READ

Surah Al-Aa'raaf

اَلْاَعْرَاف
206 Ayaat    مکیۃ


7:41
لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّ مِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ(۴۱)
انہیں آگ ہی بچھونا اور آگ ہی اوڑھنا (ف۷۰) اور ظالموں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں،

{ لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ:ان کے لئے آگ بچھونا ہے۔} یعنی اُوپر نیچے ہر طرف سے آگ انہیں گھیرے ہوئے ہے۔ صرف اوپر نیچے کا ذکر فرمایا کیونکہ دایاں بایاں خود ہی سمجھ میں آگیا ۔ حضرت سوید بن غفلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب اللہ تعالیٰ اس بات کا ارادہ فرمائے گا کہ جہنمی اپنے ماسوا سب کوبھول جائیں تو ان میں سے ہر شخص کے لئے اس کے قد برابر آگ کا ایک صندوق بنایا جائے گا پھر اس پر آگ کے تالوں میں سے ایک تالا لگا دیا جائے گا، پھر اس شخص کی ہر رگ میں آگ کی کیلیں لگا دی جائیں گی، پھر اس صندوق کو آگ کے دوسرے صندوق میں رکھ کر آگ کا تالا لگا دیا جائے گا ، پھر ان دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی تو اب ہر کافر یہ سمجھے گا کہ اس کے سوا اب کوئی آگ میں نہ رہا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، الشعبی، ۸ / ۲۸۱، الحدیث: ۱۰)

7:42
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۤ٘ -اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۴۲)
اور وہ جو ایمان لائے اور طاقت بھر اچھے کام کیے ہم کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے، وہ جنت والے ہیں، انہیں اس میں ہمیشہ رہنا،

{ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اور وہ جو ایمان لائے ۔} اس سے پہلے چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے لئے وعید اور آخرت میں جو کچھ ان کے لئے تیار فرمایا اس کا ذکر کیا، اب ایمان والوں سے جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا اور آخرت میں جو کچھ ان کیلئے تیار فرمایا اس کا ذکر فرما رہا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے تو وہ جنت والے ہیں اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ اس سے دومسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ ایمان اعمال پر مقدم ہے، پہلے ایمان قبول کیا جائے اور بعد میں نیک کام کئے جائیں ، دوسرا یہ کہ کوئی شخص نیک اعمال سے بے نیاز نہیں چاہے کسی طبقے اور کسی جماعت سے اس کا تعلق ہو۔

{ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا:ہم کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے۔}  اس آیت میں مسلمانوں کیلئے بہت پیاری تسلی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ احکام کا پابند نہیں کرتا ۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جنت میں جانے کیلئے کوئی بہت زیادہ مشقت برداشت نہیں کرنا پڑے گی بلکہ اکثر وبیشتر احکام وہ ہیں جن پر آدمی نہایت سہولت کے ساتھ عمل کرلیتا ہے جیسے نماز، روزہ اور دیگر عبادات۔ زکوٰۃ اور حج تو لازم ہی اس پر ہیں جواپنی سب ضروریات کے بعد زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی کی بقدر زائد رقم رکھتے ہوں۔ یونہی ماں باپ، بہن بھائیوں ، رشتے داروں اور پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ کی ادائیگی بھی عمومی زندگی کا حصہ ہے۔ یونہی ذکرو درود بھی روح کی غذا ہے اور یہی اعمال جنت میں لے جانے والے ہیں۔ تو جنت میں جانے کا راستہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نہایت آسان بنایا ہے، صرف اپنی ہمت کا مسئلہ ہے۔[1]


[1]    نیک اعمال کی رغبت پانے کے لئے کتاب’’جنت میں لے جانے والے اعمال‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ بہت مفید ہے،یونہی دعوتِ اسلامی کے ساتھ وابستگی بھی بہت فائدہ مند ہے۔

7:43
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُۚ-وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِهٰذَا- وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُۚ-لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّؕ-وَ نُوْدُوْۤا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۴۳)
اور ہم نے ان کے سینوں سے کینے کھینچ لیے (ف۷۱) ان کے نیچے نہریں بہیں گی اور کہیں گے (ف۷۲) سب خوبیاں اللہ کو جس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی (ف۷۳) اور ہم راہ نہ پاتے اگر اللہ ہمیں راہ نہ دکھاتا، بیشک ہمارے رب کے رسول حق لائے (ف۷۴) اور ندا ہوئی کہ یہ جنت تمہیں میراث ملی (ف۷۵) صلہ تمہارے اعمال کا،

{ وَ نَزَعْنَا:اور ہم نے کھینچ لیا۔} اللہ عَزَّوَجَلَّنے جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان کیسا پیارا تقابل بیان فرمایا ہے کہ اُن کے نیچے آگ کے بچھونے تھے اور اِن کے محلات کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ اُن کے گروہ ایک دوسرے پر لعنت کر رہے تھے اور اِن جنتیوں کے دلوں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کینے کو نکال دیا اور یہ سب پاکیزہ دل والے ہوں گے۔ نہ تو دنیوی باتوں کا کینہ ان کے دلوں میں ہوگا اور نہ ہی جنت میں ایک دوسرے کے بلند مقامات و محلات پر حسد کریں گے بلکہ سب پیارو محبت سے رہ رہے ہوں گے۔

پاکیزہ دل ہونا جنتیوں کا وصف ہے:

اس سے معلوم ہوا کہ پاکیزہ دل ہونا جنتیوں کے وصف ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے امید ہے کہ جو یہاں اپنے دل کو بغض وکینہ اور حسد سے پاک رکھے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اسے پاکیزہ دل والوں یعنی جنتیوں میں داخل فرمائے گا۔ جنت میں جانے سے پہلے سب کے دلوں کو کینہ سے پاک کردیا جائے گا چنانچہ بخاری شریف کی حدیث ہے، حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جب مسلمانوں کی دوزخ سے نجات ہو جائے گی تو انہیں جنت اور دوزخ کے درمیان پل پر روک لیا جائے گا پھر ان میں سے جس نے جس کے ساتھ دنیا میں زیادتی کی ہو گی اس کا قصاص لیا جائے گا پس جب ان کوپاک اور صاف کر دیاجائے گا تب ان کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ِقدرت میں محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی جان ہے ان میں سے ہر ایک شخص کو جنت میں اپنے ٹھکانے کا دنیا کے ٹھکانے سے زیادہ علم ہوگا۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ، ۴ / ۲۵۶، الحدیث: ۶۵۳۵)

بغض و کینہ کی مذمت:

یہاں چونکہ بغض وکینہ کا تذکرہ ہوا اس کی مناسبت سے یہاں بغض و کینہ کا مفہوم اور اس کی مذمت بیان کی جاتی ہے۔ چنانچہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں :جب آدمی عاجز ہونے کی وجہ سے فوری غصہ نہیں نکال سکتا تو وہ غصہ باطن کی طرف چلا جاتا ہے اور وہاں داخل ہو کر کینہ بن جاتا ہے۔ کینہ کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کو بھاری جاننا، اس سے نفرت کرنا اور دشمنی رکھنا اور یہ بات ہمیشہ ہمیشہ دل میں رکھنا۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذم الغضب والحقد والحسد، القول فی معنی الحقد ونتائجہ وفضیلۃ العفو والرفق، ۳ / ۲۲۳)

احادیث میں بغض وکینہ کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’لوگوں کے اعمال ہر ہفتہ میں دو مرتبہ پیر اور جمعرات کے دن پیش کئے جاتے ہیں اور ہر مسلمان بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے اس بندے کے جو اپنے بھائی کے ساتھ کینہ رکھتا ہو۔ کہا جاتا ہے ’’اسے چھوڑ دو یا مہلت دو حتّٰی کہ یہ رجوع کر لیں۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النہی عن الشحناء والتہاجر، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۶(۲۵۶۵))

             حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بغض رکھنے والوں سے بچو کیونکہ بغض دین کو مونڈڈالتا (یعنی تباہ کردیتا ) ہے ۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الباب الثانی فی الاخلاق والافعال المذمومۃ، الفصل الثانی، ۲ / ۱۸۲، الحدیث: ۷۳۹۶، الجزء الثالث)

نوٹ:بغض و کینہ کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے ’’احیاء ُالعلوم‘‘ کی تیسری جلد کا مطالعہ فرمائیں۔([1])

مسلمانوں کوآپس میں کیسا ہونا چاہیے؟:

            مسلمانوں کوآپس میں کیسا ہونا چاہیے اس کیلئے درج ذیل 5 احادیث کا مطالعہ فرمائیں :

(1)… حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے، پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل فرمائیں۔ (بخاری، کتاب الادب، باب تعاون المؤمنین بعضہم بعضاً، ۴ / ۱۰۶، الحدیث: ۶۰۲۶)یعنی جس طرح یہ ملی ہوئی ہیں مسلمانوں کو بھی اسی طرح ہونا چاہئے ۔

(2)…حضرت نعمان بن بشیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمانوں کی آپس میں دوستی اور رحمت و شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے، جب جسم کا کوئی عُضْو بیمار ہوتا ہے تو بخار اوربے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہوتا ہے۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم وتعاضدہم، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۶(۲۵۸۶))

(3)… حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں اچھا وہ شخص ہے جس سے بھلائی کی امید ہو اور جس کی شرارت سے امن ہو اور تم میں برا وہ شخص ہے جس سے بھلائی کی امید نہ ہو اور جس کی شرارت سے امن نہ ہو۔ (ترمذی، کتاب الفتن، ۷۶-باب، ۴ / ۱۱۶، الحدیث: ۲۲۷۰)

(4)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘(مسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل علی انّ من خصال الایمان۔۔۔ الخ، ص۴۳، الحدیث: ۷۲(۴۵))

(5)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’گفتگو کرتے وقت اچھے طریقے سے بات کرنا، جب کوئی گفتگوکرے تو اچھے انداز میں اس کی بات سننا، ملاقات کے وقت مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنا اور وعدہ پورا کرنا مومن کے اخلاق میں سے ہے ۔ (مسند الفردوس، باب المیم، ۳ / ۶۳۷، الحدیث:  ۵۹۹۷)

{ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ:اور وہ کہیں گے تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔} مؤمنین جنت میں داخل ہوتے وقت کہیں گے: تمام تعریفیں اس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے ہمیں اچھے اعمال کی ہدایت دی اور ہمیں ایسے عمل کی توفیق دی جس کا یہ اجرو ثواب ہے اور ہم پر فضل و رحمت فرمائی اور اپنے کرم سے عذاب ِجہنّم سے محفوظ کیا۔

اچھے عمل کی توفیق ملنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کی جائے:

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد اور اس کا شکر جنت میں بھی ہو گا کیونکہ وہ حمد و شکر ہی کا مقام ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہو اکہ علم و عمل اور ہدایت کی توفیق اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی عطا سے ہے لہٰذا کسی کو علم یا اچھے عمل کی توفیق ملے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد کرے اور اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی توفیق جانے ۔ اسی وجہ سے ہمیں بکثرت لاحول شریف پڑھنے کا فرمایا گیا ہے کیونکہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ  کا معنیٰ ہے کہ نیکی کی توفیق اور برائی سے بچنے کی طاقت نہیں مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی توفیق سے۔

{ وَ نُوْدُوْۤا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا:اورانہیں نداکی جائے گی کہ یہ جنت ہے، تمہیں اس کا وارث بنادیا گیا۔} مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو ایک ندا کرنے والا پکارے گا: تمہارے لئے زندگانی ہے کبھی نہ مرو گے، تمہارے لئے تندرستی ہے کبھی بیمار نہ ہوگے، تمہارے لئے عیش ہے کبھی تنگ حال نہ ہوگے۔( مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب فی دوام نعیم اہل الجنۃ۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۱، الحدیث: ۲۲(۲۸۳۷))

جنت کو دو وجہ سے میراث فرمایا گیا۔ ایک یہ کہ کفار کے حصہ کی جنت بھی وہ ہی لیں گے یعنی کافروں کے ایمان لانے کی صورت میں جو جنتی محلات ان کیلئے تیار تھے وہ ان کے کفر کی وجہ سے اہلِ ایمان کو دیدئیے جائیں گے تو یہ گویا ان کی میراث ہوئی ۔ دوسرے یہ کہ جیسے میراث اپنی محنت و کمائی سے نہیں ملتی اسی طرح جنت کا ملنا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم سے ہوگا، اپنے اعمال تو ظاہری سبب ہوں گے اور وہ بھی حقیقتاًجنت میں داخلے کا سبب بننے کے قابل نہیں ہوں گے کیونکہ ہمارے اعمال تو ہیں ہی ناقص، یہ تو صرف سابقہ نعمتوں کا شکرانہ بن جائیں یا جہنم سے چھٹکارے کا ذریعہ بن جائیں تو بھی بہت ہے۔ ان کے بھروسے پر جنت کی طمع تو خود فریبی ہے۔

 اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل:

          یہاں مفسرین نے ایک بہت پیاری بات ارشاد فرمائی اور وہ یہ کہ جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو کہیں گے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ہے جس نے ہمیں ہدایت دی یعنی وہ اپنے عمل کی بات نہیں کریں گے بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل کی بات کریں گے اور اللہ عَزَّوَجَلَّفرمائے گا کہ تمہیں تمہارے اعمال کے سبب اس جنت کا وارث بنادیا گیا۔ گویا بندہ اپنے عمل کو ناچیز اور ہیچ سمجھ کر صرف اللہ کریم کے فضل پر بھروسہ کرتا ہے تواللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے فضل سے اس کے ناقص عمل کو بھی شرفِ قبولیت عطا فرماکر قابلِ ذکر بنادیتا ہے اور فرماتا ہے کہ تمہیں تمہارے اعمال کے سبب جنت دیدی گئی۔

جنت میں داخلے کا سبب:

یہاں مفسرین نے یہ بحث بھی فرمائی ہے کہ جنت میں داخلے کا سبب کیا ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا فضل یا ہمارے اعمال۔ تو حقیقت یہی ہے کہ جنت میں داخلے کا سبب تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل ہی ہے جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے:

’’ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكَؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ‘‘(الدخان: ۵۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تمہارے رب کے فضل سے، یہی بڑی کامیابی ہے۔

اور یہی مضمون حدیث ِ مبارک میں بھی ہے، چنانچہ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو بھی نہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’مجھے بھی نہیں ،مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اور رحمت میں ڈھانپ لے، پس تم اخلاص کے ساتھ عمل کرو اور میانہ روی اختیار کرو۔(بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۳)البتہ بہت سی آیات میں اعمال کو بھی جنت میں داخلے کا سبب قرار دیا گیا ہے تو دونوں طرح کی آیات و احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ جنت میں داخلے کا حقیقی سبب تواللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل ہے لیکن ظاہری سبب نیک اعمال ہیں۔


[1] … اسی موضوع سے متعلق کتاب’’بغض و کینہ‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کابھی مطالعہ فرمائیں۔

7:44
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّاؕ-قَالُوْا نَعَمْۚ-فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَۙ(۴۴)
اور جنت والوں نے دوزخ والوں کو پکارا کہ ہمیں تو مل گیا جو سچا وعدہ ہم سے ہمارے رب نے کیا تھا (ف۷۶) تو کیا تم نے بھی پایا جو تمہارے رب نے (ف۷۷) سچا وعدہ تمہیں دیا تھا بولے، ہاں! اور بیچ میں منادی نے پکار دیا کہ اللہ کی لعنت ظالموں پر

{ وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ:اور جنتی جہنم والوں کو پکار کر کہیں گے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ  جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو جنت والے جہنمیوں کو پکار کر کہیں گے کہ ہمارے رب عَزَّوَجَلَّنے جو ہم سے وعدہ فرمایا تھا اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے جو فرمایا تھا کہ ایمان و طاعت پر اجرو ثواب پاؤگے ہم نے تو اسے سچا پایا، کیا تم لوگوں نے بھی اُس وعدے کو سچا پایا جو تم سے رب عَزَّوَجَلَّ نے کفرو نافرمانی پر عذاب کا وعدہ کیا تھا؟ وہ جواب میں کہیں گے: ہاں ، ہم نے بھی اسے سچا پایا۔

قیامت کے دن جنتی مسلمان گنہگار مسلمانوں کو طعنہ نہ دیں گے:

            یہاں دوزخ والوں سے مراد کفار جہنمی ہیں نہ کہ گنہگار مومن، کیونکہ جنتی مسلمان ان گنہگاروں کو طعنہ نہ دیں گے بلکہ ان کی شفاعت کرکے وہاں سے نکالیں گے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ارشاد ہوا۔ یہاں آیت میں مسلمانوں کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اُسی وعدے کی تکمیل کا بیان ہے جو قرآن میں مذکور ہے:

’’ رَبَّنَاۤ  اِنَّنَا  سَمِعْنَا  مُنَادِیًا  یُّنَادِیْ  لِلْاِیْمَانِ  اَنْ  اٰمِنُوْا  بِرَبِّكُمْ  فَاٰمَنَّا    رَبَّنَا  فَاغْفِرْ  لَنَا  ذُنُوْبَنَا  وَ  كَفِّرْ  عَنَّا  سَیِّاٰتِنَا  وَ  تَوَفَّنَا  مَعَ  الْاَبْرَارِۚ(۱۹۳) رَبَّنَا  وَ  اٰتِنَا  مَا  وَعَدْتَّنَا  عَلٰى  رُسُلِكَ  وَ  لَا  تُخْزِنَا  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّكَ  لَا  تُخْلِفُ  الْمِیْعَادَ(۱۹۴)فَاسْتَجَابَ  لَهُمْ  رَبُّهُمْ  اَنِّیْ  لَاۤ  اُضِیْعُ  عَمَلَ  عَامِلٍ  مِّنْكُمْ  مِّنْ  ذَكَرٍ  اَوْ  اُنْثٰىۚ-بَعْضُكُمْ  مِّنْۢ  بَعْضٍۚ-فَالَّذِیْنَ  هَاجَرُوْا  وَ  اُخْرِجُوْا  مِنْ  دِیَارِهِمْ  وَ  اُوْذُوْا  فِیْ  سَبِیْلِیْ  وَ  قٰتَلُوْا  وَ  قُتِلُوْا  لَاُكَفِّرَنَّ  عَنْهُمْ  سَیِّاٰتِهِمْ  وَ  لَاُدْخِلَنَّهُمْ  جَنّٰتٍ  تَجْرِیْ  مِنْ  تَحْتِهَا  الْاَنْهٰرُۚ-ثَوَابًا  مِّنْ  عِنْدِ  اللّٰهِؕ-وَ  اللّٰهُ  عِنْدَهٗ  حُسْنُ  الثَّوَابِ(۱۹۵)‘‘ (آل عمران:۱۹۳تا۱۹۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ہمارے رب!بیشک ہم نے ایک ندادینے والے کو ایمان کی ندا (یوں ) دیتے ہوئے سنا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے پس اے ہمارے رب !تو ہمارے گنا ہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں مٹادے اور ہمیں نیک لوگوں کے گروہ میں موت عطا فرما۔ اے ہمارے رب! اور ہمیں وہ سب عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوانہ کرنا۔ بیشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ تو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمالی کہ میں تم میں سے عمل کرنے والوں کے عمل کو ضائع نہیں کروں گاوہ مرد ہو یا عورت ۔تم آپس میں ایک ہی ہو،پس جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں انہیں ستایا گیا اورانہوں نے جہاد کیا اور قتل کردیے گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹادوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (یہ)اللہ کی بارگاہ سے اجر ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔

            جنتیوں کا جہنمیوں سے کلام کرنا ان کی ذلت و رسوائی میں اضافہ کرنے کیلئے ہوگا کیونکہ دنیا میں عموماً کافر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے اور انہیں طعنے دیتے تھے اور ان پر پھبتیاں کستے تھے۔ آج اس کا بدلہ ہورہا ہوگا۔

{ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ:پھر ایک ندا دینے والا پکارے گا ۔}پکارنے والے حضرت اسرافیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں یا دوسرا فرشتہ جس کی یہ ڈیوٹی ہوگی اور ظالمین سے مراد کفار ہیں جیسا کہ اگلی آیت سے معلوم ہو رہا ہے۔

 

7:45
الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ كٰفِرُوْنَۘ(۴۵)
جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (ف۷۸) اور اسے کجی چاہتے ہیں (ف۷۹) اور آخرت کا انکار رکھتے ہیں،

{ اَلَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:جواللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔} یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّنے جہنمیوں کو ظالم قرار دیا اور ان کے اوصاف یہ بیان کئے کہ وہ دوسروں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے روکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین میں تبدیلی چاہتے تھے کہ دینِ الٰہی کو بدل دیں اور جو طریقہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اس میں تغیر ڈال دیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۵، ۲ / ۹۵) تیسرا وہ قیامت کا انکار کرتے تھے۔

مسلمان کہلانے والے بے دین لوگوں کا انجام:

            یہاں یہ وعیدیں بطورِ خاص کافروں کے متعلق ہیں لیکن جو مسلمان کہلانے والے بھی دوسروں کو دین پر عمل کرنے سے منع کرتے ہیں اور وہ لوگ جو دین میں تحریف و تبدیلی چاہتے ہیں جیسے بے دین و ملحدلوگ جو دین میں تحریف و تغییر کی کوششیں کرتے رہتے ہیں ایسے لوگ بھی کوئی کم مجرم نہیں بلکہ وہ بھی جہنم کے مستحق ہیں۔

جنتیوں اور جہنمیوں کے باہمی مکالمے:

            یہاں آیت ِ مبارکہ میں جیسا مکالمہ بیان کیا گیا ہے جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان ایسے مکالمے قرآنِ پاک میں اور جگہ بھی مذکور ہیں چنانچہ سورۂ صافّات میں ہے:

فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ(۵۰)قَالَ قَآىٕلٌ مِّنْهُمْ اِنِّیْ كَانَ لِیْ قَرِیْنٌۙ(۵۱) یَّقُوْلُ اَىٕنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِیْنَ(۵۲)ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ(۵۳)قَالَ هَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ(۵۴)فَاطَّلَعَ فَرَاٰهُ فِیْ سَوَآءِ الْجَحِیْمِ(۵۵)قَالَ تَاللّٰهِ اِنْ كِدْتَّ لَتُرْدِیْنِۙ(۵۶) وَ لَوْ لَا نِعْمَةُ رَبِّیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ‘‘(صافات۵۰تا۵۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جنتی آپس میں سوال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے۔ان میں سے ایک کہنے والاکہے گا:بیشک میرا ایک ساتھی تھا۔مجھ سے کہا کرتاتھا : کیا تم (قیامت کی) تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہمیں جزا سزا دی جائے گی؟جنتی (دوسرے جنتیوں سے) کہے گا: کیا تم(جہنم میں ) جھانک کر دیکھو گے؟ تو وہ جھانکے گا تو (اپنے) اس (دنیا کے) ساتھی کو بھڑکتی آگ کے درمیان دیکھے گا۔وہ جنتی کہے گا: خدا کی قسم، قریب تھا کہ تو ضرور مجھے (بھی گمراہ کرکے) ہلاک کردیتا اور اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو ضرور میں بھی (عذاب میں ) پیش کئے جانے والوں میں سے ہوتا۔

             نیز سورۂ مدثر میں ہے:

’’ كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌۙ(۳۸) اِلَّاۤ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِؕۛ(۳۹) فِیْ جَنّٰتٍﰈ یَتَسَآءَلُوْنَۙ(۴۰) عَنِ الْمُجْرِمِیْنَۙ(۴۱) مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ(۴۲)قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَۙ(۴۳) وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَۙ(۴۴) وَ كُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآىٕضِیْنَۙ(۴۵) وَ كُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِۙ(۴۶) حَتّٰۤى اَتٰىنَا الْیَقِیْنُ‘‘ (مدثر۳۸تا۴۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: ہر جان اپنے کمائے ہوئے اعمال میں گروی رکھی ہے مگر دائیں طرف والے،باغوں میں ہوں گے ،وہ پوچھ رہے ہوں گے مجرموں سے،کون سی چیزتمہیں دوزخ میں لے گئی؟وہ کہیں گے:ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور بیہودہ فکر والوں کے ساتھ بیہودہ باتیں سوچتے تھے اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلاتے رہے یہاں تک کہ ہمیں موت آئی۔

کفر اور بد عملی کی بڑی وجہ:

            آیت کے آخر میں فرمایا کہ وہ آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفر و عناد اور بد عملی کی بڑی وجہ قیامت کا انکار یا اسے بھلانا ہے اگر بندے کے دل میں قیامت کا خوف ہو تو جرم کرنے کی ہمت ہی نہ کرے ۔اسی لئے بزرگانِ دین نے روزانہ کچھ وقت موت، قبر اور قیامت کے متعلق غور و فکر کرنے کا مقرر فرمایا ہے کہ یہ فکر دل کی دنیا بدل دیتی ہے اور ایسی ہی سوچ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ’’لمحہ بھر غورو فکر کرناپوری رات قیام کرنے سے بہتر ہے۔(مصنف ابن ابی شیعبہ، کتاب الزھد ،کلام الحسن البصری ،۸ / ۲۵۸ ،الحدیث:۳۷)

7:46
وَ بَیْنَهُمَا حِجَابٌۚ-وَ عَلَى الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ كُلًّۢا بِسِیْمٰىهُمْۚ-وَ نَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ- لَمْ یَدْخُلُوْهَا وَ هُمْ یَطْمَعُوْنَ(۴۶)
اور جنت و دوزخ کے بیچ میں ایک پردہ ہے (ف۸۰) اور اعراف پر کچھ مرد ہوں گے (ف۸۱) کہ دونوں فریق کو ان کی پیشانیوں سے پہچانیں گے (ف۸۲) اور وہ جنتیوں کو پکاریں گے کہ سلام تم پر یہ (ف۸۳) جنت میں نہ گئے اور اس کی طمع رکھتے ہیں،

{ وَ بَیْنَهُمَا حِجَابٌ:اور جنت و دوزخ کے بیچ میں ایک پردہ ہے۔} یہ پردہ اس لئے ہے تا کہ دوزخ کا اثر جنت میں اور جنت کا اثر دوزخ میں نہ آسکے اور حق یہ ہے کہ یہ پردہ اعراف ہی ہے چونکہ یہ پردہ بہت اونچا ہو گا اس لئے اسے اعراف کہا جاتا ہے کیونکہ اعراف کا معنیٰ ہے’’ بلند جگہ‘‘۔ اس کا تذکرہ سورۂ حدید میں بھی ہے چنانچہ وہاں فرمایا:

’’ یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْۚ-قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًاؕ-فَضُرِبَ بَیْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌؕ-بَاطِنُهٗ فِیْهِ الرَّحْمَةُ وَ ظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ‘‘ (حدید:۱۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مسلمانوں سے کہیں گے کہ ہم پر بھی ایک نظر کردو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں ، کہا جائے گا:تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ تو وہاں نور ڈھونڈو (وہ لوٹیں گے) تو (اس وقت) ان (مسلمانوں اور منافقوں ) کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا (جس سے جنتی جنت میں چلے جائیں گے) اس دروازے کے اندر کی طرف رحمت اور اس کے باہر کی طرف عذاب ہوگا۔

{ وَ عَلَى الْاَعْرَافِ رِجَالٌ:اور اعراف پر کچھ مرد ہوں گے۔} یہ مرد کس طبقے کے ہوں گے اس بارے میں اقوال مختلف ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہوں گی وہ اعراف پر ٹھہرے رہیں گے، جب اہلِ جنت کی طرف دیکھیں گے تو انہیں سلام کریں گے اور دوزخیوں کی طرف دیکھیں گے تو کہیں گے یارب! عَزَّوَجَلَّ، ہمیں ظالم قوم کے ساتھ نہ کر۔پھر آخر کار جنت میں داخل کئے جائیں گے۔ (الزہد لابن مبارک، اول السادس عشر، ص۱۲۳، الحدیث: ۴۱۱)

             ایک قول یہ ہے کہ جو لوگ جہاد میں شہید ہوئے مگر اُن کے والدین اُن سے ناراض تھے وہ اعراف میں ٹھہرائے جائیں گے ۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۹۶)

            ایک قول یہ ہے کہ جو لوگ ایسے ہیں کہ اُن کے والدین میں سے ایک اُن سے راضی ہو، ایک ناراض وہ اعراف میں رکھے جائیں گے۔ ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ اعراف کا مرتبہ اہلِ جنت سے کم ہے۔

             امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول یہ ہے اعراف میں صلحاء ،فقراء، علماء ہوں گے اور اُن کا وہاں قیام اس لئے ہوگا کہ دوسرے اُن کے فضل و شرف کو دیکھیں اور ایک قول یہ ہے کہ اعراف میں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہوں گے اور وہ اس مکانِ عالی میں تمام اہلِ قیامت پر ممتاز کئے جائیں گے اور اُن کی فضیلت اور رتبۂ عالیہ کا اظہار کیا جائے گا تاکہ جنتی اور دوزخی ان کو دیکھیں اور وہ ان سب کے احوال، ثواب و عذاب کے مقدارا ور احوال کا معائنہ کریں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۹۶) ان قولوں پر اصحابِ اعراف جنتیوں میں سے افضل لوگ ہوں گے کیونکہ وہ باقیوں سے مرتبہ میں اعلیٰ ہیں ،ان تمام اقوال میں کچھ تَناقُض نہیں ہے ا س لئے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ اعراف میں ٹھہرائے جائیں اور ہر ایک کے ٹھہرانے کی حکمت جداگانہ ہو۔

{ یَعْرِفُوْنَ كُلًّۢا بِسِیْمٰىهُمْ:دونوں فریق کو ان کی پیشانیوں سے پہچانیں گے۔} دونوں فریق سے جنتی اور دوزخی مراد ہیں ، جنتیوں کے چہرے سفید اور ترو تازہ ہوں گے اور دوزخیوں کے چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلی یہی اُن کی علامتیں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’اعراف والے جب جنتیوں کو دیکھیں گے تو ان کے چہروں کی سفیدی سے انہیں پہچان لیں گے اور جب جہنمیوں کی طرف نظر کریں گے تو انہیں ان کے چہرے کی سیاہی سے پہچان لیں گے۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۹۷)

جنتیوں اور جہنمیوں کی علامات

            اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار بندوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 ’’ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘ (یونس:۲۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان:بھلائی کرنے والوں کے لیے بھلائی ہے اور اس سے بھی زیادہ اور ان کے منہ پر نہ سیاہی چھائی ہوگی اور نہ ذلت،یہی جنت والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

            اور کافر و گنہگار بندوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:

’’ وَ الَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَةٍۭ بِمِثْلِهَاۙ-وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ-مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍۚ-كَاَنَّمَاۤ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًاؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘ (یونس:۲۷)

 ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جنہوں نے برائیوں کی کمائی کی تو برائی کا بدلہ اسی کے برابر ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوگی، انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، گویا ان کے چہروں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ وہی دوزخ والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

دور سے سننا شرک نہیں :

            اس آیت میں فرمایا گیا اعراف والے جنتیوں کو پکاریں گے ۔جنت و جہنم میں لاکھوں میل کا فاصلہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کی آواز سن لیں گے ، اس سے معلوم ہوا کہ دور سے سن لینا کوئی ایسی بات نہیں جو مخلوق کیلئے ماننے سے شرک لازم آئے کیونکہ شرک کی حقیقت دنیا و آخرت کے اعتبار سے مختلف نہیں ہوتی یعنی یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ دنیا میں ایک چیز شرک ہو لیکن قیامت میں وہ شرک نہ رہے، لہٰذا جو لوگ انبیاء و اولیاء کے دور سے سننے کے عقیدے پر شرک کے فتوے دیتے ہیں انہیں غور کرلینا چاہیے بلکہ خود قرآنِ پاک میں ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دور سے چیونٹی کی باتیں سن لیں ، چنانچہ فر مایا:

 ’’ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا ‘‘ (النمل:۱۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: ’’چیونٹی کی آواز سن کر سلیمان مسکرا دئیے‘‘

7:47
وَ اِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُهُمْ تِلْقَآءَ اَصْحٰبِ النَّارِۙ-قَالُوْا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۠(۴۷)
اور جب ان کی(ف۸۴) آنکھیں دوزخیوں کی طرف پھریں گی کہیں گے اے ہمارے رب! ظالموں کے ساتھ نہ کر،

{ وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا:اور اعراف والے کچھ مردوں کو پکاریں گے۔} جب اعراف والوں کی آنکھیں جہنمیوں کی طرف پھیر دی جائیں گی اس وقت کفار جو کہ دنیا میں تو سردار تھے اور قیامت میں جہنم کے باسی ،ان کی پیشانیوں پر جہنمی ہونے کی علامات موجود ہوں گی جس سے اعراف والے انہیں پہچانتے ہوئے پکاریں گے ’’تمہاری جماعت اور جو تم تکبر کرتے تھے وہ تمہیں کام نہ آیا۔

7:48
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ قَالُوْا مَاۤ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ(۴۸)
اور اعراف والے کچھ مردوں کو (ف۸۵) پکاریں گے جنہیں ان کی پیشانی سے پہچانتے ہیں کہیں گے تمہیں کیا کام آیا تمہارا جتھا اور وہ جو تم غرور کرتے تھے(ف۸۶)

7:49
اَهٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمْتُمْ لَا یَنَالُهُمُ اللّٰهُ بِرَحْمَةٍؕ-اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ(۴۹)
کیا یہ ہیں وہ لوگ (ف۸۷) جن پر تم قسمیں کھاتے تھے کہ اللہ ان پر اپنی رحمت کچھ نہ کرے گا (ف۸۸) ان سے تو کہا گیا کہ جنت میں جاؤ نہ تم کو اندیشہ نہ کچھ غم،

{ اَهٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمْتُمْ:کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر تم قسمیں کھاتے تھے ۔} اعراف والے غریب جنتی مسلمانوں کی طرف اشارہ کر کے مشرکوں سے کہیں گے کہ کیا یہی وہ غریب مسلمان ہیں جنہیں تم دنیا میں حقیر سمجھتے تھے اور جن کی غریبی فقیری دیکھ کر تم قسمیں کھا تے تھے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پر رحمت نہیں فرمائے گا، اب خود دیکھ لو کہ وہ جنت کے دائمی عیش و راحت میں کس عزت و احترام کے ساتھ ہیں اور تم کس بڑی مصیبت میں مبتلا ہو۔

غریبوں کی غربت کا مذاق اڑانے سے بچا جائے:

            اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں مومن کی فقیری یا کافر کی امیری سے دھوکا نہ کھانا چاہیے نیز کسی غریب کی غربت کا مذاق نہیں اُڑانا چاہیے۔ غریبوں کی بے کسی کا مذاق اڑانا کافروں کا طریقہ ہے۔ قرآنِ پاک میں کئی جگہ موجود ہے کہ کفار مسلمانوں کو غریب ہونے کی وجہ سے طعنے دیتے تھے۔ مسلمان کو غربت کے طعنے دینا ایذاءِ مسلم اور حرام فعل ہے۔ ایذاءِ مسلم کے مُرتکب لوگوں کو اِس حدیث ِ مبارک سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ چنانچہ  حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مُفلس کون ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: ہم میں مفلس وہ ہے کہ جس کے پاس درہم اورساز و سامان نہ ہو ۔ ارشاد فرمایا: ’’ میری اُمت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزہ اور زکوٰۃ (وغیرہ اعمال) لے کر آئے اوراس کا حال یہ ہوکہ اس نے (دنیا میں ) اِسے گالی دی، اُسے تہمت لگائی، اِس کا مال کھایا، اُس کا خون بہایا، اُسے مارا ۔ اِس کی نیکیوں میں سے کچھ اُس مظلوم کو دے دی جائیں گی اور کچھ اِس مظلوم کو، پھر اگر اس کے ذمہ حقوق کی ادائیگی سے پہلے اس کی نیکیاں (اس کے پاس سے) ختم ہوجائیں تو ان مظلوموں کی خطائیں لے کر اس ظالم پر ڈال دی جائیں گی، پھر اسے آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۴، الحدیث: ۵۹ (۲۵۸۱))

 

7:50
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُؕ-قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِیْنَۙ(۵۰)
اور دوزخی بہشتیوں کو پکاریں گے کہ ہمیں اپنے پانی کا فیض دو یا اس کھانے کا جو اللہ نے تمہیں دیا (ف۸۹) کہیں گے بیشک اللہ نے ان دونوں کو کافروں پر حرام کیا ہے

{ وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ:اورجہنمی پکاریں گے۔} حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ جب اعراف والے جنت میں چلے جائیں گے تو دوزخیوں کو بھی کچھ لالچ ہوگی اور وہ عرض کریں گے :یارب! جنت میں ہمارے رشتہ دار ہیں ، ہمیں اجازت عطا فرما کہ ہم اُنہیں دیکھ سکیں اور ان سے بات کرسکیں۔چنانچہ انہیں اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے رشتہ داروں کو جنت کی نعمتوں میں دیکھیں گے اور پہچانیں گے، لیکن اہلِ جنت ان دوزخی رشتہ داروں کو نہ پہچانیں گے کیونکہ دوزخیوں کے منہ کالے ہوں گے، صورتیں بگڑ گئی ہوں گی، توو ہ جنتیوں کو نام لے لے کر پکاریں گے، کوئی  اپنے باپ کو پکارے گا، کوئی بھائی کو اورکہے گا ،ہائے میں جل گیا مجھ پر پانی ڈالو اور تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جو رزق دیا ہے ان نعمتوں میں سے کھانے کو دو۔ ان کی پکار سن کر جنتی کہیں گے: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کردی ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۹۸)

جنتی مومن کو جہنمی کافر سے نہ محبت ہو گی نہ اسے اس پر رحم آئے گا:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنتی مومن کو دوزخی کافر سے بالکل محبت نہ ہو گی اور نہ ہی اس پر رحم آئے گا اگرچہ اس کا سگا باپ یا بیٹا یابہترین دوست ہو ،وہ اس کے مانگنے پر بھی اُدھر کچھ نہ پھینکے گا ۔ خیال رہے کہ یہاں حرام سے مراد شرعی حرام نہیں کیونکہ وہاں شرعی احکام جاری نہ ہوں گے بلکہ مراد کامل محرومی ہے۔ نیز جنتیوں کا جہنمیوں کی مدد نہ کرنا کافر جہنمیوں کے متعلق ہے ورنہ جہنم کے مستحق مسلمانوں میں سے بہت سے گناہگاروں کونیک رشتے داروں کی شفاعت نصیب ہوگی جیسے حافظ ِ قرآن کے بارے میں حدیث میں تصریح ہے۔

7:51
الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۚ-فَالْیَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَآءَ یَوْمِهِمْ هٰذَاۙ-وَ مَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ(۵۱)
جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنایا (ف۹۰) اور دنیا کی زیست نے انہیں فریب دیا (ف۹۱) تو آج ہم انہیں چھوڑ دیں گے جیسا انہوں نے اس دن کے ملنے کا خیال چھوڑا تھا اور جیسا ہماری آیتوں سے انکار کرتے تھے،

{ اَلَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا:جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنالیا۔} اس آیت میں کفار کی ایک بری صفت بیان کی جا رہی ہے کہ ان کفار نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا اس طرح کہ اپنی نفسانی خواہشوں کی پیروی کرتے ہوئے جسے چاہا حرام کہہ دیا اور جسے چاہا حلال قرار دے دیا اور جب انہیں ایمان قبول کرنے کی دعوت دی گئی تو یہ ایمان والوں سے مذاق مسخری کرنے لگ گئے، انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ دیا کہ  دنیا کی لذتوں میں مشغول ہو کر اپنے اخروی انجام کو بھول گئے اور اہل و عیال کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت سے دور ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی محبت سخت خطرناک ہے۔ اسی لئے حدیثِ مبارک میں فرمایا گیا کہ دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ (جامع الاصول فی احادیث الرسول، الرکن الثانی، حرف الذال، الکتاب الثالث فی ذمّ الدنیا، الفصل الاول، ۴ / ۴۵۷، الحدیث: ۲۶۰۳)

{ فَالْیَوْمَ نَنْسٰىهُمْ:تو آج ہم انہیں چھوڑ دیں گے۔} یعنی کفار نے دنیا میں جو معاملہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حق میں روا رکھا تھا قیامت کے دن اس کا انجام ان کے سامنے آجائے گا چونکہ انہوں نے قیامت کا خیال تک چھوڑ رکھا تھا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں اُن کے اس بھولنے کا بدلہ دے گا۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف نِسیان کی نسبت کا مطلب کفار کے نسیان (یعنی بھولنے) کا بدلہ دینا ہے۔

7:52
وَ لَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰى عِلْمٍ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۵۲)
اور بیشک ہم ان کے پاس ایک کتاب لائے (ف۹۲) جسے ہم نے ایک بڑے علم سے مفصل کیا ہدایت و رحمت ایمان والوں کے لیے،

{ وَ لَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ:اور بیشک ہم ان کے پاس ایک کتاب لائے۔} کتاب سے مراد قرآنِ پاک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل علم کی بناپر بڑی تفصیل سے بیان کیاکہ اس میں انسانی ہدایت کیلئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وہ تمام چیزیں بیان فرمادیں اور جس چیز کی طرف اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دعوت دی اس کی حقانیت کے زبردست دلائل قائم فرمائے اور اسے بار بار دلنشین انداز اور حسین پیرایوں میں بیان کیا ۔ قرآنِ پاک عقائد ِ حقہ اور اعمالِ صالحہ کے بیان کا حسین مجموعہ ہے۔ قرآن کی رحمتِ عامہ توسارے عالم کیلئے ہے کہ ساری دنیا کو ایک ہدایت نامہ مل گیا مگر رحمتِ خاصہ صرف مومنوں کیلئے ہے کیونکہ اس سے نفع صرف وہی اٹھاتے ہیں۔

7:53
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَهٗؕ-یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُهٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّۚ-فَهَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَآءَ فَیَشْفَعُوْا لَنَاۤ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُؕ-قَدْ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠(۵۳)
کاہے کی راہ دیکھتے ہیں مگر اس کی کہ اس کتاب کا کہا ہوا انجام سامنے آئے جس دن اس کا بتایا انجام واقع ہوگا (ف۹۳) بول اٹھیں گے وہ جو اسے پہلے سے بھلائے بیٹھے تھے (ف۹۴) کہ بیشک ہمارے رب کے رسول حق لائے تھے تو ہیں کوئی ہمارے سفارشی جو ہماری شفاعت کریں یا ہم واپس بھیجے جائیں کہ پہلے کاموں کے خلاف کام کریں (ف۹۵) بیشک انہوں نے اپنی جانیں نقصان میں ڈالیں اور ان سے کھوئے گئے جو بہتان اٹھاتے تھے (ف۹۶)

{ هَلْ یَنْظُرُوْنَ:کاہے کی راہ دیکھتے ہیں۔} یعنی وہ کفار جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا، ان کا انکار کیا اور ان پر ایمان نہ لائے وہ صرف اس قرآن کے بیان کئے ہوئے آخری انجام کا انتظار کررہے ہیں حالانکہ قیامت کے دن جب اس قرآن کا بتایا ہوا نجام آئے گا تو وہ کافرجو اس سے پہلے بھولے ہوئے تھے،نہ اس پر ایمان لاتے تھے اورنہ اس کے مطابق عمل کرتے تھے اقرا ر کرتے ہوئے بول اٹھیں گے کہ بیشک ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کے رسول جو تعلیمات لائے تھے وہ سب حق تھیں یعنی حشر و نشر، قیامت کے دن اٹھنا اور ثواب و عذاب یہ سب حق ہے۔ لیکن اس وقت ان کا اقرار کوئی فائدہ نہ دے گا اور جب اپنی جانوں کو عذاب میں دیکھیں گے اور یہ نظارہ کریں گے کہ مسلمانوں کی شفاعت ہورہی ہے اور انبیاء و اولیاء ، علماء و صلحاء ،چھوٹے بچے، ماہِ رمضان اور خانہ کعبہ وغیرہ شفاعت کررہے ہیں ، تب کف ِافسوس ملتے ہوئے کہیں گے’’ ہے کوئی جو ہماری بھی سفارش کردے اور اگر یہ نہیں تو ہمیں دنیا میں ہی واپس بھیج دیا جائے تاکہ پہلے جو اعمال کئے تھے انہیں چھوڑ کر نیک اعمال کرلیں ، کفر کی بجائے ایمان لے آئیں ، معصیت ونافرمانی کی بجائے اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرلیں مگر نہ اُنہیں کسی کی شفاعت نصیب ہو گی اورنہ دنیا میں واپس بھیجے جائیں گے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان اور عمل کا وقت ضائع کر کے اپنی جانیں نقصان میں ڈالیں اور اب پچھتانے کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں بچا۔

{ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ:اور ان سے کھوگئے ۔} کفار جوکہتے تھے کہ بت خدا کے شریک ہیں اور اپنے پجاریوں کی شفاعت کریں گے، اب آخرت میں اُنہیں معلوم ہوگیا کہ اُن کے یہ دعوے جھوٹے تھے۔

جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال بیان کرنے کا مقصد:

            اوپر متعدد آیات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے، ان کے مکالمے، جنتیوں کی نعمتیں اور جہنمیوں کے عذاب، جنتیوں کی خوشیاں اور جہنمیوں کی حسرتیں یہ سب چیزیں بیان کی گئیں۔ آیات میں جو کچھ بیان ہوا اس میں بنیادی طور پر مسلمانوں اور کافروں کے انجام کا بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ اصحاب ِ اعراف کا بھی بیان ہے جن کی نیکیاں اور گناہ برابر ہوں گے۔ اب یہاں مسلمانوں کا ایک وہ گروہ بھی ہوگا جن کے گناہ زیادہ اور نیکیاں کم ہوں گی اور یونہی وہ لوگ بھی ہوں گے جو نیکیوں کے باوجود کسی گناہ پر پکڑے جائیں گے۔ ان تمام چیزوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے تو کفر سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس میں وہ تمام ذرائع مثلاً فلمیں ، ڈرامے، مزاحیہ پروگرام اور دینی معلومات کی کمی داخل ہیں جو آج کے زمانے میں کفریات کا سبب بنتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگرچہ کوئی مسلمان ہمیشہ کیلئے جہنم میں نہیں جائے گا لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ کچھ گناہگار مسلمان ضرور جہنم میں جائیں گے لہٰذا ہمیں جہنم کے عذاب اور اس کی ہولناکیوں سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سیدُ المَعصُومِین ہیں لیکن اس کے باوجود تعلیمِ امت کیلئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عذاب ِ جہنم سے کس قدر پناہ مانگتے تھے اس کا اندازہ احادیثِ طیبہ کے مطالعہ سے ہوسکتا ہے ۔ یونہی صحابہ و تابعین اور بزرگانِ دین بھی ہمیشہ جہنم کے عذاب سے خائف اور لرزاں و ترساں رہتے تھے۔ ترغیب کیلئے یہاں چند احادیث و واقعات پیشِ خدمت ہیں :

(1)… حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یوں دعا مانگا کرتے ’’ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں جہنم کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (نسائی، کتاب الاستعاذۃ، الاستعاذۃ من عذاب القبر، ص۸۷۴، الحدیث: ۵۵۱۴)

(2)…حضرت حُمرَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے (ایک مرتبہ) ان آیاتِ کریمہ:

’’ اِنَّ لَدَیْنَاۤ اَنْكَالًا وَّ جَحِیْمًاۙ(۱۲) وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّ عَذَابًا اَلِیْمًا‘‘ (مزمل۱۲، ۱۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ہمارے پاس بھاری بیڑیاں اور بھڑکتی آگ ہے اور گلے میں پھنسنے والاکھانا اور دردناک عذاب ہے۔

کی تلاوت فرمائی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر غشی طاری ہو گئی۔ (الزہد لابن حنبل، تمہید، ص۶۲، رقم: ۱۴۶)

(3)… حضرت بَرَاء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ’’ہم سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ہمراہ ایک جنازہ میں شریک تھے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبر کے کنارے بیٹھے اور اتنا روئے کہ آپ کی چشمانِ اقدس سے نکلنے والے آنسوؤں سے مٹی نم ہوگئی۔ پھر فرمایا ’’اے بھائیو! اس قبر کے لئے تیاری کرو۔ ‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الحزن والبکاء، ۴ / ۴۶۶، الحدیث: ۴۱۹۵)

(4)… حضرت سلیمان بن سحیمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مجھے اس شخص نے بتایا جس نے خود حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نماز میں جھکتے، اٹھتے اور سوز و گدازکی حالت میں نماز ادا کرتے، اگر کوئی ناواقف شخص آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی اس حالت کو دیکھتا تو کہتا کہ ان پر جنون طاری ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی یہ کیفیت جہنم کے خوف کی وجہ سے اس وقت ہوتی کہ جب آپ یہ آیت:

’’ وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا‘‘ (الفرقان:۱۳)

 ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب انہیں اس آگ کی کسی تنگ جگہ میں زنجیروں میں جکڑکر ڈالا جائے گا تو وہاں موت مانگیں گے۔

            یا اس جیسی کوئی اور آیت تلاوت فرماتے۔ (کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابۃ، فضائل الفاروق رضی اللہ عنہ، ۶ / ۲۶۴، الحدیث: ۳۵۸۲۶، الجزء الثانی عشر)

(5)…حضرت عبداللہ رومی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مجھے امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا: ’’اگر میں جنت اور جہنم کے درمیان ہوں اور مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ ان میں سے کس کی طرف جانے کا مجھے حکم دیا جائے گا تو میں اس بات کو اختیار کروں گا کہ میں یہ معلوم ہونے سے پہلے ہی راکھ ہو جاؤں کہ میں کہاں جاؤں گا۔( الزہد لابن حنبل، زہد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، ص۱۵۵، رقم: ۶۸۶)

(6)…ایک انصاری نوجوان کے دل میں جہنم کا خوف پیدا ہوا تواس کی وجہ سے وہ گھر میں ہی بیٹھ گئے، جب نبی ٔاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے پاس تشریف لائے تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم میں کھڑے ہو گئے ، پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے مقدس سینے سے چمٹ گئے ، اس کے بعد ایک چیخ ماری اور ان کی روح پرواز کر گئی، غمگسار آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی کے کفن دفن کی تیاری کرو، جہنم کے خوف نے اس کا جگر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ (الزہد لابن حنبل، زہد عبید بن عمیر، ص۳۹۴، رقم: ۲۳۴۹)

(7)…حضرت ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(مشہور تابعی بزرگ) حضرت طاؤس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ (کا جہنم کے خوف کی وجہ سے یہ حال تھا کہ آپ) سونے کے لئے بستر بچھاتے اور اس پر لیٹ جاتے ، پھر ایسے تڑپنے لگتے جیسے دانہ ہنڈیا میں اچھلتا ہے، پھر اپنے بستر کی گدی بنا دیتے ، پھر اسے بھی لپیٹ دیتے اور قبلہ رخ ہو کر بیٹھ جاتے یہاں تک کے صبح ہو جاتی اور فرماتے ’’جہنم کی یاد نے عبادت گزاروں پر نیند حرام کر دی ہے۔ (التخویف من النار، الباب الثانی فی الخوف من النار۔۔۔ الخ، فصل من الخائفین من منعہ خوف جہنم من النوم، ص۳۷)

            اللہ تعالیٰ ہمیں جہنم کے عذابات سے ڈرنے اور اپنی آخرت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

7:54
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ۫-یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًاۙ-وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖؕ-اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُؕ-تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(۵۴)
بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین (ف۹۷) چھ دن میں بنائے (ف۹۸) پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے (ف۹۹) رات دن کو ایک دوسرے سے ڈھانکتا ہے کہ جلد اس کے پیچھے لگا آتا ہے اور سورج اور چاند اور تاروں کو بنایا سب اس کے حکم کے دبے ہوئے، سن لو اسی کے ہاتھ ہے پیدا کرنا اور حکم دینا، بڑی برکت والا ہے اللہ رب سارے جہان کا،

{ اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ:بیشک تمہارا رب اللہ ہے۔} گزشتہ آیات میں چونکہ قیامت کے احوال کا بڑی تفصیل سے تذکرہ ہوا اور یہاں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت، قدرت، وحدانیت اوروقوعِ قیامت پر دلائل دئیے گئے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت و وحدانیت کی دلیل آسمان و زمین کی تخلیق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور چھ دن میں پیدا کیا جیسا کہ اِس آیت میں اور دیگر آیات میں فرمایا گیا۔ اگرآسمان و زمین ایک لمحے میں پیداہوتے تو کسی کو شبہ ہوسکتا تھا کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ ہے لیکن جب ان کی تخلیق ایک مخصوص مدت اور مخصوص طریقہ کار سے ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس کو کسی اور نے وجود بخشا ہے۔ چھ دن میں تخلیق سے کیا مراد ہے ، اس کے متعلق بعض نے فرمایا کہ چھ دن سے مراد چھ ادوار ہیں اور اکثر نے فرمایا کہ دنیوی اعتبار سے جو چھ دن کی مقدار بنتی ہے وہ مراد ہے ۔ بہرحال جو بھی صورت ہو اللہ تعالیٰ ہر صورت پر قادر ہے۔

آسمان و زمین کو 6دن میں پیدا کرنے کی حکمت:

            اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ ایک لمحہ میں یا اس سے کم میں زمین و آسمان پیدا فرما دیتا لیکن اتنے عرصے میں اُن کی پیدائش فرمانا بہ تقاضائے حکمت ہے اوراس میں بندوں کے لئے تعلیم ہے کہ بندے بھی اپنے کام میں جلدی نہ کیا کریں بلکہ آہستگی سے کریں۔

جلد بازی سے متعلق 2احادیث:

            یہاں جلد بازی سے متعلق دو احادیث ملاحظہ ہوں :

(1)… حضرت سہل بن ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ کام میں جلد بازی نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی التأنّی والعجلۃ، ۳ / ۴۰۷، الحدیث: ۲۰۱۹)

(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے شیخ عبدُ القیس سے فرمایا ’’ تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں ،بردباری اور جلد بازی نہ کرنا (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی التأنّی والعجلۃ، ۳ / ۴۰۷، الحدیث: ۲۰۱۸)۔ ([1])

{ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ: پھر عرش پر جیسا اس کی شان کے لائق ہے اِستِواء فرمایا۔} استواء کا لغوی معنیٰ تو ہے کہ کسی چیز کا کسی چیز سے بلند ہونا، کسی چیز کا کسی چیز پر بیٹھنا۔ یہاں آیت میں کیا مراد ہے اس کے بارے میں علماءِ کرام نے بہت مُفَصَّل کلام فرمایا ہے۔ ہم یہاں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ایک تصنیف کی روشنی میں ایک خلاصہ بیان کرتے ہیں جس سے اس آیت اور اس طرح کی جتنی بھی آیات ہیں ان کے بارے میں صحیح عقیدہ واضح ہوجائے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اَنْسَب (یعنی زیادہ مناسب) یہی ہے کہ آیاتِ مُتَشابہات سے ظاہراً سمجھ آنے والے معنی کوایک مناسب وملائم معنی کی طرف جو کہ مُحکمات سے مطابق اور محاورات سے موافق ہو پھیر دیا جا ئے تاکہ فتنے اور گمراہی سے نجات پائیں ، یہ مسلک بہت سے متاخرین علما ء کا ہے کہ عوام کی حالت کے پیشِ نظر اسے اختیار کیا ہے، اسے’’ مسلکِ تا ویل‘‘ کہتے ہیں ، یہ علماء آیت’ ’ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ‘‘کی تاویل کئی طرح سے فرماتے ہیں ان میں چار وجہیں نفیس وواضح ہیں :

          اول :  استواء بمعنی’’ قہر وغلبہ ‘‘ہے، یہ معنی زبانِ عرب سے ثابت وپیدا (ظاہر) ہے، عرش سب مخلو قات سے اوپر اور اونچا ہے اس لئے اس کے ذکر پر اکتفا ء فرمایا اور مطلب یہ ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمام مخلوقات پرقاہر وغالب ہے۔

          دوم : استواء بمعنی ’’عُلُوّ ‘‘ہے،ا ور علو اللہ عَزَّوَجَلَّکی صفت ہے ،علوِ مکان صفت نہیں بلکہ علوِ مالکیت و سلطان صفت ہے۔

             سوم: استواء بمعنی ’’قصد وارادہ‘‘ ہے، یعنی پھر عرش کی طر ف متوجہ ہوا یعنی اس کی ا ٓفر نیش کا ارادہ فرمایا یعنی اس کی تخلیق شروع کی۔

           چہا رم: استواء بمعنی ’’فراغ وتمامی کار ‘‘ ہے، یعنی سلسلہ خلق وآفر نیش کو عرش پر ختم فرمایا، اس سے باہر کوئی چیز نہ پائی، دنیا وآخرت میں جو کچھ بنا یا اور بنائے گا دائرۂ عرش سے باہر نہیں کہ وہ تمام مخلو ق کو حاوی ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۱۲۴- ۱۲۶ ملخصاً)

           مزید تفصیل کے لئے فتاویٰ رضویہ کی29ویں جلد میں موجود سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالۂ مبارکہ ’’ قَوَارِعُ الْقَھَّار عَلَی الْمُجَسَّمَۃِ الْفُجَّار‘‘ (اللہ تعالیٰ کے لئے جسم ثابت کرنے والے فاجروں کارد) کا مطالعہ فرمائیں۔

{ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ:رات دن کو ایک دوسرے سے ڈھانپ دیتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ رات اور دن ایک دوسرے کو ڈھانپ لیتے ہیں ، یہاں ڈھانپنے سے مراد زائل کرنا ہے یعنی رات کا اندھیرا دن کی روشنی کو اور پھر آئندہ دن کی روشنی رات کے اندھیرے کو دور کر دیتی ہے نیز اِن رات دن میں سے ہر ایک دوسرے کے پیچھے جلد جلد چلا آرہا ہے کہ دن رات کا ایسا سلسلہ قائم فرمایا جوکبھی ٹوٹتا نہیں اور اس نے سورج ،چاند ، ستاروں کو بنایا اور ایسا بنایا کہ نہ کبھی خراب ہوں اور نہ کبھی ان کو تبدیل کیا جاسکے مگر جب اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے۔ یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّکے حکم کے پابند ہیں۔ کائنات میں تخلیق اور تَصَرُّف کا حقیقی اختیار صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ہے اور اسی کی ذات خیر و برکت والی ہے کہ اسی کا فیضان جاری و ساری ہے اور سب برکتیں ، عنایتیں اور رحمتیں اسی کی طرف سے ہیں۔


[1] جلد بازی کی مذمت اور اس سے متعلق دیگر چیزوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’جلد بازی‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔

7:55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةًؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ(۵۵)
اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ، بیشک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں، (ف۱۰۰)

{ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ:اپنے رب سے دعا کرو۔} دُعا اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنے کو کہتے ہیں اور یہ عبادت میں داخل ہے کیونکہ دُعا کرنے والا اپنے آپ کو عاجزو محتاج اور اپنے پروردگار کو حقیقی قادر و حاجت روااعتقاد کرتا ہے اسی لئے حدیث شریف میں وارد ہوا ’’ اَلدُّعَآئُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ‘‘ دعا عبادت کا مغز ہے۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعائ، ۵ / ۲۴۳، الحدیث: ۳۳۸۲)

دعامانگنے کے فضائل:

            اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کا حکم دیاگیا، اس مناسبت سے ہم یہاں دعا مانگنے کے 3 فضائل بیان کرتے ہیں،چنانچہ

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ تر نہیں۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعائ، ۵ / ۲۴۳، الحدیث: ۳۳۸۱)

(2)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کے لئے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا تو ا س کے لئے رحمت کا دروازہ کھول دیاگیا۔ اللہ تعالیٰ سے کئے جانے والے سوالوں میں سے پسندیدہ سوال عافیت کا ہے۔ جو مصیبتیں نازل ہو چکیں اور جو نازل نہیں ہوئیں ان سب میں دعا سے نفع ہوتا ہے، تو اے اللہ عَزَّوَجَلَّکے بندو! دعا کرنے کو(اپنے اوپر) لازم کر لو۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب  فی دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۲۱، الحدیث: ۳۵۵۹)

(3)…حضرت جابر بن عبداللہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جو تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دے اور تمہارے رزق کووسیع کر دے ’’رات دن اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہو کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ (مسند ابو یعلی، مسند جابر بن عبد اللہ، ۲ / ۲۰۱، الحدیث: ۱۸۰۶)

ایک دعا سے حاصل ہونے والے فوائد:

          ایک دعا سے آدمی کو پانچ فائدے حاصل ہوتے ہیں :

(1)…دعا مانگنے والا عبادت گزاروں کے گروہ میں شمار ہوتا ہے کہ دعا فِی نَفْسِہٖ یعنی بذاتِ خود عبادت بلکہ عبادت کا مغز ہے۔

(2)…جو شخص دعا کرتا ہے وہ اپنے عاجز اور محتاج ہونے کا اقرار اور اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی قدرت اور کرم کا اعتراف کرتا ہے۔

(3)…دعا مانگنے سے شریعتِ مطہرہ کے حکم کی بجا آوری ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا اور دعا نہ مانگنے والے پر حدیث میں وعید آئی۔

(4)…سنت کی پیروی ہو گی کہ حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دعا مانگا کرتے اور اوروں کو بھی تاکید فرماتے۔

(5)…دعا سے آفات و بَلِّیّات دور ہوتی ہیں اور مقصود حاصل ہوتا ہے۔ (فضائل دعا، فصل اول، ص۵۴-۵۵، ملخصاً)

          نوٹ: دعا کے فضائل، آداب،قبولیت کے اسباب، قبولیت کے اوقات، قبولیت کے مقامات، قبولیت کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور ممنوع دعاؤں وغیرہ کی معلومات حاصل کرنے کے لئے اعلی حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے والد ماجد حضرت علامہ مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تصنیف ’’اَحْسَنُ الْوِعَاء لِآدَابِ الدُّعَا‘‘(دعا کے فضائل و آداب اور اس سے متعلقہ احکام پر بے مثال تحقیق)  ([1]) یا راقم کی کتاب ’’فیضانِ دعا‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

{ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ:بیشک وہ حد سے بڑھنے والے کوپسند نہیں فرماتا۔} یعنی لوگوں کو دعا وغیرہ جن چیزوں کا حکم دیا گیا ان میں حد سے بڑھنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۱۷۸)

            حضرت ابو نَعَامہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مُغَفَّل نے اپنے بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا: اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تجھ سے جنت کی دائیں طرف سفید محل کا سوال کرتا ہوں۔ تو فرمایا ’’اے بیٹے !اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو کیونکہ میں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’ عنقریب میری امت کے کچھ لوگ وضواور دعا میں حد سے بڑھیں گے ۔( ابو داؤد، کتاب الطہارۃ، باب الاسراف فی المائ، ۱ / ۶۸، الحدیث: ۹۶)

دعا میں حد سے بڑھنے کی صورتیں :

            یاد رہے کہ دعا میں حد سے بڑھنے کی مختلف صورتیں ہیں جیسے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا مرتبہ مانگنا یا آسمان پر چڑھنے کی دعا کرنا، اسی طرح جو چیزیں محال یا قریب بہ محال ہیں ان کی دعا کرنا، ہمیشہ کے لئے تندرستی اور عافیت مانگنا، ایسے کام کے بدلنے کی دعا مانگنا جس پر قلم جاری ہو چکا مثلاً لمبا آدمی کہے میرا قد کم ہو جائے یا چھوٹی آنکھوں وا لاکہے کہ میری آنکھیں بڑی ہو جائیں۔ اسی طرح گناہ کی دعا مانگنا، رشتہ داروں سے تعلقات ٹوٹ جانے کی دعا کرنا، اللہ تعالیٰ سے حقیر چیز مانگنا، لَغْو اور بے فائدہ دعا مانگنا، رنج و مصیبت سے گھبرا کر اپنے مرنے کی دعا کرنا، صحیح شرعی غرض کے بغیر کسی کی موت یا بربادی کی دعا مانگنا، کسی مسلمان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہونے یا اسے جہنم میں داخل کئے جانے کی دعا مانگنا، سب مسلمانوں کے سب گناہ بخشے جانے کی دعا مانگنا اورکافر کی مغفرت کی دعا کرنا وغیرہ۔


[1] یہ کتاب تسہیل اور تخریج کے ساتھ مکتبۃ المدینہ نے ’’فضائل دعا‘‘ کے نام سے شائع کی ہے ،وہاں سے خرید کر اس کا مطالعہ فرمائیں۔

7:56
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًاؕ-اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ(۵۶)
اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ (ف۱۰۱) اس کے سنورنے کے بعد (ف۱۰۲) اور اس سے دعا کرو ڈرتے اور طمع کرتے، بیشک اللہ کی رحمت نیکوں سے قریب ہے،

{ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ:اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔} یعنی اے لوگو! انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تشریف لانے، حق کی دعوت فرمانے، احکام بیان کرنے اور عدل قائم فرمانے کے بعد  تم کفر و شرک ، گناہ اور ظلم و ستم  کرکے زمین میں فساد برپا نہ کرو۔

{ وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا:اور اس سے دعا کرو ڈرتے اور طمع کرتے۔} اس میں دعامانگنے کا ایک ادب بیان فرمایا گیا ہے کہ جب بھی دعا مانگو تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت کی طمع کرتے ہوئے دعا کرو۔

خوف اور امید کی حالت میں دعا مانگنی چاہئے:

                اس سے معلو م ہوا کہ دعا اور عبادات میں خوف و امید دونوں ہونے چاہئیں اس سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ جلد قبول ہو گی۔ اسی مفہوم پر مشتمل ایک حدیث بخاری شریف میں ہے چنانچہ حضرت براء بن عازِب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ جب تم سونے لگو تو نماز جیسا وضو کر لیا کرو، پھر دائیں کروٹ لیٹ کر کہو’’اَللّٰہُمَّ اَسْلَمْتُ وَجْہِیْ اِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَیْکَ وَاَلْجَاْتُ ظَہْرِیْ اِلَیْکَ رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً اِلَیْکَ لَا مَلْجَاَ وَلَا مَنْجَاَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ اللہُمَّ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَبِنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ‘‘ ترجمہ:اے اللہ! میں نے اپنا چہرہ تیری طرف کر دیا اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا اور تجھ سے رغبت اور خوف رکھتے ہوئے اپنی پیٹھ جھکا دی، تیرے سوا کوئی جائے پناہ اور نجات کی جگہ نہیں۔اے اللہ ! میں تیری کتاب پر ایمان لایاجو تو نے نازل فرمائی اور تیرے نبی پر ایمان لایا جنہیں تو نے بھیجا۔‘‘ (اگررات کو سوتے وقت یہ پڑھو گے تو) اگر اس رات میں مر گئے تو تم فطرت پر ہو گے۔( بخاری، کتاب الوضو ء، باب فضل من بات علی الوضو ء، ۱ / ۱۰۴، الحدیث: ۲۴۷)

7:57
وَ هُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِؕ-كَذٰلِكَ نُخْرِ جُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(۵۷)
اور وہی ہے کہ ہوائیں بھیجتا ہے اس کی رحمت کے آگے مژدہ سناتی (ف۱۰۳) یہاں تک کہ جب اٹھا لائیں بھاری بادل ہم نے اسے کسی مردہ شہر کی طرف چلایا (ف۱۰۴) پھر اس سے پانی اتارا پھر اس سے طرح طرح کے پھل نکالے اسی طرح ہم مُردوں کو نکالیں گے (ف۱۰۵) کہیں تم نصیحت مانو،

{ وَ هُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ:اور وہی ہے کہ ہوائیں بھیجتا ہے۔}اس سے دو آیات پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے چند دلائل بیان فرمائے گے جیسے آسمان و زمین کی پیدائش، دن اور رات کا ایک دوسرے کے پیچھے آنا، سورج ،چاند اور ستاروں کا مُسَخَّر ہونا، اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ، قدرت ،وحدانیت اور وقوعِ قیامت پر مزید دلائل بیان فرمائے جا رہے ہیں۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کیسی عظیم قدرت ہے کہ وہ پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے جو اس کی رحمت یعنی بارش آنے کی خوشخبری دے رہی ہوتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں سمندر سے بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بادل کو کسی مردہ شہر کی طرف چلاتا ہے جس کی ز مین خشک پڑی ہوتی ہے اورسبزے کا نام و نشان نہیں ہوتا پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ اس مردہ زمین پر پانی اتارتا ہے اوراس پانی کے ذریعے وہاں سبزہ پیدا فرمادیتا ہے، وہاں پھل پھول اگتے ہیں ، وہاں غلہ اناج پیدا ہوتا ہے ۔ وہ مردہ زمین بھی زندہ ہوجاتی ہے اور اس کی پیداوار کے ذریعے لوگوں کی زندگی کا سامان بھی مہیا ہوجاتا ہے ۔ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت ہے اور یہی دلیلِ قدرت اس بات کو ماننے پر بھی مجبور کردیتی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو ویرانی کے بعد زندگی عطا فرماتا ہے اور اس کو سرسبز و شاداب فرماتا ہے اور اس میں کھیتی، درخت، پھل پھول پیدا کرتا ہے ایسے ہی مُردوں کو قبروں سے زندہ کرکے اُٹھائے گا، کیونکہ جو خشک لکڑی سے ترو تازہ پھل پیدا کرنے پر قادر ہے اُس سے مُردوں کا زندہ کرنا کیا بعید ہے۔ قدرت کی یہ نشانی دیکھ لینے کے بعد عقلمند، سلیم ُالحَواس کو مُردوں کے زندہ کئے جانے میں کچھ تردد باقی نہیں رہتا۔

7:58
وَ الْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُ جُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖۚ-وَ الَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُ جُ اِلَّا نَكِدًاؕ-كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْكُرُوْنَ۠(۵۸)
اور جو اچھی زمین ہے اس کا سبزہ اللہ کے حکم سے نکلتا ہے (ف۱۰۶) اور جو خراب ہے اس میں نہیں نکلتا مگر تھوڑا بمشکل (ف۱۰۷) ہم یونہی طرح طرح سے آیتیں بیان کرتے ہیں (ف۱۰۸) ان کے لیے جو احسان مانیں،

{ وَ الْبَلَدُ الطَّیِّبُ:اور جو اچھی زمین ہوتی ہے ۔}یہ مومن کی مثال ہے کہ جس طرح عمدہ زمین پانی سے نفع پاتی ہے اور اس میں پھول پھل پیدا ہوتے ہیں اسی طرح جب مومن کے دل پر قرآنی انوار کی بارش ہوتی ہے تو وہ اس سے نفع پاتا ہے، ایمان لاتا ہے، طاعات و عبادات سے پھلتا پھولتا ہے۔یونہی یہ مثال فیضانِ نبوت کی بھی ہوسکتی ہے کہ جب نبوی فیضان عام ہوتا ہے اور نورِ نبوت کی بارش برستی ہے تو مومن کا دل اس سے نفع حاصل کرتاہے اور اسے روحانی زندگی مل جاتی ہے اور اُس کے رگ و پے میں نورِ ایمان سرایت کرجاتا ہے اور اعمالِ صالحہ کے پھل پھول کھلنے لگتے ہیں۔

{ وَ الَّذِیْ خَبُثَ:اور جو خراب ہو۔}یہ کافر کی مثال ہے کہ جیسے خراب زمین بارش سے نفع نہیں پاتی ایسے ہی کافر قرآنِ  پاک سے مُنْتَفِع نہیں ہوتا اور یونہی جب فیضانِ نبوت کی بارش ہوتی ہے تو کافر کا خبیث دل اُس فیضان سے اسی طرح محروم رہتا ہے جیسے بہترین بارش سے کانٹے دار اور جھاڑ جھنکار والی زمین محروم رہتی ہے۔

7:59
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۵۹)
بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا (ف۱۰۹) تو اس نے کہا میری قوم اللہ کو پوجو (ف۱۱۰) اسکے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں (ف۱۱۱) بیشک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے (ف۱۱۲)

{ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا:بیشک ہم نے نوح کو بھیجا۔} اس سے ماقبل آیات میں اللہ تعالیٰ نے  اپنی قدرت اور وحدانیت کے دلائل اور اپنی عجیب و غریب صنعتوں سے متعلق بیان فرمایا، ان سے اللہ تعالیٰ کا واحد اور رب ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ پھر مرنے کے بعد اُٹھنے اور زندہ ہونے کی صحت پر مضبوط ترین دلیل قائم فرمائی ان سب کے بعد بڑی تفصیل سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے کہ وہ بھی اپنی امتوں کوتوحید ورسالت اورعقیدۂ قیامت کی طرف دعوت دیتے رہے، اِس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ دعوت کوئی نئی نہیں بلکہ ہمیشہ سے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہی چیزوں کی دعوت دیتے آئے ہیں پھر اس کے ساتھ اس بات کو بھی بار بار دہرایا گیا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت کے انکار کو معمولی نہ سمجھا جائے بلکہ پہلی امتوں کے احوال کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ ان میں سے جنہوں نے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو جھٹلایا اور ان کے بیان کردہ عقیدہ ِتوحیدورسالت اور حشر و نشر کا انکار کیا وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات میں سب سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر کیا گیا کیونکہ کفار کی طرف بھیجے جانے والے پہلے رسول یہی تھے۔

حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مختصر تعارف:

            حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اسم گرامی یشکر یا عبدُ الغفار ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامحضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پڑپوتے تھے۔ آپ کا لقب ’’نوح‘‘ اس لئے ہو اکہ آپ کثرت سے گریہ و زاری کیا کرتے تھے ، چالیس یا پچاس سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز فرمائے گئے۔

            حضرت نوحعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو عبادتِ الٰہی کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: اے میری قوم ! ایمان قبول کر کے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرو کیونکہ اس کے سوا کوئی اور ایسا ہے ہی نہیں کہ جس کی عبادت کی جا سکے ، وہی تمہارا معبود ہے اور جس چیز کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں اس میں اگر تم  میری نصیحت قبول نہ کرو گے اور راہِ راست پر نہ آؤ گے تومجھے تم پر بڑے دن یعنی روزِ قیامت یا روز ِطوفان  کے عذاب کا خوف ہے۔

نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کی زبردست دلیل:

             انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ان تذکروں میں سید ِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی زبردست دلیل ہے کیونکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُمّی تھے، پھر آپ کا ان واقعات کو تفصیلاًبیان فرمانا بالخصوص ایسے ملک میں جہاں اہلِ کتاب کے علماء بکثرت موجود تھے اور سرگرم مخالف بھی تھے ،ذراسی بات پاتے تو بہت شور مچاتے، وہاں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ان واقعات کو بیان فرمانا اور اہلِ کتاب کا ساکت و حیران رہ جانا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آپ نبی ٔ برحق ہیں اور پروردِگار عالم عَزَّوَجَلَّ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر علوم کے دروازے کھول دیئے ہیں۔

          نوٹ: حضرت نوحعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنی قوم کو راہِ راست پر آنے کی دعوت دینے اور ان کی قوم پر آنے والے عذاب کا تفصیلی ذکر سورۂ ہود آیت25تا 48 میں بھی مذکور ہے۔

7:60
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۶۰)
اس کی قوم کے سردار بولے بیشک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں دیکھتے ہیں،

7:61
قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶۱)
کہا اے میری قوم مجھ میں گمراہی کچھ نہیں میں تو رب العالمین کا رسول ہوں،

{ قَالَ یٰقَوْمِ:کہا اے میری قوم ۔} قوم کے سرداروں کا جہالت و سَفاہَت سے بھرپور جواب سن کر کمالِ خُلق کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جواب دیا کہ’’ اے میری قوم! مجھ میں کوئی گمراہی کی بات نہیں بلکہ میں تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے تمہاری ہدایت کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں کیونکہ جب دنیاوی بادشاہ کسی ناتجربہ کار اور جاہل کو اپنا وزیر نہیں بناتا یا کوئی اہم عہدہ نہیں سونپتاتواللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی جو سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے وہ کیسے کسی بے وقوف یا کم علم کو منصبِ نبوت سے سرفراز فرما سکتا ہے اور میرا کام تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پیغامات تم تک پہنچانا اور تمہاری بھلائی چاہنا ہے۔

نبوت اور گمراہی جمع نہیں ہو سکتی:

             آیت نمبر61 سے معلوم ہوا کہ نبوت اور گمراہی دونوں جمع نہیں ہو سکتیں اور کوئی نبی ایک آن کے لئے بھی گمراہ نہیں ہو سکتے ۔ اگر نبی ہی گمراہ ہوں تو پھر انہیں ہدایت کون کرے گا۔

مبلغ کو چاہیے کہ مخاطب کی جہالت پر شفقت و نرمی کا مظاہرہ کرے:

            حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بکواس اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جواب کی طرف نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نہایت حلیم و کریم بزرگ تھے کہ انتہائی بدتمیزی کے ساتھ دئیے گئے جواب کے مقابلے میں نہایت شفقت و محبت اور خیرخواہی کے ساتھ جواب عطا فرما رہے ہیں اور یہ وہی تعلیم ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرمائی تھی۔ چنانچہ فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا :

’’فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى‘‘ (طہ:۴۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: توتم اس سے نرم بات کہنا اس امید پر کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا (اللہ سے)ڈرجائے۔

اور یہ وہی حکم ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّنے ہمیں ارشاد فرمایا ہے:

 ’’ اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ‘‘ (النحل:۱۲۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو ،بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

            اس سے مبلغین کو بھی درس حاصل کرنا چاہیے کہ مخاطب کی جہالت پر برانگیختہ ہونے کی بجائے حتی الامکان نرمی اور شفقت کے ساتھ جواب دیا جائے ۔

 

7:62
اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَكُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۶۲)
تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا اور تمہارا بھلا چاہتا اور میں اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تم نہیں رکھتے،

7:63
اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْ وَ لِتَتَّقُوْا وَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۶۳)
اور کیا تمہیں اس کا اچنبا ہوا کہ تمہارے پاس رب کی طرف سے ایک نصیحت آئی تم میں کے ایک مرد کی معرفت (ف۱۱۳) کہ وہ تمہیں ڈرائے اور تم ڈرو اور کہیں تم پر رحم ہو،

7:64
فَكَذَّبُوْهُ فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ فِی الْفُلْكِ وَ اَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا عَمِیْنَ۠(۶۴)
تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو ہم نے اسے اور جو (ف۱۱۵) اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی اور اپنی آیتیں جھٹلانے والوں کو ڈبو دیا، بیشک وہ اندھا گروہ تھا (ف۱۱۶)

{ فَكَذَّبُوْهُ:تو انہوں نے نوح کو جھٹلایا۔}جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کو جھٹلایا، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر نازل ہونے والی وحی جو آپ ان تک پہنچادیتے تھے اسے قبول نہ کیا اورایک عرصے تک عذابِ الٰہی سے خوف دلانے اور راہِ راست پر لانے کی کوششیں کرنے کے باوجود بھی وہ لوگ اپنی بات پر ڈٹے رہے تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا۔ جو مومنین حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سا تھ کشتی میں سوار تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے عذاب سے محفوظ رکھا اور باقی سب کو غرق کر دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمنوں پر اس وقت تک دنیاوی عذاب نہیں آتے جب تک وہ پیغمبر کی نافرمانی نہ کریں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ‘‘ (بنی اسرائیل:۱۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔

            حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کشتی میں چالیس مرد اور چالیس عورتیں سوار تھیں مگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کے سوا کسی کی نسل نہ چلی اس لئے آپ کو ’’آدمِ ثانی‘‘ کہتے ہیں۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا ’’بیشک وہ (یعنی کفار) اندھے لوگ تھے۔ ‘‘یعنی ان کے پاس نبوت کی شان دیکھنے والی آنکھ نہ تھی، ان کے دل اندھے تھے اگرچہ آنکھیں کھلی تھیں جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ اُن کے دِل اندھے تھے، معرفت کا نور ان کی قسمت میں نہ تھا ۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۱۰۸)

7:65
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵)
اور عاد کی طرف (ف۱۱۷) ان کی برادری سے ہود کو بھیجا (ف۱۱۸) کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تو کیا تمہیں ڈر نہیں (ف۱۱۹)

{ وَ اِلٰى عَادٍ:اور قومِ عاد کی طرف۔}قوم عاد دو ہیں : عادِ اُوْلیٰ یہ حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے اور عادِثانیہ،یہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔ یہاں عادِ اُولیٰ مراد ہے۔ (جمل، الاعراف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۵۸، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۱۸۵)

حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ:

            اس آیت اور اگلی چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کی ہدایت کے لئے ان کے ہم قوم حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی طرف بھیجا ۔حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:’’ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، کیا تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا ؟اس پرقوم کے کافر سردار بولے: ہم توتمہیں بیوقوف سمجھتے اور جھوٹا گمان کرتے ہیں اور تمہیں  رسالت کے دعویٰ میں سچا ہی نہیں جانتے ۔کفار کا حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام کہ’’ تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں ‘ جھوٹا گمان کرتے ہیں ‘‘انتہا درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت ترین جواب دیا جاتا مگر حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے اخلاق و ادب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا اس میں شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور اُن کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی چنانچہ فرمایا :اے میری قوم ! بے وقوفی کامیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں میں تو ربُّ العالمین کا رسول ہوں۔ میں توتمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخواہ ہوں اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّکی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرائے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کے یہ احسان یاد کرو کہ اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا اور تمہیں عظیم جسمانی قوت سے نوازا کہ قد کاٹھ اور قوت دونوں میں دوسروں سے ممتاز بنایا تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے احسانات یاد کرو، اس پر  ایمان لاؤ اور اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار کرو۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ اپنی قوم کی بستی سے علیحدہ ایک تنہائی کے مقام میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپ کے پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آکر سنادیتے ، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: بیشک تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔ قومِ عاد پر آنے والے عذاب کی کیفیت کا بیان چند آیات کے بعد مذکور ہے اور اس کے علاوہ یہ واقعہ سورہ ہود آیت نمبر50تا 60میں بھی مذکور ہے۔

7:66
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(۶۶)
اس کی قوم کے سردار بولے بیشک ہم تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں اور بیشک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں (ف۱۲۰)

{لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ :میرے ساتھ بے وقوفی کا کوئی تعلق نہیں۔}کافروں نے گستاخی کرکے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مَعَاذَاللہ بیوقوف کہا، جس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بڑے تحمل سے جواب دیا کہ بیوقوفی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اورا س کی وجہ بالکل واضح ہے کہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کامل عقل والے ہوتے ہیں اور ہمیشہ ہدایت پر ہوتے ہیں۔تمام جہان کی عقل نبی کی عقل کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے سمندر کا ایک قطرہ کیونکہ نبی تو وحی کے ذریعے اپنے ربعَزَّوَجَلَّ سے علم و عقل حاصل کرتا ہے اور اس چیز کے برابر کوئی دوسری چیز کا ہونا محال ہے۔

 سورہِ اعراف کی آیت نمبر 67اور 68 سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے،

(1)… جاہل اور بیوقوف لوگوں کی بد تمیزی و جہالت پر بُردباری کا مظاہرہ کرنا سنت ِ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے ۔

(2)… اہلِ علم و کمال کو ضرورت کے موقع پر اپنے منصب و کمال کا اظہار جائز ہے ۔

7:67
قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶۷)
کہا اے میری قوم مجھے بے وقوفی سے کیا علاقہ میں تو پروردگار عالم کا رسول ہوں،

7:68
اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ(۶۸)
تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا ہوں اور تمہارا معتمد خیرخواہ ہوں (ف۱۲۱)

7:69
اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْؕ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةًۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۶۹)
اور کیا تمہیں اس کا اچنبا ہوا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آئی تم میں سے ایک مرد کی معرفت کہ وہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کا جانشین کیا (ف۱۲۲) اور تمہارے بدن کا پھیلاؤ بڑھایا (ف۱۲۳) تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو (ف۱۲۴) کہ کہیں تمہارا بھلا ہو،

{وَ زَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةً:اور تمہاری جسامت میں قوت اور وسعت زیادہ کی۔} اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کو سلطنت اور بدنی قوت عطا فرمائی تھی ،چنانچہ شداد ابنِ عاد جیسا بڑا بادشاہ انہیں میں ہوا۔ یہ بہت لمبے قد والے اور بڑے بھاری ڈیل ڈول والے تھے۔

7:70
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۷۰)
بولے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو (ف۱۲۵) کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو (ف۱۲۶) ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ (ف۱۲۷) جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو،

{ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ:ضرور تم پر لازم ہو گیا۔} حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا غضب لازم ہوگیا اور تمہاری سرکشی سے تم پر عذاب آنا واجب و لازم ہوگیا۔ کیاتم فضول ناموں یعنی بتوں کے بارے میں جھگڑتے ہو جنہیں تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیا اور انہیں پوجنے لگے اور معبود ماننے لگے حالانکہ اُن کی کچھ حقیقت ہی نہیں ہے اور وہ اُلُوہِیّت کے معنی سے قطعاً خالی و عاری ہیں۔

7:71
قَالَ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌؕ-اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍؕ-فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(۷۱)
کہا (ف۱۲۸) ضرور تم پر تمہارے رب کا عذاب اور غضب پڑ گیا (ف۱۲۹) کیا مجھ سے خالی ان ناموں میں جھگڑ رہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے (ف۱۳۰) اللہ نے ان کی کوئی سند نہ اتاری، تو راستہ دیکھو (ف۱۳۱) میں بھی تمہارے ساتھ دیکھتا ہوں،

7:72
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۠(۷۲)
تو ہم نے اسے اور اس کے ساتھ والوں کو (ف۱۳۲) اپنی ایک بڑی رحمت فرماکر نجات دی (ف۱۳۳) اور جو ہماری آیتیں جھٹلاتے (ف۱۳۴) تھے ان کی جڑ کاٹ دی (ف۱۳۵) اور وہ ایمان والے نہ تھے،

{ فَاَنْجَیْنٰهُ:تو ہم نے اسے نجات دی۔} اس آیت میں قومِ عاد پر نازل ہونے والے عذاب کا ذکر ہے۔

حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل ہونے کا واقعہ:

             اس کامختصر واقعہ یہ ہے کہ قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے۔ قومِ عاد نے زمین کو فِسق سے بھر دیا تھا۔ یہ لوگ بت پرست تھے ان کے ایک بت کا نام’’ صُدَائ‘‘اور ایک کا ’’صُمُوْد‘‘ اور ایک کا ’’ ہَبائ‘‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معبوث فرمایا آپ نے اُنہیں توحید کا حکم دیا ،شرک وبُت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، لیکن وہ لوگ نہ مانے اورآپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زور آور کون ہے؟ اُن میں سے صرف چند آدمی حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے جو بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی مجبوراً اپنا ایمان چھپائے رکھتے تھے۔ اُن مؤمنین میں سے ایک شخص کا نام مرثدبن سعد تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے ۔جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بنائیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش روک دی، تین سال بارش نہ ہوئی اب وہ بہت مصیبت میں مبتلا ہوئے اور اس زمانہ میں دستور یہ تھا کہ جب کوئی بلایا مصیبت نازل ہوتی تھی تو لوگ بیتُ الحرام میں حاضر ہو کر اللہ تعالیٰ سے اس مصیبت کو دور کرنے کی دعا کرتے تھے، اسی لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیتُ اللہ کو روانہ کیا اس وفد میں تین آدمی تھے جن میں مرثد بن سعد بھی تھے یہ وہی صاحب ہیں جو حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے تھے اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے۔ اس زمانہ میں مکہ مکرمہ میں عمالیق کی سکونت تھی اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن بکر تھا، اس شخص کا ننھیال قومِ عاد میں تھا، اسی علاقہ سے یہ وفد مکہ مکرمہ کے حوالی میں معاویہ بن بکر کے یہاں مقیم ہوا۔ اُس نے اُن لوگوں کی بہت عزت کی اور نہایت خاطر و مدارت کی، یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے۔ اس طرح انہوں نے عیش و نشاط میں ایک مہینہ بسر کیا ۔ معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو راحت میں پڑ گئے اور قوم کی مصیبت کو بھول گئے جو وہاں گرفتار ِبلا ہے مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ ان لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گراں گزرنے لگی ہے اس لئے اُس نے گانے والی باندی کو ایسے اشعار دیئے جن میں قومِ عاد کی حاجت کا تذکرہ تھا جب باندی نے وہ نظم گائی تو ان لوگوں کویاد آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی فریاد کرنے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجے گئے ہیں۔ اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں ، اس وقت مرثد بن سعد نے کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ، تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، البتہ اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اوراللہ تعالیٰ سے توبہ کروتو بارش ہو گی، اس وقت مرثد نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا۔ اُن لوگوں نے مرثدکو چھوڑ دیا اور خود مکہ مکرمہ جا کر دعا کی اللہ تعالیٰ نے تین قسم کے بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سُرخ اور ایک سیاہ۔ اس کے ساتھ آسمان سے ندا ہوئی کہ اے قِیْل! اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک بادل اختیار کر، اُس نے اِس خیال سے سیاہ بادل کو اختیار کیا کہ اس سے بہت پانی برسے گا چنانچہ وہ بادل قومِ عاد کی طرف چلا اور وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے مگر اس سے ایک ہوا چلی جو اس شدت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کرلئے مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے اُس نے دروازے بھی اکھیڑ دیئے اور ان لوگوں کو ہلاک بھی کردیا اور قدرتِ الٰہی سے سیاہ پرندے نمودار ہوئے جنہوں نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا ۔حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مؤمنین کو لے کر قوم سے جدا ہوگئے تھے اس لئے وہ سلامت رہے، قوم کے ہلاک ہونے کے بعدوہ ایمانداروں کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لائے اور آخر عمر شریف تک وہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے۔

 

7:73
وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۳)
اور ثمود کی طرف (ف۱۳۶) ان کی برادری سے صالح کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے (ف۱۳۷) روشن دلیل آئی (ف۱۳۸) یہ اللہ کا ناقہ ہے (ف۱۳۹) تمہارے لیے نشانی، تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ (ف۱۴۰) کہ تمہیں درد ناک عذاب آئے گا،

{ وَ اِلٰى ثَمُوْدَ:اور قومِ ثمود کی طرف۔} ثمود بھی عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا ۔ یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمین حِجْرمیں رہتے تھے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام عبید بن آسف بن ماسح بن عبید بن حاذر ابن ثمود ہے۔ قومِ ثمود قومِ عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد ہیں۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۱۸۹-۱۹۰)

حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ:

             یہاں سے آگے چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی قوم ثمود کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا :اے میری قوم! تم اللہ تعالیٰ کوایک مانو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ اور صرف اسی کی عبادت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو، اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود ہے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم ثمود کواللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ: اے قوم ثمود! تم اس وقت کویاد کرو، جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں قومِ عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا، قومِ عاد کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر کے تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی، تمہا را حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم  میں آرام کرنے کیلئے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم میں سردی سے بچنے کیلئے پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے ہو۔ تم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر ا ور گناہ کرنے سے بچو کہ گناہ، سرکشی اور کفرکی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا ہے اور ربِّ قہار عَزَّوَجَلَّکے عذاب آتے ہیں۔قومِ ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: ’’ اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریں ، اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایمان کا وعدہ لے کر رب عَزَّوَجَلَّ سے دعا کی ۔ سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری جوان اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا۔ یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جبکہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔ حضرت صالحعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے: کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے رب کے رسول ہیں ؟ انہوں نے کہا: بیشک ہمارا یہی عقیدہ ہے، ہم انہیں اور ان کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں۔ سرداروں نے کہا :جس پر تم ایمان رکھتے ہو ،ہم تواُس کا انکار کرتے ہیں۔حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس معجزے والی اونٹنی کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’تم اس اونٹنی کو تنگ نہ کرنا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی زمین میں کھائے اور اسے برائی کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا ، نہ مارنا، نہ ہنکانا اور نہ قتل کرنا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔ قومِ ثمود میں ایک صدوق نامی عورت تھی، جو بڑی حسین و جمیل اور مالدار تھی، اس کی لڑکیاں بھی بہت خوبصورت تھیں۔ چونکہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنیسے اس کے جانوروں کو دشواری ہوتی تھی اس لئے اس نے مصدع ابن دہر اور قیدار کو بلا کر کہا کہ’’ اگر تو اونٹنی کو ذبح کر دے تو میری جس لڑکی سے چاہے نکاح کر لینا۔ یہ دونوں اونٹنی کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ پا کر دونوں نے اسے ذبح کر دیا مگر قیدار نے ذبح کیا اور مصدع نے ذبح پر مدد دی۔ اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے: اے صالح! اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو۔ انہوں نے بدھ کے دن اونٹنی کی کوچیں کاٹیں تھیں ، حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان سے فرمایا کہ تم تین دن کے بعد ہلاک ہو جاؤ گے۔ پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ، تیسرے دن سیاہ ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ لوگ اتوار کے دن دوپہر کے قریب اولاً ہولناک آواز میں گرفتار ہوئے جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور ہلاک ہو گئے۔ پھر سخت زلزلہ قائم کیا گیا۔ ان کی ہلاکت سے پہلے اولاً حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مومنوں کے ساتھ اس بستی سے نکل کر جنگل میں چلے گئے۔ پھر ان کی ہلاکت کے بعد وہاں سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ روانگی کے وقت ان کی لاشوں پر گزرے تو ان کی لاشوں سے خطاب کر کے بولے: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔

          نوٹ:سورۂ ہود آیت نمبر61تا 68میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے۔

{ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ:اللہ کی یہ اونٹنی ہے۔}  اس اونٹنی کی پیدائش سے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کئی معجزات کا ظہور ہوا، ایک یہ کہ وہ اونٹنی نہ کسی پیٹھ میں رہی، نہ کسی پیٹ میں ،نہ کسی نر سے پیدا ہوئی نہ مادہ سے، نہ حمل میں رہی نہ اُس کی خلقت تدریجاً کمال کو پہنچی بلکہ طریقہِ عادیہ کے خلاف وہ پہاڑ کے ایک پتھر سے دفعتہ پیدا ہوئی، اس کی یہ پیدائش معجزہ ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک دن وہ پانی پیتی اوردوسرے دن پورا قبیلہ ثمود ،یہ بھی معجزہ ہے کہ ایک اونٹنی ایک قبیلے کے برابرپی جائے، تیسرا یہ کہ اس کے پینے کے دن اس کا دودھ دوہا جاتا تھا اور وہ اتنا ہوتا تھا کہ تمام قبیلہ کو کافی ہو اور پانی کے قائم مقام ہوجائے چوتھا یہ کہ تمام وحوش و حیوانات اس کی باری کے روز پانی پینے سے باز رہتے تھے۔ اتنے معجزات حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صدقِ نبوت کی زبردست دلیلیں تھیں۔

{ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا:تم نرم زمین میں محلات بناتے تھے۔} قومِ ثمود نے گرمیوں کے لئے بستیوں میں محل بنائے ہوئے تھے اور سردی کے موسم کے لئے پہاڑوں میں گرم مکانات تعمیر کئے تھے جیسا کہ آج کل بھی دولت مند لوگ کرتے ہیں ٹھنڈے اور گرم علاقوں میں جدا جدا مکانات بناتے ہیں۔

 

7:74
وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَكُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًاۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۷۴)
اور یاد کرو (ف۱۴۱) جب تم کو عاد کا جانشین کیا اور ملک میں جگہ دی کہ نرم زمین میں محل بناتے ہو (ف۱۴۲) اور پہاڑوں میں مکان تراشتے ہو (ف۱۴۳) تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو (ف۱۴۴) اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو،

7:75
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ(۷۵)
اس کی قوم کے تکبر والے کمزور مسلمانوں سے بولے کیا تم جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کے رسول ہیں، بولے وہ جو کچھ لے کے بھیجے گئے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں (ف۱۴۵)

7:76
قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا بِالَّذِیْۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(۷۶)
متکبر بولے جس پر تم ایمان لائے ہمیں اس سے انکار ہے،

7:77
فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۷۷)
پس (ف۱۴۶) ناقہ کی کُوچیں کاٹ دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح! ہم پر لے آؤ (ف۱۴۷) جس کا تم سے وعد دے رہے ہو اگر تم رسول ہو،

7:78
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(۷۸)
تو انہیں زلزلے نے ا ٓلیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے،

7:79
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹)
تو صالح نے ان سے منہ پھیرا (ف۱۴۸) اور کہا اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی (پسند کرنے والے) ہی نہیں،

7:80
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰)
اور لوط کو بھیجا (ف۱۴۹) جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی،

{ وَ لُوْطًا:اور لوط کو بھیجا۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامحضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھتیجے ہیں ، جب آپ کے چچا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شام کی طرف ہجرت کی تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نیسرزمینِ فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اردن میں اُترے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اہلِ سُدُوم کی طرف مبعوث کیا، آپ اِن لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور فعلِ بدسے روکتے تھے۔ قومِ لوط کی سب سے بڑی خباثت لواطت یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا اسی پر حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ’’ کیا تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو سارے جہان میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کی ، تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پوری کرنے کیلئے مردوں کے پاس جاتے ہو ، یقینا تم حد سے گزر چکے ہو۔

لواطت کی مذمت:

            اس آیت سے  معلوم ہوا کہ اغلام بازی  حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی ایجاد ہے اسی لئے اسے’’ لواطت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑکوں سے بدفعلی حرام قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی احادیث اور بزرگانِ دین کے آثار میں لواطت کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ

(1)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد  فرمایا :’’ کہ مجھے تم پر قومِ لوط والے عمل کا سب سے زیادہ خوف ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الحدود، باب من عمل عمل قوم لوط، ۳ / ۲۳۰، الحدیث: ۲۵۶۳)

(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے تین بار ارشاد فرمایا: ’’ لَعَنَ اللہُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ‘‘ اس شخص پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جو قومِ لوط والا عمل کرے۔ (سنن الکبری للنسائی، ابواب التعزیرات والشہود، من عمل عمل قوم لوط، ۴ / ۳۲۲، الحدیث: ۷۳۳۷)

(3)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ،نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس شخص کو قومِ لوط والا عمل کرتے پاؤ تو کرنے والے اور کروانے والے دونوں کو قتل کردو۔ (ابوداود، کتاب الحدود، باب فیمن عمل عمل قوم لوط، ۴ / ۲۱۱، الحدیث: ۴۴۶۲)

(4)… حضرت خزیمہ بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ حق بات ارشاد فرمانے سے حیا نہیں فرماتا ’’ تم عورتوں کے پاخانہ کے مقام میں وطی نہ کرو۔ (ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب النہی عن اتیان النساء فی ادبارہن، ۲ / ۴۵۰، الحدیث: ۱۹۲۴)

(5)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسے شخص پر نظرِ رحمت نہیں فرماتا جو اپنی عورت کے پیچھے کے مقام میں آئے یعنی وطی کرے۔ (ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب النہی عن اتیان النساء فی ادبارہن، ۲ / ۴۴۹، الحدیث: ۱۹۲۳)

(6)…حضرت ابو سعیدصعلوکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عنقریب اس امت میں ایسی جماعت پیدا ہو گی جن کو لوطی کہا جائے گا اور ا ن کی تین قسمیں ہیں :ایک وہ جو محض دیکھتے ہیں ، دوسرے وہ جو ہاتھ ملاتے ہیں اور تیسرے وہ جو اس خبیث عمل کا ارتکاب کرتے ہیں۔ (کتابُ الکبائر، الکبیرۃ الحادیۃ عشرۃ، اللواط، ص۶۳-۶۴)

(7)… امیرُ المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں : ’’جو شخص خود کو لواطت کے لئے پیش کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے عورتوں کی شہوت میں مبتلا کردے گا اور اسے قیامت کے دن تک قبر میں مردود شیطان کی صورت میں رکھے گا۔ (کتابُ الکبائر، الکبیرۃ الحادیۃ عشرۃ، فصل فی عقوبۃ من امکن من نفسہ طائعاً، ص۶۶)

(8)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ ’’بد فعلی کا مرتکب اگر توبہ کئے بغیر مرجائے تو قبر میں خنزیر کی شکل میں بدل دیا جاتا ہے۔( کتابُ الکبائر، الکبیرۃ الحادیۃ عشرۃ، اللواط، ص۶۳)

(9)… حضرت سیدنا حسن بن ذکوان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں جس کا خلاصہ ہے: ’’ خوبصورت لڑکوں کے ساتھ نہ بیٹھا کرو کیونکہ ان کی صورتیں کنواری عورتوں کی صورتوں جیسی ہوتی ہیں نیز وہ عورتوں سے زیادہ فتنہ میں ڈالنے والے ہیں۔ (شعب الایمان، السابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۸، روایت نمبر: ۵۳۹۷)

(10)…ایک تابعی بزرگ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’میں نوجوان سالِک (یعنی عابد و زاہد نوجوان )کے ساتھ بے ریش لڑکے کے بیٹھنے کو سات درندوں سے زیادہ خطرناک سمجھتا ہوں۔ (شعب الایمان، السابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۸، روایت نمبر: ۵۳۹۶)

(11)…حضرت سیدنا سفیان ثوری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ (جن کی معرفت، علم، زُہدوتقویٰ اور نیکیوں میں پیش قدمی مشہورو معروف ہے) ایک حمام میں داخل ہوئے، آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس ایک خوبصورت لڑکا آگیا تو آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اسے مجھ سے دور کرو! اسے مجھ سے دور کرو! کیونکہ میں ہر عورت کے ساتھ ایک شیطان دیکھتا ہوں جبکہ ہر لڑکے کے ساتھ دس (10) سے زیادہ شیطان دیکھتا ہوں۔ (شعب الایمان، السابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۹، روایت نمبر: ۵۴۰۴)

(12)…حضرت امام احمد بن حنبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک خوبصورت بچہ بھی تھا، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا ’’تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟ اس نے عرض کی:’’یہ میرا بھانجا ہے۔ تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا: ’’آئندہ اسے لے کر میرے پاس نہ آنا اور اسے ساتھ لے کر راستے میں نہ چلا کر تاکہ اسے اور تمہیں نہ جاننے والے بدگمانی نہ کریں۔ (کتاب الکبائر، الکبیرۃ الحادیۃ عشرۃ، اللواط، ص۶۵)

لواطت کی عقلی اور طبی خباثتیں :

            لواطت کا عمل عقلی اور طبی دونوں اعتبار سے بھی انتہائی خبیث ہے، عقلی اعتبار سے ا س کی ایک خباثت یہ ہے کہ یہ عمل فطرت کے خلاف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فطری اعتبار سے مرد کو عمل کرنے والا اور عورت کو خاص مقام میں عمل قبول کرنے والا بنایا ہے اور لواطت انسان تو انسان جانوروں کی بھی فطرت کے خلاف ہے کہ جانور بھی شہوت پوری کرنے کے لئے نر کی طرف یا مادہ کے خاص مقام کے علاوہ کی طرف نہیں بڑھتا، اس لئے لواطت کرنے والا اپنی فطرت کے خلاف چل رہا ہے اور فطرت کے خلاف چلنا عقلی اعتبار سے انتہائی قبیح ہے۔

دوسری خباثت یہ ہے کہ ا س کی وجہ سے نسلِ انسانی میں اضافہ رک جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نسلِ انسانی میں اضافے کا یہ طریقہ مقرر فرمایا ہے کہ مرد اور عورت دونوں میں شہوت رکھی اور اس شہوت کی تسکین کے لئے جائز عورت کو ذریعہ بنایا، جب یہ اپنی شہوت پوری کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں عورت حاملہ ہوجاتی اور کچھ عرصے بعد اس کے ہاں ایک انسان کی پیدائش ہوتی ہے اور اس طرح انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اب اگر شہوت کو اس کے اصل ذریعے کی بجائے کسی اور ذریعے سے تسکین دی جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نسلِ انسانی میں اضافہ رک جائے گا اور اس صورت میں انتہائی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، جیسے وہ ممالک جن میں لواطت کے عمل کو رواج دیا گیا ہے آج ان کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے لوگوں کو اپنے ہاں بلوا کر اور انہیں آسائشیں دے کر اپنے ملک کے لوگوں کی تعداد بڑھانے پر مجبور ہیں۔

            تیسری خباثت یہ ہے کہ ا س عمل کی وجہ سے انسانیت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ مرد کا عورت سے اپنی شہوت کو پورا کرنا جانوروں کے شہوانی عمل سے مشابہت رکھتا ہے لیکن مرد و عورت کے اس عمل کو صرف اس لئے اچھا قرار دیا گیا ہے کہ وہ اولاد کے حصول کا سبب ہے اور جب کسی ایسے طریقے سے شہوت کو پورا کیا جائے جس میں اولاد حاصل ہونا ممکن نہ ہو تو یہ انسانیت نہ رہی بلکہ نری حیوانیت بن گئی اور کسی کا مرتبہِ انسانی سے گر کر حیوانوں میں شامل ہونا عقلی اعتبار سے انتہائی قبیح ہے۔

            چوتھی خباثت یہ ہے کہ لواطت کا عمل ذلت و رسوائی اور آپس میں عداوت اور نفرت پیدا ہونے کا ایک سبب ہے جبکہ شوہر کا اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرنا عزت کاذریعہ اور ان میں الفت و محبت بڑھنے کا سبب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً ‘‘ (روم:۲۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف آرام پاؤ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔

            اور عقلِ سلیم رکھنے والے کے نزدیک وہ عمل ضرور خبیث ہے جو ذلت و رسوائی اور نفرت و عداوت پیدا ہونے کا سبب بنے۔

            طبی طور پر ا س کی خباثت کے لئے یہی کافی ہے کہ انسان کی قوتِ مُدافعت ختم کر کے اسے انتہائی کَرب کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دینے والا اور ابھی تک لا علاج مرض پھیلنے کا بہت بڑا سبب لواطت ہے اور جن ممالک میں لواطت کو قانونی شکل دے کر عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے ان میں دیگر ممالک کے مقابلے میں ایڈز کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد بھی زیادہ ہے۔

             اور ا س کی دوسری طبی خباثت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے رحم میں منی کو جذب کرنے کی زبردست قوت رکھی ہے اور جب مرد اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے تو ا س کے جسم کا جو حصہ عورت کے جسم میں جاتا ہے تو رحم اس سے منی کے تمام قطرات جذب کر لیتا ہے جبکہ عورت اور مرد کے پچھلے مقام میں منی جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھی گئی اور جب مرد لواطت کا عمل کرتا ہے تو اِس کے بعد لواطت کے عمل کے لئے استعمال کئے گئے جسم کے حصے میں منی کے کچھ قطرات رہ جاتے ہیں اور بعض اوقات ان میں تَعَفُّن پیدا ہو جاتا ہے اور جسم کے اس حصے میں سوزاک وغیرہ مہلک قسم کے امراض پیدا ہو جاتے ہیں اور اس شخص کا جینا دشوار ہوجاتا ہے۔

             نوٹ: حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم کا تفصیلی واقعہ سورۂ حجر آیت51تا77میں مذکور ہے۔

 

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْاَعْرَاف
اَلْاَعْرَاف
  00:00



Download

اَلْاَعْرَاف
اَلْاَعْرَاف
  00:00



Download