Surah Al-'Ankabut
{مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ: جنہوں نے اللہ کے سوا اورمددگاربنارکھے ہیں ان کی مثال۔} یعنی وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو واحد معبود ماننے کی بجائے بتوں کو معبود بنا رکھا ہے اور ان کے ساتھ امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں اور در حقیقت ان بتوں کے عاجز اور بے اختیار ہونے کی مثال مکڑی کی طرح ہے جس نے اپنے رہنے کے لئے جالے سے گھر بنایا جو کہ انتہائی کمزور ہے اور یہ گھر نہ اس سے گرمی دور کر سکتا ہے نہ سردی ، نہ گرد و غبار اور بارش وغیرہ کسی چیز سے اس کی حفاظت کر سکتا ہے، ایسے ہی یہ بت ہیں کہ اپنے پجاریوں کو کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی دنیا و آخرت میں انہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھرہوتا ہے اور ایسے ہی سب دینوں میں کمزور اور نِکَمّا دین بت پرستوں کا دین ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ بت پرست یہ بات جانتے کہ ان کا دین اس قدر نکما ہے ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۴۵۱، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۸۹۳، ملتقطاً)
مکڑی کے جالے رزق میں تنگی کا سبب ہوتے ہیں :
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَاللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : ’’اپنے گھروں سے مکڑیوں کے جالے دور کرو کیونکہ انہیں (گھروں میں لگا ہوا) چھوڑ دینا ناداری کا باعث ہوتا ہے۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۸۹۳)
{اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ: بیشک اللہ جانتا ہے۔} یعنی بت پرست اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے جس چیز کی پوجا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے کہ وہ کچھ حقیقت نہیں رکھتی اور اللہ تعالیٰ ہی عزت والا حکمت والا ہے، تو کسی عقل مند انسان کے شایانِ شان یہ بات کب ہے کہ وہ عزت و حکمت والے ،قادر اورمختار رب تعالیٰ کی عبادت چھوڑ کر بے علم اور بے اختیار پتھروں کی پوجا کرے۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۸۹۳، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۴۵۱، ملتقطاً)
{وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ: اور یہ مثالیں ہیں جنہیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں ۔} کفارِ قریش نے طنز کے طور پر کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مکھی اور مکڑی کی مثالیں بیان فرماتا ہے اور اس پر انہوں نے مذاق اڑایا تھا ۔ اس آیت میں ان کا رد کر دیا گیا کہ وہ جاہل ہیں جو مثال بیان کئے جانے کی حکمت کو نہیں جانتے ،کیونکہ مثال سے مقصود تفہیم ہوتی ہے اور جیسی چیز ہو اس کی شان ظاہر کرنے کے لئے ویسی ہی مثال بیان کرنا حکمت کے تقاضے کے عین مطابق ہے اور یہاں چونکہ بت پرستوں کے باطل اور کمزور دین کی کمزوری اوربُطلان بیان کرنا مقصود ہے لہٰذا اس کے اِظہار کے لئے یہ مثال انتہائی نفع مندہے اور ان مثالوں کی خوبی، نفاست،عمدگی ، ان کے نفع اور فوائد اور ان کی حکمت کو وہ لوگ سمجھتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقل اور علم عطافرمایا ہے جیسا کہ یہاں بیان کی گئی مکڑی کی مثال نے مشرک اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کرنے والے کا حال خوب اچھی طرح ظاہر کر دیا اور فرق واضح فرما دیا ۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۸۹۳، ملخصاً)
{خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ: اللہ نے آسمان اور زمین حق بنائے۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو باطل نہیں بنایا بلکہ حکمت کے تحت بنایا ہے اور بے شک ان دونوں کی تخلیق میں مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت، حکمت، اس کی وحدانیّت اور یکتائی پر دلالت کرنے والی نشانی ضرور موجود ہے۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۸۹۴، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۴۵۲، ملتقطاً)
یاد رہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش پر غور کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت صرف مومن ہی حاصل کرتے ہیں اس لئے یہاں انہیں کا ذکر ہواکہ اس میں مومنوں کیلئے نشانی ہے ورنہ عمومی طور پر یہ سب کے لئے عبر ت ہیں ۔
{اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ: اس کتاب کی تلاوت کروجس کی تمہاری طرف وحی کی گئی ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی طرف جو قرآن مجید نازل کیا گیا ہے، اس کی تلاوت کرتے رہیں کیونکہ اس کی تلاوت عبادت بھی ہے ،اس میں لوگوں کے لئے وعظ و نصیحت بھی ہے اور اس میں احکام ، آداب اور اَخلاقی اچھائیوں کی تعلیم بھی ہے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ مکہ والو ں کے کفر پر اَفسُردہ ہیں توآپ اس کتاب کی تلاوت کریں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے تاکہ آپ جان جائیں کہ آپ کی طرح حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور دیگر اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی نبوت اور رسالت کی ذمہ داری پر فائز تھے ،انہوں نے رسالت کی تبلیغ کی اور (اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیّت پر) دلائل قائم کرنے میں انتہائی کوشش کی لیکن ان کی قومیں گمراہی اور جہالت سے نہ بچ سکیں ،یوں آپ کے دل کو تسلی حاصل ہو گی۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۷۳، تفسیرکبیر، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۹ / ۶۰، ملتقطاً)
قرآنِ مجید دیکھ کر پڑھنے کی فضیلت اور ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ نماز کے علاوہ بھی قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہنا چاہئے ۔یاد رہے کہ (نماز کےعلاوہ) قرآنِ مجید دیکھ کر پڑھنا زبانی پڑھنے سے افضل ہے کیونکہ یہ پڑھنا بھی ہے ،دیکھنا بھی اور ہاتھ سے اس کا چھونا بھی اور یہ سب چیزیں عبادت ہیں ۔(بہار شریعت، حصہ سوم، قرآن مجید پڑھنے کا بیان، مسائل قراء ت بیرون نماز، ۱ / ۵۵۰، ملخصاً)
اور اس کی ترغیب کے بارے میں حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم اپنی آنکھوں کو اس کی عبادت میں سے حصہ دو۔عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آنکھ کا عبادت میں سے حصہ کیا ہے؟ارشاد فرمایا’’قرآن مجید کو دیکھ کر پڑھنا،اس (کی آیات اور معانی میں ) میں غوروفکر کرنا اور اس میں بیان کئے گئے عجائبات کی تلاوت کرتے وقت عبرت و نصیحت حاصل کرنا۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی القراء ۃ من المصحف، ۲ / ۴۰۸، الحدیث: ۲۲۲۲) اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ کر بھی قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے اور اس کی آیات و معانی میں غورو فکر کرنے اور اس میں ذکر کئے گئے واقعات اور دیگر چیزوں سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ: اور نماز قائم کرو۔} ارشاد فرمایاکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نماز قائم کرتے رہیں ، بیشک نماز بے حیائی اور ان چیزوں سے روکتی ہے جو شرعی طور پر ممنوع ہیں ۔یاد رہے کہ یہاں نماز قائم کرتے رہنے کا حکم واضح طور پر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیا گیا ہے اور ضمنی طور پر یہی حکم آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے لئے بھی ہے۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۷۴)
نماز بے حیائیوں اور شرعی ممنوعات سے روکتی ہے:
آیت میں بیان ہو اکہ نماز بے حیائیوں اور بری باتوں سے روکتی ہے، لہٰذا جو شخص نماز کا پابند ہوتا ہے اور اسے اچھی طرح ادا کرتا ہے تو ا س کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ ان برائیوں کو ترک کر دیتا ہے جن میں مبتلا تھا۔ یہاں اسی سے متعلق دو رِوایات ملاحظہ ہوں:
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ایک انصاری جوان سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا اور بہت سے کبیرہ گناہوں کا اِرتکاب کرتا تھا، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کی شکایت کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا’’ اس کی نماز کسی دن اسے اِن باتوں سے روک دے گی۔ چنانچہ کچھ ہی عرصےمیں اس نے توبہ کر لی اور اس کا حال بہتر ہو گیا۔(ابو سعود، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴ / ۲۶۱)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ایک شخص نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی :فلاں آدمی رات میں نماز پڑھتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’عنقریب نماز اسے اس چیز سے روک دے گی جو تو کہہ رہا ہے۔(مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۴۵۷، الحدیث: ۹۷۸۵)
ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں سے باز نہیں آتے اور بری عادتوں سے نہیں رکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اس طرح نماز نہیں پڑھتے جیسے نماز پڑھنے کا حق ہے مثلاً نماز کے ارکان و شرائط کو ان کے حقوق کے ساتھ اور صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے ،نماز میں خشوع و خضوع کی کَیفِیَّت ان پر طاری نہیں ہوتی اور نماز کی ادائیگی غفلت سے کرتے ہیں ،یہ ان کی نما زہوتی ہے جو ظاہری نماز تو ہے لیکن حقیقی اور کامل نماز نہیں ۔ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جس کی نماز اس کو بے حیائی اور ممنوعات سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں ۔( درمنثور، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۶۶)
اورحضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو اس کی نماز بے حیائی اور برائی سے نہ روکے تو اسے اللہ تعالیٰ سے دوری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا (کیونکہ ا س کی نماز ایسی نہیں جس پر ثواب ملے بلکہ وہ نماز اس کے حق میں وبال ہے اور اس کی وجہ سے بندہ عذاب کا حق دار ہے۔)( معجم الکبیر، طاؤس عن ابن عباس، ۱۱ / ۴۶، الحدیث: ۱۱۰۲۵)
لہٰذا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ بے حیائیوں اور برائیوں سے باز آ جائے تو اس طرح نماز ادا کیا کرے جیسے نماز ادا کرنے کا حق ہے۔ترغیب کے لئے یہاں نماز سے متعلق حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور دیگر بزرگانِ دین کے احوال پر مشتمل 4 واقعات ملاحظہ ہوں :
( 1)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کر رہے ہوتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو (آپ اللہ تعالیٰ کی عظمت میں اس قدر مشغول ہو جاتے کہ) گویا آپ ہمیں پہچانتے ہی نہ تھے اور نہ ہم آپ کو پہچان پاتے تھے۔( فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۳ / ۱۱۴، تحت الحدیث: ۲۸۲۱)
(2)…جب نماز کا وقت ہو جاتا تو حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم پر کپکپاہٹ طاری ہو جاتی اور چہرے کارنگ بدل جاتا۔ایک دن کسی نے پوچھا:اے امیر المؤمنین!آپ کو کیا ہوا؟فرمایا’’اس امانت کی ادائیگی کا وقت آگیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ،زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے معذرت کر لی اور اسے اُٹھانے سے ڈر گئے ۔
(3)…حضرت علی بن حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے بارے میں مروی ہے کہ جب آپ وضو کرتے تو آپ کا رنگ زرد ہو جاتا،جب گھر والے پوچھتے کہ آپ کو کیا ہو گیا ہے تو آپ فرماتے ’’کیاتمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں ۔
(4)…حضرت حاتم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ان کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا’’جب نما زکا وقت ہو جاتاہے تو میں مکمل وضو کرتا ہوں ، پھر ا س جگہ آ کر بیٹھ جاتا ہوں جہاں نماز پڑھنے کا ارادہ ہوتا ہے ، یہاں تک کہ میرے اَعضا پُرسکون ہو جاتے ہیں ،پھر میں نماز کے لئے کھڑ اہوتا ہوں ،کعبہ شریف کو آنکھوں کے سامنے ،پل صراط کو قدموں کے نیچے ،جنت کو دائیں اور جہنم کو بائیں طرف اور موت کے فرشتے کو اپنے پیچھے خیال کرتا ہوں اور ا س نماز کو اپنی آخری نماز سمجھتا ہوں ،پھر امید اور خوف کے درمیان جذبات کے ساتھ کھڑ اہوتا ہوں ، حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کرتا ہوں ،قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہوں ،رکوع عاجزی کے ساتھ اور سجدہ ڈرتے ہوئے کرتا ہوں ، بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھتا ہوں ،دائیں پاؤں کو انگوٹھے پر کھڑ اکرتا ہوں ، اس کے بعد اخلاص سے کام لیتا ہوں ، پھر مجھے معلوم نہیں کہ میری نماز قبول ہوتی ہے یا نہیں ۔(احیاء علوم الدین، کتاب اسرار الصلاۃ ومہماتہا، الباب الاول، فضیلۃ الخشوع، ۱ / ۲۰۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طریقے سے نما زادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری نماز کو ہمارے حق میں برائیوں اور بے حیائیوں سے بچنے کا ذریعہ بنائے ،آمین۔
تلاوت ِقرآن اورنمازکی پابندی کے فوائد وبرکات :
آیت میں تلاوت ونماز دو عبادتوں کا ذکر ہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تلاوت ِقرآن اورنمازکی پابندی ایسی عبادتیں ہیں جن کے فوائد وبرکات شمارنہیں کیے جاسکتے اورجب بندہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کاپاکیزہ کلام پڑھتاہے تواس پر اَنوار وتَجَلِّیّات کی بارشیں ہوتی ہیں اوربندہ خود اپنے دل میں ایک عجیب لذت محسوس کرتاہے ۔ تلاوتِ قرآن پاک کی کئی حکمتیں ہیں ، اس میں لوگوں کیلئے نصیحتیں بھی ہیں اوراحکام بھی ،اخلاقیات کی تعلیم بھی ہے اور آدابِ زندگی بھی۔ یہ اوَّلین و آخرین کے علوم کا جامع ہے ، اس کے اَسرار ختم نہیں ہوسکتے اور اس کے عجائبات بے شمار ہیں اور یہ چیزیں دل کی پاکیزگی پر مَوقوف ہیں ۔
{وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ: اور بیشک اللہ کا ذکر سب سے بڑاہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کاذکر سب سے عظیم شے ہے نیز یادِ الٰہی سب سے افضل نیک عمل ہے بلکہ تمام عبادتوں کی اصل ذکر ِالٰہی ہی ہے مثلاً نماز اصل میں یادِ الٰہی کیلئے ہے ،یہی حال بقیہ تمام عبادات کا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اس آیت کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو یاد کرنا بہت بڑا ہے ،نیز اس کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بے حیائی اور بری باتوں سے روکنے اور منع کرنے میں سب سے بڑھ کر ہے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۴۵۳، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۸۹۴، ملتقطاً)
حضرت اُمِّ درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کاذکرسب سے بڑاہے ۔اگرتونمازپڑھے تویہ بھی اللہ تعالیٰ کاذکرہے اگرتوروزہ رکھے تویہ بھی اللہ تعالیٰ کاذکرہے ،ہراچھاعمل جوتوکرتاہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے، اور ہر بری چیز سے تمہارا بچنا بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور ان میں سب سے افضل اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا ہے۔( شعب الایمان،العاشر من شعب الایمان۔۔۔الخ،فصل فی ذکر اخبار وردت فی ذکر اللّٰہ عزوجل،۱ / ۴۵۲،الحدیث:۶۸۶)
اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے فضائل:
آیت کی مناسبت سے یہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے فضائل پر مشتمل2اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت ابودرداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیامیں تم کویہ خبرنہ دوں کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک تمہاراکون ساعمل سب سے اچھا،سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والاہے اورجوتمہارے سونے اورچاندی کو صدقہ کرنے سے زیادہ اچھاہے اوراس سے بھی اچھا ہے کہ تمہاراتمہارے دشمنوں سے مقابلہ ہو،تم انہیں قتل کرو اوروہ تمہیں شہید ماریں ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون ساعمل ہے ؟ارشاد فرمایا’’وہ عمل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ہے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، ۶-باب منہ، ۵ / ۲۴۶، الحدیث: ۳۳۸۸)
(2)… حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا گیا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سے بندے کادرجہ سب سے بلند ہوگا؟ارشاد فرمایا’’جو اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکرکرنے والے ہیں ۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان کا درجہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہادکرنے والوں سے بھی زیادہ بلندہوگا؟ ارشاد فرمایا: ’’اگر وہ اپنی تلوارسے کفار اور مشرکین کو قتل کر دے حتّٰی کہ اس کی تلوارٹوٹ جائے اورخون سے رنگین ہوجائے پھر بھی اللہ تعالیٰ کابکثرت ذکرکرنے والے کادرجہ اس سے افضل ہوگا۔(ترمذی، کتاب الدعوات، ۵-باب منہ، ۵ / ۲۴۵، الحدیث: ۳۳۸۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ: اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔} یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ذکر وغیرہ نیک اعمال کو جانتا ہے، اس سے کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں ہے تو وہ تمہیں ان اعمال پر بہترین جزا دے گا۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۷۶)
ظاہر و باطن تمام احوال میں نیک اعمال کرنے کی ترغیب:
علمِ الٰہی کے متعلق مذکورہ بالاقسم کی آیات عموماً اس مفہوم کیلئے ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا علم اتنا وسیع ہے کہ وہ ہر بندے کے ہر ظاہری باطنی عمل کو جانتا ہے ،لہٰذاہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے بچے اور اپنے ظاہری باطنی تمام اَحوال میں نیک اور اچھے اعمال کرنے میں مصروف رہے۔ایک بزرگ فرماتے ہیں ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ تمام مقامات اور احوال میں تمہارے عملوں کو جانتا ہے تو جسے اس بات کا یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کا عمل جانتا ہے وہ گناہوں اور برے اعمال سے بچے اور تنہائی میں بھی طاعات ، عبادات اور بطورِ خاص نماز کی طرف متوجہ رہے۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۷۶) اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ: اور اے مسلمانو!اہل ِکتاب سے بحث نہ کرو مگر بہترین انداز پر۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اے مسلمانو! جب تمہاری اہلِ کتاب سے بحث ہو تو بہترین انداز سے بحث کرو جیسے انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات سے دعوت دے کر اور حجتوں پر آگاہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف بلاؤ،یونہی بحث کے دوران و ہ سختی سے پیش آئیں تو تم نرمی سے پیش آؤ،وہ غصہ کریں تو تم حِلم اور بُردباری کا مظاہرہ کروالبتہ ان میں سے جو ظالم ہیں کہ زیادتی میں حد سے گزر گئے ، عناد اِختیار کیا ، نصیحت نہ مانی ، نرمی سے نفع نہ اٹھایا تو ان کے ساتھ سختی اختیار کرو۔ دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ وہ اہلِ کتاب جو ذِمّی ہیں اور جِزیَہ ادا کرتے ہیں ان کے ساتھ جب تمہاری بحث ہو تو احسن طریقے سے بحث کرو البتہ ان میں سے جن لوگوں نے ظلم کیا اور ذمہ سے نکل گئے اور جزیہ دینے سے منع کر دیا اور جنگ کے لئے تیار ہو گئے تو ان سے جھگڑنا تلوار کے ساتھ ہے ۔( خازن،العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۵۳، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۸۹۵، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۴۷۷، ملتقطاً)
عیسائیوں اور یہودیوں سے دینی اُمور میں بحث کرنے کا اختیار کس کو ہے؟
امام عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت سے کفار کے ساتھ دینی اُمور میں مناظرہ کرنے کا جواز ،اوراسی طرح علمِ کلام سیکھنے کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۸۹۵)
یاد رہے کہ عیسائیوں ، یہودیوں اور دیگر کافروں کے ساتھ دینی اُمور میں بحث اور مناظرہ کرناان علماء کا کام ہے جو ان کے باطل عقائد و نظریات کا بہترین اور مضبوط دلائل کے ساتھ رد کر سکتے ہوں اور ان کی طرف سے دین ِاسلام اور اس کی تعلیمات و اَحکام پر ہونے والے اعتراضات کا انتہائی تسلی بخش جواب دے سکتے ہوں اورمناظرہ کے فن میں بھی خوب مہارت رکھتے ہوں۔جوعالِم ایسی صلاحیت نہ رکھتا ہو اسے اور بطورِ خاص عام لوگ جنہیں عقائد و نظریات کی تفصیلی دلائل سے معلومات ہونا تو دور کی بات ،فرض عبادات سے متعلق شرعی احکام بھی ٹھیک سے معلوم نہیں ہوتے، انہیں یہودیوں ، عیسائیوں اور دیگر کفار سے دینی اُمور میں بحث مباحثہ کرنا حرام ہے اور ان لوگوں کا یہ سوچ کر بحث کرنے کی جرأت کرنا کہ ہم اپنے دین،عقیدے اور نظریات میں انتہائی مضبوط ہیں ،اس لئے یہودیوں ، عیسائیو ں یا کسی اور کافر سے دینی امور میں بحث کرنا ہمیں کوئی نقصان نہیں دے سکتا،دین و ایمان کی سلامتی کے حوالے سے انتہائی خطرناک اِقدام ہے اور ایسا شخص غیر محسوس انداز میں ایمان کے دشمن شیطان کے انتہائی خوفناک وار کا شکار ہے، اگر یہ شخص اپنے دین و ایمان کی سلامتی چاہتا اور قیامت کے دن جہنم کے اَبدی عذاب سے بچنا چاہتاہے تو ان سے ہر گز بحث نہ کرے ورنہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔افسوس!ہمارے معاشرے میں شیطان کے کارندے لوگوں کے دین و ایمان کو برباد کرنے کے لئے مصروفِ عمل ہیں اور انتہائی مُنَظَّم انداز میں مسلمانوں کے دلوں سے دین ِاسلام کی محبت اور اس دین کی طرف لگاؤ کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن مسلمان اپنے دین و ایمان کو بچانے کی کوشش کرنے کی بجائے اسے بے دھڑک خطرے پر پیش کئے جا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل ِسلیم عطا فرمائے اور اپنے ایمان کی سلامتی اور حفاظت کی فکر کرنے اور ا س کے لئے خوب کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا: اور کہو:ہم اس پرایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا۔} یعنی جب اہل ِکتاب تم سے اپنی کتابوں کا کوئی مضمون بیان کریں تو ان سے کہو:ہم اس پرایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور جوتمہاری طرف نازل کیا گیا اور ہمارا اورتمہارا معبود ایک ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور ہم صرف اسی کے فرمانبردار ہیں ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۵۳، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۴۷۷، ملتقطاً)
اہل ِکتاب اپنی کتابوں کا مضمون بیان کریں تو سننے والے کو کیا کہناچاہے؟
جب اہل ِکتاب کسی شخص سے اپنی کتابوں میں موجود کوئی مضمون بیان کریں تو اسے سننے والے کو کیا کہنا چاہئے وہ اس آیت میں بیان ہوا اور یہی بات حدیث ِپاک میں ایک اور انداز سے بیان کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت ابونملہ انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضرتھے اورایک یہودی شخص بھی وہیں موجودتھا،اس دوران وہاں سے ایک جنازہ گزرا تویہودی نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا:کیایہ مردہ باتیں کرتاہے؟رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ بہتر جاننے والا ہے۔ یہودی کہنے لگا:بے شک یہ باتیں کرتاہے ۔یہ سن کر سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! جب اہل ِکتاب تم سے کوئی مضمون بیان کریں تو تم نہ اُن کی تصدیق کرو نہ تکذیب کرو بلکہ یہ کہہ دو کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور اس کی کتابوں پراور اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے، تو (اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ) اگر وہ مضمون اُنہوں نے غلط بیان کیا ہے تو اس کی تصدیق کے گناہ سے تم بچے رہو گے اور اگر مضمون صحیح تھا تو تم اس کی تکذیب سے محفوظ رہو گے۔(سنن ابو داؤد،کتاب العلم، باب روایۃ حدیث اہل الکتاب،۳ / ۴۴۵، الحدیث: ۳۶۴۴، مسند احمد، مسند الشامیین، حدیث ابی نملۃ الانصاری رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۶ / ۱۰۲، الحدیث: ۱۷۲۲۵)
یاد رہے کہ ہمارا ایمان قرآن کے علاوہ دیگر کتابوں پر بھی ہے لیکن عمل صرف قرآن پر ہے نیز دیگر کتابوں پر جو ایمان ہے وہ ان پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں ، موجودہ تحریف شدہ کتابوں پر نہیں بلکہ ان پر یوں ہے کہ اِن کتابوں میں جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔
{وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ: اور اے محبوب! یونہی ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل فرمائی۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف اسی طرح قرآن مجید نازل فرمایا جیسے اہل ِکتاب کی طرف توریت وغیرہ کتابیں اُتاری تھیں ،تو وہ لوگ جنہیں ہم نے توریت عطا فرمائی جیسے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھی،وہ اِس قرآن پر ایمان لاتے ہیں ، اور کچھ اِن مکہ والوں میں سے بھی ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں ، اور وہی کافر ہی ہماری آیتوں کاانکار کرتے ہیں جو کفر میں انتہائی سخت ہیں ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۸۹۵، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۳۳۹، ملتقطاً)
آیت ’’وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ‘‘ سے متعلق دو باتیں :
یہاں اس آیت سے متعلق دو باتیں ملاحظہ ہوں ،
(1)…یہ سورت مکیہ ہے اور حضرت عبد اللہ بن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھی مدینہ منورہ میں ایمان لائے، اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کے ایمان لانے سے پہلے ان کی خبر دے دی،تو یہ غیبی خبروں میں سے ہے۔( جمل، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۶ / ۷۷)
(2)…جُحُود اس انکار کو کہتے ہیں جو معرفت کے بعد ہو یعنی جان بوجھ کر مکرجانا اور حقیقت بھی یہی تھی کہ یہودی خوب پہچانتے تھے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے سچّے نبی ہیں اور قرآن حق ہے، یہ سب کچھ جانتے ہوئے انہوں نے عِناد کی وجہ سے انکار کیا ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۴۵۳)
{وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ: اور اس سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس قرآن کے نازِل ہونے سے پہلے آپ کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے اسے لکھتے تھے ، اگرآپ پڑھتے اور لکھتے ہوتے تو اس وقت اہل ِکتاب ضرور شک کرتے اور یوں کہتے کہ ہماری کتابوں میں آخری زمانے میں تشریف لانے والے نبی کی صفت تویہ مذکور ہے کہ وہ اُمّی ہوں گے،نہ لکھتے ہوں گے اور نہ ہی پڑھتے ہوں گے جبکہ یہ تو لکھتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی ہیں ا س لئے یہ آخری نبی کیسے ہو سکتے ہیں ۔مگر انہیں اس شک کا موقع ہی نہ ملا ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۸۹۵، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۴۵۳، ملتقطاً)
غیر مسلموں کے ایک مشہور اعتراض کا جواب:
اس آیت ِمبارکہ میں موجودہ زمانے کے غیرمسلموں کے اِس مشہور اعتراض کا بھی جواب ہے کہ مَعَاذَ اللہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے گزشتہ کتابوں کو سامنے رکھ کر قرآن لکھا ہے۔ ان کا یہ اعتراض خلافِ حقیقت ہے کیونکہ قرآن مجید نازل ہونے سے پہلے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کسی کتاب کا مطالعہ کرنے اور لکھنے کی نفی خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے اورتاریخی حقائق سے یہی ثابت ہے، لہٰذاغیر مسلموں کا یہ خود ساختہ اعتراض اپنی بنیاد سےہی غلط ہے۔
{بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ: بلکہ وہ روشن نشانیاں ہیں ۔} اس آیت میں مذکور ضمیر ’’هُوَ‘‘ کا اشارہ قرآن مجید کی طرف ہے، اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہیں کہ قرآنِ کریم روشن آیتیں ہیں جو علماء اور حُفّاظ کے سینوں میں محفوظ ہیں ۔ روشن آیت ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ان کا اپنی مثل لانے سے عاجز کر دینے والا ہونا ظاہر ہے اور یہ دونوں باتیں قرآنِ پاک کے ساتھ خاص ہیں اوراس کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں جو معجزہ ہو اور نہ ہی ایسی ہے کہ ہر زمانے میں سینوں میں محفوظ رہی ہو۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ضمیر ’’هُوَ‘‘ کا مَرجَع سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرار دے کراس آیت کے یہ معنی بیان فرمائے ہیں کہ سرورِ عالَم،محمد ِمصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان روشن نشانیوں والے ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں اہل ِکتاب میں سے علم دیا گیا کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت پاتے ہیں ۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۸۹۵، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۴۵۳-۴۵۴، ملتقطاً)
{وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ: اور ہماری آیتوں کا انکارصرف ظالم لوگ کرتے ہیں ۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکارصرف ظالم لوگ کرتے ہیں ،جیسا کہ یہودی جو کہ معجزات ظاہر ہونے کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچے اور آخری رسول ہونے کو جان اور پہچان چکے لیکن آپ سے عناد کی وجہ سے آپ کے منکر ہوتے ہیں۔
اس آیت ِمبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علماء اور حُفّاظ کا بڑا ہی درجہ ہے کہ ان کے سینے قرآن کریم کے گنجینے ہیں۔ جس کاغذ پر قرآنِ مجیدلکھا جائے وہ عظمت والا ہے تو جس سینے میں قرآنِ پاک ہو وہ بھی عظمت والا ہے۔نیز یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ قرآنِ عظیم میں کبھی تحریف نہیں ہو سکتی کیونکہ تبدیلی اور تحریف کاغذ میں ہوسکتی ہے جبکہ قرآن تو خدا نے سینوں میں محفوظ کردیا ہے۔
{وَ قَالُوْا: اور کفار نے کہا۔} یہاں سے کفارِ مکہ کا ایک اور اعتراض ذکر کیا جا رہاہے ،چنانچہ کفارِ مکہ نے کہا کہ اس نبی پر ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی،حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عصا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دستر خوان کی طرح نشانیاں کیوں نہیں اُتریں ؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں سے ارشاد فرما دیں : نشانیاں تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں اور وہ حکمت کے مطابق جو نشانی چاہتا ہے نازل فرماتا ہے اور میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں نافرمانی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا صاف ڈر سنا دوں اور میں اسی کا پابند ہوں ۔ (خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۴۵۴، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۸۹۶، ملتقطاً)
{اَوَ لَمْ یَكْفِهِمْ: اور کیا انہیں یہ بات کافی نہیں ۔} اس آیت میں کفارِ مکہ کے اعتراض کا جواب دیاگیاہے اور ا س کا معنی یہ ہے کہ قرآنِ کریم معجزہ ہے ، گزشتہ اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات سے زیا دہ کامل ہے اور حق کے طلبگار کو تمام نشانیوں سے بے نیاز کرنے والا ہے کیونکہ جب تک زمانہ ہے قرآنِ کریم باقی اور ثابت رہے گا اور دوسرے معجزات کی طرح ختم نہ ہو گا۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۴۵۴)یعنی دیگر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات قصہ بن کر رہ گئے ہیں مگر یہ قرآن ایسا جیتا جاگتا معجزہ ہے جو ہمیشہ دیکھا جاتا رہے گا،اس پر ایمان نہ لانا انتہائی بد نصیبی ہے۔
{قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ شَهِیْدًا: تم فرماؤ: میرے اور تمہارے درمیان اللہ کافی گواہ ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ کی نبوت کا انکار کرنے والے لوگ قرآنِ پاک کے نازل ہونے کے بعد بھی آپ کی رسالت کوتسلیم نہ کریں تویہ ان کی بدبختی ہے، آپ ان سے فرمادیجئے کہ میرے اورتمہارے درمیان میری رسالت کے سچے ہونے اور تمہارے جھٹلانے پر اللہ تعالیٰ گواہ ہے ، وہ آسمانوں اورزمین کی ہرچیز کا علم رکھتا ہے اور جس کا علم جتنا کامل ہو اُس کی گواہی بھی اتنی ہی کامل ہوتی ہے اوریقینا کامل ترین علم اللہ تعالیٰ کا ہے تو گواہی بھی اسی کی کامل ترین ہے اور یاد رکھو کہ باطل پر ایمان لانے والے اور اللہ تعالیٰ کے منکرہی نقصان پانے والے ہیں ۔
{وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ: اور تم سے عذاب کی جلدی مچاتے ہیں ۔} شانِ نزول:یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی جس نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ ہمارے اوپر آسمان سے پتھروںکی بارش کروادو ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کافر آپ سے جلد عذاب نازل ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر عذاب نازل ہونے کی ایک مقررہ مدت نہ ہوتی جو اللہ تعالیٰ نے مُعَیَّن کی ہے اور جو حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے توان کے مطالبہ کرتے ہی ضرور ان پر عذاب آجاتا اور اس میں کوئی تاخیر نہ ہوتی لیکن چونکہ اب ان کیلئے ایک مدت مقرر ہے توجب وہ مدت پوری ہو جائے گی تو ضرور ان پر اچانک عذاب آئے گا اور انہیں ا س کی خبر بھی نہ ہوگی۔ (خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۴۵۴، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۸۹۶، ملتقطاً)
{یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ: تم سے عذاب کی جلدی مچاتے ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کفار آپ سے جلد عذاب نازل ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں حالانکہ جہنم کا عذاب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے اور ان میں سے کوئی بھی جہنم کے عذاب سے نہیں بچے گا! اور جس دن عذاب کافروں کوان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے یعنی ہر طرف سے ڈھانپ لے گااور اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے۔گا کہ اے کافرو!اب تم دنیا میں اپنے کئے ہوئے اعمال کی سزا کا مزہ چکھو تو ا س دن تم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھاگ نہیں سکو گے۔( تفسیرکبیر،العنکبوت، تحت الآیۃ:۵۴-۵۵، ۹ / ۶۸، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۴-۵۵، ۶ / ۴۸۵، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۴-۵۵، ص۳۳۹، ملتقطاً)
{یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے میرے مومن بندو!} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب مومن کو کسی سرزمین میں اپنے دین پر قائم رہنا اور عبادت کرنا دشوار ہو تو اسے چاہئے کہ وہ ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کرجائے جہاں آسانی سے عبادت کر سکے اور وہاں دین کی پابندی میں دشواریاں درپیش نہ ہوں ۔شانِ نزول:یہ آیت مکہ مکرمہ میں موجود ان کمزور مسلمانوں کے حق میں نازل ہوئی جنہیں وہاں رہ کر اسلام کو ظاہر کرنے میں خطرے اور تکلیفیں تھیں اور وہ انتہائی تنگی میں تھے، انہیں حکم دیا گیا کہ میری بندگی تو ضروری ہے، یہاں رہ کر نہیں کر سکتے تو مدینہ شریف کی طرف ہجرت کر جاؤ،وہ وسیع ہے اور وہاں امن بھی ہے ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۸۹۷، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۴۵۴-۴۵۵، ملتقطاً)
نوٹ:ہجرت سے متعلق احکام کی معلومات حاصل کرنے کے لئے سورہِ نساء ،آیت نمبر97کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
{كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ: ہر جان کو موت کا مز ہ چکھنا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ ہر جان کو موت کا مز ہ چکھنا ہے اور اس دارِ فانی کو چھوڑنا ہی ہے ،پھرمرنے کے بعدثواب و عذاب اور اعمال کی جزا کے لئے ہماری ہی طرف تم لوگ پھیرے جاؤگے تو تم پر لازم ہے کہ ہمارے دین پر قائم رہو اور اپنے دین کی حفاظت کے راستے اختیار کرو۔
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور بیشک جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے۔} یہاں سے بطورِ خاص ہجرت کرنے والوں اور عمومی طور پر ہر نیک کام کرنے والے مسلمان کی جز ابیان کی جارہی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک جو لوگ ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے جن میں یہ ہجرت کرنا بھی داخل ہے تو ضرور ہم انہیں جنت کے ایسے بالا خانوں پر جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی،وہ ہمیشہ ان بالا خانوں میں رہیں گے اور اچھے عمل کرنے والوں کیلئے یہ کیا ہی اچھا اجرہے۔
جنّتی بالا خانوں کے اوصاف:
یہاں جنتی بالاخانوں کے اوصاف سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)… حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک جنتی لوگ اپنے اوپر بالا خانے والوں کو ایسے دیکھیں گے جس طرح اُفُق میں مشرق یا مغرب کی جانب کسی روشن ستارے کو دیکھتے ہوں کیونکہ ان کے مقامات کے درمیان فرق ہو گا۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ تو انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی منزلیں ہیں ،دوسرے وہاں کیسے پہنچ سکتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’کیوں نہیں !اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،وہ لوگ پہنچ سکیں گے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق کی۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنّۃ وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۳، الحدیث: ۳۲۵۶)
(2)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَاللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے نظر آتا ہے ۔ایک دیہاتی نے کھڑے ہوکرعرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ بالا خانے کس کے لئے ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’یہ اس کے لئے ہیں جس نے اچھی گفتگو کی ،کھانا کھلایا،ہمیشہ روزہ رکھا اور رات کے وقت جبکہ لوگ سو رہے ہوں ، اللہ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھی۔ (ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء فی صفۃ غرف الجنّۃ، ۴ / ۲۳۶، الحدیث: ۲۵۳۵)
{اَلَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ: وہ جنہوں نے صبر کیااور اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔} یعنی اچھے عمل کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے تکلیفوں،مصیبتوں اور سختیوں پرصبرکیا،مشرکین کی ایذائیں برداشت کیں اور ہجرت کرکے دین کی خاطروطن بھی چھوڑدیامگردین ِاسلام کونہ چھوڑااوریہ لوگ ایسے ہیں کہ اپنے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ پرہی بھروسہ رکھتے ہیں۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۹، ۶ / ۴۸۶، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۴۵۵، ملتقطاً)
{وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا: اور زمین پر کتنے ہی چلنے والے ہیں جو اپنی روزی نہیں اٹھائے پھرتے۔} شانِ نزول: مکہ مکرمہ میں ایمان والوں کو مشرکین دن رات طرح طرح کی ایذائیں دیتے رہتے تھے۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے کو فرمایا تو اُن میں سے بعض نے عرض کی : ہم مدینہ شریف کیسے چلے جائیں ، نہ وہاں ہمارا گھر ہے نہ مال،وہاں ہمیں کون کھلائے اور پلائے گا؟ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اورارشاد فرمایا گیا کہ بہت سے جاندار ایسے ہیں جو اپنی روزی ساتھ نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ اگلے دن کے لئے کوئی ذخیرہ جمع کرتے ہیں جیسا کہ چوپائے اور پرندے ، اللہ تعالیٰ ہی انہیں اور تمہیں روزی دیتا ہے لہٰذاتم جہاں بھی ہو گے وہی تمہیں روزی دے گا تو پھر یہ کیوں پوچھ رہے ہو کہ ہمیں کون کھلائے اور پلائے گا؟ساری مخلوق کو رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے ،کمزور اور طاقتور، مقیم اور مسافر سب کو وہی روزی دیتا ہے اور وہی تمہارے اقوال کوسننے والا اور تمہارے دلوں کی بات کو جاننے والا ہے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۴۵۵، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۸۹۷-۸۹۸، ملتقطاً)
رزق کے معاملے میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی ترغیب:
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کے معاملے میں خاصطور پر اپنے رزق کی فکر نہیں کرنی چاہئے بلکہ ساری مخلوق کو رزق سے نوازنے والے رب تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے، وہی حقیقی طور پر رزق دینے والا ہے اور وہ ہر جگہ اپنی مخلوق کو رزق دینے پر قدرت رکھتا ہے۔ حضرت عمربن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایسا توکل کرو جیسا ہونا چاہیے تو وہ تمہیں ایسے روزی دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح بھوکے خالی پیٹ اُٹھتے ہیں اور شام کوپیٹ بھرکر واپس آتے ہیں ۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب فی التوکّل علی اللّٰہ، ۴ / ۱۵۴، الحدیث: ۲۳۵۱)
ہمارے معاشرے میں یہ صورتِ حال انتہائی افسوسناک ہے کہ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرتے ہوئے دین کے احکام پر عمل کرنا شروع کرتے ہیں تو کچھ لوگ اپنی شفقت و نصیحت کے دریا بہاتے ہوئے انہیں سمجھانا شروع کر دیتے ہیں کہ بیٹا اگر تم نمازی اور پرہیز گار بن گئے اور داڑھی رکھ لی تو کمائی کس طرح کرو گے اور کماؤ گے نہیں تو اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ کس طرح پالو گے ،اسی طرح اگر تم دُنْیَوی علوم چھوڑ کر دین کا علم سیکھنے لگ جاؤ گے تو بھوکے مرو گے اور تمہیں لوگوں کے دئیے ہوئے صدقات و خیرات پر گزارا کرنا پڑے گا۔ اے کاش یہ لوگ اتنی بات سمجھ سکتے کہ حقیقی طور پر رزق دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہے اور وہ مخلوق پر اتنا مہربان ہے کہ اپنی نافرمانی کرنے والوں کو بھی رزق سے محروم نہیں کرتا بلکہ انہیں بھی کثیر رزق عطا فرماتا ہے تو جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ اپنے رزق کے دروازے کیسے بندکر دے گا،ہاں اگر رزق میں تنگی کر کے ا س کی آزمائش کرنا مقصود ہوا تو یہ دوسری بات ہے لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت رزق کی بندش کا سبب ہر گز نہیں بلکہ رزق ملنے کا عظیم ذریعہ ہے ۔
{وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ: اور اگر تم ان سے پوچھو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگرآپ ان کفارِ مکہ سے پوچھیں کہ اتنے بڑے اور اتنے وسیع آسمان اور زمین کس نے بنائے ،سورج اور چاند کو کس نے کام میں لگایا تو اس کے جواب میں وہ ضرور کہیں گے: ’’ اللہ تعالیٰ نے‘‘ تو پھر یہ لوگ کہاں الٹے پھرے جاتے ہیں اور ا س اقرار کے باوجود اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر ایمان لانے سے کیوں مُنْحَرِف ہوتے ہیں ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۸۹۸)
{اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ: اللہ اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کردیتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں خواہ وہ مومن ہوں یا کافر، جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے رزق تنگ کردیتا ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے تو اسے یہ بھی معلوم ہے کہ کس چیز میں بندےکی بھلائی ہے اور کس میں نقصان ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ کون کس وقت امیری کے لائق ہے اور کون کس وقت غریبی کے لائق ہے لہٰذا وہ حکمت اور مَصلحت کے مطابق ہی ہر ایک کے ساتھ معاملہ فرماتا ہے۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۴۸۹، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۸۹۸، ملتقطاً)
نوٹ:مخلوق کے درمیان رزق میں برابری نہ ہونے کی حکمتیں جاننے کے لئے سورہِ رعد،آیت نمبر26کے تحت مذکور کلام ملاحظہ فرمائیں ۔
{وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ: اور اگرتم ان سے پوچھو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ عرب کے مشرکوں سے یہ بات پوچھیں کہ کس نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ذریعے خشک زمین سے کھیتی، نباتات اور درخت وغیرہ اُگا کر اسے سرسبز و شاداب کیا؟ تو ا س کے جواب میں وہ ضرور کہیں گے : اللہ تعالیٰ نے پانی نازل فرمایا اور اسی نے زمین کو سرسبز کیا۔یعنی وہ لوگ اس کا اعتراف اور اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ نے ہی کیا ہے۔اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمائیں کہ سب تعریفیں ا س اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جس نے حق کو ایسابنایا کہ باطل پرست اس کا انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے ، بلکہ ان کافروں میں اکثر بے عقل ہیں کہ اس اقرار اور اعتراف کے باوجود اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کے منکر ہیں ۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۳، ۶ / ۴۸۹، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۴۵۶، ملتقطاً)
{وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ: اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کودہے۔} ارشاد فرمایا کہ یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کودہے ، جیسے بچے گھڑی بھر کھیلتے ہیں ، کھیل میں دل لگاتے ہیں ،پھر اس سب کو چھوڑ کر چل دیتے ہیں یہی حال دنیا کا ہے کہ انتہائی تیزی کے ساتھ زائل ہونے والی ہے اور موت یہاں سے ایسے ہی جدا کر دیتی ہے جیسے کھیلنے والے بچے مُنتَشِر ہو جاتے ہیں اور بیشک آخرت کا گھر ضرور وہی سچی زندگی ہے کہ وہ زندگی پائیدار ہے ، دائمی ہے، اس میں موت نہیں اورزندگانی کہلانے کے لائق بھی وہی ہے،کیا ہی اچھا تھا اگر وہ مشرک دنیا اور آخرت کی حقیقت جانتے، اگر ایسا ہوتا تو وہ فانی دنیا کو آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی پر ترجیح نہ دیتے۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۸۹۸، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۴۵۶، ملتقطاً)
دنیا کی مذمت پر مشتمل 3 اَحادیث:
یاد رہے کہ دنیا کی مذمت کے بارے میں قرآنِ پاک کی بہت سی آیات آئی ہیں اورانبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی تبلیغ کے مَقاصد میں ایک مقصد دنیاکی محبت سے لوگوں کو بچانا بھی تھا، اس لئے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوموں کے سامنے مختلف انداز میں دنیا کی مذمت بیان فرمائی ، ہمارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی امت کے سامنے کیسے دنیا کی مذمت بیان فرمائی ،اس سے متعلق تین اَحادیث ملاحظہ ہوں:
(1)… حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے اورفرمایاکیاتم جانتے ہو کہ یہ بکری اپنے گھروالوں کے نزدیک کس قدر حقیر ہے؟ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:جی ہاں ، (اس حقارت کی وجہ سے ہی انہوں نے اس کو پھینکا ہے) ارشادفرمایا،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے، جس قدریہ بکری اپنے گھروالوں کے نزدیک حقیرہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیااس سے بھی حقیراورہلکی ہے اوراگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی مچھرکے پر برابربھی حیثیت ہوتی تو وہ اس سے کافر کو ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا۔(ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب مثل الدنیا، ۴ / ۴۲۷، الحدیث: ۴۱۱۰، مستدرک، کتاب الرقاق، نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس۔۔۔ الخ، ۵ / ۴۳۶، الحدیث: ۷۹۱۷)
(2)… حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنی دنیاسے محبت کرتاہے وہ اپنی آخرت کونقصان پہنچاتاہے اورجوآدمی اپنی آخرت سے محبت کرتاہے وہ اپنی دنیاکونقصان پہنچاتاہے ،پس فناہونے والی پرباقی رہنے والی کوترجیح دو۔(مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۷ / ۱۶۴، الحدیث: ۱۹۷۱۷)
(3)… حضرت ابو جعفر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس آدمی پر انتہائی تعجب ہے جودائمی زندگی والے گھر (یعنی آخرت) کی تصدیق توکرتاہے لیکن کوشش دھوکے والے گھر (یعنی دنیا) کے لیے کرتاہے ۔(شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۴۸، الحدیث: ۱۰۵۳۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی رغبت سے محفوظ فرمائے اور اپنی آخرت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے بھرپور کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{فَاِذَا رَكِبُوْا فِی الْفُلْكِ: پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ زمانۂ جاہلِیّت کے لوگ بحری سفر کرتے وقت بتوں کوساتھ لے جاتے تھے ،دورانِ سفرجب ہوا مخالف چلتی اور کشتی ڈوب جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا تو وہ لوگ بتوں کو دریا میں پھینک دیتے اور یاربّ !یاربّ !پکارنے لگتے لیکن امن پانے کے بعد پھر اسی شرک کی طرف لوٹ جاتے ۔ان کی ا س حماقت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ جب کافرلوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں اور سفر کے دوران انہیں ہوا مخالف سمت چلنے کی وجہ سے ڈوبنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اس وقت وہ اپنے شرک اور عناد کے باوجود بتوں کو نہیں پکارتے بلکہ اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور اس وقت ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اس مصیبت سے صرف اللہ تعالیٰ ہی نجات دے گا ،پھر جب اللہ تعالیٰ انہیں ڈوبنے سے بچا کر خشکی کی طرف لاتا ہے اور ڈوب جانے کا اندیشہ اور پریشانی جاتی رہتی ہے اور انہیں اطمینان حاصل ہوجاتا ہے تواس وقت دوبارہ شرک کرنے لگ جاتے ہیں اور نتیجے کے طور پر وہ شرک کی صورت میں ہماری دی ہوئی نجات والی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں تو عنقریب وہ اپنے کردار کا نتیجہ جان لیں گے۔( خازن،العنکبوت،تحت الآیۃ:۶۵-۶۶،۳ / ۴۵۶، روح البیان،العنکبوت،تحت الآیۃ:۶۵-۶۶،۶ / ۴۹۳-۴۹۴، ملتقطاً)
مصیبت کے وقت مخلص مومن اور کافر کا حال:
یاد رہے کہ مخلص ایمان والوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اخلاص کے ساتھ شکر گزار رہتےہیں اور جب کوئی پریشان ُکن صورتِ حال پیش آتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے رہائی دیتا ہے تو وہ اس کی اطاعت میں اور زیادہ سرگرم ہو جاتے ہیں ، مگر کافروں کا حال اس کے بالکل برخلاف ہے۔ لیکن افسوس! فی زمانہ مسلمانوں کاحال بھی کافروں کے پیچھے پیچھے ہی چل رہا ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ اللہ کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور بڑی عاجزی اور گریہ و زاری کے ساتھ اس کی بارگاہ میں ا س مصیبت سے نجات کی دعائیں کرتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ وہ مصیبت ان سے دور کر دیتا ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والی اپنی پرانی رَوِش پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے ،اٰمین۔
{اَوَ لَمْ یَرَوْا: اور کیا انہوں نے نہ دیکھا۔} ارشاد فرمایا کہ کیا مکہ والوں نے یہ نہ دیکھا کہ ہم نے ان کے شہر مکہ مکرمہ کی حرمت والی زمین،ا ن کے لئے امن و امان والی بنائی کہ اس سرزمین میں رہنے والے امن و امان سے رہتے ہیں جبکہ اُن کے آس پاس کے لوگ قتل بھی کئے جاتے اور گرفتاربھی ہوجاتے ہیں ، اِس امن و سکون کی نعمت پر توا نہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ بتوں پر یقین رکھتے ہیں اورنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اور اسلام سے کفر کر کے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۸۹۹)
{وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔} ارشاد فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے اور اس کے لئے شریک ٹھہرائے یا جب اس کے پاس حق آئے تو وہ اس کو جھٹلادے اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت اور قرآن کو نہ مانے؟ بے شک ایسے ظالموں اور حق کے منکروں کا ٹھکانا جہنم ہی ہے ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۸۹۹)
اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی مختلف صورتیں :
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی بہت سی صورتیں ہیں ،ان میں سے پانچ صورتیں درج ذیل ہیں :
(1)… کافر کا بت پرستی کرکے یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی کا حکم دیا ہے۔
(2)… نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنااور کہنا کہ مجھے خدا نے نبی بنایا ہے۔
(3)… کتابُ اللہ میں اپنی طرف سے خَلْط مَلْط کردینا اور کہہ دینا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔
(4)… نبی کا انکار کرنا اور کہنا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے نبی نہیں بنایا۔
(5)…جھوٹا مسئلہ بیان کرکے کہنا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے وغیر ہ وغیرہ سب اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہر جھوٹ برا ہے لیکن اگر جھوٹ کی نسبت کسی بڑی ہستی کی طرف کی جائے تو بڑا گناہ ہے، لہٰذا جھوٹی حدیث گھڑ کر یہ کہہ دینا کہ حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہے، سخت جرم ہے۔
{وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا: اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے۔} اس آیت کے معنی بہت وسیع ہیں ، اس لئے مفسرین نے مختلف انداز میں اسے تعبیر کیا ہے ۔ یہاں چار اَقوال بیان کئے جاتے ہیں :
(1)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،اس کے معنی یہ ہیں کہ جنہوں نے ہماری اطاعت کرنے میں کوشش کی ہم ضرور انہیں اپنے ثواب کے راستے دکھا دیں گے ۔
(2)…حضرت جنید رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ توبہ کرنے میں کوشش کریں گے، ہم ضرور انہیں اخلاص کے راستے دکھا دیں گے۔
(3)… حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ علم حاصل کرنے میں کوشش کریں گے ،ہم ضرور انہیں عمل کی راہیں دکھا دیں گے۔
(4)… حضرت سہل بن عبد اللہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس کے معنی یہ ہیں کہ جو سنت کو قائم کرنے میں کوشش کریں گے ہم انہیں جنت کے راستے دکھادیں گے۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۸۹۹، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۴۵۷، ملتقطاً)
یہ آیت ِکریمہ شریعت و طریقت کی جامع ہے یعنی جو توبہ میں کوشش کریں گے انہیں اِخلاص کی، جو طلب ِعلم میں کوشاں ہوں گے انہیں عمل کی، جو اِتِّباعِ سنت میں کوشش کریں گے انہیں جنت کی راہ دکھا دیں گے ۔ حق تعالیٰ تک پہنچنے کے اتنے راستے ہیں جتنے تمام مخلوق کے سانس ہیں ۔
{وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ: اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کے ساتھ ہے کہ دنیا میں ان کی مدد و نصرت فرماتا ہے اور آخرت میں انہیں مغفرت اور ثواب سے سرفراز فرمائے گا۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۹۰۰)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan