُمور میں تَصَرُّف فرمانا، صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو شفا عطا فرمانا بلکہ جنت عطا فرمانا، انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کرنا وغیرہا جتنی چیزیں ہیں سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے چاہنے سے ہیں۔
{وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ:اور اگر میں غیب جان لیا کرتا۔} اس آیتِ مبارکہ میں علمِ غیب کی نفی کی علماء ِکرام نے مختلف تَوجیہات بیان کی ہیں ، ان میں سے چار توجیہات درج ذیل ہیں جنہیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے علوم کے بیان پر مشتمل اپنی لاجواب کتاب’’اِنْبَاءُ الْحَیْ اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُوْنَ تِبْیَانٌ لِّکُلِّ شَیْءٍ‘‘(اللہ تعالیٰ کا کلام قرآنِ مجید ہر چیز کا روشن بیان ہے) میں بیان فرمایا ہے۔
(1)…اس آیت میں علمِ عطائی کی نفی نہیں بلکہ علمِ ذاتی کی نفی ہے ۔
امام قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شفا شریف میں فرماتے ہیں ’’نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو غُیوب پر مُطّلع فرمایا اور آئندہ ہونے والے واقعات سے با خبر کیا۔ اس باب میں احادیث کا وہ بحرِ ذَخّار ہے کہ کوئی اس کی گہرائی جان ہی نہیں سکتا اور نہ ا س کا پانی ختم ہوتا ہے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے معجزات میں سے یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو یقین اور وُثوق سے معلوم ہے اور ہم تک ا س کی خبریں مُتواتِر طریقے سے کثرت سے پہنچی ہیں اور غیب پر اطلاع ہونے پر اِن احادیث کے معانی و مطالب آپس میں متحد ہیں۔ (شفاء شریف، فصل ومن ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ص۳۳۵-۳۳۶، الجزء الاول)
علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’یہ وضاحت ا ن قرآنی آیات کے منافی نہیں جن میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی غیب نہیں جانتا اور اس آیتِ کریمہ’’وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ‘‘ میں کسی واسطے کے بغیر (یعنی علمِ ذاتی) کی نفی کی گئی ہے البتہ اللہتعالیٰ کے بتانے سے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا غیب پر مطلع ہونا ثابت ہے اور ا س کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔
’’عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘ (جن۲۶، ۲۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔ (نسیم الریاض، القسم الاول فی تعظیم العلی الاعظم۔۔۔ الخ، فصل فیما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ۴ / ۱۴۹)
(2)…یہ کلام ادب و تواضع کے طور پر ہے۔
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اس بات کا احتمال ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے یہ کلام تواضع اور ادب کے طور پر فرمایا ہو اور مطلب یہ ہے کہ میں غیب نہیں جانتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جس کی مجھے اطلاع دی اور جو میرے لئے مقرر فرمایا میں صرف اسی کو جانتا ہوں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲ / ۱۶۷)
(3)…اس آیت میں فی الحال غیب جاننے کی نفی ہے مستقبل میں نہ جاننے پر دلیل نہیں ہے۔
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے غیب پر مطلع ہونے سے پہلے یہ کلام فرمایا، پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو علمِ غیب کی اطلاع دی تو حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا س کی خبر دی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘(جن:۲۶، ۲۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲ / ۱۶۷)
(4)…یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا۔
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا، پھر ا س کے بعد اللہ تعالیٰ نے غیبی اَشیاء کو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ظاہر کیا اور حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی خبر دی تاکہ یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزہ اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت صحیح ہونے پر دلیل بن جائے۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲ / ۱۶۷)
{لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ:تومیں بہت سی بھلائی جمع کرلیتا۔} اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت ،امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بھلائی جمع کرنا اور برائی نہ پہنچنا اسی کے اختیار میں ہوسکتا ہے جو ذاتی قدرت رکھے اور ذاتی قدرت وہی رکھے گا جس کا علم بھی ذاتی ہوکیونکہ جس کی ایک صفت ذاتی ہے اس کے تمام صفات ذاتی ،تو معنی یہ ہوئے کہ اگر مجھے غیب کا علم ذاتی ہوتا تو قدرت بھی ذاتی ہوتی اور میں بھلائی جمع کرلیتا اور برائی نہ پہنچنے دیتا ۔بھلائی سے مراد راحتیں اور کامیابیاں اور دشمنوں پر غلبہ ہے اور برائیوں سے تنگی و تکلیف اور دشمنوں کا غالب آنا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھلائی سے مراد سرکشوں کا مطیع اور نافرمانوں کا فرمانبردار اور کافروں کا مومن کرلینا ہو اور برائی سے بدبخت لوگوں کا باوجود دعوت کے محروم رہ جانا تو حاصلِ کلام یہ ہوگا کہ اگر میں نفع و ضَرر کا ذاتی اختیار رکھتا تو اے منافقین وکافرین ! تمہیں سب کو مومن کر ڈالتا اور تمہاری کفری حالت دیکھنے کی تکلیف مجھے نہ پہنچتی۔(خزائن العرفان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ص۳۳۰)
{هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ:وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کی مفسرین نے مختلف تفاسیر بیان کی ہیں،ان میں سے دو تفاسیر درج ذیل ہیں:
(1)…مشرکین یہ کہا کرتے تھے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام (مَعَاذَاللہ) بتوں کی عبادت کرتے تھے اور بھلائی طلب کرنے اور برائی دور ہونے کے سلسلے میں بتوں کی طرف رجوع کرتے تھے،تو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور حضرت حواء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکا واقعہ بیان فرمایا کہ انہوں نے تو اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا کی تھی کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو ہمیں صحیح سالم اور تندرست بچہ عطا فرمائے گا تو ہم ضرور تیری ا س نعمت کا شکر ادا کریں گے اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں صحیح سالم بچہ عطا کر دیا تو کیا ان دونوں نے اللہتعالیٰ کی عطا میں اس کا شریک ٹھہرایا؟ اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کے شرک اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی طرف منسوب ان کی بات سے بری ہے۔
(2)… ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جو واقعہ بیان فرمایاہے یہ بطورِ مثال ہے اور اس میں مشرکوں کی جہالت اور ان کے شرک کاحال بیان کیا گیا ہے۔ اس صورت میں آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وہی ہے جس نے تم میں سے ہر ایک کو ایک جان سے پیدا کیا یعنی ماں اور باپ سے پیدا کیا اور یہ دونوں انسان ہونے میں یکساں ہیں ،پھر جب شوہر اور بیوی میں ملاپ ہوا اور حمل ظاہر ہوا تو ان دونوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو ہمیں صحیح اور تندرست بچہ عطا کرے گا تو ہم ضرور تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے والوں میں سے ہوں گے ،پھر جب اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ویسا ہی بچہ عنایت فرمایا تو اُن کا حال یہ ہو اکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا میں اس کے شریک ٹھہرانے لگ گئے کیونکہ کبھی تو وہ اس بچے کو انسانی فطرت کے تقاضے کی طرف منسوب کرتے ہیں جیسے دَہریوں کا حال ہے، کبھی ستاروں کی طرف نسبت کرتے ہیں جیسا کہ ستارہ پرستوں کا طریقہ ہے اورکبھی بتوں کی طرف منسوب کرتے ہیں جیسا کہ بت پرستوں کا دستور ہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ’’ وہ اُن کے اِس شرک سے برتر ہے۔(تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۹، ۵ / ۴۲۸)
{اَیُشْرِكُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ:کیا وہ اسے(اللہ کا) شریک بناتے ہیں جوکوئی چیز نہیں بناسکتا ۔}اس آیت اور اگلی چند آیات میں بتوں کے معبود ہونے کی نفی پر کئی دلیلیں قائم فرمائی گئی ہیں۔چنانچہ ا س آیت میں فرمایا گیا کہ کیا مشرکین اُسے اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا کرنے کی اصلاً قدرت نہیں رکھتا بلکہ وہ خود بھی اپنے بنائے جانے میں کسی کا محتاج ہے حالانکہ معبود تو صرف وہ ہو سکتا ہے جس نے اپنے عبادت گزار کو پیدا کیا ہو۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۱، ۳ / ۲۹۵)
{وَلَایَسْتَطِیْعُوْنَ لَهُمْ نَصْرًا:اور نہ وہ ان کی کوئی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔} اس آیت میں بتوں کی بے قدری اور شرک کے بُطلان کا بیان اور مشرکین کے کمالِ جہل کا اظہار ہے اور بتایا گیا ہے کہ عبادت کا مستحق وہی ہوسکتا ہے جو عبادت کرنے والے کو نفع پہنچانے اور ا س کا ضرر دور کرنے کی قدرت رکھتا ہو، مشرکین جن بتوں کو پوجتے ہیں ان کی بے قدرتی اس درجے کی ہے کہ وہ کسی چیز کے بنانے والے نہیں ، کسی چیز کے بنانے والے تو کیا ہوتے خود اپنی ذات میں دوسرے سے بے نیاز نہیں۔ خود مخلوق ہیں اور بنانے والے کے محتاج ہیں۔ اس سے بڑھ کر بے اختیاری یہ ہے کہ وہ کسی کی مدد نہیں کرسکتے اور کسی کی کیا مدد کریں گے خود انہیں کوئی ضرر پہنچے تو اسے دور نہیں کرسکتے۔ کوئی انہیں توڑ دے، گرا دے الغرض جو چاہے کرے وہ اس سے اپنی حفاظت نہیں کرسکتے لہٰذا ایسے مجبور وبے اختیار کو پوجنا انتہا درجے کا جہل ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۲، ۵ / ۴۳۰-۴۳۱)
{وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى:اور اگر تم انہیں رہنمائی کرنے کے لئے بلاؤ۔} یعنی اے مشرکو! اگر تم ان بتوں کو اس لئے بلاؤ کہ وہ تمہاری اس چیز کی طرف رہنمائی کر دیں جس سے تم اپنے مقاصد کو حاصل کر لو تو یہ تمہاری مراد کی طرف نہیں آئیں گے اور اے مشرکو! تم ان بتوں کو پکارو یا خاموش رہو تمہارے لئے دونوں صورتیں برابر ہیں کیونکہ نہ تو انہیں پکارنے کی صورت میں تمہیں کوئی فائدہ حاصل ہو گا اور نہ ہی خاموش رہنے کی صورت کچھ فائدہ ملے گا۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۳، ۳ / ۲۹۵)
{ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ:بیشک وہ (بت) جنہیں تم اللہکے سوا پوجتے ہو۔} آیت میں لفظ’’ تَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ہے ’’تَعْبُدُوْنَ‘‘ یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ ا س آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو اور تم انہیں اپنا معبود کہتے ہو یہ بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کے مملوک اور مخلوق ہیں جس طرح تم ہو اوراللہ تعالیٰ کے مملوک و مخلوق کسی طرح پوجے جانے کے قابل نہیں ، اس کے باوجود بھی اگر تم انہیں اپنا معبود کہتے ہو تو تم نفع پہچانے اور نقصان دور کرنے کے سلسلے میں انہیں پکارو ،پھر اگر تم اپنے گمان کے مطابق سچے ہو کہ یہ ا س چیز کی قدرت رکھتے ہیں جس سے تم عاجز ہو تو ان بتوں کو چاہیے کہ وہ تمہیں جواب دیں۔(بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۴، ۳ / ۸۴، تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۴، ۴ / ۲۴۴، الجزء السابع، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۴، ۳ / ۲۹۵،ملتقتاً)
مخلوق میں سے کسی کو معبود مان کر پکارنا شرک ہے ورنہ ہر گز شرک نہیں :
یہاں ایک اہم بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی بھی عبادت کرنا شرک ہے، اسی طرح مخلوق میں سے کسی کو معبود مان کر اسے پکارنا یا اس سے حاجتیں اور مدد طلب کرنا بھی شرک ہے البتہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو معبود نہ مانتا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو اس کی عطا سے مشکلات دور کرنے والا، حاجتیں پوری کرنے والا اور مدد کے وقت مدد کرنے والا مانتا ہو اور اسی عقیدے کی بنیاد پر وہ بارگاہِ الٰہی کے مقبول بندوں سے مشکلات کی دوری کے لئے فریاد کرتا ہو، اپنی حاجتیں پوری ہونے کے لئے دعائیں مانگتا ہو یا مصیبت کے وقت انہیں مدد کے لئے پکارتا ہو تو ا س کا یہ فریاد کرنا، مانگنا اور پکارنا ہر گز شرک نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے قرآنِ پاک میں غورو تفکر کیا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کفار و مشرکین کا اپنے بتوں سے متعلق عقیدہ یہ تھا کہ وہ بتوں کو معبود مانتے اور ان کی عبادت کرتے تھے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے:
’’اِنَّهُمْ كَانُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُۙ-یَسْتَكْبِرُوْنَۙ(۳۵) وَ یَقُوْلُوْنَ اَىٕنَّا لَتَارِكُوْۤا اٰلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ‘‘(الصافات: ۳۵، ۳۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تووہ تکبر کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی وجہ سے اپنے معبودوں کو چھوڑدیں۔
اور اسی عقیدے کی بنیاد پر کفار بتوں سے اپنی حاجتیں طلب کرتے تھے،اور آج بھی کسی انسان یا غیر انسان، زندہ یا مردہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرنا، اسے دور یا نزدیک سے پکارنا شرک ہے لیکن اگر کوئی یہ عقیدہ نہ رکھتے ہوئے یعنی معبود نہ مان کر کسی کو پکارے یا ندا کرے تو اس کے عمل کو مشرکوں جیسا عمل قرار دیتے ہوئے اسے بھی مشرک قرار دے دینا سراسر جہالت نہیں تو اور کیا ہے ۔ جو پکارنا یا ندا کرنا شرک ہے وہ ہر حال میں شرک ہے چاہے انسان سے ہو یا غیر انسان سے ،زندہ سے ہو یا فوت شدہ سے، دور سے ہو یا نزدیک سے اور جو ندا شرک نہیں وہ کسی بھی حال میں شرک نہیں۔ ندا یا سوال کے شرک ہونے کا دارومدار پکارنے والے کے عقیدے پر ہے اگر وہ معبود اور خدا مان کر پکارتا ہے تو یہ شرک ہے اب چاہے دور سے پکارے یا نزدیک سے ،زندہ کو پکارے یا فوت شدہ کو اور اگر اس کا یہ عقیدہ نہیں توشرک ہر گز نہیں لہٰذا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پکارنا ہرگز شرک نہیں کیونکہ کوئی بھی کلمہ گو مسلمان آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معبود نہیں سمجھتا اور نہ ان کی عبادت کرتا ہے بلکہ ہر نماز میں وہ کئی بار یہ اعلان کرتا ہے کہ ’’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہْ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے اور رسول ہیں۔ یونہی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو پکارنے والا، ان سے سوال کرنے والا ،انہیں معبود سمجھ کر ہر گز نہیں پکارتا بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بندہ سمجھ کر اور اللہ عَزَّوَجَلَّکی عطا سے پکار سننے والا جان کر پکارتا ہے لہٰذا ا س کایہ عمل بھی ہر گز شرک نہیں۔
{اَلَهُمْ اَرْجُلٌ:کیا ان کے پاؤں ہیں۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ انسان کی قدرت کا دارومدار ان چار اعضاء پر ہے، ہاتھ پاؤں ، کان اور آنکھ کہ انسان تمام امور میں ان سے مدد لیتا ہے جبکہ بتوں کے یہ اعضاء نہیں ہیں ،لہٰذا انسان ان عاجز بتوں سے افضل ہوا کیونکہ چلنے ، پکڑنے، دیکھنے اور سننے کی طاقت رکھنے والا اس سے بہتر ہے جو ان صلاحیتوں سے محروم ہے، لہٰذا انسان ہر حال میں ان بتوں سے افضل ہے کہ بت پتھروں اور درختوں سے بنے ہوئے ہیں ، کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے تو جب ان میں وہ قوت و طاقت بھی نہیں جو تم میں ہے پھر تم ان کی پوجا کیسے کرتے ہو؟ اور اپنے سے کمتر کو پوج کر کیوں ذلیل ہوتے ہو۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۲ / ۱۶۹)
{قُلِ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ:(اے محبوب!) تم فرما دو کہ اپنے شریکوں کوبلالو۔} شانِ نزول:رسولِ خداصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب بت پرستی کی مذمت کی اور بتوں کی عاجزی اور بے اختیاری کا بیان فرمایا تو مشرکین نے دھمکایا اور کہا کہ بتوں کو برا کہنے والے تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں اور یہ بت اُنہیں ہلاک کردیتے ہیں ،اس پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی اور اس آیت اور ا س کے بعدو الی تین آیات میں فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ان سے فرما دیں کہ اگرتم بتوں میں کچھ قدرت سمجھتے ہو تو انہیں پکارو اور مجھے نقصان پہنچانے میں اُن سے مدد لو اور تم بھی جو مکروفریب کرسکتے ہو وہ میرے مقابلے میں کرو اور اس میں دیر نہ کرو ،مجھے تمہاری اور تمہارے معبودوں کی کچھ بھی پرواہ نہیں اور تم سب مل کر بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ میری حفاظت کرنے والا اور میرا مددگار وہ رب تعالیٰ ہے جس نے مجھ پر قرآن نازل کر کے مجھے عظمت عطا کی اور وہ اپنے نیک بندوں کو دوست رکھتا اور ان کی مدد فرماتا ہے اور اے بت پرستو! اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ کسی کام میں تمہاری مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں تو میں پھر ان کی کس طرح پرواہ کروں اور ویسے بھی یہ تمہاری مدد کیا کریں گے کیونکہ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ اگر تم انہیں اپنے مقاصد کے حصول کی طرف رہنمائی کرنے کے لئے بلاؤ تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں گے اور تم انہیں دیکھوتو یوں لگے گا کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وہ دیکھنے سے ہی عاجز ہیں۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۵-۱۹۶، ۲ / ۱۶۹-۱۷۰، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۵-۱۹۶، ۳ / ۲۹۶، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں سے مددچاہنا اور انہیں وسیلہ بنانا توحید کے بر خلاف نہیں :
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت (نمبر198) میں بتوں کا جو حال بیان ہوا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا حال ان کے برخلاف ہے اگرچہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں کیونکہ ا س طور پر مقبولانِ بارگاہِ الٰہی سے مدد چاہنا، انہیں وسیلہ بنانا اور ان کی طرف (کسی چیز کی عطا وغیرہ کی) نسبت کرنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے مظاہر، اس کے انوار کی جلوہ گاہیں ، اس کے کمالات کے آئینے اور ظاہری و باطنی امور میں اس کی بارگاہ میں سفارشی ہیں ،انتہائی اہم کام ہے اور یہ ہر گز شرک نہیں بلکہ یہ عین توحید ہے (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۸، ۳ / ۲۹۶)۔ ([1])
{وَ تَرٰىهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ:اور تم انہیں دیکھو(تو یوں لگے گا) کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں کودیکھیں کہ یہ اپنی آنکھوں سےتو آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ یہ نگاہِ بصیرت سے آپ کو نہیں دیکھ رہے تو اگرچہ فی الوقت یہ آپ کے سامنے ہیں لیکن در حقیقت یہ آپ سے غائب ہیں البتہ اگر یہ میری وحدانیت کا اقرار اور آپ کی رسالت کی تصدیق کر لیتے ہیں تو یہ حقیقی طور پر دیکھنے والے بن جائیں گے۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۸، ۳ / ۲۹۷)
نگاہِ بصیرت سے دیکھنا ہی حقیقی طور پر فائدہ مند ہے
اس سے معلوم ہوا کہ صرف ظاہری نگاہوں سے حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو دیکھ لینا حقیقی طور پر فائدہ مند نہیں بلکہ نگاہِ بصیرت سے دیکھنا فائدہ مند ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب ابو جہل کے بیٹے حضرت عکرمہ نے نگاہِ بصیرت سے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی زیارت کی تو صحابیت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو کر ہمیشہ کے لئے جنت کے حق دار ٹھہرے اور خود ابو جہل صرف ظاہری نگاہوں سے دیکھتا رہا جس کی وجہ سے اسے بدبختی سے نجات نہ ملی اور ہمیشہ کے لئے جہنم کا حقدار ٹھہرا۔
ایک مرتبہ سلطان محمودغزنوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شیخ ابو الحسن خرقانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے اور کچھ دیران کے پاس بیٹھ کر عرض کی:یا شیخ!آپ حضرت ابو یزید بسطامی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ حضرت ابوالحسن خرقانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا’’وہ ایسے شخص ہیں کہ جس نے ان کی زیارت کی وہ ہدایت پا گیا اور اسے واضح طور پر سعادت حاصل ہو گئی۔حضرت محمود غزنوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے عرض کی:یا شیخ!یہ کس طرح ہوا کہ ابو جہل نے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا لیکن اس کے باوجود اسے نہ کوئی سعادت ملی اور نہ وہ شقاوت و بدبختی سے خلاصی پا سکا؟آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا’’ابو جہل نے در حقیقت رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا ہی نہیں جس کی وجہ سے وہ بدبختی سے چھٹکارا نہ پا سکا بلکہ اس نے محمد بن عبد اللہ کو دیکھا ہے، اگر وہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو دیکھ لیتا تو وہ بدبختی سے نکل کر سعادت مندی میں داخل ہو جاتا اور اس کا مِصداق اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ’’وَ تَرٰىهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ وَ هُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ‘‘ تو سر کی آنکھوں سے دیکھنے سے یہ سعادت نہیں ملتی بلکہ دل کی نگاہوں سے دیکھیں تو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے،اس لئے جس نے حضرت ابو یزید رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو دل کی نگاہوں سے دیکھا تو وہ سعادت پا گیا ۔ اس واقعے سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو بھی نگاہِ بصیرت سے دیکھنا ہی فائدہ دیتا ہے۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۸، ۳ / ۲۹۷)
[1] …اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں سے مدد مانگنے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ ’’کرامات شیر خدا‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) صفحہ56تا95کا مطالعہ کرنا بہت مفید ہے۔
{خُذِ الْعَفْوَ:اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو۔} اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تین باتوں کی ہدایت فرمائی گئی ہے:
(1) …جو مجرم معذرت طلب کرتا ہوا آپ کے پاس آ ئے تو اس پر شفقت و مہربانی کرتے ہوئے اسے معاف کر دیجئے۔
(2)… اچھے اور مفید کام کرنے کا لوگوں کو حکم دیجئے ۔
(3)…جاہل اور ناسمجھ لوگ آپ کو برا بھلا کہیں تو ان سے الجھئے نہیں بلکہ حِلم کامظاہرہ فرمائیں۔
عَفْو و درگزر اور سیرتِ مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:
رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی پوری زندگی عفو و درگزر سے عبارت تھی ۔آپ کے بے مثال عفوودر گزر کاایک واقعہ ملاحظہ ہو، چنانچہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شہزادی حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کو ان کے شوہر ابو العاص نے غزوۂ بدر کے بعد مدینہ منورہ کے لئے روانہ کیا۔ جب قریشِ مکہ کو ان کی روانگی کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کا پیچھا کیا حتّٰی کہ مقامِ ذی طُویٰ میں انہیں پا لیا۔ ہبار بن الاسود نے حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپ اونٹ سے گر گئیں اور آپ کا حمل ساقط ہو گیا۔(سیرت نبویہ لابن ہشام، خروج زینب الی المدینۃ، ص۲۷۱)
اتنی بڑی اَذِیّت پہنچانے والے شخص کے ساتھ نبیِّ رحمتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاسلوک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جِعِرَّانَہ سے واپسی پر میں سیِّد عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےپاس بیٹھا تھا کہ اچانک دروازے سے ہبار بن الاسود داخل ہوا، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ ہبار بن الاسود ہے۔ ارشاد فرمایا: میں نے اسے دیکھ لیا ہے۔ ایک شخص اسے مارنے کے لئے کھڑا ہوا توتاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے اشارہ کیا کہ بیٹھ جائے۔ ہبار نے قریب آتے ہی کہا ’’اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی! آپ پر سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں۔ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں آپ سے بھاگ کر کئی شہروں میں گیا اور میں نے سوچا کہ عجم کے ملکوں میں چلا جاؤں ، پھر مجھے آپ کی نرم دلی صلہ رحمی اور دشمنوں سے آپ کا درگزر کرنا یاد آ یا۔ اے اللہ کے نبی! ہم مشرک تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب ہمیں ہدایت دی اور ہمیں ہلاکت سے نجات عطا کی۔ آپ میری جہالت سے اور میری ان تمام باتوں سے جن کی آپ تک خبر پہنچی ہے درگزر فرمائیں۔ میں اپنے تمام برے کاموں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ رحیم و کریم آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: میں نے تمہیں معاف کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے کہ اس نے تمہیں اسلام کی ہدایت دے دی اور اسلام پچھلے تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ (الاصابہ، حرف الہاء، الہاء بعدہا الباء، ۶ / ۴۱۲-۴۱۳)
اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں جن میں عظیم عفو درگزر کی جھلک نمایاں ہے جیسے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ابو سفیان کو معاف کر دیا، اپنے چچا حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو شہید کرنے والے غلام وحشی کو معاف کر دیا، حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا دانتوں سے کلیجہ چبانے والی ہند بنت عتبہ کو معاف کر دیا، یونہی صفوان بن معطل ،عمیر بن وہب اور عکرمہ بن ابو جہل کو معاف کر دیا، سراقہ بن مالک کو امان لکھ دی اور ان کے علاوہ بہت سے ظالموں اور ستم شعاروں کے ظلم و جفا سے در گزر کر کے معافی کا پروانہ عطا فرما دیا۔آیت میں مذکور حکم ہر مسلمان کیلئے ہے کہ عفوودرگزر اختیار کرے، نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے منہ پھیر لے۔ ([1])
[1] …عفو و در گزر کی ترغیب اور جذبہ پانے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’عفو ودرگزر کی فضیلت‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ:اور اے سننے والے! اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ تجھے ابھارے۔} اس آیت میں خطاب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے اور مراد اور لوگ ہیں کیونکہ شیطان آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر مُسلَّط نہیں ہو سکتا،اور اس کا معنی یہ ہے کہ اے انسان! اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ تجھے(اللہ تعالیٰ کی نافرمانی وغیرہ پر) ابھارے تو ا س کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ اور اپنے آپ سے اس وسوسے کو دور کئے جانے سے متعلق اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ا لتجا کر ،بے شک وہ تیری دعا کو سننے والا اور تیرے حال کو جاننے والا ہے ۔( صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۲ / ۷۳۷، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۲ / ۱۷۱، ملتقطاً)
شیطان کو مغلوب کرنے کے طریقے:
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :صوفیائے کرام اور مجاہدات کرنے والی بزرگ ہستیوں کے نزدیک شیطان سے جنگ کرنے اور اسے مغلوب کرنے کے دو طریقے ہیں :
(1)…شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ لی جائے ،اس کے علاوہ (شیطان کے شر سے) بچنے کا اور کوئی راستہ نہیں ، کیونکہ شیطان ایک ایسا کتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تم پر مسلط فرما دیا ہے ،اگر تم اس سے مقابلہ اور جنگ کرنے اور اسے دور کرنے میں مشغول ہو گئے تو تم تنگ آ جاؤ گے اور تمہارا قیمتی وقت ضائع ہو جائے گا اور آخر کار وہ تم پر غالب آ جائے گا اور تمہیں زخمی کر کے ناکارہ بنا دے گا، اس لئے بہر حال اس کتے کے مالک کی طرف ہی متوجہ ہونا پڑے گا اور اسی کی پناہ لینی ہو گی تاکہ وہ شیطان کو تم سے دور کر دے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا تمہارے لئے شیطان سے جنگ اور مقابلہ کرنے سے بہتر ہے۔
(2)…شیطان سے مقابلہ کرنے ،اسے دور کرنے اور اس کی تردید اور مخالفت کرنے کے لئے بندہ ہر وقت تیار رہے۔
میں (امام محمد غزالی) کہتا ہوں :میرے نزدیک اس کا جامع اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ( مذکورہ بالا)دونوں طریقوں پر عمل کیا جائے ،لہٰذا سب سے پہلے شیطان مردود کی شرارتوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لی جائے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم ارشاد فرمایا ہے اوراللہ تعالیٰ ہمیں شیطان لعین کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے کافی ہے ،اس کے بعد بھی اگر تم یہ محسوس کرو کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ لینے کے باوجود شیطان تم پر غالب آنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ تمہارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا امتحان لینا چاہتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ عبادت وغیرہ میں تمہاری قوت اور صبر کو ظاہر فرما دے جیساکہ کافرو ں کو ہم پر مسلط فرمایا گیا حالانکہ اللہ تعالیٰ کافروں کے عزائم اور ان کی شر انگیزیوں کو ہمارے جہاد کئے بغیر ملیا میٹ کر دینے پر قادر ہے لیکن وہ انہیں صفحۂ ہستی سے ختم نہیں فرماتا بلکہ ہمیں ان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ جہاد، صبر ،گناہوں سے چھٹکارے اور شہادت سے ہمیں بھی حصہ مل جائے اور ہم اس امتحان میں کامیاب و کامران ہو جائیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ (اٰل عمران: ۱۴۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اوریہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ ایمان والوں کی پہچان کرادے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ عطا فرما دے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ‘‘ (اٰل عمران: ۱۴۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:کیا تم اس گمان میں ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے تمہارے مجاہدوں کا امتحان نہیں لیا اور نہ(ہی) صبر والوں کی آزمائش کی ہے۔
تو (جس طرح کافروں کے ساتھ جہاد کا حکم ہے )اسی طرح ہمیں شیطان سے بھی انتہائی جاں فشانی کے ساتھ مقابلہ اور اس سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،نیزعلماءِ کرام نے شیطان سے مقابلہ کرنے اور اس پر غلبہ حاصل کرنے کے (مزید) تین طریقے بیان فرمائے ہیں :
(1)…تم شیطان کے مکر و فریب اور اس کی حیلہ سازی سے ہوشیار اور باخبر ہو جاؤ کیونکہ جب تمہیں اس کی حیلہ سازیوں کاعلم ہو گا تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا،جس طرح چور کو جب معلوم ہوجاتا ہے کہ مالک ِ مکان کو میرے آنے کا علم ہو گیا ہے تو وہ بھاگ جاتا ہے۔
(2)…جب شیطان تمہیں گمراہیوں کی طرف بلائے تو تم اسے رد کر دو اور تمہارا دل اس کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو اور نہ ہی تم اس کی پیروی کرو کیونکہ شیطان ایک بھونکنے والے کتے کی طرح ہے ،اگر تم اسے چھیڑوگے تو وہ تمہاری طرف تیزی کے ساتھ لپکے گا اور (حملہ کر کے) تمہیں زخمی کر دے گا اور اگر تم اس سے کنارہ کشی اختیار کر لو گے تو ممکن ہے کہ وہ خاموش رہے۔
(3)…تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ذکرکرتے رہو اوراپنے آپ کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف رکھو۔( منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ ، العائق الثالث، ص۵۵-۵۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے وسوسوں اور ا س کے مکرو فریب سے محفوظ فرمائے اور اس کے واروں سے بچنے کے لئے مُؤثِّر اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan