READ

Surah Al-'Ankabut

اَلْعَنْـكَبُوْت
69 Ayaat    مکیۃ


29:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

29:1
الٓمّٓۚ(۱)
الم

{الٓمّٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں  سے ایک حرف ہے اور اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{اَحَسِبَ النَّاسُ: کیا لوگوں  نے سمجھ رکھا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ کیا لوگوں  نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں  صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں  ہم ’’ایمان لائے‘‘ اور انہیں  شدید تکالیف ،مختلف اَقسام کے مَصائب ،عبادات کے ذوق، شہوات کو ترک کرنے اور جان و مال میں  طرح طرح کی مشکلات سے آزمایا نہیں  جائے گا؟انہیں  ضرور آزمایا جائے گا تاکہ اُن کے ایمان کی حقیقت خوب ظاہر ہوجائے اور مخلص مومن اور منافق میں  امتیاز ظاہر ہوجائے۔

            اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  مختلف اَقوال ہیں ،ان میں  سے تین قول درج ذیل ہیں،

(1)…یہ آیت اُن حضرات کے بارے میں  نازل ہوئی جو اسلام کا اقرار کرنے کے باوجود مکہ مکرمہ میں  تھے ،صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اُنہیں  لکھاکہ جب تک ہجرت نہ کر لو اس وقت تک محض اقرار کافی نہیں  ،اس پر اُن صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی اور مدینہ منورہ جانے کے ارادے سے روانہ ہوئے، مشرکین اُن کے پیچھے لگ گئے اور اُن سے لڑائی کی ،ان میں  سے بعض حضرات شہید ہوگئے اوربعض بچ کر مدینہ منورہ آئے، اُن کے حق میں  یہ دو آیتیں  نازل ہوئیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ ان لوگوں  سے مراد سلمہ بن ہشام ، عیاش بن ابی ربیعہ ، ولید بن ولید اور عمار بن یاسر وغیرہ ہیں  جو مکہ مکرمہ میں  ایمان لائے۔

(2)…یہ آیتیں  حضرت عمار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں  نازل ہوئیں  جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی وجہ سے ستائے جاتے تھے اور کفار انہیں  سخت ایذائیں  پہنچاتے تھے۔

(3)…یہ آیتیں  حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام حضرت مہجع بن عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں  نازل ہوئیں ،یہ بدر میں  سب سے پہلے شہید ہوئے اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے بارے میں  ارشاد فرمایا کہ ’’مہجع شہدا ء کے سردار ہیں  اور اس اُمت میں  سے جنت کے دروازے کی طرف پہلے وہ پکارے جائیں  گے۔‘‘ ان کے والدین اور اُن کی بیوی کو ان کی شہادت کا بہت صدمہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ،پھران کی تسلی فرمائی۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲، ص۸۸۴، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۴۴۴-۴۴۵، ملتقطاً)

 ہرمسلمان کواس کی ایمانی قوت کے حساب سے آزمایا جاتا ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں  کاان کی ایمانی قوت کے مطابق امتحان لینا ، اللہ تعالیٰ کاقانون ہے ۔ بیماری، ناداری، غربت، مصیبت، یہ سب رب تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشیں  ہیں  جن سے مخلص اور منافق ممتاز ہو جاتے ہیں ۔یہاں  آزمائشوں  سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بڑا ثواب ،بڑی مصیبت کے ساتھ ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت فرماتا ہے تو انہیں  آزمائش میں  مبتلا کرتاہے، پس جو ا س پر راضی ہوا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور جو ناراض ہوا اس کے لئے ناراضگی ہے۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلائ، ۴ / ۱۷۸، الحدیث: ۲۴۰۴)

(2)…حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ،میں  نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں  میں  سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، پھر درجہ بدرجہ مُقَرَّب بندوں  کی،آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر دین میں  مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے اور اگر دین میں  کمزور ہو تو اس کے دین کے حساب سے آزمائش کی جاتی ہے۔بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں  ہمیشہ رہتی ہیں  یہاں  تک کہ وہ زمین پر ا س طرح چلتا ہے کہ ا س پر کوئی گناہ نہیں  ہوتا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۶)

             اللہ تعالیٰ ہمیں  آزمائشوں  پر صبر کرنے اور اپنی رضاپر راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

29:2
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(۲)
کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے، اور ان کی آزمائش نہ ہوگی (ف۲)

29:3
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ(۳)
اور بیشک ہم نے ان سے اگلوں کو جانچا (ف۳) تو ضرور اللہ سچوں کو دیکھے گا اور ضرور جھوٹوں کو دیکھے گا (ف۴)

{وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: اور بیشک ہم نے ان سے پہلے لوگوں  کو آزمایا۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے اس امت سے پہلے لوگوں  کوطرح طرح کی آزمائشوں  میں  ڈالا لیکن وہ صدق و وفا کے مقام میں  ثابت اور قائم رہے ،تو ضرور ضرور اللہ تعالیٰ انہیں  دیکھے گا جو اپنے ایمان میں  سچے ہیں  اور ضرور ضرور ایمان میں  جھوٹوں  کو بھی دیکھے گا اور ان میں  سے ہر ایک کا حال ظاہر فرما دے گا۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳، ص۸۸۴-۴۸۵)

مصیبتوں  پر صبر کرنے کی ترغیب:

            اس سے معلوم ہوا کہ تمام امتوں  میں  کئی حکمتوں  اور مَصلحتوں  کے پیش ِنظر اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ جاری رہا ہے کہ وہ ایمان والوں  کو آزمائشوں  میں  مبتلا فرماتا ہے ،لہٰذا اس کے برخلاف ہونے کی توقّع رکھناجائز نہیں  اوریاد رہے کہ اس امت سے پہلے لوگوں  پر انتہائی سخت آزمائشیں  اور مصیبتیں  آئی ہیں ،لیکن پہلے لوگوں  نے ان مصیبتوں  ا ور آزمائشوں  پر صبر کیا اور اپنے دین پر اِستقامت کے ساتھ قائم رہے،یونہی ہم پر بھی آزمائشیں  اور مصیبتیں آئیں  گی تو ہمیں  بھی چاہئے کہ سابقہ لوگو ں  کی طرح صبر و ہمت سے کام لیں  اور اپنے دین کے احکامات پر مضبوطی سے عمل کرتے رہیں ۔اسی سے متعلق ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْؕ-مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ‘‘(بقرہ:۲۱۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ جنت میں  داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر پہلے لوگوں  جیسی حالت نہ  آئی۔ انہیں  سختی اور شدت پہنچی اور انہیں  زور سے ہلا ڈالا گیایہاں  تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہہ اُٹھے:   اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن لو! بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔

اور ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ  كَاَیِّنْ  مِّنْ  نَّبِیٍّ  قٰتَلَۙ-مَعَهٗ  رِبِّیُّوْنَ  كَثِیْرٌۚ-فَمَا  وَ  هَنُوْا  لِمَاۤ  اَصَابَهُمْ  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  وَ  مَا  ضَعُفُوْا  وَ  مَا  اسْتَكَانُوْاؕ-وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الصّٰبِرِیْنَ‘‘

(اٰل عمران:۱۴۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا، ان  کے ساتھ بہت سے اللہ والے تھے تو انہوں  نے اللہ کی راہ میں  پہنچنے والی تکلیفوں  کی وجہ سے نہ تو ہمت ہاری اور نہ کمزوری  دِکھائی اور نہ (دوسروں  سے) دبے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

            اورصحیح بخاری شریف میں  ہے،حضرت خباب بن الارت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کعبہ شریف کے سائے میں  اپنی چادرسے تکیہ لگائے تشریف فرماتھے کہ ہم نے حاضر ِخدمت ہوکرعرض کی، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، (ہم پرمصائب کی حد ہوگئی) ،آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے مدد کیوں  طلب نہیں  فرماتے اور اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے کیوں  دعانہیں  فرماتے؟ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(یہ مصیبتیں  صرف تم ہی برداشت نہیں  کررہے ہو بلکہ) تم سے پہلے لوگوں  میں  سے کسی شخص کے لیے گڑھاکھودا جاتا، پھراس گڑھے میں  اسے کمرتک گاڑدیتے ،پھرآری لاکراس کے سرپرچلائی جاتی اورکاٹ کراس کے دوحصے کردئیے جاتے، بعض پرلوہے کی کنگھیاں  چلائی جاتیں  جن سے ان کے گوشت اورہڈیوں  کواکھیڑکررکھ دیا جاتا، اس کے باوجودوہ مومن اپنے دین پرثابت قدم رہے، اللہ تعالیٰ کی قسم !یہ دین مکمل ہو کر رہے گا،یہاں  تک کہ اگر کوئی سوار صنعا سے حَضْرمَوت تک سفرکرے گاتواسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کاخوف نہ ہوگا اور نہ اپنی بکریوں  پر بھیڑیے کا خوف ہو گا،لیکن تم جلد بازی سے کام لیتے ہو۔( بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوّۃ فی الاسلام، ۲ / ۵۰۳، الحدیث: ۳۶۱۲)

             اللہ تعالیٰ ہمیں  عافیت عطا فرمائے اور اگر مَصائب و آلام آئیں  تو ان پر صبر کرنے اور دین ِاسلام کے احکامات پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے،اٰمین۔

29:4
اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَاؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ(۴)
یا یہ سمجھے ہوئے ہیں وہ جو برے کام کرتے ہیں (ف۵) کہ ہم سے کہیں نکل جائیں گے (ف۶) کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں،

{اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا: یابرے اعمال کرنے والوں  نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم سے کہیں  نکل جائیں  گے؟} ارشاد فرمایا :جو لوگ شرک اور گناہوں  میں  مبتلا ہیں  کیا انہوں  نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ ہم سے بچ کر کہیں  نکل جائیں  گے اور ہم انہیں  ان کے اعمال کی سز انہ دے سکیں  گے،ایساہر گز نہ ہو گا اوروہ یہ سمجھ کر کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں ۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴، ۶ / ۴۴۷)

29:5
مَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍؕ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۵)
جسے اللہ سے ملنے کی امید ہو (ف۷) تو بیشک اللہ کی میعاد ضرور آنے والی ہے (ف۸) اور وہی سنتا جانتا ہے (ف۹)

{مَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ: جو اللہ کی ملاقات کی امید رکھتا ہو۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جو شخص دوبارہ زندہ کئے جانے اور حساب لئے جانے سے ڈرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ثواب ملنے کی امید رکھتا ہے تو وہ سن لے کہ اللہ تعالیٰ نے ثواب اور عذاب کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا ہونے والا ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ اس کے لئے تیار رہے اور نیک اعمال کرنے میں  جلدی کرے اور اللہ تعالیٰ ہی بندوں  کے اقوال کو سننے والا اور ان کے افعال کو جاننے والا ہے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۴۴۵)

29:6
وَ مَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا یُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(۶)
اور جو اللہ کی راہ میں کوشش کرے (ف۱۰) تو اپنے ہی بھلے کو کوشش کرتا ہے (ف۱۱) بیشک اللہ بے پرواہ ہے سارے جہان سے (ف۱۲)

{وَ مَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا یُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ: اور جو کوشش کرے تو اپنے ہی فائدے کیلئے کوشش کرتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے دشمنوں  سے جنگ کر کے یا نفس و شیطان کی مخالفت کر کے یا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے پر صابر اور قائم رہ کراس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے کے لئے کوشش کرتا ہے کیونکہ اس کا نفع اور ثواب اسے ہی ملے گا،بے شک اللہ تعالیٰ انسانوں  ،جنوں  اور فرشتوں  کے اعمال اور عبادات سے بے پرواہ ہے اور اس کا بندوں  کو کوئی حکم دینا اور کسی چیز سے منع فرمانا محض ان پر رحمت و کرم فرمانے کے لئے ہے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۴۵، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶، ص۳۳۵، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶، ص۸۸۵، ملتقطاً)

29:7
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۷)
اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ہم ضرور ان کی برائیاں اتار دیں گے (ف۱۳) اور ضرور انہیں اس کام پر بدلہ دیں گے جو ان کے سب کاموں میں اچھا تھا (ف۱۴)

{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور جو لوگ ایمان لائے اورانہوں  نے اچھے کام کئے۔} اس سے پہلی آیت میں  اِجمالی طور پر بیان کیا گیا کہ جو نیک عمل کرے تو اس کافائدہ اسے ہی ہو گا اور اب یہاں  سے نیک اعمال کرنے کا ایک فائدہ بیان کیا جارہا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اورانہوں  نے اچھے کام کئے توہم ضرور نیکیوں  کے سبب ان سے ان کی برائیاں  مٹا دیں  گے اور ضرور انہیں  ان کے نیک اعمال کا بدلہ دیں  گے۔( تفسیرکبیر، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۷، ۹ / ۲۹، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۷، ص۳۳۵، ملتقطاً)

29:8
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًاؕ-وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَاؕ-اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۸)
اور ہم نے آدمی کو تاکید کی اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کی (ف۱۵) اور اگر تو وہ تجھ سے کوشش کریں کہ تو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو تُو ان کا کہا نہ مان (ف۱۶) میری ہی طرف تمہارا پھرنا ہے تو میں بتادوں گا تمہیں جو تم کرتے تھے (ف۱۷)

{وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا: اور ہم نے انسان کو اپنے ماں  باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کی۔} شانِ نزول : یہ آیت اور سورۂ لقمان کی آیت نمبر14 اور سورۂ اَحقاف کی آیت نمبر15 حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں  اور دوسری روایت کے مطابق حضرت سعد بن مالک زہری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں  نازل ہوئیں  ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی ماں  حمنہ بنت ِابی سفیان بن امیہ بن عبد ِشمس تھی اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سابقین اَوّلین صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں  سے تھے اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔ جب آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسلام قبول کیا تو آپ کی والدہ نے کہا : تو نے یہ کیا نیا کام کیا! خدا کی قسم اگر تو اس سے باز نہ آیا تو نہ میں  کچھ کھاؤں  گی نہ پیوں  گی یہاں  تک کہ مرجاؤں  اوریوں  ہمیشہ کے لئے تیری بدنامی ہو اور تجھے ماں  کا قاتل کہا جائے۔ پھر اس بڑھیا نے فاقہ کیا اور ایک دن رات نہ کھایا، نہ پیا اور نہ سائے میں  بیٹھی، اس سے کمزورہوگئی۔ پھر ایک رات دن اور اسی طرح رہی، تب حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اُس کے پاس آئے اور آپ نے اُس سے فرمایا کہ اے ماں! اگر تیری 100جانیں  ہوں  اور ایک ایک کرکے سب ہی نکل جائیں  تو بھی میں  اپنا دین چھوڑ نے والا نہیں ، تو چاہے کھا ،چاہے مت کھا ۔جب وہ حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف سے مایوس ہوگئی کہ یہ اپنا دین چھوڑنے والے نہیں  تو کھانے پینے لگی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حکم دیا کہ والدین کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے اور اگر وہ کفر و شرک کا حکم دیں  تو نہ مانا جائے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۴۴۶)

کافر والدین کے حقوق سے متعلق 2شرعی احکام:

            اس سے معلوم ہوا کہ بندے کو ماں  باپ کا مادری پدری حق ضرور ادا کرنا چاہئے اگرچہ وہ کافر ہوں ۔اسی مناسبت سے یہاں  کافر والدین کے حقوق سے متعلق 2شرعی احکام ملاحظہ ہوں۔

(1)…کافر والدین کا نفقہ بھی مسلمان اولاد پر لازم ہے۔

(2)…اگر کافر ماں  باپ بت خانے وغیرہ سے گھر تک چھوڑنے کا کہیں  تو انہیں  گھر تک چھوڑے اور اگر وہ گھر سے بت خانے وغیرہ تک چھوڑنے کا کہیں  تو انہیں  نہیں  چھوڑ سکتا کیونکہ گھر تک چھوڑنا گنا ہ نہیں  اور بت خانے چھوڑنا گناہ ہے۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۴۵۰)

 شرعی احکام کے مقابلے میں  کسی کی اطاعت نہیں  کی جائے گی:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شرعی احکام کے مقابلے میں  کسی رشتہ دار کا کوئی حق نہیں  ، لہٰذا اولاد پر لازم ہے کہ شریعت کی طرف سے اجازت کے بغیر صرف ماں  باپ کے کہنے پر شرعی احکام مثلاً روزہ وغیرہ رکھنا نہ چھوڑے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اطاعت ِوالدین جائزباتوں  میں  فرض ہے اگرچہ وہ خود مُرتکِبِ کبیرہ ہوں ، ان کے کبیرہ کاوبال ان پر ہے مگراس کے سبب یہ اُمورِ جائزہ میں  ان کی اطاعت سے باہرنہیں  ہوسکتا، ہاں  اگروہ کسی ناجائز بات کاحکم کریں  تو اس میں  ان کی اطاعت جائزنہیں،  لَاطَاعَۃَ لِاَحَدٍ فِیْ مَعْصِیَۃِاللہ تَعَالٰی ( اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں  کسی بھی شخص کی اطاعت نہیں  کی جائے گی۔)( مسند امام احمد، مسند البصریین، بقیۃ حدیث الحکم بن عمرو الغفاری رضی اللّٰہ عنہ، ۷ / ۳۶۳، الحدیث: ۲۰۶۷۹)

            ماں  باپ اگرگناہ کرتے ہوں  ان سے بہ نرمی وادب گزارش کرے، اگرمان لیں  بہتر ورنہ سختی نہیں  کرسکتا بلکہ ان کے لئے دعا کرے، اوران کا یہ جاہلانہ جواب دینا کہ یہ توضرور کروں  گا یا توبہ سے انکارکرنا دوسراسخت کبیرہ ہے مگر مُطْلَقاً کفرنہیں  جب تک کہ حرامِ قطعی کوحلال جاننا یاحکمِ شرع کی توہین کے طور پرنہ ہو، اس سے بھی جائز باتوں  میں  ان کی اطاعت کی جائے گی ہاں  اگر مَعَاذَ اللہ یہ انکاربروجہ ِکفر ہو تووہ مُرتَد ہوجائیں  گے، اورمرتد کے لئے مسلمان پرکوئی حق نہیں ۔( فتاویٰ رضویہ، ۲۵ / ۲۰۴-۲۰۵)

            شرعی احکام کے مقابلے میں  ماں  باپ کی اطاعت کے حوالے سے شرعی حکم اوپر بیان ہوا اور ان کے علاوہ دیگر افراد جیسے سیٹھ،افسر،حاکم وغیرہ سے متعلق بھی یہی حکم ہے کہ ان میں سے جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا کہے تو اس کی بات ہر گز نہیں  مانی جائے گی ،یہاں  اسی سے متعلق تین اَحادیث ملاحظہ ہوں ۔

(1)… حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پسندیدہ اور ناپسندیدہ تمام اُمور میں  ہرمسلمان آدمی پر(امیر کی) بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا اس وقت تک ضرور ی ہے جب تک وہ گناہ کا حکم نہ دے اور اگر وہ گناہ کا حکم دے تو نہ اس کی سنی جائے اور نہ اطاعت کی جائے۔( بخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام ما لم تکن معصیۃ، ۴ / ۴۵۵، الحدیث: ۷۱۴۴)

(2)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’گناہ کے کاموں  میں  کسی کا حکم نہیں  ماناجاتا بلکہ اطاعت تو نیک کاموں  میں  ہے۔( بخاری، کتاب اخبار الآحاد، باب ما جاء فی اجازۃ خبر الواحد الصدوق۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۹۲، الحدیث: ۷۲۵۷)

(3)…حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خالق کی نافرمانی میں  مخلوق کی اطاعت نہیں ۔( معجم الکبیر، عمران بن حصین یکنی ابا نجید۔۔۔ الخ، ہشام بن حسان عن الحسن عن عمران، ۱۸ / ۱۷۰، الحدیث: ۳۸۱)

            افسوس! فی زمانہ اس حوالے سے مسلمانوں  کی صورت ِحال انتہائی نازک ہے اوردُنْیَوی مَنفعت کے حصول اور دنیا کے نقصان سے بچنے کی خاطر اپنے سیٹھ،افسر،حاکم اور دیگر لوگوں  کی وہ باتیں  بے دھڑک مانتے چلے جاتے ہیں  جن میں  اللہ تعالیٰ اور ا س کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کا حکم دیاگیا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں  عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرنے میں  مخلوق کی اطاعت کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

{وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ: اور اگر وہ تجھ سے کوشش کریں  کہ توکسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں ۔} اس کا معنی یہ ہے کہ حقیقت میں  اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں  ہے ا س لئے علم اور تحقیق کی بنا پر تو کوئی بھی کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک مان ہی نہیں  سکتا کیونکہ اس کا شریک ہونامحال ہے اور جہاں  تک علم کے بغیر محض کسی کے کہنے سے اللہ تعالیٰ کا شریک ماننے کا معاملہ ہے تو جس چیز کا علم نہ ہو اسے کسی کے کہنے سے مان لینا تقلید ہے اور توحید کے قطعی دلائل ہوتے ہوئے محض تقلید سے کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک مان لینا انتہائی مذموم اور قبیح ہے، لہٰذا اس میں  کسی کی بھی بات نہیں  مانی جائے گی حتّٰی کہ والدین کی بھی ا س معاملے میں  ہر گز اطاعت نہیں  کی جائے گی۔

29:9
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ(۹)
اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ضرور ہم انہیں نیکوں میں شامل کریں گے (ف۱۸)

{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے۔} ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں  نے نیک کام کئے تو ہم انہیں  نیک بندوں  کے زُمرہ میں  داخل کریں  گے اور ان کا حشر نیک بندوں  کے ساتھ فرمائیں  گے ۔یہاں صالحین سے مراد اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اوراولیاء ِعظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ ہیں ۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۴۵۲)

قیامت کے دن نیک بندوں  کے ساتھ حشر:

            اس سے معلوم ہواکہ جوشخص یہ چاہتا ہے کہ قیامت کے دن ا س کا حشر اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں  کے ساتھ ہو اوراس دن اسے نیک بندوں  کی مَعِیَّت نصیب ہو تواسے چاہئے کہ پہلے توحید و رسالت پر ایمان لائے اور پھرنیک اعمال کرے ،اگر ا س نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے قیامت کے دن نیک بندوں  کے گروہ میں  داخل فرما دے گا اور ان کے ساتھ ہی ا س کا حشر فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

29:10
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوْذِیَ فِی اللّٰهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِؕ-وَ لَىٕنْ جَآءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْؕ-اَوَ لَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ(۱۰)
اور بعض آدمی کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے پھر جب اللہ کی راہ میں انہیں کوئی تکلیف دی جاتی ہے (ف۱۹) تو لوگوں کے فتنہ کو اللہ کے عذاب کے برابر سمجھتے ہیں (ف۲۰) اور اگر تمہارے رب کے پاس سے مدد آئے (ف۲۱) تو ضرور کہیں گے ہم تو تمہارے ہی ساتھ تھے (ف۲۲) کیا اللہ خوب نہیں جانتا جو کچھ جہاں بھر کے دلوں میں ہے (ف۲۳)

{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ: اورلوگوں  میں  کچھ وہ ہیں  جو کہتے ہیں  ہم اللہ پر ایمان لائے۔} اس سے پہلی آیات میں  مخلص ایمان والوں  اور کھلے کافروں  کا ذکر ہوا اور ان کے احوال بیان کئے گئے اور اب یہاں  سے ان لوگوں  کا حال بیان کیا جا رہاہے جو نہ مخلص ایمان والے ہیں  اور نہ کھلے کافر بلکہ منافق ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایاکہ لوگوں  میں  کچھ وہ ہیں  جو کہتے ہیں :ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے، پھر جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں  دین کی وجہ سے انہیں  کوئی تکلیف پہنچتی ہے جیسے کفار کا ستانا تو وہ لوگوں  کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّت کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے برابر سمجھتے ہیں  اور جیسا اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے تھا ایسا مخلوق کی ایذا سے ڈرتے ہیں ، حتّٰی کہ اس کی وجہ سے ایمان ترک کر دیتے اور کفر اختیار کر لیتے ہیں  اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس سے کوئی مدد آجائے مثلاً مسلمانوں  کو فتح نصیب ہو یا انہیں  دولت ملے تو وہ لوگ ضرور کہیں  گے: ہم یقینا ایمان اور اسلام میں  تمہارے ساتھ تھے اور تمہاری طرح دین پر ثابت و قائم تھے تو ہمیں  بھی اس میں  شریک کرو ۔کیا اللہ تعالیٰ اسے خوب نہیں  جانتا جو کفر یا ایمان تمام جہان والوں  کے دلوں  میں  ہے؟کیوں  نہیں  ! اللہ تعالیٰ کو لوگوں  کے دلوں  میں  موجود کفر اور ایمان اچھی طرح معلوم ہے اور وہ ان منافقوں  کے نفاق کو بھی جانتا ہے ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۴۴۶، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۸۸۶، ملتقطاً)

29:11
وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ(۱۱)
اور ضرور اللہ ظاہر کردے گا ایمان والوں کو (ف۲۴) اور ضرور ظاہر کردے گا منافقوں کو (ف۲۵)

{وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اور ضرور اللہ ایمان والوں  کوظاہر کردے گا۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان لوگوں کو ظاہر کر دے گاجو صدق اور اخلاص کے ساتھ ایمان لائے اور آزمائش و مصیبت میں  اپنے ایمان اور اسلام پر ثابت و قائم رہے اور ان لوگوں  کو بھی ظاہر کر دے گا جو منافق ہیں  اور انہوں  نے مصیبت کی وجہ سے اسلام ترک کر دیااور دونوں  فریقوں  کو ان کے اعمال کی جزا دے گا ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۴۴۶، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۳۳۵، ملتقطاً)

مَصائب و آلام میں  ایمان پر ثابت قدم رہنے کی ترغیب:

            اس آیت میں  ہر مسلمان کے لئے یہ تنبیہ ہے کہ وہ دین کی وجہ سے آنے والی اَذِیَّتوں  اور تکلیفوں  پر صبر کرے اور مصائب و آلام کی وجہ سے سرمایۂ آخرت یعنی ایمان کو ہر گز ضائع نہ کر دے بلکہ اپنے ایمان اور اسلام پر ثابت قدم رہے اور اپنی ا س قیمتی ترین دولت کی بھر پور حفاظت کرے۔ایسی حالت میں  ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ کائنات کے سردار، دو عالَم کے تاجدار ،حبیب ِپروردگار عَزَّوَجَلَّو صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو راہِ خدا میں  آنے والی تکلیفوں  اور اِن پراُن عظیم ہستیوں کے صبر کرنے کو یاد کرے تاکہ دل کو تسلی ہو،تکلیفوں  پر صبر کرنا آسان ہو اور ایما ن و اسلام پر ثابت قدمی نصیب ہو۔ترغیب کے لئے یہاں  حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے مخلص اور جانثار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کوراہِ خدا میں  آنے والی تکالیف کی جھلک اور ان کے صبر کا حال ملاحظہ ہو، چنانچہ سیرت کی کتابوں  میں  مذکور ہے کہ کفارِ مکہ خاندانِ بنو ہاشم کے انتقام اور لڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوقتل تونہیں  کرسکے لیکن طرح طرح کی تکلیفوں  اور ایذا رَسانیوں  سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑنے لگے، چنانچہ یہ لوگ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کاہن، جادوگر، شاعر اور مجنون ہونے کا ہر کوچہ و بازار میں  زور دار پروپیگنڈہ کرنے لگے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے شریر لڑکوں  کا غول لگا دیاجو راستوں  میں  آپ پر پھبتیاں  کستے، گالیاں  دیتے اور یہ دیوانہ ہے، یہ دیوانہ ہے ،کا شور مچا مچا کر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوپر پتھر پھینکتے۔ کبھی کفارِ مکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے راستوں  میں  کانٹے بچھاتے۔ کبھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک جسم پر نجاست ڈال دیتے۔ کبھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دھکا دیتے۔ کبھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مقدس اور نازک گردن میں  چادر کا پھندہ ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے۔ جب حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قرآن شریف کی تلاوت فرماتے تو یہ کفار قرآن اور قرآن کو لانے والے یعنی حضر ت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اور قرآن کو نازل فرمانے والے یعنی اللہ تعالیٰ کو اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو گالیاں  دیتے اور گلی کوچوں  میں  پہرہ بٹھا دیتے تا کہ قرآن کی آواز کسی کے کان میں  نہ پڑنے پائے اور تالیاں  پِیٹ پِیٹ کر اور سیٹیاں  بجا بجا کر اس قدر شوروغُل مچاتے کہ قرآن کی آواز کسی کو سنائی نہیں  دیتی تھی۔ حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب کہیں  کسی عام مجمع میں  یا کفار کے میلوں  میں  قرآن پڑھ کر سناتے یا دعوت ِایمان کا وعظ فرماتے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چچاابولہب آپ کے پیچھے چِلا چِلاکر کہتا جاتا تھا کہ اے لوگو!یہ میرا بھتیجا جھوٹا ہے،یہ دیوانہ ہو گیا ہے،تم لوگ اس کی کوئی بات نہ سنو، (مَعَاذَ اللہ)۔ ایک مرتبہ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ’’ذو المجاز‘‘ کے بازار میں  دعوتِ اسلام کا وعظ فرمانے کے لئے تشریف لے گئے اور لوگوں  کو کلمۂ حق کی دعوت دی تو ابو جہل آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُھول اڑاتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ اے لوگو!اس کے فریب میں  مت آنا،یہ چاہتا ہے کہ تم لوگ لات و عُزّیٰ کی عبادت چھوڑ دو۔

            حضور رحمت ِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں  پر بھی کفارِ مکہ نے ایسے ایسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے کہ مکہ کی زمین بِلبِلا اُٹھی۔ یہ آسان تھا کہ کفارِ مکہ ان مسلمانوں  کو ایک د م قتل کر ڈالتے مگر اس سے ان کافروں  کے جوشِ انتقام کا نشہ نہیں  اتر سکتا تھا کیونکہ کفار اس بات میں  اپنی شان سمجھتے تھے کہ ان مسلمانوں  کو اتنا ستاؤ کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر پھر شرک و بت پرستی کرنے لگیں ، اس لئے قتل کر دینے کی بجائے کفارِ مکہ مسلمانوں  کو طرح طرح کی سزاؤں  اور ایذا رَسانیوں  کے ساتھ ستاتے تھے اورکفارِ مکہ نے ان غریب مسلمانوں  پر بے پناہ مَظالِم ڈھائے اور ایسے ایسے روح فَرسا اور جاں  سوز عذابوں  میں  مبتلا کیا کہ اگر ان مخلص مسلمانوں  کی جگہ پہاڑ بھی ہوتا تو شاید ڈگمگانے لگتا۔ صحرائے عرب کی تیز دھوپ میں  جب کہ وہاں  کی ریت کے ذرات تنور کی طرح گرم ہو جاتے، اس وقت ان مسلمانوں  کی پشت کو کوڑوں  کی مار سے زخمی کرکے اس جلتی ہوئی ریت پر پیٹھ کے بل لٹاتے اور سینوں  پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیتے کہ وہ کروٹ نہ بدلنے پائیں ، لوہے کو آگ میں  گرم کرکے ان سے ان مسلمانوں  کے جسموں  کو داغتے، پانی میں  اس قدرڈبکیاں  دیتے کہ ان کا دم گھٹنے لگتا ،چٹائیوں  میں  ان مسلمانوں  کو لپیٹ کر ان کی ناکوں  میں  دھواں  دیتے جس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا اور وہ کَرب و بے چینی سے بدحواس ہو جاتے۔الغرض سنگدل،بے رحم اور درندہ صفت کافروں  نے ان غریب و بیکس مسلمانوں  پر جبرو اِکراہ اور ظلم و ستم کی کوئی صورت باقی نہیں  چھوڑی مگر ایک بھی مخلص مسلمان کے پائے اِستقامت میں  ذرہ برابر تَزَلْزُل پیدا نہیں  ہوا ۔

             اللہ تعالیٰ ہمیں  آزمائشوں  اور مصیبتوں  پر صبر کرنے اور اپنے دین پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

 

29:12
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَ لْنَحْمِلْ خَطٰیٰكُمْؕ-وَ مَا هُمْ بِحٰمِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰهُمْ مِّنْ شَیْءٍؕ-اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(۱۲)
اور کافر مسلمانوں سے بولے ہماری راہ پر چلو اور ہم تمہارے گناہ اٹھالیں گے (ف۲۶) حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ نہ اٹھائیں گے، بیشک وہ جھوٹے ہیں،

{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا: اور کافروں  نے مسلمانوں  سے کہا۔} کفارِ مکہ نے قبیلہ قریش میں  سے ایمان لانے والوں  سے کہا تھا کہ تم ہمارا اور ہمارے باپ دادا کا دین اختیار کرو، تمہیں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مصیبت پہنچے گی اس کے ہم ذمہ دار ہیں  اور تمہارے گناہ ہماری گردن پر یعنی اگر ہمارے طریقہ پر رہنے سے اللہ تعالیٰ نے تمہاری گرفت فرمائی اور عذاب کیا تو تمہارا عذاب ہم اپنے اوپر لے لیں  گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کی انتہائی نفیس تردید فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ وقت آنے پر وہ لوگ ان کے گناہوں  میں  سے کچھ بوجھ بھی نہ اٹھائیں  گے، بیشک وہ اپنی بات میں  جھوٹے ہیں ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۴۴۶)

29:13
وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ٘-وَ لَیُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠(۱۳)
اور بیشک ضرور اپنے (ف۲۷) بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ (ف۲۸) اور ضرور قیامت کے دن پوچھے جائیں گے جو کچھ بہتان اٹھاتے تھے (ف۲۹)

{وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ: اور بیشک ضرور اپنے بوجھ اُٹھائیں  گے۔} ارشاد فرمایاکہ مسلمانوں  سے ان کے گناہوں  کا بوجھ اٹھانے کا کہنے والے کفار کا اپنا یہ حال ہو گا کہ وہ قیامت کے دن اپنے گناہوں  اور کفر وگمراہی کابوجھ اٹھائیں  گے اور اس کے ساتھ ساتھ جن لوگوں  کوانہوں  نے گمراہ کیاتھاان کے گناہوں  کابوجھ بھی یہی لوگ اٹھائیں  گے اورقیامت کے دن ضروران سے ان کے بہتانوں  کے بارے میں  پوچھا جائے گا کہ انہوں  نے یہ بہتان کیوں  تراشے اور کس دلیل کی وجہ سے انہوں نے  بہتان لگائے ۔یاد رہے کہ کافروں  کے اعمال اور بہتان سب اللہ تعالیٰ جانتا ہے،اس کے باوجود کافروں  سے جو سوال ہو گاوہ معلومات حاصل کرنے کے لئے نہ ہو گا بلکہ انہیں  ڈانٹ ڈپٹ کرنے کیلئے ہو گا۔

دوسروں  کو گمراہ اور گناہوں  میں  مبتلا کرنے کا انجام:

            اس آیت سے معلو م ہوا کہ جو خود گمراہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دوسروں  کو بھی گمراہی کی طرف بلاتا ہو تواسے اپنی گمراہی کا گناہ اور اس کی سزا تو ملے گی البتہ اس کے ساتھ ان لوگوں  کی گمراہی کا گناہ اور سزا بھی اسے ملے گی جنہیں  اس نے گمراہ کیا تھا اور گمراہ ہونے والوں  کے اپنے گناہ میں  بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔حضرت جریر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جو کوئی اسلام میں  اچھا طریقہ جاری کرے اس کو اس کا ثواب ملے گا اوراس کابھی جواس کے بعد اس پر عمل کریں  گے او ران عمل کرنے والوں  کے اپنے ثواب میں  بھی کمی نہ ہوگی اور جو شخص اسلام میں  براطریقہ جاری کرے اس پر اس کا گناہ ہوگا اوران کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں  اور ان عمل کرنے والوں کے اپنے گناہ میں  بھی کچھ کمی نہ آئے گی ۔(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ ولو بشقّ تمرۃ۔۔۔ الخ، ص۵۰۸، الحدیث: ۶۹(۱۰۱۷))

            اس سے ان لوگوں  کو عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی بڑی ضرورت ہے جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں  کو بھی گناہوں  میں  مبتلا ہونے کے مَواقع فراہم کرتے اور انہیں  طرح طرح کے دُنْیَوی مَنافع اور فوائد بتا کر گناہوں  کی ترغیب دیتے ہیں  اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔

29:14
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًاؕ-فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ(۱۴)
اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ہزار برس رہا (ف۳۰) تو انہیں طوفان نے ا ٓ لیا اور وہ ظالم تھے (ف۳۱)

{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ: اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔} یہاں  سے اللہ  تعالیٰ نے چند انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے ہیں  اور ان سے مقصودحضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان تکلیفوں  اور اَذِیَّتوں  پر تسلی دینا ہے جو کفارِ مکہ کی طرف سے آپ کو پہنچا کرتی تھیں ،اس سلسلے میں  سب سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرمایا گیا،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک ہم نے آپ سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں  پچاس سال کم ایک ہزار (یعنی 950) سال رہے، اس پوری مدت میں  انہوں  نے قوم کو توحید اور ایمان کی دعوت دینے کا عمل جاری رکھا اور ان کی طرف سے پہنچنے والی سختیوں  اور ایذاؤں  پر صبر کیا،جب وہ قوم اپنی حرکتوں  سے باز نہ آئی اور مسلسل تکذیب کرتی رہی تو اس قوم کو طوفان کے عذاب نے پکڑ لیا اور وہ غرق کر دئیے گئے اور وہ شرک کر کے اپنی جانوں  پر ظلم کرنے والے تھے ۔لہٰذاا ے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کچھ غم نہ کریں  اور ا س بات کو سامنے رکھیں  کہ حضرت نوح نے 950برس تک تبلیغ فرمائی، لیکن اس طویل مدت میں  ان کی قوم کے بہت کم لوگ ایمان لائے جبکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی کم مدت کی دعوت سے لوگوں  کی ایک کثیر تعداد ایمان سے مشرف ہو چکی ہے۔(البحر المحیط، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۴، ۷ / ۱۴۰، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۴۴۷، ملتقطاً)

29:15
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَصْحٰبَ السَّفِیْنَةِ وَ جَعَلْنٰهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۵)
تو ہم نے اسے (ف۳۲) اور کشتی والوں کو (ف۳۳) بچالیا اور اس کشتی کو سارے جہاں کے لیے نشانی کیا (ف۳۴)

{فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَصْحٰبَ السَّفِیْنَةِ: تو ہم نے نوح اور کشتی والوں  کوبچالیا۔} ارشاد فرمایاکہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر طوفان کا عذاب آیا تو ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان لوگوں  کو ڈوبنے سے بچا لیا جو کشتی میں  آپ کے ساتھ سوار تھے اور اس کشتی کو ہم نے سارے جہاں  کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والی نشانی بنادیا تاکہ اس سے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر اِستدلال کرسکیں ۔کہا گیا ہے کہ یہ کشتی طویل عرصے تک جودی پہاڑ پر باقی رہی۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۴۵۶، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۴۷، ملتقطاً)

29:16
وَ اِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۶)
اور ابراہیم کو (ف۳۵) جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ کو پوجو اور اس سے ڈرو، اس میں تمہارا بھلا ہے اگر تم جانتے،

{وَ اِبْرٰهِیْمَ: اور ابراہیم کو۔} یہاں  سے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینے کے لئے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یاد کریں  جنہیں  ہم نے آپ سے پہلے رسول بنا کر بھیجا تھا،جب انہوں  نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے کے معاملے میں  اس سے ڈرو، اگر تم اچھے اور برے میں  تمیز کرنا جانتے ہو تو سن لو!یہ عبادت اور ڈرنا تمہارے لئے اس کفر سے بہتر ہے جسے تم اختیار کئے ہوئے ہو اور اپنے گمان میں  اسے صحیح سمجھ رہے ہو۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶ / ۴۵۷)

29:17
اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوْنَ اِفْكًاؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْهُ وَ اشْكُرُوْا لَهٗؕ-اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۱۷)
تم تو اللہ کے سوا بتوں کو پوجتے ہو اور نرا جھوٹ گڑ ھتے ہو (ف۳۶) بے شک وه جنھیں تم اللہ کے سوا پو جتے ہو تمہاری روزی کے کچھ مالک نہیں تو اللہ کے پاس رزق ڈھونڈو (ف۳۷) اور اس کی بندگی کرو اور اس کا احسان مانو، تمہیں اسی کی طرف پھرنا ہے (ف۲۸)

{اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا: تم تو اللہ کے سوا بتوں  کو پوجتے ہو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا ’’تم تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے بتوں  کو پوجتے ہو اور بتوں  کو اللہ تعالیٰ کا شریک کہہ کر نِرا جھوٹ گھڑتے ہو۔بے شک تم اللہ تعالیٰ کی بجائے جن کی عبادت کرتے ہو وہ تمہیں  رزق دینے کی کچھ بھی قدرت نہیں  رکھتے تو تم اللہ تعالیٰ سے اپنا رزق طلب کرو کیونکہ وہی رزق دینے والا اور ہر ایک تک اس کی روزی پہنچانے کی قدرت رکھنے والا ہے اور صرف اسی کی عبادت کرو کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی معبود ہونے کا مستحق نہیں  اور اس کے شکرگزار بنو کیونکہ وہی تمہیں  رزق عطا فرما کر تم پر احسان فرماتا ہے، اور یاد رکھو کہ آخرت میں  اسی کی طرف تم دوبارہ زندہ کر کے لوٹائے جاؤ گے ،ا س لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی نعمتوں  پر اس کا شکر ادا کر کے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تیار ی کرو اور اگر تم مجھے جھٹلاؤگے اور میری بات نہ مانو گے تو اس سے میرا کوئی نقصان نہیں  ، میں  نے راہ دکھا دی اورمعجزات پیش کر دیئے جس سے میرا فرض ادا ہو گیا ، اس پر بھی اگر تم نہ مانو تو تم سے پہلے کتنے ہی گروہ اپنے اَنبیاء اور رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلا چکے ہیں  جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور عاد و ثمود وغیرہ، ان کے جھٹلانے کا انجام یہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں  ہلاک کر دیا اور اگر تم بھی اُسی رَوِش پر قائم رہے تو تمہارا انجام بھی اُنہی جیساہو گا۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۳ / ۴۴۷-۴۴۸، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ص۸۸۸، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۶ / ۴۵۷، ملتقطاً)

29:18
وَ اِنْ تُكَذِّبُوْا فَقَدْ كَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْؕ-وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(۱۸)
اور اگر تم جھٹلاؤ (ف۳۹) تو تم سے پہلے کتنے ہی گروہ جھٹلا چکے ہیں (ف۴۰) اور رسول کے ذمہ نہیں مگر صاف پہنچا دینا،

29:19
اَوَ لَمْ یَرَوْا كَیْفَ یُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗؕ-اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ(۱۹)
اور کیا انہوں نے نہ دیکھا اللہ کیونکر خلق کی ابتداء فرماتا ہے (ف۴۱) پھر اسے دوبارہ بنائے گا (ف۴۲) بیشک یہ اللہ کو آسان ہے (ف۴۳)

{اَوَ لَمْ یَرَوْا: اور کیا انہوں  نے نہیں  دیکھا۔} ممکن ہے کہ اس آیت سے لے کر آیت نمبر23تک کا کلام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے بارے میں  ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کرنے کے دوران ان آیات میں  کفارِ مکہ کو نصیحت کی گئی اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہو۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا ان کافروں  نے نہیں  دیکھا کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرنے کی ابتداء کیسے کرتا ہے کہ پہلے انسان کو نطفہ بناتا ہے،پھر جمے ہوئے خون کی صورت دیتا ہے،پھر گوشت کا ٹکڑا بناتا ہے اس طرح درجہ بدرجہ اس کی تخلیق کو مکمل کرتا ہے، پھر آخرت میں  دوبارہ زندہ کئے جانے کے وقت اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ بنائے گابیشک پہلی بار پیدا کرنا اور مرنے کے بعد پھر دوبارہ بنانا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۴۴۸)

29:20
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰهُ یُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌۚ(۲۰)
تم فرماؤ زمین میں سفر کرکے دیکھو (ف۴۴) اللہ کیونکر پہلے بناتا ہے (ف۴۵) پھر اللہ دوسری اٹھان اٹھاتا ہے (ف۴۶) بیشک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے،

{قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ: تم فرماؤ :زمین میں  چل کر دیکھو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یا اے حضرت ابراہیم! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ کافروں  سے فرما دیں  :تم زمین میں  چل کر سابقہ قوموں  کے شہروں  اور آثار کو دیکھوکہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو پہلے کیسے بناتا،پھر موت دیتا ہے تاکہ تم مشاہدہ کر کے اللہ تعالیٰ کی فطرت کے عجائبات کی معرفت حاصل کر سکو نیزجب یہ معلوم ہے کہ پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا تو معلوم ہو گیا کہ اس خالق کا مخلوق کو موت دینے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا کچھ بھی دشوار نہیں  کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے تو وہ پہلی بار پیدا کرنے اور دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۸۸۹، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۴۴۸، ملتقطاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کیلئے ا س کی قدرت کے نظاروں  جیسے دریاؤں ، پہاڑوں  اور زمین کے دیگر عجائبات کی سیر کرنا بھی عبادت ہے۔
29:21
یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَرْحَمُ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ اِلَیْهِ تُقْلَبُوْنَ(۲۱)
عذاب دیتا ہے جسے چاہے (ف۴۷) اور رحم فرماتا ہے جس پر چاہے (ف۴۸) اور تمہیں اسی کی طرف پھرنا ہے،

{یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ: وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ اپنے عدل کی وجہ سے جسے چاہے عذاب دیتا ہے اوراپنے فضل کی بناء پرجسے چاہتاہے بخش دیتا ہے اور اے لوگو!تم قیامت کے دن اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں  تمہارے اعمال کے حساب سے سزا یا جزا جو چاہے دے گا۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۴۴۸، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۱، ۶ / ۴۵۹، ملتقطاً)

{وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ: اور نہ تم زمین میں  (ہمیں ) عاجز کرنے والے ہو۔} اس کاایک معنی یہ ہے کہ اے کافرو! نہ تم زمین میں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو عاجز کرنے والے ہو اور نہ آسمان میں ،الغرض اس سے بچنے اور بھاگنے کی کہیں  کوئی جگہ نہیں ۔دوسرا معنی یہ ہے کہ نہ زمین والے اللہ تعالیٰ کے حکم اورقضا سے کہیں  بھاگ سکتے ہیں  اور نہ آسمان والے ایسا کر سکتے ہیں ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۸۸۹، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۴۴۸، ملتقطاً)

{وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ: اور تمہارے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی کام بنانے والاہے اور نہ مددگار۔} اس آیت اور اس جیسی دیگر آیتوں  میں  خطاب کفار سے ہوتا ہے کہ اے کافرو!تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی کام بنانے والا ہے اور نہ کوئی مددگار جو تمہیں  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکے یاایسی آیات میں  یہ مراد ہوتا ہے کہ اے لوگو! تمہارا کوئی ایسا حمایتی یا مدد گار نہیں  جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں  تمہاری حمایت اور مدد کر سکے۔ ایمان والوں  کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سے مددگار ہیں  جو اللہ تعالیٰ کی اجازت اور عطا سے ان کی مدد اور شفاعت فرماتے ہیں ۔

 

29:22
وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ٘-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ۠(۲۲)
اور نہ تم زمین میں (ف۴۹) قابو سے نکل سکو اور نہ آسمان میں(ف۵۰) اور تمہارے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی کام بنانے والا اور نہ مددگار،

29:23
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ لِقَآىٕهٖۤ اُولٰٓىٕكَ یَىٕسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۲۳)
اور وہ جنہوں نے میری آیتوں اور میرے ملنے کو نہ مانا (ف۵۱) وہ ہیں جنہیں میری رحمت کی آس نہیں اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے (ف۵۲)

{وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ لِقَآىٕهٖ: اور وہ جنہوں  نے اللہ کی آیتوں  کا اور اس سے ملنے کا انکار کیا۔} یعنی جو لوگ قرآنِ مجید اور قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے پر ایمان نہ لائے وہ وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہیں  اور وہ اپنے کسی نیک عمل کی جزاء و ثواب کے قائل نہیں  کیونکہ جب وہ قیامت اور جنت کے ہی منکر ہیں  تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور جزاء کے قائل کیسے ہوسکتے ہیں  ایسے لوگوں  کے لیے جہنم کا دردناک عذاب ہے ۔

29:24
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۲۴)
تو اس کی قوم کو کچھ جواب بن نہ آیا مگر یہ بولے انہیں قتل کردو یا جلادو (ف۵۳) تو اللہ نے اسے (ف۵۴) آگ سے بچالیا (ف۵۵) بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے (ف۵۶)

{فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا: تو ابراہیم کی قوم کا کوئی جواب نہ تھا مگر یہ کہ انہوں  نے کہا۔} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دی ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر دلائل قائم کئے اور نصیحتیں  فرمائیں  تو ا س کے جواب میں  ان لوگوں  نے کہا:انہیں  قتل کردو یا جلادو۔یہ انہوں  نے آپس میں  ایک دوسرے سے کہا یا سرداروں  نے اپنی پیروی کرنے والوں  سے کہا، بہرحال کچھ کہنے والے تھے اورکچھ اس پر راضی ہونے والے اس لئے وہ سب کہنے والوں  کے حکم میں  ہیں  ۔ان سب نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جلانے پر اتفاق کر لیا اور جب انہوں  نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آ گ میں  ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے اس آ گ کو ٹھنڈا کر کے اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے سلامتی والی بنا کر انہیں  بچا لیا۔بیشک جو اللہ تعالیٰ نے کیا اس میں  ایمان والوں  کیلئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پر دلالت کرنے والی ضرور عجیب عجیب نشانیاں  ہیں ، جیسے آ گ کا اس کثرت کے باوجود اثر نہ کرنا اور سرد ہو جانا اوراس جگہ گلشن پیدا ہو جانا اور یہ سب پَل بھر سے بھی کم وقفے میں  ہونا وغیرہ۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۸۸۹، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۳۳۷، ملتقطاً)

29:25
وَ قَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًاۙ-مَّوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّ یَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا٘-وَّ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَۗۙ(۲۵)
اور ابراہیم نے (ف۵۷) فرمایا تم نے تو اللہ کے سوا یہ بت بنالیے ہیں جن سے تمہاری دوستی یہی دنیا کی زندگی تک ہے (ف۵۸) پھر قیامت کے دن تم میں ایک دوسرے کے ساتھ کفر کرے گا اور ایک دوسرے پر لعنت ڈالے گا (ف۵۹) اور تم سب کا ٹھکانا جہنم ہے (ف۶۰) اور تمہارا کوئی مددگار نہیں (ف۶۱)

{وَ قَالَ: اور ابراہیم نے فرمایا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سلامتی کے ساتھ آگ سے باہر تشریف لے آئے تو آپ نے کفار سے فرمایا کہ ’’تم نے (کسی دلیل کے بغیر صرف) بتوں  سے دوستی کی وجہ سے انہیں  اپنا معبود تو بنا لیا لیکن یاد رکھو تمہاری یہ محض نام کی ظاہری دوستی بھی صرف دنیا کی زندگی تک رہے گی، پھر قیامت کے دن تمہارا حال یہ ہو گا کہ تم اپنے معبودوں  کا انکار کر دو گے اور تمہارے معبود تمہاری عبادت کا انکار کر دیں  گے، تم ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کروگے، بت کہیں  گے کہ تم لوگوں  نے میری عبادت کر کے مجھے جہنم میں ڈلوادیا اور تم کہو گے کہ ہمیں  اپنی عبادت کے ذریعے گمراہ کر کے تم نے ہمیں  عذاب میں  مبتلا کر دیا،تم لعن طعن کے ذریعے ایک دوسرے کو دور کرنے کی کوشش کرو گے لیکن دور نہ ہو گے بلکہ جس طرح دنیا میں  اکھٹے تھے اسی طرح جہنم میں  بھی اکھٹے کر دئیے جاؤ گے اور جہنم کی آگ تمہاری آگ کی طرح نہیں  جس سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نجات دی اور میری مدد فرمائی بلکہ تم جہنم کی آگ میں  ہی رہو گے اور اس میں  تمہارا کوئی مددگار نہ ہو گا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سلامتی کے ساتھ آگ سے باہر تشریف لے آئے تو آپ نے کفار سے فرمایا: ’’میں  نے تمہارے سامنے تمہارے مذہب کا باطل ہونا بیان کیا اور تم سے اس کا کوئی جواب بھی نہ بن پڑا ،پھر بھی تمہارا بتوں  کی پوجا پر قائم رہنا صرف اندھی تقلید ہے کیونکہ تم آپس میں  ایک دوسرے سے دوستی اور محبت رکھتے ہو اس لئے تم میں  سے کوئی نہیں  چاہتا کہ وہ سیرت اور طریقے میں  اپنے دوست سے جدا ہو یا تمہاری اور تمہارے آباء و اَجدا کے مابین دوستی ہے ، تم ان کے وارث ہوئے ،تم نے ان کے عقیدے کو اختیار کر لیا اور ان کی جہالت و گمراہی کو مضبوطی سے تھام لیا ،لیکن یادرکھوکہ تمہاری یہ دوستی اس فانی دنیاتک ہی محدود رہے گی پھر قیامت کے دن تمہارا حال یہ ہوگا کہ سردار اپنے پیرو کاروں  سے کہیں  گے کہ ہم تمہیں  نہیں  پہچانتے اور پیروکار اپنے سرداروں  پر لعنت کرنے لگیں  گے اور تم سب کا ٹھکانہ جہنم ہو گا اورتمہارا کوئی مددگار نہ ہو گا کہ وہ تمہیں  جہنم سے نکال دے جس طرح مجھے تمہاری بھڑکائی ہوئی آگ سے نکالا گیا۔( تفسیرکبیر، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۵، ۹ / ۴۶، جلالین مع جمل، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۵، ۶ / ۶۸، ملتقطاً)

29:26
فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌۘ-وَ قَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۲۶)
تو لوط اس پر ایمان لایا (ف۶۲) اور ابراہیم نے کہا میں (ف۶۳) اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں (ف۶۴) بیشک وہی عزت و حکمت والا ہے،

{فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ: تو ابراہیم کی تصدیق لوط نے کی۔} جب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آگ سے صحیح سلامت تشریف لائے توآپ کایہ معجزہ دیکھ کرحضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ کی رسالت کی تصدیق کی، آپ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے ہیں ۔ یاد رہے کہ یہاں  ایمان سے رسالت کی تصدیق ہی مراد ہے کیونکہ اصل توحید کا اعتقاد تو اُن کو ہمیشہ سے حاصل ہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمیشہ ہی مومن ہوتے ہیں  اور کسی حال میں  ان سے کفرکا تصور تک نہیں  کیا سکتا۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۴۴۹)

{وَ قَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْ: اور ابراہیم نے فرمایا: میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آگ سے صحیح سلامت تشریف لانے اور اتناعظیم الشّان معجزہ دیکھنے کے باوجو د آپ کی قوم ایمان نہ لائی اورکفروشرک پربضدرہی توآپ نے اس جگہ سے ہجرت کرنے کاارادہ فرمایا۔ چنانچہ آپ نے عراق سے سرزمین ِشام کی طرف ہجرت فرمائی ،اس ہجرت میں  آپ کے ساتھ آپ کی بیوی حضرت سارہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۴۴۹)

آیت ’’وَ قَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

             اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے :

(1)… بوقت ِ حاجت ہجرت کرنا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔

(2)… ایسی جگہ چلا جانا جہاں  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں  کوئی روک ٹوک نہ ہو، دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف جانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جگہ سے پاک ہے تو ا س کے حق میں  یہاں وہاں  سب برابر ہے۔

29:27
وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ وَ اٰتَیْنٰهُ اَجْرَهٗ فِی الدُّنْیَاۚ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۲۷)
اور ہم نے اسے (ف۶۵) اسحاق اور یعقوب عطا فرمائے اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت (ف۶۶) اور کتاب رکھی (ف۶۷) اور ہم نے دنیا میں اس کا ثواب اسے عطا فرمایا (ف۶۸) اور بیشک آخرت میں وہ ہمارے قرب خاص کے سزاواروں میں ہے (ف۶۹)

{وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ: اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا فرمائے۔} یہاں  سے اللہ تعالیٰ نے مزید وہ انعامات بیان فرمائے جو اس نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمائے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جوکہ آپ کے بیٹے ہیں  اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جو کہ آپ کے پوتے ہیں  عطا فرمائے اور ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں  نبوت اور کتاب رکھی کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد جتنے حضرات نبوت کے منصب پر فائز ہوئے سب آپ کی نسل سے ہوئے اور کتاب سے توریت ، انجیل ، زبور اور قرآن شریف مراد ہیں ،مزید ارشاد فرمایا کہ ہم نے دنیا میں  اس کا ثواب اسے عطا فرمایا کہ انہیں  پاکیزہ اولاد عطا فرمائی ، نبوت ان کی نسل میں  رکھی ، کتابیں  اُن ا نبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا کیں  جو اِن کی اولاد میں  ہیں  اور ان کو مخلوق میں  محبوب اور مقبول کیا کہ تمام مِلّتوں  اور دینوں  والے ان سے محبت رکھتے ہیں  اور ان کی طرف نسبت کو فخر جانتے ہیں  اور ان کے لئے دنیا کے اختتام تک درود پڑھا جانا مقرر کر دیا ، یہ تو وہ ہے جو دنیا میں  عطا فرمایااور بیشک وہ آخرت میں  بھی ہمارے خاص قرب کے لائق بندوں  میں  ہوں  گے جن کے درجے بہت بلند ہوں  گے ۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۸۹۰، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۴۴۹، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۳۳۷، ملتقطاً)

29:28
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ٘-مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸)
اور لوط کو نجات دی جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا تم بیشک بے حیائی کا کام کرتے ہو، کہ تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا (ف۷۰)

{وَ لُوْطًا: اور لوط کو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یاد کریں ، جب انہوں  نے اپنی قوم کو ملامت کرتے ہوئے فرمایا: بیشک تم بے حیائی کا وہ کام کرتے ہوجو تم سے پہلے دنیا بھر میں  کسی نے نہ کیا ۔کیا تم مردوں  سے بدفعلی کرتے ہو اورراہ گیروں  کو قتل کر کے اور ان کے مال لوٹ کر لوگوں  کاراستہ کاٹتے ہو اور اپنی مجلسوں  میں  برے کام اور بری باتیں  کرنے کو آتے ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ لوگ مسافروں  کے ساتھ بد فعلی کرتے تھے حتّٰی کہ لوگوں  نے اس طرف گزرنا مَوقوف کر دیا تھا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ بد فعلی کے علاوہ ایسے ذلیل افعال اور حرکات کے عادی تھے جو عقلی اور عُرفی دونوں  طرح سے قبیح اور ممنوع تھے ، جیسے گالی دینا ، فحش بکنا ، تالی اور سیٹی بجانا ، ایک دوسرے کوکنکریاں  مارنا ، راستہ چلنے والوں  پر کنکری وغیرہ پھینکنا ، شرا ب پینا ، مذاق اڑانا، گندی باتیں  کرنا اورایک دوسرے پر تھوکنا وغیرہ۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس پر انہیں  ملامت کی تو ان کی قوم نے مذاق اڑانے کے طور پر یہ کہا : اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ یہ افعال قبیح ہیں  اور ایسا کرنے والے پر عذاب نازل ہو گاتوہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آؤ۔(مدارک،العنکبوت،تحت الآیۃ: ۲۸-۲۹، ص۸۹۱، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۸-۲۹، ۳ / ۴۴۹-۴۵۰، ملتقطاً)

{ قَالَ: عرض کی۔} جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس قوم کے راہِ راست پر آنے کی کچھ امید نہ رہی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کیـ:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، عذاب نازل ہونے کے بارے میں  میری بات پوری کر کے ان فسادی لوگوں  کے مقابلے میں  میری مدد فرما۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرما لی۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۴۵۰، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۳۳۷، ملتقطاً)

29:29
اَىٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ﳔ وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَؕ-فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۲۹)
کیا تم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور راہ مارتے ہو (ف۷۱) اور اپنی مجلس میں بری بات کرتے ہو (ف۷۲) تو اس کی قوم کا کچھ جواب نہ ہوا مگر یہ کہ بولے ہم پر اللہ کا عذاب لاؤ اگر تم سچے ہو (ف۷۳)

29:30
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ۠(۳۰)
عرض کی، اے میرے رب! میری مدد کر (ف۷۴) ان فسادی لوگوں پر (ف۷۵)

29:31
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰىۙ-قَالُوْۤا اِنَّا مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِۚ-اِنَّ اَهْلَهَا كَانُوْا ظٰلِمِیْنَۚۖ(۳۱)
اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس مژدہ لے کر آئے (ف۷۶) بولے ہم ضرور اس شہر والوں کو ہلاک کریں گے (ف۷۷) بیشک اس کے بسنے والے ستمگاروں ہیں،

{وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا: اور جب ہمارے فرشتے آئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خوشخبری لے کر آئے تو انہوں  نے کہا: ہم ضرورحضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس شہر والوں  کو ہلاک کرنے والے ہیں ۔ بیشک اس شہر والے کفر اور طرح طرح کے گناہ کر کے اپنی جانوں  پر ظلم کرنے والے ہیں ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:اس میں  تو حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی موجود ہیں  جو کہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کے مُقَرَّب بندے ہیں ، پھر تم اس شہر والوں  کو کیسے ہلاک کرو گے ۔فرشتوں  نے کہا: جو کوئی اس شہر میں  ہے وہ ہمیں  خوب معلوم ہے اور ہم حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حال سے غافل نہیں  ،ہم ضرور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے گھر والوں  کو نجات دیں  گے البتہ ان کی بیوی کو نجات نہیں  دیں  گے کیونکہ وہ عذاب میں  مبتلا ہو جانے والوں  میں  سے ہے۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۲، ص۸۹۱، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۲، ۶ / ۴۶۶، ملتقطاً)

             یہاں  فرشتوں  نے نجات دینے کی نسبت اپنی طرف کی ،اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض کام اس کے خاص بندوں  کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں  کیونکہ نجات دینا در حقیقت اللہ تعالیٰ کا کام ہے مگر فرشتوں  نے کہا ہم نجات دیں  گے،لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں  کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دوزخ سے نجات دیتے ہیں ۔ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنت دیتے ہیں  اورحضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مشکل کشائی کرتے ہیں ۔

29:32
قَالَ اِنَّ فِیْهَا لُوْطًاؕ-قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْهَا ﱞ لَنُنَجِّیَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ﱪ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(۳۲)
کہا (ف۷۸) اس میں تو لوط ہے (ف۷۹) فرشتے بولے ہمیں خوب معلوم ہے جو کوئی اس میں ہے، ضرور ہم اسے (ف۸۰) اور اس کے گھر والوں کو نجات دیں گے مگر اس کی عورت کو، وہ رہ جانے والوں میں ہے (ف۸۱)

29:33
وَ لَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالُوْا لَا تَخَفْ وَ لَا تَحْزَنْ- اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَ اَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(۳۳)
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس (ف۸۲) آئے ان کا آنا اسے ناگوار ہوا اور ان کے سبب دل تنگ ہوا (ف۸۳) اور انہوں نے کہا نہ ڈریے (ف۸۴) اور نہ غم کیجئے (ف۸۵) بیشک ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو نجات دیں گے مگر آپ کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہے،

{وَ لَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا: اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ملاقات کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فرشتے خوب صورت مہمانوں  کی شکل میں  حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آئے توانہیں  قوم کے افعال و حرکات اور ان کی نالائقی کا خیال کر کے فرشتوں  کا آنا برا لگا اور ان کی حفاظت کی کوئی تدبیر نہ کر سکنے کے سبب غمزدہ ہوئے، اس وقت فرشتوں  نے ظاہر کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں  اورانہوں  نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تسلی دیتے ہوئے کہا: آپ قوم سے نہ ڈریں  اور نہ ہمارے بارے میں  یہ سوچ کر غمگین ہوں  کہ قوم کے لوگ ہمارے ساتھ کوئی بے ادبی یا گستاخی کریں  گے ، ہم فرشتے ہیں  اور ہم ان لوگوں  کو ہلاک کردیں  گے اور بیشک ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں  کو نازل ہونے والے عذاب سے بچانے والے ہیں  البتہ آپ کی بیوی کو نہیں  بچائیں  گے کیونکہ وہ بھی عذاب میں  مبتلا ہونے والوں  میں  سے ہے اور اسے بھی بقیہ لوگوں  کے ساتھ عذاب دیاجائے گا۔بیشک ہم اِس شہر والوں  پر آسمان سے عذاب اتارنے والے ہیں  کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے تھے اور اسی پر قائم تھے ۔چنانچہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے اہلِ خانہ میں  سے ان پر ایمان لانے والوں  اور دیگر مومنوں  کو بچا لیا گیا اور باقی لوگوں  کو انتہائی دردناک عذاب سے ہلاک کر دیا گیا۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۳ / ۴۵۰، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۶ / ۴۶۶-۴۶۷، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ص۳۳۷-۳۳۸، ملتقطاً)

آیت ’’وَ لَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:

            اس آیت سے تین باتیں  معلوم ہوئیں  ،

(1)… مہمان کی حفاظت اور توقیر میزبان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

(2)… کبھی نبی عَلَیْہِ السَّلَام فرشتے کو نہیں  بھی پہچانتے ،البتہ یاد رہے کہ جب وحی نازل ہونے کے وقت فرشتہ حاضر ہوتا ہے تو اس وقت نبی عَلَیْہِ السَّلَام فرشتے کو ضرور پہچانتے ہیں  ،اگر اس وقت بھی نہ پہچانیں  تو وحی قطعی نہ رہے گی۔

(3)… اللہ تعالیٰ کے مُقَرَّب بندے اللہ تعالیٰ کی عطا سے بندوں  کو آنے والی مصیبتوں  سے بچانے کی قدرت رکھتے ہیں  اور بچاتے بھی ہیں ۔

29:34
اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰۤى اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ(۳۴)
بیشک ہم اس شہر والوں پر آسمان سے عذاب اتارنے والے ہیں بدلہ ان کی نافرمانیوں کا،

29:35
وَ لَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَاۤ اٰیَةًۢ بَیِّنَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۳۵)
اور بیشک ہم نے اس سے روشن نشانی باقی رکھی عقل والوں کے لیے (ف۸۶)

{وَ لَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَاۤ اٰیَةًۢ بَیِّنَةً: اور بیشک ہم نے اس بستی میں  روشن نشانی کو باقی رکھا۔} بیشک ہم نے اس بستی میں  ان لوگوں  کے لیے روشن نشانی کو باقی رکھا جو اپنی عقل غورو فکر کرنے میں  استعمال کرتے ہیں  ۔اس نشانی کے بارے میں  حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  :وہ روشن نشانی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے ویران مکان ہیں ۔ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اس قوم کا عجیب و غریب واقعہ ہے اور ایک قول یہ ہے کہ روشن نشانی سے مراد وہ پتھر ہیں  جو ان پر برسے تھے اور ان پتھروں  پر ان لوگوں  کے نام لکھے ہوئے تھے،یہ عرصۂ دراز تک باقی رہے اور حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے انہیں  دیکھا تھا۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۵، ۶ / ۴۶۷، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۴۵۰، ملتقطاً)

29:36
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۳۶)
مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا، اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی امید رکھو (ف۸۷) اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو،

{وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا: مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یاد کریں  جنہیں  ہم نے ان کے ہم قوم مَدیَن والوں  کی طرف رسول بناکر بھیجا تو انہوں  نے دین کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: اے میری قوم! صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور قیامت کے دن سے ڈرتے ہوئے ایسے افعال بجا لاؤ جو آخرت میں ثواب ملنے اور عذاب سے نجات حاصل ہونے کا باعث ہوں  اور تم ناپ تول میں  کمی کر کے مدین کی سر زمین میں  فساد پھیلاتے نہ پھرو،تو ان لوگوں  نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور اپنے فساد سے باز نہ آئے تو انہیں  زلزلے کی صورت میں  اللہ تعالیٰ کے عذاب نے آلیا یہاں  تک کہ ان کے گھر ان کے اوپر گر گئے اور صبح تک ان کا حال یہ ہو گیا کہ وہ اپنے گھروں  میں  گھٹنوں  کے بل مردے بے جان پڑے رہ گئے۔( روح البیان،العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۷، ۶ / ۴۶۸، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۷، ص۳۳۸، ملتقطاً)

29:37
فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ٘(۳۷)
تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں زلزلے نے آلیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے (ف۸۸)

29:38
وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَیَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ- وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ كَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَۙ(۳۸)
اور عاد اور ثمود کو ہلاک فرمایا اور تمہیں (ف۸۹) ان کی بستیاں معلوم ہوچکی ہیں (ف۹۰) اور شیطان نے ان کے کوتک (ف۹۱) ان کی نگاہ میں بھلے کر دکھائے اور انہیں راہ سے روکا اور انہیں سوجھتا تھا (ف۹۲)

{وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ: او رعاد اور ثمود کو۔} ارشاد فرمایاکہ ہم نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ثمود کو ہلاک کیا اور اے مکہ والو!ان قوموں  کا ہمارے عذاب سے ہلاک ہونا تمہارے لئے اس وقت ظاہر ہوچکا جب تم اپنے سفر وں  کے دوران حِجر اور یمن میں  موجود ان کی رہائش کے مقامات سے گزرے ہو اور شیطان نے ان قوموں  کے کفر اور گناہ ان کیلئے خوبصورت بنادئیے اور انہیں  اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکا حالانکہ وہ لوگ سمجھدار تھے ، عقل رکھتے تھے اور حق و باطل میں  تمیز کر سکتے تھے لیکن انہوں  نے عقل و انصاف سے کام نہ لیا اور باطل پر ہی قائم رہے۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۸، ۶ / ۴۶۸، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۸۹۲، ملتقطاً)

29:39
وَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ ﱎ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ مَا كَانُوْا سٰبِقِیْنَۚ(۳۹)
اور قارون اور فرعون اور ہامان کو (ف۹۳) اور بیشک ان کے پاس موسیٰ روشن نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے زمین میں تکبر کیا اور وہ ہم سے نکل کر جانے والے نہ تھے (ف۹۴)

{وَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ: اورقارون اور فرعون اور ہامان کو۔} یعنی قارون ، فرعون اور ہامان کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک فرمایااور بیشک ان کے پاس حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روشن نشانیاں  لے کر آئے تو انہوں  نے زمین میں  تکبر کیا اور حق قبول کرنے سے انکار کیا اور وہ ہم سے نکل کر جانے والے نہ تھے کہ ہمارے عذاب سے بچ سکتے بلکہ ہمارے عذاب کا حکم ان تک پہنچ کر رہا اور وہ ہلاک کر دئیے گئے۔(خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۴۵۱، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۹، ۶ / ۴۶۹، ملتقطاً)

آیت ’’وَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے،

(1)…یہاں  اللہ تعالیٰ نے قارون کو جو صرف زکوٰۃ کا انکار کرتا تھا فرعون اورہامان کے ساتھ ذکر فرمایا جو سارے دینی اُمور یعنی توحید و نبوت وغیرہ کا انکار کرتے تھے۔اس سے معلوم ہوا کہ ضروریاتِ دین میں  سے ایک چیز کا انکار کرنے والا ، ویسا ہی کافر ہے جیسے ساری باتوں  کا منکر کافر ہے ۔ اسی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے زکوٰۃ کے منکروں  پر جہادکا حکم دے دیا اور مُسَیْلمَہ کذّاب کی قوم پر جہاد فرمایا کیونکہ وہ مسیلمہ کو نبی مان کر مُرتَد ہو گئے تھے ۔

(2)…یہاں  قارون کا ذکر پہلے اس لئے فرمایا گیا کہ وہ خاندانی شریف تھا۔ اس سے معلو م ہوا کہ اگر ایمان نہ ہو تو نسبی اور خاندانی عزت و شرافت عذاب سے نہیں  بچا سکتی ۔ اس سے کفارِ قریش کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ تم ابراہیمی ہونے پر فخر نہ کروبلکہ ایمان لاؤ ورنہ عذاب کے لئے تیار رہو۔

29:40
فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖۚ-فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًاۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَاۚ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۴۰)
تو ان میں ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ پر پکڑا تو ان میں کسی پر ہم نے پتھراؤ بھیجا (ف۹۵) اور ان میں کسی کو چنگھاڑ نے آلیا (ف۹۶) اور ان میں کسی کو زمین میں دھنسادیا (ف۹۷) اور ان میں کسی کو ڈبو دیا (ف۹۸) اور اللہ کی شان نہ تھی کہ ان پر ظلم کرے (ف۹۹) ہاں وہ خود ہی (ف۱۰۰) اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے،

{فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ: تو ان میں  ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کی وجہ سے پکڑا۔} اس آیت کی ابتدا میں  بیان فرمایا گیا کہ سابقہ قوموں  میں  سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ کی وجہ سے ہی پکڑا ۔اس کے بعد سابقہ قوموں  پر آنے والے مختلف عذابات میں  سے چار عذاب بیان کئے گئے ،

(1)… کسی پر اللہ تعالیٰ نے پتھراؤ بھیجا ۔یہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم تھی جنہیں  چھوٹے چھوٹے پتھروں  سے ہلاک کیا گیا اور یہ پتھر تیز ہوا سے ان پر لگتے تھے ۔

(2)… کسی کو خوفناک آواز نے پکڑلیا ۔یہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ثمود تھی جو ہَولْناک آواز کے عذاب سے ہلاک کی گئی ۔

(3)… کسی کو زمین میں  دھنسادیا۔اس عذاب میں  مبتلا ہونے والے قارون اور ا س کے ساتھی تھے۔

(4)… کسی کو ڈبو دیا ۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ اور فرعون اور ا س کی قوم کے لوگ ا س عذاب کا شکار ہوئے ۔

            آیت کے آخر میں  ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں  کہ وہ ان لوگوں پر ظلم کرے کیونکہ وہ کسی کو گناہ کے بغیر عذاب میں  گرفتار نہیں  کرتا، ہاں  وہ خود ہی نافرمانیاں  کر کے اور کفر و سرکشی کو اختیار کر کے اپنی جانوں  پر ظلم کرتے تھے اور اسی بنا پر وہ طرح طرح کے عذابوں  سے ہلاک کر دئیے گئے ۔(خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۴۵۱، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۸۹۲-۸۹۳، ملتقطاً)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْعَنْـكَبُوْت
اَلْعَنْـكَبُوْت
  00:00



Download

اَلْعَنْـكَبُوْت
اَلْعَنْـكَبُوْت
  00:00



Download