READ

Surah Al-Aa'raaf

اَلْاَعْرَاف
206 Ayaat    مکیۃ


7:81
اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ(۸۱)
تم تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو (ف۱۵۰) عورتیں چھوڑ کر، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے (ف۱۵۱)

{ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً:بیشک تم مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو۔} یعنی ان کے ساتھ بدفعلی کرتے ہو اور وہ عورتیں جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے انہیں چھوڑتے ہو۔ انسان کو شہوت اس لئے دی گئی کہ نسلِ انسانی باقی رہے اور دنیا کی آبادی ہو اور عورتوں کو شہوت کا محل اور نسل چلانے کا ذریعہ بنایا کہ ان سے معروف طریقے کے مطابق اور جیسے شریعت نے اجازت دی اس طرح اولاد حاصل کی جائے، جب آدمیوں نے عورتوں کو چھوڑ کر ان کا کام مردوں سے لینا چاہا تو وہ حد سے گزر گئے اور انہوں نے اس قوت کے مقصدِ صحیح کو فوت کردیا کیونکہ مرد کو نہ حمل ہوتا ہے اورنہ وہ بچہ جنتا ہے تو اس کے ساتھ مشغول ہونا سوائے شیطانیت کے اور کیا ہے۔ علمائے تاریخ کا بیان ہے کہ قومِ لُوط کی بستیاں نہایت سرسبز و شاداب تھیں اور وہاں غلّے اور پھل بکثرت پیدا ہوتے تھے، زمین کا دوسرا خطہ اس کی مثل نہ تھا۔ اس لئے جا بجا سے لوگ یہاں آتے تھے اور انہیں پریشان کرتے تھے، ایسے وقت میں ابلیس لعین ایک بوڑھے کی صورت میں نمودار ہوا اور ان سے کہنے لگا کہ اگر تم مہمانوں کی اس کثرت سے نجات چاہتے ہو تو جب وہ لوگ آئیں تو ان کے ساتھ بدفعلی کرو اس طرح یہ فعلِ بدانہوں نے شیطان سے سیکھا اور ان میں رائج ہوا۔

7:82
وَ مَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْۚ-اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ(۸۲)
اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہنا کہ ان (ف۱۵۲) کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں (ف۱۵۳)

{ وَ مَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖ:اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا۔} حضرت لوطعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سمجھانے پر ان کی قوم کے لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی پیروی کرنے والوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو بڑی پاکیزگی چاہتے ہیں۔ یعنی گویا پاکیزگی ان کیلئے باعث ِ اِستہزاء چیز بن گئی اور اس قوم کا ذوق اتنا خراب ہوگیا تھا کہ انہوں نے اس صفت ِمدح کو عیب قرار دیا۔

 اچھے عمل کو برا اور برے عمل کو اچھا سمجھنے کی اوندھی سوچ:

            اس سے معلوم ہوا کہ جب کسی کے دن برے آتے ہیں تو اسے اوندھی سوجھتی ہے کہ اسے اچھی چیزیں بری لگنا اور بری چیزیں اچھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ آج کل کے حالات دیکھے جائیں تو ہمارے معاشرے میں بھی لوگوں کی ایک تعداد ایسی ہے جن میں یہ وبا عام نظر آتی ہے اور یہ لوگ جب کسی کو دین کے احکام پر عمل کرتا دیکھتے ہیں تو ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اور ا س خرابی کے باعث داڑھی رکھنے کو برا اور نہ رکھنے کو اچھا سمجھتے ہیں۔ داڑھی والے کو حقارت کی نظر سے اور داڑھی منڈے کو پسند کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ داڑھی والے کے ساتھ رشتہ کرنے کو باعث عار اور بغیر داڑھی والے سے رشتہ کرنے کو قابلِ فخر تصور کرتے ہیں۔ نماز روزے کی پابندی اور سنتوں پر عمل کرنے والے انہیں اپنی نگاہوں میں عجیب نظر آتے اور گانے باجوں ، فلموں ڈراموں میں مشغول لوگ زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں۔ عورتوں کا پردہ کرنا فرسودہ عمل اور بے پردہ ہونا جدید دور کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ صرف اپنی بیوی کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کو تنگ ذہنی اور غیر عورتوں سے ناجائز تعلقات کو روشن خیالی کہتے ہیں۔ اپنی عورتوں کے غیر مردوں سے دور رہنے کو اپنی بے عزتی جبکہ ان کا غیر مردوں سے ملنے اور ان سے تعلقات قائم کرنے کو اپنی عزت تصور کرتے ہیں۔ حرام کمائی کو اپنا حق ا ور ضرورت جبکہ حلال کمائی کواپنی حق تلفی قرار دیتے ہیں۔ امانت و دیانت داری اور سچائی کو بھولا پن جبکہ خیانت، جھوٹ ،دھوکہ اور فریب کاری کو اپنی چالاکی اور مہارت سمجھتے ہیں۔ سرِ دست یہ چند مثالیں پیش کی ہیں ورنہ تھوڑ اسا غور کریں تو اچھے کام کو برا اور برے کام کو اچھا سمجھنے کی ہزاروں مثالیں سامنے آ جائیں گی ۔اے کاش ! مسلمان اپنے رب تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کریں اور اپنی روش سے باز آ جائیں ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًاؕ-فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ﳲ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ‘‘ (فاطر:۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیا وہ شخص جس کیلئے اس کا برا عمل خوبصورت بنادیا گیا تو وہ اسے اچھا (ہی) سمجھتا ہے (کیا وہ ہدایت یافتہ آدمی جیسا ہوسکتا ہے؟) تو بیشک اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور راہ دکھاتا ہے جسے چاہتا ہے، تو حسرتوں کی وجہ سے ان پر تمہاری جان نہ چلی جائے۔ بیشک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔

کسی جگہ نیک بندوں کاموجود ہونا امن کاذریعہ ہے:

            کفار کے نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان کے صحابہ کو وہاں سے نکالنے کی بات سے  یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی بستی میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے بندوں کا رہنا اس جگہ امن رہنے کا ذریعہ ہے اور ان کا وہاں سے نکل جانا عذاب کا ذریعہ۔ وہ لوگ خود انہیں نکال کر اپنے عذاب کا سامان کرنا چاہتے تھے۔

 

7:83
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ﳲ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(۸۳)
تو ہم نے اسے (ف۱۵۴) اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی(ف۱۵۵)

{ فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ:تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی۔} جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ، آپ کے گھر والوں میں سے آپ کی دو بیٹیوں اور سارے مسلمانوں کو عذاب سے بچا لیا، البتہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بیوی جس کا نام واہلہ تھا وہ آپ پر ایمان نہ لائی بلکہ کافرہ ہی رہی ،اپنی قوم سے محبت رکھتی اور ان کے لئے جاسوسی کرتی تھی ،یہ عذاب میں مبتلا ہوئی۔

7:84
وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًاؕ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ۠(۸۴)
اور ہم نے ان پر ایک مینھ برسایا (ف۱۵۶) تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا(ف۱۵۷)

{ وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا:اور ہم نے ان پر بارش برسائی۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر اس طرح عذاب آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر پتھروں کی خوفناک بارش برسائی کہ جو گندھک اور آگ سے مُرَکَّب تھے ۔ایک قول یہ ہے کہ بستی میں رہنے والے جو وہاں مقیم تھے وہ تو زمین میں دھنسادیئے گئے اور جو سفر میں تھے وہ ا س بارش سے ہلاک کئے گئے۔ امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے کہا کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نازل ہوئے اور انہوں نے اپنا بازو قومِ لوط کی بستیوں کے نیچے ڈال کر اس خطہ کو اکھاڑ لیا اور آسمان کے قریب پہنچ کر اس کو اوندھا کرکے گرا دیا اور اس کے بعد پتھروں کی بارش کی گئی۔

آیت’’ وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے ،

(1)… یہ بدکاری تمام جرموں سے بڑا جرم ہے کہ ا س جرم کی وجہ سے قومِ لوط پر ایسا عذاب آیا جو دوسری عذاب پانے والی قوموں پر نہ آیا۔

(2)… مجرموں کے تاریخی حالات پڑھنا، ان میں غور کرنا بھی عبادت ہے تا کہ اپنے دل میں گناہوں سے نفرت پیدا ہو، اسی طرح محبوب قوموں کے حالات میں غور کرنا محبوب ہے تا کہ اطاعت کا جذبہ پیدا ہو۔

7:85
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۸۵)
اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا (ف۱۵۸) کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی (ف۱۵۹) تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو (ف۱۶۰) اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ، یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ،

{ وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا ۔} مدین حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے، مدین اور مصر کے درمیان اَسّی دن کے سفر کی مقدار فاصلہ تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد سے ہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دادی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیٹی تھیں ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اہلِ مدین کے ہم قوم تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۲ / ۱۱۸، تفسیر صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۲ / ۶۹۱،ملتقتاً)

{ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ:بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی۔} اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معجزہ لے کر آئے تھے البتہ قرآنِ پاک میں معین نہیں کیا گیا کہ ان کا معجزہ کیا اور کس قسم کا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو بکریاں تحفے میں دے کر فرمایا ’’یہ بکریاں سفید اور سیاہ بچے جنیں گی۔ چنانچہ جیسے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ویسے ہی ہوا۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۴ / ۳۳۹)

{ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ: تو ناپ اور تول پورا پورا کرو۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم میں شرک کے علاوہ بھی جو گناہ عام تھے ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا اور دوسرا لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا اور تیسرا لوگوں کو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے دور کرنے کی کوششیں کرنا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے اور لوگوں کو ان کی اشیاء گھٹا کر دینے سے منع کیا اور زمین میں فساد کرنے سے روکا کیونکہ ا س بستی میں اللہ تعالیٰ کے نبی تشریف لے آئے اور انہوں نے نبوت کے احکام بیان فرما دئیے تو یہ بستی کی اصلاح کا سب سے قوی ذریعہ ہے لہٰذا اب تم کفر و گناہ کر کے فساد برپا نہ کرو۔

کفار بھی بعض احکام کے مُکَلَّف ہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ بعض احکام کے کفار بھی مکلف ہیں کیونکہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی کافر قوم کو ناپ تول درست کرنے کا حکم دیا اور نہ ماننے پر عذابِ الٰہی آگیا، بلکہ قیامت میں کافروں کو نمازچھوڑنے پر بھی عذاب ہو گا جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے کہ جب جنتی کافروں سے پوچھیں گے کہ تمہیں کیا چیز جہنم میں لے گئی تو وہ کہیں کے:

’’ لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ ‘‘(مدثر۴۳)               ترجمۂکنزُالعِرفان: ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے۔

ناپ تول پورا نہ کرنے والوں کے لئے وعید:

            حضرت نافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاایک بیچنے والے کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ فرما رہے تھے: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈر! اور ناپ تول پورا پورا کر! کیونکہ کمی کرنے والوں کو میدانِ محشر میں کھڑا کیا جائے گا یہاں تک کہ ان کا پسینہ ان کے کانوں کے نصف تک پہنچ جائے گا۔ (بغوی، المطففین، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۴۲۸)

آگ کے دوپہاڑ:

           حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ارشاد فرماتے ہیں : ’’میں ایک مرتبہ اپنے پڑوسی کے پاس گیا تو اس پر موت کے آثار نمایا ں تھے اور وہ کہہ رہاتھا: ’’آگ کے دو پہاڑ، آگ کے دو پہاڑ۔ آپ  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، میں نے اس سے پوچھا: کیا کہہ رہے ہو؟ تو اس نے بتایا: اے ابو یحییٰ! میرے پاس دو پیمانے تھے، ایک سے دیتا اور دوسرے سے لیتا تھا۔ حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں اٹھا اور ایک پیمانے کو دوسرے پر ( توڑنے کی خاطر) مارنے لگ گیا۔ تواس نے کہا: ’’اے ابو یحییٰ! جب بھی آپ ایک کو دوسرے پر مارتے ہیں معاملہ زیادہ شدید اور سخت ہو جاتا ہے۔ پس وہ اسی مرض میں مر گیا۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، الباب الثانی فی الکبائر الظاہرۃ، الکبیرۃ الثالثۃ بعد المائتین، ۱ / ۵۳۳)

            اللہ تعالیٰ ہمیں ناپ تول میں کمی کرنے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔

 

7:86
وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(۸۶)
اور ہر راستہ پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو (ف۱۶۱) جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو، اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اس نے تمہیں بڑھادیا (ف۱۶۲) اور دیکھو (ف۱۶۳) فسادیوں کا کیسا انجام ہوا،

{ وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ:اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو ۔} یہ لوگ مدین کے راستوں پر بیٹھ جاتے تھے اور ہر راہ گیر سے کہتے تھے کہ مدین شہر میں ایک جادوگر ہے یہ بھی کہا گیا کہ ان کے بعض لوگ مسافروں پر ڈکیتیاں ڈالتے تھے۔

{ وَ اذْكُرُوْا:اور یاد کرو۔}تم تھوڑے تھے تمہیں بہت کر دیا، غریب تھے امیر کر دیا، کمزور تھے قوی کر دیا ان نعمتوں کا تقاضا ہے کہ تم اس کا شکریہ ادا کرو کہ مجھ پر ایمان لاؤ۔

{ وَ انْظُرُوْا:اور دیکھو۔} یعنی پچھلی اُمتوں کے احوال اور گزرے ہوئے زمانوں میں سرکشی کرنے والوں کے انجام و مآل عبرت کی نگاہ سے دیکھو اور سوچو۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ کلام بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے۔ آپ اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ اپنے سے پہلی امتوں کے تاریخی حالات معلوم کرنا ،قوم کے بننے بگڑنے سے عبرت پکڑنا حکمِ الٰہی ہے۔ ایسے ہی بزرگانِ دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ بہترین عبادت ہے اس سے تقویٰ، رب عَزَّوَجَلَّکا خوف اور عبادت کا ذوق پیدا ہو تا ہے۔

7:87
وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَاۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ(۸۷)
اور اگر تم میں ایک گروہ اس پر ایمان لایا جو میں لے کر بھیجا گیا اور ایک گروہ نے نہ مانا (ف۱۶۴) تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ اللہ ہم میں فیصلہ کرے (ف۱۶۵) اور اللہ کا فیصلہ سب سے بہتر (ف۱۶۶)

{ وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ:اور اگر تم میں ایک گروہ ۔}یعنی اگر تم میری رسالت میں اختلاف کرکے دو فرقے ہوگئے کہ ایک فرقے نے مانا اور ایک منکر ہوا تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّہمارے درمیان فیصلہ کر دے کہ تصدیق کرنے والے ایمانداروں کو عزت دے اور ان کی مدد فرمائے اور جھٹلانے والے منکرین کو ہلاک کرے اور انہیں عذاب دے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سب سے بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے کیونکہ وہ حاکمِ حقیقی ہے  اس کے حکم میں نہ غلطی کا احتمال ہے نہ اس کے حکم کی کہیں اپیل ہے۔

7:88
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَاؕ-قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَ۫(۸۸)
اس کی قوم کے متکبر سردار بولے، اے شعیب قسم ہے کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی بستی سے نکا ل دیں گے یا تم ہمارے دین میں ا ٓجا ؤ کہا (ف۱۶۷) کیا اگرچہ ہم بیزار ہوں(ف۱۶۸)

{ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ:اس کی قوم کے مُتکبر سردار کہنے لگے۔} اس سے پہلی آیات میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے اپنی قوم کو کیے گئے وعظ و نصیحت کا بیان ہوا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا وعظ و نصیحت سن کر آپ کی قوم  کے وہ سردار جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے اور پیروی کرنے سے تکبر کیا تھا ،ان کے جواب کا ذکر اس آیت میں فرمایا گیا ہے، چنانچہ فرمایا گیا کہ’’ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے متکبر سردار اُن کی نصیحتیں سن کر کہنے لگے : اے شعیب ! ہم قسم کھاتے ہیں کہ ہم ضرور تمہیں اور تمہارے ساتھ ایمان والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے، یعنی اصل مقصود تو آپ کونکالنا ہے اور آپ کی وجہ سے آپ کے مومن ساتھیوں کو بھی نکال دیں گے۔(ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۸، ۲ / ۲۷۲)

قوم کی ہلاکت کا باعث ا س کے رہنما:

حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے سردار وں کی بے ادبی ان کی ہلاکت کا سبب بنی، اس سے معلوم ہوا کہ قوم کے سردار قوم کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں اگر یہ درست ہو جائیں تو قوم کواعلیٰ درجے پر پہنچا دیتے ہیں اور بگڑ جائیں تو ذلت کی گہری کھائیوں میں گرا دیتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکمرانوں اور مسلم رہنماؤں کے اعمال، اخلاق اور کردار کی درستی نے جہاں مسلم عوام کی سیرت و کردار کو بدل کر رکھ دیا وہیں غیر مسلم بھی اس سے بہت متاثر ہوئے اور ان میں سے بہت سے دامنِ اسلام سے وابستہ ہو گئے جبکہ بہت سے اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی سے باز آ گئے اسی طرح جب مسلم حکمرانوں اور مسلم رہنماؤں کے اعمال، اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا ہوا اور وہ عیش و طَرب اور لَہو ولَعب کی زندگی گزارنے میں مشغول ہو گئے تو مسلم عوام کی عملی اور اخلاقی حالت ا س قدر گر گئی کہ ہنو د ویہود تک ان کا حال دیکھ کر شرما گئے اوراسی وجہ سے کفار کے دلوں سے مسلمانوں کا خوف اور دبدبہ جاتا رہا اور وہ ایک ایک کر کے مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں پر قابض ہوتے چلے گئے اور آج مسلمانوں کا حا ل یہ ہے کہ وہ پچاس سے زائد ممالک میں تقسیم ہیں اور دنیا کے انتہائی قیمتی ترین وسائل کے مالک ہونے کے باوجود کفار کے قبضے میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

{ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا:یا تم ہمارے دین میں آجا ؤ۔} اس کا لفظی معنی یہ بنتا ہے کہ ’’یا تم ہمارے دین میں لوٹ آؤ‘‘ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مَعَاذَاللہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پہلے ان کے دین میں داخل تھے تبھی تو انہوں نے آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو واپس لوٹ آنے کی دعوت دی ،مفسرین نے اس اشکال کے چند جوابات دئیے ہیں ، ان میں سے 3درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والے چونکہ پہلے کافر تھے تو جب آپ کی قوم نے آپ کی پیروی کرنے والوں کو مخاطب کیا تو اس خطاب میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو بھی شامل کر کے آپ پر بھی وہی حکم جاری کر دیا حالانکہ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو ان کے دین میں کبھی داخل ہی نہ ہوئے تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۸، ۲ / ۱۱۹)

(2)…کافر سرداروں نے عوام کو شک و شبہ میں ڈالنے کیلئے اس طرح کلام کیا تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پہلے ان کے دین و مذہب پر ہی تھے ۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں جو جواب دیا کہ ’’کیا اگرچہ ہم بیزار ہوں ‘‘ یہ ان کے اس اِشتِباہ کے رد میں تھا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۸، ۵ / ۳۱۶)

(3)…حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کفر و شرک سے تو قطعاً دور و نُفور تھے لیکن ابتداء میں چھپ کر عبادت وغیرہ کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کادین قوم پر ظاہر نہ تھا جس سے انہوں نے یہ سمجھا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے دین پر ہیں۔

7:89
قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰىنَا اللّٰهُ مِنْهَاؕ-وَ مَا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْهَاۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّنَاؕ-وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًاؕ-عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَاؕ-رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(۸۹)
ضرور ہم اللہ پر جھوٹ باندھیں گے اگر تمہارے دین میں آجائیں بعد اس کے کہ اللہ نے ہمیں اس سے بچایا ہے (ف۱۶۹) اور ہم مسلمانوں میں کسی کا کام نہیں کہ تمہارے دین میں آئے مگر یہ کہ اللہ چاہے (ف۱۷۰) جو ہمارا رب ہے، ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے، اللہ ہی پر بھروسہ کیا (ف۱۷۱) اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں حق فیصلہ کر (ف۱۷۲) اور تیرا فیصلہ سب سے بہتر ہے،

{ اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ:اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کا جواب سن کر ان سے فرمایا تھا کہ’’کیا ہم تمہارے دین میں آئیں اگرچہ ہم اس سے بیزار ہوں ؟ اس پر انہوں نے کہا :ہاں پھر بھی تم ہمارے دین میں آ جاؤ ، تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہارے اس باطل دین سے ہمیں بچایا ہوا ہے اور تمہارے باطل دین کی قباحت اور اس کے فساد کا علم دے کر مجھے شروع ہی سے کفر سے دور رکھا اور میرے ساتھیوں کو کفر سے نکال کر ایمان کی توفیق دے دی  ہے تو اگر اس کے بعد بھی ہم تمہارے دین میں آئیں تو پھر بیشک ضرور ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھنے والوں میں سے ہوں گے اور ہم میں کسی کا کام نہیں کہ تمہارے دین میں آئے مگر یہ کہ ہمارا رب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی کو گمراہ کرناچاہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

شیطان انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو گمراہ نہیں کر سکتا:

            یاد رہے کہ گمراہ ہونے سے نبی عَلَیْہِ السَّلَام خارج ہیں کیونکہ وہ قَطعی معصوم ہوتے ہیں اور شیطان انہیں گمراہ نہیں کر سکتا ۔ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:

’’ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ‘‘(حجر:۴۲)                            ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک میرے بندوں پر تیرا کچھ قابو نہیں۔

            حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمان کہ’’ ہمارا رب اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت کے آگے سرِ تسلیم خَم کرنا ہے۔

{ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا:ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔} یعنی جو ہو چکا اور جو آئندہ ہو گا سب چیزوں کو اللہ تعالیٰ اَزل سے ہی جانتا ہے لہٰذا سعادت مند وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں سعید ہے اور بد بخت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں شَقی ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۱۲۰)

          یہ آیت ان آیات کی تفسیر ہے جن میں فرمایا گیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّکا علم اور اس کی قدرت گھیرے ہوئے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ جسم و مکان سے اور اس اعتبار سے گھیرنے اور گھر نے سے پاک ہے۔ اس کی مزید تفصیل سورۂ نساء کی آیت نمبر126کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔

{ عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا:ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا۔} یعنی ہم نے ایمان پر ثابت قدم رہنے اور شریر لوگوں سے خلاصی پانے میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کیا ۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۹، ۳ / ۲۰۳)

توکل کاحقیقی مفہوم:

          توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اسباب پر اعتماد کرتے ہوئے نتیجہ اللہتعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے، توکل ترک ِاسباب کا نام نہیں بلکہ اسباب اختیار کرتے ہوئے مُسَبِّبُ الاسباب پر اعتماد کرنے کا نام ہے۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ایک شخص نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اسے باندھ کر توکل کرو۔ (ترمذی، کتاب صفۃ یوم القیامۃ، ۶۰-باب، ۴ / ۲۳۲، الحدیث: ۲۵۲۵)

{ رَبَّنَا:اے ہمارے رب۔} جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قوم کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یوں دعا فرمائی ’’ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ ‘‘ اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ زجاج نے کہا کہ اس کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمارے امر کو ظاہر فرما دے ، اس سے مراد یہ ہے کہ ان پر ایسا عذاب نازل فرما جس سے ان کا باطل پر ہونا اور حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے مُتَّبِعِین کا حق پر ہونا ظاہر ہو۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۱۲۰)

7:90
وَ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَىٕنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَیْبًا اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ(۹۰)
اور اسکی قوم کے کافر سردار بولے کہ اگر تم شعیب کے تابع ہوئے تو ضرور نقصان میں رہو گے،

{ وَ قَالَ الْمَلَاُ:اور سردار بولے۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے سرداروں نے جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں کی دین میں مضبوطی دیکھی تو انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں اور لوگ بھی ان پر ایمان نہ لے آئیں چنانچہ جو لوگ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے انہیں معاشی بدحالی سے ڈراتے ہوئے کہنے لگے کہ’’ اگر تم نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر ایمان لاتے ہوئے ان کے دین کی پیروی کی اور اپناآبائی دین و مذہب اور کم تولنا ،کم ناپنا وغیرہ جو کام تم کرتے ہو اسے چھوڑ دیا تو سن لو! تم ضرور نقصان میں رہو گے کیونکہ اس طرح تمہیں تجارتی لین دین میں پورا تولنا پڑے گا۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۲۷۶)

احکامِ الٰہیہ کی پابندی میں اپنی ناکامی سمجھنے والے غور کریں :

             حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے سرداروں کی یہ روش ان کی بیمار ذہنیت کا پتا دیتی ہے کہ احکامِ الٰہیہ کی پابندی میں اپنی ناکامی جبکہ راہِ راست پر چلنے میں اپنی ہلاکت اور دینِ حق پر ایمان لانے میں انہیں مُہِیب خطرات نظر آنے لگے اور انہوں نے دوسروں کو بھی دینِ حق سے دور کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس طرح کی بیمار ذہنیت کے حامل افراد کی ہمارے معاشرے میں بھی کوئی کمی نہیں ، اسلام کے اصول و قوانین کو اہمیت نہ دینے والوں ، شریعت کے قوانین میں تبدیلی کی رٹ لگانے والوں ، زکوٰۃ کو ٹیکس تصور کرنے والوں ، رشوت کو اپنا حق سمجھنے والوں ، ناپ تول میں کمی کرنے والوں ، پردے کو عورت کی آزادی کے خلاف قرار دینے والوں ، اسلامی سزاؤں کو ظلم و بربریت شمار کرنے والوں کو چاہئے کہ اہلِ مدین کے حالات اور ان کے انجام پر غور کریں۔ ہمارے ہاں بھی کتنے لوگ یہ نعرہ لگانے والے ہیں کہ’’ اگر سودی نظام کو چھوڑ دیا تو ہم نقصان میں پڑجائیں گے اور ہماری ترقی رک جائے گی۔ اس جملے میں اور اہلِ مدین کے جملے میں کتنا فرق ہے اس پر غورفرمالیں۔

 

7:91
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۚۖۛ(۹۱)
تو انہیں زلز لہ نے ا ٓ لیا تو صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے (ف۱۷۳)

{ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ:تو انہیں شدید زلز لے نے اپنی گرفت میں لے لیا۔} جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی گمراہی اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور ہر طرح سے سمجھانے، عذابِ الٰہی سے ڈرانے کے باوجود بھی یہ لوگ اپنی سر کشی سے باز نہ آئے توان پر اللہ تعالیٰ کاعذاب نازل ہوا۔

اہلِ مدین پر آنے والے عذاب کی کیفیت:

            اس آیت میں ہے کہ اہلِ مدین کو ’’شدید زلز لے نے اپنی گرفت میں لے لیا۔‘‘ جبکہ سورۂ ہود میں اس طرح ہے :

’’ وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ ‘‘ (ہود:۹۴)                  ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ظالموں کو خوفناک چیخ نے پکڑ لیا۔

            تفسیر ابوسعود میں ہے ’’ ممکن ہے کہ زلزلے کی ابتداء اس چیخ سے ہوئی ہو، اس لئے کسی جگہ جیسے سورۂ ہود میں ہلاکت کی نسبت سببِ قریب یعنی خوفناک چیخ کی طرف کی گئی اور دوسری جگہ جیسے اس آیت میں سببِ بعید یعنی زلزلے کی طرف کی گئی۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۱، ۲ / ۲۷۶)           

حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اصحابِ اَیکَہ کی طرف بھی مبعوث فرمایا تھا اور اہلِ مدین کی طرف بھی ۔اصحابِ ایکہ توابر سے ہلاک کئے گئے اور اہلِ مدین زلزلہ میں گرفتار ہوئے اور ایک ہولناک آواز سے ہلاک ہوگئے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۱، ۲ / ۱۲۰)

7:92
الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاۚۛ-اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِیْنَ(۹۲)
شعیب کو جھٹلانے والے گویا ان گھروں میں کبھی رہے ہی نہ تھے، شعیب کو جھٹلانے والے ہی تباہی میں پڑے،

{ اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا:شعیب کو جھٹلانے والے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں پر جب مسلسل نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب آیا تو وہ ہلاکت و بربادی سے دوچار ہو گئے ، ان کے شاندار محلات جہاں زندگی اپنی تمام تر رونقوں کے ساتھ جلوہ گر تھی ایسے ویران ہو گئے کہ وہاں ہر سُو خاک اڑنے لگی اورہلاکت کے بعد ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا یہاں کبھی کوئی آباد ہی نہیں ہوا۔ (تفسیر طبری، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۲، ۶ / ۶، ملتقطاً)

{ كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِیْنَ: وہی نقصان اٹھانے والے ہوئے۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم کے لوگ اس خوف کی وجہ سے آپ پر ایمان نہیں لاتے تھے کہ اگر انہوں نے ان پر ایمان لا کر ان کی شریعت پر عمل شروع کر دیا تو وہ معاشی بد حالی کی دلدل میں پھنس جائیں گے ،اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تنبیہ فرمائی کہ جس خوف کی وجہ سے وہ قبولِ ایمان سے دور تھے وہ درست ثابت نہ ہوا بلکہ نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا کہ جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّکے نبی پر ایمان لا کر ان کی شریعت کی پیروی کی وہ تو دین و دنیا دونوں میں کامیاب ہو گئے اور جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اورآپ کی نافرمانی کی ،ان کی دنیا تو برباد ہوئی، اس کے ساتھ آخرت بھی برباد ہو گئی۔ لہٰذاا نقصان تو ان لوگوں نے اٹھایا ہے جو سر کش اور نافرمان تھے نہ کہ انہوں نے جو تابع اور فرماں بردار تھے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۳۷۵، ملخصاً)

اقتصادی اور معاشی بہتری اسلامی احکام پر عمل کرنے میں ہے:

            اہلِ مدین کے حالات میں ان لوگوں کے لئے بہت عبرت ہے کہ جو محض نام نہاد اور بے بنیاد اقتصادی زبوں حالی کے خوف سے شریعتِ اسلامیہ کے واضح احکام میں رد و بدل کرنے کیلئے پیچ و تاب کھاتے نظر آتے ہیں ،ایسے حضرات کو چاہئے کہ مدین والوں کے حالات کا بغور مطالعہ کریں اور اپنی اس روش کو بدل کر صحیح اسلامی سوچ اپنانے کی کوشش کریں اور معاشی بہتری کے لئے اسلام کے دئیے ہوئے اصول و قوانین پر عمل کریں پھر دیکھیں کہ کیسے یہ اقتصادی اور معاشی طور پر مضبوط ہوتے ہیں۔

7:93
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْۚ-فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠(۹۳)
تو شعیب نے ان سے منہ پھیرا (ف۱۷۴) اور کہا اے میری قوم! میں تمہیں رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی (ف۱۷۵) تو کیونکر غم کروں کافروں کا،

{وَ قَالَ:اورفرمایا۔} جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم پر عذاب آیا تو آپ نے ان سے منہ پھیر لیا اور قوم کی ہلاکت کے بعد جب آپ ان کی بے جان نعشوں پر گزرے تو ان سے فرمایا ’’ اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دئیے اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم کسی طرح ایمان نہ لائے ۔( صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۶۹۴، ملخصاً)

مردے سنتے ہیں :

کفار کی ہلاکت کے بعد حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان سے جو کلام فرمایا ا س سے معلوم ہو اکہ مردے سنتے ہیں۔ حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو سنایا، بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّکے نبی حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی قوم کو سنایا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی قوم کو سنایا۔(تفسیر ابن ابی حاتم، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۳، ۵ / ۱۵۲۴)

مُردوں کے سننے کی قوت سے متعلق بخاری شریف میں ہے’’جب ابوجہل وغیرہ کفار کو بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا تو اس وقت رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے خطاب فرمایا ’’فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا‘‘ توکیا تم نے اس وعدے کو سچا پایا جو تم سے تمہارے رب نے کیا تھا؟حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں کہ جن کے اندر روحیں نہیں۔ ارشاد فرمایا ’’وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ مَا اَنْتُمْ بِاَسْمَعَ لِمَا اَقُولُ مِنْہُمْ‘‘اس ذات کی قسم ! جس کے قبضے میں محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی جان ہے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں سنتے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قتل ابی جہل، ۳ / ۱۱، الحدیث: ۳۹۷۶)

سابقہ اُمتوں کے احوال بیان کرنے سے مقصود:

پچھلی امتوں کے احوال اور ان پر آنے والے عذابات کے بیان سے مقصود صرف ان کی داستانیں سنانا نہیں بلکہ مقصودنبی آخر الزّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت کو جھنجوڑنا ہے۔ اِن کے سامنے اُن قوموں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ جن سے عرب کے لوگ واقف تھے ،جن کے کھنڈرات عربوں کے تجارتی قافلوں کی گزرگاہوں کے ارد گرد واقع تھے ،جن کی خوشحالی، بالا دستی اور غلبہ و اقتدار کی بڑی شہرت تھی اور پھر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کے باعث ان کی تباہی و بربادی کے دِلخراش واقعات ہوئے جوسب کو معلوم تھے، یہ واقعات اور حالات بتا کر انہیں آگاہ کیا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبھی انہیں تعلیمات کو کامل اور مکمل صورت میں تمہارے پاس لائے ہیں جو پہلے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی اپنی امتوں کو اپنے زمانے میں دیں ، اگر تم نے بھی انکار کیا اور سرکشی کی رَوِش اختیار کی تو یاد رکھو تمہارا انجام بھی و ہی ہو گاجو پہلے منکرین کا ہوتا آیا ہے۔ دونوں جہاں کی سعادت اور سلامتی مطلوب ہے تو رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت کرو اور ان کا دامنِ رحمت مضبوطی سے تھا م لو ،تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں سربلندی نصیب ہو جائے گی۔

7:94
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ(۹۴)
اور نہ بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی (ف۱۷۶) مگر یہ کہ اس کے لوگوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا (ف۱۷۷) کہ وہ کسی طرح زاری کریں (ف۱۷۸)

{ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا:مگر ہم نے اس کے رہنے والوں کوپکڑا۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خاص قوموں یعنی حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح ،حضرت لوط اور حضرت شعیب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوموں کے تفصیلی حالات اور ان کے کفر و سرکشی کی وجہ سے ان پر نازل ہونے والے عذاب اور اس کی کیفیت کا ذکر فرمایا، اب اس آیت اورا س سے اگلی آیت میں تمام امتوں کے اِجمالی حالات اور ایک عام اصول بیان کیا جارہا ہے کہ جس کے تحت سب قوموں سے برتاؤ ہوتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کبھی کسی علاقے یا شہر میں کوئی نبی عَلَیْہِ السَّلَام مبعوث کئے گئے تووہ ا س جگہ بسنے والوں کو شرک سے بچنے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایک ماننے، صرف اسی کی عبادت کرنے اور اس کی بھیجی ہوئی شریعت پر عمل کرنے کی دعوت دیتے۔ اپنی صداقت کے اظہار کے لئے روشن معجزات دکھاتے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ،مگر اس کے باوجود جب وہاں کے باسی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیتے اور اتنی واضح اور صاف نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آتے تو فوراً ہی ان پر عذاب نازل نہ کر دیا جاتا بلکہ پہلے انہیں طرح طرح کے مصائب و آلام، سختیوں اور تکالیف میں مبتلا کر دیا جاتا تاکہ اس طرح ان کا دماغ ٹھکانے آئے اور باطل مذہب چھوڑکر حق مذہب کے سایۂ رحمت میں آ جائیں اور اگر یہ طریقہ بھی کارگر ثابت نہ ہوتا تو پھر ان پر انعام و اکرام کے دروازے کھول دئیے جاتے، اولاد کی کثرت، مال کی زیادتی، عزت و وقار میں اضافہ، قوت و غلبہ وغیرہ ہر طرح کی آسائشیں انہیں مہیاکر دی جاتیں تاکہ اس طرح وہ اپنے حقیقی محسن کو پہچان کر اس کی نافرمانی سے باز آجائیں اور اس کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کر لیں لیکن اگر وہ مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے کے بعد بھی غفلت سے بیدار نہ ہوتے اور نعمتوں کی بہتات کے باوجود بھی ان کے دل اپنے مہربان اور کریم پرورد گار عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت و فرماں برداری کی طرف مائل نہ ہوتے تو وہ عذابِ الٰہی کے مستحق ٹھہرتے۔ یہ سب بیان کرنے سے مقصود کفارِ قریش اور دیگر کفار کو خوف دلانا ہے تاکہ وہ اپنے کفر و سرکشی سے باز آ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اطاعت گزار و فرماں بردار بن جائیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۱۲۱، ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۴-۹۵، / ۲۷۷، جمل، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۷۷، ملتقطاً۔)

{ قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ:بیشک ہمارے باپ دادا کو(بھی) تکلیف اورراحت پہنچتی رہی ہے۔} جب نافرمان قومیں مصائب وآلام کا شکار ہوئیں تو اس وقت ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ لوگ ان سختیوں اور تکالیف سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے لیکن وہ یہ کہہ کر اپنے دل کومنا لیتے کہ یہ تباہ کن بارش یا قحط سالی یا زلزلہ یا آندھی طوفان جس نے تباہی و بربادی مچادی اور سب کچھ نیست و نابود کردیا، یہ ہمارے باپ دادا کو بھی ایسے ہی تکلیف اور راحت پہنچتی رہی ہے اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کا کوئی دخل نہیں اور نہ ہی یہ ہماری کسی اخلاقی کمزوری، کاروباری بد دیانتی اور غریبوں پر ظلم وتَعَدّی کی سزا ہے بلکہ یہ سب موسمی تغیرات کا نتیجہ ہیں  اور زمانے کا دستور ہی یہ ہے کبھی تکلیف ہوتی ہے کبھی راحت ۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۵، ۵ / ۳۲۱، ملخصاً)

ناگہانی آفات اور مسلمانوں کی حالتِ زار:

ان گزری ہوئی قوموں کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے موجودہ حالات پر تھوڑا غور کر لیں اور اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش کریں کہ ایسی کون سی مصیبت ہے جس سے ہم دوچار نہیں ہوئے، اب بھی طوفان، زلزلے، سیلاب آتے ہیں لیکن ان سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے ان کی سائنسی تحقیقات پر غور کیا جاتا ہے اور جو لوگ اس مصیبت میں مبتلا ہوں ان کا تماشا دیکھا جاتا ہے ۔بقیہ ان چیزوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرنا، توبہ کی طرف راغب ہونا، بارگاہِ الٰہی میں رجوع کرنا، برے اعمال چھوڑ دینا، نیک اعمال میں مشغول ہوجانا، ظلم و ستم اور بددیانتی کو چھوڑ دینا یہ سب کچھ پھر بھی نہیں کیا جاتا بلکہ افسوس !ہمارے دل کی سختی کا تو یہ عالم ہے کہ طوفان کا سن کر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پناہ مانگنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی بجائے خوشی خوشی ساحل سمند رکی طرف طوفان کا نظارہ کرنے دوڑتے ہیں ،گویا آنے والے طوفان جوممکن تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکا عذاب ہوں اسے بھی اپنی تفریح کا ایک ذریعہ سمجھ لیتے ہیں ،زلزلہ یا سیلاب کی تباہی دیکھ کر عبرت پکڑنے کی بجائے ان مصیبت زدوں کی جان و مال اور عزت وآبرو پر ڈاکے ڈالنے لگ گئے۔ ان مصیبت کے ماروں کے لئے امداد رقص و سُرور کی محفلیں سجا کر، بے حیاء عورتوں کے ڈانس دکھا کر ،فحش اور گندے گانے سنا کر جمع کرنے لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔ بادل، آندھی وغیرہ کو دیکھ کر سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمل مبارک کیا تھا اسے اِس حدیث پاک کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں ، حضرت عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے مروی ہے کہ جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تیز آندھی کو ملاحظہ فرماتے اور جب بادل آسمان پر چھا جاتے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرہ ٔ اقدس کا رنگ مُتَغَیَّر ہوجاتا اور آپ کبھی حجرہ سے باہر تشریف لے جاتے اور کبھی واپس آجاتے ، پھر جب بارش ہو جاتی تو یہ کیفیت ختم ہوجاتی ۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا ’’ اے عائشہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا! مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں یہ بادل اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب نہ ہو جو میری امت پر بھیجا گیا ہو۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۴۶، الحدیث: ۹۹۴)

7:95
ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰى عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(۹۵)
پھر ہم نے برائی کی جگہ بھلائی بدل دی (ف۱۷۹) یہاں تک کہ وہ بہت ہوگئے (ف۱۸۰) اور بولے بیشک ہمارے باپ دادا کو رنج و راحت پہنچے تھے (ف۱۸۱) تو ہم نے انہیں اچانک ان کی غفلت میں پکڑ لیا (ف۱۸۲)

7:96
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۹۶)
اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اور ڈرتے (ف۱۸۳) تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے (ف۱۸۴) مگر انہوں نے تو جھٹلایا (ف۱۸۵) تو ہم نے انہیں ان کے کیے پر گرفتار کیا(ف۱۸۶)

{ وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا:اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اورتقویٰ اختیار کرتے۔} پہلی آیت میں بیان ہوا کہ جب ان قوموں نے نافرمانی اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب نازل کیا اور اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ اگر وہ لوگ اطاعت و فرماں برداری کرتے تو اس صورت میں آسمانی اور زمینی برکتیں انہیں نصیب ہوتیں چنانچہ ارشاد فرمایا کہ’’ اگر بستیو ں والے اللہ عَزَّوَجَلَّ، اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اورخدا اور رسول کی اطاعت اختیار کرتے اور جس چیز سے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول عَلَیْہِ السَّلَامنے منع فرمایا اس سے باز رہتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے اور ہر طرف سے انہیں خیر پہنچتی ،وقت پر نافع اور مفید بارشیں ہوتیں ،زمین سے کھیتی پھل بکثرت پیدا ہوتے، رزق کی فراخی ہوتی، امن و سلامتی رہتی اور آفتوں سے محفوظ رہتے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۵ / ۳۲۱)

تقویٰ رحمت ِ الٰہی ملنے کاذریعہ ہے:

            اس سے معلوم ہو ا کہ تقویٰ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی رحمتِ الٰہی کا ذریعہ ہے ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا ‘‘ (الطلاق:۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے (دنیا و آخرت کی مصیبتوں سے) نکلنے کا راستہ بنادے گا۔

 مصائب کی دوری کے لئے نیک اعمال کرنے جائز ہیں :

            اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیاوی مصائب دور کرنے کے لئے نیک اعمال کرنے جائز ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کیلئے عمل کیا جائے تاکہ وہ اپنی رحمت فرماتے ہوئے ہماری حاجت پوری کردے، اسی لئے بارش کیلئے نمازِ اِستِسقاء اور گرہن میں نمازِ کسوف پڑھتے ہیں۔ یہاں ہم ظاہری اور باطنی مصائب کی دوری کے لئے احادیث میں مذکور چند اعمال ذکر کرتے ہیں تاکہ مسلمان ان پر عمل کر کے اپنے مصائب دور کرنے کی کوشش کریں۔

(1)…امُّ المؤمنین حضرت امِّ سلمہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا فرماتی ہیں :میں نے سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان پر کوئی مصیبت آئے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ’’ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ ‘‘ پڑھے (اور یہ دعا کرے) ’’اَللّٰہُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا‘‘ا ے اللہ!میری ا س مصیبت پر مجھے اجر عطا فرما اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما ‘‘تو اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بہتر بدل عطا فرمائے گا۔ (مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ، ص ۴۵۷، الحدیث: ۳ (۹۱۸))

(2)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ یہ دل ایسے زنگ آلود ہوتے رہتے ہیں جیسے لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان دلوں کی صیقل کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ موت کی زیادہ یاد اور قرآنِ کریم کی تلاوت۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۵۲، الحدیث: ۲۰۱۴)

(3)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص روزانہ رات کے وقت سورہ ٔواقعہ پڑھے تو وہ فاقے سے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ۲ / ۴۹۲، الحدیث: ۲۵۰۰)

(4)…حضرت عطاء بن ابی رباح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ مجھے خبر ملی ہے کہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو دن کے شروع میں سورہ  ٔیٰسٓ پڑھ لے تو اس کی تمام ضرورتیں پوری ہوں گی۔ (دارمی،کتاب فضائل القرآن، باب فی فضل یٰس، ۲ / ۵۴۹، الحدیث: ۳۴۱۸)

{ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا:مگر انہوں نے تو جھٹلایا۔} یعنی ایمان لانے کی صورت میں توہم انہیں زمینی اور آسمانی برکتوں سے نوازتے لیکن وہ ایمان نہ لائے اور اللہ عَزَّوَجَلَّکے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو جھٹلانے لگے تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے عذاب میں گرفتار کردیا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۲ / ۱۲۲)

وسعتِ رزق سعادت بھی ہے اور وبال بھی:

             اس آیت سے ثابت ہوا کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کاشکر گزار بندہ ہوتو رزق میں وسعت اور فراخ دستی سعادت ہے اور جب ناشکرا ہو تو یہ اس کے لئے وبال ہے۔ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے

’’ وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘ (ابراہیم:۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرما دیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔

 

7:97
اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ هُمْ نَآىٕمُوْنَؕ(۹۷)
کیا بستیوں والے (ف۱۸۷) نہیں ڈرتے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سوتے ہوں

{ اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰى:کیا بستیوں والے بے خوف ہوگئے۔} یہاں بستیوں والوں سے مراد مکہ مکرمہ اور آس پاس کی بستیوں والے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ہراُس بستی کے افراد ہیں جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کے نبی کو جھٹلایا۔ اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّکے عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ان کی غفلت کے اوقات میں مثلاً رات کو سوتے وقت یا دن میں اس وقت جب یہ کھیل کود میں پڑے ہوں ان پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب نازل ہو جائے کیونکہ عذابِ الٰہی اکثر غفلت کے وقت آتا ہے اور غفلت زیادہ تر رات کے آخری حصے میں یا پورے دن چڑھے ہوتی ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۷، ۲ / ۱۲۲)

نیک اعمال کرنے اور عذابِ الٰہی سے ڈرنے کی ترغیب:

            ان آیات میں جہاں کفار کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے وہیں مسلمانوں کو بھی نیک اعمال کرنے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا  اتَّقُوا  اللّٰهَ  حَقَّ  تُقٰتِهٖ  وَ  لَا  تَمُوْتُنَّ  اِلَّا  وَ  اَنْتُمْ  مُّسْلِمُوْنَ‘‘ (اٰل عمران:۱۰۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔

             حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اے مسلمانوں کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں جس چیز کی رغبت دی ہے اس میں رغبت رکھو اور جس چیز سے یعنی اپنے عذاب، جھڑک اور جہنم سے ڈرایا ہے تو اس سے بچو اور ڈرو۔ اگر جنت کا ایک قطرہ تمہارے ساتھ دنیا میں ہو جس میں تم اب موجود ہو تو وہ تمہارے لئے اسے اچھا کر دے اور اگر جہنم کا ایک قطرہ تمہاری اس دنیا میں آجائے تو وہ اسے تم پر خراب کر دے (البعث والنشور للبیہقی، باب ما جاء فی طعام اہل النار وشرابہم، ص۳۰۳، الحدیث: ۵۴۶)۔([1])


[1] نیک اعمال کی رغبت اور جذبہ پانے اور اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف اجاگر کرنے کے لئے دعوتِ اسلامی کے ساتھ وابستگی مفید ہے۔

7:98
اَوَ اَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًى وَّ هُمْ یَلْعَبُوْنَ(۹۸)
یا بستیوں والے نہیں ڈرتے کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آئے جب وہ کھیل رہے ہوں(ف۱۸۸)

7:99
اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ۠(۹۹)
کیا اللہ کی خفی تدبیر سے بے خبر ہیں (ف۱۸۹) تو اللہ کی خفی تدبیر سے نذر نہیں ہوتے مگر تباہی والے (ف۱۹۰)

{ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِ:کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں۔} مکر کے لغوی معنی ہیں ’’خفیہ تدبیر‘‘  جبکہ عام محاورہ میں دھوکہ اور فریب کو’’ مکر‘‘ کہا جاتا ہے، یہاں اس کا لغوی معنی یعنی خفیہ تدبیر مراد ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے خاص غضب کا ذکر ہے چنانچہ فرمایا گیا ’’کیا کفار اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں اور اس کے ڈھیل دینے اور دُنیوی نعمتیں دینے پر مغرور ہو کر اس کے عذاب سے بے فکر ہوگئے ہیں سن لو! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں اور اس کے مخلص بندے اس کا خوف رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہئے :

            اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے خوف کا دل سے نکل جانا سخت نقصان کا سبب ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّکی ڈھیل یا اس کا کسی بندے کو گناہ پر نہ پکڑنا یہ اس کی خفیہ تدبیر ہے لہٰذا ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ ترغیب کے لئے چند حکایات پیش کی جاتی ہیں۔

(1)…حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام ایک مرتبہ بارگاہِ رسالت میں روتے ہوئے حاضر ہوئے تو رحمت ِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دریافت کیا’’اے جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام! تمہیں کس چیز نے رلا دیا؟ انہوں نے عرض کی: جب سے اللہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا فرمایا ہے ، میری آنکھیں اُس وقت سے کبھی اس خوف کے سبب خشک نہیں ہوئیں کہ مجھ سے کہیں کوئی نافرمانی نہ ہوجائے اور میں جہنم میں ڈال دیا جاؤں۔ (شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۲۱، الحدیث: ۹۱۵)

(2)… جب ابلیس کے مردود ہونے کا واقعہ ہوا تو حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیلعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رونے لگے تو رب تعالیٰ نے دریافت کیا (حالانکہ وہ سب جانتا ہے) ’’تم کیوں روتے ہو؟ انہوں نے عرض کی:اے رب عَزَّوَجَلَّ! ہم تیری خفیہ تدبیر سے بے خوف نہیں ہیں۔ رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: تم اسی حالت پر رہنا (یعنی کبھی مجھ سے بے خوف مت ہونا)۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجائ، بیان احوال الانبیاء والملائکۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۲۳)

(3)…حضرت انس بن مالک  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو ایک باغ کی دیوار کے پاس دیکھا کہ وہ اپنے آپ سے فرما رہے تھے ’’واہ ! لوگ تجھے امیر المؤمنین کہتے ہیں  اور تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے نہیں ڈرتا ، اگر تونے رب تعالیٰ کا خوف نہ رکھا تو اس کے عذاب میں گرفتار ہوجائے گا۔ (کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل ششم، مقام سیم، ۲ / ۸۹۲)

(4)…حضرت ربیع بن خیثم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی صاحب زادی نے ان سے کہا :ابا جان! میں دیکھتی ہوں کہ سب لوگ سوتے ہیں اور آپ نہیں سوتے اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا: اے میری نورِ نظر! تیرا باپ رات کو سونے سے ڈرتا ہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کااشارہ اوپر مذکور آیت کی طرف تھا۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۳۷۷)

(5)… حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُچالیس برس تک نہیں ہنسے ، جب ان کو بیٹھے ہوئے دیکھا جاتا تو یوں معلوم ہوتا گویا ایک قیدی ہیں جسے گردن اڑانے کے لئے لایا گیا ہو، اور جب گفتگو فرماتے تو انداز ایسا ہوتا گویا آخرت کو آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر بتا رہے ہیں ، اور جب خاموش رہتے تو ایسا محسوس ہوتا گویا ان کی آنکھوں میں آگ بھڑک رہی ہے ، جب اُن سے اس قدر غمگین وخوف زدہ رہنے کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا ’’مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میرے بعض ناپسندیدہ اعمال کو دیکھ کر مجھ پر غضب فرمایا اور یہ فرما دیا کہ جاؤ! میں تمہیں نہیں بخشتا تو میرا کیا بنے گا؟ (احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجائ، بیان احوال الصحابۃ والتابعین۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۳۱)

            اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اپنی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین

7:100
اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْۚ-وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ(۱۰۰)
اور کیا وہ جو زمین کے ما لکوں کے بعد اس کے وارث ہوئے انہیں اتنی ہدایت نہ ملی کہ ہم چاہیں تو انہیں ان کے گناہوں پر آ فت پہنچائیں (ف۱۹۱) اور ہم ان کے دلوں پر مہر کرتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سنتے(ف۱۹۲)

{ اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ:اور کیا ان لوگوں کو ہدایت نہ ملی۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں کے کفار کا تفصیلی اور اجمالی حال بیان فرمایا اب اس آیت میں اُن واقعات کو بیان کرنے کی حکمت کا ذکر ہے کہ یہ واقعات ان موجودہ کافروں کی ہدایت کیلئے بیان کئے گئے ہیں تاکہ ان سے یہ عبرت پکڑیں اور ایمان لائیں۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۵ / ۳۲۳، ملتقطاً)

            آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ جو قومِ نوح، قومِ ثمود، اور قومِ مدین کے بعد ان علاقوں میں آباد ہوئے ہیں اتنے کم فہم اور نادان ہیں کہ یہ لوگ گزشتہ قوموں پر عذاب کے آثار دیکھ کر اتنی عبرت بھی حاصل نہیں کرتے کہ جن کی سرزمین کا انہیں وارث بنایا گیا اُن کا نافرمانی کے سبب کتنا برا انجام ہوا ؟ کیا ان لوگوں کو اتنی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ جس ربِّ قدیرعَزَّوَجَلَّ نے پچھلی قوموں کو ان کے کرتوتوں کی سزا دی وہ آج انہیں بھی سزا دینے پر قادر ہے۔

{ وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ:اور ہم ان کے دلوں پر مہرلگادیتے ہیں۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جس کے سامنے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے راستے واضح فرما دئیے اور گزشتہ امتوں کی مثالیں بھی بیان فرما دیں وہ اس کے بعد بھی اپنے کفر اور سرکشی پر قائم رہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے جس کے سبب وہ کسی حق بات کو قبول کرنے کیلئے سنتا ہی نہیں۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۴ / ۳۵۲)

            اس آیت میں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کے ہر طرح سے انہیں نصیحت کرنے کے باوجود بھی اگریہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ غم نہ کریں ،آپ کی تبلیغ کے مؤثِّر ہونے میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں کفر و ہٹ دھرمی کی سزا دینے کیلئے ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔

7:101
تِلْكَ الْقُرٰى نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآىٕهَاۚ-وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُؕ-كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الْكٰفِرِیْنَ(۱۰۱)
یہ بستیاں ہیں (ف۱۹۳) جن کے احوال ہم تمہیں سناتے ہیں (ف۱۹۴) اور بیشک ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں (ف۱۹۵) لے کر آئے تو وہ (ف۱۹۶) اس قابل نہ ہوئے کہ وہ اس پر ایمان لاتے جسے پہلے جھٹلاچکے تھے (ف۱۹۷) اللہ یونہی چھاپ لگادیتا ہے کا فروں کے دلوں پر(ف۱۹۸)

{ تِلْكَ الْقُرٰى:یہ بستیاں ہیں۔} اس آیت میں خطاب حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے اور بستیوں سے وہ پانچ بستیاں مراد ہیں کہ جن کے احوال کا ذکر ما قبل آیات میں گزرا یعنی قومِ نوح،قومِ ہود،قومِ صالح، قومِ لوط اور قومِ شعیب کی بستیاں۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۴ / ۳۵۳، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۵ / ۳۲۴، ملتقطاً)

             اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم تمہیں ان بستیوں اور ان میں رہنے والوں کے بارے میں بتاتے ہیں ، ان کے حالات اور ان کے اپنے رسولوں کے ساتھ کئے گئے معاملات کی خبر دیتے ہیں تاکہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ جان لو کہ ہم رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کی ان کے دشمن کفار کے مقابلے میں کیسی مدد فرماتے ہیں اور کفار کو ان کے کفرو عناد اور سرکشی کی سزا میں کس طرح ہلاک کرتے ہیں ، لہٰذا مشرکینِ مکہ کو چاہئے کہ پچھلی قوموں کے حالات سے عبرت و نصیحت حاصل کریں اور اپنی سرکشی سے باز آجائیں ورنہ ان کا انجام بھی انہی جیساہو گا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۱۲۳)

{ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ:تووہ اس قابل نہ ہوئے کہ اس پر ایمان لے آتے جسے پہلے جھٹلا چکے تھے۔} اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے متعدد اقوال نقل کئے ہیں۔

(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں :اس کا معنی یہ ہے کہ عالمِ ارواح میں میثاق کے دن وہ لوگ جس چیز کو دل سے جھٹلا چکے تھے کہ صرف زبان سے ’’ بَلٰی‘‘ کہہ کر اقرار کر لیا اوردل سے انکار کیا تھا اسے نبی سے سن کر بھی نہ مانے بلکہ اسی انکار پر قائم رہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۵ / ۳۲۴)

(2)…امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر ہم ان لوگوں کوہلاک کرنے اور عذاب کا مُعایَنہ کروانے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں بھیج دیتے تب بھی وہ اس چیز کو نہ مانتے جسے وہ پہلی زندگی میں جھٹلا چکے تھے۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۱۲۳)

(3)… نبیوں کے معجزات دیکھنے سے پہلے جس چیز کو جھٹلا چکے تھے اسے معجزات دیکھ کر بھی نہ مانے۔ (تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۴ / ۱۸۴، الجزء السابع)

(4)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تشریف آوری پر پہلے دن جس کا انکار کر چکے تھے آخر تک اسے نہ مانے جھٹلاتے ہی رہے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۳۷۷)

{ كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الْكٰفِرِیْنَ:اللہ یونہی کا فروں کے دلوں پرمہر لگادیتا ہے۔}ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کے کفار کے دلوں پر مہر لگا دی اور انہیں ہلاک کر دیا اسی طرح آپ کی قوم کے ان کافروں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتاہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ لکھ چکا کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۱۲۳)

7:102
وَ مَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍۚ-وَ اِنْ وَّجَدْنَاۤ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِیْنَ(۱۰۲)
اور ان میں اکثر کو ہم نے قول کا سچا نہ پایا (ف۱۹۹) اور ضرور ان میں اکثر کو بے حکم ہی پایا،

{ وَ مَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ:اور ہم نے ان کے اکثرلوگوں کوعہد پورا کرنے والا نہ پایا۔} اس عہد سے مراد وہ وعدہ اور عہد و پیمان ہے جو اللہ تعالیٰ نے میثاق کے دن ان سے لیا تھا یا مراد یہ ہے کہ جب کبھی کوئی مصیبت آتی تو عہد کرتے کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو ہمیں اس سے نجات دے تو ہم ضرور ایمان لائیں گے پھر جب نجات پاتے تو اس عہد سے پھر جاتے اور ایمان نہ لاتے۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۱۵۴، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۳۷۷، ملتقطاً)

مصیبت کے وقت عہد و پیمان اور بعد میں اس کے بر خلاف:

            آیت میں عہد کی جو دوسری تفسیر بیان کی گئی ہے اس کو پیشِ نظر رکھ کر اپنے احوال پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر بھی عملی اعتبار سے ایسی کمزوریاں پائی جاتی ہیں کہ کوئی بیمار پڑتا ہے یا مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے عہد و پیمان کرتا ہے کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ایک مرتبہ مجھے اس مصیبت سے چھٹکارا دیدے ، دوبارہ ساری زندگی تیری فرمانبرداری میں گزاروں گا مگر جیسے ہی وہ مصیبت دور ہوتی ہے تو یہ سب عہد و پیمان پسِ پشت ڈال دئیے جاتے ہیں اور وہی پرانی موج مستی اور غفلت و معصیت کی زندگی لوٹ آتی ہے۔

            یہاں تک حضرت نوح ،حضرت ہود ،حضرت صالح ،حضرت لوط اور حضرت شعیب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں کے واقعات بیان فرمائے گئے اب اس کے بعد والی آیتوں سے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ شروع ہوتا ہے۔

7:103
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ فَظَلَمُوْا بِهَاۚ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(۱۰۳)
پھر ان (ف۲۰۰) کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں (ف۲۰۱) کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان نشانیوں پر زیادتی کی (ف۲۰۲) تو دیکھو کیسا انجام ہوا مفسدوں کا،

{ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى:پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ کو بھیجا۔} اس سورت میں جو واقعات مذکور ہیں ان میں سے یہ چھٹا قصہ ہے۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کو ما قبل ذکر کئے گئے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات کے مقابلے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات ان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے معجزات کے مقابلے میں زیادہ مضبوط تھے اور آپ کی قوم کی جہالت بھی دیگر نبیوں کی اقوام کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ (تفسیرکبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۵ / ۳۲۴)

            اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ا س سے پہلی آیات میں جن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر ہوا ان کے بعد ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ان کی صداقت پر دلالت کرنے والی نشانیوں جیسے روشن ہاتھ اور عصا وغیرہ معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا توانہوں نے ان نشانیوں پر زیادتی کی کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جو نشانیاں لے کر آئے تھے وہ بالکل صاف واضح اور ظاہر تھیں لیکن پھر بھی فرعون اور اس کے درباریوں نے اقرار کی بجائے انکار ہی کیا تو انہوں نے اقرار کی جگہ انکار اور ایمان کی جگہ کفر کو رکھ کر حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نشانیوں کے ساتھ زیادتی کی تو اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نگاہِ بصیرت سے دیکھیں کہ فسادیوں کاکیسا انجام ہوا اور ہم نے انہیں کس طرح ہلاک کیا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۵ / ۳۲۵، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۱۲۳-۱۲۴، ملتقطاً)

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مختصرتعارف:

            حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام عمران اور آپ کی والدہ کا نام ا یارخا بھی مذکور ہے۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامحضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات سے چار سو برس اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے سات سو برس بعد پیدا ہوئے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ایک سو بیس برس عمر پائی۔ (البدایہ والنہایہ، ذکر قصۃ موسی الکلیم علیہ الصلاۃ والتسلیم، ۱ / ۳۲۶،۳۲۹، صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۶۹۶، ملتقطاً)

          نوٹ:حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زندگی کے اہم واقعات اللہ تعالیٰ نے اس سورت اور دیگر سورتوں میں بیان فرمائے ہیں ان کی تفصیل اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان آیتوں کی تفسیر میں بیان کی جائے گی۔

فرعون کا مختصر تعارف:

          فرعون اصل میں ایک شخص کا نام تھا پھر دورِ جاہلیت میں یہ مصر کے ہر بادشاہ کا لقب بن گیا۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے کے فرعون کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۶۹۶)

 

7:104
وَ قَالَ مُوْسٰى یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۰۴)
اور موسیٰ نے کہا اے فرعون! میں پرور دگا ر عالم کا رسول ہوں،

{ وَ قَالَ مُوْسٰى یٰفِرْعَوْنُ:اور موسیٰ نے فرمایا: اے فرعون!۔}  جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون کے پاس تشریف لے گئے تواسے اللہ تعالیٰ کی رَبُوبِیَّت کا اقرار کرنے اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دی اور اس سے فرمایا: میں ربُّ العالمین کی طرف سے تیری جانب اور تیری قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۱۲۴)

          نوٹ:سورۂ شعراء اور سورۂ طٰہٰ میں اس سے پہلے کا تفصیلی واقعہ مذکورہے۔

7:105
حَقِیْقٌ عَلٰۤى اَنْ لَّاۤ اَقُوْلَ عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّؕ-قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۱۰۵)
مجھے سزاوار ہے کہ اللہ پر نہ کہوں مگر سچی بات (ف۲۰۳) میں تم سب کے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لےکر آیا ہوں (ف۲۰۴) تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ چھوڑ دے(ف۲۰۵)

{ حَقِیْقٌ:میری شان کے لائق یہی ہے ۔} حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا کلام سن کر فرعون نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو، اس پر آپ نے ارشاد فرمایا : ’’میری شان کے لائق یہی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں سچ کے سوا کچھ نہ کہوں کیونکہ رسول کی یہی شان ہے کہ وہ کبھی غلط بات نہیں کہتے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ص۳۷۸)اور میں تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نشانیاں یعنی معجزات لے کرآیا ہوں۔

{ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ چھوڑ دے۔} جب حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی رسالت کی تبلیغ سے فارغ ہوئے تو چونکہ آپ کا رسول ہونا ثابت ہو چکا تھا اور فرعون پر آپ کی اطاعت فرض ہو گئی تھی اس لئے آپ نے فرعون کوحکم فرمایا: ’’ تو بنی اسرائیل کواپنی غلامی سے آزاد کردے تاکہ وہ میرے ساتھ ارضِ مُقَدَّسہ میں چلے جائیں جو اُن کا وطن ہے۔ بنی اسرائیل کی غلامی کا سبب یہ ہو اتھا کہ حضرت یعقوبعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی وجہ سے اپنے وطن فلسطین سے ہجرت کر کے مصر میں آباد ہو گئی، مصر میں ان کی نسل کافی بڑھی، جب فرعون کی حکومت آئی تو اس نے انہیں اپنا غلام بنا لیا اور ان سے جبری مشقت لینا شروع کر دی ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں ا س غلامی سے نجات دلانا چاہی اور فرعون سے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے تاکہ یہ اپنے آبائی وطن میں آباد ہوں۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۲ / ۶۹۷)

7:106
قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۰۶)
بولا اگر تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو لاؤ اگر سچے ہو،

{ قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاکہا:اگر تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو اسے پیش کرو۔}اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی رسالت کی تبلیغ مکمل فرمائی تو فرعون نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اگرآپ کے پاس اپنی صداقت کی کوئی نشانی ہے تومیرے سامنے اسے ظاہر کریں تاکہ پتا چل جائے کہ آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں یا نہیں تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنا عصا زمین پرڈال دیا ،وہ فورا ً ایک ظاہر اژدہا بن گیا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۷، ۲ / ۱۲۴)

عصائے کلیم اژدہائے غضب:

            تفسیر صاوی میں ہے ’’جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے لاٹھی پھینکی تو وہ زرد رنگ کا ایک بال دار اژدہا بن گئی، اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان تقریباً ایک سو بیس فٹ کا فاصلہ تھا ،وہ اپنی دم پر کھڑا ہو گیا ،اس کا ایک جبڑا زمین پر تھاا ور دوسرا جبڑا فرعون کے محل کی دیوار پر تھا، وہ اژدہا فرعون کو پکڑنے کے لئے دوڑا تو فرعون اپنا تخت چھوڑ کربھاگ گیا۔( صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲ / ۶۹۷)

 

7:107
فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ(۱۰۷)
تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا وہ فورا ً ایک ظاہر اژدہا ہوگیا (ف۲۰۶)

7:108
وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ۠(۱۰۸)
اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا (ف۲۰۷)

{وَنَزَعَ یَدَهٗ:اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا۔} اس آیت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے دوسرے معجزے کا ذکر ہے کہ آپ نے ا پنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا اور اس کی روشنی اور چمک نورِ آفتاب پر غالب ہوگئی۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرعون کو اپنا ہاتھ دکھا کر پوچھا کہ’’ یہ کیا ہے؟ فرعون نے جواب دیا :آپ کا ہاتھ ہے۔ پھر حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا پنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا تو وہ جگمگانے لگا۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۳۷۸)

دستِ اقدس کا کمال:

             یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے مبارک ہاتھ کا کمال تھا ،اب سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ اقدس کا کمال ملاحظہ فرمائیے، چنانچہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :

ہر خطِ کف ہے یہاں اے دستِ بیضائے کلیم

موجزن دریائے نورِ بے مثالی ہاتھ میں

یعنی اے پیارے موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چمکتے ہوئے نورانی ہاتھ! تیری بڑی شان ہے لیکن ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دستِ کرم کی ہر لکیر سے نور کا ایک بے مثال دریا موجزن ہے ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہر لکیر کی یہ شان ہے تو پورے دستِ اقدس کی عظمت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔

7:109
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ(۱۰۹)
قوم فرعون کے سردار بولے یہ تو ایک علم والا جادوگر ہے (ف۲۰۸)

{ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ:قومِ فرعون کے سردار بولے۔ } جب حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی صداقت ظاہر کرنے کیلئے دو معجزات دکھائے تو قومِ فرعون کے سردار بولے: بیشک یہ توبڑے علم والا جادوگر ہے جس نے جادو سے نظر بندی کر دی اور لوگوں کو عصا اژدہا نظر آنے لگا اور گندمی رنگ کا ہاتھ آفتاب سے زیادہ روشن معلوم ہونے لگا۔ انہوں نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے متعلق یہ بات اس لئے کہی کہ اس زمانے میں جادو کا بڑا زور تھا، جادو کی بہت سی قسمیں تھیں اور بعض قسمیں بڑی حیران کن تھیں ،اسی لئے فرعون کی قوم نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں خیال کیا کہ یہ جادو میں بڑے ماہر ہیں ، پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ انہوں نے اتنا بڑا جادو اس لئے پیش کیا ہے کہ یہ شائد ملک و ریاست کے طلبگار ہیں۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۲ / ۱۲۵، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۵ / ۳۳۰، ملتقطاً)

7:110
یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْۚ-فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ(۱۱۰)
تمہیں تمہارے ملک (ف۲۰۹) سے نکا لا چاہتا ہے تو تمہارا کیا مشورہ ہے،

{ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ:تو تمہارا کیا مشورہ ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 12 آیات میں مذکور واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ درباریوں نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات دیکھ کر انہیں بہت ماہر جادوگر سمجھا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے جادو کے زور سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا کر مملکت پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں تو فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا: تم اس کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو؟ انہوں نے کہا: تم حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائی حضرت ہارونعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چند روز کی مہلت دو اور شہروں میں اپنے خاص آدمی بھیج دو تاکہ وہ ایسے جادو گر جمع کر کے لائیں جو جادو میں ماہر ہوں اور سب پر فائق ہوں تا کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مقابلہ کر کے انہیں شکست دیں۔ چنانچہ فرعون نے اپنی مملکت کے تمام ماہر جادو گروں کو جمع کر لیا۔ ان جادو گروں کو علم تھا کہ جس مقصد کے لئے انہیں طلب کیا گیا ہے وہ بڑا اہم ہے چنانچہ انہوں نے فرعون سے کہا: اگر ہم غالب آگئے اور حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شکست دے دی تو کیا ہمیں یقینی طور پر کوئی شاہانہ انعام ملے گا۔ فرعون یہ تسلی آمیز الفاظ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا: بے شک تمہیں انعام واکرام سے نوازا جائے گا اور صرف یہی نہیں بلکہ تمہیں میرے خاص قریبی لوگوں میں داخل کر لیا جائے گا۔ یہ جادوگر کل ستر ہزار تھے جن میں چند سردار تھے، جب مقابلے کا دن آیا تو سب مقررہ جگہ پر جمع ہوئے، مقابلے کا آغاز ہوا توجادوگروں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے کہا: اے موسیٰ! یا تو آپ پہلے اپنا عصا زمین پرڈالیں یا ہم اپنے پاس موجود چیزیں ڈالتے ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا: تم ہی پہلے ڈالو۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمانا اس لئے تھا کہ آپ کو ان کی کچھ پرواہ نہ تھی اور آپ کو کامل اعتماد تھا کہ ان کے معجزے کے سامنے سحر ناکام و مغلوب ہوگا۔ جب انہوں نے اپنا سامان ڈالا جس میں بڑے بڑے رسے اور لکڑیاں تھیں تو وہ اژدہے نظر آنے لگے اور میدان ان سے بھرا ہوا معلوم ہونے لگا۔ لوگ یہ دیکھ کر خوف زدہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو وحی فرمائی کہ تم اپنا عصا ڈال دو۔ جب حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا عصا ڈالا تو وہ ایک عظیم الشان اژدہا بن گیا۔ وہ جادو گروں کی سحر کاریوں کو ایک ایک کرکے نگل گیا اور تمام رسے اور لٹھے جو اُنہوں نے جمع کئے تھے جو تین سو اونٹ کا بار تھے سب کا خاتمہ کردیا جب موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کو دستِ مبارک میں لیا تو پہلے کی طرح عصا ہوگیا اور اس کا حجم اور وزن اپنے حال پر رہا یہ دیکھ کر جادو گروں نے پہچان لیا کہ عصائے موسیٰ سحر نہیں اور قدرتِ بشری ایسا کرشمہ نہیں دکھا سکتی ضرور یہ امرِسَماوی ہے چنانچہ یہ معجزہ دیکھ کران پر ایسا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار ’’ اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یعنی ہم تمام جہانوں کے رب پر ایمان لائے  ‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں گر گئے اور ان کا حال ایسے معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے پیشانیاں پکڑ کر زمین پر لگادیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۰-۱۱۷، ۲ / ۱۲۵-۱۲۷، قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۴ / ۱۸۷، الجزء السابع، روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۰-۱۲۱، ۵ / ۳۸، ملخصاً)

{ قَالُوْا یٰمُوْسٰى:بولے اے موسیٰ۔} جادوگروں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ ادب کیا کہ آپ کو مقدم کیا اور آپ کی اجازت کے بغیر اپنے عمل میں مشغول نہ ہوئے، اس ادب کا عوض انہیں یہ ملا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان و ہدایت کی دولت سے سرفراز فرما دیا ۔ (قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۴ / ۱۸۶، الجزء السابع)

 { سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ: لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔} اس آیت میں جادو گروں کے جادو کے اثر کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے پھینکے ہوئے رسوں اور لاٹھیوں کی حقیقت نہ بدلی بلکہ لوگوں کی نگاہوں پر اثر ڈال دیا کہ لوگوں کو رینگتے دوڑتے سانپ محسوس ہوئے ۔اس سے معلوم ہوا کہ فرعون کے جادوگروں کے جادو کی صورت یہ تھی یعنی حقیقت نہ بدلی تھی۔

{ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ:اور وہ بہت بڑا جادولے کر آئے۔} جب جادو گروں نے موٹے رسے اور لمبی لاٹھیاں ڈالیں تو وہ پہاڑوں کی مانند اژدہے بن گئے جس سے میدان بھر گیا اور اژدہے ایک دوسرے پر چڑھنے لگے۔ ایک قول یہ ہے کہ جادو گروں نے رسیوں پر پارہ مل دیا اور لاٹھیوں میں بھی پارہ ڈال دیا پھر انہیں زمین پر پھینک دیا، جب ان پر سورج کی روشنی پڑی تو ایسے محسوس ہونے لگا کہ یہ دوڑتے ہوئے سانپ ہیں۔ وہ میدان ایک میل لمبا تھا اور پورا میدان سانپوں سے بھرا پڑا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر لوگ خوف زدہ ہو گئے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۲ / ۱۲۷)

7:111
قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ اَرْسِلْ فِی الْمَدَآىٕنِ حٰشِرِیْنَۙ(۱۱۱)
بولے انہیں اور ان کے بھائی (ف۲۱۰) کو ٹھہرا اور شہروں میں لوگ جمع کرنے والے بھیج دے،

7:112
یَاْتُوْكَ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ(۱۱۲)
کہ ہر علم والے جادوگر کو تیرے پاس لے آئیں (ف۲۱۱)

7:113
وَ جَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ(۱۱۳)
اور جادوگر فرعون کے پاس آئے بولے کچھ ہمیں انعام ملے گا اگر ہم غالب آئیں،

7:114
قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ(۱۱۴)
بولا ہاں اور اس وقت تم مقرب ہوجا ؤ گے،

7:115
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ(۱۱۵)
بولے اے موسیٰ یا تو (ف۲۱۲) آپ ڈالیں یا ہم ڈالنے والے ہوں(ف۲۱۳)

7:116
قَالَ اَلْقُوْاۚ-فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْهَبُوْهُمْ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ(۱۱۶)
کہا تمہیں ڈالو (ف۲۱۴) جب انہوں نے ڈالا (ف۲۱۵) لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور انہیں ڈرایا اور بڑا جادو لائے،

7:117
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَلْقِ عَصَاكَۚ-فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَۚ(۱۱۷)
اور ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ اپنا عصا ڈال تو ناگاہ ان کی بناوٹوں کو نگلنے لگا (ف۲۱۶)

7:118
فَوَقَعَ الْحَقُّ وَ بَطَلَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَۚ(۱۱۸)
تو حق ثابت ہوا اور ان کا کام باطل ہوا،

7:119
فَغُلِبُوْا هُنَالِكَ وَ انْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَۚ(۱۱۹)
تو یہاں وہ مغلوب پڑے اور ذلیل ہوکر پلٹے

7:120
وَ اُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَۚۖ(۱۲۰)
اور جادوگر سجدے میں گرادیے گئے (ف۲۱۷)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْاَعْرَاف
اَلْاَعْرَاف
  00:00



Download

اَلْاَعْرَاف
اَلْاَعْرَاف
  00:00



Download