READ

Surah Al-Aa'raaf

اَلْاَعْرَاف
206 Ayaat    مکیۃ


7:121
قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۲۱)
بولے ہم ایمان لائے جہان کے رب پر،

7:122
رَبِّ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(۱۲۲)
جو رب ہے موسیٰ اور ہارون کا،

7:123
قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْۚ-اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِی الْمَدِیْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَاۤ اَهْلَهَاۚ-فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(۱۲۳)
فرعون بولا تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں، یہ تو بڑا جعل (فریب) ہے جو تم سب نے (ف۲۱۸) شہر میں پھیلایا ہے کہ شہر والوں کو اس سے نکال دو (ف۲۱۹) تو اب جان جاؤ گے (ف۲۲۰)

{ قَالَ فِرْعَوْنُ:فرعون بولا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 3آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جادو گر حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئے تو یہ دیکھ کر فرعون بولا: میری اجازت کے بغیر تم ایمان کیوں لے آئے؟ یہ تو بہت بڑا دھوکہ ہے جو تم اور حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سب نے متفق ہو کر اس شہر میں کیا ہے ۔تم سب شاگرد ہو اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تمہارے استاد ہیں ، تم نے خفیہ ساز باز کر کے یہ مقابلہ کیا اور تم جان بوجھ کر ہار گئے تاکہ تم شہر کے لوگوں کو اس سے نکال دو اور خود اس پر مُسلَّط ہوجاؤ تو اب تم جان جاؤ گے کہ میں تمہارے ساتھ کس طرح پیش آتا ہوں اور میں تمہیں کیا سزا دوں گا۔ میں ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دوں گا پھر تم سب کو دریائے نیل کے کنارے پھانسی دے دوں گا۔ فرعون کی اس گفتگو پر جادو گروں نے یہ جواب دیا: بیشک ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف پلٹنے والے ہیں ،تو ہمیں موت کا کیا غم ؟ کیونکہ مرنے کے بعد ہمیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی لِقاء اور اس کی رحمت نصیب ہوگی اور جب سب کو اسی کی طرف رجوع کرنا ہے تو وہ خود ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ اس کے بعد ان جادو گروں نے صبر کی دعا کی کہ’’ رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ ‘‘ اے ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں حالتِ اسلام میں موت عطا فرما۔

{ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَ:پھر تم سب کو سُو لی دوں گا۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ دنیامیں پہلا سولی دینے والا اور پہلا ہاتھ پاؤں کاٹنے والا فرعون ہے۔ (تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۴ / ۱۸۷، الجزء السابع)

{ قَالُوْا:(جادوگر) کہنے لگے ۔} اس سے معلوم ہوا کہ مومن کے دل میں جذبۂ ایمانی کے غلبے کے وقت غیرُاللہ کا خوف نہیں ہوتا۔ حق قبول کرنے کے بعد ان جادو گروں کا حال یہ ہوا کہ فرعون کی ایسی ہوش رُبا سزا سن کر بھی ان کے قدم ڈگمگائے نہیں بلکہ انہوں نے مجمعِ عام میں فرعون کے منہ پر اس کی دھمکی کا بڑی جرأت کے ساتھ جواب دیا اور اپنے ایمان کو کسی تَقیہ کے غلاف میں نہ لپیٹا۔ 

{ وَ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ:اور ہمیں حالتِ اسلام میں موت عطا فرما۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا یہ لوگ دن کے اوّل وقت میں جادوگر تھے اور اسی روز آخر وقت میں شہید۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۶، ۲ / ۱۲۸)

            معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صحبت نے پرانے کافروں کو ایک دن میں ایمان، صحابیت ، شہادت تمام مَدارج طے کر ا دئیے، صحبت کا فیض سب سے زیادہ ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فرعون انہیں شہید نہ کرسکا تھا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۵ / ۳۳۹)

 

7:124
لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَ(۱۲۴)
قسم ہے کہ میں تمہارے ایک طرف کہ ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا پھر تم سب کو سُو لی دوں گا (ف۲۲۱)

7:125
قَالُوْۤا اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَۚ(۱۲۵)
بولے ہم اپنے رب کی طرف پھرنے والے ہیں (ف۲۲۲)

7:126
وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَاؕ-رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ۠(۱۲۶)
اور تجھے ہمارا کیا برا لگا یہی نہ کہ ہم اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لائے جب وہ ہمارے پاس آئیں، اے رب ہمارے! ہم پر صبر انڈیل دے (ف۲۲۳) اور ہمیں مسلمان اٹھا (ف۲۲۴)

7:127
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَ قَوْمَهٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ یَذَرَكَ وَ اٰلِهَتَكَؕ-قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ وَ نَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْۚ-وَ اِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ(۱۲۷)
اور قوم فرعون کے سردار بولے کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو اس لیے چھوڑ تا ہے کہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں (ف۲۲۵) اور موسیٰ تجھے اور تیرے ٹھہرائے ہوئے معبودوں کو چھوڑدے (ف۲۲۶) بولا اب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی بیٹیاں زندہ رکھیں گے اور ہم بیشک ان پر غالب ہیں (ف۲۲۷)

{وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ:اور قومِ فرعون کے سردار بولے۔} اے فرعون! کیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کو اس لیے چھوڑ دے گا تاکہ وہ اس طرح  فساد پھیلائیں کہ مصر کی سر زمین میں تیری مخالفت کریں اور وہاں کے باشندوں کا دین بدل دیں۔سرداروں نے یہ اس لئے کہا تھا کہ جادو گروں کے ساتھ چھ لاکھ آدمی بھی ایمان لے آئے تھے۔ سرداروں نے فرعون سے دوسری بات یہ کہی کہ ’’اور وہ موسیٰ تجھے اور تیرے مقرر کئے ہوئے معبودوں کو چھوڑے رکھے‘‘  یعنی نہ تیری عبادت کریں اورنہ تیرے مقرر کئے ہوئے معبودوں کی پوجا کریں۔

مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کے لئے بُت بنوا دیئے تھے اور ان کی عبادت کرنے کا حکم دیتا تھا اور کہتا تھا کہ’’ میں تمہارا بھی رب ہوں اور ان بُتوں کا بھی۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ فرعون دَہری تھا یعنی صانعِ عالَم کے وجود کا منکر، اس کا خیال تھا کہ عالَمِ سِفْلِی کی تدبیر ستارے کرتے ہیں اسی لئے اُس نے ستاروں کی صورتوں پر بت بنوائے تھے، ان کی خود بھی عبادت کرتا تھا اور دوسروں کو بھی ان کی عبادت کا حکم دیتا تھا اور اپنے آپ کوزمین کا مُطاع و مخدوم کہتا تھا اسی لئے وہ ’’اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى‘‘(میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں ) کہتا تھا۔(مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ص۳۸۱، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۲ / ۱۲۸، ملتقطاً)

{ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ:(فرعون نے ) کہا :اب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے۔} فرعون کی قوم کے سرداروں نے فرعون سے جویہ کہا تھا کہ’’ کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو اس لیے چھوڑدے گا تاکہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں ‘‘  اس سے ان کا مطلب فرعون کو حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور آپ کی قوم کے قتل پر ابھارنا تھا ۔ جب اُنہوں نے ایسا کیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کو نُزولِ عذاب کا خوف دلایا ۔ فرعون اپنی قوم کی خواہش پوری کرنے پر قدرت نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزے کی قوت سے مرعوب ہوچکا تھا اسی لئے اس نے اپنی قوم سے یہ کہا کہ’’ ہم بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کریں گے اور لڑکیوں کو چھوڑ دیں گے۔ اس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ اس طرح حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی تعداد گھٹا کر اُن کی قوت کم کریں گے۔ مزید یہ کہ عوام میں اپنا بھرم رکھنے کے لئے یہ بھی کہہ دیا کہ’’ہم بے شک اُن پر غالب ہیں۔ اس سے اس کا مقصود یہ تھا کہ عوام کو پتا چل جائے کہ اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کو کسی عجز یا خوف کی وجہ سے نہیں چھوڑا بلکہ وہ جب چاہے انہیں پکڑ سکتا ہے۔یہ بات وہ اپنے منہ سے کہتا تھا جبکہ فرعون کا حال یہ تھا کہ اس کا دل حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رعب میں بھرا پڑا تھا۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۲ / ۱۲۸، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۵/   ۳۲۴، تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۴ / ۱۸۹، الجزء السابع، ملتقطاً)

7:128
قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰهِ وَ اصْبِرُوْاۚ-اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ﳜ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ(۱۲۸)
موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ کی مدد چاہو (ف۲۲۸) اور صبر کرو (ف۲۲۹) بیشک زمین کا مالک اللہ ہے (ف۲۳۰) اپنے بندوں میں جسے چاہے وارث بنائے (ف۲۳۱) اور آخر میدان پرہیزگاروں کے ہاتھ ہے (ف۲۳۲)

{ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ:موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا۔} فرعون کے اس قول کہ ’’ہم بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کریں گے‘‘ کی وجہ سے بنی اسرائیل میں کچھ پریشانی پیدا ہوگئی اور اُنہوں نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس کی شکایت کی، اس کے جواب میں حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ سے مدد طلب کرو، وہ تمہیں کافی ہے اور آنے والی مصیبتوں اور بلاؤں سے گھبراؤ نہیں بلکہ ان پرصبر کرو، بیشک زمین کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے اور زمینِ مصر بھی اس میں داخل ہے، وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے وارث بنادیتا ہے۔ یہ فرما کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کو تَوَقُّع دلائی کہ فرعون اور اس کی قوم ہلاک ہوگی اور بنی اسرائیل اُن کی زمینوں اور شہروں کے مالک ہوں گے اور انہیں بشارت دیتے ہوئے فرمایا ’’ اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہی ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۲ / ۱۲۹، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ص۳۸۱، ملتقطاً)

7:129
قَالُوْۤا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَاؕ-قَالَ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ یَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۠(۱۲۹)
بولے ہم ستائے گئے آپ کے آنے سے پہلے (ف۲۳۳) اور آپ کے تشریف لانے کے بعد (ف۲۳۴) کہا قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کرے اور اس کی جگہ زمین کا مالک تمہیں بنائے پھر دیکھے کیسے کام کرتے ہو (ف۲۳۵)

{ قَالُوْۤا اُوْذِیْنَا:بولے ہم ستائے گئے ۔} حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم نے فرعون کی دھمکی سے خوفزدہ ہو کر دوسری مرتبہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے عرض کی کہ’’ ہمیں آپ کے تشریف لانے سے پہلے بھی ستایا گیا کہ فرعون اور فرعونیوں نے طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا کر رکھا تھا اور لڑکوں کو بہت زیادہ قتل کیا تھا  اور آپ کے تشریف لانے کے بعد اب پھر ستایا جائے گا کہ اب وہ دوبارہ ہماری اولاد کے قتل کا ارادہ رکھتا ہے تو ہماری مدد کب ہوگی اور یہ مصیبتیں کب دور کی جائیں گی۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: عنقریب تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے گاپھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے کام کرتے ہو اور کس طرح شکر ِنعمت بجالاتے ہو۔

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علمِ غیب کی دلیل:

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو غیب کا علم دیا تھا کہ آئندہ پیش آنے والے واقعات بلاکم و کاست بیان فرما دئیے اور جیسا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا کہ فرعون اپنی قوم کے ساتھ ہلاک کر دیاگیا اور بنی اسرائیل ملکِ مصر کے مالک ہوئے۔

7:130
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(۱۳۰)
اور بیشک ہم نے فرعون والوں کو برسوں کے قحط اور پھلوں کے گھٹانے سے پکڑا (ف۲۳۶) کہ کہیں وہ نصیحت مانیں (ف۲۳۷)

{ وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ :اور بیشک ہم نے فرعون والوں کو پکڑا۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں کو جھٹلانے کے سبب فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے ابتدائی واقعات کو بیان فرمایا گیا ہے۔ سب سے پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرعونیوں کو کئی سال کے قحط ،پھلوں کی کمی اور فقر وفاقہ کی مصیبت میں گرفتار کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’دیہات میں رہنے والے فرعونی قحط کی مصیبت میں گرفتار ہوئے اور شہروں میں رہنے والے (آفات کی وجہ سے) پھلوں کی کمی کی مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ حضرت کعب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’ان لوگوں پر ایک وقت ایسا آیا کہ کھجور کے درخت پر صرف ایک ہی کھجور اگتی تھی۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۲ / ۷۰۱، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۲ / ۱۲۹، ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۲ / ۲۸۸، ملتقطاً)

             اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ سختیاں اس لئے نازل فرمائیں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرتے ہوئے وہ سرکشی اور عناد کا راستہ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف لوٹ آئیں کیونکہ سختی و مصیبت دل کو نرم کر دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو بھلائی ہے اس کی طرف راغب کر دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ’’ فرعون نے اپنی چار سو برس کی عمر میں سے تین سو بیس سال تو اس آرام کے ساتھ گزارے تھے کہ اس مدت میں وہ کبھی درد ،بخار یا بھوک میں مبتلا ہی نہیں ہوا۔ اگر اس کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ کبھی رَبُوبِیَّت کا دعویٰ نہ کرتا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۵ / ۳۴۴، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ص۳۸۱، ملتقطاً)

مَصائب خوابِ غفلت سے بیداری کا سبب بھی ہیں:

            یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی آفتوں اور مصیبتوں میں بھی بہت ساری حکمتیں ہوتی ہیں اور ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ان کی وجہ سے انسان غفلت سے بیدار ہو اور اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار اور فرماں بردار بندہ بن جائے لہٰذا زلزلہ ،طوفان ، سیلاب یا کسی اور مصیبت کا سامنا ہو تو اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔

 

7:131
فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖۚ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗؕ-اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۳۱)
تو جب انہیں بھلائی ملتی (ف۲۳۸) کہتے یہ ہمارے لیے ہے (ف۲۳۹) اور جب برائی پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں سے بدشگونی لیتے (ف۲۴۰) سن لو ان کے نصیبہ کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے (ف۲۴۱) لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں،

{ فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ:تو جب انہیں بھلائی ملتی۔} فرعونی کفر میں اس قدر راسِخ ہوچکے تھے کہ ان تکلیفوں سے بھی ان کی سرکشی بڑھتی ہی رہی، جب انہیں سرسبزی و شادابی، پھلوں ،مویشیوں اور رزق میں وسعت ، صحت ،آفات سے عافیت و سلامتی وغیرہ بھلائی ملتی تو کہتے یہ توہمیں ملنا ہی تھا کیونکہ ہم اس کے اہل اور اس کے مستحق ہیں۔یہ لوگ اس بھلائی کونہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل جانتے او ر نہ ہی اس کے انعامات پر شکر اد اکرتے اور جب انہیں ،قحط، خشک سالی، مرض ،تنگی اور آفت وغیرہ کوئی برائی پہنچتی تو اسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ یہ بلائیں اُن کی وجہ سے پہنچیں ، اگر یہ نہ ہوتے تویہ مصیبتیں نہ آتیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۲ / ۱۳۰، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۵ / ۳۴۴، ملتقطاً)

بدشگونی کی مذمت:

            مشرک قوموں میں مختلف چیزوں سے برا شگون لینے کی رسم بہت پرانی ہے اوران کے تَوَہُّم پرست مزاج ہر چیز سے اثر قبول کرلیتے ، جیسے کوئی شخص کسی کام کو نکلتا اور راستے میں کوئی جانور سامنے سے گزر گیا یاکسی مخصوص پرندے کی آواز کان میں پڑجاتی تو فوراً گھر واپس لوٹ آتا، اسی طرح کسی کے آنے کو، بعض دنوں اور مہینوں کو منحوس سمجھنا ان کے ہاں عام تھا۔ اسی طرح کے تَصَوُّرات اور خیالات ہمارے معاشرے میں بھی بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اسلام اس طرح کی توہم پرستی کی ہر گز اجازت نہیں دیتا اور اسلام نے جہاں دیگر مشرکانہ رسموں کی جڑیں ختم کیں وہیں اس نے بد فالی کا بھی خاتمہ کر دیا۔ چنانچہ

            حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ شگون شرک ہے، شگون شرک ہے، شگون شرک ہے، ہم میں سے ہر ایک کو ایسا خیال آ جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے ہٹا کر توکل پر قائم فرما دیتا ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الطیرۃ، ۴ / ۲۳، الحدیث: ۳۹۱۰)

            حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جسے کسی چیز کی بد فالی نے اس کے مقصد سے لوٹا دیا اُس نے شرک کیا۔ عرض کی گئی :یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ایسا شخص کیا کفارہ دے ؟ ارشاد فرمایا: ’’یہ کہے ’’اَللّٰہُمَّ لَا طَیْرَ اِلاَّ طَیْرُکَ وَلَا خَیْرَ اِلاَّ خَیْرُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ‘‘اے اللہ تیری فال کے علاوہ اور کوئی فال نہیں ،تیری بھلائی کے سوا اور کوئی بھلائی نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ (یہ الفاظ کہہ کر اپنے کام کو چلا جائے۔) (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاصرضی اللہ تعالی عنہما، ۱ / ۶۸۳، الحدیث: ۷۰۶۶)

                        احادیث میں بدشگونی کو شرک قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص بدشگونی کے افعال کو مؤثِّرِ حقیقی جانے تو شرک ہے اور یا مشرکوں کا فعل ہونے کی وجہ سے زجر اور سختی سے سمجھانے کے طور پر شرک قرار دیا گیاہے۔[1]


[1] بد شگونی سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’بد شگونی‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) کا مطالعہ فرمائیں۔

7:132
وَ قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَاۙ-فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ(۱۳۲)
اور بولے تم کیسی بھی نشانی لے کر ہمارے پاس آؤ کہ ہم پر اس سے جادو کرو ہم کسی طرح تم پر ایمان لانے والے نہیں (ف۲۴۲)

{ وَ قَالُوْا:اور بولے۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کی ایک جہالت اور گمراہی بیان فرمائی کہ انہوں نے قحط، خشک سالی اور پھلوں کی کمی کوحضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے ساتھ والوں کی نحوست قرار دیا اور وہ یہ نہ جان سکے کہ بارش کا نہ ہونا نیز غلہ اور پھلوں کا کم یا زیادہ ہونا یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت سے ہے اور ان سب چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے کسی مخلوق کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ اب اس آیت میں ان کی ایک اور جہالت بیان فرمائی کہ یہ لوگ معجزہ اور سِحر میں فرق نہیں کرتے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عصا جو اژدہا بن گیا تھا اسے سحر کہتے تھے حالانکہ ان کے تما م بڑے بڑے جادوگر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے معجزے کے سامنے عاجز ہو چکے تھے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۲، ۵ / ۳۴۵)

             جب فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے صاف صاف کہہ دیا ’’ اے موسیٰ! تم ہمارے اوپر جادو کرنے کیلئے کیسی بھی نشانی ہمارے پاس لے آؤ ،ہم ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے، تو حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن کے خلاف دعا کی، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامچونکہ مستجابُ الدعوات تھے اس لئے آپ کی دعا قبول ہوئی۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعائے ضرر کے بعد فرعون اور اس کی قوم پر جو عذاب آئے ان کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔

7:133
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ- فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)
تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان (ف۲۴۳) اور ٹڈی اور گھن (یا کلنی یا جوئیں) اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں (ف۲۴۴) تو انہوں نے تکبر کیا (ف۲۴۵) اور وہ مجرم قوم تھی

{فَاَرْسَلْنَا:تو ہم نے بھیجا ۔} جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر وسرکشی پر جمے رہے تو اُن پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیاں پے درپے وارد ہونے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کی تھی کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، فرعون زمین میں بہت سرکش ہوگیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد شکنی کی ہے انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو اُن کے لئے سزا ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو، تواللہ تعالیٰ نے طوفان بھیجا ، ہوا یوں کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ۔قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے جوبیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتہ کے دن سے لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُن کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ سرسبزی وشادابی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے ۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے ’’یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا ،پھر اللہ تعالیٰ نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں ،تختے، سامان، حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے نجات پائی۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے انہیں دیکھ کر کہنے لگے ’’یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان نہ لائے، عہد وفا نہ کیا اور اپنے اعمالِ خبیثہ میں مبتلا ہوگئے ۔ ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،پھراللہ تعالیٰ نے قُمَّل بھیجے، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے’’ بعض کہتے ہیں کہقُمَّل گُھن ہے، بعض کہتے ہیں جوں ،بعض کہتے ہیں ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے، یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا ،اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ۔یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے ،ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتّٰی کہ ان کیڑوں نے اُن کا سونا دشوار کردیا تھا۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی:ہم توبہ کرتے ہیں ، آپ اس بلا کے دور ہونے کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے دور ہوئی، لیکن فرعونیوں نے پھر عہد شکنی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث تر عمل شروع کر دئیے۔ ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک ، چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن سے عہد و پیمان لے کر دعا کی تو سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی اور ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اُنہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگاکہ ’’ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ’’ قبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔ لیکن ہوا یوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا ،قبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی کہ’’ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا ۔فرعون خود پیاس سے مُضْطَر ہوا تواس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی ، وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہوگئی۔ سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے۔( بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۳، ۲ / ۱۵۹-۱۶۱)

7:134
وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَۚ-لَىٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَ لَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَۚ(۱۳۴)
اور جب ان پر عذاب پڑتا کہتے اے موسیٰ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے (ف۲۴۶) بیشک اگر تم ہم پر عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے،

{ وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ:اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا۔} اس آیت میں مذکور لفظ ’’رِجْز‘‘ کا معنی عذاب ہے۔ اس کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہی پانچ قسموں کا عذاب ہے جو طوفان ،ٹڈیوں ، قمل، مینڈک اور خون کی صورت میں ان پر مُسلَّط کیا گیا۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد طاعون ہے اور یہ پہلے پانچ عذابوں کے بعد چھٹا عذاب ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۴، ۲ / ۱۳۲)

             اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون ا ور اس کی قوم پر جب طوفان ،ٹڈیوں ، قمَّل،مینڈک اور خون یا طاعون کی صورت میں عذاب نازل ہوتا تو اس وقت حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کہتے : اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے ربعَزَّوَجَلَّسے اس عہد کے سبب دعا کرو جو اس کا تمہارے پاس ہے کہ ہمارے ایمان لانے کی صورت میں وہ ہمیں عذاب نہ دے گا۔ اگر آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہم سے یہ عذاب دور کر دیا تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے ہم ضرور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ روانہ کردیں گے۔

اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کام ا س کے مقبول بندوں کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں :

          اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کام اس کے مقبول بندوں کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں اور مشکلات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ان سے حاجت روائی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے ، جیسے عذاب دور کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے جبکہ فرعون اور اس کی قوم نے عذاب دور کرنے کی نسبت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف کرتے ہوئے عرض کی کہ ’’ لَىٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ‘‘ بے شک اگر آپ نے ہم سے یہ عذاب دور کر دیا۔ اس نسبت پر نہ تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کوئی اعتراض کیا نہ اللہ تعالیٰ نے کوئی عتاب فرمایا۔

             اسی طرح بیٹا دینا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کام ہے جبکہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامنے اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے فرمایا:

’’ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ ﳓ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا‘‘ (مریم: ۱۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: میں توتیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں تا کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔

            یونہی پرندوں کو پیدا کرنا ،مادر زاد اندھوں کو آنکھیں دینا، کوڑھیوں کو شفا یاب کرنا، مردوں کو زندہ کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کام ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا:

’’ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘ (آل عمران: ۴۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں۔سرِ دست قرآنِ مجید سے یہ تین مقامات ذکر کئے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے کاموں کو اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی طرف منسوب کیا گیا، اب صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی سیرت سے چند واقعات ملاحظہ ہوں کہ جب کبھی صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو کوئی مشکل یا مصیبت پیش آتی یا انہیں کوئی ضرورت یا حاجت درپیش ہوتی تو وہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف رجوع کرتے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنی مصیبتوں کی خلاصی اور اپنی حاجت روائی کے لئے عرض کرتے اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کی مشکلات دور کر دیتے اور حاجتیں پوری فرما دیتے تھے ، چنانچہ جنگِ بدر میں حضرت عکاشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تلوار ٹوٹ گئی تو وہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے انہیں ایک چھڑی دی جو ان کے ہاتھ میں پہنچتے ہی تلوار بن گئی۔( جامع الاصول فی احادیث الرسول، الرکن الثالث، الفن الثانی، الباب الرابع، حرف العین، الفصل الاول فی الاسمائ، القسم الاول، الفرع الاول، عکاشہ بن محصن، ۱۳ / ۳۲۴)

            جنگ ِاحد کے موقع پر حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھ تیر لگنے سے نکل گئی تو وہ ڈھیلا لے کر سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اور آنکھ مانگی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے انہیں آنکھ عطا کر دی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، فی فضل الانصار، ۷ / ۵۴۲، الحدیث: ۱۵)

            غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاپنی ٹوٹی ہوئی پنڈلی لے کر بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیں حاضر ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسی وقت ان کی پنڈلی کو درست کر دیا۔( بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر، ۳ / ۸۳، الحدیث: ۴۲۰۶)

             قحط سے نجات پانے کیلئے ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے دعا کی درخواست کی، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی تو ایسی بارش برسی کہ ہفتہ بھر رکنے کا نام نہ لیا۔ (بخاری، کتاب الاستسقائ، باب الاستسقاء علی المنبر، ۱ / ۳۴۸، الحدیث: ۱۰۱۵)

            صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ایک مرتبہ سفر میں پیاس سے جاں بَلَب ہوئے تو بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہو کر اپنی پیا س کے بارے میں عرض کی ،سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انگلیوں سے پانی کے چشمے بہا کر انہیں سیراب کر دیا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲ / ۴۹۵، الحدیث: ۳۵۷۹)

            اور حضرت ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنت مانگی تو انہیں جنت عطا کر دی۔ (مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹)۔)

7:135
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰۤى اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ(۱۳۵)
پھر جب ہم ان سے عذاب اٹھالیتے ایک مدت کے کیے جس تک انہیں پہنچنا ہے جبھی وہ پھر جاتے،

{ فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ:تو ہم نے ان سے بدلہ لیا۔} اس کا معنی یہ ہے کہ  جب بار بار فرعونیوں کو عذابوں سے نجات دی گئی اور وہ کسی عہد پر قائم نہ رہے اور ایمان نہ لائے اور کفر نہ چھوڑا تو جو میعاداُن کے لئے مقرر فرمائی گئی تھی وہ پوری ہونے کے بعد اُنہیں اللہ تعالیٰ نے دریائے نیل میں غرق کرکے ہلاک کردیا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۶، ۲ / ۱۳۲)

{وَاَوْرَثْنَا:اور ہم نے مالک بنا دیا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کو غیبی خبر دی تھی کہ ’’ عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے گا‘‘ جیساآپ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کر کے ہلاک کر دیا، اس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہے اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو پورے مصرو شام کا مالک بنا دیا، اس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ۵ / ۳۴۸، ملتقطاً)

            اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کے غرق ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرعون کے مَظالِم کا شکار بنی اسرائیل کو سرزمین کے مشرق و مغرب یعنی  مصر و شام کا مالک بنا دیا۔ اس سر زمین میں اللہ تعالیٰ نے نہروں ، درختوں ، پھلوں ، کھیتیوں اور پیداوار کی کثرت سے برکت رکھی تھی اس طرح  بنی اسرائیل پر ان کے صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا اچھا وعدہ پورا ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اُن تمام عمارتوں ، ایوانوں اور باغوں کوبرباد کر دیا جو فرعون اور اس کی قوم نے بنائے تھے۔ اس آیت میں صبر کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل کو ان کے صبر کی وجہ سے عزت، غلبہ، خوشحالی اور حکمرانی نصیب ہوئی۔

 

7:136
فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ(۱۳۶)
تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا (ف۲۴۷) اس لیے کہ ہماری آیتیں جھٹلاتے اور ان سے بے خبر تھے (ف۲۴۸)

7:137
وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَاؕ-وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ بِمَا صَبَرُوْاؕ-وَ دَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَ قَوْمُهٗ وَ مَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ(۱۳۷)
اور ہم نے اس قوم کو (ف۲۴۹) جو دبا لی گئی تھی اس زمین (ف۲۵۰) کے پورب پچھم کا وارث کیا جس میں ہم نے برکت رکھی (ف۲۵۱) اور تیرے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل پر پورا ہوا، بدلہ ان کے صبر کا، اور ہم نے برباد کردیا (ف۲۵۲) جو کچھ فرعون اور اس کی قوم بناتی اور جو چنائیاں اٹھاتے (تعمیر کرتے) تھے،

7:138
وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰى قَوْمٍ یَّعْكُفُوْنَ عَلٰۤى اَصْنَامٍ لَّهُمْۚ-قَالُوْا یٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌؕ-قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ(۱۳۸)
اور ہم نے (ف۲۵۳) بنی اسرائیل کو دریا پار اتارا تو ان کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا کہ اپنے بتوں کے آگے آسن مارے (جم کر بیٹھے) تھے (ف۲۵۴) بولے اے موسیٰ! ہمیں ایک خدا بنادے جیسا ان کے لیے اتنے خدا ہیں، بولا تم ضرور جا ہل لوگ ہو، (ف۲۵۵)

{وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ:اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے نعمت کی جو ناشکریاں ہوئیں اور جن برے افعال میں وہ مبتلا ہوئے ان کا اور دیگر واقعات کا بیان شروع فرمایا اورا س سے مقصود نبیِّ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا اور آپ کی امت کو نصیحت کرنا ہے کہ وہ کسی حال میں بھی اپنے نفس کے محاسبہ سے غافل نہ ہوں اور اپنے احوال میں غورو فکر کرتے رہیں۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۸، ۲ / ۲۹۱)

             آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دسویں محرم کے دن  فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا تو ان کا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہواجو اپنے بتوں کے آگے جم کر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کی عبادت کرتے تھے۔ ابن جُرَیج نے کہا کہ یہ بُت گائے کی شکل کے تھے۔ یہاں سے بنی اسرائیل کے دل میں بچھڑا پوجنے کا شوق پیدا ہوا جس کا نتیجہ بعد میں گائے پرستی کی شکل میں نمودار ہوا۔ اُن کو دیکھ کر بنی اسرائیل  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اے موسیٰ! جس طرح ان کے لئے کئی معبود ہیں جن کی یہ عبادت اور تعظیم کرتے ہیں ہمارے لئے بھی ایسا ہی ایک معبود بنادو تاکہ ہم بھی ا س کی عبادت کریں اور تعظیم بجا لائیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے فرمایا: بیشک تم جا ہل لوگ ہوکہ اتنی نشانیاں دیکھ کر بھی نہ سمجھے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۸، ۲ / ۱۳۳، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۸، ۵ / ۳۴۹، ملتقطاً)

            نوٹ: یاد رہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ عرض سارے بنی اسرائیل نے نہ کی تھی کیونکہ ان میں حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور دیگر بزرگ اولیاءُ اللہرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بھی تھے ،بلکہ اُن لوگوں نے کی تھی جو ابھی تک راسخُ الایمان نہ ہوئے تھے۔

{ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ:بیشک یہ لوگ۔} یعنی عنقریب یہ بت پرست اور ان کے بت ہمارے ہاتھوں ہلاک کئے جائیں گے جبکہ تم بت پرست نہیں بلکہ بت شکن ہو۔ اس میں غیب کی خبر ہے اور بعد میں وہی ہوا جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا تھا۔

 

7:139
اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِیْهِ وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۳۹)
یہ حال تو بربادی کا ہے جس میں یہ (ف۲۵۶) لوگ ہیں اور جو کچھ کررہے ہیں نرا باطل ہے،

7:140
قَالَ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْكُمْ اِلٰهًا وَّ هُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(۱۴۰)
کہا کیا اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی خدا تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں زمانے بھر پر فضیلت دی(ف۲۵۷)

{ قَالَ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْكُمْ اِلٰهًا:کہا کیا اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی خدا تلاش کروں۔} جب بنی اسرائیل نے معبود بنا کر دینے کا مطالبہ کیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کی جہالت کو واضح کیا اور فرمایا ’’کیا میں تمہارے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی اور معبود تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں سارے جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ یعنی خدا وہ نہیں ہوتا جو تراش کر بنالیا جائے بلکہ خدا وہ ہے جس نے تمہیں فضیلت دی کیونکہ وہ فضل واحسان پر قادر ہے تو وہی عبادت کا مستحق ہے اور اس کے فضل و احسان کا تقاضا ہے کہ اس کا شکر اور حق ادا کیا جائے نہ کہ ناشکری اور شرک کیا جائے۔

{ وَ اِذْ اَنْجَیْنٰكُمْ:اور یاد کرو جب ہم نے تمہیں نجات دی۔} اس آیت کی تفسیر سورۂ بقرہ آیت 49میں گزر چکی ہے۔ اس مقام پر یہ آیت ذکر کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے تم پر یہ عظیم انعام فرمایا تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت میں مشغول ہونا کیسے روا ہو گا؟ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۱، ۵ / ۳۵۱)

7:141
وَ اِذْ اَنْجَیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِۚ-یُقَتِّلُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْؕ-وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ۠(۱۴۱)
اور یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعون والوں سے نجات بحشی کہ تمہیں بری مار دیتے تمہارے بیٹے ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیاں باقی رکھتے، اور اس میں رب کا بڑا فضل ہوا (ف۲۵۸)

7:142
وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةًۚ-وَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِـعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ(۱۴۲)
اور ہم نے موسیٰ سے (ف۲۵۹) تیس رات کا وعدہ فرمایا اور ان میں (ف۲۶۰) دس اور بڑھا کر پوری کیں تو اس کے رب کا وعدہ پوری چالیس رات کا ہوا (ف۲۶۱) اور موسیٰ نے (ف۲۶۲) اپنے بھائی ہارون سے کہا میری قوم پر میرے نائب رہنا اور اصلاح کرنا اور فسادیوں کی راہ کو دخل نہ دینا،

{ وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى:اور ہم نے موسیٰ سے وعدہ فرمایا۔} اس آیت میں تورات نازل ہونے کی کیفیت کا بیان ہے ۔

نُزولِ تورات کا واقعہ :

اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مصر میں بنی اسرائیل سے وعدہ فرمایا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ اُن کے دشمن فرعون کو ہلاک فرما دے گا تو وہ اُن کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک کتاب لائیں گے جس میں حلال و حرام کا بیان ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کر دیاتو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے اُس کتاب کو نازل فرمانے کی درخواست کی، انہیں حکم ملا کہ تیس روزے رکھیں ،یہ ذوالقعدہ کا مہینہ تھا۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روزے پورے کرچکے تو آپ کو اپنے دہن مبارک میں ایک طرح کی بو معلوم ہوئی ، اس وجہ سے آپ نے مسواک کر لی۔ فرشتوں نے ان سے عرض کی: ’’ ہمیں آپ کے دہن مبارک سے بڑی محبوب خوشبو آیا کرتی تھی، آپ نے مسواک کرکے اس کو ختم کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم فرمایا کہ ماہ ذی الحجہ میں دس روزے اور رکھیں اور ارشاد فرمایا کہ ’’ اے موسیٰ !کیا تمہیں معلوم نہیں کہ روزے دار کے منہ کی خوشبو میرے نزدیک مشک کی خوشبوسے زیادہ پاکیزہ ہے۔ (بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۳ / ۵۶، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ص۳۸۴، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۵ / ۳۵۱-۳۵۲، ملتقطاً)

{ وَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ:اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےپہاڑ پر مناجات کے لئے جاتے وقت اپنے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا ’’تم میرے واپس آنے تک میری قوم میں میرے نائب بن کر رہو اور بنی اسرائیل کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، ان کے ساتھ بھلائی کرنا اور انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ابھارنا اور بنی اسرائیل کے ان لوگوں کے طریقے پر نہ چلنا جو زمین میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّکی نافرمانی کر کے اور گناہگاروں کی ان کے گناہ پر مدد کر کے فساد برپا کرتے ہیں بلکہ جو لوگ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے اطاعت گزار بندے ہیں ان کے طریقے کو اختیار کرنا۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۲ / ۱۶۳، تفسیر طبری، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۶ / ۴۹)

یاد رہے کہ یہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جو اصلاح اور صحیح راستے پر چلنے کا فرمایا وہ حقیقت میں آپ کے واسطے سے بنی اسرائیل کو فرمایا تھا ورنہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامتو فسادیوں کے راستے پر چلنے سے معصوم ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ فرمانا بطورِ تاکید و اِستقامت کے ہو۔

7:143
وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِیْقَاتِنَا وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗۙ-قَالَ رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَؕ-قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْۚ-فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰى صَعِقًاۚ-فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۴۳)
اور جب موسیٰ ہمارے وعدہ پر حاضر ہوا اور اس سے اس کے رب نے کلام فرمایا (ف۲۶۳) عرض کی اے رب میرے! مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے دیکھوں فرمایا تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا (ف۲۶۴) ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا (ف۲۶۵) پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نو ر چمکایا اسے پاش پاش کردیا اور موسیٰ گرا بیہوش پھر جب ہوش ہوا بولا پاکی ہے تجھے میں تیری طرف رجوع لایا اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں (ف۲۶۶)

{وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗ:اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا۔} اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کلام فرمایا اس پر ہمارا ایمان ہے اور ہماری کیا حیثیت ہے کہ ہم اس کلام کی حقیقت سے بحث کرسکیں۔ کتابوں میں مذکور ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کلام سننے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت کی اور پاکیزہ لباس پہنا اور روزہ رکھ کر طورِ سینا میں حاضر ہوئے ۔اللہ تعالیٰ نے ایک بادل نازل فرمایا جس نے پہاڑ کو ہر طرف سے چار فرسنگ (یعنی12میل) کی مقدار ڈھک لیا۔ شیاطین اور زمین کے جانور حتّٰی کہ ساتھ رہنے والے فرشتے تک وہاں سے علیحدہ کردیئے گئے۔ آپ کے لئے آسمان کھول دیا گیا تو آپ نے ملائکہ کو ملاحظہ فرمایا کہ ہوا میں کھڑے ہیں اور آپ نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھا یہاں تک کہ اَلواح پر قلموں کی آواز سنی اوراللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام فرمایا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کی بارگاہ میں اپنے معروضات پیش کئے، اُس نے اپنا کلام کریم سنا کر نوازا۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آپ کے ساتھ تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جو کچھ فرمایا وہ اُنہوں نے کچھ نہ سنا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلامِ ربانی کی لذت نے اس کے دیدار کا آرزو مند بنایا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۱۳۶، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۲۲۹-۲۳۰)

{قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ:فرمایا:تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تو کلامِ ربانی کی لذت نے انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیدار کا مشتاق بنا دیا چنانچہ بارگاہِ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّمیں عرض کی: اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیرا دیدار کرلوں ‘‘ یعنی صرف دل یا خیال کا دیدار نہیں مانگتا بلکہ آنکھ کا دیدار چاہتا ہوں کہ جیسے تو نے میرے کان سے حجاب اٹھا دیا تو میں نے تیرا کلامِ قدیم سن لیا ایسے ہی میری آنکھ سے پردہ ہٹا دے تاکہ تیرا جمال دیکھ لوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا: تم دنیا میں میرا دیدار کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۷۰۷)

اللہ تعالیٰ کا دیدار ناممکن نہیں :

            اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن نہیں بلکہ اسی آیت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہونے پر کئی دلائل ہیں۔

          پہلی دلیل: اگر دیدارِ الٰہی ناممکن تھا تو اس کی دعا کرنا ناجائز ہوتا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامجو کہ نبوت کے علوم و معارف اور اس کے اَسرار کے حامل ہیں وہ ہر گز یوں دعا نہ کرتے ’’رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَ‘‘اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیرا دیدار کرلوں۔ اور اگر بالفرض یہ دعا ناجائز ہوتی تو اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایسی دعا کرنے سے منع فرما دیتا۔  

          دوسری دلیل : اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے فرمایا:’’لَنْ تَرٰىنِیْ: تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دیکھنے کی نفی کی ہے، یہ نہیں فرمایا کہ میرا دیکھنا ممکن نہیں۔

           تیسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْ‘‘ البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ، یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے دیکھنے کو پہاڑ کے اپنی جگہ برقرار رہنے پر مُعلَّق کیا اور پہاڑ کا اپنی جگہ پر برقرار رہنا فی نفسہ ممکن ہے اور جو ممکن پر موقوف ہوتا ہے وہ بھی ممکن ہوتا ہے ، لہٰذاثابت ہوا کہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن تھا۔ سرِ دست یہ تین دلائل عرض کئے ہیں ، ان کے علاوہ قرآن پاک کی کئی آیات اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے اور قیامت کے دن ایمان والے اس سعادت سے بہرہ مند ہوں گے ۔ صحیح بخاری میں ہے ،حضرت عدی بن حاتم  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے ہر شخص کے ساتھ اس کا رب عَزَّوَجَلَّ کلام فرمائے گا اس شخص کے اورا س کے رب عَزَّوَجَلَّکے درمیان کوئی ترجمان ہو گا اور نہ کوئی حجاب ہو گا جو اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھنے سے مانع ہو۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: وجوہ یومئذ ناضرۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۵۶، الحدیث: ۷۴۴۳۔)

            نوٹ: آخرت میں مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہونے سے متعلق تفصیلی دلائل سورۂ انعام کی آیت نمبر 103 کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔

 

7:144
قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ ﳲ فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ(۱۴۴)
فرمایا اے موسیٰ میں نے تجھے لوگوں سے چن لیا اپنی رسالتوں اور اپنے کلام سے، تو لے جو میں نے تجھے عطا فرمایا اور شکر والوں میں ہو،

{قَالَ یٰمُوْسٰى:فرمایا اے موسیٰ۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو دیدار کے مطالبے پر منع فرما دیا تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر کئے گئے انعامات کو گِنوا کر انہیں تسلی دیتے ہوئے شکر کرنے کا حکم دے رہا ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا: ’’اے موسیٰ! دیدار کا مطالبہ کرنے پر اگرچہ تجھے منع کر دیا گیا لیکن میں نے تمہیں فلاں فلاں عظیم نعمتیں تو عطا فرمائی ہیں لہٰذا دیدار سے منع کرنے پر اپنا سینہ تنگ نہ کرو، تم ان نعمتوں کی طرف دیکھو جن کے ساتھ میں نے تمہیں خاص کیا کہ میں نے اپنی رسالتوں کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلیا اور تمہیں مجھ سے بلا واسطہ ہم کلامی کا شرف عطا ہوا جبکہ دیگر انبیاء و مرسَلینعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرشتے کے واسطے سے کلام ہوا۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۴، ۲ / ۱۳۸)

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا اپنے زمانے کے لوگوں پر انتخاب ہوا:

یاد رہے کہ آیت میں جو بیان ہو ا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اپنی رسالتوں اور اپنے کلام کے ساتھ لوگوں پر منتخب کرلیا ‘‘ اس میں لوگوں سے مراد اُن کے زمانے کے لوگ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے زمانے کے لوگوں میں سب سے زیادہ عزت و مرتبے والے ، شرافت ووجاہت والے تھے کیونکہ آپ صاحبِ شریعت تھے اور آپ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب تورات بھی نازل ہوئی۔ لہٰذا اس سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور تاجدارِ رسا لت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۴، ۲ / ۱۳۸، صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۴، ۲ / ۷۰۸، ملتقطاً)

7:145
وَ كَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَّ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍۚ-فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّ اْمُرْ قَوْمَكَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَاؕ-سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ(۱۴۵)
اور ہم نے اس کے لیے تختیوں میں (ف۲۶۷) لکھ دی ہر چیز کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل، اور فرمایا اے موسیٰ اسے مضبوطی سے لے اور اپنی قوم کو حکم دے کر اس کی اچھی باتیں اختیار کریں (ف۲۶۸) عنقریب میں تمہیں دکھاؤں گا بے حکموں کا گھر (ف۲۶۹)

{وَ كَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ:اور ہم نے اس کے لیے تختیوں میں لکھ دی۔} حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ اَلْاَلْوَاحِ‘‘ یعنی تختیوں سے مراد تورات کی تختیاں ہیں اور آیت کامعنی یہ ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیلئے تورات کو تختیوں میں لکھ دیا، جن تختیوں میں تورات کو لکھا گیا وہ زبر جد یا زمرد کی تھیں اور ان کی تعداد سات یا دس تھی۔ تورات عید الاضحی کے دن حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئی۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۲ / ۱۳۸، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۵ / ۳۶۰، ملتقطاً)

            نیزاس آیت میں مزید یہ چیزیں بیان ہوئی ہیں :

(1)…ہر چیز کی نصیحت، اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کو اپنے دین میں حلال حرام اور اچھی بری چیزوں سے متعلق جن احکام کی ضرورت تھی وہ سب تورات میں لکھی ہوئی تھیں۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۵ / ۳۶۰)

(2)… ہر چیز کی تفصیل، اس کا معنی یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو جتنے احکامِ شرعیہ دئیے گئے تھے تورات میں ان تمام احکام کی تفصیل لکھ دی تھی۔ (تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۴ / ۲۰۳، الجزء السابع)

 (3)… تورات کو مضبوطی سے پکڑنا۔ قوت اور مضبوطی سے پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ بڑی کوشش، چستی، ہوشیاری اور شوق سے اس میں موجود احکام پر عمل کرنے کا عزم کر کے اس کو ہاتھ میں لو۔ (قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۴ / ۲۰۳، الجزء السابع، بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۳ / ۵۸، ملتقطاً)

            نوٹ:یاد رہے کہ ا س میں خطاب اگرچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ہے لیکن اس سے مراد آپ کے ساتھ آپ کی قوم بھی ہے۔

(4)…تورات کی اچھی باتیں اختیار کرنے کا حکم دینا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ تورات میں جو احکام مذکور ہیں ان میں جو زیادہ بہتر ہو اسے اختیار کرنے کا حکم دو کیونکہ تورات میں عزیمت اور رخصت،جائز اور مُستحب اُمور کا بھی ذکر ہے۔ عزیمت پر عمل کرنا رخصت پر عمل کے مقابلے میں بہترہے (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۲ / ۷۰۹)

ایک قول یہ ہے کہ تورات میں اَمر و نہی کا بیان ہے ، تو جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اسے کرنے اور جس سے منع کیا گیا ہے اس سے رک جانے کا حکم دو۔ (تفسیر طبری، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۶ / ۵۹)

           اور ایک قول یہ ہے کہ تورات میں فرائض ،نوافل اور مباح کاموں کے احکام ہیں۔ فرائض و نوافل پر عمل کرنا بہترین عمل ہے اور صرف فرائض پر عمل کرنا ا س سے کم درجے کا ہے اور مباح پر عمل کرنا اس سے بھی کم درجے کا ہے۔ تو جو عمل بہترین ہے اس کے کرنے کا حکم دو۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۵ / ۳۶۰)

{سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ:عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا گھر دکھاؤں گا۔} مفسرین نے اس آیت کے کئی معنی بیان کئے ہیں۔حضرت حسن اور عطا  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمانے کہا کہ بے حکموں کے گھر سے جہنم مراد ہے۔ اور حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہ کا قول ہے کہ’’ معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں شام میں داخل کروں گا اور گزری ہوئی اُمتوں کے منازل دکھاؤں گا جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مخالفت کی تاکہ تمہیں اس سے عبرت حاصل ہو ۔ اور عطیہ عوفی کا قول ہے کہ دَارَ الْفٰسِقِیْنَسے فرعون اور اس کی قوم کے مکانات مراد ہیں جومصر میں ہیں۔ اور مفسر سدی کا قو ل ہے کہ اس سے منازلِ کفار مراد ہیں۔ کلبی نے کہا کہ اس سے عاد وثمود اور ہلاک شدہ اُمتوں کے منازل مراد ہیں جن پر عرب کے لوگ اپنے سفروں میں ہو کر گزرا کرتے تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۲ / ۱۴۰)

7:146
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-وَ اِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَاۚ-وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًاۚ-وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًاؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ(۱۴۶)
اور میں اپنی آیتوں سے انہیں پھیردوں گا جو زمین میں ناحق اپنی بڑا ئی چاہتے ہیں (ف۲۷۰) اور اگر سب نشانیاں دیکھیں ان پر ایمان نہ لائیں اور اگر ہدایت کی راہ دیکھیں اس میں چلنا پسند نہ کریں (ف۳۲۷۱) اور گمراہی کا راستہ نظر پڑے تو اس میں چلنے کو موجود ہوجائیں، یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں اور ان سے بے خبر بنے،

{ سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیْ:اور میں اپنی آیتوں سے پھیردوں گا۔} مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان کئے ہیں۔  حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :اس کا معنی یہ ہے کہ جو لوگ میرے بندوں پر غرور کرتے ہیں اور میرے اولیاء سے لڑتے ہیں میں انہیں اپنی آیتیں قبول کرنے اور ان کی تصدیق کرنے سے پھیردوں گا تاکہ وہ مجھ پر ایمان نہ لائیں۔یہ اُن کے عناد کی سزا ہے کہ انہیں ہدایت سے محروم کیا گیا۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۲ / ۱۶۷)

تکبر کی تعریف اور ا س کی اَقسام:

            اس آیت میں ناحق تکبر کرنے والوں کے لئے بڑی عبرت ہے۔ تکبر کی تعریف یہ ہے کہ دوسروں کو حقیر جاننا ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ‘‘تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۷(۹۱))

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : تکبر کی تین قسمیں ہیں

(1)…وہ تکبر جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ہو جیسے ابلیس، نمرود اور فرعون کا تکبر یا ایسے لوگوں کا تکبر جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بندوں سے نفرت کے طور پر منہ پھیرتے ہیں۔

(2)…وہ تکبر جو اللہ تعالیٰ کے رسول کے مقابلے میں ہو ،جس طرح کفارِ مکہ نے کیا اور کہا کہ ہم آپ جیسے بشر کی اطاعت نہیں کریں گے ،ہماری ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی فرشتہ یا سردار کیوں نہیں بھیجا، آپ تو ایک یتیم شخص ہیں۔

(3)…وہ تکبر جو آدمی عام انسانوں پر کرے، جیسے انہیں حقارت سے دیکھے ،حق کو نہ مانے اور خود کو بہتر اور بڑا جانے۔ (کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات، اصل نہم، پیدا کردن درجات کبر، ۲ / ۷۰۷-۷۰۸)

تکبر کی تینوں اقسام کا حکم:

                                                اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جناب میں تکبر کرنا کفر ہے جبکہ عام بندوں پر تکبر کرنا کفر نہیں لیکن اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔

تکبر کا ثمرہ اور انجام:

            اس آیت میں نا حق تکبر کا ثمرہ اور تکبر کرنے والوں کا جو انجام بیان ہوا کہ ناحق تکبر کرنے والے اگر ساری نشانیاں دیکھ لیں تو بھی وہ ایمان نہیں لاتے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں تو وہ اسے اپنا راستہ نہیں بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا راستہ بنا لیتے ہیں ‘‘اس سے معلوم ہوا کہ غرور وہ آگ ہے جو دل کی تمام قابلیتوں کو جلا کر برباد کر دیتی ہے خصوصاً جبکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبولوں کے مقابلے میں تکبر ہو۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ۔ قرآن و حدیث سے ہر کوئی ہدایت نہیں لے سکتا، اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

 ’’ یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًا‘‘ (بقرہ:۲۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اللہ بہت سے لوگوں کواس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا فرماتا ہے۔

             تکبر ہی نے ابلیس کے دل میں حسد کی آگ بھڑکائی، اور اس کی تمام عبادات برباد کر کے رکھ دیں۔ [1]


[1] تکبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’تکبر‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ فرمائیں۔

7:147
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْؕ-هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠(۱۴۷)
اور جنہوں نے ہماری آیتیں اور آخرت کے دربار کو جھٹلایا ان کا سب کیا دھرا اَکارت گیا، انہیں کیا بدلہ ملے گا مگر وہی جو کرتے تھے،

7:148
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌؕ-اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَ لَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًاۘ-اِتَّخَذُوْهُ وَ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ(۱۴۸)
اور موسیٰ کے (ف۲۷۲) بعد اس کی قوم اپنے زیوروں سے (ف۲۷۳) ایک بچھڑا بنا بیٹھی بے جان کا دھڑ (ف۲۷۴) گائے کی طرف آواز کرتا، کیا نہ دیکھا کہ وہ ان سے نہ بات کرتا ہے اور نہ انہیں کچھ راہ بتائے (ف۲۷۵) اسے لیا اور وہ ظالم تھے (ف۲۷۶)

{وَ اتَّخَذَ:اور بنالیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 3آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّسے کلام کرنے کیلئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو ان کے جانے کے تیس دن بعد سامری نے بنی اسرائیل سے وہ تمام زیوارت جمع کر لئے جو انہوں نے اپنی عید کے دن قبطیوں سے استعمال کی خاطر لئے تھے ۔ فرعون چونکہ اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہو چکا تھا، اس لئے یہ زیورات بنی اسرائیل کے پاس تھے اور سامری کی حیثیت بنی اسرائیل میں ایسی تھی کہ لوگ اس کی بات کواہمیت دیتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ سامری چونکہ سونے کو ڈھالنے کا کام کرتا تھا اس لئے اس نے تمام سونے چاندی کو ڈھال کر اس سے ایک بے جان بچھڑا بنایا۔ پھر سامری نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے گھوڑے کے سُم کے نیچے سے لی ہوئی خاک اس بچھڑے میں ڈالی تو اس کے اثر سے وہ گوشت اور خون میں تبدیل ہو گیا (اور بقولِ دیگر وہ سونے ہی کا بچھڑا تھا) اور گائے کی طرح ڈکارنے لگا۔ سامری کے بہکانے پر بنی اسرائیل کے بارہ ہزار لوگوں کے علاوہ بقیہ سب نے اس بچھڑے کی پوجا کی۔ یہ لوگ اتنے بے وقوف اور کم عقل تھے کہ اتنی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ یہ بچھڑا نہ تو ان سے سوال جواب کی صورت میں کلام کر سکتا ہے، نہ انہیں رشد و ہدایت کی راہ دکھا سکتا ہے تو یہ معبود کس طرح ہو سکتا ہے۔ حالانکہ بنی اسرائیل جانتے تھے کہ رب وہ ہے جو قادرِ مُطْلَق، علیم، خبیر اور ہادی ہو اور نبی کے واسطے سے مخلوق سے کلام فرمائے۔ بچھڑا چونکہ راہ ِہدایت نہ دکھا سکتا تھا اس اعتبار سے وہ جماد کی طرح تھا۔ بنی اسرائیل  نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے اِعراض کر کے ایسے عاجز و ناقص بچھڑے کو پوجا تو وہ ظالم ٹھہرے۔ پھر جب اپنے اس کرتوت پرشرمندہ ہوئے اور سمجھ گئے کہ وہ یقینا گمراہ ہوگئے تھے تو کہنے لگے: اگر ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہماری مغفرت نہ فرمائی تو ہم ضرور تباہ ہوجائیں گے۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی مناجات سے مشرف ہو کر کوہ ِطور سے اپنی قوم کی طرف واپس پلٹے تو بہت زیادہ غم و غصے میں بھرے ہوئے تھے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں خبر دے دی تھی کہ سامری نے اُن کی قوم کو گمراہ کردیا ہے۔ آپ کو جھنجلاہٹ اور غصہ سامری پر تھا نہ کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہلے سے بتا دیا تھا کہ انہیں سامری نے گمراہ کیا ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے (قوم سے فرمایا کہ تم نے میرے بعد کتنا برا کام کیا کہ شرک کرنے لگے اور میرے تورات لے کر آنے کا انتظار بھی نہ کیا۔ دوسرے قول کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ) حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اپنی قوم کے ان لوگوں سے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہ کی تھی فرمایا: تم نے میرے بعد کتنا برا کام کیا کہ لوگوں کو بچھڑا پوجنے سے نہ روکا ۔کیا تم نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم میں جلدی کی اور میرے توریت لے کر آنے کا انتظار نہ کیا؟ اس کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تورات کی تختیاں زمین پر ڈال دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی قوم کا ایسی بدترین معصیت میں مبتلا ہونا نہایت شاق اور گراں ہوا تب حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میں نے قوم کو روکنے اور ان کو وعظ و نصیحت کرنے میں کمی نہیں کی لیکن قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے تو تم مجھ پر دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دو اور میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کرو جس سے وہ خوش ہوں اور مجھے ظالموں کے ساتھ شمار نہ کرو۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بھائی کا عذر قبول کرکے بارگاہِ الہٰی میں عرض کی: اے میرے رب! اگر ہم میں سے کسی سے کوئی اِفراط یا تفریط ہوگئی تومجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی خاص رحمت میں داخل فرما اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔یہ دعا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس لئے مانگی کہ دوسرے لوگ یہ سن کر خوش نہ ہوں کہ بھائیوں میں چل گئی اور اس کے ساتھ یہ وجہ بھی تھی کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا غم غلط ہو جائے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۸-۱۵۰، ۲ / ۱۴۰-۱۴۲، ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۸-۱۵۱، ۲ / ۲۹۷ -۲۹۹، ملتقطاً)

نوٹ:یہ واقعہ اجمالی طور پر سورۂ بقرہ آیت 51تا54میں گزر چکا ہے، مزید تفصیل کے ساتھ ا س کے علاوہ سورۂِ طٰہٰ میں بھی مذکور ہے ۔

{وَ اَلْقَى الْاَلْوَاحَ:اور تختیاں ڈال دیں۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب اپنی قوم کو بچھڑے کی پوجا کرتے دیکھا تو دینی حمیت اور اللہ ربُّ الْعالمین کے ساتھ شرک پر غیرت کی وجہ سے شدید غضبناک ہوئے اور عُجلَت میں تورات کی تختیاں زمین پر رکھ دیں تاکہ ان کا ہاتھ جلدی فارغ ہو جائے اور وہ اپنے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا سر پکڑ سکیں۔ اسے قرآنِ پاک میں ڈالنے سے تعبیر کیا گیا۔ اس ڈالنے میں کسی بھی طرح تورات کی تختیوں کی بے حرمتی مقصود نہ تھی اور وہ جو منقول ہے کہ بعض تختیاں ٹوٹ گئیں تواگر وہ درست ہے تو وہ عجلت میں زمین پر رکھنے کی وجہ سے ٹوٹی ہوں گی ، نہ یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی غرض تھی اور نہ ہی ان کو یہ گمان تھا کہ ایساہو جائے گا ۔یہاں پر صرف دینی حمیت اور فَرطِ غضب کی وجہ سے جلدی میں ان تختیوں کو زمین پر رکھنا مراد ہے۔ (روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۵ / ۹۰-۹۱)

{فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ:تو تم مجھ پر دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دو۔} شَمَاتت کا معنی ہے کسی کی تکلیف پر خوش ہونا۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۲ / ۱۴۲)

شماتت کی مذمت:

فی زمانہ دینی اور دنیوی دونوں شعبوں میں شَمَاتت کے نظارے بہت عام ہیں ، مذہبی لوگ اور اسی طرح کاریگر، دوکاندار، کارخانے ،فیکٹری یا مل میں ملازمت کرنے والے، یونہی کسی کمپنی، ادارے یابینک میں جاب کرنے والے، ان کی اکثریت بھی شَمَاتت یعنی اپنے مسلمان بھائی پر آنے والی مصیبت پر خوش ہونے کے مذموم فعل میں مبتلا نظر آتی ہے اور بعض اوقات تو یوں ہوتا ہے کہ اگر آپس میں کسی وجہ سے ناراضی ہو جائے تو پھر جس سے ناراضی ہو تی ہے اگر وہ یا اس کے گھر میں سے کوئی بیمار ہو جائے، اُس کے یہاں ڈاکہ پڑ جائے یا اس کا مال چوری ہوجائے ،یاکسی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوجائے، یاحادِثہ ہو جائے ، یامُقَدَّمہ قائم ہوجائے یا پولیس گرفتار کر لے، یاگاڑی کا نقصان یا چالان ہو جائے، الغرض وہ کسی طرح کی بھی مصیبت میں پھنس جائے تو ناراض ہونے والے صاحب بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ بعض حضرات جو کہ ضرورت سے زیادہ باتونی اور بے عمل ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ’’بڑا پہنچا ہوا‘‘ سمجھ بیٹھتے ہیں وہ تو یہاں تک بول پڑتے ہیں کہ دیکھا !ہم کو ستایا تھا نا تو اُس کے ساتھ ’’ ایسا‘‘ ہو گیا ! گویا وہ چھپی باتوں اور سَربَستہ ( یعنی خفیہ ) رازوں کے جاننے والے ہیں اور آں بدولت (یعنی اِن) کو اپنے مخالف پر آنے والی مصیبت کے اسباب معلوم ہو جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کو چاہئے کہ ذیل میں مذکور روایت اور امام غزالی کے فرمان سے عبرت حاصل کریں ، چنانچہ

حضرت واثلہ بن اسقع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’لَا تُظْہِرِ الشَّمَاتَۃَ لِاَخِیْکَ فَیَرْحَمُہُ اللہُ وَیَبْتَلِیْکَ‘‘ اپنے بھائی کی شَماتَت نہ کر (یعنی اس کی مصیبت پر اظہار ِمَسَرَّت نہ کر) کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا اور تجھے اس میں مبتَلا کردے گا۔(ترمذی، کتاب صفۃ یوم القیامۃ، ۵۴-باب، ۴ / ۲۲۷، الحدیث: ۲۵۱۴)

حضرت امام محمدبن محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کہا گیا ہے کہ کچھ گناہ ایسے ہیں جن کی سزا’’برا خاتمہ‘‘ ہے ہم اس سے اللہ عَزَّوَجَلَّکی پناہ چاہتے ہیں۔ یہ گناہ’’ ولایت اور کرامت کاجھوٹا دعویٰ کرنا ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب قواعد العقائد، الفصل الرابع من قواعد العقائد فی الایمان والاسلام۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۷۱)

یاد رہے کہ اگرکسی مسلمان کی مصیبت پر دل میں خود بخود خوشی پیدا ہوئی تو اِس کا قصور نہیں تا ہم اِس خوشی کو دل سے نکالنے کی بھر پور سَعی کرے، اگر خوشی کا اظہار کرے گا تو شماتت کا مُرتکب ہو گا ۔لہٰذاہر مسلمان کو چاہئے کہ دوسرے مسلمان کی تکلیف پر خوشی کے اظہار سے بچے اور شیطان کے دھوکے میں آ کر خود کو’’بڑا پہنچا ہوا‘‘ نہ سمجھے اور اس سے بچنے کی دعا بھی کرتا رہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سخت مصیبت، بد بختی کے آنے، بری تقدیر اور دشمنوں کے طعن و تشنیع سے پناہ مانگا کرتے تھے۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب التعوّذ من جہد البلاء، ۴ / ۲۰۲، الحدیث: ۶۳۴۷)

 {قَالَ:عرض کی۔} یہ دعا ئے مغفرت امت کی تعلیم کے لئے ہے، ورنہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اس لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بھائی کو اس دعا میں شامل فرمایا حالانکہ ان سے کوئی کوتاہی سرزد نہ ہوئی تھی۔ نیز اس دعا میں حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی دلجوئی اور قوم کے سامنے ان کے اکرام کا اظہار بھی مقصودتھا۔

7:149
وَ لَمَّا سُقِطَ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ وَ رَاَوْا اَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوْاۙ-قَالُوْا لَىٕنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَ یَغْفِرْ لَنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۱۴۹)
اور جب پچھتائے اور سمجھے کہ ہم بہکے بولے اگر ہمارا رب ہم پر مہر ہ کرے اور ہمیں نہ بخشے تو ہم تباہ ہوئے،

7:150
وَ لَمَّا رَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًاۙ-قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْۢ بَعْدِیْۚ-اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْۚ-وَ اَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْهِ یَجُرُّهٗۤ اِلَیْهِؕ-قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ كَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ ﳲ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَ لَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۱۵۰)
اور جب موسیٰ (ف۲۷۷) اپنی قوم کی طرف پلٹا غصہ میں بھرا جھنجلایا ہوا (ف۲۷۸) کہا تم نے کیا بری میری جانشینی کی میرے بعد (ف۲۷۹) کیا تم نے اپنے رب کے حکم سے جلدی کی (ف۲۸۰) اور تختیاں ڈال دیں (ف۲۸۱) اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگا (ف۲۸۲) کہا اے میرے ماں جائے (ف۲۸۳) قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالیں تو مجھ پر دشمنوں کو نہ ہنسا (ف۲۸۴) اور مجھے ظالموں میں نہ ملا (ف۲۸۵)

7:151
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ ﳲ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۠(۱۵۱)
عرض کی اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے (ف۲۸۶) اور ہمیں اپنی رحمت کے اندر لے لے اور تو سب مہر والوں سے بڑھ کر مہر والا

7:152
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ ذِلَّةٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ(۱۵۲)
بیشک وہ جو بچھڑا لے بیٹھے عنقریب انہیں ان کے رب کا غضب اور ذلت پہنچناہے دنیا کی زندگی میں، اور ہم ایسی ہی بدلہ دیتے ہیں بہتان ہایوں (باندھنے والوں) کو،

{اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ:بیشک وہ لوگ جنہوں نے بچھڑے کو (معبود)بنالیا ۔} اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ بچھڑا پوجنے والے لوگ ہیں جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے کوہِ طور سے واپس آنے سے پہلے ہی مر گئے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ یہودی ہیں کہ جنہوں نے بچھڑے کو پوجااور بعد میں توبہ نہ کی۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۴ / ۳۹۵) تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قتل ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کی۔ اس صورت میں غضب سے مراد قتل ہونا اور ذلت سے مراد گمراہی کا اعتراف کرنا اور قتل ہونے کاحکم تسلیم کرنا ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے کے یہودی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضور سیدُ المرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پایا اور اُن کے آباء و اَجداد بچھڑے کی پوجا کرتے تھے اور غضب سے مراد آخرت کا عذا ب اور دنیا میں ذلت سے مراد جزیہ دینا ہے۔ عطیہ عوفی کا قول ہے کہ’’ غضب سے مراد بنو نضیر اور بنو قریظہ کا مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونا اور ذلت سے مراد انہیں حجاز سے جلا وطن کرنا ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۲ / ۱۴۳)

{وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ:اور ہم بہتان باندھنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔} یعنی جس طرح ہم نے ان بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کو بدلہ دیا اسی طرح ہم ہر اس شخص کو بدلہ دیں گے جو اللہ عَزَّوَجَلَّپر جھوٹ باندھے اور غیرِ خدا کی عبادت کرے۔ ابو قلابہ کہتے ہیں ’’اللہ کی قسم! یہ قیامت تک ہر بہتان باندھنے والے کی جزاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے گا۔ حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ سزا قیامت تک آنے والے ہر بدعتی کے بارے میں ہے۔حضرت مالک بن انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ ہر بدعتی اپنے سر کے اوپر سے ذلت پائے گاپھر یہی آیت تلاوت فرمائی۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۲ / ۱۴۳)

بدعت کی تعریف:

           بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیز اور بدعت کے شرعی معنی ہیں وہ عقائد یا وہ اعمال جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات کے زمانہ میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہوئے ہوں۔(جاء الحق، حصہ اول، پہلا باب: بدعت کے معنی اور اس کے اقسام واحکام میں، ص۱۷۷)

بدعت کی اقسام:

           بنیادی طور پر بدعت کی دو قسمیں ہیں (1) بدعتِ حَسنہ (2) بدعتِ سَیّئہ۔ بدعتِ حسنہ یہ ہے کہ وہ نیا کام جو کسی سنت کے خلاف نہ ہو۔ اور بدعتِ سیئہ یہ ہے کہ دین میں کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرنا کہ جس کی اصل کتاب و سنت میں نہ ہو اورا س کی وجہ سے شریعت کا کوئی حکم تبدیل ہو رہا ہو۔

7:153
وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِهَا وَ اٰمَنُوْۤا٘-اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۵۳)
اور جنہوں نے برائیاں کیں اور ان کے بعد توبہ کی اور ایمان لائے تو اس کے بعد تمہارا رب بخشنے والا مہربان ہے (ف۲۸۷)

{وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ:اور وہ لوگ جنہوں نے برے اعمال کئے۔} اس آیت میں گناہ کے بعد توبہ کرنے والوں کیلئے بہت بڑی بشارت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ِبے پایاں کا ذکر ہے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص نے گناہ کا کوئی پہلو نہ چھوڑا یعنی کفر تک کا اِرتِکاب کیا، پھر اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں اپنے تمام گناہوں سے سچی توبہ کر لی اور ایمان لایا اورا س توبہ پر قائم رہا تو اللہ تعالیٰ اس کے سب گناہ بخش دے گا اور اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۳، ۲ / ۱۴۳)

            اس آیت سے ثابت ہوا کہ گناہ خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ جب بندہ اُن سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اپنے فضل و رحمت سے اُن سب کو معاف فرماتا ہے۔  

توبہ کے فضائل:

            کثیر احادیث میں بھی گناہوں سے سچی توبہ کی قبولیت اور ا س کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ترغیب کے لئے ان میں سے دو اَحادیث درج ذیل ہیں۔

(1)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اگر تم اتنے گناہ کرو کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں اور پھر تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کرو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری توبہ قبول فرما لے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ، ۴ / ۴۹۰، الحدیث: ۴۲۴۸)

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے تم میں سے کسی کا اونٹ جنگل میں گم ہو نے کے بعد دوبارہ اسے مل جائے (بخاری، کتاب الدعوات، ۴ / ۱۹۱، الحدیث: ۶۳۰۹)۔ ([1])

رحمتِ الٰہی کی وسعت :

            اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ذکر ہوا ،اس مناسبت سے یہاں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے بیان پر مشتمل ایک حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں۔ ان میں سے ایک رحمت اس نے جن و اِنس، حیوانات اور حشراتُ الارض میں نازل کی جس سے وہ ایک دوسرے پر شفقت اور رحم کرتے ہیں ، اسی سے وحشی جانور اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں بچا رکھی ہیں ،ان سے قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔( مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالی وانّہا سبقت غضبہ، ص۱۴۷۲، الحدیث: ۱۹(۲۷۵۲))


[1] توبہ کے فضائل،شرائط اور اس سے متعلق دیگر چیزوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’توبہ کی روایات و حکایات‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔

7:154
وَ لَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ ۚۖ-وَ فِیْ نُسْخَتِهَا هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ یَرْهَبُوْنَ(۱۵۴)
اور جب موسیٰ کا غصہ تھما تختیاں اٹھالیں اور ان کی تحریر میں ہدایت اور رحمت ہے ان کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں،

{وَ لَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ:اور جب موسیٰ کا غصہ تھما۔} اس سے پہلی آیت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حالتِ غضب میں جو کچھ صادر ہوا اس کا ذکر کیا گیا اب اس آیت میں غصہ تھم جانے کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جو واقع ہوا  اسے بیان کیا گیا ہے، چنانچہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپرقوم میں آکر تحقیق کرنے سے بھی یہ ظاہر ہو گیا کہ ا ن کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کوئی کوتاہی سرزد نہ ہوئی تھی اور انہوں نے جو عذر بیان کیا وہ درست تھا توآپ کا غصہ جاتا رہا اور آپ نے تورات کی تختیاں زمین سے اٹھا لیں۔ یاد رہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو غصہ آیا تو آپ نے دو کام کئے تھے (1) تورات کی تختیاں زمین پر ڈال دیں (2) حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو سر سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس کی تلافی میں بھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دو کام کئے (1) تورات کی تختیاں زمین سے اٹھا لیں۔ (2) اپنے بھائی کے لئے دعا کی۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۵ / ۳۷۴)

7:155
وَ اخْتَارَ مُوْسٰى قَوْمَهٗ سَبْعِیْنَ رَجُلًا لِّمِیْقَاتِنَاۚ-فَلَمَّاۤ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَ اِیَّایَؕ-اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّاۚ-اِنْ هِیَ اِلَّا فِتْنَتُكَؕ-تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَآءُ وَ تَهْدِیْ مَنْ تَشَآءُؕ-اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ(۱۵۵)
اور موسیٰ نے اپنی قوم سے سترّ ۷۰، مرد ہمارے وعدہ کے لیے چنے (ف۲۸۸) پھر جب انہیں زلزلہ نے لیا (ف۲۸۹) موسیٰ نے عرض کی اے رب میرے! تو چاہتا تو پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کردیتا (ف۲۹۰) کیا تو ہمیں اس کام پر ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے عقلوں نے کیا (ف۲۹۱) وہ نہیں مگر تیرا آزمانا، تو اس سے بہکائے جسے چاہے اور راہ دکھائے جسے چاہے تو ہمارا مولیٰ ہے تو ہمیں بخش دے اور ہم پر مہر کر اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے،

{وَ اخْتَارَ مُوْسٰى:اور موسیٰ نے منتخب کرلیے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پہلی بار رب عَزَّوَجَلَّسے مناجات کرنے اور تورات لینے تشریف لے گئے تھے۔ اور اس بار گائے کی پوجا کرنے والوں کو معافی دلوانے کیلئے ستر آدمیوں کو ساتھ لے کر تشریف لے گئے، چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہر گروہ سے 6 افراد منتخب کر لئے ،چونکہ بنی اسرائیل کے بارہ گروہ تھے اور جب ہر گروہ میں سے 6 آدمی چنے تودوبڑھ گئے اور جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ مجھے ستر آدمی لانے کا حکم ہوا ہے اور تم 72ہو گئے اس لئے تم میں سے دو آدمی یہیں رہ جائیں تو وہ آپس میں جھگڑنے لگے۔ اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا: رہ جانے والے کو جانے والے کی طرح ہی ثواب ملے گا، یہ سن کرحضرت کالب اور حضرت یوشع عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رہ گئے اور کل ستر آدمی آپ کے ہمراہ گئے۔ یہ ستر افراد ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہ کی تھی۔ (جمل مع جلالین، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ۳ / ۱۱۹) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں روزہ رکھنے، بدن اور کپڑے پاک کرنے کا حکم دیا پھر ان کے ساتھ طورِ سَینا کی طرف نکلے، جب پہاڑ کے قریب پہنچے تو انہیں ایک بادل نے ڈھانپ لیا۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے ساتھ اس میں داخل ہو گئے اور سب نے سجدہ کیا۔ پھر قوم نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا جو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بارے جو حکم دیا وہ توبہ کیلئے اپنی جان دینا تھا ۔ جب کلام کا سلسلہ ختم ہو نے کے بعد بادل اٹھا لیا گیا تو یہ لوگ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے’’ توبہ میں اپنی جانوں کو قتل کرنے کا جو حکم ہم نے سنا اس کی تصدیق ہم اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو اعلانیہ دیکھ نہ لیں۔ اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دیکھتے ہی دیکھتے انہیں شدید زلزلے نے آ لیا اور وہ تمام افراد ہلاک ہو گئے۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ۲ / ۳۰۱، صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ۲ / ۷۱۵، ملتقطاً) یہ دیکھ کرحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گڑگڑا کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کی کہ’’ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو چاہتا تو یہاں حاضر ہونے سے پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کردیتا  تاکہ بنی اسرائیل ان سب کی ہلاکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے اور انہیں مجھ پر قتل کی تہمت لگانے کا موقع نہ ملتا۔ اب جو میں اکیلا واپس جاؤں گا تو بنی اسرائیل کہیں گے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان سب کو مروا آئے ہیں۔ اے مولا! میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔ کیا تو ہمیں اس کام کی وجہ سے ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے عقلوں نے کیا۔ انہوں نے جو کیا یہ تو تیری ہی طرف سے آزمائش ہے تو اس کے ذریعے جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔ تو ہمارا مولیٰ ہے، تو ہمیں بخش دے اور ہم پررحم فرمااور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ شفاعت ِنبی برحق ہے جس سے دنیا ودین کی آفتیں ٹل جاتی ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سب کی شفاعت فرمائی جو اُن کے کام آئی۔

7:156
وَ اكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَاۤ اِلَیْكَؕ-قَالَ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُۚ-وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍؕ-فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَۚ(۱۵۶)
اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائی لکھ (ف۲۹۲) اور آخرت میں بیشک ہم تیری طرف رجوع لائے، فرمایا (ف۲۹۳) میرا عذاب میں جسے چاہوں دوں (ف۲۹۴) اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے (ف۲۹۵) تو عنقریب میں (ف۲۹۶) نعمتوں کو ان کے لیے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکوٰة دیتے ہیں اور وہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں،

{وَ اكْتُبْ لَنَا:اور ہمارے لیے لکھ دے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے زلزلے کے وقت جودعا مانگی اس آیت میں اس کا بقیہ حصہ ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :اے اللہ! ہمارے لیے اس دنیا میں اور آخرت میں بھلائی لکھ دے بیشک ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔ دنیا کی بھلائی سے پاکیزہ زندگی اور نیک اعمال مراد ہیں اور آخرت کی بھلائی سے جنت، اللہ تعالیٰ کا دیدار اور دنیا کی نیکیوں پر ثواب مراد ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ دنیا کی بھلائی سے مراد نعمت اور عبادت ہے اور آخرت کی بھلائی سے مراد جنت ہے اور اس کے علاوہ اور کیا بھلائی ہو سکتی ہے۔ اللہتعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کے بعد فرمایا کہ:’’میری شان یہ ہے کہ میں جسے چاہتا ہوں اپنا عذاب پہنچاتا ہوں کوئی اور اس میں دخل اندازی کر ہی نہیں سکتا اور میری رحمت کی شان یہ ہے کہ میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ،دنیا میں ہر مسلمان،کافر، اطاعت گزار اور نافرمان میری نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۴ / ۳۹۹، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۵ / ۳۷۸، روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۵ / ۱۰۳، ملتقطاً)

{فَسَاَكْتُبُهَا:عنقریب میں آخرت کی  نعمتوں کو لکھ دوں گا۔} جب یہ آیت نازل ہوئی ’’وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ‘‘ تو ابلیس بہت خوش ہوا اور کہنے لگا میں بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت میں داخل ہو گیا، اور جب آیت کا یہ حصہ ’’ فَسَاَكْتُبُهَا‘‘ نازل ہوا تو ابلیس مایوس ہو گیا۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۲ / ۷۱۵-۷۱۶)

            یہودیوں نے جب اس آیت کو سنا تو کہنے لگے ہم متقی ہیں اور ہم زکوٰۃ دیتے ہیں اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تواگلی آیت نازل فرما کر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ یہ فضائل امتِ محمدیہ کے ساتھ خاص ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۲ / ۱۴۶)

7:157
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷)
وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی (ف۲۹۷) جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں (ف۲۹۸) وہ انہیں بھلائی کا حکم دے گا اور برائی سے منع کرے گا اور ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا اور ان پر سے وہ بوجھ (ف۲۹۹) اور گلے کے پھندے (ف۳۰۰) جو ان پر تھے اتا رے گا، تو وہ جو اس پر (ف۳۰۱) ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اترا (ف۳۰۲) وہی بامراد ہوئے،

{اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ:وہ جو رسول کی غلامی کرتے ہیں۔}مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت میں رسول سے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمراد ہیں۔ آیت میں تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر وصف ِرسالت سے فرمایا گیا کیونکہ آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں ، رسالت کے فرائض ادا فرماتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے اَوامرو نَواہی ، شرائع و احکام اس کے بندوں کو پہنچاتے ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۶)

نبی اور اُمّی کا ترجمہ:

اس کے بعد آپ کی توصیف میں ’’نبی ‘‘فرمایا گیا، اس کا ترجمہ سیدی اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ’’غیب کی خبریں دینے والے‘‘ کیا ہے اور یہ نہایت ہی صحیح ترجمہ ہے کیونکہ نَبَاْ ’’ خبر‘‘ کے معنیٰ میں ہے اور نبی کی منفرد خبر بطورِ خاص غیب ہی کی خبر ہوتی ہے تو اس سے مراد غیب کی خبر لینا بالکل درست ہے۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ خبر کے معنیٰ میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا:

’’قُلْ هُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ‘‘(ص:۶۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ وہ (قرآن) ایک عظیم خبر ہے۔

ایک جگہ فرمایا:

’’تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَاۤ اِلَیْكَ‘‘(ہود:۴۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں۔

ایک جگہ فرمایا:

’’ فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْ‘‘(البقرہ:۳۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو جب آدم نے انہیں ان اشیاء کے نام بتادیئے۔

ان کے علاوہ بکثرت آیات میں یہ لفظ اس معنیٰ میں مذکور ہے۔

پھر یہ لفظ یا فاعل کے معنی میں ہوگا یا مفعول کے معنی میں۔ پہلی صورت میں اس کے معنی ہیں ’’غیب کی خبریں دینے والے ‘‘اور دوسری صورت میں اس کے معنی ہوں گے’’ غیب کی خبریں دیئے ہوئے ‘‘ اور ان دونوں معنی کی تائید قرآنِ کریم سے ہوتی ہے ۔پہلے معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے:

’’ نَبِّئْ عِبَادِیْ‘‘ (حجر:۴۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:  میرے بندوں کو خبردو۔

دوسری آیت میں فرمایا:

’’ قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ‘‘ (ال عمران :۱۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:(اے حبیب!)تم فرماؤ ،کیا میں تمہیں بتادوں ؟

اورحضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ارشاد جو قرآنِ کریم میں وارد ہوا:

’’وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْ‘‘(آل عمران:۴۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو۔

اس کا تعلق بھی اسی قسم سے ہے ۔اور دوسری صورت کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے:

’’نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ‘‘(التحریم:۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:مجھے علم والے خبردار (اللہ) نے بتایا۔

اور حقیقت میں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامغیب کی خبریں دینے والے ہی ہوتے ہیں۔ تفسیر خازن میں ہے کہ ’’ آپ کے وصف میں ’’نبی‘‘ فرمایا، کیونکہ نبی ہونا اعلیٰ اور اشرف مَراتب میں سے ہے اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بہت بلند درجے رکھنے والے اور اس کی طرف سے خبر دینے والے ہیں۔(خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۶)

             اُمّی کا ترجمہ اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے ’’بے پڑھے ‘‘ فرمایا۔ یہ ترجمہ بالکل حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے ارشاد کے مطابق ہے اور یقیناً اُمّی ہونا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی سے پڑھا نہیں اور کتاب وہ لائے جس میں اَوّلین و آخرین اور غیبوں کے علوم ہیں۔( خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۷) اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں۔

ایسا  اُمّی  کس  لئے  منت کشِ  استاد  ہو

 کیا کفایت اس کو اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمْ نہیں

{یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ:اسے یہ (اہلِ کتاب )اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔} یعنی اپنے پاس توریت و انجیل میں آپ کی نعت و صفت او رنبوت لکھی ہوئی پاتے ہیں۔

تورات و انجیل میں مذکور اوصافِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:

صحیح بخاری میں ہے، حضرت عطاء بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے سیّدِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وہ اوصاف دریافت کئے جو توریت میں مذکور ہیں تو انہوں نے فرمایا : ’’خدا کی قسم! حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جو اوصاف قرآنِ کریم میں آئے ہیں انہیں میں سے بعض اوصاف توریت میں مذکور ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے پڑھنا شروع کیا: اے نبی! ہم نے تمہیں شاہد و مُبَشِّر اور نذیر اور اُمِّیُّوں کا نگہبان بنا کر بھیجا، تم میرے بندے اور میرے رسول ہو، میں نے تمہارا نام متوکل رکھا،نہ بدخلق ہو نہ سخت مزاج، نہ بازاروں میں آواز بلند کرنے والے ہو نہ برائی سے برائی کو دفع کرنے والے بلکہ خطا کاروں کو معاف کرتے ہو اور ان پر احسان فرماتے ہو، اللہ تعالیٰ تمہیں نہ اٹھائے گا جب تک کہ تمہاری برکت سے غیر مستقیم ملت کو اس طرح راست نہ فرمادے کہ لوگ صدق و یقین کے ساتھ ’’لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ پکارنے لگیں اور تمہاری بدولت اندھی آنکھیں بینا اور بہرے کان شنوا (سننے والے) اور پردوں میں لپٹے ہوئے دل کشادہ ہوجائیں۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب کراہیۃ السخب فی السوق، ۲ / ۲۵، الحدیث: ۲۱۲۵)

اور حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صفات میں توریت شریف کا یہ مضمون بھی منقول ہے کہ’’اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صفت میں فرمایا کہ’’میں اُنہیں ہر خوبی کے قابل کروں گا، اور ہر خُلقِ کریم عطا فرماؤں گا، اطمینانِ قلب اور وقار کو اُن کا لباس بناؤں گا اور طاعات وا حسان کو ان کا شعار کروں گا۔ تقویٰ کو ان کا ضمیر، حکمت کو ان کا راز، صدق و وفا کو اُن کی طبیعت ،عفوو کرم کو اُن کی عادت ، عدل کو ان کی سیرت، اظہارِ حق کو اُن کی شریعت، ہدایت کو اُن کا امام اور اسلام کو اُن کی ملت بناؤں گا۔ احمد اُن کا نام ہے، مخلوق کو اُن کے صدقے میں گمراہی کے بعد ہدایت اور جہالت کے بعد علم و معرفت اور گمنامی کے بعد رفعت و منزلت عطا کروں گا۔ اُنہیں کی برکت سے قلت کے بعد کثرت اور فقر کے بعد دولت اور تَفَرُّقے کے بعد محبت عنایت کروں گا، اُنہیں کی بدولت مختلف قبائل، غیر مجتمع خواہشوں اور اختلاف رکھنے والے دلوں میں اُلفت پیدا کروں گا اور اُن کی اُمت کو تمام اُمتوں سے بہتر کروں گا۔(الشفاء، القسم الاول فی تعظیم اللہ تعالی لہ، الباب الاول فی ثناء اللہ تعالی علیہ، الفصل الثانی، ص۲۵-۲۶)

            ایک اور حدیث میں توریت شریف سے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے یہ اوصاف منقول ہیں ’’میرے بندے احمد مختار، ان کی جائے ولادت مکہ مکرمہ اور جائے ہجرت مدینہ طیبہ ہے،اُن کی اُمت ہر حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کثیر حمد کرنے والی ہے۔ (ابن عساکر، باب ما جاء من انّ الشام یکون ملک اہل الاسلام، ۱ / ۱۸۶-۱۸۷)

حضرت علامہ مفتی نعیم الدین مراد آبادی  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اہلِ کتاب ہر زمانے میں اپنی کتابوں میں تراش خراش کرتے رہے اور اُن کی بڑی کوشِش اس پر مُسلَّط رہی کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر اپنی کتابوں میں نام کو نہ چھوڑیں۔توریت انجیل وغیرہ اُن کے ہاتھ میں تھیں اس لئے انہیں اس میں کچھ دشواری نہ تھی لیکن ہزاروں تبدیلیاں کرنے بعد بھی موجودہ زمانے کی بائیبل میں حضور سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بشارت کا کچھ نہ کچھ نشان باقی رہ ہی گیا۔ چنانچہ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور۱۹۳۱ء کی چھپی ہوئی بائیبل میں یوحنا کی انجیل کے باب چودہ کی سولہویں آیت میں ہے: ’’ اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دُوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔‘‘ لفظ مددگار پر حاشیہ ہے، اس میں اس کے معنی’’ وکیل یا شفیع‘‘ لکھے ہیں تو اب حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد ایسا آنے والا جو شفیع ہو اور ابد تک رہے یعنی اس کا دین کبھی منسوخ نہ ہوبجز سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کون ہے ؟پھر اُنتیسویں تیسویں آیت میں ہے:’’ اور اب میں نے تم سے اس کے ہونے سے پہلے کہہ دیا ہے تاکہ جب ہوجائے تو تم یقین کرو اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔‘‘ کیسی صاف بشارت ہے اور حضرت ِ عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی اُمت کو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت کا کیسا مُنتظر بنایا اور شوق دلایا ہے اور دُنیا کا سردار خاص سیّدِ عالم کا ترجمہ ہے اور یہ فرمانا کہ ’’ مجھ میں اس کا کچھ نہیں ‘‘ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عظمت کا اظہار، اُس کے حضور اپنا کمالِ ادب و انکسار ہے۔

پھر اسی کتاب کے باب سولہ کی ساتویں آیت ہے’’لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا، لیکن اگر جاؤں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔‘‘ اس میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بشارت کے ساتھ اس کا بھی صاف اظہار ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاتَم الانبیاء ہیں۔آپ کا ظہور جب ہی ہوگا جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامبھی تشریف لے جائیں۔ اس کی تیرہویں آیت ہے’’لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ اس آیت میں بتایا گیا کہ سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آمد پر دینِ الہٰی کی تکمیل ہوجائے گی اور آپ سچائی کی راہ یعنی دینِ حق کو مکمل کردیں گے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اُن کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور یہ کلمے کہ’’اپنی طرف سے نہ کہے گا جو کچھ سنے گا وہی کہے گا‘‘ خاص ’’ وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى‘‘(نجم:۳، ۴) کا ترجمہ ہے اور یہ جملہ کہ’’ تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا‘‘ اس میں صاف بیان ہے کہ وہ نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غیبی علوم تعلیم فرمائیں گے ،جیسا کہ قرآنِ کریم میں فرمایا ’’یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۱۵۱)(تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جوتمہیں معلوم نہیں تھا۔) اور ’’مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ (التکویر:۲۴)( یہ نبی غیب بتانے پر بخیل نہیں۔)‘‘(خزائن العرفان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ص۳۲۱)

{وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ:اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں۔} یعنی جو حلال و طیب چیزیں بنی اسرائیل پر ان کی نافرمانی کی وجہ سے حرام ہو گئی تھیں نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں حلال فرما دیں گے اور بہت سی خبیث و گندی چیزوں کو حرام کریں گے۔

{وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ:اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں۔} بوجھ سے مراد سخت تکلیفیں ہیں جیسا کہ توبہ میں اپنے آپ کو قتل کرنا اور جن اعضاء سے گناہ صادر ہوں ان کو کاٹ ڈالنا اور قید سے مراد مشقت والے احکام ہیں جیسا کہ بدن اور کپڑے کے جس مقام کو نجاست لگے اس کو قینچی سے کاٹ ڈالنا اور غنیمتوں کو جلانا اور گناہوں کا مکانوں کے دروازوں پر ظاہر ہونا وغیرہ۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ص۳۹۰)

{وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ:اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں۔} اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تعظیم اعتقادی، عملی، قولی، فعلی، ظاہری، باطنی ہر طرح لازم ہے بلکہ رکنِ ایمان ہے ۔

{وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ:اور نور کی پیروی کریں۔} اس نور سے قرآن شریف مراد ہے جس سے مومن کا دِل روشن ہوتا ہے اور شک و جہالت کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں اور علم و یقین کی ضیاء پھیلتی ہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۸)

{اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ:تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔} اس سے معلوم ہوا کہ حضر ت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دنیا و آخرت میں بھلائی لکھ دینے کی دعا اپنی امت کے لئے فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ شان امتِ محمدی کی ہے ، سُبْحَانَ اللہ اور ساتھ ہی اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضائل اور امتِ مرحومہ کے مناقب انہیں سنا دئیے گئے، اس سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پہلے بھی عالَم میں مشہور تھی مگر اس امت کی نیکیاں شائع کر دی گئی تھیں اور ان کے گناہوں کا ذکر نہ کیا تھا بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ بھی مشہور کر دئیے گئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ﳝ- وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ‘‘ (الفتح: ۲۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ ان کی صفت توریت میں (مذکور) ہے اور ان کی صفت انجیل میں (مذکور) ہے۔

7:158
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ۪-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۱۵۸)
تم فرماؤ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں (ف۳۰۳) کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کو ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں جلائے اور مارے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول بے پڑھے غیب بتانے والے پر کہ اللہ اور اس کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو کہ تم راہ پاؤ،

{قُلْ:تم فرماؤ ۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ لوگوں سے فرما دیجئے کہ میں تم سب کی طرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کا رسول ہوں ،ایسا نہیں کہ بعض کا تو رسول ہوں ا ور بعض کا نہیں۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۲ / ۱۴۸)

عمومِ رسالت کی دلیل:

یہ آیت سَرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمومِ رسالت کی دلیل ہے کہ آپ تمام مخلوق کیلئے رسول ہیں اور کل جہاں آپ کی اُمت ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں ہے، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا :پانچ چیزیں مجھے ایسی عطا ہوئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملیں (1) ہر نبی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں سُرخ و سیاہ کی طرف مبعوث فرمایا گیا۔ (2) میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں اور مجھ سے پہلے کسی کے لئے نہیں ہوئی تھیں۔(3) میرے لئے زمین پاک اور پاک کرنے والی (یعنی تیمم کے قابل) اور مسجد کی گئی جس کسی کو کہیں نماز کا وقت آئے وہیں پڑھ لے۔(4) دشمن پر ایک ماہ کی مسافت تک میرا رعب ڈال کر میری مدد فرمائی گئی۔ (5) اور مجھے شفاعت عنایت کی گئی۔ (بخاری ، کتاب الصلاۃ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: جعلت لی الارض مسجداً وطہوراً، ۱ / ۱۶۸، الحدیث:  ۴۳۸، مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۵، الحدیث: ۳ (۵۲۱)) اور مسلم شریف کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ’’  مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبوت ختم کر دی گئی ۔ (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۶، الحدیث: ۵ (۵۲۳))

{اَلَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔} اس آیت کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیاکہ آپ لوگوں سے فرما دیں کہ میں تم سب کی طرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کا رسول ہوں ، اور اب ان کے دعویٰ کے درست ہونے کی دلیل بیان کی جارہی ہے کہ جس خدا کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور وہ ان کی تدبیر فرمانے والا اور ان کے تمام امور کامالک ہے اسی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے اور مجھے حکم دیاہے کہ میں تم سے کہوں :میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہ اپنی مخلوق کو زندہ کرنے اور انہیں موت دینے پر قدرت رکھتا ہے اور جس کی ایسی شان ہو تو وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی طرف کسی رسول کو بھیج دے تو تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ایمان لاؤ جن کی شان یہ ہے کہ وہ نبی ہیں ،کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، اللہ تعالیٰ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اے لوگو!تم ان کی غلامی اختیار کر لو اور وہ تمہیں جس کام کا حکم دیں اسے کرو اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز آ جاؤ تاکہ تم ان کی پیروی کر کے ہدایت پاجاؤ۔(خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۲ / ۱۴۸-۱۴۹)

7:159
وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰۤى اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ(۱۵۹)
اور موسیٰ کی قوم سے ایک گروہ ہے کہ حق کی راہ بتا تا اور اسی سے (ف۳۰۴) انصاف کرتا،

{وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰۤى اُمَّةٌ:اور موسیٰ کی قوم سے ایک گروہ۔} یعنی بنی اسرائیل کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کے باوجود اُن میں سے ایک جماعت حق پر بھی قائم رہی۔ حق پر قائم رہنے والے گروہ سے کون لوگ مراد ہیں ، اس بارے میں ایک قول یہ ہے کہ حق پر قائم رہنے والوں سے مراد بنی اسرائیل کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کر لیا، جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم، کیونکہ یہ پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور تورات پر ایمان لائے پھر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور قرآن پر بھی ایمان لائے (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۵ / ۳۸۷)

            اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بنی اسرائیل کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت منسوخ ہونے سے پہلے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا، اس میں کوئی تبدیلی نہ کی اور نہ ہی انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۴ / ۴۰۴) ان کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں۔

7:160
وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًاؕ-وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗۤ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَۚ-فَانْۢبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْؕ-وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْهِمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ-كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْؕ-وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۱۶۰)
اور ہم نے انہیں بانٹ دیا بارہ قبیلے گروہ گروہ، اور ہم نے وحی بھیجی موسیٰ کو جب اس سے اس کی قوم نے (ف۳۰۵) پانی ما نگا کہ اس پتھر پر اپنا عصا مارو تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے (ف۳۰۶) ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا، اور ہم نے ان پر ابر کا سائبان کیا (ف۳۰۷) اور ان پر من و سلویٰ اتارا، کھاؤ ہماری دی ہوئی پاک چیزیں اور انہوں نے (ف۳۰۸) ہمارا کچھ نقصان نہ کیا لیکن اپنی ہی جانوں کا برا کرتے ہیں،

{وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا:اور ہم نے انہیں بارہ قبیلوں میں تقسیم کر کے الگ الگ جماعت بنادیا۔} بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے بارہ گروہوں میں تقسیم کر دیا کیونکہ یہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بارہ بیٹوں کی اولاد سے پیدا ہوئے تھے اور انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کر دیا تاکہ یہ باہم حسد نہ کریں اور ان میں لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت کی نوبت نہ آئے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۰، ۵ / ۳۸۸)

            نوٹ:آیت کے بقیہ حصے کی تفسیر سورۂ بقرہ آیت نمبر 57 اور 60 میں گزر چکی ہے۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْاَعْرَاف
اَلْاَعْرَاف
  00:00



Download

اَلْاَعْرَاف
اَلْاَعْرَاف
  00:00



Download