Surah Al-Aa'raaf
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{ الٓمّٓصٓ:} یہ حروفِ مُقَطّعات ہیں ، ان کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ:اے محبوب! ایک کتاب تمہاری طرف اُتاری گئی۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کتاب یعنی قرآنِ پاک آپ کی طرف اس لئے نازل کیا گیا تاکہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرائیں۔ پس آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دل میں لوگوں کے سابقہ طرزِ عمل کی وجہ سے اور اس خیال سے کہ لوگ نہ مانیں گے اور اس پر اعتراض کریں گے اور اسے جھٹلانے لگیں گے اس کی تبلیغ فرمانے سے کوئی تنگی نہ آئے، آپ ان کفار کی مخالفت کی ذرہ بھر پروا نہ کریں۔
تکالیف کی وجہ سے تبلیغِ دین میں دل تنگ نہیں ہونا چاہیے:
اس آیت میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکین و تسلی اور حوصلہ افزائی ہے اور اس کے ذریعے امت کے تمام مبلغین کو درس اور سبق ہے کہ لوگوں کے نہ ماننے یا تکلیفیں دینے کی وجہ سے تبلیغِ دین میں دل تنگ نہیں ہونا چاہیے۔ نیکی کی دعوت کا کام ہی ایسا ہے کہ اس میں تکالیف ضرور آتی ہیں۔ اسی لئے تمام انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بے پناہ تکلیفیں اٹھائیں اور ان کے واقعات قرآنِ پاک میں بکثرت موجود ہیں۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آگ میں ڈالا جانا، اپنے ملک سے ہجرت کرنا، لوگوں کا آپ کو تنگ کرنا یونہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہجرت کرنا، فرعون کا آپ کے مقابلے میں آنا، آپ کو جادوگر قرار دینا، آپ کو گرفتار کرنے کے منصوبے بنانا یونہی سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بے پناہ تکلیفیں اٹھانا، لوگوں کا آپ پر مَعَاذَاللہ کوڑا پھینکنا، راستے میں کانٹے بچھانا، آپ کو شہید کرنے کے منصوبے بنانا، آپ کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کرنا، آپ کو جادوگر، کاہن، شاعر کہنا، آپ سے جنگ کرنا وغیرہ یہ ساری چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ راہِ تبلیغ میں تکالیف آنا ایک معمول کی چیز ہے اور انہیں برداشت کرنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ آیت میں فرمایا گیا کہ یہ قرآن مومنوں کیلئے نصیحت ہے، اب یہاں آج کے مومنین و مسلمین سے بھی عرض ہے کہ ذرا اپنے احوال و اعمال پر غور کریں کہ کیا یہ قرآن سے نصیحت حاصل کررہے ہیں ؟ یا انہیں قرآن کھولنے، پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی؟
{وَ كَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا:اور کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کیں۔} اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیات میں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو ڈر سنانے اور تبلیغ جاری رکھنے کا حکم فرمایا اور امت کو قرآنِ پاک کی پیروی کا حکم دیا، اب حکمِ الٰہی کی پیروی چھوڑ دینے اور اس سے اعراض کرنے کے نتائج پچھلی قوموں کے انجام کی صورت میں بتائے جا رہے ہیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا تو ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا یاجب وہ دوپہر کو سورہے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا عذاب ایسے وقت آیا جب کہ انہیں خیال بھی نہ تھا یا تو رات کا وقت تھا اور وہ آرام کی نیند سوتے تھے یا دن میں قَیلولہ کا و قت تھا اور وہ مصروفِ راحت تھے۔ نہ عذاب کے نزول کی کوئی نشانی تھی اور نہ کوئی قرینہ کہ پہلے سے آگاہ ہوتے بلکہ اچانک آگیا اور وہ بھاگنے کی کوشش بھی نہ کرسکے۔ اس سے کفار کو مُتَنَبِّہ کیا جارہا ہے کہ وہ اسباب ِامن و راحت پر مغرور نہ ہوں عذابِ الٰہی جب آتا ہے تو دفعۃً آجاتا ہے۔
{ فَمَا كَانَ دَعْوٰىهُمْ:تو ان کے منہ سے کچھ نہ نکلا۔} یعنی بستی والوں پر جب اللہ تعالیٰ کا عذاب اچانک آیا تو اس وقت ان کی پکار اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ بیشک ہم ہی ظالم تھے اور وہ لوگ اپنے اوپر آنے والے عذاب کو دور نہ کر سکے، خلاصہ یہ ہے کہ عذاب آنے پر اُنہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا لیکن اس وقت اعتراف بھی فائدہ نہیں دیتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عذاب دیکھ کر توبہ کرنا یا ایمان لانا قبول نہیں ہوتا۔ ایمانِ یا س قبول نہیں۔
{ فَلَنَسْــٴَـلَنَّ:تو بیشک ضرور ہمیں پوچھنا ہے۔} یعنی ان امتوں سے پوچھا جائے گا جن کی طرف رسول بھیجے گئے کہ تمہیں تمہارے رسولوں نے تبلیغ کی یا نہیں اور تم نے رسولوں کی د عوت کا کیا جواب دیا اور ان کے حکم کی کیا تعمیل کی۔ اور رسولوں سے دریافت کیاجائے گا کہ کیاآپ نے اپنی اُمتوں کو ہمارے پیغام پہنچائے اور تمہاری قوم نے تمہیں کیا جواب دیاتھا۔ یہاں علماء نے فرمایا ہے کہ یہ سوال و جواب ہمارے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے متعلق نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ لَا تُسْــٴَـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ ‘‘ (البقرہ:۱۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اورآپ سے جہنمیوں کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔
اور نہ کوئی بد باطن کافر یہ کہہ سکے گا کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے تبلیغ نہیں فرمائی۔
{ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْهِمْ:تو ضرور ہم ان کو بتادیں گے۔} یعنی قیامت میں ہمارا کفار سے اور ان کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پوچھ گچھ فرمانا قانونی کاروائی کیلئے ہوگا نہ کہ اس لئے کہ ہمیں اصل واقعہ کی خبر نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کے واقعۂ تہمت میں لوگوں سے دریافت فرمانا امت کی تعلیم کے لئے قانونی کاروائی تھی۔
{ وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّ:اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے۔} اس سے پہلی آیت میں قیامت کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا جائے گا، اور اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔
وزن اور میزان کا معنی:
وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)
جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸)
قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورتیں :
قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں ، ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۵ / ۲۰۲، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸، ملتقطاً)
حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سید المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھا جائے تو وہ اس کی بھی گنجائش رکھتا ہے۔ فرشتے کہیں گے:یااللہ!عَزَّوَجَلَّ، اس میں کس کو وزن کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے: تو پاک ہے، ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر سکے جوتیری عبادت کا حق ہے۔ (مستدرک، کتاب الاہوال، ذکر وسعۃ المیزان، ۵ / ۸۰۷، الحدیث: ۸۷۷۸)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’ ’نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں وزن کیا جائے گا، اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔ مومن کا عمل حسین صورت میں آئے گا اور ا س کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا۔ (شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۶۰، الحدیث: ۲۸۱)
میزان سے متعلق دو اہم باتیں :
یہاں میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین رکھیں :
(1)…صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں۔
(2)…میزان کو اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن، درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔
میزانِ عمل کو بھرنے والے اعمال:
اس آیت میں قیامت کے دن میزان میں اعمال تولے جانے کا ذکر ہوا ،ا س مناسبت سے ہم یہاں چند ایسے اعمال ذکر کرتے ہیں جو میزانِ عمل کو بھر دیتے ہیں ، چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دو لفظ زبان پر آسان ہیں ، میزان میں بھاری ہیں اور رحمٰن کو محبوب ہیں (وہ دو لفظ یہ ہیں ) سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ۔‘‘ (بخاری، کتاب الدعوات، باب فضل التسبیح، ۴ / ۲۲۰، الحدیث: ۶۴۰۶)
حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ میزان کو بھر دیتا ہے۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوئ، ص۱۴۰، الحدیث: ۱(۲۲۳))
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تمام آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان اوران کے نیچے ہے، یہ سب اگر تم لے کر آؤ اور اسے میزان کے ایک پلڑے میں رکھ دو اور کلمہ شہادت کو دوسرے پلڑے میں تو وہ پہلے پلڑے سے بھاری ہو گا۔ (معجم الکبیر، ۱۲ / ۱۹۶، الحدیث: ۱۳۰۲۴)
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھے اخلاق سے زیادہ میزان میں کوئی چیز بھاری نہیں ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حسن الخلق، ۴ / ۳۳۲، الحدیث: ۴۷۹۹)
{ وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ:اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے ۔} ارشاد فرمایا کہ جن کے نیکیوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے اور ان میں کوئی نیکی نہ ہو گی تو یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا۔ بعض علماء کے نزدیک قیامت کے دن صرف مسلمانوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا اور کافروں کے اعمال کا وزن نہ ہو گا لیکن اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ جن کافروں کو اللہ تعالیٰ جلد دوزخ میں ڈالناچاہے گا انہیں اعمال کے وزن کے بغیر دوزخ میں ڈال دے گا اور بقیہ کافروں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا اسی طرح بعض مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ اعمال کا وزن کئے بغیر بے حساب جنت میں داخل کر دے گا۔
{ وَ لَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ:اور بیشک ہم نے تمہیں زمین میں ٹھکانا دیا۔} یہاں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی عظیم نعمتوں کو یا د دلایا کہ جن کی وجہ سے نعمتیں عطا فرمانے والے کا شکر ادا کرنا لازم ہوتا ہے چنانچہ ارشاد ہوا ’’ہم نے تمہیں زمین میں ٹھکانہ دیا اور تمہارے لئے اس میں زندگی گزارنے کے اسباب بنائے اور اپنے فضل سے تمہیں راحتیں مہیا کیں ، غذا، پانی، ہوا، سورج کی روشنی سب یہاں ہی بھیجی کہ تمہیں ان کے لئے آسمان پر یا سمندر میں جانے کی حاجت نہیں۔ زمین میں رہنے کا ٹھکانہ دینا اور زندگی گزارنے کے اسباب مہیا فرمانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ہے کیونکہ اس نعمت میں زندگی کی تمام تر نعمتیں آگئیں ، کھانے پینے، پہننے، رہنے وغیرہ کے لئے تمام مطلوبہ چیزیں اس میں داخل ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں میں ناشکری غالب ہے۔ لوگوں کی کم تعداد شکر ادا کرتی ہے اور جو شکر کرتے ہیں وہ بھی کما حقہ ادا نہیں کرتے۔
شکر کی حقیقت اور ا س کے فضائل:
شکر کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت کواللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف منسوب کرے اور نعمت کا اظہار کرے جبکہ ناشکری یہ ہے کہ آدمی نعمت کو بھول جائے اور اسے چھپائے۔ قرآن و حدیث میں شکر کا حکم اورا س کے فضائل بکثرت بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
’’وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ‘‘(بقرہ:۱۵۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور میراشکرادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔
اور ارشاد فرماتاہے:
’’مَا یَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِیْمًا‘‘(النساء:۱۴۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اوراگر تم شکر گزار بن جاؤاور ایمان لاؤتو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اور اللہ قدر کرنے والا، جاننے والاہے۔
نیز ارشاد فرمایا:
’’ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘(ابراہیم:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
حضرت صہیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’مجھے مومن کے حال پر تعجب ہوتا ہے، اس کے ہر حال میں بھلائی ہے اگر اس کو راحت پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کی کامیابی ہے اور اگر اس کو ضرر پہنچے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کی کامیابی ہے۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن امرہ کلہ خیر، ص۱۵۹۸، الحدیث: ۶۴(۲۹۹۹))
امام محمد بن محمدغزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’دل کا شکر یہ ہے کہ نعمت کے ساتھ خیر اور نیکی کاا رادہ کیا جائے اور زبان کا شکر یہ ہے کہ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی جائے اور باقی اعضا کا شکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں خرچ کیا جائے اور ان نعمتوں کواللہ تعالیٰ کی معصیت میں صرف ہونے سے بچایا جائے حتّٰی کہ آنکھوں کا شکر یہ ہے کہ کسی مسلمان کا عیب دیکھے تو ا س پر پردہ ڈالے(احیاء علوم الدین، کتاب الصبر والشکر، الرکن الاول فی نفس الشکر، بیان فضیلۃ الشکر، ۴ / ۱۰۳-۱۰۴)۔([1])
[1] …شکر کے مزید فضائل جاننے کے لئے کتاب’’شکر کے فضائل‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ )کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ:اور بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا۔} یہاں سے ایک اور عظیم نعمت یاد دلائی جارہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی تمام اولاد پر فرمائی اور یہ نعمت ایسی ہے کہ صرف یہی نعمت ادائے شکر کے لازم ہونے کے لئے کافی ہے چنانچہ ارشاد ہوا کہ بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا۔ یہاں یا تو یہ مراد ہے کہ ہم نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کیا اور ان کی پشت میں ان کی اولاد کی صورت بنائی یا یہاں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی کا تذکرہ ہے کہ ہم نے آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کیا، ان کی صورت بنائی اور پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ انہیں سجدہ کریں۔ بقیہ تفصیلی واقعہ آیتِ مبارکہ میں بھی موجود ہے اور تخلیقِ آدم و سجدہ ِ آدم کاواقعہ سورۂ بقرہ آیت34 میں بھی مذکور ہوچکا ہے۔ یہاں اس قصے کے بیان کا مقصد ایک مرتبہ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظیم نعمت کو یاد دلانا ہے۔ شرف ِانسانیت کو بیان کرنا ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دوست اور دشمن کی روِش کو دکھانا ہے کہ دیکھو دوست بھول کر بھی خطا کرتا ہے تو کس طرح گریہ و زاری کرتا ہے اور محبوب ِ حقیقی کو منانے کی کوشش کرتا ہے اور دشمنِ خدا قصداً تکبرسے حکمِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتا ہے اور توبہ و معافی طلب کرنے کی بجائے غرور و تکبر اور حیلہ و تاویل کی راہ اپناتا ہے اور اپنا قصور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا بلکہ الٹا تقدیر کا بہانا بنا کر خود کو قصور وار قرار دینے کی بجائے کہتا ہے کہ یا اللہ! یہ میرا نہیں بلکہ تیرا قصور ہے کیونکہ تو نے ہی مجھے گمراہ کیا ہے۔ یہ مضمون چند آیات کے بعد موجود ہے۔ گویا اِس قصے کے ذریعے فرمانبردار اور نافرمان کا راستہ بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
{ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ:تو نے مجھے آگ سے بنایا۔} اس سے ابلیس کی مراد یہ تھی کہ آگ مٹی سے افضل اورا علیٰ ہے تو جس کی اصل آگ ہوگی وہ اس سے افضل ہوگا جس کی اصل مٹی ہو اور اس خبیث کا یہ خیال غلط وباطل تھا کیونکہ افضل وہ ہے جسے مالک و مولیٰ فضیلت دے، فضیلت کا مدار اصل اور جوہر پر نہیں بلکہ مالک کی اطاعت وفرمانبرداری پر ہے نیز آگ کا مٹی سے افضل ہونا بھی صحیح نہیں کیونکہ آگ میں طیش اور تیزی اور بلندی چاہنا ہے اور یہ چیزیں تکبر کاسبب بنتی ہے جبکہ مٹی سے وقار ،حلم اور صبر حاصل ہوتے ہیں۔ یونہی مٹی سے ملک آباد ہوتے ہیں جبکہ آگ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ نیزمٹی امانت دار ہے جو چیز اِس میں رکھی جائے مٹی ا سے محفوظ رکھتی ہے جبکہ جو چیز آگ میں ڈالی جائے، آگ اسے فنا کردیتی ہے۔ نیز مٹی آگ کو بجھا دیتی ہے اور آگ مٹی کو فنا نہیں کرسکتی۔ نیز یہاں ایک اور بات یہ ہے کہ شیطان پرلے درجے کا احمق و بدبخت تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا صریح حکم موجود ہوتے ہوئے اس کے مقابلے میں قیاس کیا اور جو قیاس نص کے خلاف ہو وہ ضرور مردود۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ امر (حکم) وجوب کے لئے ہوتا ہے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ نے جو شیطان سے سجدہ نہ کرنے کا سبب دریافت فرمایا تو یہ اس کی ڈانٹ پھٹکار کیلئے تھا اور اس لئے کہ شیطان کی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دشمنی اور اس کاکفر وتکبر ظاہر ہوجائے نیز اپنی اصل یعنی آگ پر مغرور ہونا اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اصل یعنی مٹی کی تحقیر کرنا ظاہر ہوجائے۔
{ قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا:فرمایا تو یہاں سے اُ تر جا۔} یعنی جنت سے اتر جا کہ یہ جگہ اطاعت و تواضع کرنے والوں کی ہے منکر و سرکش کی نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت پہلے سے موجود ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت اوپر ہے، زمین کے نیچے نہیں کیونکہ اترنا اوپر سے ہوتا ہے۔
{ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ: بیشک توذلت والوں میں سے ہے۔} کہ انسان تیری مذمت کرے گا اور ہر زبان تجھ پر لعنت کرے گی اور یہی تکبر والے کا انجام ہے۔
تکبر کی مذمت:
اس سے معلوم ہوا کہ تکبر ایسا مذموم وصف ہے کہ ہزاروں برس کا عبادت گزار اور فرشتوں کا استاد کہلانے والا ابلیس بھی اس کی وجہ سے بارگاہِ الٰہی میں مردود ٹھہرا اور قیامت تک کے لئے ذلت و رسوائی کا شکار ہو گیا۔ ذیل میں ہم تکبر کی مذمت پر مشتمل احادیث اور عاجزی کے فضائل کے بیان میں 4احادیث اور ایک حکایت ذکر کر رہے ہیں تاکہ مسلمان ابلیس کے انجام کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کو بھی پڑھیں اور تکبر چھوڑ کر عاجزی اختیار کرنے کی کوشش کریں ، چنانچہ
(1)…حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ کیا میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے بد ترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث حذیفۃ بن الیمان عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۹ / ۱۲۰، الحدیث: ۲۳۵۱۷)
(2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا تو قیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی طرف رحمت کی نظر نہ فرمائے گا۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب من جرّ ثوبہ من الخیلائ، ۴ / ۴۶، الحدیث: ۵۷۸۸)
(3) …حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن تکبر کرنے والے چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے، ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانپ لے گی، انہیں جہنم کے قید خانے کی طرف لے جایا جائے گا جس کا نام ’’بولس‘‘ ہے، آگ ان پر چھا جائے گی اور انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَالْ ‘‘ یعنی جہنمیوں کی پیپ اور خون پلایا جائے گا۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴۷-باب، ۴ / ۲۲۱، الحدیث: ۲۵۰۰)
(4)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۷(۹۱))
عاجزی کے فضائل:
(1)…حضرت عیاض بن حِمار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری طرف یہ وحی فرمائی ہے کہ تم لوگ عاجزی اختیار کرو اورتم میں سے کوئی دوسرے پر فخر نہ کرے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب البراء ۃ من الکبر والتواضع، ۴ / ۴۵۹، الحدیث: ۴۱۷۹)
(2)…اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، سرورِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :’’اے عائشہ! عاجزی اپنا ؤکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ عاجزی کرنے والوں سے محبت ،اور تکبرکرنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۵۰، الحدیث: ۵۷۳۱، الجزء الثالث)
(3)…حضرت انس جُہنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے قدرت کے باوجود اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے اعلیٰ لباس ترک کر دیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّقیامت کے دن اسے لوگوں کے سامنے بلا کر اختیار دے گا کہ ایمان کا جو جوڑا چاہے پہن لے۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۳۹-باب، ۴ / ۲۱۷، الحدیث: ۲۴۸۹)
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جواپنے مسلمان بھائی کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے بلندی عطا فرماتا ہے اور جو مسلمان بھائی پر بلندی چاہتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے پستی میں ڈال دیتا ہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۵ / ۳۹۰، الحدیث: ۷۷۱۱)
فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عاجزی:
جب حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شام کی طرف تشریف لے گئے تو حضرت سیدنا ابوعبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں گھٹنوں تک پانی تھا، آپ اپنی اونٹنی پرسوار تھے، آپ اونٹنی سے اترے اور اپنے موزے اتار کراپنے کندھے پررکھ لئے، پھر اونٹنی کی لگام تھام کرپانی میں داخل ہو گئے تو حضرت ابوعبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :اے امیرُالمؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ یہ کام کررہے ہیں مجھے یہ پسند نہیں کہ یہاں کے باشندے آپ کو نظر اٹھا کر دیکھیں۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا ’’افسوس! اے ابوعبیدہ! اگریہ بات تمہارے علاوہ کوئی اور کہتا تو میں اسے اُمتِ محمدی عَلٰی صَاحِبَہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے عبرت بنا دیتا، ہم ایک بے سرو سامان قوم تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت عطا فرمائی، جب بھی ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عزت کے علاوہ سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں رسوا کر دے گا(الزواجر عن اقتراف الکبائر، الباب الاول فی الکبائر الباطنۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۶۱)۔ [1]
[1]…تکبر کی مذمت اور عاجزی کے فضائل وغیرہ سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’تکبر‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
{ قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ:فرمایا تجھے مہلت ہے۔} یعنی پہلے نفخہ (صور پھونکنے) تک تجھے مہلت ہے۔ اس مہلت کی مدت سورۂ حجر کی ان آیات میں بیان فرمائی گئی:
’’ قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَۙ(۳۷) اِلٰى یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ‘‘(حجر:۳۷، ۳۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اللہ نے فرمایا: پس بیشک توان میں سے ہے جن کو معین وقت کے دن تک مہلت دی گئی ہے۔
اور یہ نَفخۂ اُولیٰ کا وقت ہے جب سب لوگ مرجائیں گے ۔شیطان مردود نے دوسرے نفخہ (صور پھونکنے) تک یعنی مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے وقت تک کی مہلت چاہی تھی اور اس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ موت کی سختی سے بچ جائے مگر یہ درخواست قبول نہ ہوئی اور اسے پہلے نفخہ تک کی مہلت دی گئی کہ جب پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو سب کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوجائے گا ۔
{ قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ:شیطان نے کہا: مجھے اِس کی قسم کہ تو نے مجھے گمراہ کیا۔} شیطان نے یہاں گمراہ کرنے کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف کی، اِس میں یا تو شیطان نے خود کو مجبورِ مَحض مان کر جَبریہ فرقے کی طرح یہ بات کی جو یہ کہتے ہیں کہ انسان مجبورِ محض ہے، وہ جو کچھ کرتا ہے اس میں اپنے اختیار سے نہیں کرتا اور یا پھر اللہ تعالیٰ کی بے ادبی کے طور پر کہا کیونکہ ہرشے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت و تخلیق سے ہوتی ہے لیکن چونکہ بندے کے کسب و فعل کا بھی دخل ہوتا ہے اس لئے حکم ہے کہ برائی کواللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف منسوب کرنے کی بجائے اپنے نفس کی طرف منسوب کرنا چاہیے لیکن شیطان جو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسّلَام کا گستاخ ہوچکا تھا تو اب اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بھی گستاخ بن گیا۔ معلوم ہوا کہ نبی کا گستاخ بالآخر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بھی کھلم کھلا گستاخ بن جاتا ہے۔
{ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ:میں ضرور تیرے سیدھے راستہ پر لوگوں کی تاک میں بیٹھوں گا۔} یعنی باپ کا بدلہ اولاد سے لوں گا۔ بنی آدم کے دِل میں وسوسے ڈالوں گا اور اُنہیں باطل کی طرف مائل کروں گا، گناہوں کی رغبت دلاؤں گا، تیری اطاعت اور عبادت سے روکوں گا اور گمراہی میں ڈالوں گا۔ بعض کو کافر و مشرک بنا دوں گا تاکہ دوزخ میں اکیلا نہ جاؤں بلکہ جماعت کے ساتھ جاؤں۔
{ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ:پھر ضرور میں ان کے پاس آؤں گا۔} شیطان نے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پھر میں ضرور بنی آدم کے آگے، پیچھے او ر ان کے دائیں ، بائیں یعنی چاروں طرف سے ان کے پاس آؤں گا اور اُنہیں گھیر کر راہِ راست سے روکوں گا تاکہ وہ تیرے راستے پر نہ چلیں اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’سامنے سے مراد یہ ہے کہ میں ان کی دنیا کے متعلق وسوسے ڈالوں گا اور پیچھے سے مراد یہ ہے کہ ان کی آخرت کے متعلق وسوسے ڈالوں گا اور دائیں سے مراد یہ ہے کہ ان کے دین میں شبہات ڈالوں گا اور بائیں سے مراد یہ ہے کہ ان کو گناہوں کی طرف راغب کروں گا۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۸۱۔ طرح ہے جو اِدھر سے اُدھر بھاگ رہا ہو) چونکہ شیطان بنی آدم کو گمراہ کرنے، شہوتوں اور قبیح افعال میں مبتلاء کرنے میں اپنی انتہائی سعی خرچ کرنے کا عزم کرچکا تھایا وہ انسان کی اچھی بری صفات سے واقف تھا یا اس نے فرشتوں سے سن رکھا تھا، اس لئے اسے گمان تھا کہ وہ بنی آدم کو بہکالے گا اور انہیں فریب دے کر خداوند عالم کی نعمتوں کے شکر اور اس کی طاعت و فرمانبرداری سے روک دے گا۔
انسانوں کو بہکانے میں شیطان کی کوششیں :
حضرت سبرہ بن ابو فاکہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’ شیطان، اِبنِ آدم کے تمام راستوں میں بیٹھ جاتا ہے اور اس کو اسلا م کے راستے سے بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’کیا تم اسلام قبول کرو گے اور اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دو گے؟ لیکن وہ شخص شیطان کی بات نہیں مانتا اور اسلام قبول کر لیتا ہے تو پھر اس کو ہجرت کرنے کے راستے سے ورغلانے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ’’ کیا تم ہجرت کرو گے اور اپنے وطن کی زمین اور آسمان چھوڑ دو گے ؟حالانکہ مہاجر کی مثال تو کھونٹے سے بندھے ہوئے اس گھوڑے کی اور اس کھونٹے کی حدود سے نکل نہ سکتا ہو۔(مراد یہ کہ شیطان مہاجر کو ایک بے کس و بے بس کی شکل میں پیش کرکے آدمی کو بہکاتا ہے لیکن اگر) وہ شخص اس کی بات نہیں مانتا اور ہجرت کر لیتا ہے تو شیطان اس کے جہاد کے راستے میں بیٹھ جاتا ہے، وہ اس شخص سے کہتا ہے کہ’’ کیاتم جہاد کرو گے اوریہ اپنی جان اور مال کو آزمائش میں ڈالنا ہے اور اگر تم جہاد کے دوران مارے گئے تو تمہاری بیوی کسی اور شخص سے نکاح کر لے گی اور تمہارا مال تقسیم کر دیاجائے گا۔ لیکن وہ شخص پھر بھی شیطان کی بات نہیں مانتا اور جہاد کرنے چلا جاتا ہے ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: سو جس شخص نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر یہ حق ہے کہ وہ اس کو جنت میں داخل کر دے اور جو مسلمان قتل کیا گیا تواللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر اس کو جنت میں داخل کرنا ہے اور جو مسلمان غرق ہو گیا تو اسے جنت میں داخل کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے اور جس مسلمان کو ا س کی سواری نے ہلاک کر دیا اس کو جنت میں داخل کرنااللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے۔( نسائی، کتاب الجہاد، ما لمن اسلم وہاجر وجاہد، ص۵۰۹، الحدیث: ۳۱۳۱)
شیطان سے پناہ مانگنے کی ترغیب:
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا رہے اور ا س میں کسی طرح سستی اور غفلت کا مظاہرہ نہ کرے۔ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’ ’شیطان سے پناہ مانگنے میں غفلت نہ کرو کیونکہ تم اگرچہ اسے دیکھ نہیں رہے لیکن وہ تم سے غافل نہیں۔ (مسند الفردوس، باب لام الف، ۵ / ۴۷، الحدیث: ۷۴۱۷)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’شیطان کے شر سے اپنے آپ کو حتی الامکان بچاؤ اور اس سلسلے میں تمہارے لئے سب سے بڑی یہی دلیل کافی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے فرمایا :
’’ وَ قُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِۙ(۹۷) وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ‘‘ (مومنون:۹۷،۹۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور تم عرض کرو: اے میرے رب!میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔اور اے میرے رب!میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ شیطان میرے پاس آئیں۔
تو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو سارے جہان سے بہتر، سب سے زیادہ معرفت رکھنے والے، سب سے زیادہ عقلمند اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ رتبہ اور فضیلت رکھنے والے ہیں ،انہیں اس بات کی ضرورت ہے
کہ شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں تو تمہاری حیثیت ہی کیا ہے! حالانکہ تم جاہل، عیب و نقص والے اور غفلت میں ڈوبے ہوئے ہو(تو کیا تم شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لینے کے محتاج نہیں ہو؟ یقینا محتاج ہو اور بہت زیادہ محتاج ہو)۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الرابع، فصل فی معالجۃ الدنیا والخلق والشیطان والنفس، ص۱۰۲)
شیطان سے حفاظت کی دعا:
حضرت جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص رات کے وقت اپنے بستر پر جائے تو یہ کہہ لیا کرے ’’بِسْمِ اللہِ اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمْ‘‘ (معجم الکبیر، جندب بن عبد اللہ البجلی۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۷۶، الحدیث: ۱۷۲۲)
حضرت شقیق بلخی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا طریقہ:
حضرت شقیق بلخی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’روزانہ صبح کے وقت شیطان میرے پاس آگے پیچھے، دائیں بائیں سے آتا ہے، میرے سامنے آ کر کہتا ہے ’’تم خوف نہ کرو بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑا غفور و رحیم ہے۔ یہ سن کر میں یہ آیت پڑھتا ہوں :
’’ وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى‘‘ (طٰہ:۸۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور بیشک میں اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر ہدایت پر رہا۔
(مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا تو ہے لیکن اِس آیت کے مطابق ان لوگوں کو بخشنے والا ہے جو توبہ و ایمان و اعمالِ صالحہ والے ہیں لہٰذا میں عمل سے بے پرواہ نہیں ہوسکتا) اور شیطان میرے پیچھے سے مجھے یہ خوف دلاتا ہے کہ میری اولاد محتاج ہو جائے گی۔ تب میں یہ آیت پڑھتا ہوں :
’’ وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا ‘‘ (ہود:۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر نہ ہو۔
(مراد یہ کہ مجھے رزق کی فکر ڈال کر اللہ سے غافل نہ کر کیونکہ رزق تو اسی کے ذمۂ کرم پر ہے۔) پھر شیطان میری دائیں طرف سے آ کر میری تعریف کرتا ہے، اس وقت میں یہ آیت پڑھتا ہوں :
’’ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ‘‘(اعراف: ۱۲۸) ترجمۂکنزُالعِرفان:اور اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہی ہے۔
(یعنی مجھے اچھا کہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں اچھا تب ہوں گا جب میرا انجام اچھا ہوگا اور انجام تب اچھا ہوگا جب میں متقی بنوں گا) پھر شیطان میری بائیں طرف سے نفسانی خواہشات میں سے کچھ لے کر آتا ہے تو میں یہ آیت پڑھتا ہوں :
’’ وَ حِیْلَ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَا یَشْتَهُوْنَ ‘‘(سبا:۵۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ان کے درمیان اور ان کی چاہت کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی۔ (مراد یہ کہ نفسانی خواہشات سے دور رہنے میں ہی کامیابی ہے۔)( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۸۲)
{ قَالَ اخْرُ جْ مِنْهَا:(اللہ نے) فرمایا: تو یہاں سے نکل جا۔} فرمایا کہ تو یہاں سے ذلیل و مردود ہو کرنکل جا آج فرشتوں میں ذلیل اور آئندہ ہر جگہ ذلیل و خوار ہو کہ لعنت کی مار تجھ پر پڑتی رہے۔ معلوم ہوا کہ پیغمبر کی دشمنی تمام کفروں سے بڑھ کر ہے، شیطان عالم وزاہد ہونے کے باوجود نبی کی تعظیم سے انکار پر ایسا ذلیل ہوا۔
{ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِیْنَ: میں ضرور تم سب سے جہنم بھردوں گا۔} یعنی اے شیطان! تجھ کو بھی اور تیری اولاد کو بھی اور تیری اطاعت کرنے والے آدمیوں کو بھی سب کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔
جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھرا جائے گا:
اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ میں شیطان، جنات اور انسان سب ہی جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے جہنم کو بھر دے گا۔ اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ‘‘ (ہود:۱۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تمہارے رب کی بات پوری ہوچکی کہ بیشک میں ضرور جہنم کو جنوں اور انسانوں سے ملا کربھر دوں گا۔
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جہنم اور جنت میں مُباحثہ ہوا تو جہنم نے کہا: مجھ میں جَبّار اور متکبر لوگ داخل ہوں گے۔ جنت نے کہا: مجھ میں کمزور اور مسکین لوگ داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم سے فرمایا ’’تم میرا عذاب ہو، میں جس کو چاہوں گا تمہارے ذریعے عذاب دوں گا۔ جنت سے فرمایا ’’تم میری رحمت ہو، میں تمہارے ذریعے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا اور تم میں سے ہر ایک کو پُر ہونا ہے۔ (مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب النار یدخلہا الجبارون ۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۴، الحدیث: ۳۴(۲۸۴۶))
{ وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ: اور اے آدم! تم رہو ۔}اس آیت اور بعد والی چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیطان کو ذلیل و رسوا کر کے جنت سے نکال دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ آپ اور آپ کی بیوی حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا جنت میں رہو اور جنتی پھلوں میں سے جہاں چاہو کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا۔ وہ درخت گندم تھا یا کوئی اور، ( جو بھی رب تعالیٰ کے علم میں ہے ۔) شیطان نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کو وسوسہ ڈالا چنانچہ ابلیس ملعون نے اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھاتے ہوئے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: ’’اس درخت میں یہ تاثیر ہے کہ اس کا پھل کھانے والا فرشتہ بن جاتا ہے یا ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلیتا ہے اور اس کے ساتھ ممانعت کی کچھ تاویلیں کرکرا کے دونوں کو اس درخت سے کھانے کی طرف لے آیا۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل میں چونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام کی عظمت انتہا درجے کی تھی اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو گمان بھی نہ تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم کھا کر کوئی جھوٹ بھی بول سکتا ہے نیز جنت قربِ الہٰی کا مقام تھا اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی اُس مقامِ قرب میں رہنے کا اشتیاق تھا اور فرشتہ بننے یا دائمی بننے سے یہ مقام حاصل ہوسکتا ہے لہٰذا آپ نے شیطان کی قسم کا اعتبار کر لیا اور ممانعت کو محض تنزیہی سمجھتے ہوئے یا خاص درخت کی ممانعت سمجھتے ہوئے اسی جنس کے دوسرے درخت سے کھالیا۔ اس کے کھاتے ہی جنتی لباس جسم سے جدا ہوگئے اور پوشیدہ اعضاء ظاہر ہوگئے۔ جب بے سَتری ہوئی تو ان بزرگوں نے انجیر کے پتے اپنے جسم شریف پر ڈالنے شروع کر دئیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: ’’ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ دونوں نے عرض کی: اے ہمارے رب !عَزَّوَجَلَّ،ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم و حوا !تم اپنی ذریت کے ساتھ جو تمہاری پیٹھ میں ہے جنت سے اترجاؤ ،تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور دنیاوی زندگی سے نفع اٹھانا ہے۔
{ وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ: اور وہ دونوں چپٹانے لگے۔} حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکے لباس جدا ہوتے ہی دونوں کا پتوں کے ساتھ اپنے بدن کو چھپانا شروع کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے۔ لہٰذا جو شخص ننگے ہونے کو فطرت سمجھتا ہے جیسے مغربی ممالک میں ایک طبقے کا رجحان ہے تو وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی فطرتیں مَسخ ہوچکی ہیں۔
{ ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا:ہم نے اپنی جانوں پرزیادتی کی} اپنی جانوں پر زیادتی کرنے سے مراد اِس آیت میں گناہ کرنا نہیں ہے بلکہ اپنا نقصان کرنا ہے اور وہ اس طرح کہ جنت کی بجائے زمین پر آنا پڑا اور وہاں کی آرام کی زندگی کی جگہ یہاں مشقت کی زندگی اختیار کرنا پڑی۔
حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عمل میں مسلمانوں کے لئے تربیت:
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کے لئے یہ تربیت ہے کہ ان سے جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ا س کا اعتراف کریں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحمت کا انتہائی لَجاجَت کے ساتھ سوال کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کا گناہ بخش دے اور ان پر اپنا رحم فرمائے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’مومن بندے سے جب کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے حیا کرتا ہے، پھر اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ! وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ کیا ہے تووہ جان لیتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ استغفار اور توبہ کرنا ہے، لہٰذا توبہ کرنے سے کوئی آدمی بھی شرم محسوس نہ کرے کیونکہ اگر توبہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی بھی خلاصی اور نجات نہ پا سکے، تمہارے جدِ اعلیٰ(حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ) سے جب لغزش صادر ہوئی تو توبہ کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرمایا۔ (در منثور، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۴۳۳)
{ قَالَ اهْبِطُوْا:فرمایا اُترو۔} دونوں حضرات کو جنت سے اترجانے کا حکم ہوا کیونکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا اصل مقصد تو انہیں زمین میں خلیفہ بنانا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ آدم سے پہلے ہی فرشتوں کے سامنے بیان فرما دیا تھا اور سورۂ بقرہ میں صراحت سے مذکور ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اولادِ آدم نے آپس میں عداوت و دشمنی بھی کرنا تھی اور جنت جیسی مقدس جگہ ان چیزوں کے لائق نہیں لہٰذا مقصد ِ تخلیقِ آدم کی تکمیل کیلئے اور اس کے مابعد رونُما ہونے والے واقعات کیلئے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زمین پر اتارا گیا۔
{ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ:اے آدم کی اولاد۔} گزشتہ آیات میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لباس و طعام کا ذکر ہوا اب یہاں سے ان کی اولاد کے لباس و طعام کی اہمیت اور اس کے متعلقہ احکام کا بیان ہے اور چونکہ گزشتہ آیات میں تخلیقِ آدم کا بیان ہوا تو یہاں سے بار بار اے اولادِ آدم ! کے الفاظ سے خطاب کیا جارہا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو جنت سے زمین پر اترنے کا حکم دیا اور زمین کو ان کے ٹھہرنے کی جگہ بنایا تو وہ تمام چیزیں بھی ان پر نازل فرمائیں جن کی دین یا دنیا کے اعتبار سے انہیں حاجت تھی۔ اُن میں سے ایک چیز لباس بھی ہے جس کی طرف دین اور دنیا دونوں کے اعتبار سے حاجت ہے۔ دین کے اعتبار سے تو یوں کہ لباس سے ستر ڈھانپنے کا کام لیا جاتا ہے کیونکہ سترِ عورت نماز میں شرط ہے اور دنیا کے اعتبار سے یوں کہ لباس گرمی اور سردی روکنے کے کام آتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے جس کا ذکر اس آیت میں فرمایا۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین طرح کے لباس اتارے دو جسمانی اور ایک روحانی۔ جسمانی لباس بعض تو سترِ عورت کے لئے اور بعض زینت کے لئے ہیں ، یہ دونوں اچھے ہیں اور روحانی لباس ایمان، تقویٰ، حیا اور نیک خصلتیں ہیں۔ یہ تمام لباس آسمان سے اترے ہیں کیونکہ بارش سے روئی اون اور ریشم پیدا ہوتی ہے، یہ بارش آسمان سے آتی ہے اور وحی سے تقویٰ نصیب ہوتا ہے اور وحی بھی آسمان سے آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ لباس صرف انسانوں کے لئے بنا یا گیا اسی لئے جانور بے لباس ہی ہوتے ہیں۔ سترِ عورت چھپانے کے قابل لباس پہننا فرض ہے اور لباسِ زینت پہننا مستحب ہے۔ لباس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بہت بڑی نعمت ہے اس لئے اس کے پہننے پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا لباس:
حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زیادہ تر سوتی لباس پہنتے تھے اون اور روئی کا لباس بھی کبھی کبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے استعمال فرمایا۔ لباس کے بارے میں کسی خاص پوشاک یا امتیازی لباس کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔ جبہ، قبا، پیرہن، تہبند، حلہ، چادر، عمامہ، ٹوپی، موزہ ان سب کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے زیبِ تن فرمایا ہے۔ پائجامہ کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے پسند فرمایا اور منیٰ کے بازار میں ایک پائجامہ خریدا بھی تھا لیکن یہ ثابت نہیں کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے پائجامہ پہنا ہو۔ (سیرت مصطفٰی، شمائل وخصائل، ص۵۸۱)
حضرت سَمُرہ بن جُندُب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سفید کپڑے پہنو کہ وہ زیادہ پاک اور ستھرے ہیں اور انہیں میں اپنے مردے کفناؤ۔ (ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی لبس البیاض، ۴ / ۳۷۰، الحدیث: ۲۸۱۹)
عام اور نیالباس پہنتے وقت کی دعائیں :
(1)…حضرت معاذ بن انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’جو شخص کپڑا پہنے اور یہ پڑھے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ ھٰذَا وَرَزَقَـنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِّنِّی وَلَا قُـوَّۃٍ ‘‘(ترجمہ: تمام تعریفیںاللہتعالیٰ کے لئے ہیں جس نے مجھے یہ (لباس) پہنایا اور میری طاقت و قوت کے بغیر مجھے یہ عطا فرمایا) تو اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ (مستدرک، کتاب اللباس، الدعاء عند فراغ الطعام، ۵ / ۲۷۰، الحدیث: ۷۴۸۶)
(2)…حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب نیا کپڑا پہنتے تو اُس کا نام لیتے عمامہ یا قمیص یا چادر، پھر یہ دعا پڑھتے: ’’اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا کَسَوْتَنِیْہِ اَسْأَ لُکَ خَیْرَہٗ وَخَیْرَ مَا صُنِعَ لَـہٗ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہٖ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَـہٗ‘‘ (ترجمہ:اے اللہ تیرا شکر ہے جیسے تو نے مجھے یہ (کپڑا) پہنایا ویسے ہی میں تجھ سے اس کی بھلائی اور جس مقصد کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس کے شر اور جس مقصد کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں)(شرح السنۃ للبغوی، کتاب اللباس، باب ما یقول اذا لبس ثوباً جدیداً، ۶ / ۱۷۲، الحدیث: ۳۰۰۵)
لباس کی عمدہ تشریح:
امام راغب اصفہانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لباس کے لغوی معنیٰ بیان کرتے ہوئے بڑی عمدہ تشریح فرمائی ہے چنانچہ لکھتے ہیں کہ ’’ہر وہ چیز جو انسان کی بری اور ناپسندیدہ چیز کو چھپا لے اسے لباس کہتے ہیں شوہر اپنی بیوی اور بیوی اپنے شوہر کو بری چیزوں سے چھپا لیتی ہے، وہ ایک دوسرے کی پارسائی کی حفاظت کرتے ہیں اور پارسائی کے خلاف چیزوں سے ایک دوسرے کے لئے رکاوٹ ہوتے ہیں اس لئے انہیں ایک دوسرے کا لباس فرمایا ہے:
’’ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ‘‘(البقرہ:۱۸۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔
لباس سے انسان کی زینت ہوتی ہے، اسی اعتبار سے فرمایا ہے ’’ لِبَاسُ التَّقْوٰى‘‘ (تقویٰ کا معنی ہے برے عقائد اور برے اعمال کو ترک کر دینا اور پاکیزہ سیرت اپنانا، جس طرح کپڑوں کا لباس انسان کو سردی، گرمی اور برسات کے موسموں کی شدت سے محفوظ رکھتا ہے اسی طرح تقویٰ کا لباس انسان کو اُخروی عذاب سے بچاتا ہے۔) (مفردات امام راغب، کتاب اللام، ص۷۳۴-۷۳۵ ملخصاً)
{ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ:اے آدم کی اولاد!} شیطان کی فریب کاری اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ اس کی دشمنی وعداوت کا بیان فرما کر بنی آدم کو مُتَنَبّہ اور ہوشیار کیا جارہا ہے کہ وہ شیطان کے وسوسے ،اغواء اور اس کی مکاریوں سے بچتے رہیں۔ جو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ ایسی فریب کاری کرچکا ہے وہ اُن کی اولاد کے ساتھ کب درگزر کرنے والا ہے۔ اس میں مومن، کافر، ولی، عالم، پرہیز گار سب سے خطاب ہے، کوئی اپنے آپ کو ابلیس سے محفوظ نہ جانے چنانچہاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اے آدم کی اولاد! تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کوجنت سے نکال دیا، ان دونوں سے ان کے لباس اتروا دئیے تاکہ انہیں ان کی شرم کی چیزیں دکھا دے۔
{ اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ:بیشک وہ خود تمہیں دیکھتا ہے۔} یعنی شیطان اور اس کی ذریت سارے جہان کے لوگوں کو دیکھتے ہیں جبکہ لوگ انہیں نہیں دیکھتے۔ جہاں کسی نے کسی جگہ اچھے کام کا ارادہ کیا، اُسے اُس کی نیت کی خبر ہو گئی اور فوراً بہکادیا۔
شیطان سے مقابلہ کرنے اور اسے مغلوب کرنے کے طریقے:
یاد رہے کہ جو دشمن تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم اسے نہیں دیکھ رہے ا س سے اللہ تعالیٰ کے بچائے بغیر خلاصی نہیں ہو سکتی جیساکہ حضرت ذوالنون رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ شیطان ایسا ہے کہ وہ تمہیں دیکھتا ہے اور تم اُسے نہیں دیکھ سکتے لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے دیکھتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا تو تم اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۱۵۰)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی عقل سے کام لیتے ہوئے اس کے نقصان سے بہت زیادہ ڈرے اور ہر وقت اس سے مقابلے کے لئے تیار رہے۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ صوفیاءِ کرام کے نزدیک شیطان سے جنگ کرنے اور اسے مغلوب کرنے کے دو طریقے ہیں :
(1)… شیطان کے مکرو فریب سے بچنے کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ لی جائے، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کیونکہ شیطان ایک ایسا کتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تم پر مُسلَّط فرمادیا ہے، اگر تم ا س سے مقابلہ و جنگ کرنے اور اسے (خود سے) دور کرنے میں مشغول ہوگئے تو تم تنگ آ جاؤ گے اور تمہارا قیمتی وقت ضائع ہو جائے گا اور بالآخر وہ تم پر غالب آ جائے گا اور تمہیں زخمی و ناکارہ بنا دے گا ا س لئے اس کے مالک ہی کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا اور اسی کی پناہ لینی ہو گی تاکہ وہ شیطان کو تم سے دور کر دے اور یہ تمہارے لئے شیطان کے ساتھ جنگ اور مقابلہ کرنے سے بہتر ہے۔
(2)…شیطان سے مقابلہ کرنے، اسے دفع دور کرنے اور ا س کی تردید و مخالفت کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔
میں (امام غزالی) کہتا ہوں :میرے نزدیک ا س کا جامع اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں طریقوں کو بروئے کار لایا جائے لہٰذا سب سے پہلے شیطان مردود کی شرارتوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے اوراللہ تعالیٰ ہمیں شیطان لعین سے محفوظ رکھنے کے لئے کافی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر تم یہ محسوس کرو کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ لینے کے باوجود شیطان تم پر غالب آنے کی کوشش کر رہا ہے اور تمہارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا امتحان لینا چاہتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے مجاہدے اور عبادت میں تمہاری قوت کی سچائی و صفائی دیکھے اور تمہارے صبر کی جانچ فرمائے۔ جیساکہ کافروں کو ہم پر مسلط فرمایا حالانکہ اللہ تعالیٰ کفار کے عزائم اور ان کی شر انگیزیوں کو ہمارے جہاد کئے بغیر ملیا میٹ کر دینے پر قادر ہے لیکن وہ انہیں صفحہ ہستی سے ختم نہیں فرماتا بلکہ ہمیں ان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ جہاد، صبر ،گناہوں سے چھٹکارا اور شہادت سے ہمیں بھی کچھ حصہ مل جائے اور ہم اس امتحان میں کامیاب و کامران ہو جائیں تو اسی طرح ہمیں شیطان سے بھی انتہائی جاں فشانی کے ساتھ مقابلہ اور جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پھر ہمارے علماءِ کرام فرماتے ہیں کہ شیطان سے مقابلہ کرنے اور اس پر غلبہ حاصل کرنے کے تین طریقے ہیں :
(1)…تم شیطان کے مکر و فریب اور اس کی حیلہ سازیوں سے ہوشیار ہو جاؤ کیونکہ جب تمہیں اس کی حیلہ سازیوں کا علم ہو گا تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکے گا، جس طرح چور کو جب معلوم ہو جاتا ہے کہ مالک مکان کو میرے آنے کا علم ہو گیا ہے تو وہ بھاگ جاتا ہے۔
(2)…جب شیطان تمہیں گمراہیوں کی طرف بلائے تو تم اسے رد کر دو اور تمہارا دل قطعاً ا س کی طرف متوجہ نہ ہو اور نہ تم ا س کی پیروی کرو کیونکہ شیطان لعین ایک بھونکنے والے کتے کی طرح ہے، اگر تم اسے چھیڑو گے تو وہ تمہاری طرف تیزی کے ساتھ لپکے گا اور تمہیں زخمی کر دے گا اور اگر تم ا س سے کنارہ کشی اختیار کر لو گے تو وہ خاموش رہے گا۔
(3)…اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ ذکر کرتے رہو اور ہمہ وقت خودکو اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف رکھو (منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الثالث: الشیطان، ص۵۵-۵۶)۔ [1]
کیا انسان جنوں کو دیکھ سکتے ہیں ؟
اللہ تعالیٰ نے جنوں کو ایسا علم و اِدراک دیا ہے کہ وہ انسانوں کو دیکھتے ہیں اور انسانوں کو ایسا ادراک نہیں ملا کہ وہ ہر وقت جنوں کو دیکھ سکیں البتہ بعض اوقات انسان بھی جنات کو دیکھ لیتے ہیں۔
مخلوق کے لئے وسیع علم و قدرت ماننا شرک نہیں :
اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہے کہ شیطان کا علم اور اس کی قدرت بہت وسیع ہے کہ ہر زبان میں ہرجگہ ، ہر آدمی کو وسوسے ڈالنے کی طاقت رکھتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اس قدر وسیع علم و قدرت ماننا شرک نہیں بلکہ قرآن سے ثابت ہے لیکن ان لوگوں پر افسوس ہے جو شیطان کی وسعت ِعلم کو تو فوراً مان لیتے ہیں لیکن حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لئے ایسا وسیع علم ماننے کو شرک قرار دیتے ہیں۔
{ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ:بیشک ہم نے شیطانوں کو ایمان نہ لانے والوں کا دوست بنا دیا ہے۔} یعنی شیطان بظاہر کفار کا دوست ہے اور کفار دل سے شیطان کے دوست ہیں ورنہ شیطان درحقیقت کفار کا بھی دوست نہیں وہ تو ہر انسان کا دشمن ہے کہ سب کو اپنے ساتھ جہنم میں لیجانے کی کوشش کرنا اس کا مطلوب و مراد ہے۔
[1] …شیطان کے مکر وفریب اوراس کے ہتھیاروں کے بارے میں جاننے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب’’ شیطان کے بعض ہتھیار‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ )کا مطالعہ فرمائیں۔
{ وَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً:اور جب کوئی بے حیائی کریں۔} ’’فَاحِشَةً‘‘یعنی بے حیائی کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت مجاہد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم فرماتے ہیں : اس سے مراد زمانۂ جاہلیت کے مرد و عورت کا ننگے ہو کر کعبہ معظمہ کا طواف کرنا ہے۔ حضرت عطاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ بے حیائی سے مراد شرک ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہر قبیح فعل اور تمام صغیرہ کبیرہ گناہ اس میں داخل ہیں اگرچہ یہ آیت خاص ننگے ہو کر طواف کرنے کے بارے میں آئی ہے۔ جب کفار کی ایسی بے حیائی کے کاموں پر اُن کی مذمت کی گئی تو اس پر اُنہوں نے اپنے قبیح افعال کے دو عذر بیان کئے، ایک تویہ کہ ُانہوں نے اپنے باپ دادا کو یہی فعل کرتے پایا لہٰذا اُن کی اتباع میں یہ بھی کرتے ہیں۔ اس عذر کا بار بار قرآن میں رد کردیا گیا کہ یہ اتباع تو جاہل وبدکار کی اتباع ہوئی اور یہ کسی صاحبِ عقل کے نزدیک جائز نہیں۔ اتباع تو اہلِ علم و تقویٰ کی کی جاتی ہے نہ کہ جاہل گمراہ کی۔ ان کادُوسرا عذر یہ تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں ان افعال کا حکم دیا ہے۔ یہ محض افتراء و بہتان تھا چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کارد فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم جواب میں فرماؤ: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم اللہ عَزَّوَجَلَّ پر وہ بات کہتے ہو جس کی تمہیں خبر نہیں ؟ ‘‘اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بے حیائی کا نہیں بلکہ ان چیزوں کا حکم دیا ہے جو بعد والی آیت میں مذکور ہیں۔
{ قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ:تم فرماؤ :میرے رب نے عدل کا حکم دیا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں ان بری باتوں کا ذکر تھا جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اوراِس آیت میں ان اعمال کا ذکر کیا گیا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور جن سے وہ راضی ہے تاکہ بندے پہلی قسم کے کاموں سے بچیں اور دوسری قسم کے کام کریں۔ (تفسیر نعیمی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۸ / ۳۸۲)
قسط کے معنی:
قسط کے کئی معنی ہیں (1) حصہ۔ (2) عدل و انصاف۔ (3) ظلم۔ (4) درمیانی چیز یعنی جس میں اِفراط و تَفریط یعنی کمی زیادتی نہ ہو ۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں آیت میں ’’قسط‘‘ عدل وانصاف کے معنی میں ہے۔ یہ لفظ بہت سی چیزوں کو شامل ہے، عقائد میں عدل و انصاف کرنا، عبادات میں عدل کرنا، معاملات میں عدل کرنا، بادشاہ کا عدل کرنا، فقیر کا انصاف کرنا، اپنی اولاد، رشتہ داروں اور اپنے نفس کے معاملے میں عدل کرنا وغیرہ یہ سب اس میں داخل ہے۔ (بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۱۶، روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۴۸۴)
{ وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْهَكُمْ: اور تم اپنے منہ سیدھے کرو ۔} مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان فرمائے ہیں ،امام مجاہد اور مفسر سُدّی کا قول ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ تم جہاں بھی ہو نماز کے وقت اپنے چہرے کعبہ کی طرف سیدھے کر لو۔ امام ضحاک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس کا معنی یہ ہے کہ جب نماز کا وقت آئے اور تم مسجد کے پاس ہو تو مسجد میں نماز ادا کرو اور تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں اپنی مسجد میں یا اپنی قوم کی مسجد میں نماز ادا کروں گا۔اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ تم اپنے سجدے خالص اللہ عَزَّوَجَلَّکے لئے کر لو۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۱۳۰، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۸۷، ملتقطاً)
{ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ:خالص اس کے بندے ہو کر۔}اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی عبادت صرف اس کی رضا حاصل کرنے یا اس کے حکم کی بجا آوری کی نیت سے کی جائے ،اس میں کسی کو دکھانے یا سنانے کی نیت ہو، نہ اس میں کسی اور کو شریک کیا جائے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۸۷، ملتقطاً)
اخلاص کی حقیقت اور عمل میں اخلاص کے فضائل:
امام راغب اصفہانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی عبادت (اور اس کی رضا جوئی) کے علاوہ ہر ایک کی عبادت( اور اس کی رضا جوئی) سے بری ہو جائے۔ (مفردات امام راغب، کتاب الخاء، ص۲۹۳)کثیر احادیث میں اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کے فضائل بیان ہوئے ہیں ، ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا: ’’جس مسلمان میں یہ تین اوصاف ہوں اس کے دل میں کبھی کھوٹ نہ ہو گا:(1) اس کا عمل خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ (2)وہ آئمہ مسلمین کے لئے خیر خواہی کرے۔ (3)اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑ لے۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی الحث علی تبلیغ السماع، ۴ / ۲۹۹، الحدیث: ۲۶۶۷)
(2)…حضرت سعدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس امت کے کمزور لوگوں کی دعاؤں ، ان کی نمازوں اور ان کے اخلاص کی وجہ سے اِس امت کی مدد فرماتا ہے۔ (نسائی، کتاب الجہاد، الاستنصار بالضعیف، ص۵۱۸، الحدیث: ۳۱۷۵)
(3)…حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جب تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے یمن کی طرف بھیجا تو انہوں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ ! مجھے کوئی وصیت کیجئے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اپنے دین میں اخلاص رکھو ،تمہا را تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا۔ (مستدرک، کتاب الرقاق، ۵ / ۴۳۵، الحدیث: ۷۹۱۴)
ترکِ اخلاص کی مذمت:
جس طرح احادیث میں اخلاص کے فضائل بیان ہوئے ہیں اسی طرح ترک ِاخلاص کی بھی بکثرت مذمت کی گئی ہے، چنانچہ ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میں شریک سے بے نیاز ہوں ، جس شخص نے کسی عمل میں میرے ساتھ میرے غیر کو شریک کیا میں اسے اور ا س کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب من اشرک فی عملہ غیر اللہ، ص۱۵۹۴، الحدیث: ۴۶(۲۹۸۵))
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن مہر لگے ہوئے نامۂ اعمال لائے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: ’’اس اعمال نامے کو قبول کر لواور اس اعمال نامے کو چھوڑ دو۔ فرشتے عرض کریں گے: تیری عزت کی قسم! ہم نے وہی لکھا ہے جو اس نے عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’تم نے سچ کہا، (مگر) اس کا عمل میری ذات کے لئے نہ تھا، آج میں صرف اسی عمل کو قبول کروں گا جو میری ذات کے لئے کیا گیا ہو گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۳۲۸، الحدیث: ۶۱۳۳)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن سب سے پہلے ایک شہید کا فیصلہ ہو گا، جب اسے لایا جائے گاتو اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا۔ وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کے شہید ہو گیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: تو جھوٹا ہے ،تو نے جہاد اس لئے کیا تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں جہنم میں جانے کا حکم دے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر اس شخص کو لایا جائے گاجس نے علم سیکھا، سکھایا اور قرآنِ پاک پڑھا، وہ آئے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔پھر اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کِیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیرے لئے قرآنِ کریم پڑھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو جھوٹا ہے ،تو نے اس لیے علم سیکھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآنِ پاک اس لیے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔ پھر اسے بھی جہنم میں ڈالنے کا حکم ہو گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا پھر ایک مالدار شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال عطا فرمایا تھا، اسے لا کر نعمتیں یاد دلائی جائیں گی تووہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے کیا کِیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے تیری راہ میں جہاں ضرورت پڑی وہاں خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو جھوٹا ہے ،تو نے یہ سخاوت اس لیے کی تھی کہ تجھے سخی کہا جائے اور وہ کہہ لیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں جہنم کا حکم ہوگا تو اسے بھی منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب من قاتل للریاء والسمعۃ استحق النار، ص۱۰۵۵، الحدیث: ۱۵۲(۱۹۰۵))
{ كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ:اس نے جیسے تمہیں پیدا کیا ہے ویسے ہی تم پلٹو گے۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے بنی آدم میں سے بعض کو مومن اور بعض کو کافر پیدا فرمایا، پھر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں ویسے ہی لوٹائے گا جیسے ابتداء میں پیدا فرمایا تھا، مومن مومن بن کر اور کافر کافر بن کر۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۸۷)
اس آیت کی تفسیر میں حضرت محمد بن کعب رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ جسے اللہ تعالیٰ نے ابتداء ہی سے شقی اور بد بخت لوگوں میں سے پیدا کیا ہے وہ قیامت کے دن اہلِ شقاوت سے اٹھے گا چاہے وہ پہلے نیک کام کرتا ہو جیسے ابلیس لعین، اسے اللہ تعالیٰ نے بد بختوں میں سے پیدا کیا تھا، یہ پہلے نیک اعمال کرتا تھا بالآخر کفر کی طرف لوٹ گیا اور جسے اللہ تعالیٰ نے ابتداء ہی سے سعادت مند لوگوں میں سے پیدا کیا وہ قیامت کے دن سعادت مندوں میں سے اٹھے گا اگرچہ پہلے وہ برے کام کرتا رہا ہو، جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے کے جادو گر، یہ پہلے فرعون کے تابع تھے لیکن بعد میں فرعون کو چھوڑ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئے۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۱۳۰) اور اس آیت کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے کہ’’ جس طرح انسان ماں کے پیٹ سے ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور ختنہ کے بغیر پیدا ہوا تھا قیامت کے دن بھی اسی طرح ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور ختنہ کے بغیر اٹھے گا۔ (تفسیرات احمدیہ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۴۱۴)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’تم قیامت میں ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور ختنہ کے بغیر اٹھائے جاؤ گے۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی: واتخذ اللہ ابراہیم خلیلاً، ۲ / ۴۲۰، الحدیث: ۳۳۴۹)
{ فَرِیْقًا هَدٰى:ایک گروہ کو ہدایت دی۔} یعنی تمام لوگ ایمان نہ لائیں گے۔ کچھ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان و معرفت کی ہدایت دی اور انہیں طاعت و عبادت کی توفیق دی۔ ان کے بالمقابل کچھ لوگ ایسے ہیں جو گمراہ ہوئے اور یہ کفار ہیں ، انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّکو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنالیا ہے۔ شیطانوں کو دوست بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اُن کی اطاعت کی، اُن کے کہے پر چلے، اُن کے حکم سے کفرو معاصی کو اختیار کیا اور اس کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہدایت یافتہ ہیں۔ عمومی گمراہی سے بدتر گمراہی یہ ہوتی ہے کہ آدمی گمراہ ہونے کے باوجود خود کو ہدایت یافتہ سمجھے۔
{ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ:اپنی زینت لے لو۔} یعنی نماز کے وقت صرف سترِ عورت کیلئے کفایت کرنے والا لباس ہی نہ پہنو بلکہ اس کے ساتھ وہ لباس زینت والا بھی ہو یعنی عمدہ لباس میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حاضری دو۔ اور ایک قول یہ ہے کہ خوشبو لگانا زینت میں داخل ہے یعنی نماز کیلئے ان چیزوں کا بھی اہتمام رکھو۔ سُنت یہ ہے کہ آدمی بہتر ہیئت کے ساتھ نماز کے لئے حاضر ہو کیونکہ نماز میں رب عَزَّوَجَلَّ سے مناجات ہے تو اس کے لئے زینت کرنا اور عطر لگانا مستحب ہے جیسا کہ سترِ عورت اور طہارت واجب ہے۔ شا نِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’پہلے عورت بیتُ اللہ کا برہنہ ہو کر طواف کرتی تھی اور یہ کہتی تھی کہ کوئی مجھے ایک کپڑا دے گا جسے میں اپنی شرمگاہ پر ڈال لوں ، آج بعض یا کُل کھل جائے گا اور جو کھل جائے گا میں اسے کبھی حلال نہیں کروں گی، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسلم،کتاب التفسیر، باب فی قولہ تعالی: خذوا زینتکم عند کل مسجد، ص۱۶۱۴، الحدیث: ۲۵(۳۰۲۸))
آیت’’ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت میں ستر چھپانے اور کپڑے پہننے کا حکم دیا گیا اور اس میں دلیل ہے کہ سترِعورت نماز، طواف بلکہ ہر حال میں واجب ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز جہاں تک ہو سکے اچھے لباس میں پڑھے اور مسجد میں اچھی حالت میں آئے۔ بدبو دار کپڑے ،بدبو دار منہ لے کر مسجد میں نہ آئے۔ ایسے ہی ننگا مسجد میں داخل نہ ہو۔
مسجدیں پاک صاف رکھنے سے متعلق 3 احادیث:
(1)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو مسجد سے اذیت کی چیز نکالے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب تطہیر المساجد وتطییبہا، ۱ / ۴۱۹، الحدیث: ۷۵۷)
(2)… حضرت و اثلہ بن اسقعرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مساجد کو بچوں اور پاگلوں ، خرید و فروخت اور جھگڑے ، آواز بلند کرنے ،حدود قائم کرنے اور تلوار کھینچنے سے بچاؤ۔ (ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب ما یکرہ فی المساجد، ۱ / ۴۱۵، الحدیث: ۷۵۰)
(3)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی کو مسجِد میں بآوازِ بلند گمشدہ چیز ڈھونڈتے سنے تو کہے ’’اللہ عَزَّوَجَلَّوہ گمشدہ شے تجھے نہ ملائے، کیونکہ مسجدیں اس کام کیلئے نہیں بنائی گئیں (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النہی عن نشد الضالۃ فی المسجد۔۔۔ الخ، ص ۲۸۴، الحدیث: ۸۹(۵۶۸))۔ ([1])
قیمتی لباس میں نماز:
امامِ اعظم ابو حنیفہ حضرت نعمان بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنمازِ تہجد کے لئے بیش قیمت قمیص، پاجامہ، عمامہ اور چادر پہنتے تھے جس کی قیمت ڈیڑھ ہزار درہم تھی، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہر رات تہجد ایسے لباس میں پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ’’ جب ہم لوگوں سے اچھے لباس میں ملتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے اعلیٰ لباس میں ملاقات کیوں نہ کریں۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۵۴ملخصاً)
{ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا:اور کھاؤ اور پیو۔} شا نِ نزول: کلبی کا قول ہے کہ بنی عامر زمانۂ حج میں اپنی خوراک بہت ہی کم کر دیتے تھے اور گوشت اور چکنائی تو بالکل کھاتے ہی نہ تھے اور اس کو حج کی تعظیم جانتے تھے۔ مسلمانوں نے انہیں دیکھ کر عرض کیا: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں ایسا کرنے کا زیادہ حق ہے۔ اس پر یہ نازل ہوا (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۸۸) کہ کھاؤ اور پیو، گوشت ہو خواہ چکنائی ہو اور اسراف نہ کرو اور وہ (یعنی اسراف) یہ ہے کہ سیر ہوچکنے کے بعد بھی کھاتے رہو یا حرام کی پرواہ نہ کرو اور یہ بھی اسراف ہے کہ جو چیزاللہ تعالیٰ نے حرام نہیں کی اس کو حرام کرلو۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا ’’کھاؤ جو چاہو اور پہنو جو چاہو اور اسراف اور تکبر سے بچتے رہو۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۱۳۱) اس سے معلوم ہوا کہ محض ترک ِ دنیا عبادت نہیں ترک ِگناہ عبادت ہے۔
قرآن کی آدھی آیت میں پورا علمِ طب:
خلیفہ ہارون رشید کا ایک عیسائی طبیب علمِ طب میں بہت ماہر تھا، اس نے ایک مرتبہ حضرت علی بن حسین واقد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِسے کہا، علم دو طرح کا ہے (1) علمِ ادیان۔ (2) علمِ ابدان۔ اور تم مسلمانوں کی کتاب قرآنِ پاک میں علمِ طب سے متعلق کچھ بھی مذکور نہیں۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اس عیسائی طبیب کو جواب دیا: اللہ تعالیٰ نے ہماری کتاب کی آدھی آیت میں پوری طب کو جمع فرما دیا ہے۔ عیسائی طبیب نے حیران ہو کر پوچھا: وہ کونسی آیت ہے؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ’’ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا‘‘ کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو۔( تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۴ / ۱۳۹، الجزء السابع)
اشیاء کی حلت و حرمت کااصول:
آیت میں ا س بات کی دلیل ہے کہ کھانے اور پینے کی تمام چیزیں حلال ہیں سوائے اُن کے جن پر شریعت میں دلیلِ حرمت قائم ہو کیونکہ یہ قاعدہ مقررہ مُسَلَّمَہ ہے کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے مگر جس پر شارع نے ممانعت فرمائی ہو اور اس کی حرمت دلیلِ مستقل سے ثابت ہو۔
[1] …مسجدیں پاک صاف اور خوشبودار رکھنے سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر اہل سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’مسجدیں خوشبودار رکھئے‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{ قُلْ مَنْ حَرَّمَ:تم فرماؤ کس نے حرام کیا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان جاہلوں سے فرما دیجئے جو کعبہ معظمہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے ہیں کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی اس زینت کو کس نے حرام کیا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے اسی لئے پیدا فرمائی کہ وہ اس سے زینت حاصل کریں اور نماز و طواف اور دیگر اوقات میں اسے پہنیں۔
زینت کی دو تفاسیر:
زینت کی تفسیر میں دو قول ہیں :
(1)…جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں زینت سے مراد وہ لباس ہے جو ستر پوشی کے کام آئے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۲ / ۸۹)
(2)… امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں کہ آیت میں لفظ ’’زینت‘‘ زینت کی تمام اقسام کو شامل ہے اسی میں لباس اور سونا چاندی بھی داخل ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۲۳۰)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس چیز کو شریعت حرام نہ کرے وہ حلال ہے۔ حرمت کے لئے دلیل کی ضرورت ہے جبکہ حلت کے لئے کوئی دلیل خاص ضروری نہیں۔
{ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ:اور پاکیزہ رزق۔} یعنی اس پاکیزہ رزق اور کھانے پینے کی لذیذ چیزوں کوکس نے حرام کیا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے نکالیں۔مسئلہ :آیت اپنے عموم پر ہے اور کھانے کی ہرچیز اس میں داخل ہے کہ جس کی حرمت پر نص وارد نہ ہوئی ہو۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۲ / ۸۹)
آیت’’ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ ‘‘ کی روشنی میں چند لوگوں کو نصیحت:
اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں بہت سے لوگوں کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔
(1)… پہلے نمبر پر وہ لوگ جو اپنے زہد وتقویٰ کے گھمنڈ میں لوگوں کی حلال اشیاء میں بھی تحقیق کرکے ان کی دل آزاری کرتے ہیں۔ یہ سخت ناجائز اور سراسر تقویٰ کے خلاف ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : شرعِ مطہر میں مصلحت کی تحصیل سے مفسدہ کا ازالہ مقدم تر ہے مثلاً مسلمان نے دعوت کی (اور) یہ اس کے مال وطعام کی تحقیقات کر رہے ہیں ’’کہاں سے لایا؟ کیونکر پیدا کیا؟ حلال ہے یا حرام؟ کوئی نجاست تو اس میں نہیں ملی ہے کہ بیشک یہ باتیں وحشت دینے والی ہیں اور مسلمان پر بدگمانی کرکے ایسی تحقیقات میں اُسے ایذا دینا ہے خصوصاً اگر وہ شخص شرعاً معظم ومحترم ہو، جیسے عالمِ دین یا سچا مرشد یا ماں باپ یا استاذ یا ذی عزت مسلمان سردارِ قوم تو اِس نے (تحقیقات کر کے) اور بے جا کیا، ایک تو بدگمانی دوسرے مُوحِش (یعنی وحشت میں ڈالنے والی) باتیں ، تیسرے بزرگوں کا ترکِ ادب۔ اور (یہ خواہ مخواہ کا متقی بننے والا) یہ گمان نہ کرے کہ خفیہ تحقیقات کر لوں گا، حاشا وکلّا! اگر اسے خبر پہنچی اور نہ پہنچنا تعجب ہے کہ آج کل بہت لوگ پرچہ نویس (یعنی باتیں پھیلانے والے) ہیں تو اس میں تنہا بَررُو (یعنی اکیلے میں اس سے) پوچھنے سے زیادہ رنج کی صورت ہے کَمَاھُوَ مُجَرَّبٌ مَعْلُوْمٌ(جیسا کہ تجربہ سے معلوم ہے۔ ت) نہ یہ خیال کرے کہ احباب کے ساتھ ایسا برتاؤ برتوں گا ’’ہیہات‘‘ احبا (دوستوں )کو رنج دینا کب روا ہے؟ اور یہ گمان کہ شاید ایذا نہ پائے ، ہم کہتے ہیں ’’شاید ایذا پائے، اگر ایسا ہی شاید پر عمل ہے تو اُس کے مال وطعام کی حلت وطہارت میں شاید پر کیوں نہیں عمل کرتا۔ مع ہذا اگر ایذا نہ بھی ہُوئی اور اُس نے براہِ بے تکلفی بتادیا تو ایک مسلمان کی پردہ دری ہوئی کہ شرعاً ناجائز۔ غرض ایسے مقامات میں ورع واحتیاط کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو اس طور پر بچ جائے کہ اُسے (یعنی مہمان نواز کو) اجتناب ودامن کشی پر اطلاع نہ ہو یا سوال وتحقیق کرے تو اُن امور میں جن کی تفتیش مُوجِبِ ایذا نہیں ہوتی مثلاً کسی کا جوتا پہنے ہے وضو کرکے اُس میں پاؤں رکھنا چاہتا ہے دریافت کرلے کہ پاؤں تر ہیں یوں ہی پہن لوں وعلٰی ہذا القیاس یا کوئی فاسق بیباک مجاہر معلن اس درجہ وقاحت وبے حیائی کو پہنچا ہوا ہو کہ اُسے نہ بتا دینے میں باک ہو، نہ دریافت سے صدمہ گزرے ، نہ اُس سے کوئی فتنہ متوقع ہو نہ اظہارِ ظاہر میں پردہ دَری ہو تو عندالتحقیق اُس سے تفتیش میں بھی حرج نہیں ، ورنہ ہرگز بنامِ ورع واحتیاط مسلمانوں کی نفرت ووحشت یا اُن کی رُسوائی وفضیحت یا تجسّس عیوب ومعصیت کا باعث نہ ہو کہ یہ سب امور ناجائز ہیں اور شکوک وشبہات میں ورع نہ برتنا ناجائز نہیں۔ عجب کہ امرِ جائز سے بچنے کے لئے چند ناروا باتوں کا ارتکاب کرے یہ بھی شیطان کا ایک دھوکا ہے کہ اسے محتاط بننے کے پردے میں محض غیر محتاط کردیا۔ اے عزیز! مداراتِ خلق والفت وموانست اہم امور سے ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۴ / ۵۲۶-۵۲۷)
(2)… دوسرے نمبر پر ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ جو خود تو اپنے نفس پر سختی کرنے کی خاطر لذیذ غذاؤں کو ترک کرتے ہیں لیکن دوسرا شخص اگر ان غذاؤں کو استعمال کرتا ہے تو اسے نہایت نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ بھی سراسر حرام ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بچنا چاہے (تو) بہتر وافضل اور نہایت محمود عمل مگر اس کے ورع کا حکم صرف اسی کے نفس پر ہے نہ کہ اس کے سبب اصلِ شے کو ممنوع کہنے لگے یا جو مسلمان اُسے استعمال کرتے ہوں اُن پر طعن واعتراض کرے ،اُنہیں اپنی نظر میں حقیر سمجھے، اس سے تو اس ورع کا ترک ہزار درجہ بہتر تھا کہ شرع پر افترا اور مسلمانوں کی تشنیع وتحقیر سے تو محفوظ رہتا۔ (فتاوی رضویہ، ۴ / ۵۴۹)
ایک اور مقام پر فرمایا: ’’فقیر غفر اللہ تعالٰی لہ، نے آج تک اُس شکر کی صورت دیکھی، نہ کبھی اپنے یہاں منگائی، نہ آگے منگائے جانے کا قصد، مگر بایں ہمہ ہرگز ممانعت نہیں مانتا ،نہ جو مسلمان استعمال کریں اُنہیں آثم خواہ بیباک جانتا ہے ،نہ تو ورع و احتیاط کا نام بدنام کرکے عوام مومنین پر طعن کرے، نہ اپنے نفس ذلیل مہین رذیل کے لئے اُن پر ترفّع وتعلّی روا رکھے۔ (فتاوی رضویہ، ۴ / ۵۵۱-۵۵۲)
(3)…تیسرے نمبر پر وہ لوگ جو گیارہویں ، میلاد شریف، بزرگوں کی فاتحہ ،عرس ،مجالس شہادت وغیرہ کی شیرینی اور سبیل وغیرہ کے شربت کو ممنوع و حرام کہتے ہیں وہ بھی اس آیت کے صریح خلاف کرکے گناہ گار ہوتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں حلال ہیں اور انہیں ممنوع کہنا اپنی رائے کو دین میں داخل کرنا ہے اور یہی بدعت وضلالت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ یہ نہیں کہ انسان لذیذ حلال چیزیں چھوڑ دے بلکہ حرام سے بچنا تقویٰ ہے۔ حلال نعمتیں خوب کھاؤ پیو، محرمات سے بچو۔ نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ لذّات کو ترک کرنے کے معاملے میں اعتدال کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’اے عبداللہ ! مجھے بتایا گیا ہے کہ تم دن کو روزے رکھتے اور رات کو قیام کرتے ہو۔ میں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیوں نہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’ ایسا نہ کرو، بلکہ روزے رکھوا ور چھوڑ بھی دیا کرو، قیام کرو اور سویا بھی کرو کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے اور تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے۔ تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو کیونکہ ہر نیکی کا اجر دس گنا ہے تویہ ہمیشہ روزے رکھنے کی طرح ہو جائے گا۔ میں نے اصرار کیا تو مجھے زیادہ کی اجازت دی گئی۔ میں نے پھر عرض کی:یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے میں زیادہ طاقت پاتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام والے روزے رکھ لو اور ان سے زیادہ نہ رکھنا۔ میں نے عرض کی: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے روزے کس طرح تھے؟ ارشاد فرمایا: ایک دن رکھنا اور ایک دن چھوڑ دینا۔ بڑھاپے کے دنوں میں حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: کاش میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اجازت دینے کوقبول کر لیتا۔( بخاری، کتاب الصوم، باب حق الجسم فی الصوم، ۱ / ۶۴۹، الحدیث: ۱۹۷۵)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’بے شک دین آسان ہے، اور جو اس سے مقابلہ کرے گا تو دین ہی اس پر غالب آئے گا، پس تم سیدھے رہو اور بشارت قبول کرو۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب الدین یسر، ۱ / ۲۶، الحدیث: ۳۹)
{ قُلْ:تم فرماؤ۔} یہاں بتایا گیا کہ دنیاو آخرت کی نعمتیں اہلِ ایمان ہی کیلئے ہیں کیونکہ کفار نمک حرام ہیں اور نمک حراموں کو کچھ بھی نہیں دیا جاتا لیکن چونکہ دنیا میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ایک مہلت اور امتحان بھی رکھا ہے اس لئے کفار کو بھی اس میں سے مل جاتا ہے بلکہ مہلت کی وجہ سے مسلمانوں سے زیادہ ہی ملتا ہے ۔ اس کے بالمقابل چونکہ آخرت میں نہ امتحان ہے اور نہ مہلت، لہٰذا وہاں صرف انہی کو ملے گا جو مستحق ہوں گے اور وہ صرف مومنین ہیں۔
مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ معلوم ہوا کہ اچھی نعمتیں رب عَزَّوَجَلَّنے مومنوں کے لئے پیدا فرمائی ہیں ، کفار ان کے طفیل کھا رہے ہیں۔ لہٰذا جو کوئی کہے کہ فقیری اس میں ہے کہ اچھا نہ کھائے، اچھا نہ پہنے وہ جھوٹا ہے۔ اچھا کھاؤ، اچھا پہنو (لیکن اس کے ساتھ) اچھے کام کرو۔ (اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا:)
’’ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا ‘‘ (مؤمنون: ۵۱) (پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے عمل کرو۔)
{ قُلْ:تم فرماؤ ۔} اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ذریعے ان مشرکین سے خطاب ہے جو برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی پاک چیزوں کو حرام کرلیتے تھے، اُن سے فرمایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں حرام نہیں کیں اور اُن سے اپنے بندوں کو نہیں روکا، جن چیزوں کو اُس نے حرام فرما یا وہ یہ ہیں جو اللہ تعالیٰ بیا ن فرماتا ہے (1) بے حیائیاں ، چاہے ظاہری ہوں یا باطنی، قولی ہوں یا فعلی۔ (2) گناہ۔ (3) ناحق زیادتی۔ (4) ہر طرح کا کفر و شرک۔
{ الْفَوَاحِشَ:بے حیائیاں۔} ہر وہ قول اور فعل جو برا اور فحش ہو اسے فاحشہ کہتے ہیں (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۸۹) آیت میں ’’ الْفَوَاحِشَ ‘‘ سے مراد ہر کبیرہ گناہ ہے ،جو علانیہ کیا جائے وہ ’’ مَا ظَہَرَ ‘‘ یعنی ظاہری ہے اور جو خفیہ کیا جائے وہ’’ مَا بَطَنَ ‘‘ یعنی باطنی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ’’فَوَاحِشَ ‘‘ سے وہ گناہ مراد ہیں جن میں شرعی سزا لازم نہ ہو اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد زنا ہے، جو بدکاری علی الاعلان ہو (جیسے اجرت دے کر پیشہ ور عورتوں سے بدکاری کرنا،کلبوں اور ہوٹلوں سے کال گرلز، سوسائٹی گرلز بک کر کے بدکاری کرنا) یہ ’’ مَا ظَهَرَ ‘‘ ہے اور جو زنا خفیہ طریقے سے کیا جائے جیسے کسی جوان لڑکی یا عورت سے عشق و محبت کے نتیجے میں یا پیا رکا جھانسا دے کر زنا کرنا، یہ ’’مَا بَطَنَ ‘‘ ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۳، ۵ / ۲۳۲)
ظاہری و باطنی بے حیائیوں کو حرام قرار دئیے جانے کی وجہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے زیادہ کوئی غَیور نہیں ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام ظاہری اور باطنیفَوَاحِشَیعنی بے حیائیوں کو حرام کر دیا۔ (مسلم، کتاب التوبۃ، باب غیرۃ اللہ تعالی وتحریم الفواحش، ص۱۴۷۵، الحدیث: ۳۲(۲۷۶۰))
حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھ لوں تو تلوار کی دھار سے اس کی جان نکال کے رکھ دوں۔ جب یہ بات رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سنی تو ارشاد فرمایا: ’’تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو! حالانکہ اللہ تعالیٰ کی قسم ! میں اُن سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیور ہے، اسی غیرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بے حیائی کے کاموں کو حرام فرما دیا ہے، چاہے بے حیائی ظاہر ہو یا پوشیدہ۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا شخص اغیر من اللہ، ۴ / ۵۴۴، الحدیث: ۷۴۱۶)
{ وَ الْاِثْمَ:اور گناہ۔} فواحش کی طرح ’’اَلْاِثْمَ ‘‘ کی تفسیر میں بھی چند قول ہیں (1) ہر صغیرہ گناہ ’’ اَلْاِثْمَ ‘‘ ہے۔ (2) وہ گناہ کہ جس پر شرعی سزا لازم نہ ہو ’’ اَلْاِثْمَ ‘‘ ہے۔ (3) ہر گناہ ’’ اَلْاِثْمَ ‘‘ہے چاہے صغیرہ ہو یا کبیرہ۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۹۰)
{ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ:اور ناحق زیادتی ۔} ’’اَلْبَغْیَ ‘‘کا معنی ہے: ظلم، تکبر ، لوگوں پر زیادتی کرنا اورا ن سب چیزوں میں حد سے بڑھ جانا۔ ناحق زیادتی کا معنی ہے ’’کسی شخص کا اس چیز کو طلب کرنا جو اس کا حق نہیں جبکہ اپنے حق کو طلب کرنا اس میں داخل نہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۹۰)
{ وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ:اور ہر گروہ کے لئے ایک مدت مقرر ہے۔}اس آیت میں مقررہ مدت سے یا تو یہ مراد ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی نافرمانی کرنے والی امتوں کیلئے عذاب کا ایک وقت مقرر ہے اور جب وہ وقت آئے گا تو عذاب ضرور آئے گا۔ آیت کا دوسرا معنیٰ یہ ہوسکتا ہے کہ ہر کسی کی موت کا وقت مقرر ہے اور جب وہ وقت آئے گا تو موت کا تلخ گھونٹ پینا پڑے گا۔
چونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے اس لئے ہر وقت موت کیلئے تیار رہنا چاہیے اور ہر وقت گناہوں سے دور اور نیک اعمال میں مصروف رہنا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو۔ (1) اپنے بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔ (2) اپنی بیماری سے پہلے صحت کو۔ (3)اپنی محتاجی سے پہلے مالداری کو۔ (4)اپنی مصروفیت سے پہلے فراغت کو۔ (5) اپنی موت سے پہلے زندگی کو۔ (مستدرک، کتاب الرقاق، نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس۔۔۔ الخ، ۵ / ۴۳۵، الحدیث: ۷۹۱۶)
حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے وعظ میں فرماتے ’’جلدی کرو جلدی کرو کیونکہ یہ چند سانس ہیں ، اگر رک گئے تو تم وہ اعمال نہیں کر سکو گے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنے نفس کی فکر کرتا ہے اور اپنے گناہوں پر روتا ہے(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل۔۔۔ الخ، بیان المبادرۃ الی العمل وحذر آفۃ التاخیر، ۵ / ۲۰۵)۔([1])
[1] …موت کی تیاری کی رغبت پانے کے لئے کتاب’’موت کا تصور‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
{ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ:اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول تشریف لائیں۔} یہاں اسی سابقہ تَناظُر میں اولادِ آدم سے خطاب ہے کہ اے اولادِ آدم! تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول تشریف لائیں گے جو تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب پڑھ کر سنائیں گے اُسے سن کرجو پرہیزگاری اختیار کرے گا اور ممنوعات سے بچتے ہوئے عبادت و اطاعت کا راستہ اختیار کرے گا تو قیامت کے دن اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذا ب کا نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ دنیا میں کچھ چھوڑ دینے کی وجہ سے غمگین ہوگا بلکہ قیامت کے دن حسب ِ مرتبہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم سے بہرہ وَر ہوں گے ۔ چنانچہ ا س دن کتنے ہی لوگ نور کے منبروں پر ہوں گے، جیسا کہ سرکارِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میرے جلال کی وجہ سے آپس میں محبت کرنے والوں کیلئے (قیامت کے دن) نور کے منبر ہوں گے جن پر انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہداء بھی رشک کریں گے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الحب فی اللہ، ۴ / ۱۷۴، الحدیث: ۲۳۹۷)
{ وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا:اور آیات کے مقابلے میں تکبر کریں گے۔} آیات کے مقابلے میں تکبر کا معنی ہے انہیں تسلیم نہ کرنا۔
تکبر کی بہت بڑی قباحت:
اس سے معلوم ہو اکہ تکبر کی بہت بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی جب تکبر کا شکار ہوتا ہے تو نصیحت قبول کرنا اس کیلئے مشکل ہوجاتا ہے ،چنانچہ قرآنِ پاک میں ایک جگہ منافق کے بارے میں فرمایا گیا:
’’ وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ ‘‘(بقرہ:۲۰۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے ضد مزید گناہ پر ابھارتی ہے توایسے کو جہنم کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا ٹھکاناہے۔
اور حدیثِ مبارک میں ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننا تکبر ہے (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۷(۹۱))۔ ( ([1]
[1]…تکبر کی
مزید قباحتیں جاننے کے لئے کتاب’’تکبر‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ فرمائیں۔
{ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ:تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ۔} یعنی اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف وہ بات منسوب کرے جو اس نے ارشاد نہیں فرمائی یا جو اس نے ارشاد فرمایا اسے جھٹلائے۔
اللہ تعالیٰ پر اِفتراء کی صورتیں :
اللہ تعالیٰ پر افتراء کی مختلف صورتیں ہیں (1) بتوں یا ستاروں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرانا۔ (2) یزدان اور اہرمن دو خدا قرار دینا۔ (3) اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹے یا بیٹیاں ٹھہرانا۔ (4) باطل احکام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا۔ آیات کو جھٹلانے سے مراد یہ ہے کہ قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب نہ ماننا اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کا انکار کرنا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۲۳۶)
{ یَنَالُهُمْ نَصِیْبُهُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ:انہیں ان کے نصیب کا لکھا پہنچے گا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ لوحِ محفوظ یا ان کے نَوشتہِ تقدیر میں جتنی عمر اور روزی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مشرکین کے لئے لکھ دی ہے وہ ان کو پہنچے گی حتّٰی کہ جب اِن کے پاس اِن لوگوں کی عمریں اور روزیاں پوری ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ملکُ الموت اور اُن کے معاونین ان کی جان قبض کرنے کیلئے آتے ہیں تووہ فرشتے ان مشرکین سے کہتے ہیں : تمہارے وہ جھوٹے معبود کہاں ہیں جن کی تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے؟ مشرکین اس کے جواب میں کہتے ہیں : وہ ہم سے غائب ہوگئے ان کا کہیں نام و نشان ہی نہیں۔ چنانچہ بت نہ تو کافروں کو موت کے وقت کسی عذاب سے بچا سکیں گے اور نہ آخرت میں۔
{ قَالَ:فرماتا ہے۔} اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کافروں سے فرمائے گا کہ تم سے پہلے جوجنوں اور آدمیوں کے گروہ آگ میں گئے ہیں تم بھی ان میں داخل ہوکر جہنم میں چلے جاؤ۔ جب ایک دین سے تعلق رکھنے والا ایک گروہ جہنم میں داخل ہوگا تواپنے ہم دین دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا یعنی ہر قسم کا کافر اپنی قسم کے کافر کو لعنت کرے گا۔ مشرک مشرکوں پر لعنت کریں گے، یہودی یہودیوں پر اور عیسائی عیسائیوں پر لعنت کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت میں ہر ایک اس ہی کے ساتھ ہو گا جس سے دل کا تعلق ہو گا، زمانہ اور جگہ ایک ہو یا مختلف۔
{ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ: بعد والے پہلے والوں کے لئے کہیں گے۔} جب سب جہنم میں جمع ہوجائیں گے تو بعد والے یعنی پیروکار پہلے والوں یعنی گمراہ کرنے والوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کریں گے: اے ہمارے رب! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تو تو انہیں آگ کا دگنا عذاب دے۔ جواب ملے گا کہ سب کیلئے دگنا عذاب ہے اور سب کو مسلسل عذاب ہوتا رہے گا لیکن تمہیں ایک دوسرے کا عذاب معلوم نہیں۔
{ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ: تو تمہیں ہم پر کوئی برتری نہ رہی۔} اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب سن کرگمراہی کے پیشوا پیروی کرنے والوں سے کہیں گے کہ تمہیں ہم پر عذاب سے چھٹکارے میں کوئی برتری نہ رہی کفر و گمراہی میں دونوں برابر ہیں۔ تم اپنے کفر اور برے اعمال کا مزہ چکھو، ہم اپنے کفر اور برے اعمال کا مزہ چکھتے ہیں۔ کفر و بد عملی ، پیغمبروں کی اہانت، مسلمانوں کو ستانا ہم تم دونوں ہی کرتے تھے۔
{ اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا:بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والوں اور ان سے تکبر کرنے والوں کی سزا جہنم میں ہمیشہ رہنا بیان ہوئی اوراس آیت میں اس ہمیشگی کی کیفیت کا بیان ہے ،پہلی یہ کہ ان کیلئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔
کفار کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جانے کے معنی:
اس کا ایک معنی یہ ہے کہ کفار کے اعمال اور ان کی ارواح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے کیونکہ اُن کے اعمال و ارواح دونوں خبیث ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ کفار کی ارواح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور مؤمنین کی ارواح کے لئے کھولے جاتے ہیں۔ ابن جُرَیْج نے کہا کہ آسمان کے دروازے نہ کافروں کے اعمال کے لئے کھولے جائیں گے نہ ارواح کے لئے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۹۳)
یعنی نہ زندگی میں ان کا عمل آسمان پر جاسکتا ہے نہ موت کے بعد ان کی روح جا سکتی ہے ۔
مرنے کے بعد مومن اور کافر کی روح کو آسمان کی طرف لے جانے اور مومن کی روح کے لئے آسمان کے دروازے کھلنے اور کافر کی روح کے لئے نہ کھلنے کاذکر حدیثِ پاک میں بھی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’روح نکلتے وقت میت کے پاس فرشتے آتے ہیں ، اگر وہ مومن کی روح ہے تو اس سے کہتے ہیں : اے پاک روح! پاک جسم سے نکل آ کیونکہ تونیک ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے خوش ہو جا، جنت کی خوشبو اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا مندی سے خوش ہو جا، فرشتے روح نکلنے تک یہی کہتے رہتے ہیں ، جب روح نکل آتی ہے تو اسے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں ، جب آسمان کے قریب پہنچتے ہیں تو آسمان کے فرشتے کہتے ہیں : یہ کون ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں ’’فلاں شخص کی روح ہے۔ آسمانی فرشتے کہتے ہیں ’’مرحبا، مرحبا، اے پاک روح ! پاک جسم میں رہنے والی ، تو خوش ہو کر (آسمانوں میں ) داخل ہو جا اور خوشبو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا سے خوش ہو جا، ہر آسمان پر اسے یہی کہا جاتا ہے ،حتّٰی کہ وہ روح عرش تک پہنچ جاتی ہے ۔اگر کسی برے بندے کی روح ہوتی ہے تو کہتے ہیں ’’اے ناپاک جسم کی روح! بری حالت کے ساتھ آ، گرم پانی اور پیپ کی اور اس کے ہم شکل دوسرے عذابوں کی بشارت حاصل کر۔وہ روح نکلنے تک یہی کہتے رہتے ہیں ، پھر اسے لے کر آسمان کی جانب چلتے ہیں تو اس کے لئے آسمان کا دروازہنہیں کھولا جاتا، آسمان کے فرشتے دریافت کرتے ہیں : ’’یہ کون ہے؟ روح لے جانے والے فرشتے کہتے ہیں ’’یہ فلاں شخص کی روح ہے، آسمانی فرشتے جواب دیتے ہیں ’’اس خبیث روح کو جو خبیث جسم میں تھی کوئی چیز مبارک نہ ہو، اسے ذلیل کر کے نیچے پھینک دو تو وہ اسے آسمان سے نیچے پھینک دیتے ہیں پھر وہ قبر میں لوٹ آتی ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ، ۴ / ۴۹۷، الحدیث: ۴۲۶۲)
کفار کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جانے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ خیر و برکت اور رحمت کے نزول سے محروم رہتے ہیں۔ (تفسیرکبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۰، ۵ / ۲۴۰)
قرآنِ پاک میں ہے:
’’ وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ‘‘ (اعراف:۹۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے (عذاب میں ) گرفتار کردیا۔
{ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ : اور وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے۔} اس آیت میں ہمیشگی کی دوسری کیفیت کا بیان ہوا چنانچہ فرمایا گیا کہ کفار تب تک جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل نہ ہو جائے اور یہ بات چونکہ محال ہے تو کفار کا جنت میں داخل ہونا بھی محال ہے کیونکہ محال پر جو موقوف ہو وہ خود محال ہوتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ کفار کا جنت سے محروم رہنا قطعی ہے۔ یاد رہے کہ اس آیت میں مجرمین سے کفار مراد ہیں کیونکہ اُوپر ان کی صفت میں اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے اور ان سے تکبر کرنے کا بیان ہوچکا ہے۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan